آبِ حیات — قسط نمبر ۱۴ (تبارک الذی)

’’انہیں اعتراض تو نہیں ہوگا کہ میں ایڈاپٹڈ ہوں۔‘‘
’’کیوں اعتراض ہوگا؟ میرا نہیں خیال کہ میرے پیرنٹس اتنے تنگ نظر ہیں کہ اس طرح کی باتوں پر اعتراض کریں گے۔‘‘ ہشام نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ ’’میں اپنے والدین کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘
حمین سے اس کی ملاقات دو ہفتے بعد طے ہوئی تھی، مگر اس سے پہلے ہی ہشام کو ایک بار پھر ایمرجنسی میں بحرین بلالیا گیا تھا۔ اس کے باپ کی کونسل نے متفقہ فیصلے سے امیر کے طور پر توثیق کردی تھی اور ہشام بن صباح کو بحرین کا نیا ولی عہد نامزد کردیا گیا تھا۔ ایک خصوصی طیارے کے ذریعے ہشام کو بحرین بلایا گیا تھا اور وہاں پہنچنے پر یہ خبر ملنے پر اس نے سب سے پہلے فون پر رئیسہ کو یہ اطلاع دی تھی۔ وہ بے حد خوش تھا۔ رئیسہ چاہتے ہوئے بھی خوش نہ ہوسکی۔ وہ ایک عام آدمی سے ایک دم ایک ’’خاص آدمی‘‘ ہوگیا تھا۔ حمین کی باتیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔
ہشام بہت جلدی میں تھا۔ ان دونوں کے درمیان صرف ایک آدھ منٹ کی گفتگو ہوسکی تھی۔ فون بند ہونے کے بعد رئیسہ کے لئے سوچ کے بہت سارے در کھل گئے تھے۔ وہ پریوں کی کہانیوں پر یقین نہیں کرتی تھی کیوں کہ اس نے جس فیملی پر پرورش پائی تھی وہاں کوئی پریوں کی کہانی نہیں تھی۔ وہاں اتفاقات اور انقلابات نہیں تھے۔ کیرئیر، زندگیاں، نام، سب محنت سے بنائی جارہی تھیں اور رئیسہ سالار کو اپنے سامنے نظر آنے والی وہ پریوں کی کہانی بھی ایک سراب لگ رہی تھی۔
وہ ایک عرب امریکن سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ ایک عرب بادشاہ سے نہیں۔ اسے آسائشات کی ہوش نہیں تھی اور اس کی زندگی کے مقاصد اور تھے… اور چند دن پہلے تک اس کے اور ہشام کی زندگی کے مقاصد ایک جیسے تھے۔ اب وہ لمحہ بھر میں ریل کی پٹری کے دو ٹریک نہیں رہے تھے۔ مخالف سمت میں جانے والا ایک دوسرا ٹریک ہوگئے تھے۔
وہ بہت غیر جذباتی ہوکر اب حمین کی اس گفتگو کو یاد کررہی تھی جو اس نے ہشام کے حوالے سے کی تھی اور وہ تب کی تھی جب وہ ولی عہد نہیں بنا تھا۔ اسے اب جاننا تھا کہ حمین، ہشام کے بارے میں اب کیا سوچتا ہے۔
ہشام کے حوالے سے یہ خبربھی حمین نے ہی اسے اسی رات دی تھی، جب وہ سونے کی تیاری کررہی تھی۔ وہ ایک کانفرنس اٹینڈ کرنے کے لئے مانٹریال میں تھا۔
’’میں جانتی ہوں۔‘‘ اس نے جواباً حمین کو ٹیکسٹ کیا۔
’’مجھے تمہیں مبارک باد دینی چاہیے یا افسوس کرنا چاہیے؟‘‘ جواباً ٹیکسٹ آیا تھا۔ وہ اس کے مزاج سے واقف تھا۔ وہ مسکرادی۔
’’تمہاری رائے کیا ہے؟‘‘ اس نے جواباً پوچھا۔
’’افسوس ناک خبر ہے۔‘‘
’’جانتی ہوں۔‘‘ اس نے حمین کے ٹیکسٹ پر اتفاق کیا۔
جواباً اس کی کال آنے لگی تھی۔




’’اتنا بھی اپ سیٹ ہونے والی بات نہیں ہے۔‘‘ حمین نے ہیلو سنتے ہی بڑے خو شگوار لہجے میں اس سے کہا تھا۔ وہ اس کی آواز کا ہر انداز پہچانتا تھا۔
’’نہیں اپ سیٹ تو نہیں ہوں… بس یہ سب غیر متوقع ہے اس لئے…‘‘ رئیسہ نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’میرے لئے غیر متوقع نہیں ہے یہ… مجھے اندازہ تھا ا س کا۔‘‘ اس نے جواباً کہا تھا۔
’’تو پھر اب…؟‘‘ رئیسہ نے ایک بار پھر ادھورے جملے میں اس سے مسئلے کا حل پوچھا۔
’’تم نے کہا تھا۔ تم اس پرپوزل کے حوالے سے بہت زیادہ جذباتی نہیں ہو۔‘‘ حمین نے اطمینان سے لمحے بھر میں تصویر کا سیاہ ترین پہلو اسے دکھایا۔ یعنی ہشام کو بھول جانے کا مشورہ دیا۔
’’تم واقعی ایسا سوچ رہے ہو؟‘‘ رئیسہ کو جیسے یقین نہیں آیا۔ ’’تمہیں لگتا ہے میری اور اس کی شادی نہیں ہوسکتی؟‘‘
’’ہوسکتی ہے، لیکن اس کی شادی صرف تمہارے ساتھ ہو اور تمہارے ساتھ ہی رہے، یہ میرے لئے زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔‘‘ عرب بادشاہ ’’حرم‘‘ رکھتے ہیں۔ حمین نے اسے جتایا تھا۔ تصویر کا ایک اور رخ اسے دکھایا جو اس نے ابھی دیکھنا شروع بھی نہیں کیا تھا۔
’’میں جانتی ہوں۔‘‘ اس نے مدھم آواز میں کہا پھر اگلے ہی جملے میں جیسے اس کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ ’’لیکن ہشام کے باپ نے شاہی خاندان کا حصہ ہوتے ہوئے بھی دوسری شادی کبھی نہیں کی۔‘‘
’’وہ امریکہ میں سفیر رہے ہیں… بادشاہ کبھی نہیں رہے۔‘‘ حمین نے ترکی بہ ترکی کہا۔ دونوں کے درمیان خاموشی کا ایک لمبا وقفہ آیا۔
“So it’s all over.”
اس نے بالآخر حمین سے پوچھا۔ حمین کے دل کو کچھ ہوا۔ وہ پہلی محبت تھی جو اس نے کبھی نہیں کی تھی مگر اس نے پہلی محبت کا انجام بہت بار دیکھا تھا اور اب رئیسہ کو اس انجام سے دوچار ہوتے دیکھ کر اسے دلی تکلیف ہورہی تھی۔
’’تمہارا دل تو نہیں ٹوٹے گا؟‘‘ وہ بے حد فکر مند انداز میں اس سے پوچھا رہا تھا۔ رئیسہ کا دل بھر آیا۔
’’ٹوٹے گا… لیکن میں برداشت کرلوں گی۔‘‘ رئیسہ نے بھرائی آواز میں اپنی آنکھوں میں آئی نمی پونچھتے ہوئے کہا۔
حمین کا دل اور پگھلا۔ ’’ساری دنیا میں تمہیں یہی ملا تھا۔‘‘ اس نے دانت پیستے ہوئے رئیسہ سے کہا تھا۔
’’مسئلہ شادی نہیں ہے رئیسہ! مسئلہ آئندہ کی زندگی ہے… کوئی گارنٹی نہیں ہے اس رشتے میں۔‘‘ حمین نے ایک بار پھر اس کے ہتھیار ڈالنے کے باوجود جیسے اس کا دکھ کم کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ خاموش ہوگئی۔ کال ختم ہوگئی تھی مگر ہشام نہ رئیسہ کے ذہن سے نکلا تھا نہ ہی حمین کے۔
اگلے دن کے اخبارات نہ صرف بحرین کے نئے امیر اور ولی عہد کی تصویروں اور خبروں سے بھرے ہوئے تھے بلکہ ان خبروں میں ایک خبر نئے ولی عہد ہشام بن صباح کی منگنی کی بھی تھی جو بحرین کے ہلاک ہونے والے امیر کی نواسی سے طے پارہی تھی۔ وہ خبر حمین اور رئیسہ دونوں نے پڑھی تھی اور دونوں نے ایک دوسرے سے شیئر نہیں کی تھی۔
٭…٭…٭
’’کوئی تم سے ملنا چاہتا ہے۔‘‘
وہ اگلی صبح تھی… ساری رات لاک اپ میں جاگتے رہنے کے بعد وہ ناشتے کے بعد کافی کا ایک کپ ہاتھ میں لئے بیٹھی تھی جب ایک آفیسر نے لاک اپ کا دروازہ کھولتے ہوئے ایک کارڈ اس کے ہاتھ میں تھمایا اور کارڈ پر لکھا ہوا نام دیکھ کر عائشہ عابدین کا دل چاہا کہ کاش وہاں کوئی سوراخ ہوتا تو وہ اس میں گھس کر چھپ جاتی۔ پتا نہیں اس شخص کے سامنے اسے اب اور کتنا ذلیل ہونا تھا… دنیا سے غائب ہوجانے کی خواہش اس نے زندگی میں کئی بار کی تھی لیکن شرم کے مارے اس نے پہلی بار کی تھی۔
وہ پولیس آفیسر کے ساتھ وہاں آئی تھی جہاں وہ ایک اٹارنی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اس کی رہائی کے لئے کاغذات لئے جس پر اب صرف اس کے دستخط ہونے تھے۔
جبریل اور اس کے درمیان رسمی جملوں کا تبادلہ ہوا تھا، ایک دوسرے سے نظریں ملائے بغیر۔ پھر اس ٹارنی سے اس کی بات چیت شروع ہوگئی تھی۔ کاغذات دستخط، اور پھر اسے رہائی کی نوید دے دی گئی تھی۔
بے حد خاموشی کے عالم میں وہ دونوں بارش کی ہلکی پھوار میں پولیس اسٹیشن سے باہر پارکنگ میں گاڑی تک آئے تھے۔
’’میں بہت معذرت خواہ ہوں۔ میری وجہ سے بار بار آپ کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ نسا کو آپ کو فون نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میں کچھ نہ کچھ انتظام کرلیتی، یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔‘‘
گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر اس کے برابر بیٹھے عائشہ نے پہلی بار اپنی خاموشی توڑتے ہوئے بے حد شائستگی سے جبریل کی طف دیکھے بغیر اسے مخاطب کیا تھا۔
جبریل نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ اس کے جملے میں وہ آخری بات نہ ہوتی تو وہ نسا کی اس بات پر کبھی یقین نہیں کرتا کہ وہ ذہنی دباؤ میں تھی۔ وہ اپنے خلاف Parental negligence کے تحت فائل ہونے والے قتل کے ایک الزام کو معمولی بات کہہ رہی تھی۔
’’آپ نے کچھ کھایا ہے؟‘‘ جبریل نے جواب میں بڑی نرمی سے اس سے پوچھا تھا۔ عائشہ نے سرہلا دیا۔ وہ اب اسے بتانے لگی تھی کہ وہ کسی قریبی بس اسٹاپ یا ٹرین اسٹین پر اسے ڈراپ کردے تو وہ خود گھر پہنچ سکتی تھی۔
جبریل نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اس کی ہدایات سنیں اور ’’ٹھیک ہے‘‘ کہہ دیا… مگر وہ وہاں رکا نہیں تھا جہاں وہ اسے ڈراپ کرنے کے لئے کہہ رہی تھی۔ وہ سیدھا اس کے گھر پہنچ گیا تھا… اس بلڈنگ کے سامنے جہاں اس کا اپارٹمنٹ تھا۔ عائشہ نے اس سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ اسے اس کے گھر کا ایڈریس کیسے پتا چلا۔ وہ اس کا شکریہ ادا کرکے گاڑی سے اترنے لگی تو جبریل نے اس سے کہا۔
’’کافی کا ایک کپ مل سکتا ہے؟‘‘ وہ ٹھٹکی اور اس نے پہلی بار جبریل کا چہرہ دیکھا۔
’’گھر پر کافی ختم ہوچکی ہے۔ میں کچھ ہفتوں سے گروسری نہیں کرسکی۔‘‘ اس نے کہتے ہوئے دوبارہ دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا۔
’’میں چائے بھی پی لیتا ہوں۔‘‘ جبریل نے اسے پھر روکا۔
’’میں چائے نہیں پیتی، اس لئے لائی بھی نہیں۔‘‘ عائشہ نے اس بار اسے دیکھے بغیر گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔
’’پانی تو ہوگا آپ کے گھر میں؟‘‘ جبریل اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا اور اس نے گاڑی کی چھت کے اوپر سے دیکھتے ہوئے کہا۔
اس بار عائشہ اسے صرف دیکھتی رہی تھی۔
اس کا اپارٹمنٹ اس قدر صاف ستھرا اور خوب صورتی سے سجا ہوا تھا کہ اندر داخل ہوتے ہی جبریل چند لمحوں کے لئے ٹھٹک گیا تھا، جن حالات کا وہ شکار تھی۔ وہ وہاں کسی اور طرح کے منظر دیکھنے کی توقع کر رہا تھا۔
’’آپ کا ذوق بہت اچھا ہے۔‘‘ وہ عائشہ سے کہے بغیر نہیں رہ سکا۔ عائشہ نے جواباً کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ اپنا لانگ کوٹ اتارتے اور دروازے کے پیچھے لٹکاتے ہوئے۔ وہ لاؤنج میں سیدھا کچن ایریا کی طرف گئی۔ کچھ بھی کہے بغیر، اس نے ایک کیبنٹ کھول کر کافی کا جار نکال لیا تھا اور پھر پانی گرم کرنے لگی۔
جبریل لاؤنج میں کھڑا اس جگہ کا جائزہ لے رہا تھا جہاں آنے والا کوئی شخص بھی یہ جان جاتا کہ اس گھر میں ایک گھر میں ایک بچہ تھا جو اس گھر میں رہنے والوں کی زندگی کا محور تھا۔
لاؤنج میں بنے پلے ایریا میں اسفند کے کھلونے پڑے ہوئے تھے۔ دیواروں پر جگہ جگہ عائشہ اور اس کی تصویریں… جبریل نے نظر چرالی تھی۔ پتا نہیں اس guilt کو وہ کیا کہتا اور اس کا کیا کرتا جو بار بار عائشہ عابدین کے بچے کے حوالے سے اسے ہوتا تھا۔ اس نے مڑ کر عائشہ کو دیکھا تھا۔ وہ بے حد میکانیکی انداز میں اس کے لئے کافی کا ایک کپ تیار کررہی تھی، یوں جیسے وہ کوئی ویٹریس تھی۔ پورے انہماک سے ایک ایک چیز کو ٹرے میں سجاتے اور رکھتے ہوئے باقی ہر چیز سے بے خبر… اس بات سے بھی کہ وہاں جبریل بھی تھا۔
وہ اب کافی کی ٹرے لے کر لاؤنج میں آگئی تھی۔ سینٹر ٹیبل پر کافی کے ایک کپ کی ٹرے رکھتے ہوئے وہ کچھ کہے بغیر صوفہ پر بیٹھ کر اس سے پوچھنے لگی۔
’’شوگر…‘‘
’’مجھے کافی کڑوی نہیں لگتی۔‘‘ جبریل اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا تھا۔
’’کریم، ملک۔‘‘ عائشہ نے شوگر پاٹ چھوڑ کر باقی دو چیزوں کے بارے میں پوچھا جو ٹرے میں رکھی ہوئی تھیں۔
’’یہ بھی نہیں… مجھے کچھ دیر میں اسپتال کے لئے نکلنا ہے۔‘‘ جبریل نے اب مزید کچھ کہے بغیر وہ کپ اٹھا لیا تھا جو عائشہ نے میز پر اس کی طرف بڑھایا تھا۔ اس نے بڑی خاموشی سے کافی پی… کپ دوبارہ میز پر رکھا اور پھر اپنی جیب سے ایک لفافہ نکال کر میز پر رکھتے ہوئے اس سے کہا۔
’’اسے آپ میرے جانے کے بعد کھولیں… پھر اگر کوئی سوال ہو تو میرا نمبر یہ ہے۔‘‘
اس نے کھڑے ہوتے ہوئے جیب سے ایک وزیٹنگ کارڈ نکال کر میز پر اسی لفافے کے پاس رکھ دیا۔
’’حالانکہ میں جانتا ہوں آپ سوال نہیں کرتیں… مجھے فون بھی نہیں کریں گی۔ اس کے باوجود مجھے اسے پڑھنے کے بعد آپ کے کسی سوال کا انتظار رہے گا۔‘‘
عائشہ نے خاموشی سے میز پر پڑے اس لفافے اور کارڈ کو دیکھا پھر سراٹھا کر کھڑے جبریل کو۔ دنیا میں ایسی تمیز اور تہذیب والے مر دکہاں پاتے جاتے ہیں۔ اس نے سامنے کھڑے مرد کو دیکھتے ہوئے سوچا تھا اور اگر پائے جاتے تھے تو ان میں سے کوئی اس کا نصیب کیوں نہیں بنا تھا… وہ کھڑی ہوگئی تھی۔
جبریل کو اپارٹمنٹ کے دروازے پر چھوڑ کر آنے کے بعد اس نے اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے جھانک کر پارکنگ کو دیکھا جہاں وہ ابھی کچھ دیر میں نمودار ہوتا اور پھر وہ نمودار ہوا تھا اور وہ تب تک اسے دیکھتی رہی جب تک وہ گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا نہیں گیا۔
پھر وہ میز پر پڑے اس لفافے کی طرف آئی تھی۔ اس سفید لفافے کو اس نے اٹھا کر دیکھا جس پر اس کا نام جبریل کی خوب صورت طرز تحریر میں لکھا ہوا تھا۔
’’مس عائشہ عابدین۔‘‘
پھر اس نے لفافے کو کھول لیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ورثہ — ارم سرفراز

Read Next

صدقہ — ماہ وش طالب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!