آبِ حیات — قسط نمبر ۱۲ (ابداً ابدا)

’’حمین! یہ وقت ہے آئس کریم کھانے اور وہ بھی اس طرح…‘‘ اس کا اشارہ اس کے کین کے اندر ہی آئس کریم کھانے کی طرف تھا۔
’’میں نے صرف ایک سکوپ کھانی تھی۔‘‘ وہ ماں کے یک دم نمودار ہونے اور اپنے اس طرح پکڑے جانے پر گڑبڑایا تھا۔
’’لیکن یہ کھانے کا کوئی وقت نہیں ہے۔‘‘ امامہ نے اس کے ہاتھ سے چمچ لیا اور ڈھکن سے کین بند کرنے لگی۔
’’ابھی تو واقعی ایک چمچ ہی کھائی ہے میں نے۔‘‘ وہ بے اختیار کراہا۔
’’دانت صاف کرکے سونا۔‘‘ امامہ نے اس کے جملے کو نظر انداز کرتے ہوئے کین کو واپس فریزر میں رکھ دیا۔ حمین جیسے احتجاجاً اسی انداز میں اسٹول پر بیٹھا رہا ۔
’’ایک تو میں آج ہارا اور میں نے اپنا ٹائٹل کھو دیا۔ دوسرا آپ مجھے آئس کریم کے دو اسکوپس تک نہیں لینے دے رہیں۔‘‘ اس نے جیسے ماں سے احتجاجاً کہا۔
وہ چند لمحوں کے لئے کاؤنٹر کے دوسری طرف کھڑی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اسے دیکھتی رہی، پھر اس نے مدھم آواز میں کہا۔
’’ٹائٹل تم نے اپنی مرضی سے کھویا ہے، تمہاری اپنی چوائس تھی یہ۔‘‘ حمین کوجیسے کرنٹ لگا تھا۔ وہ ماں کو دیکھتا رہا، پھر اس نے کہا۔
’’آپ کو کس نے بتایا یہ؟‘‘
’’تمہارے لئے یہ جاننا ضروری نہیں۔‘‘ امامہ نے کہا۔
’’آل رائٹ… مجھے پتا ہے۔‘‘ اس نے ماں سے نظریں ملائے بغیر کہا۔
’’کس نے؟‘‘ امامہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
’’بابا نے…‘‘ اس کا جواب کھٹاک سے آیا تھا۔ وہ دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے کو ہاتھ کی پشت کی طرح جانتے تھے۔
’’بہت غلط کام تھا… تمہیں یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘ امامہ نے جیسے اسے ملامت کرنے کی کوشش کی۔
’’تم نے یہ کیوں کیا؟‘‘
’’آپ جانتی ہیں ممی…‘‘ وہ اسٹول سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا تھا۔
’’رئیسہ کے لئے؟‘‘ امامہ نے وہ جواب دیا جس کی طرف اس نے اشارہ کیا تھا۔
’’فیملی کے لئے…‘‘ جواب کھٹاک سے آیا تھا۔ ’’آپ نے سکھایا تھا اپنے بہن بھائیوں سے مقابلہ نہیں ہوتا۔ میں جیت جاتا تو اسے ہرا کر ہی جیتتا ناں۔ اسے بہت دکھ ہوتا۔‘‘ امامہ بول نہیں سکی۔
وہ دس سال کا تھا، لیکن بعض دفعہ وہ سو سال کی عمر والوں جیسی باتیں کرتا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ اس سے کیا کہتی۔ ڈانٹتی؟ نصیحت کرتی؟ حمین سکندر لاجواب نہیں کرتا تھا، بے بس کردیتا تھا۔
’’گڈ نائٹ…‘‘ وہ اب وہاں سے چلا گیا تھا۔ امامہ اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔
ان سب کا حمین کے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ صرف اپنے بارے میں سوچتا تھا۔ وہ لاپروا تھا۔ حساس نہیں تھا، نہ ہی وہ دوسروں کا زیادہ احساس کرتا تھا۔
بڑوں کے بعض خیالات اور بعض اندازے یہ بچے بڑے غلط موقع پر ثابت کرتے ہیں۔ امامہ چپ چاپ کھڑی اسے جاتا دیکھتی رہی۔ سالار نے ٹھیک کہا تھا۔ اسے اپنی اولاد پر فخر ہوا تھا۔
٭…٭…٭





’’بابا آپ رئیسہ سے بات کرسکتے ہیں؟‘‘ عنایہ نے ایک دو دن بعد سالار سے کہا۔ وہ اس وقت ابھی آفس سے واپس آیا تھا اور کچھ دیر میں اسے کہیں جانے کے لئے نکلنا تھا۔ جب عنایہ اس کے پاس آئی تھی اور اس نے بنا تمہید اس سے کہا تھا۔
’’کس بارے میں…؟‘‘ سالار نے جیسے کچھ حیران ہوکر پوچھا۔ فوری طور پر اس کے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں آئی تھی جس پر اسے رئیسہ سے بات کرنی پڑتی۔
’’وہ اپ سیٹ ہے… وہی اسپیلنگ بی کی وجہ سے…‘‘ عنایہ نے اس کو بتانا شروع کیا۔
’’میں اس کو سمجھا رہی ہوں، لیکن مجھے لگتا ہے۔ میری بات اس کو سمجھ میں نہیں آرہی، وہ دوبارہ اسپیلنگ بی میں حصہ لینا چاہتی ہے اور وہ ہر روز رات کو بیٹھ کر تیاری کرتی ہے اور مجھے بھی کہتی ہے کہ میں اسے تیاری کرواؤں۔‘‘ عنایہ اب اسے تفصیل سے مسئلہ سمجھا رہی تھی۔
’’پہلے تو حمین تیاری کروا رہا تھا اسے…‘‘ سالار کو یاد آیا۔
’’ہاں حمین اور میں نے، دونوں نے کروائی تھی، لیکن اب وہ حمین سے کچھ بھی سیکھنا نہیں چاہتی۔ وہ مجھ سے کہتی ہے کہ میں اسے تیاری کرواؤں۔‘‘
’’مجھے تیاری کرانے پر اعتراض نہیں ہے لیکن مجھے نہیں پتا کہ اسے دوبارہ حصہ لینا چاہیے یا نہیں… پھر ابھی تو ایک سال پڑا ہے اس مقابلے میں… اسے اپنی اسٹڈیز پر زیادہ دھیان دینا چاہیے۔‘‘ عنایہ دھیمے لہجے میں باپ کو سب بتاتی گئی تھی۔
سالار کو غلطی کا احساس ہوا۔ اسے رئیسہ سے فوری طور پر بات کرنی چاہیے تھی۔ یہ اس کی غلط فہمی تھی کہ وہ ایک آدھ دن میں ٹھیک ہوجاتی۔
’’اسے بھیجو…‘‘ اس نے عنایہ سے کہا۔ وہ چلی گئی۔ سالار نے اپنی گھڑی دیکھی۔ اس کے پاس بیس منٹ تھے گھر سے نکلنے کے لئے۔ وہ کپڑے پہلے ہی تبدیل کرچکا تھا اور اب کچھ فائلیں دیکھ رہا تھا۔ رئیسہ اور عنایہ ، امامہ کی نسبت اس سے زیادہ قریب تھیں۔ انہیں جو بھی اہم بات کرنی ہوتی تھی وہ امامہ سے بھی پہلے سالار سے کرتی تھیں۔
’’بابا…‘‘ دروازہ پر دستک دے کر رئیسہ اندر داخل ہوئی تھی۔
’’آؤ بیٹا…‘‘ صوفے پر بیٹھے ہوئے سالار نے استقبالیہ انداز میں اپنا ایک بازو پھیلایا تھا۔ وہ اس کے قریب صوفے پر آکر بیٹھ گئی۔
سالار نے اسے صوفے سے اٹھا کر سامنے پڑی سینٹر ٹیبل پر بٹھا دیا۔ وہ کچھ جزبز ہوئی تھی لیکن اس نے احتجاج نہیں کیا۔ وہ دونوں اب بالکل آمنے سامنے تھے۔ سالار کچھ دیر کے بعد خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ گول شیشوں والی عینک سے اسے دیکھتے ہوئے وہ ہمیشہ کی طرح بے حد توجہ سے اس کی بات سننے کی منتظر تھی۔
اس کے گھنے سیاہ بالوں میں بندھا ہوا ربن تھوڑا ڈھیلا تھا، جو اس کے کندھوں سے کچھ نیچے جانے والے بالوں کو گدی سے لے کر سر کے بالکل درمیان تک باندھے ہوئے تھا، لیکن ایک طرف ڈھلکا ہوا تھا۔ ماتھے پر آنے والے بالوں کو روکنے کے لئے رنگ برنگی ہیئر پنز سے اس کا سر بھرا ہوا تھا، یہ عنایہ کا کارنامہ تھا۔
رئیسہ کو ربنز پسند تھے۔ سالار کو یاد بھی نہیں تھا وہ اس کے لئے کتنے ربنز خرید چکا تھا، لیکن ہر روز نہ بدلے جانے والے کپڑوں کے ساتھ میچنگ ربنز دیکھ کر اسے اندازہ ہوتا تھا کہ رئیسہ اس معاملے میں خود کفیل تھی۔
سالار نے اس کے بالوں کے ربن کی گرہ ٹھیک کی اور ہاتھ سے اس کے بالوں کو سنوارا۔
’’عنایہ نے مجھے بتایا تم اپ سیٹ ہو…‘‘ سالار نے بالآخر بات کا آغاز کیا۔
وہ یک دم نادم ہوئی۔ ’’نہیں… نہیں تو…‘‘ اس نے گڑبڑا کر سالار سے کہا۔
سالار اسے دیکھتا رہا، رئیسہ نے کچھ لمحے اس کی آنکھوں میں دیکھنے کی کوشش کی، پھر نظریں چرالیں، پھر جیسے کچھ مدافعانہ انداز میں ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
’’میں اپ سیٹ نہیں یہ تو چھوٹی سی بات ہے۔‘‘ اس نے اب سرجھکالیا تھا۔
’’پھر اپ سیٹ کیوں ہو؟‘‘ سالار نے جواباً پوچھا۔
’’کیوں کہ میں بدقسمت ہوں۔‘‘ اس نے بے حد ہلکی آواز میں کہا۔
سالار بول ہی نہ سکا اسے، اس سے اس جملے کی توقع نہیں تھی۔
’’ایسا نہیں کہتے رئیسہ!‘‘
سالار سیدھا بیٹھے بیٹھے آگے کو جھک آیا۔ وہ اب کہنیاں اپنے گھٹنوں پر ٹکائے اس کے دونوں ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔
اس کے ہاتھوں پر آنسوؤں کے قطرے گرے تھے۔ وہ سرجھکائے ، باپ کے سامنے بیٹھی اب رو رہی تھی۔ اس کے گلاسز دھندلا گئے تھے۔ سالار کو تکلیف ہوئی۔ یہ پہلا موقع تھا، اس نے رئیسہ کو اس طرح روتے دیکھا تھا۔ عنایہ بات بات پر رو پڑنے والی تھی، رئیسہ نہیں۔
’’میں ہوں۔‘‘ وہ ہچکیوں کے درمیان کہہ رہی تھی۔
’’نہیں، تم بدقسمت نہیں ہو۔‘‘ سالار نے اس کے گلاسز اتارتے ہوئے انہیں میز پر رکھا اور رئیسہ کو اٹھا کر گود میں بٹھالیا۔
وہ باپ کی گردن میں بازو ڈالے اس کے ساتھ لپٹی ہوئی رو رہی تھی، جیسے وہ اسپیلنگ بی آج ہی ہاری تھی۔ سالار کچھ کہے بغیر تشفی کرنے والے انداز میں اسے تھپکتا رہا۔
’’میں نے آپ کو شرمندہ کیا بابا!‘‘ ہچکیوں کے درمیان اس نے رئیسہ کو کہتے سنا۔
’’بالکل بھی نہیں رئیسہ… مجھے تم پر فخر ہے۔‘‘ سالار نے کہا۔
امامہ بالکل اسی لمحے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آئی تھی اور وہیں ٹھٹک گئی تھی۔ سالار نے ہونٹوں پر انگلی کے اشارے اسے خاموش رہنے کا کہا تھا۔
’’میں نے اتنی محنت کی تھی، لیکن میں کبھی حمین، جبریل بھائی اور عنایہ آپی کی طرح کچھ بھی جیت نہیں سکتی کیوں کہ میں لکی نہیں ہوں۔‘‘ وہ اس کے سینے میں منہ چھپائے اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔
سالار کی طرح امامہ کو بھی عجیب تکلیف ہوئی تھی اس کی اس بات سے۔ وہ صوفے پر آکر سالار کے برابر میں بیٹھ گئی تھی۔ کافی کا وہ مگ اس نے ٹیبل پر رکھ دیا جو وہ سالار کو دینے آئی تھی۔
یہ سالار نہیں تھا، امامہ تھی جس نے رئیسہ پر جان ماری تھی… اسے بولنا اور درست بولنا سکھانے کے لئے… اسے پڑھنے لکھنا سکھانے کے لئے…
سالار نے اسے صرف گود لیا تھا۔ امامہ نے اس کی زندگی بدل دی تھی اور اس کا خیال اب سب کچھ ٹھیک تھا… لیکن وہ فرق جو وہ اپنے آپ میں اور ان تینوں میں دیکھ رہی تھی، اس نے ان دونوں کو ہی پریشان کیا تھا۔
وہ رونے دھونے کے بعد اب خاموش ہوگئی تھی۔ سالار نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا۔
’’اب بس۔‘‘ رئیسہ نے گیلے چہرے کے ساتھ سرہلایا۔
اس کے بال ایک بار پھر بے ترتیب تھے۔ ربن ایک بار پھر ڈھیلا ہوچکا تھا۔ سالار سے الگ ہوتے ہوئے اس نے امامہ کو دیکھا تھا اور جیسے کچھ اور نادم ہوئی۔ سالار نے اسے ایک بار پھر ٹیبل پر بٹھادیا۔
’’تمہیں کیوں لگتا ہے وہ تینوں لکی ہیں اور تم نہیں؟‘‘ سالار نے اسے بٹھانے کے بعد اس کے گلاسز اٹھا کر ٹشو سے ان کے گیلے شیشے رگڑتے ہوئے اس سے پوچھا۔
’’کیوں کہ وہ جس چیز میں حصہ لیتے ہیں جیت جاتے ہیں، میں نہیں جیتتی۔‘‘ وہ ایک بار پھر رنجیدہ ہوئی۔ ’’وہ ایگزامز میں مجھ سے زیادہ اچھے گریڈز لیتے ہیں۔ میں کبھی اے پلس نہیں لے سکتی۔ میں کوئی بھی ایسا کام نہیں کرسکتی جو وہ نہیں کرسکتے، لیکن وہ بہت سے ایسے کام کرسکتے ہیں جو میں نہیں کرسکتی۔ آٹھ سال کی وہ بچی اوسط درجہ کی ذہانت رکھتی تھی، لیکن اس کا تجربہ بہت عمدہ تھا۔
’’دنیا میں صرف ہر مقابلہ جیتنے والے لکی نہیں ہوتے۔ سب کچھ کر پانے والے لکی نہیں ہوتے۔ لکی وہ ہوتے ہیں جنہیں یہ پتا چل جائے کہ وہ کس کام میں کوشش کریں اور فالتو کاموں میں اپنی انرجی ضائع نہ کریں۔‘‘ سالار اب اسے سمجھا رہا تھا۔ رئیسہ کے آنسو تھم چکے تھے۔ وہ اب باپ کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
’’تم نے بہت اچھی کوشش کی لیکن بس تم اسپیلنگ بی میں اتنا ہی اچھا پرفارم کرسکتی تھی۔ وہاں کچھ بچے ایسے ہوں گے جو تم سے زیادہ اچھے تھے اور انہوں نے تمہیں ہرا دیا… لیکن ان درجنوں بچوں کا سوچو جنہیں تم ہرا کر فائنل راؤنڈ میں پہنچی تھیں۔ کیا وہ بھی بدقسمت ہیں… وہ کیا یہ سوچ لیں کہ وہ ہمیشہ ہاریں گے؟‘‘ سالار اس سے پوچھ رہا تھا۔ رئیسہ نے بے ساختہ سرنفی میں ہلایا۔
’’حمین، جبریل اور عنایہ کبھی اسپورٹس میں اتنے نمایاں نہیں رہے جتنے بہت سے دوسرے بچے ہیں۔ اس لئے یہ مت کہو وہ سب کرسکتے ہیں۔‘‘ اس بار امامہ نے اسے سمجھایا۔ رئیسہ نے سرہلایا۔ بات ٹھیک تھی۔ وہ اسپورٹس میں اچھے تھے لیکن وہ اسپورٹس میں اپنے اسکولز کے سب سے نمایاں اسٹوڈنٹس نہیں تھے۔
’’تمہیں اب یہ دیکھنا ہے کہ تم کس چیز میں بہت اچھا کرسکتی ہو اور پھر تمہیں اسی چیز میں دل لگا کر کام کرنا ہے۔ کوئی بھی کام اس لئے نہیں کرنا کہ وہ جبریل ، حمین اور عنایہ کررہے ہیں۔‘‘ سالار نے بے حد سنجیدگی سے کہا تھا۔
’’یہ ضروری نہیں ہوتا کہ صرف اے پلس والا ہی زندگی میں بڑے کام کرے گا۔ بڑا کام اور کامیابی تو اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ تم دعا کیا کرو کہ اللہ تم سے بہت بڑے کام کروائے اور تمہیں بہت کامیابی دے۔‘‘ رئیسہ نے ان گلاسز کو ٹھیک کیا جو سالار نے اسے لگائے تھے۔
’’تم رئیسہ ہو، تم حمین، جبریل اور عنایہ نہیں ہو اور ہاں تم ان سے الگ ہو۔ اور یہی سب سے اچھی چیز ہے الگ ہونا بہت اچھی چیز ہوتا ہے رئیسہ… اور زندگی اسپیلنگ بی کا ایک مقابلہ نہیں ہوتا، جس میں کچھ الفاظ کے ہجے کرکے ٹائٹل جیتنے کے بعد ہم خود کو لکی اور نہ جیتنے پر بدقسمت سمجھیں۔‘‘ وہ اب اس کے بال ٹھیک کرتے ہوئے، اس کا ربن دوبارہ باندھ رہا تھا۔
’’زندگی میں الفاظ کے ہجے کرنے کے علاوہ بھی بہت ساری صلاحیتیں چاہئیں ۔ ایک دو نہیں… اور تمہارے پاس بہت ساری صلاحیتیں ہیں اور بھی آئیں گی۔ تم ایک اسٹار کی طرح روشن ہوگی۔ جس بھی جگہ جاؤگی ، جو بھی کروگی…‘‘ رئیسہ کی آنکھیں، چہرہ اور ہونٹ بیک وقت چمکے تھے۔
’’اور پتا ہے صحیح معنوں میں لکی کون ہوتا ہے؟ وہ جس کی اچھائی اور اخلاق لوگوں کو اسے یاد رکھنے پر مجبور کردے اور تم میری بہت اچھی اور بہت اخلاق والی لکی بیٹی ہو۔‘‘ وہ اب ٹیبل سے اتر کر باپ کے گلے لگی تھی۔ اس کی سمجھ میں آگیا تھا کہ وہ اسے کیا سمجھانا چاہ رہا تھا۔
’’ہاں میں ہوں۔‘‘ اس نے بڑی گرم جوشی سے سالار سے کہا۔ اس سے الگ ہوکر وہ امامہ کے گلے لگی۔ امامہ نے اس کی ہیئر پنز نکال کر ایک بار پھر ٹھیک کیں۔
سالار نے کافی کے دو گھونٹ بھرے پھر اسے ادھورا چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔ اسے تاخیر ہورہی تھی۔
’’بابا مجھ سے خفا تو نہیں ہوئے نا؟‘‘ سالار کو جانے کے بعد رئیسہ نے امامہ سے پوچھا۔
’’نہیں خفا نہیں ہوئے، لیکن تمہارے رونے سے ہمارا دل دکھا۔‘‘ امامہ نے جواباً کہا۔
’’آئی ایم سوری ممی! میں دوبارہ کبھی نہیں روؤں گی۔‘‘ اس نے امامہ سے وعدہ کیا۔ امامہ نے اسے تھپکا۔
’’تم میری بہادر بیٹی ہو۔ عنایہ آپی کی طرح بات بات پر رونے والی تو نہیں۔‘‘ رئیسہ نے پرجوش انداز میں سرہلایا۔
اس کے ماں باپ اسے سب سے زیادہ بہادر اور اخلاق والا سمجھتے تھے اور یہ اسے پتا ہی نہیں تھا۔ وہ بات چیت آٹھ سالہ رئیسہ کے ذہن میں نقش ہوگئی تھی۔
امامہ اور سالار کو دوبارہ کبھی اس کو ایسی کسی بات پر سمجھانا نہیں پڑا تھا۔ اسے اب یہ طے کرنا تھا کہ وہ کس کام میں اچھی تھی۔ کس کام میں آگے بڑھ سکتی تھی۔ اس کے باپ نے اسے کہا تھا، خوش قسمت وہ تھا جو یہ بوجھ لیتا اور پھر اپنی انرجی کسی اور چیز میں ضائع کرنے کے بجائے اسی کام میں لگاتا ۔ رئیسہ بھی لکی کی اس نئی تعریف پر پورا اترنے کی جدوجہد میں مصروف تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

ہم — کوثر ناز

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۱۳ (تبارک الذی)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!