آبِ حیات — قسط نمبر ۱۲ (ابداً ابدا)

حمین سکندر کا انتخاب MIT کے SPLASHپروگرام میں ہوگیا تھا۔ وہ اپنے اسکول سے اس پروگرام کے لئے منتخب ہونے والا پہلا اور واحد بچہ تھا۔ اس پروگرام کے تحت MIT ہر سال غیر معمولی ذہانت کے حامل کچھ بچوں کو دنیا کی اس ممتاز ترین یونیورسٹی میں چند ہفتے گزارنے اور وہاں پڑھانے والے دنیا کے قابل ترین اساتذہ سے سیکھنے کا موقع دیتی۔ یہ بہترین دماغوں کو بے حد کم عمری میں ہی کھوجنے، پرکھنے اور چننے کا MIT کا اپنا ایک عمل تھا۔
امامہ اور سالار کے لئے، حمین سکندر کے اسکول کی طرح یہ بے حد اعزاز کی بات تھی، لیکن اس کے باوجود وہ یہ جاننے پر کہ حمین سکندر کا انتخاب ہوگیا تھا، فکر مند ہوئے تھے۔ وہ جبریل سکندر کو تن تنہا کہیں بھی بھیج سکتے تھے، لیکن حمین کو اکیلے، اس عمرمیں اتنے ہفتوں کے لئے کہیں بھیجنا ان کے لئے بے حد مشکل فیصلہ تھا۔ خاص طور پر امامہ کے لئے جو اس دس سال کے بچے کو خود سے الگ کرکے اس طرح اکیلے بھیجنے پر بالکل تیار نہیں تھی، لیکن وہ اسکول کا اصرار اور حمین کی ضد تھی، جس نے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔
’’ہم ان کی قسمت کو کنٹرول نہیں کرسکتے… کل کیا ہونا ہے… کس طرح ہوناہے… کوئی چیز ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے تو میں مستقبل کے خوف کی وجہ سے انہیں گھر میں قید نہیں کروں گا کہ دنیا انہیں کوئی نقصان پہنچا دے۔‘‘ سالار نے واضح طور پر اس سے کہا تھا۔
’’اسے جانے دو… دیکھنے اور کھوجنے دو دنیا کو… ہماری تربیت اچھی ہوگی تو کچھ نہیں ہوگا اسے…‘‘ اس نے امامہ کو تسلی دی تھی اور وہ بھاری دل سے مان گئی تھی۔
حمین سکندر ساڑھے دس سال کی عمر میں پہلی بار MITکی دنیا کھوجنے گیا تھا… ایک عجیب تجسس اور جوش و خروش کے ساتھ … MIT سے زیادہ اسے اس بات پر ایکسائٹمنٹ ہورہی تھی کہ وہ کہیں اکیلا جارہا تھا… کسی بڑے کی طرح۔
اسے گھر سے بھیجتے ہوئے ان سب کا خیال تھا، وہ وہاں چند دن سے زیادہ نہیں رہ پائے گا۔ ایڈجسٹ نہیں ہوگا۔ ہوم سک ہوجائے گا اور واپس آنے کی ضد کرے گا۔ ان کی توقعات بالکل غلط ثابت ہوئی تھیں۔ ایسا بالکل نہیں ہوا تھا۔ حمین سکندر وقتی طور پر ہی سہی لیکن وہاں جاکر وہ سب کچھ بھول گیا تھا۔ وہ ’’دنیا‘‘ تھی اور ’’دنیا‘‘ نے اس ساڑھے دس سال کے بچے کو بری طرح fascinate کیا تھا۔
اس دنیا میں ذہانت ، واحد شناختی علامت تھی اور وہ بے حد ذہین تھا۔ وہاں سے واپس آتے ہوئے وہ اپنے ماں باپ کے لئے یہ خوش خبری بھی لایا تھا کہ وہ SPLASH میں آنے والا دنیا کا ذہین ترین دماغ قرار دیا گیا تھا۔ 150 کی ذہانت رکھنے والے صرف چند بچوں میں سے ایک… جنہوں نے اس پروگرام کو اس شناخت کے ساتھ اٹینڈ کیا تھا اور اپنی صلاحیتوں کے حساب سے ان بچوں میں سرفہرست… حمین سکندر کو نہ صرف اس کی ذہنی صلاحیتوں کی وجہ سے سنگل آؤٹ کیا گیا تھا، بلکہ MIT نے اسے ان بچوں میں بھی سرفہرست رکھا تھا جن کی پرورشMIT مستقبل کے ذہین ترین دماغوں کی کھوج کے پروگرام کے تحت کرنا چاہتی تھی۔
اور حمین بے حد خوش تھا۔ اس سب کے اغراض و مقاصد سے پوری طرح باخبر نہ ہونے کے باوجود وہ صرف اسی بات پر خوش تھا کہ اسے اب بار بار MIT میں جانے کے مواقع ملنے والے تھے کیوں کہ اس ادارے نے کچھ منتخب بچوں کے لئے ہر سال MIT کے کچھ پروگرامز میں شرکت اوپن کردی تھی، یہ ان بچوں کی ذہانت کو ایک خراج تحسین اور مراعت تھی۔





’’مجھے ہر سال وہاں جانا ہے۔‘‘ اس نے گھر آتے ہی کھانے پر ماں باپ کو اطلاع دی تھی جنہوں نے اس کی بات کو زیادہ توجہ سے نہیں سنا تھا۔ اگر کسی چیز پر سالار سکندر نے غور کیا تھا، تو وہ یہ تھی کہ وہ اتنے دن ان سے الگ رہنے کے باوجود بے حد خوش اور مطمئن تھا۔
’’نہیں میں نے کسی کو مس نہیں کیا۔ میں نے وہاں بہت انجوائے کیا۔‘‘ اس نے اپنی ازلی صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امامہ کی ایک بات کے جواب میں اعلان کیا تھا اور وہ دونوں اسے دیکھ کر رہ گئے تھے۔
وہ بڑا ہوتا اور ایسی بات کرتا تو وہ زیادہ غور نہ رکتے، لیکن وہ ایک بچہ تھا اور اگر کسی جگہ کے ماحول میں اس قدر مگن ہوگیا تھا کہ اسے اپنی فیملی بھی بھول گئی تھی اور وہ اپنے گھر اور گھر والوں سے مضبوط روابط ہونے کے باوجود انہیں بھول گیا تھا تو یہ کوئی بڑی حوصلہ افزابات نہیں تھی ان دونوں کے لئے۔
’’آپ کو پتا ہے بابا مجھے اگلے سال ڈھیر ساری مراعات ملیں گی، جب میں وہاں جاؤں گا پھر اس سے اگلے سال اس سے بھی زیادہ… پھر اس سے اگلے سال اس سے بھی زیادہ… پھر اس سے اگلے سال اس سے بھی زیادہ…‘‘ وہ بے حد ایکسائٹمنٹ سے ان دونوں کو بتارہا تھا۔ یوں جیسے وہ یہ پلان خود ہی کرکے آیا تھا کہ اسے اب وہاں ہر سال جانا تھا۔
’’آپ کو پتا ہے میں MIT کے کسی بھی سمر پروگرام کے لئے اپلائی کروں تو مجھے داخل کرلیں گے وہ اور مجھ سے کوئی فیس نہیں لیں گے بلکہ مجھے وہاں سے سب کچھ فری ملے گا۔‘‘ اس کا خیال تھا اس کے ماں باپ اس خبر پر اسی کی طرح ایکسائیٹڈ ہوجائیں گے۔ وہ ایکسائیٹڈ نہیں ہوئے تھے، وہ سوچ میں پڑ گئے تھے۔
’’تو بابا آپ مجھے ہر سال وہاں بھیجا کریں گے نا؟‘‘ اس نے بالآخر سالار سے کہا۔ وہ جیسے آتے ہی جانے کی یقین دہانی چاہتا تھا۔
’’اگلا سال بہت دور ہے حمین… جب اگلا سال آئے گا تو دیکھا جائے گا۔‘‘ سالار نے گول مول انداز میں اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’لیکن ہمیں پلاننگ تو ابھی سے کرنی چاہیے نا۔‘‘ وہ حمین کو دیکھ کر رہ گیا تھا۔ وہ پہلی بار کسی کام کو پلان کرنے کی بات کررہا تھا۔ یہ اس ننھے ذہن پر MITکا پہلا اثر تھا۔
’’میں نے سوچا ہے میں MIT سے ہی پڑھوں گا۔‘‘ ا س نے جیسے باپ کو بتایا تھا۔
وہ دونوں اس کی بات سے محظوظ ہوئے۔ وہاں جانے سے پہلے تک وہ تعلیم میں دلچسپی نہ رکھنے کا اعلان کرتا رہتا تھا اور ا س کو یقین تھا، دنیا کا بڑا انسان وہ ہوتا ہے جو صرف ہائی اسکول تک پڑھے اور بس… اور وہ چونکہ خود بھی ایک بڑا انسان بننا چاہتا تھا تو وہ بھی صرف ہائی اسکول تک ہی پڑھنا چاہتا تھا۔
’’اور اس کے بعد؟‘‘ سالار نے سے پوچھا۔
’’اس کے بعد میں نوبل جیتوں گا۔‘‘ اس نے بے حد اطمینان سے کہا تھا۔ یوں جیسے وہ اسپیلنگ بی کی بات کررہا ہو۔ وہ دونوں اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئے۔
٭…٭…٭
’’آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں پاپا؟‘‘ سالار نے بے حد نرمی سے سکندر عثمان سے پوچھا تھا۔
وہ دوگھنٹے سے ان کے پاس بیٹھا باتیں کرنے سے زیادہ ان کی باتیں سن رہا تھا۔ ان کی گفتگو میں اب الزائمر جھلکنے لگا تھا۔ وہ جملوں کے درمیان رک کر کسی لفظ کو یاد نہ آنے پر گڑ بڑاتے الجھتے جھنجھلاتے … اور بھول جاتے… اور پھر وہ بات کرتے کرتے اٹھ کر کمرے میں ادھر ادھر جاتے ہوئے چیزیں اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگتے تھے۔ یوں جیسے انہیں کسی چیز کی تلاش تھی۔ سالار نے انہیں بالآخر ٹوک کر پوچھ ہی لیا تھا۔
’’یہیں رکھا تھا۔‘‘ انہوں نے سالار کی بات کے جواب میں کہا۔ وہ اپنے بیڈ کے سائڈ ٹیبل کے پاس کھڑے تے۔ سالار بہت دور صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔
’’کیا؟‘‘ سالار نے کریدا…
’’ایک سگار باکس کامران نے بھیجا تھا ، وہی دکھانا چاہتا تھا تمہیں۔‘‘ انہوں نے بے حد جوش سے کہا اور ایک بار پھر تلاش شروع کردی۔
سگار باکس چھوٹی چیز نہیں تھا۔ وہ اس کے باوجود اسے تکیے اٹھا اٹھا کر ڈھونڈ رہے تھے۔ پتا نہیں اس وقت ان کے ذہن میں ڈھونڈنے والی چیز کی کوئی شکل بھی تھی یا نہیں۔ وہ الزائمر کے اس مریض کو پہلی بار اس حالت میں مرض کے اثرات کے ساتھ دیکھ رہا تھا جو اس کا باپ تھا۔
’’شاید ملازم نے کہیں رکھا ہے۔ میں اسے بلاتا ہوں۔‘‘ انہوں نے بالآخر تھک کر کہا تھا۔ وہ اب واپس سالار کے اس آکر بیٹھ گئے تھے اور انہوں نے اسے آواز دینی شروع کردیں۔ سالار نے انہیں ٹوکا۔
’’پاپا انٹر کام ہے، اس کے ذریعے بلائیں۔‘‘ سالار نے سائڈ ٹیبل پر پڑے انٹر کام کا ریسور اٹھاتے ہوئے باپ سے کہا۔
’’اس سے وہ نہیں آتا۔‘‘ انہوں نے جواباً کہا اور دوبارہ اسے آوازیں لگانے لگے۔
وہ ایک ہی سانس میں جسے آوازیں دے رہے تھے، ان کے گھر اس وقت وہ ملازم موجود نہیں تھا، وہ چھٹی پر تھا اور سالار یہ جانتا تھا۔ وہ ان کا پرانا ملازم تھا۔ اسے لگا اسے باپ کی مدد کرنی چاہیے۔ ملازم کو خود بلانا چاہیے۔
’’نمبر بتادیں، میں بلاتا ہوں اسے…‘‘ سالار نے سکندر عثمان کو ایک بار پھر ٹوکا تھا۔
’’نمبر نہیں پتا، ٹھہرو میں فون سے دیتا ہوں تمہیں۔‘‘ انہوں نے اس کی بات کے جواب میں کہا تھا اور پھر رکے بغیر اپنی جیبیں ٹٹولنے لگے۔
سالار عجیب کیفیت میں انٹر کام کا ریسور ہاتھ میں لئے بیٹھا رہا۔ وہ سیل فون جسے اس کا باپ تلاش کررہا تھا، وہ سامنے میز پر پڑا تھا۔ وہ اس انٹر کام کے نمبر کو اپنے سیل فون کی یادداشت میں ڈھونڈنا چاہتے تھے اور وہ انٹر کام پر اس ملازم کا یک حرفی نمبر یاد نہیں رکھ پاتے تھے۔ وہ الزائمر جس کے ہاتھوں اپنے باپ کو زیر ہوتے دیکھ رہا تھا۔ تکلیف بڑا چھوٹا لفظ تھا اس کیفیت کے لئے جو اس نے محسوس کی تھی۔
وہ بہت عرصے کے بعد امامہ اور بچوں کے ساتھ دو ہفتے کے لئے پاکستان آیا تھا۔ طیبہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور سالار اور ان کی ملاقات کئی مہینوں سے نہیں ہوئی تھی اور اب وہ طیبہ کے ہی بے حد اصرار پر بالآخر پاکستان آیا تھا اپنی فیملی کے ساتھ، تو اپنے والدین کی حالت کو دیکھ کر بہت اپ سیٹ ہوا تھا۔ خاص طور پر سکندر عثمان کو دیکھ کر…
اس نے انہیں ہمیشہ بے حد صحت مند اور چاق و چوبند دیکھا تھا۔ وہ ایک مشین کی طرح کام کرتے رہے تھے ساری زندگی… اور کام ان کی زندگی کی سب سے پسندیدہ تفریح تھی اور اب وہ بڑی حد تک گھر تک محدود ہوگئے تھے ۔ گھر میں سکندر عثمان اور نوکروں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔
اسلام آباد میں ہی مقیم سالار کا بڑا بھائی اپنی فیملی کے ساتھ اپنے گھر میں رہتا تھا۔ وہ سکندر عثمان اور طیبہ کو اپنے ساتھ تو رکھنے پر تیار تھا، لیکن وہ، اس کے بیوی بچے، سکندر عثمان کے اس پرانے گھر میں شفٹ ہونے پر تیار نہیں تھے اور طیبہ اور سکندر عثمان اپنا گھر چھوڑ کر بیٹے کے گھر نہیں جانا چاہتے تھے۔ سالار سمیت سکندر کے تینوں بیٹے بیرون ملک تھے، بیٹی کراچی۔ وہ گھر جو کسی زمانے میں افراد خانہ کی چہل پہل سے گونجتا تھا، اب خالی ہوچکا تھا۔
سالار پہلی بار سکندر عثمان کی بیماری کے انکشاف پر بھی بے حد اپ سیٹ ہوا تھا۔ وہ انکشاف اس پر اس کی سرجری کے کئی مہینوں بعد ہوا تھا اور وہ بھی بے حد اتفاقی انداز میں جب سکندر عثمان اپنے ایک طبی معائنہ کے لئے امریکہ گئے تھے اور سالار کو ان کی بیماری کی تفصیلات کا پتا چلاتھا۔
’’آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟‘‘ اس نے سکندر عثمان سے شکایت کی تھی۔ انہوں نے جواباً بے حد لاپروا انداز میں ہنستے ہوئے کہا تھا۔
’’کیا بتاتا یار… مجھے اپنی بیماری سے زیادہ تمہاری بیماری کا دکھ ہے… میں ستر کا ہوچکا ہوں… کوئی بیماری ہو نہ ہو، کتنا جیوں گا میں؟ اور اس عمر میں الزائمر کے بغیر بھی کچھ یاد نہیں رہتا انسان کو…‘‘ وہ اپنی بیماری کو معمولی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کررہے تھے، ایسے جیسے یہ کوئی بات ہی نہیں۔
اور اب وہی بیماری اس کے سامنے اس کے باپ کی یادداشت کو گھن کی طرح کھانے لگی تھی۔ زندگی عجیب شے ہے، انسان اس کے طویل ہونے کی دعا بھی کرتا ہے اور اس کی طوالت کے اثرات سے ڈرتا بھی ہے۔ سکندر عثمان ابھی تک سیل فون ڈھونڈے جارہے تھے۔ سالار نے فون اٹھا کر باپ کے ہاتھ میں دے دیا۔
’’اوہ… اچھا… ہاں… یہ رہا۔‘‘ انہوں نے فون ہاتھ میں لیا، پھر سوچنے لگے تھے، کس لئے لیا تھا۔
’’یہ فون کس لئے دیا ہے تم نے…؟‘‘ میں نے مانگا تھا کیا؟‘‘ وہ اب اس سے پوچھ رہے تھے۔ کوئی چیز سالار کے حلق میں گولہ بن کر پھنسی۔
’’نہیں… بس میں دینا چاہ رہاتھا آ پ کو…‘‘ وہ کہتے ہوئے یک دم اٹھ گیا۔ وہ باپ کے سامنے رونا نہیں چاہتا تھا۔
’’تم اتنی جلدی جارہے ہو… کیا اور نہیں بیٹھو گے؟‘‘ وہ جیسے مایوس ہوئے تھے۔
’’بیٹھوں گا… تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔‘‘ وہ ان سے نظریں چراتا، بھرائی آواز میں کہتا ہوا وہاں سے نکل گیا تھا۔
اپنے بیڈروم سے متصل باتھ روم میں، باتھ ٹب کے کنارے بیٹھا وہ خود پر قابو نہیں رکھ سکاتھا۔ وہ سکندر عثمان سے بے حد قریب تھا اور یہ قربت آج عجیب طرح سے اذیت دے رہی تھی اسے، وہ اپنی زندگی کے ہنگاموں میں اتنا مصروف رہا تھا کہ اس نے سکندر عثمان کی بگڑتی ہوئی ذہنی حالت کو نوٹس ہی نہیں کیا تھا۔ نوٹس تو تب کرتا جب وہ ان سے باقاعدہ مل پاتا۔
SIF سے گرداب کی طرح الجھائے ہوئے تھا۔ اس کے پروجیکٹس نے اب اس کے پیروں کو پروں میں تبدیل کردیاتھا۔ وہ سفر میں رہتا تھا۔ چار پانچ سال میں SIF دنیا کی بڑی فنانشنل مارکیٹس میں ایک شناخت بنارہا تھا۔ بے حد منفرد، تیز رفتار ترقی کے ساتھ… اور کام کی اس رفتار نے اسے بہت سی چیزوں سے بے خبر بھی کیا تھا۔ وہاں بیٹھے ہوئے اس نے اعتراف کیا تھا اور اب وہ حل ڈھونڈ رہاتھا اور حل ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہا تھا۔
وہ دونوں ان کے ساتھ مستقل امریکہ شفٹ ہونے پر کبھی تیار نہیں ہوتے، سالار کو اس کا اندازہ تھا اور امریکہ چھوڑ کر ان کے پاس مستقل آجانا سالار کے لئے ممکن نہیں تھا۔ اس کے باوجود حل سامنے تھا۔ بے حد مشکل تھا ، لیکن موجود تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ہم — کوثر ناز

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!