سیڑھیاں غائب ہو چکی تھیں اور وہ جسے گھر کی چھت سمجھ رہی تھی وہ ایک پہاڑ کی چوٹی تھی جس سے نیچے اترنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ستاروں کی دھندلی روشنی بھی اسے ان کھائیوں کی گہرائی دکھانے میں ناکام تھی جو اس چوٹی کے چاروں جانب تھیں۔
—–*—–
زینب کی پیدائش کے بعد مریم نے ایک بار پھر نئے سرے سے اپنی سرگرمیوں کو شروع کر دیا تھا۔ اس نے زینب کے لیے ایک گورنس رکھ لی تھی اور ذالعید کے اعتراض کی بالکل پروا نہیں کی۔
مگر اب پہلی بار اس نے محسوس کیا کہ ذالعید کی سوشل لائف بالکل ختم ہو چکی ہے۔ وہ بہت کم ہی اب ان پارٹیز اور ڈنرز میں شرکت کرتا جن میں وہ پہلے اس کے ساتھ جایا کرتا تھا۔ ہر بار اس کے پاس کوئی نہ کوئی بہانا ہوتا۔ مریم کو بعض دفعہ اس کی اس بدلی ہوئی روٹین پر حیرت ہوتی۔ اس نے یہ بھی محسوس کیا تھا کہ چند ماہ پہلے کی نسبت وہ اب بہت خوش تھا۔ مریم کا خیال تھا کہ یہ خوشی زینب کی وجہ سے ہے کیونکہ وہ زینب کے ساتھ خاصا وقت گزارتا تھا۔ گورنس کی موجودگی کے باوجود وہ اس کے کئی کام خود کرتا تھا۔ مریم اسے منع کرتی، وہ سمجھتی تھی کہ اس طرح زینب کی پرورش ٹھیک سے نہیں ہو پائے گی۔ مگر بعض دفعہ مریم کو احساس ہوتا کہ ذالعید کی زندگی میں کوئی اور تبدیلی بھی آئی ہے۔
وہ کئی بار بہت پریشان ہو جاتا۔ بیٹھے بیٹھے کہیں کھو جاتا اور پھر مریم کے استفسار پر بالکل خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگتا۔ مریم نے اب اسے کئی بار نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھا اور اسے شاک لگا تھا۔ ذالعید مذہبی نہیں تھا مگر اب…
اسے پریشانی ہونے لگی کہ کہیں وہ اس پر بھی کوئی پابندی عائد نہ کر دے مگر ذالعید نے ایسا نہیں کیا تھا۔ مریم کو یہ بھی احساس ہونے لگا کہ اب وہ ماما جان کی بات نہیں کرتا۔ اگر کبھی وہ ان کا ذکر کرنے لگتی تو وہ موضوع بدل دیتا۔ اسے اس وقت اس کے چہرے پر ایک عجیب سا اضطراب اور وحشت نظر آتی۔
زینب کی پیدائش کے کچھ دن بعد باتوں باتوں میں مریم نے اس پر یہ انکشاف کیا کہ وہ ماما جان کی حقیقی بیٹی نہیں ہے، انہوں نے اسے گود لیا تھا۔ وہ اس وقت حیران رہ گئی جب ذالعید نے اس پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔
”میں جانتا ہوں۔” اس نے کہا۔
”کیا ماما جان نے بتایا ہے تمہیں؟”
”ہاں۔”
”کب؟” اس نے مریم کی بات کا جواب نہیں دیا۔ وہ زینب کو کاٹ میں لٹا کر اس سے نظریں چراتے ہوئے باہر چلا گیا۔
اس کی یہ کیفیت زینب کے چھ ماہ کا ہونے تک رہی پھر وہ یک دم پرسکون اور مطمئن نظر آنے لگا۔ صرف ایک چیز نارمل نہیں ہوئی تھی۔ وہ اب ماما جان کے پاس جانے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ تہواروں کے موقع پر بھی وہ مریم سے یہی کہتا کہ وہ خود ماما جان کے پاس چلی جائے۔ مریم کے اصرار پر بھی وہ اس کے ساتھ نہ جاتا۔ مریم بہت خوش تھی، کم از کم ماما جان کی اس فلاسفی سے اسے کوئی خطرہ نہیں رہا تھا جو ذالعید پر اپنا اثر دکھا رہی تھی۔
اس کی شہرت دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔ شادی کے تیسرے سال وہ نیویارک میں دو جگہ اپنی پینٹنگز کی نمائش کر چکی تھی۔ Time میں اس کی تصویروں کے بارے میں پہلی بار ایک آرٹیکل چھپا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اس بین الاقوامی شہرت کی دہلیز پر جا پہنچی تھی جس کی اسے خواہش تھی۔
ان دنوں وہ لندن میں اپنی پہلی بڑی نمائش کی تیاریوں میں مصروف تھی جب ایک جھماکے کے ساتھ اس نے اپنی زندگی کے افق پر ان تحریروں کو آتے دیکھا جنہوں نے سب کچھ راکھ کر دیا۔
—–*—–
وہ اس رات fبہت عرصے کے بعد اسٹوڈیو گیا۔ مریم گھر پر نہیں تھی اور وہ ان پینٹنگز کو دیکھنا چاہ رہا تھا جن کی وہ پچھلے کچھ عرصہ سے بہت پرُجوش ہو کر بات کر رہی تھی اور جن کی اگلے کچھ ہفتوں کے بعد نمائش ہونے والی تھی مگر اسٹوڈیو میں جاتے ہی وہ جیسے ہکا بکا رہ گیا تھا۔
وہ بہت عرصہ کے بعد مریم کی بنائی ہوئی پینٹنگز دیکھ رہا تھا۔ اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ اب کیا پینٹ کر رہی ہے، وہ Nude آرٹ تھا۔ ہر پینٹنگ میں بڑی پرفیکشن کے ساتھ انسانی جسم کو کسی نہ کسی زاویے سے پینٹ کیا گیا تھا۔
اسے وہ ساری پینٹنگز یک دم فحاشی نظر آنے لگی تھی۔ یہ وہ آرٹ نہیں تھا جسے وہ دیکھنے کا عادی تھا، وہ ان ہی پیروں وہاں سے پلٹ آیا۔
ملازم کو کافی کا کہہ کر وہ خود الاؤنج میں ٹی وی لگا کر بیٹھ گیا۔ مریم ساڑھے گیارہ بجے واپس آئی وہ اس وقت کافی پی رہا تھا۔ مریم اس کے پاس صوفہ پر بیٹھ گئی۔ ملازم کو کافی کا ایک اور مگ لانے کے لیے کہہ کر وہ ذالعید کی طرف متوجہ ہوئی۔
”زینب سو گئی؟”
”ہاں۔” وہ مختصراً کہہ کر اسی طرح کافی پیتا رہا۔
مریم اپنی جیولری اتارنے لگی۔ ملازم جب کافی دے کر چلا گیا تو ذالعید نے اس سے کہا۔
”میں آج سٹوڈیو گیا تھا۔” اس کی آواز خاصی خشک تھی مگر مریم نے غور نہیں کیا۔
”اچھا پینٹنگز دیکھیں تم نے میری؟” اس نے خاصے اشتیاق سے پوچھا۔
”وہ پینٹنگز نہیں ہیں، گندگی ہے۔”
”ذالعید!” مریم کو جیسے ایک دھچکا لگا۔
”اس گندگی کی نمائش کرنا چاہ رہی ہو تم؟”
”وہ گندگی نہیں آرٹ ہے۔” مریم کا چہرہ یک دم سرخ ہو گیا۔
“Nude art”
”تو پھر کیا ہے، اس سے اس کی اہمیت تو ختم نہیں ہو جاتی۔”
”تمہیں پتا ہے وہ کس قدر بے ہودہ پینٹنگز ہیں۔”
”بے ہودگی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے، پینٹنگ میں نہیں۔ آرٹ میں کچھ بھی بے ہودہ نہیں ہوتا۔ تخلیق، تخلیق ہوتی ہے۔ تم تو خود آرٹ کے اسٹوڈنٹ رہے ہو، تم نے آرٹ میں ولگیرٹی کیسے ڈھونڈ لی۔” وہ کچھ کہے بغیر اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”تم کیا پینٹ کیا کرتی تھیں مریم اور اب کیا پینٹ کر رہی ہو!” اس نے جیسے افسوس کیا۔
”یہ وہ آرٹ ہے جو مجھے شہرت دلا رہا ہے، میرا نام، میری ساکھ بنا رہا ہے، یہ وہ آرٹ ہے جو بکتا ہے۔ تم جانتے ہو ان میں سے کوئی بھی پینٹنگ پچاس ہزار سے کم میں نہیں بکے گی اور جس آرٹ کی تم بات کرتے ہو۔ لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں، دیکھتے ہیں، خریدتے بھی ہیں مگر ٹکوں میں۔
تم تو واقف ہو میں نے ان پینٹنگز کو دو دو ہزار میں بھی بیچا ہے۔ دوہزار سے کیا ہوتا ہے رنگ، کینوس اور برش خریدنے کے بعد کیا بچتا ہے آرٹسٹ کے پاس… کیوں بناؤں میں ایسی پینٹنگز جو مجھے تعریف کے علاوہ اور کچھ نہیں دیتیں۔ یہ ہے وہ آرٹ جو اب ڈرائنگ روم میں سجایا جاتا ہے۔ اس آرٹ کو خریدنا چاہتے ہیں لوگ… منہ مانگی قیمت پر۔”
”تمہیں اپنی پینٹنگز بیچنے کی کوئی ضروروت نہیں ہے… مت بیچو اپنی پینٹنگز تمہیں کس چیز کی کمی ہے… جن پینٹنگز کو تم نے بنانا چھوڑ دیا ہے۔ وہی تمہاری Essence تھیں، تمہاری پہچان تھیں اور کون کہتا ہے تم انہیں دوہزار میں بیچو۔ مت بیچو صرف نمائش کرو اور ان پر وہ قیمت لگا دو جس پر تم انہیں بیچنا چاہتی ہو۔ اگر کوئی وہ قیمت ادا کرتا ہے تو ٹھیک ورنہ مت بیچو۔ اپنے پاس رکھو۔”
”اس سے کیا ہوگا۔ مجھے شہرت تو نہیں ملے گی۔ پینٹنگز میرے پاس رہیں گی تو کیا ہوگا۔ میں چاہتی ہوں میں اپر کلاس کی آرٹسٹ بنوں۔”
بورژوا کلاس کے لیے Nude paintings بنانے والی آرٹسٹ؟” ذالعید کو دکھ ہوا۔
”ذالعید! اگر مجھے انٹرنیشنل مارکیٹ میں جانا ہے تو مجھے اپنا اسٹائل بدلنا ہے اور میں نے وہی کیا ہے یہ وہ تصویریں ہیں جو مجھے انٹرنیشنل لیول پر شہرت دلائیں گی۔”
”یہ وہ تصویریں ہیں جو تمہارا نام ڈبو دیں گی، تم اپنا سٹائل چھوڑ دو گی، تم سب کچھ کھودو گی۔” وہ اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”یہ تم نہیں بول رہے ذالعید! یہ ماما جان بول رہی ہیں ورنہ تم اتنے کنزرویٹو کبھی نہیں ہو سکتے تھے۔ مجھے اسی دن سے خوف آتا تھا۔ آج تمہیں ان پینٹنگز پر اعتراض ہے کل تم چاہو گے کہ میں پینٹنگ کروں ہی ناں۔ پرسوں تم مجھے گھر کے اندر رکھنا چاہو گے۔ اس کے بعد تم ہر روز مجھ پر ایک نئی پابندی لگاؤ گے۔ مگر یاد رکھو میں ماما جان نہیں ہوں۔ میں نے تم سے اس لیے شادی نہیں کی کہ تم…” ذالعید نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں تم پر کوئی پابندی نہیں لگا رہا نہ ہی لگاؤں گا۔ میں تمہیں صرف سمجھا رہا تھا۔ تم آزاد ہو جو کرنا چاہتی ہو کرو۔ میں تم پر کبھی بھی زبردستی نہیں کروں گا۔ نہ ہی تمہیں گھر کے اندر بند کر کے رکھوں گا۔” وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔
—–*—–
مریم نے اس دن دوپہر کو ذالعید کے آفس فون کیا۔ اس دن وہ گھر پر ہی تھی اور اس کا دل چاہا کہ وہ ذالعید کے ساتھ کہیں باہر لنچ کرے۔
”ذالعید صاحب آفس میں نہیں ہیں۔” اس کی سیکرٹری نے اسے بتایا۔
”کہاں ہیں وہ؟”
”وہ لنچ کرنے گئے ہیں۔”
”کہاں گئے ہیں؟”
”یہ نہیں پتا۔” مریم نے فون بند کر دیا اور موبائل پر کال کرنے لگی۔ موبائل پر جلد ہی ذالعید کے ساتھ اس کا رابطہ ہوگیا۔
”کہاں ہو ذالعید تم؟ میں لنچ کرنا چاہ رہی تھی تمہارے ساتھ۔” اس نے رابطہ ہوتے ہی کہا۔
”مگر میں تو لنچ کر چکا ہوں۔” ذالعید نے اس سے کہا۔ مریم کو مایوسی ہوئی۔
”کل کا پروگرام رکھیں؟”
”نہیں لنچ کا کوئی پروگرام میں تمہارے ساتھ سیٹ نہیں کر سکتا۔ میری کئی بار کلائنٹس کے ساتھ میٹنگز ہوتی ہیں۔” ذالعید نے صاف انکار کر دیا۔
”کہاں لنچ کرتے ہو تم؟” مریم کو کچھ تجسس ہوا۔ دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی۔ ”کوئی مخصوص جگہ نہیں ہے۔ موڈ کے مطابق ریسٹورنٹ بدلتا رہتا ہوں۔ اچھا اب میں مصروف ہوں رات کو ملوں گا۔ ذالعید نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔
مریم نے دوبارہ فیکٹری فون کیا۔ ”ذالعید کی آج لنچ پر کسی کلائنٹ کے ساتھ اپائنمنٹ ہے؟ ذرا چیک کر کے بتائیں۔” اس نے سیکرٹری سے بات کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں، لنچ پر تو وہ کبھی بھی کوئی اپائنمنٹ نہیں رکھتے۔ انہوں نے خاص طور پر منع کیا ہوا ہے۔” مریم چند لمحوں کے لیے کچھ بول نہیں سکی۔
”لنچ کے لیے کس وقت جاتے ہیں؟”
”ایک بجے۔”
”اور واپس کس وقت آتے ہیں؟”
”چار بجے۔”
”روز یہی روٹین ہے؟”
”ہاں۔”
”کتنے عرصے سے؟”
”تقریباً دو سال سے۔” وہ دم بخود رہ گئی۔
فون بند کرنے کے بعد وہ بے حد پریشان تھی۔ ”وہ تین گھنٹے کہاں گزارتا تھا؟ اور پچھلے دو سال سے۔ اسے ایک دم سونے جیسے بال یاد آ گئے۔
”پچھلے دو سال…؟ کیا ہوا ہے پچھلے دو سال میں؟” وہ بے تابی سے لاؤنج میں چکر لگانے لگی۔ وہ پچھلے دو سال میں واقعی بہت بدل گیا تھا۔ اسے اس کی شخصیت میں ہونے والی تمام تبدیلیاں یاد آنا شروع ہو گئیں۔ شادی کے تین سال میں پہلی دفعہ وہ خوفزدہ ہوئی۔
”کیا میرا اور اس کا رشتہ اتنا ناپائیدار تھا کہ…؟” وہ صوفہ پر بیٹھ کر اپنے ناخن کاٹنے لگی۔ ”ذالعید کو جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیوں جھوٹ بول رہا ہے وہ؟”
وہ اس دن کہیں نہیں گئی۔ رات تک اس کا انتظار کرتی رہی۔ ذالعید اسے خلافِ معمول گھر پر دیکھ کر حیران ہوا۔
”آج کہیں جانے کا ارادہ نہیں ہے؟” اس نے خوشگوار انداز میں اس سے پوچھا۔
”جانا تو چاہتی تھی مگر تم نے منع کر دیا۔” اس نے گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”لنچ کی بات کر رہی ہو تم… چلو اب چلتے ہیں۔ ڈنر کہیں باہر کر لیتے ہیں۔” ذالعید نے اسے آفر کی۔ چند لمحوں کے تامل کے بعد مریم نے اس کی آفر قبول کر لی۔
ریسٹورنٹ میں کھانا سرو ہونے کے بعد وہ دونوں بڑی خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔ ”میں ڈیڑھ ماہ کے لیے انگلینڈ جا رہا ہوں۔” ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے کہا۔ مریم نے ہاتھ میں پکڑا ہوا گلاس نیچے رکھ دیا۔
”کس لیے؟” وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے لہجے کی خشکی نہیں چھپا سکی۔
”کچھ کام ہیں… فیکٹری سے متعلقہ۔” وہ کھانا کھاتا رہا۔ مریم اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کرتی رہی۔
”خاصا لمبا عرصہ ہے۔” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد مریم نے کہا۔
”ہاں… مگر کیا کیا جا سکتا ہے۔” اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”میں سوچ رہی ہوں۔ میں بھی تمہارے ساتھ رہوں۔ خاصا عرصہ ہو گیا، ہم کہیں اکٹھے نہیں گئے۔” اس نے کھانا کھاتے ہوئے ذالعید کا ہاتھ رکتے دیکھا۔ کچھ دیر دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے رہے۔
”تم بہت مصروف رہتی ہو۔ اتنا وقت نکال سکو گی؟” اس نے چند لمحوں کے بعد کہا۔
”ہاں، نکال لوں گی۔” مریم نے بڑے اطمینان سے پانی کا گلاس دوبارہ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے چلو۔” وہ بھی دوبارہ کھانا کھانے لگا۔
مریم الجھ گئی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی آسانی سے اسے ساتھ لے جانے پر مان جائے گا۔ ”ہو سکتا ہے یہ سب میرا وہم ہو… ہو سکتا ہے وہ واقعی لنچ پر…”
”ذالعید! تمہاری سیکرٹری کہہ رہی تھی کہ تم لنچ کے دوران کسی کلائنٹ کے ساتھ میٹنگ نہیں رکھتے۔” اس نے ذالعید سے صاف صاف بات کرنے کا سوچا۔
مریم نے اس کے چہرے پر پہلے تعجب اور پھر خفگی دیکھی۔ ”تم میری سیکرٹری سے میرے بارے میں تفتیش کر رہی تھیں۔” اس نے خاصے خشک انداز میں نیپکن سے منہ صاف کرتے ہوئے کہا۔ اس کا موڈ خراب ہو چکا تھا۔
”نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔ میں نے پہلے اسے ہی فون کیا تھا۔ تم ملے نہیں تو میں اس سے باتیں کرنے لگی۔” مریم نے جھوٹ بولا۔ وہ کچھ دیر اسے گھورتا رہا۔
”سیکرٹری میرے بارے میں صرف اتنا ہی جانتی ہے جتنا میں اسے بتاتا ہوں۔ ضروری نہیں ہے کہ میں اپنے ہر کلائنٹ کے بارے میں اس کو بتاؤں اور ہر کلائنٹ سے بزنس ڈیلنگز ہی تو نہیں ہوتیں۔ ویسے بھی تعلقات بنائے جا سکتے ہیں۔ بعض دفعہ میں انوائیٹڈ ہوتا ہوں لنچ پر… بعض دفعہ دوستوں کے ساتھ کر لیتا ہوں۔ تمہارے پاس بھی تو کبھی لنچ اکٹھا کرنے کے لیے وقت نہیں رہا۔ اب تین سال بعد اچانک تمہیں میرے ساتھ لنچ کرنے کا خیال آ جائے تو میں تمہارے لیے اپنی روٹین تو نہیں بدل سکتا۔” مریم کو کچھ شرمندگی ہونے لگی۔
”اس کے بعد تم یہ تحقیق کرنے بیٹھ جاتی ہو کہ میں کہاں لنچ کرتا ہوں، کس کے ساتھ کرتا ہوں۔”
”میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ میں نے ویسے ہی پوچھا ہے، تم دو تین گھنٹے کے لیے جاتے ہو۔ اس لیے میں نے سوچا شاید کوئی خاص ایکٹیویٹی ہو۔”
”میں لنچ کے بعد جِم خانہ جاتا ہوں سوئمنگ کے لیے… نہ جایا کروں؟” مریم کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا۔