آبِ حیات — قسط نمبر ۱۴ (تبارک الذی)

اس کا دل شادی کی رات اس وقت بھی کھٹا نہیں ہوا تھا جب کمرے میں آنے کے بعد اس کے قریب بیٹھ کر پہلا جملہ احسن سعد نے اپنی نئی نویلی دلہن اور اس کے حسن کے بارے میں نہیں کہا تھا بلکہ اس کی ماں کے حوالے سے کہا تھے۔
’’تمہاری ماں کو شرم نہیں آتی… اس عمر میں فاحشاؤں کی طرح سلیولیس لباس پہن کر مردوں کے ساتھ ٹھٹھے لگاتی پھر رہی تھیں اور اسی طرح تمہاری بہنیں اور تمہارے خاندان کی ساری عورتیں پتا نہیں آج کیا کیا پہن کر شادی میں شرکت کرنے پہنچی ہوئی تھیں۔‘‘ عائشہ کا اندر کا سانس اندر اور باہر کا باہر رہ گیا تھا۔ جو اس نے اپنے کانوں سے سنا تھا اسے اس پر یقین نہیں آیا تھا۔
احسن کا یہ لب و لہجہ اتنا نیا اور اجنبی تھا کہ اسے یقین آبھی نہیں سکتا تھا۔ ان کے درمیان نسبت طے ہونے کے بعد وقتاً فوقتاً بات چیت ہوتی رہی تھی اور وہ ہمیشہ بڑے خوش گوار انداز اور دھیمے لب و لہجے میں بڑی شائستگی اور تمیز کے ساتھ بات کرتا تھا۔ اتنا اکھڑ لہجہ اس نے پہلی بار سنا تھا اور جو لفظ وہ اس کی ماں اور خاندان کی عورتوں کے لئے استعمال کررہا تھا، وہ عائشہ عابدین کے لئے ناقابل یقین تھے۔
’’تمہاری ماں کو کیا آخرت کا خوف نہیں ہے؟ مسلمان گھرانے کی عورت ایسی ہوتی ہے، اور پھر بیوہ ہے وہ۔‘‘ عائشہ آنکھیں پھاڑے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ وہ اسے یہ سب کیوں سنا رہا تھا، اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ ایک دن کی دلہن تھی اور یہ وہ الفاظ نہیں تھے جو وہ سننے کے لئے اپنی زندگی کے ایک اہم دن کے انتظار میں تھی۔
وہ آدھے گھنٹے تک ایسی عورتوں کو لعنت وملامت کرتا رہا تھا اور اسے یہ بھی بتاتا رہا تھا کہ ا س کی فیملی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کی ماں اور بہنیں اتنی آزاد خیال ہوں گی اور امریکہ میں ان کا یہ لائف اسٹائل ہوگا۔ انہوں نے تو اس کے نانا نانی اور خود اسے دیکھ کر یہ رشتہ طے کیا تھا۔ وہ احسن سعد سے یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکی کہ وہ اسے رشتے کے طے ہونے سے پہلے امریکہ میں دو تین بار اس کی ماں، بہنوں سے مل چکا تھا اور نسبت طے ہوتے ہوئے بھی اس کی فیملی، اس کی ماں اور بہنوں سے مل چکی تھی۔ وہ آزاد خیال تھیں تو یہ ان سے چھپا ہوا نہیں تھا جس کا انکشاف اس رات ہونے پر وہ یوں صدمہ زدہ ہوگئے تھے۔
احسن سعد کے پاس مذہب ایسی تلوار تھی جس کے سامنے عائشہ عابدین بولنے کی ہمت نہیں کرسکتی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں یہ مان لیا تھا کہ غلطی اس کی ماں اور بہنوں ہی کی تھی۔ وہ اسلامی لحاظ سے مناسب لباس میں نہیں تھیں۔ احسن اور اس کی فیملی اگر خفا تھی تو شایدیہ جائز ہی تھا۔




اس رات احسن سعد نے اس ابتدائیے کے بعد ایک لمبی تقریر میں اسے بیوی اور ایک عورت کی حیثیت سے اس کا درجہ اور مقام بتا اور سمجھا دیا تھا جو ثانوی تھا۔ وہ سرہلاتی رہی تھی۔ وہ ساری آیات اور احادیث کے حوالے آج کی رات کے لئے ہی جیسے اکٹھا کرتا رہاتھا۔ وہ بے حد خاموشی سے سب کچھ سنتی گئی… وہ وقتی غصہ نہیں تھا، وہ ارادتاً تھا… وہ اسے نفسیاتی طور پر ہلا دینا چاہتا تھا اور وہ اس میں کامیاب رہا تھا۔
اس پُراعتماد لڑکی حیثیت پر یہ پہلی ضرب تھی جو اس نے لگائی تھی۔ اس نے اسے بتایا تھا کہ اس گھر اور اس کی زندگی میں وہ اس کے ماں باپ اور بہنوں کے بعد آتی ہے اور ہاں اس فہرست میں اس نے اللہ کو بھی پہلے نمبرپر رکھا تھا۔ عائشہ عابدین کو اس نے جیسے اس دائرے سے باہر کھڑا کردیا تھا جس کے اندر اس کی اپنی زندگی گھومتی تھی۔ اکیس سال کی ایک نو عمر لڑکی جس طرح ہراساں ہوسکتی تھی وہ ویسے ہی ہراساں اور حواس باختہ تھی۔
احسن سعد نے اس سے کہا تھا اس کے اور عائشہ کے درمیان جو بات چیت ہوگی، عائشہ اسے کسی سے شیئر نہیں کرے گی۔ عائشہ نے اس کی بھی ہامی بھرلی تھی۔ اس کا خیال تھا یہ ایک عام وعدہ ہے جو ہر مرد بیوی سے لیتا ہے، مگر وہ ایک عام وعدہ نہیں تھا۔ احسن سعد نے اس کے بعد اس سے قرآن پاک پر رازداری کا حلف لیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ اس کی بیوی تھی اور شوہر کے طور پر وہ یہ استحقاق رکھتا تھا کہ وہ اس سے جو کہے وہ اس کی اطاعت کرے… اکیس سال کی عمر میں وہ عائشہ عابدین کی زندگی کی سب سے بری رات تھی، لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس کے بعد بری راتوں کی گنتی بھی بھولنے والی تھی۔
اس رات احسن سعد کا غصہ اور رویہ صرف اس کا غصہ اور رویہ نہیں تھا۔ اگلی صبح عائشہ عابدین سے اس کی فیملی بھی اسی انداز میں ملی تھی۔ بے حد سرد مہری بے حد اکھڑا ہوا لہجہ… اس کا احساسِ جرم اور بڑھاتھا اور اس نے دعا کی تھی کہ اس رات ولیمہ کی تقریب میں اس کی ماں اور بہنیں ایسا کوئی لباس نہ پہنیں جس پر اسے ایک اور طوفان کا سامنا کرنا پڑے۔
لیکن شادی کے چند دنوں کے اندر اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کی فیملی کی خفگی کی وجہ ا س کی اپنی فیملی کاآزاد خیال ہونا نہیں تھا، ان کی خفگی کی وجہ ان توقعات کا پورا نہ ہونا تھا جو وہ عائشہ کی فیملی سے لگائے بیٹھے تھے۔ شادی سادگی سے کرنے اور جہیز یا کچھ بھی نہ لانے کا مطلب ’’کچھ بھی‘‘ نہ لانا نہیں تھا۔ ان کو توقع تھی کہ ان کے اکلوتے اور اتنے قابل بیٹے کو عائشہ کی فیملی کوئی بڑی گاڑی ضرور دے گی… عائشہ کے نام کوئی گھر، کوئی پلاٹ، کوئی بینک بیلنس ضرور کیا جائے گا… جیسے ان کے خاندان کی دوسری بہوؤں کے نام تھا… شادی سادگی سے ہونے کا مطلب ان کے نزدیک صرف شادی کی تقریبات کا سادہ ہونا تھا۔ شادی کے تیسرے دن یہ گلے شکوے عائشہ سے کرلئے گئے تھے اور اس کوشش کے ساتھ کہ وہ انہیں اپنی فیملی تک پہنچا دے جو عائشہ نے پہنچا دیئے تھے۔ اب شاکڈ ہونے کی باری اس کی فیملی کی تھی۔
شادی کے تین دن بعد پہلی بارنورین نے اپنی بیٹی کو یہ آپشن دیا تھا کہ وہ ابھی اس رشتے کے بارے میں اچھی طرح سوچ لے۔ جو لوگ تیسرے ہی دن ایسے مطالبے کرسکتے ہیں، وہ آگے چل کر اسے اور بھی پریشان کرسکتے تھے۔ عائشہ ہمت نہیں کرسکتی تھی… اپنی دوستوں اور کزنز کے ٹیکسٹ میسجز اور کالز اور چھیڑ چھاڑ کے دوران وہ یہ نہیں کرسکی تھی کہ وہ ماں سے کہہ دیتی کہ اسے طلاق چاہیے۔ اس نے وہی راستہ چنا تھا جو اس معاشرے میں سب چنتے تھے۔ سمجھوتے کا اور اچھے وقت کے انتظارکا۔ اس کا خیال تھا یہ سب کچھ وقتی تھا، یہ چند مطالبے پورے ہونے کے بعد سب کچھ بدل جانے والا تھا اور پھر ایک بار وہ احسن کے ساتھ امریکا چلی جاتی تو پھر وہ اور احسن اپنے طریقے سے زندگی گزارتے۔
احسن کی فیملی کی ساری شکایات دور کردی گئی تھیں۔ اسے شادی کے ایک ہفتہ بعد ایک بڑی گاڑی دی گئی تھی۔ عائشہ کے نام نورین نے ایک پلاٹ ٹرانسفر کردیا تھا اور عائشہ کے نانا نے اس کو کچھ رقم تحفے میں دی تھی جو اس نے احسن کے مطالبے پر اس کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردی تھی۔ وہ اس کے بعد دو ہفتوں کے لئے ہنی مون منانے بیرون ملک چلے گئے تھے۔
احسن سعد نے پہلی بار ہنی مون کے دوران کسی بات پر برہم ہوکر اس پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ اس سے پہلے اس نے اسے گالیاں دی تھیں۔ عائشہ عابدین سے بہت بڑی غلطی ہوگئی تھی اپنی زندگی کے بارے میں۔ عائشہ نے جان لیا تھا۔ ہوسکتا ہے اس کا شوہر بہت اچھا مسلمان ہو، لیکن اچھا انسان نہیں تھا اور عائشہ نے اس کا انتخاب اس کے اچھے مسلمان ہونے کی وجہ سے کیا تھا۔ اس دھوکے میں جس میں وہ ان بہت سارے اچھے مسلمانوں اور انسانوں کی وجہ سے آئی تھی جو منافق اور دو رُخے نہیں تھے۔
وہ ایک مہینے کے بعد واپس امریکا چلا گیا تھا، لیکن اس ایک مہینے میں عائشہ بدل گئی تھی۔ وہ ایک عجیب و غریب خاندان میں آگئی تھی جو بظاہر تعلیم یافتہ اور روشن خیال تھا، لیکن اندر سے بے حد گھٹن زدہ تھا اور اس گھٹن اور منافقت کا منبع احسن سعد کا باپ تھا، اس کا اندازہ اسے بہت جلد ہوگیا تھا۔
احسن خود اپنے باپ کی کاپی بن گیا تھا اور اسے اپنی ماں کی کاپی بنانا چاہتا تھا جسے وہ ایک آئیڈیل مسلمان عورت سمجھتا تھا۔ وہ اور اس کی بہنیں، وہ عائشہ عابدین کو ان کے جیسا بنانا چاہتے تھے اور عائشہ عابدین کو بہت جلد اندازہ ہوگیا تھا۔ وہ آئیڈیل مسلم عورتیں، نفسیاتی مسائل کا شکار تھیں۔ اس گھر کے ماحول اور سعد کے رویے اور مزاج کی وجہ سے… اس کی نندوں کے لئے رشتوں کی تلاش جاری تھی، لیکن عائشہ کو یقین تھا جو معیار احسن اور سعد ان دونوں کے لئے لے کر بیٹھے تھے اس کو سامنے رکھ کر رشتوں کی تلاش اور بھی مشکل تھی۔
عائشہ شادی کے دو مہینوں کے اندر اندر اس ماحول سے وحشت زدہ ہوگئی تھی اور اس سے پہلے کہ وہ احسن سعد کا لیا ہوا حلف توڑ کر اپنے نانا نانی سے سب کچھ شیئر کرتی اور ان سے کہتی کہ وہ اسے اس جہنم سے نکالیں لیں۔ اسے پتا چلا کہ وہ Pregnant ہے۔ وہ خبر جو اس وقت اسے خوش قسمتی لگتی، اسے اپنی بدقسمتی لگی تھی۔ عائشہ عابدین ایک بار پھر سمجھوتا کرنے پر تیار ہوگئی۔ ایک بار پھر اس امید کے ساتھ کہ بچہ اس گھر میں اس کی حیثیت کو بدل دینے والا تھا اور کچھ نہیں تو کم از کم اس کے اور احسن سعد کے تعلق کو… تو یہ بھی اس کی خوش فہمی تھی۔ وہ پریگننسی اس کے لئے ایک اور پھندا ثابت ہوئی۔ احسن سعد اور اس کی فیملی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ بچے کی پیدائش تک پاکستان میں ہی رہے گی۔
عائشہ نے نومہینے جتنے صبر اور تحمل کے ساتھ گزارے تھے، صرف وہ ہی جانتی تھی۔ وہ ہاؤس جاب کے بعد جاب کرنا چاہتی تھی، لیکن ا س کے سسرال والوں اور احسن کو یہ پسند نہیں تھا۔ اس لئے عائشہ نے اس پر اصرار نہیں کیا۔ اس کے سسرال والوں کو عائشہ کا بار بار اپنی نانی نانی کے گھر جانا اور ان کا اپنے گھر آنا بھی پسند نہیں تھا تو عائشہ نے یہ بات بھی بنا چوں چرا کے مان لی تھی۔ وہ اب کسی سوشل میڈیا پرنہیں تھی کہ احسن کو خود ہر فورم پر موجود ہونے کے باوجود یہ پسند نہیں تھا کہ وہ وہاں ہو اور اس کے کانٹیکٹس میں کوئی مرد ہو، چاہے وہ اس کا کوئی رشتہ دار یا کلاس فیلو کیوں نہ ہو اور عائشہ نے اپنی بہنوں کے اعتراضات کے باوجود اپنی ID ختم کردی تھی۔ اس کے پاس ویسے بھی کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کے اظہار کے لئے اسے فیس بک کے کسی اکاؤنٹ کی ضرورت پڑتی۔
احسن سعد کی ماں کو یہ پسند نہیں تھا کہ وہ اپنے کمرے میں اکیلی بیٹھے، صبح دیر تک سوتی رہے۔ عائشہ صبح سویرے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد ہر حالت میں لاؤنج میں آجاتی تھی۔ گھر میں ملازم تھے لیکن ساس، سسر کی خدمت اس کی ذمہ داری تھی اور اس پر اسے اعتراض بھی نہیں تھا۔ کھانا بنانے کی ذمہ داری جو اس سے پہلے خواتین میں تقسیم تھی، اب عائشہ کی ذمہ داری تھی اور یہ بھی ایسی بات نہیں تھی جس سے اسے تکلیف پہنچتی۔ وہ بہت تیز کام کرنے کی عادی تھی اور نانا، نانی کے گھر میں بھی وہ بڑے شوق سے ان کے لئے کبھی کبھار کھانا بنایا کرتی تھی۔ وہ ذمہ داریوں سے نہیں گھبراتی تھی، تذلیل سے گھبراتی تھی۔ اس گھر کے افراد ستائش اور حوصلہ افزائی جیسے لفظوں سے ناآشنا تھے۔ وہ تنقید کرسکتے تھے، تعریف نہیں۔
وہ اس گھر میں یہ سوال کرتی تو اپنے آپ کو ہی وہ احمق لگتی کہ اس نے کھانا کیسا بنایا تھا۔ شروع شروع میں بڑے شوق سے کئے جانے والے ان سوالات کا جواب اسے بے حد تضحیک آمیز جملوں اور تمسخر سے ملا تھا۔ کبھی کبھی اسے لگتا تھا کہ وہ بھی نفسیاتی ہونا شروع ہوگئی ہے۔
احسن سعد اس کے لئے ایک ضابطہ طے کرگیا تھا۔ وہ غلطی کرے گی تو کاغذ پر لکھ کر اپنی غلطی کا اعتراف کرے گی۔ اللہ سے حکم عدولی کی معافی مانگے گی، پھر اس شخص سے جس کی اس نے نافرمانی کی ہوگی۔
ہفتے میں ایک بار عائشہ ایسا ایک معافی نامہ گھر کے کسی نہ کسی فرد کے نام لکھ رہی ہوتی تھی اور پھر آہستہ آہستہ اسے اندازہ ہوا وہ معافی نامہ بھی سعد کی ایجاد تھی… احسن سعد اپنا سارا بچپن اپنی غلطیوں کے لئے اپنے باپ کو ایسے ہی معافی نامے لکھ لکھ کے دیتا رہا تھا اور اب اپنی بیوی کے گلے میں اس نے وہی رسی ڈال دی تھی۔
عائشہ پہلے حجاب کرتی تھی اب وہ نقاب اور دستانے بھی پہننا شروع ہوگئی تھی۔ اس نے بال کٹوانا چھوڑ دیا تھا۔ میک اپ، فیشل، چہرے کے بالوں کی صفائی، سب کچھ چھوڑ دیا تھا کیونکہ اس گھر کی عورتیں ان میں سے کوئی کام نہیں کرتی تھیں۔ وہ آئیڈیل عورتیں تھیں اور عائشہ عابدین کو اپنے آپ کو ان کے مطابق ڈھالنا تھا۔ اپنے باہر کو دوسروں کے بنائے ہوئے سانچوں میں ڈھالتے ڈھالتے عائشہ عابدین کے اندر کے سارے سانچے ٹوٹنا شروع ہوگئے تھے۔
اس کے نانا نانی اور فیملی کو یہ پتا تھا کہ اس کے سسرال والے اچھے لوگ نہیں تھے، لیکن عائشہ اس گھر میں کیا برداشت کررہی تھی، انہیں اس کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ اس حلف کو نبھا رہی تھی جو وہ شادی کی پہلی رات لے بیٹھی تھی۔ کوئی بھی اس سے ملنے پر، اس سے فون پر بات کرنے پر اسے کریدتا رہتا مگر عائشہ کے پاس بتانے کو کچھ بھی نہیں ہوتا تھا سوائے اس کے کہ وہ اپنے گھر میں بہت خوش تھی اور اس کی ناخوشی دوسرے کی غلط فہمی تھی اور ان نو مہینوں کے دوران اس کا اور سعد کا تعلق نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ واپس جانے کے بعد بچے کی پیدائش تک دوبارہ واپس نہیں آیا تھا۔ ان کے درمیان فون پر اور اسکائپ پر بات بھی بہت مختصر ہوتی اور اس میں بھی تب وقفہ پڑجاتا جب احسن کے گھر میں کوئی اس سے خفا ہوتا۔ امریکا میں ہونے کے باوجود گھر میں ہونے والے ہر معاملے سے اسے آگاہ رکھا جاتا تھا، خاص طور پر عائشہ کے حوالے سے۔
عائشہ کو کبھی کبھی لگتا تھا وہ شوہر اور بیوی کا رشتہ نہیں تھا۔ ایک بادشاہ اور کنیز کا رشتہ تھا۔ احسن سعد کو اس سے ویسی ہی اطاعت چاہیے تھی اور وہ اپنے دل پر جبرکرتے ہوئے ایسی بیوی بننے کی کوشش کررہی تھی جیسی احسن سعدکو چاہیے تھی۔
اسفند کی پیدائش تک کے عرصے میں عائشہ عابدین کچھ کی کچھ ہوچکی تھی۔ جس گھٹن میں وہ جی رہی تھی اس گھٹن نے اس کے بچے کو بھی متاثر کیا تھا۔ اس کا بیٹا اسفند نارمل نہیں تھا، یہ عائشہ عابدین کا ایک اور بڑا گناہ تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ورثہ — ارم سرفراز

Read Next

صدقہ — ماہ وش طالب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!