’’تم پہلے یہ طے کرو کہ تمہیں عائشہ سے نفرت ہے کیوں؟ اس کے عورت ہونے کی وجہ سے یا اپنے بیٹے کو مارنے کے شبہ کی وجہ سے… تم بیٹھ کر پہلے طے کرو کہ تمہاری اتنی گہری نفرت کی وجہ ہے کیا؟‘‘ جبریل اس سے کہتا گیا تھا۔
’’یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ احسن سعد نے درشتی سے کہا۔ ’’میں تم سے سائیکالوجی پڑھنے نہیں آیا۔‘‘
جبریل نے سرہلایا۔ ’’Exactly… میں بھی تم سے اخلاقیات پڑھنے نہیں آیا۔ تم مسلمان ہو، بہت اچھی طرح جانتے ہو جس عورت کو طلاق دے دی گئی ہو، اس کے حوالے سے کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور اس میں کم از کم یہ ذمہ داری شامل نہیں ہے کہ تم مرد کے سامنے بیٹھ کر اس پر کیچڑ اچھالو۔‘‘
’’تم مجھے میرا دین سکھانے کی کوشش مت کرو۔‘‘ احسن سعد نے اس کی بات کا ٹ کر بے حد تنفرسے کہا تھا۔ ’’میں حافظ قرآن ہوں اور تبلیغ کرتا ہوں۔ درجنوں غیر مسلموں کو مسلمان کرچکا ہوں۔ تم مجھے یہ مت بتاؤ کہ میرا دین مجھ پر عورتوں کے حوالے سے کیا ذمہ داری عائد کرتا ہے اور کیا نہیں۔ تم اپنے دین کی فکر کرو کہ ایک نامحرم عورت کے ساتھ افیئر چلا رہے ہو اور مجھ سے کہہ رہے ہو کہ میں اپنی سابقہ آوارہ بیوی کی شان میں قصیدے پڑھوں۔‘‘
وہ بات نہیں کررہا تھا۔ زہر اگل رہا تھا۔ وہ جبریل کی زندگی میں آنے والا پہلا تبلیغی تھا جس کی زبان میں جبریل نے مٹھاس کی جگہ کڑواہٹ دیکھی تھی۔
’’تمہاری تصویریں میں نے شادی کے بعد بھی اس کے لیپ ٹاپ میں دیکھی تھیں اور تب اس نے کہا تھا تم ا س کی بہن کے دوست ہو، تمہارا اور اس کا کوئی تعلق نہیں، لیکن میں غلط نہیں تھا، میرا شک ٹھیک تھا۔ کوئی لڑکی بہن کے بوائے فرینڈ کی تصویریں اپنے لیپ ٹاپ میں جمع کرکے نہیں رکھتی۔‘‘ احسن سعد کہہ رہا تھا اور جبریل دم بخود تھا۔ ’’اور آج تم نے بتادیا کہ یہ افیئر کتنا پرانا تھا… اسی لئے تو اس عورت نے جان چھڑائی ہے میرے بیٹے کو مار کر۔‘‘
اس کی ذہنی حالت اس وقت جبریل کو قابل رحم لگ رہی تھی۔ اتنی قابل رحم کہ وہ بے اختیار کہنے پر مجبور ہوگیا تھا۔
’’احسن! اس نے تمہارے بیٹے کو نہیں مارا۔ وہ سرجری میں ہونے والی ایک غلطی سے مارا گیا۔‘‘ اس کی زبان سے وہ نکلا تھا جو شاید اس کے لاشعور میں تھا اور جس سے وہ خود نظریں چراتا پھر رہا تھا۔ احسن کو اس کا جملہ سن کر کرنٹ لگا تھا اور جبریل پچھتایا تھا… وہ ایک برا دن تھا اور ا س برے دن کا وہ ایک بدترین وقت تھا۔
’’تم کیسے جانتے ہو یہ؟‘‘ احسن نے سرسراتی ہوئی آواز میں اس سے کہا تھا۔
’’کیوں کہ میں اس آپریشن ٹیم کا حصہ تھا۔‘‘ اس بار جبریل نے سوچ سمجھ کر کہا تھا۔ بدترین انکشاف وہ تھا جو ہو چکا تھا، اب اس کے بعد کی تفصیلات کا پتا چلنا یا نہ چلنا بے معنی تھا۔ احسن دم سادھے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ ساکت ، پلکیں جھپکائے بغیر اس کے چہرے کا رنگ سانولا تھا، سرخ یا زرد… چند لمحوں کے لئے یہ طے کرنا مشکل ہوگیا تھا۔
’’وہ سرجری میں نے نہیں کی تھی احسن … اسسٹ کررہا تھا ڈاکٹر ویزل کو… اور مجھے یہ بھی یقین نہیں ہے کہ سرجری میں واقعی کوئی غلطی ہوئی تھی یا وہ میرا وہم تھا۔‘‘
جبریل نے اس کے سامنے جیسے وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی۔ احسن سعد اسے عائشہ عابدین سے بدگمان کرنے آیا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اسے جواباً جبریل سے کیا پتا چلنے والا تھا۔
وہ ایک دم سے اٹھا اور وہاں سے چلا گیا تھا۔ جبریل سکندر وہاں بیٹھا رہ گیا تھا۔
٭…٭…٭
’’Hello, back in USA‘‘ صبح سویرے اپنے فون کی اسکرین پر ابھرنے والی اس تحریر اور بھیجنے والے کے نام نے رئیسہ کو چند لمحوں کے لئے ساکت کیا تھا۔ اس کے باوجود کہ وہ یہ توقع کررہی تھی کہ وہ واپس آنے کے بعد اس سے رابطہ ضرور کرے گا۔ حالات جو بھی تھے، ان دونوں کے درمیان بہرحال ایسا کچھ نہیں ہوا تھا کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے چھپنا پڑتا۔ ’’ویلکم بیک‘‘ کاٹیکسٹاسے بھیجتے ہوئے رئیسہ نے ایک بار پھر خود کو یاد دلاتھا کہ زندگی میں ہونے والے اس پہلے بریک اپ کو اس نے دل پر نہیں لیان تھا… اور بار بار خود کو کرائی جانے والی یاد دہانی ضروری تھی… درد ختم نہیں ہورہا تھا، لیکن کم ضرور ہوتا تھا…کچھ دیر کے لئے تھمتا ضرور تھا۔
’’یونیورسٹی جارہی ہو؟‘‘ وہ نہاکر نکلی تو اس نے فون پر ہشام کا اگلا ٹیکسٹ دیکھا۔ اس نے ہاں کا جوابی ٹیکسٹ کرتے ہوئے اپنے ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی۔
’’ملیں؟‘‘ اگلا ٹیکسٹ فوراً آیا تھا۔ وہ کارن فلیکس کھاتے ہوئے میز پر پڑے فون پر چمکتے اس سوال کو دیکھتی رہی۔ کہنا چاہتی تھی… ’’اب کیسے؟…‘‘ مگر لکھا تھا۔
’’نہیں میں مصروف ہوں…‘‘ کارن فلیکس حلق میں اٹکنے لگا تھا، وہ اب اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ دل سنبھالنے کی ساری کوششوں کے باوجود اس کا سامنا مشکلترین تھا۔ وہ روایتی لڑکی نہیں بننا چاہتی تھی۔ نہ گلے شکوے کرنا چاہتی تھی، نہ طنز… نہ جھگڑا… اور نہ ہی اس کے سامنے رونا… وہ بحرین بہرحال اس لئے نہیں گیا تھا کہ بچھڑ جانا۔
فون کی اسکرین پر جواباً ایک منہ چڑاتی تصویر آئی تھی، یوں جیسے اس کے بہانے کا مذاق اڑا رہی ہو۔ رئیسہ نے اسے اگنور کیا اور اسے جواباً کچھ نہیں بھیجا۔
پندرہ منٹ بعد اس نے اپنے اپارٹمنٹ سے باہر نکلنے پر گاڑی سمیت اسے وہاں پایا تھا۔ وہ شاید وہیں بیٹھے ہوئے اسے ٹیکسٹ بھیج رہا تھا، ورنہ اتنی جلدی وہ وہاں نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اسے سرپرائز دینا اچھا لگتا تھا اور رئیسہ کو یہ سرپرائز لینا… مگر یہ کچھ دن پہلے کی بات تھی۔
وہ اس کے بلائے بغیر اس کی طرف آئی تھی، دونوں کے چہرے پر ایک دوسرے کو دیکھ کر خیر مقدمی مسکراہٹ ابھری، حال احوال پوچھا گیا، اس کے بعد رئیسہ نے اس سے کہا۔
’’مجھے آج یونیورسٹی ضروری جانا ہے… کچھ کام ہے۔‘‘
ہشام نے جواباً کہا۔ ’’میں ڈراپ کردیتا ہوں اور ساتھ کچھ گپ شپ بھی نکالیں گے… بڑے دن ہوگئے ہمیں ملے ہوئے اور بات کئے۔‘‘
رئیسہ نے اس سے نظریں چرالی تھیں۔ مزید کچھ بھی کہے بغیر وہ گاڑی کا دروازہ کھول کربیٹھ گئی تھی۔
’’کیا ہوا ہے؟‘‘ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہی ہشام نے اس کی طرف مڑتے ہوئے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
’’کیا؟‘‘ رئیسہ نے انجان بننے کی کوشش کی۔ یہ کہنا کہ میں ناخوش ہوں دل شکستہ ہوں، کیوں کہ تم مجھے امیدیں دلاتے دلاتے کسی اور لڑکی کو اپنی زندگی میں لے آئے ہو… سب کم از کم رئیسہ کی زبان پر نہیں آسکتا تھا۔
’’تمہارا موڈ آف ہے؟‘‘ وہ اب بڑی سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
’’نہیں… موڈ کیوں آف ہوگا؟‘‘ رئیسہ نے جواباً اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’پتا نہیں، یہی توجاننا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ الجھا تھا۔ ’’تم کچھ دنوں سے مکمل طور پر غائب ہو میری زندگی سے… بحرین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن تم کال ریسیو نہیں کرتیں، نہ ہی میسجز کا جواب دیتی ہو… ہوا کیا ہے؟‘‘
’’تمہیں کیا لگتا ہے، کیا وجہ ہوسکتی ہے میرے اس رویے کی؟‘‘ رئیسہ نے جواباً اس سے پوچھا۔
’’مجھے نہیں پتا…‘‘ ہشام نے ایک لمحہ کی خاموشی کے بعد کہا تھا۔
’’میں اب یہ سب ختم کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ رئیسہ نے اس سے کہا۔
’’وہ چونکا، اسے دیکھتا رہا پھر سر جھٹک کر بولا۔
’’یعنی میرا اندازہ ٹھیک ہے، تمہارا موڈ واقعی آف ہے۔‘‘ رئیسہ نے اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنے بیگ سے انگوٹھی کی وہ ڈبیا نکالی اور گاڑی کے ڈیش بورڈ پر رکھ دی، ہشام کچھ بول نہ سکا۔ گاڑی میں خاموشی رہی، پھر ہشام نے کہا۔
’’تم نے انگیج منٹ کی خبر پڑھ لی ہے؟‘‘
’’اس سے بھی پہلے مجھے یہی خدشہ تھا، اس لئے اس خبر سے میں حیران نہیں ہوئی۔‘‘ رئیسہ نے مدھم آواز میں اس سے کہا، بڑے ٹھنڈے انداز میں جس سے وہ ہمیشہ پہچانی جاتی تھی۔
’’میں نے تم سے ایک کمٹمنٹ کی تھی رئیسہ ! اور میں اپنا وعدہ نہیں توڑوں گا۔ نیوز پیپر میں آنے والی ایک خبر ہم دونوں کے درمیان دیوار نہیں بن سکتی، اتنا کچا رشتہ نہیں ہے یہ۔‘‘ ہشام بڑی سنجیدگی سے کہتا گیا تھا۔
’’نیوز پیپرزکی بات نہیں ہے ہشام! تمہاری فیملی کے فیصلے کی بات ہے… تم اب ولی عہد ہو… تمہاری ذمہ داریاں اور تم سے رکھی جانے والی توقعات اور ہیں…‘‘
وہ اس کی بات پر ہنسا تھا۔
’’ولی عہد… میں ابھی تک نہ اپنے رول کو سمجھ پایا ہوں اور نہ ہی یہ اندازہ لگا پا رہاہوں کہ میں اس منصب کے لئے اہل ہوں بھی یا نہیں… یہ پاور پالٹکس ہے… آج جس جگہ پر ہم ہیں … کل ہوں گے بھی یا نہیں… کوئی یقینی بات نہیں… اگر مجھے فیصلہ کرنا ہوتا تو میں کبھی یہ عہدہ نہ لیتا، مگر یہ میرے باپ کی خواہش ہے۔‘‘ وہ اب سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
رئیسہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’غلط خواہش نہیں ہے… کوئی ماں باپ نہیں چاہیں گے، اپنی اولاد کے لئے ایسا منصب… تم خوش قسمت ہو، تمہیں ایسا موقع ملا ہے۔‘‘ وہ مدہم آواز میں کہتی گئی۔
’’میں پہلے بھی یہی سمجھتا تھا۔‘‘ ہشام نے جواباً کہا۔ ’’لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ کوئی بھی چیز لاٹری میں نہیں ملتی۔ یہ ضروری ہے ولی عہد کے لئے وہ ایک شادی شاہی خاندان میں کرے وہ بھی پہلی، میری اور تمہاری شادی ہوچکی ہوتی تو اور بات تھی، لیکن اب ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں شاہی خاندان میں شادی سے انکار کروں۔ جنہوں نے میرے باپ کی بادشاہت کا فیصلہ کیا ہے، انہوں نے ہی یہی فیصلہ بھی کیا ہے۔ مجھ سے اس بارے میں رائے نہیں لی گئی، مجھے بتایا گیا تھا۔‘‘ وہ خاموش ہوا۔
’’میں اندازہ کرسکتی ہوں اور اسی لئے تم سے کوئی شکایت نہیں کررہی… میرے اور تمہارے درمیان ویسے بھی کون سے عہد و پیمان ہوئے تھے کہ میں تم سے کسی بات کے لئے الزام دوں… اسی لئے ختم کرنا چاہتی ہوں خود یہ سب کچھ، تاکہ تم اگر کوئی obligationمحسوس کررہے ہو تو نہ کرو… اور میں ہرٹ نہیں ہوں۔‘‘ اس نے بات ختم کی، تو قف کیا، پھر آخری جملہ بولا۔
’’تم ہوئی ہو، میں جانتا ہوں اور میں نادم بھی ہوں۔‘‘ ہشام نے اس کی بات کے اختتام پر کہا۔ ’’اور میں یہ سب ختم نہیں کرنا چاہتا، نہ ہی میں تم سے اس لئے ملنے آیا ہوں۔ رئیسہ! میں تم سے بھی شادی کروں گا اور یہ بات میں نے اپنی فیملی کو بتادی ہے اور انہیں اعتراض نہیں ہے۔‘‘
وہ اس کی بات پر بے اختیار ہنسی اور ہنستی ہی چلی گئی اتنا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
’’حمین بالکل ٹھیک کہتا تھا۔ پتا نہیں اس کی زبان کالی ہے یا وہ ضرورت سے زیادہ عقل مند ہے۔‘‘ وہ اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے بولی۔
ہشام پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔ ’’وہ کیا کہتا ہے؟‘‘
’’یہی جو تم ابھی کہہ رہے ہو… دوسری شادی۔ وہ کہتا ہے کہ بادشاہ حرم رکھتے ہیں اور حرم کی ملکہ بھی کنیز ہی ہوتی ہے۔‘‘
ہشام کچھ دیرکے کے لئے بول نہیں سکا، یوں جیسے لفظ ڈھونڈ نے کی کوشش کررہا ہو، پھر اس نے جیسے مدافعانہ انداز میں کہا۔
’’عربوں میں ایسا نہیں ہوتا،ا گر بادشاہ کی چار بیویاں بھی ہوں تو بھی…‘‘
رئیسہ نے بڑی نرمی سے اس کی بات کاٹ دی۔ ’’مجھے کسی بادشاہ سے شادی کرنے کی خواہش نہیں تھی، میں ہشام سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ تمہاری مجبوری ہوسکتی ہے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا، میری مجبوری نہیں ہے۔ میں محبت کرتی ہوں، لیکن دل کے ہاتھوں اتنی مجبور نہیں ہوں کہ تمہارے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچ ہی نہ سکوں۔‘‘
اس کے لہجے میں وہی حقیقت پسندی تھی جس کے لئے ہشام اس کو پسند کرتا تھا مگر آج پہلی بار وہ عقل، وہ سمجھ بوجھ اسے بری لگی تھی۔
’’اتنا کمزور رشتہ تو نہیں ہے ہمارا رئیسہ۔‘‘ اس نے رئیسہ کی بات کے جواب میں کہا۔
’’میرا بھی یہی خیال تھا کہ بہت مضبوط ہے، لیکن میرا خیال غلط تھا۔ میری ممی کبھی بھی ایسی شادیوں کے حق میں نہیں تھیں اور میں سمجھی تھی یہ bais ہے… لیکن آج مجھے احساس ہوا ہے کہ وہ ٹھیک کہتی ہیں… تہذیب کا فرق بہت بڑا ہوتا ہے۔‘‘ رئیسہ کہہ رہی تھی۔ ’’کبھی بھی بہت بڑا مسئلہ بن سکتا ہے جیسے ابھی ہوا… لیکن مجھے خوشی ہے کہ یہ سب پہلے ہوگیا ہے … بعد میں ہوتا تو…‘‘ وہ رکی ، ہشام نے اس کی بات پوری نہیں ہونے دی۔
’’میں تمہاری ممی سے متفق نہیں ہوں۔ محبت کا رشتہ ہر فرق سے بڑا اور طاقت ور ہوتا ہے۔‘‘
’’مانتی ہوں، لیکن وہ تب ہوتا ہے جب مرد کی محبت میرے بابا جیسی pureہو اور وہ میرے بابا کی طرح اپنے فیصلے پر قائم رہ سکے۔‘‘ رئیسہ نے کہا۔ اس نے سالار سکندر کا حوالہ دیا تھا، اگر محبت کے بارے میں اسے کوئی ریفرنس یاد تھا تو وہ اپنے ماں با پ کی آپس میں محبت ہی کا تھا اور وہ حوالہ ہشام نے بہت بارسنا تھا، لیکن آج پہلی بار اس نے ہشام کا موازانہ سالار سکندر سے کیا تھا اور علی الاعلان کیا تھا۔
’’میں بھی اپنی محبت میں بہت کھراہوں اور تمہارے لئے لڑسکتا ہوں۔‘‘ اس نے رئیسہ سے کہا تھا۔ اس کا وہ حوالہ اور موازنہ اسے پہلی بار شدید برا لگا تھا۔ وہ پچھلے کئی ہفتوں سے بحرین میں سر اور آنکھوں بٹھایا جارہا تھا اور یہاں وہ اسے ایک ’’عام آدمی کے سامنے چھوٹا گردان رہی تھی۔
’’ہاں تم ہو محبت میں کھرے، لیکن تم لڑ نہیں سکتے ہشام! نہ مجھے زندگی میں شامل کرنے کے لئے، نہ ہی مجھے اپنی زندگی میں رکھنے کے لئے۔‘‘ رئیسہ نے اب گاڑی کا دروازہ کھول لیا تھا۔
’’میں پھر بھی اپنے ماں باپ کو تمہارے ماں باپ کے پاس رشتے کے لئے بھیجوں گا اور یہ وقت بتائے گا کہ میں تمہارے لئے لڑسکتا ہوں یا نہیں۔‘‘ گاڑی سے باہر نکلتے ہوئے رئیسہ نے اسے کہتے سنا تھا۔ اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ پیچھے کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے ہشام کے جملے کو سنتے ہوئے سوچا تھا۔
٭…٭…٭