آبِ حیات — قسط نمبر ۱۲ (ابداً ابدا)

’’تم سب لوگ جارہے ہو؟‘‘ بار بار پوچھنے اور ا س کا جواب عنایہ سے ہاں میں ملنے کے باوجود ایرک کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ ممکن تھا اور کبھی ہو بھی سکتا تھا۔
’’لیکن کیوں؟‘‘ اگلا سوال کرنے کا خیال اسے بڑی دیر بعد آیا تھا حالانکہ عنایہ اس سوال سے پہلے، اس کا بھی جواب دے چکی تھی۔
’’پاپا چاہتے ہیں، ہم کچھ سال دادا دادی کے پاس رہیں… وہ اکیلے ہیں پاکستان میں۔‘‘ عنایہ نے ہمیشہ کی طرح بڑے تحمل سے اس کے اس سوال کا جواب ایک بار پھر دہرایا۔
’’چند سال؟ کتنے سال؟‘‘ ایرک بے حد پریشان تھا۔
’’پتا نہیں…‘‘ عنایہ نے جواب دیا اور اسے واقعی اس سوال کا جواب نہیں پتا تھا۔
’’لیکن یہ گھر کیوں چھوڑ رہے ہو تم لوگ؟ تمہارے فادر اور جبریل تو نہیں جارہے ؟‘‘ ایرک نے اسی انداز میں کہا تھا۔
’’بابا نیویارک شفٹ ہورہے ہیں، جبریل ویسے ہی یونیورسٹی میں ہے… اتنا بڑا گھر ہماری ضرورت نہیں رہا اب۔‘‘ عنایہ نے دہرایا۔
’’لیکن تم پریشان مت ہو… ہم لوگ امریکا تو آتے جاتے رہیں گے…اور تم پاکستان آسکتے ہو… جب بھی تمہارا دل چاہے۔‘‘ عنایہ کو اندازہ تھا اس کی، اپنی فیملی کے ساتھ جذباتی وابستگی کا… وہ ان کے بغیر اکیلا رہ جانے والا تھا۔
وہ دونوں اس وقت اسکول کے گراؤنڈ سے ایک بینچ پر بریک کے دوران بیٹھے ہوئے تھے… ایرک نے اس کی باتوں کے جواب میں کچھ بھی نہیں کہا۔ وہ بس خاموش بیٹھا رہا تھا یوں جیسے اس صدمے کو سہنے کی کوشش کررہا ہو جو عنایہ کے انکشاف نے اسے دیا تھا۔
’’کیا میں تم لوگوں کے ساتھ نہیں جاسکتا؟‘‘ ایک لمبی خاموشی کے بعد ایرک نے بالآخر اس سے پوچھا۔ اس سوال نے عنایہ کو مشکل میں ڈال دیا۔ جواب وہ جانتی تھی، لیکن دے نہیں سکتی تھی۔
’’تمہاری ممی اور فیملی کو تمہاری ضرورت ہے، تم انہیں چھوڑ کر ہمارے ساتھ کیسے جاسکتے ہو؟‘‘ عنایہ نے اپنے انکار کو بے حد مناسب الفاظ میں اس تک پہنچایا تھا۔
’’ممی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا… میں ان سے اجازت لے سکتا ہوں… کیا آپ لوگ مجھے اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں؟‘‘ ایک اور سوال آیا… عنایہ ایک بار پھر وہیں کھڑی ہوگئی۔
’’ایرک! میں نہیں جانتی… میں ممی اور بابا سے پوچھ سکتی ہوں، لیکن اپنی فیملی کو اس طرح چھوڑ کر ایک دوسری فیملی کے ساتھ جانا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ عنایہ نے کہا تھا۔ وہ تیرہ سال کی تھی اسے بڑوں کی طرح نہیں سمجھا سکتی تھی پھر بھی اس نے کوشش کی تھی۔
ایرک اس کی بات پر خاموش رہا پھر اس نے کہا۔
’’چند سالوں تک میں ویسے ہی یونیورسٹی چلا جاؤں گا… گھر سے تو ویسے بھی جانا ہی ہوگا مجھے۔‘‘ اس نے سوچے سمجھے بغیر کہا۔
’’پھر تو اور بھی ضروری ہے کہ یہ وقت تم اپنی فیملی کے ساتھ گزارو۔‘‘ عنایہ نے اسی نرم لہجے میں کہا۔
’’میں اپنے آپ کو تمہاری فیملی کا حصہ سمجھتا ہوں، کیا تم لوگ ایسا نہیں سمجھتے؟‘‘ ایرک نے جواباً اس سے کہا اور جیسے پھر سے اسے مشکل میں ڈالا۔
’’میں ممی سے بات کروں گی ایرک۔‘‘ عنایہ نے اس سوال سے نکلنے کے لئے جیسے ایک حل تلاش کیا۔
’’اگر آپ لوگ چلے گئے تو میرا گھر ایک بار پھر سے ٹو ٹ جائے گا۔‘‘ ایرک نے اس سے کہا۔
’’میرے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں رہے گی جہاں میں جاسکوں۔‘‘ اس نے جیسے منت والے انداز میں کہا تھا۔ یوں جیسے یہ سب عنایہ کے ہاتھ میں تھا، وہ چاہتی تو سب رک جاتے۔
عنایہ کا دل بری طرح پسیجا تھا۔





’’ایسے مت کہو ایرک… دور جانے سے یہ تھوڑی ہوتا ہے کہ تمہارے ساتھ ہمارا تعلق بھی ختم ہوجائے گا، ہم لوگ ملتے رہیں گے… بات بھی کریں گے…ای میلز بھی… چھٹیوں میں تم ہمارے پاس پاکستان آسکتے ہو… اور ہم یہاں امریکا… کچھ بھی ختم ہونے نہیں جارہا ۔‘‘ عنایہ نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایرک ٹھیک کہہ رہا تھا… فاصلہ دیو ہوتا ہے، سارے تعلق کھا جاتا ہے… پیار کا، دل کا ، دوستی کا ، رشتوں کا۔
’’اگر وہ سب نہیں رک سکتے تو تم رک جاؤ۔‘‘ ایرک نے یک دم ا س سے کہا، وہ بری طرح گڑبڑائی۔
’’میں کیسے رک سکتی ہوں… پہلے ہی حمین ضد کررہا ہے… اور اس کی بات کوئی نہیں مان رہا اور مجھے تو کوئی اعتراض بھی نہیں ہے… میں ممی کی ہیلپ کرنا چاہتی ہوں، دادا دادی کا خیال رکھنے میں۔‘‘ اس نے ایرک سے کہا تھا، وہ بے اختیار اس سے کچھ کہنا چاہتا تھا، لیکن رک گیا۔ اتنے سال عنایہ کے ساتھ پڑھنے، اس کے ساتھ دوستی اور تقریباً ہر روز اس کے گھر جانے کے باوجود ان کے درمیان ایسی بے تکلفی نہیں تھی کہ وہ اسے کچھ بھی کہہ دیتا یا کہہ سکتا۔ عنایہ سکندر کا یہ رکھ رکھاؤ ماں باپ کی طرف سے جینز میں آیا تھا یا خاندانی تربیت تھی، لیکن یہ جس وجہ سے بھی تھا اس نے عنایہ سکندر کو ہمیشہ اپنی کلاس کے لڑکوں کے لئے معمہ بنارکھا تھا اور ایرک کے لئے تخیل… وہ جس معاشرے میں پل بڑھ رہے تھے وہاں آئی لو یو… ہیلو ہائے جیسی چیز بن کر رہ گئی تھی… کوئی بھی، کسی سے بھی، کبھی بھی کہہ سکتا تھا اور سننے کے لئے تیار رہتا تھا۔ نہ یہ بری چیز سمجھی جاتی تھی نہ برا بنادینے والی چیز… اس کے باوجود ایرک کو جھجک محسوس ہورہی تھی اسے لگتا تھا وہ اگر کبھی عنایہ سے اپنی محبت کا اظہار اس طرح کرے گا تو وہ ناراض ہوجائے گی اور پھر شاید اس گھر میں اس کا داخلہ ہی بند ہوجائے گا۔ اور پھراس نے امامہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایسی کوئی بات عنایہ سے نہیں کہے گا جب تک وہ بڑا نہیں ہوجاتا، زندگی میں کچھ بن نہیں جاتا… اور ایرک اب اچانک اپنے آپ کو ایک مخمصے میں پارہا تھا… وہ اب جارہی تھی… شاید ہمیشہ کے لئے… اور پتا نہیں وہ لوگ دوبارہ کبھی مل بھی پاتے یا نہیں تو کیا اسے اس سے کہنا چاہیے تھا وہ سب جو وہ عنایہ کے لئے دل میں محسوس کرتا تھا… یا ایسے ہی خاموش رہنا چاہیے تھا۔
اس دن پہلی بار عنایہ کے حوالے سے ایرک بری طرح پریشان ہوا… اسے یہ نہیں لگ رہا تھا کہ وہ جارہی ہے، اسے لگ رہا تھا وہ اسے کھونے والا ہے… اور اس مسئلے کا کوئی حل فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا اور جو حل وہاں بیٹھے بیٹھے ایرک کی بالآخر سمجھ میں آیا تھا… وہ کس قدر بے وقوفانہ تھا۔ اس کا اسے اندازہ بھی نہیں تھا۔
٭…٭…٭
’’میں آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
یہ اس دو صفحوں پر مشتمل خط کی ہیڈ لائن تھی جو سالار کو ایرک کی طرف سے ملاتھا اور سالار نے بے حد سنجیدگی سے اس خط کو پڑھا تھا۔ وہ متحیر تھا اس لئے نہیں کہ وہ ایرک کی طرف سے ایسے کسی خط کی توقع نہیں کررہا تھا بلکہ اس لئے کہ ا س نے یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ عنایہ اتنی بڑی ہوگئی ہے کہ کوئی اس کے حوالے سے اس سے ایسی بات بھی کرسکتا ہے وہ اس معاملے میں روایتی باپ ہی تھا جسے ابھی بھی اپنی بیٹی بہت چھوٹی لگ رہی تھی۔
امامہ اسے چائے دینے بیڈ روم میں آئی تھی جب اس نے ڈاک چیک کرتے سالار کو ایک کاغذ ہاتھ میں لئے سوچوں میں گم دیکھا۔ وہ چائے کا کپ رکھ کر جانے لگی تھی جب سالار نے اسے روک لیا اور وہ خط اسے تھمادیا۔
امامہ نے کچھ الجھے انداز میں اس خط کو پکڑا تھا، لیکن پہلی سطر پر نظر ڈالتے ہی اس کا دماغ جیسے بھک سے اڑ گیا تھا… دوسری سطر پر نظر ڈالے بغیر بھی وہ جانتی تھی وہ کون ہوسکتا ہے، غصے کی ایک لہر اس کے اندر اتر آئی تھی اور سرخ چہرے کے ساتھ اس نے سالار سے کہا۔ ’’ایرک؟‘‘
سالار نے سرہلاتے ہوئے چائے کا گھونٹ لیا اور اس سے کہا۔ ’’سارا لیٹر پڑھو۔‘‘
امامہ نے خط پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’اسے پڑھے بغیر بھی میں جانتی ہوں اس نے کیا لکھا ہوگا۔‘‘ وہ پھر بھی خط پڑھ رہی تھی۔
خط میں ایرک نے حتی المقدور بے حد مناسب انداز میں سالار سکندر سے عنایہ کے لئے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا… وہ اس سے کس قدر محبت کرتا تھا اور کیوں اس کے لئے عنایہ کا ساتھ ضروری تھا… پھر اس نے سالار کو بتایا تھا کہ وہ اس کے لئے کیا کیا کرسکتا تھا اور عنایہ کو وہ کتنا خوش رکھے گا۔
وہ خط اس کی اپنی بیٹی کے حوالے سے نہ لکھا گیا ہوتا تو سالار اس خط کو پڑھ کر محظوظ ہوتا، ہنستا اور شاید ایرک سے چھیڑ چھاڑبھی کرتا، لیکن وہ اس کی اپنی بیٹی کے حوالے سے تھا… بچکانہ ہوتے ہوئے بھی یہ مسئلہ بچکانہ نہیں رہا تھا۔
’’عنایہ، پسند کرتی ہے ایرک کو؟‘‘ جو پہلا خیال سالار کے ذہن میں آیا تھا وہ اب یہ آیا تھا۔
’’تم کیسی باتیں کرتے ہو سالار… عنایہ بے چاری کو پتا تک نہیں ہے کہ یہ کیا خیالی پلاؤ پکاتا رہتا ہے… اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو وہ مجھ سے کہتی… ایرک ایک فیملی فرینڈ ہے، بوائے فرینڈ نہیں ہے۔‘‘
امامہ نے بے حد ناگواری سے اس کے اس سوال کو بالکل رد کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’یہ ضروری نہیں ہے امامہ! کہ ہمیں اپنی اولاد کے دل کی ہر بات پتا ہو۔‘‘
امامہ نے اس کی بات کاٹ دی اور کہا۔ ’’مجھے ہے۔‘‘ وہ ہنس پڑا۔
’’میں دن رات اس کے ساتھ رہتی ہوں سالار… تم نہیں رہتے… تم باپ ہو اولاد کو اور طرح جانتے ہو، میں ماں ہوں ان کو اور طرح دیکھتی ہوں۔‘‘ اس نے سالار کے ہنسنے پر جیسے وضاحت کی تھی۔
’’تم ٹھیک کہہ رہی ہو، اس کے باوجود یہ ضروری نہیں ہے کہ چوبیس گھنٹے بھی اگر اولاد کو نظروں کے سامنے رکھا جائے تو ان کے دلوں کو بھی جانا جاسکے۔ میں خوش فہمیاں اور غلط فہمیاں دونوں ہی نہیں پالتا، امامہ… باپ ہوں اس لئے حقیقت پسند ہوکر سوچ رہاہوں… ماں کی طرح جذباتی ہوکر نہیں۔‘‘
امامہ چند لمحوں کے لئے خاموش ہوگئی۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا۔ وہ دونوں کئی سالوں سے اکٹھے تھے اسے یہ خوش گمانی نہیں ہونی چاہیے تھی کہ عنایہ کو ایرک کی پسندیدگی کے بارے میں بالکل ہی انداز نہیں ہوگا۔ اس کا دل چاہا کہ نہ ہو… لیکن سالار دماغ کی بات کہہ رہاتھا۔
’’میں عنایہ سے پوچھ لوں گی۔‘‘ اس نے یک دم کہا۔
’’کیا؟‘‘ سالار چائے پیتے پیتے رکا۔
’’ایرک کے حوالے سے… لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا میں کیسے اس سے…‘‘ وہ عجیب طرح سے الجھ کر رکی۔ ’’وہ ابھی بچی ہے۔‘‘
سالار اس کی بات پر ہنسا۔ ’’ہاں، یہ خط پڑھتے ہوئے میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ کوئی میری بیٹی کے بارے میں اس طرح سوچ بھی کیسے سکتا ہے… وہ ابھی بچی ہے… لیکن یہ زندگی ہے اور ہم امریکا میں رہ رہے ہیں، جہاں آٹھ نو سال کے بچے بچیاں بھی بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز کے کانسپٹ سے واقف ہیں۔ اس لئے ہمیں بھی کچھ زیادہ حقیقت پسندی سے اس صورت حال کو دیکھنا پڑے گا… تم ابھی عنایہ سے بات مت کرو… مجھے ایرک سے بات کرنے دو۔‘‘ سالار نے جیسے اس صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک حل نکالا۔
’’اور اس سے مل کر تم کیا کروگے؟‘‘ امامہ کو جیسے یہ حل پسند نہیں آیا تھا۔
’’اسی حوالے سے گفتگو کروں گا… اسے سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ یہ سب بچکانہ ہے اور کیوں ممکن نہیں ہے۔‘‘ سالار نے جواباً کہا۔
’’دو تین سال پہلے بھی ایرک نے ایسی ہی بات کی تھی عنایہ کے بارے میں… تب بھی میں نے اسے سمجھایا تھا کہ ایسا نہیں ہوسکتا، وہ مسلمان نہیں ہے اور بے حد چھوٹا ہے لیکن میں زیادہ سختی سے منع اس لئے نہیں کرسکتی تھی اسے کیوں کہ اس وقت وہ اپنے باپ کی موت کی وجہ سے بہت اپ سیٹ تھا۔ میں نہیں چاہتی تھی وہ اور اپ سیٹ ہو۔‘‘ امامہ نے سالار کو پہلی بار ایرک کے ساتھ ہونے والی وہ گفتگو بتائی تھی۔
سالار اس کی بات پر حیران ہوا۔’’ تم نے کیا کہا تھا تب اس سے؟‘‘
’’میں نے اس سے کہا کہ وہ ابھی صرف اپنی تعلیم پر توجہ دے اور مجھ سے وعدہ کرے کہ وہ عنایہ سے اس بارے میں بات نہیں کرے گا، جب تک وہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کرلیتا۔‘‘ امامہ نے اسے بتایا۔
’’اور وہ مان گیا؟‘‘ سالار نے جواباً اس سے پوچھا۔ امامہ نے سرہلادیا۔
’’اس نے عنایہ سے کبھی کوئی ایسی ویسی بات نہیں کی وجہ وہ مجھے ضرور بتاتی۔‘‘ امامہ نے کہا۔
’’اسی لئے اس نے خط میں ریفرنس دیا ہوا ہے کہ وعدے کے مطابق میں عنایہ کے بجائے آپ سے اپنی خواہش کا اظہار کررہا ہوں… اور میں سمجھ نہیں پارہا تھا کہ وہ کس وعدے کا ریفرنس دے رہا ہے۔‘‘ سالار پہلی بار متاثر نظر آیا تھا۔ امامہ کے چہرے پر اب بھی سنجیدگی تھی۔
’’میرا خیال ہے اب مجھے اس سے ضرور ملنا چاہیے، یہ ساری صورت حال بے حد دلچسپ ہے۔‘‘ سالار نے کہا اور امامہ نے برا منایا۔
’’کیا دلچسپی ہے اس صورت حال میں؟ تمہیں زندگی میں ہمیشہ عجیب و غریب لوگ اور انوکھے حالات ہی اچھے لگے ہیں۔‘‘ وہ کہے بغیر نہیں رہ سکی۔
’’بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو تم… تم سے میری شادی اس کا ثبوت ہے… اور دیکھو یہ کتنی اچھی رہی ہے ہم دونوں کے لئے۔‘‘ وہ اسے چھیڑ رہا تھا… وہ جس مزاح جو اس کی شخصیت کا حصہ تھی۔ زندگی کے اتنے سال ساتھ گزارنے کے باوجود آج بھی اسے لاجواب کردینے کی صلاحیت رکھتا تھا اور وقتاً فوقتاً اس کا مظاہرہ کرتا رہتا تھا۔
’’تم ایرک سے مل کر کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘ امامہ نے اس کے تبصرے کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔
’’بات چیت کرنا چاہتا ہوں، اس کی سچائی دیکھنا چاہتا ہوں، اس پروپوزل کے حوالے سے۔‘‘
وہ ہول کر رہ گئی تھی۔ ’’کیا مطلب ہے تمہارا سالار؟ تم ایک تیرہ سال کے بچے کے پروپوزل کی بات کررہے ہو… ایک غیر مسلم کی… اور تم اپنی بیٹی کے لئے اسے کنسیڈر کرنے کی بات کررہے ہو؟ تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے نا؟ یہ مذاق نہیں ہے…‘‘ امامہ نے بے حد خفا ہوکر اس سے کہا تھا۔
’’ہاں میں جانتا ہوں، یہ مذاق نہیں ہے۔ وہ تیرہ سال کا بچہ ہے، یہ میں بھی جانتا ہوں… غیر مسلم ہے، یہ بھی میں جانتا ہوں… لیکن وہ تیرہ سال کا بچہ اگر دس گیارہ سال کی عمر میں بھی یہی پروپوزل دیتا ہے اور اپنی وعدے کی پاس داری کررہا ہے تو پھر اسے غیر سنجیدگی سے نہیں لے سکتا۔‘‘ سالار اب سنجیدہ ہوگیا تھا۔ امامہ بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
’’تم عنایہ کے لئے اسے considerنہیں کرسکتے… ڈونٹ ٹیل می، کہ تم ایسا کررہے ہو؟‘‘
’’میں صرف اس ایک آپشن کا دیکھ رہا ہو ں جو زندگی میں پہلی بار میری بیٹی کے حوالے سے آیا ہے۔‘‘ سالار نے جواباً کہا تھا۔
’’سالار میں کسی غیر مسلم کا آپشن اپنی بیٹی کے لئے considerنہیں کروں گی۔‘‘ امامہ نے دو ٹوک انداز میں اس سے کہا۔ ’’مذاق میں بھی نہیں۔‘‘ سالار نے اس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے کہا تھا۔




Loading

Read Previous

ہم — کوثر ناز

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!