آبِ حیات — قسط نمبر ۱۴ (تبارک الذی)

اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو مٹھیوں کی طرح بھینچ کر کھولا، ایک بار… دو بار… پھر اپنی آنکھوں کو انگلیوں کی پوروں سے مسلا… کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے، اپنی لمبی ٹانگوں کو اسٹڈی ٹیبل کے نیچے رکھے فٹ ہولڈر پر سیدھا کرتے ہوئے وہ جیسے کام کرنے کے لئے ایکبار پھر تازہ دم ہوگیا تھا… پچھلے چار گھٹنے سے مسلسل اس لیپ ٹاپ پر کام کرتے رہنے کے باوجود جو اس وقت بھی اس کے سامنے کھلا ہوا تھا اور جس پر چمکتی گھڑی اس وقت سوئٹزرلینڈ میں رات کے اڑھائی بج جانے کا اعلان کررہی تھی۔ وہ ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کا، کی نوٹ سپیکر تھا جس کی تقریر کل دنیا کے ہر بڑے چینل اور اخبار کی شہ سرخی بننے والی تھی۔ تین بج کر چالیس منٹ پر اس نے بالآخر اپنا کام ختم کیا۔ لیپ ٹاپ کو بند کرکے وہ اٹھ کھڑ اہوا تھا۔ وہ موسم سرما تھا اور ڈیوس میں سورج طلوع ہونے میں ابھی وقت تھا… اتنا وقت کہ وہ چند گھنٹے کے لئے سوجاتا… اور چند گھنٹوں کی نیند اس کے لئے کافی تھی، نماز کے لئے دوبارہ جاگنے سے پہلے…
وہ اس کی زندگی کا معمول تھا اور اتنے سالوں سے تھا کہ اسے معمول سے زیادہ عادت لگنے لگا تھا۔ صوفے کے سامنے موجود سینٹر ٹیبل پر سوئٹزر لینڈ اور امریکہ کے کچھ بین الاقوامی جریدوں کی کاپیز پڑی تھیں اور ان میں سے ایک کے سرورق پر حمین سکندر کی تصویر تھی۔
ینگ گلوبل لیڈرز 500 کی فہرست میں پہلے نمبر پر براجمان، اپنی مخصوص شرارتی مسکراہٹ اور چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ کیمرہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کردیکھتے ہوئے۔
ایک لمحے کے لئے سالار کو ایسا لگا تھا جیسے وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا تھا… اس اعتماد، دلیری اور وقار کے ساتھ جو اس کا خاصہ تھا۔
سالار سکندر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لہرائی، اس نے جھک کر وہ میگزین اٹھایا تھا… وہ ورلڈ اکنامک فورم میں پہلی بار آرہا تھا… اور دنیا کے اس مؤقر فورم کا جیسے نیا پوسٹر بوائے تھا۔ وہاں پڑا کوئی میگزین ایسا نہیں تھا جس میں اس نے حمین سکندر یا اس کی کمپنی کے حوالے سے کچھ نہ پڑھا ہو۔
“Devilishly, Handsome, Dangerously, Meticulous.”
سالار سکندر کے ہونٹوں کی مسکراہٹ گہری ہوئی… وہ ہیڈ لائن حمین سکندر کے بارے میں تھی جس سے اس کی ملاقات کل اسی فورم میں ہونے والی تھی، جہاں اس کا بیٹا بھی خطاب کرنے والا تھا۔ اس نے اس میگزین کو دوبارہ سینٹر ٹیبل پر رکھ دیا۔
اس کے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑا سیل فون کھٹکا، بستر پر بیٹھتے ہوئے سالار نے اسے اٹھا کر دیکھا۔ وہ واقعی شیطان تھا، خیال آنے پر بھی سامنے آجاتا تھا۔
’’جاگ رہے ہیں؟‘‘ وہ حمین سکندر کا ٹیکسٹ تھا، اسے باپ کی روٹین کا پتا تھا۔ وہ خود بھی بے خوابی کا شکار تھا۔
’’یس!‘‘ سالار نے جواباً ٹیکسٹ کیا۔




’’بڑی اچھی فلم آرہی تھی، سوچا آپ کو بتادوں۔‘‘ جواب آیا۔
سالار کو اس سے ایسے ہی کسی جواب کی توقع تھی۔
دوسرا ٹیکسٹ آیا جس میں اس چینل کا نمبر بھی تھا جس پر وہ مووی آرہی تھی، اس کا کاسٹ کے ناموں کے ساتھ جس میں چارلیز تھیرن کا نام جلی حروف میں لکھا ہوا تھا۔ وہ باپ کو تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔ سالار کو اندازہ ہوگیا تھا۔
’’مطلع کرنے کا شکریہ!‘‘
سالار نے زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ اس کے ٹیکسٹ کا جواب دیا۔ اس کی بات کا جواب نہ دینا اس سے زیادہ بہتر تھا۔
’’میں سنجیدگی سے شادی کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔‘‘
اگلا جملہ بے سروپا تھا۔ سالار سکندر گہری سانس لے کر رہ گیا۔ وہ ورلڈ اکنامک فورم کا ینگ سٹار سپیکر تھا جو اپنی تقریر سے ایک رات پہلے باپ سے رات کے اس وقت اس طرح کی بے تکی باتیں کررہا تھا۔
’’واہ! کیا بات ہے اسے بھی TAI میں چلا دو۔‘‘ اس نے اسے جوابی ٹیکسٹ کیا اور پھر گڈ نائٹ کا میسج… کھٹاک سے ایک مسکراہٹ اس کی اسکرین پر ابھری تھی… دانت نکالتے ہوئے۔
’’آئی ایم سیریس…‘‘ سالار فون رکھ دینا چاہتا تھا، لیکن پھر رک گیا۔
’’آپشن چاہیے یا اپروول؟‘‘ اس نے اس بار بے حد سنجیدگی سے اسے ٹیکسٹ کیا۔
’’مشورہ۔‘‘ جواب اسی تیز رفتاری سے آیا۔
’’ٹی وی بند کرکے سوجاؤ۔‘‘ اس نے جواباً اسے ٹیکسٹ کیا۔
’’بابا! میں صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ رئیسہ اور عنایہ کی شادی سے پہلے میرا شادی کرنا مناسب نہیں، خاص طور پر جب جبریل کی شادی کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔‘‘
وہ اس کے اس جملے پر اب کھٹکا تھا… اس کی باتیں اتنی بے سروپا نہیں تھیں جتنا وہ انہیں سمجھ رہا تھا۔ رات کے اس پہر وہ فلم سے اپنی شادی اور اپنی شادی سے عنایہ اور رئیسہ کی شادی کا ذکر لے کر بیٹھا تھا تو کوئی مسئلہ تھا… اور مسئلہ کیا تھا، یہ سالار کو ڈھونڈنا تھا۔
’’تو؟‘ اس نے اگلے ٹیکسٹ میں جیسے کچھ اور اگلوانے کے لئے دانہ ڈالا۔ جواب خاصی دیر بعد آیا… یعنی وہ اب سوچ سوچ کر ٹیکسٹ کررہا تھا۔ وہ دونوں باپ بیٹا جیسے شطرنج کی ایک بساط بچھا کر بیٹھ گئے تھے۔
’’تو بس پھر ہمیں عنایہ اور رئیسہ کے حوالے سے کچھ سوچنا چاہیے۔‘‘ جواب سوچ سمجھ کر آیا تھا، لیکن مبہم تھا۔
’’رئیسہ کے بارے میں یا عنایہ کے بارے میں؟‘‘ سالار نے بڑے کھلے الفاظ میں اس سے پوچھا۔
حمین کو شاید باپ سے اس بے دھڑک سوال کی توقع نہیں تھی، وہ امامہ نہیں تھا جس کو وہ گھما پھرالیتا تھا، وہ سالار سکندر تھا جو اسی ی طرح لمحوں میں بات کی تہہ تک پہنچ جاتا تھا۔
’’رئیسہ کے بارے میں۔‘‘ بالآخر اسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہنا پڑا، سالار کے لئے جواب غیر متوقع نہیں تھا لیکن حیران وہ اس کی ٹائمنگ پر ہوا تھا۔
’’تم خود رئیسہ کے لئے بات کررہے ہو، یا رئیسہ نے تمہیں بات کرنے کے لئے کہا ہے؟‘‘ سالار کا اگلا ٹیکسٹ پہلے سے بھی ڈائریکٹ تھا۔ حمین کا جواب اور بھی دیر سے آیا۔
’’میں خود کررہا ہوں۔‘‘ سالار کو اس کے جواب پر یقین نہیں آیا۔
’’رئیسہ کہیں انوالوڈ ہے؟‘‘ اس نے اگلا ٹیکسٹ کیا… جواب ایک بار پھر دیر سے آیا اور یک دم سالار کو احساس ہوا کہ یہ بات چیت دو افراد کے درمیان نہیں ہورہی تھی… تین لوگوں کے درمیان ہورہی تھی… وہ حمین اور رئیسہ…
وہ تاخیر جو حمین کی طرف سے جواب آنے پر ہورہی تھی، وہ اس لئے ہورہی تھی کیوں کہ وہ سالار کے ساتھ ہونے والے سوال و جواب رئیسہ کو بھی بھیج رہا تھا اور پھر اس کی طرف سے آنے والے جوابات اسے فارورڈ کررہا تھا۔ وہ ان دونوں کی بچپن کی عادت تھی، ایک دوسرے کے لئے ترجمان کا رول ادا کرنا… اور زیادہ تر یہ رول رئیسہ ہی اس کے لئے کیا کرتی تھی۔
’’کوئی اسے پسند کرتا ہے۔‘‘ جواب دیر سے آیا تھا لیکن اس کے ڈائریکٹ سوال کے جواب میں بے حد ڈپلومیٹک انداز میں دیا گیا تھا اور یہ حمین کا انداز نہیں تھا، یہ رئیسہ کا انداز تھا۔
’’کون پسند کرتا ہے…؟ ہشام؟‘‘ سالار نے جواباً بے حد اطمینان سے ٹیکسٹ کیا۔ اسے یقین تھا اس کے اس جوابی سوال نے دونوں بہن بھائی کے پیروں تلے سے کچھ لمحوں کے لئے زمین نکالی ہوگی۔ ان کو یہ اندازہ نہیں ہوسکتا تھا کہ سالار اتنا ’’باخبر‘‘ ہوسکتا ہے۔
حسب توقع ایک لمبے وقفے کے بعد ایک پورا منہ کھولے ہنستی ہوئی اسمائلی آئی تھی۔
’’گڈ شاٹ۔‘‘ یہ حمین کا جواب تھا۔
’’رئیسہ سے کہو آرام سے سوجائے… ہشام کے بارے میں آمنے سامنے بیٹھ کر بات ہوگی… میں اس وقت آرام کرنا چاہتا ہوں اور تم دونوں اب مجھے مزید کوئی ٹیکسٹ نہیں کروگے۔‘‘ سالار نے ایک وائس میسج حمین کو بھیجتے ہوئے فون رکھ دیا۔ وہ جانتا تھا اس کے بعد وہ واقعی بھوتوں کی طرح غائب ہوجائیں گے… خاص طور پر رئیسہ۔
٭…٭…٭
رئیسہ سالار کی زندگی پر اگر کوئی کتاب لکھنے بیٹھتا تو یہ لکھے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کہ وہ خوش قسمت تھی۔ جس کی زندگی میں آتی تھی، اس کی زندگی بدلنا شروع کردیتی تھی۔ وہ جیسے پارس پتھر تھی جو اس سے چھو جاتا… سونا بننے لگتا تھا۔
سالار سکندر کے خاندان کا حصہ بننے کے بعد وہ ان کی زندگی میں بھی بہت ساری تبدیلیاں لے آئی تھی اور اب ہشام سے منسلک ہونے کے بعد اس کی زندگی کے اس خوش قسمتی کے دائرے نے ہشام کو بھی اپنے گھیرے میں لینا شروع کردیا تھا۔
بحرین میں ہونے والے اس طیارے کے حادثے میں امیر سمیت شاہی خاندان کے جو افراد ہلاک ہوئے تھے وہ دراصل بحرین کی بادشاہت کے حق داروں کی ہلاکت تھی۔ پیچھے رہ جانے والا ولی عہد نوجوان، ناتجربہ کار اور عوام سے بہت دور تھا اور اس حلقے میں بے حد ناپسندیدہ تھا جو امیر کا حلقہ تھا۔
ہشام کے باپ صباح بن جراح کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ وہ امیر اور شاہی خاندان کے افراد کی تدفین کی تقریبات میں شرکت کے لئے جب بحرین پہنچے گا تو بادشاہت کا ہما اس کے سر پر آن بیٹھے گا۔ بحرین کی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس میں ولی عہد کو برطرف کرتے ہوئے بادشاہت کے حق داروں کی فہرست میں بہت نیچے کے نمبر پر براجمان صباح کو اکثریتی تائید سے بحرین کا نیا امیر نامزد کردیا گیا تھا۔ اس عہدے پر اسے وقطی طور پر فائز کیا گیا تھا مگر اگلے چند ہفتوں میں کونسل نے اس حوالے سے حتمی فیصلہ بھی کردیا تھا۔ ولی عہد کی نامزدگی کونسل کے اگلے اجلاس تک کے لئے ملتوی کردی گئی تھی۔
یہی وہ خبر تھی جو رئیسہ کو حمین نے سنائی تھی۔ خبر اتنی غیر متوقع اور ناقابل یقین تھی کہ رئیسہ کو بھی یقین نہیں آیا تھا، لیکن جب اسے یقین آیا تو وہ پرجوش ہوگئی۔
’’اور اب بری خبر کیا ہے؟ وہ بھی سنادو۔‘‘ اس نے حمین سے پوچھا تھا۔
’’ہشام اور تمہاری شادی میں اب بہت ساری رکاوٹیں آئیں گی… صرف اس کے خاندان کی طرف سے نہیں پورے شاہی خاندان کی طرف سے…‘‘ حمین نے بنا کسی تمہید کے کہا۔ وہ فکر مند ہونے کے باوجود خاموش ہوگئی تھی۔
ہشام سے اس کی ملاقات امریکہ واپسی کے دوسرے دن ہی ہوگئی تھی۔ وہ ویسا ہی تھا… بے فکر… لاپروا… اپنے باپ کے بدلے جانے والے اسٹیٹس کے بارے میں زیادہ دلچسپی نہ دکھاتا ہوا۔ اس کا خیال تھا اس کے باپ کو ملنے والا وہ عہدہ وقتی تھا۔ چند ہفتوں کے بعد کونسل اس کے باپ کی جگہ شاہی خاندان کے ان افراد میں سے کسی کو اس عہدے پر فائز کرے گی جو جانشینی کی دوڑ میں اس کے باپ سے اوپر کے نمبر پر تھے۔
’’تم نے اپنی فیملی سے بات کی؟‘‘ اس نے چھوٹتے ہی رئیسہ سے وہی سوال کیا تھا جس کے حوالے سے وہ فکر مند تھی۔
’’حمین سے بات ہوئی میری، اور حمین نے پاپا سے بھی بات کی ہے لیکن پاپا کو ہمارے حوالے سے پہلے ہی کچھ اندازہ تھا۔ انہوں نے کہا ہے وہ مجھ سے اس ایشو پر آمنے سامنے بات کریں گے لیکن حمین تم سے ملنا چاہتا ہے۔‘‘
رئیسہ نے اسے بتایا۔ ہشام سے چند بار سرسری انداز میں پہلے بھی مل چکا تھا لیکن یہ پہلی بار تھا کہ حمین نے خاص طور پر اس سے ملنے کی فرمائش کی تھی۔
’’مل لیتا ہوں… میں تو اتنا مصروف نہیں رہتا، وہ رہتا ہے، تم اس سے پوچھ لو کہ کب ملنا چاہے گا۔‘‘ ہشام نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اس سے کہا تھا۔
’’تمہاری فیملی کو میری ایڈاپشن کا پتا ہے؟‘‘ اس بار رئیسہ نے بالآخر اس سے وہ سوال کیا تھا جو بار بار اس کے ذہن میں آرہا تھا۔
’’نہیں… میری کبھی ان سے اس حوالے سے بات نہیں ہوئی… لیکن تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو؟‘‘ ہشام اس کی بات پر چونکا تھا۔




Loading

Read Previous

ورثہ — ارم سرفراز

Read Next

صدقہ — ماہ وش طالب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!