لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

”ہمیں پتا چلا مریم کی والدہ کے انتقال کا۔ تم نے کل بتایا ہی نہیں ورنہ میں کل آ جاتی… آج بھی اتفاقاً پتا چلا۔ میں نے فون کیا تھا تو ملازم نے بتایا۔”
مظہر اور نزہت دوسرے دن شام کے وقت گھر آئے۔ ذالعید اس وقت گھر پر ہی تھا۔
”مریم کہاں ہے؟” نزہت نے پوچھا۔
”اسے بہت تیز بخار ہے، ڈاکٹر نے انجکشن دیا ہے، سو رہی ہے۔” ذالعید نے مدھم آواز میں بتایا۔
وہ کچھ دیر بیٹھ کر جانے لگے تو ذالعید نے مظہر سے کہا ”پاپا! مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں اکیلے میں، آپ رک جائیں۔” مظہر اور نزہت نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
”ٹھیک ہے، میں ڈرائیور کے ساتھ چلی جاتی ہوں ،ڈرائیور کو واپس بھیج دوں گی۔” نزہت نے کہا اور وہ لاؤنج سے نکل گئی۔
مظہر صوفہ پر بیٹھ گئے۔ ذالعید ان کے سامنے دوسرے صوفے پر بیٹھ گیا۔ ”کیا آپ جانتے ہیں مریم کی ممی کون تھیں؟” اس نے ان سے پوچھا وہ حیران ہوئے۔
”میں کیسے جان سکتا ہوں؟”
”خدیجہ نور کو جانتے ہیں آپ؟” مظہر کو جیسے کرنٹ لگا، وہ گم صم ہو کر اس کا چہرہ دیکھنے لگے۔
”یقینا جانتے ہوں گے، خدیجہ نور میری ماں تھی… کل ان ہی کی ڈیتھ ہوئی ہے۔”
مظہر کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ وہ چند لمحے جیسے لفظ تلاش کرتے رہے پھر انہوں نے کہا۔
”مجھے کیوں بتا رہے ہو، تم یہ سب کچھ… اگر تم یہ جانتے ہو کہ تمہاری ماں کون ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔”
”میں واقعی یہ نہیں جانتا کہ میں آپ کو یہ سب کچھ کیوں بتا رہا ہوں… شاید میرے دل پر ایک بوجھ ہے جو میں اتارنا چاہتا ہوں… یا پھر…”
”اگر میں تمہیں تمہاری ماں کی اصلیت بتا دوں تو تم دوبارہ نام تک لینا پسند نہ کرو اس کا… میں نے ساری عمر اس کی حقیقت تم سے اور دوسروں سے صرف اسی لیے چھپائے رکھی تاکہ تم لوگوں کے سامنے سر اٹھا کر چل سکو۔ تمہیں اپنے آپ سے نفرت نہ ہو جائے۔” انہوں نے تیز لہجے میں کہا۔
”کون سی حقیقت بابا؟ یہ حقیقت کہ ماما جان ایک کال گرل تھیں۔” اس نے اتنے عام سے انداز میں یہ بات کہی کہ مظہر اس کا منہ دیکھتے رہ گئے۔
”ماما جان نے مجھ سے کوئی بات نہیں چھپائی، انہوں نے اپنے بارے میں مجھے سب کچھ بتا دیا تھا اور مجھے ان سے وابستگی پر فخر ہے۔ مجھے کوئی شرمندگی نہیں ہے، نہ ہی میں لوگوں کے سامنے سر جھکا کر پھروں گا۔ میری ماں نے اسلام قبول کرنے کے بعد کوئی گناہ نہیں کیا۔ انہوں نے ویسی زندگی گزاری جیسی ایک مسلمان عورت گزارتی ہے۔ آپ نے میری ماں کو ایک ایسے گناہ کی سزا دی جو ان پر مسلط کیا گیا تھا۔”
”اس نے مجھ کو دھوکا دیا تھا۔ مجھ سے سب کچھ چھپایا تھا۔”
”کیا زندگی میں آپ نے کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیا، آپ نے کبھی کسی سے جھوٹ نہیں بولا؟ آپ نے کبھی کسی سے کچھ نہیں چھپایا؟” وہ اب ان سے سوال کر رہا تھا۔
”آپ تو پیدائشی مسلمان ہیںپھر بھی کبھی نہ کبھی آپ نے یہ سب کچھ کیا ہوگا… اور بھی بہت سے گناہ کیے ہوں گے۔ کیوں نہ آپ کو بھی یہیں دنیا میں ہر اس شخص کے ہاتھوں سزا دی جائے جس کو آپ نے تکلیف پہنچائی ہو دھوکا دیا ہو، جھوٹ بولا ہو…”
”جس عورت میں پارسائی نہ ہو، اس کو اسی طرح تھوک دینا چاہیے۔” انہوں نے نفرت سے کہا۔
”اور جس مرد میں پارسائی نہ ہو اس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے۔ کیا قرآن مرد اور عورت کے لیے کوئی الگ قانون رکھتا ہے۔”
”تمہاری ماں زانی تھی۔” مظہر نے بلند آواز میں انگلی اٹھا کر کہا۔





ذالعید کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ ”کیا اس نے اسلام قبول کرنے کے بعد زنا کیا تھا؟ کیا آپ سے شادی کے بعد وہ آپ کو دھوکا دیتی رہی… میری ماں آپ سے شادی کرنے نہیں آئی تھی۔ آپ گئے تھے اس کے پاس شادی کرنے۔ کیا اس وقت آپ کو یہ نہیں پتا تھا کہ آپ کس معاشرے کی عورت کے ساتھ شادی کرنے والے ہیں… اور یہ پارسائی کیا ہوتی ہے؟ میں جاننا چاہتا ہوں کون سی عورت پارسا ہوتی ہے اور کون سی پارسا نہیں ہوتی؟ آج اگر اس عورت کے ماضی کے بارے میں آپ کو کچھ پتا چلے جو آپ کی بیوی ہے تو کیا آپ اس کو چھوڑ دیں گے… میری ماں نے آپ کو شادی سے پہلے یہ بتا دیا تھا کہ اس کے بوائے فرینڈز رہے ہیں، آپ نے اس پر اعتراض نہیں کیا، تب آپ کو یہ یاد نہیں رہا کہ وہ پارسا نہیں ہے۔” مظہر کچھ بول نہیں سکے۔
”میں جاننا چاہتا ہوں، آپ کا وہ اسلام کہاں ہے جسے آپ میری ماں کو دکھاتے رہے۔ کہاں ہیں وہ نمازیں، روزے، رزق حلال وہ پردہ جس کی تلقین آپ میری ماں کو کرتے رہے۔ میں نے اپنی آج تک کی زندگی میں آپ کو کسی اسلامی اقدار پر عمل کرتے نہیں دیکھا… مگر میری ماں نے وہ تیس سال جو اسلام قبول کرنے کے بعد گزارے وہ ایک عملی مسلمان کے طور پر گزارے… ایک باحیا اور پرہیزگار مسلمان عورت کے طور پر… اس نے ساری زندگی ہر اس چیز پر عمل کیا جو اس نے آپ سے یا اپنے دوسرے شوہر سے سیکھی۔
دنیا میں کچھ لوگ آپ کی طرح ہوتے ہیں۔ جو ساری زندگی اپنے گلے میں مذہب کا ڈھول ڈالے اسے پیٹتے رہتے ہیں۔ کیونکہ انہیں دنیا کو اپنی نمازوں سے متاثر کرنا ہوتا ہے مگر جب بات ایثار، قربانی اور اعلیٰ ظرفی کی آتی ہے تو پھر وہ آپ کی طرح ہو جاتے ہیں… جو عورتوں کو یوں سزائیں دیتے پھرتے ہیں، جیسے انہیں دنیا پر خدا نے جزا اور سزا کے اختیار کے ساتھ بھیجا ہو۔ آپ جیسے مرد پاپا جو عورتوں کو طلاق دیتے ہیں اور ان سے دودھ پیتے ہوئے بچے چھین لیتے ہیں۔ ان کی کوئی نماز، کوئی عبادت انہیں اس عمل سے نہیں روکتی۔ انہوں نے عبادت عبادت سمجھ کر کہاں کی ہوتی ہے… عادت اور روایت سمجھ کر کرتے ہیں… آپ کے اندر کتنی منافقت ہے پاپا… کتنا دوغلا پن ہے… کیا آپ نے میری ماں کے بارے میں حقیقت بتانے والے اپنے اس ”عظیم” دوست سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا اس نے اپنی بیوی کو یہ بتایا ہے کہ وہ کال گرلز کے ساتھ راتیں گزارتا رہا ہے یا آپ نے اس کی بیوی اور خاندان کو یہ سب کچھ بتایا؟”
لاؤنج میں خاموشی تھی، مظہر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
”تیس سال میں کبھی آپ نے اس عورت کے بارے میں سوچا جو اپنے بچے کے لیے آپ کے پیچھے روتی ہوئی آئی تھی؟ کیا آپ نے اس بچے کے بارے میں سوچا جسے ستائیس سال آپ نے ماں سے محروم رکھا۔ آپ نے کبھی سوچا ہے، قیامت والے دن آپ خدیجہ نور کے سامنے کیسے جائیں گے، آپ ذالعید کے سامنے کیسے جائیں گے؟ ان ساری اقدار اور روایات کو آگ لگا دیجئے جو انسانوں کے دل سے رحم اور اعلیٰ ظرفی نکال دیتی ہیں۔ چاہے وہ کسی بھی خاندان کسی بھی قبیلے یا کسی بھی نسل کی ہوں۔ مجھے فخر ہے کہ میں خدیجہ نور کا بیٹا ہوں، اس خدیجہ نور کا جس کی وجہ سے قیامت کے دن میں پہچانا جاؤں گا اور اس دن میں آپ کو اس ظلم کے لیے معاف نہیں کروں گا جو آپ نے مجھ پر اور میری ماں پر کیا۔”
مظہر نے اسے اٹھ کر اندر جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ بہت دیر تک وہیں لاؤنج میں خاموش بیٹھے رہے۔ ”کیا واقعی میرے اندر رحم کی صفت ختم ہو گئی تھی اور میری نمازیں صرف دکھاوے کی نمازیں تھیں؟ کیا واقعی میں نے خدیجہ نور اور ذالعید پر ظلم کیا یا پھر خود پر ظلم کیا؟ کیا میں واقعی جانتا ہوں گناہ کیا ہوتا ہے یا پھر میں ہر دوسرے شخص کے صرف اس فعل کو گناہ سمجھتا ہوں جس سے مجھے تکلیف پہنچتی ہے، مجھے نقصان ہوتا ہے؟ کیا دنیاوی قانون پڑھنے کے بعد میں نے دنیا کے ہر معاملے میں فیصلہ اور انصاف کرنے کی اہلیت حاصل کر لینے کا گمان کیا تھا؟ کیا مجھے واقعی اپنے پیدائشی مسلمان ہونے پر اس قدر فخر ہے کہ میں نے بیٹھے بٹھائے خود کو جنتی سمجھ لیا ہے؟ کیا میں ان لوگوں میں سے ہوں جو ساری عمر خود فریبی اور گمان میں گزارتے ہیں؟
تیس سال میں پہلی بار وہ اپنا احتساب کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر سامنے والا ہر سوال انہیں یہ بتا رہا تھا کہ بعض سوالوں کے جواب کسی بھی زبان میں نہیں دیے جا سکتے، اور وہ سوال ایسے ہوتے ہیں جو انسان کو اس عمر اور زندگی کے اس مرحلے پر آ کر زیر کر دیتے ہیں۔ جب انسان خود کو صراط مستقیم کے دوسرے سرے پر پہنچا ہوا محسوس کرتا ہے… اور تب پہلی بار یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ ساری عمر جس راستے کو صراط مستقیم سمجھ کر چلتے رہے ہیں وہ نہ راستہ تھا اور نہ سیدھا… وہ صرف آپ کا نفس تھا یا پھر آپ کا گمان۔
—–*—–
اس کی آنکھیں رات کے کس پہر کھلی تھیں، اسے اندازہ نہیں ہوا۔ آنکھیں کھولتے ہی اسے اپنے پپوٹوں کے بوجھل ہونے کا احساس ہوا۔ کمرے میں نائٹ بلب کی سبز روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ اسے چند لمحوں کے لیے اپنا ذہن بالکل خالی لگا… کسی سوچ… کسی خیال کے بغیر…
اگلے کئی منٹ وہ اسی طرح چپ چاپ لیٹی ہوئی نیم تاریکی میں کمرے کی چھت کو گھورتی رہی… پھر اس کے ذہن کی اسکرین پر یک دم ایک جھماکے کے ساتھ سب کچھ نمودار ہو گیا تھا… چہرے… آوازیں… چیزیں… باتیں… وہ کیا کر چکی تھی… اس کے ساتھ کیا ہوا تھا… اس کا ہلکا پھلکا وجود یک دم بوجھل ہونا شروع ہو گیا… وہ اپنی زندگی کے بھیانک خواب میں ایک بار پھر لوٹ آئی تھی… اور اس بار وہاں ماما جان نہیں تھیں… اسے یاد آ گیا تھا وہ کہاں تھیں۔
اسے سب کچھ یاد آ گیا تھا۔ اس نے کروٹ لینا چاہی… اور تب اسے احساس ہوا کہ اس کا جسم بہت کمزور ہو گیا ہے۔ اسے اپنے حلق میں کانٹے چبھتے ہوئے محسوس ہوئے… کروٹ لینے کے بعد وہ بالکل ساکت رہی یوں جیسے اپنے جسم میں ہونے والے درد کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔
اور پھر اسی نیم تاریکی میں اس نے کمرے کے ایک کونے میں ذالعید کو نماز پڑھتے دیکھا تھا… سفید شلوار قمیص میں ملبوس وہ رکوع کی حالت میں تھا… وہ خشک اور خالی آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ اسے بے اختیار ماما جان یاد آئی تھیں۔
بہت دفعہ رات کو یک دم جاگ اٹھنے پر وہ انہیں بھی اسی طرح دیکھا کرتی تھی… وہ تہجد پڑھا کرتی تھیں اور مریم ہمیشہ کروٹ لیتے ہوئے دوبارہ سونے سے پہلے سوچتی ”پتا نہیں ماما جان کو آدھی رات کو اس طرح اپنی نیند خراب کرنے سے کیا ملتا ہے… کیا پانچ نمازیں کافی نہیں ہیں جو اس طرح راتوں کو اٹھ اٹھ کر وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی نیند بھی خراب کرتی ہیں۔”
حالانکہ ماما جان تہجد کے لیے اٹھتے وقت بہت خاموشی اور احتیاط سے ہر کام کرتی تھیں تاکہ مریم کی نیند خراب نہ ہو جائے، گرمیوں میں وہ باہر صحن میں ہی تہجد پڑھ لیا کرتی تھیں، البتہ سردیوں میں وہ وضو کرنے کے بعد اندر کمرے میں آ جاتیں اور اسی طرح نائٹ بلب کی نیم روشنی میں تہجد پڑھا کرتیں۔
وہ ایک ٹک ذالعید کو دیکھتی رہی… اس کا دل بھر آیا… اسے ماما جان یاد آئی تھیں وہ جانتی تھی، اب ساری زندگی اس کے ساتھ یہی ہونا تھا۔
ذالعید اب جائے نماز اٹھاتے ہوئے کھڑا ہو رہا تھا اور تب ہی اس کی نظر اس پر پڑی… چند لمحوں کے لیے وہ ٹھٹھک گیا پھر جائے نماز ایک طرف رکھ کر وہ اس کی طرف آیا۔ بے آواز انداز میں وہ اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گیا اور ہاتھ بڑھا کر اس نے ٹیبل لیمپ آن کر دیا۔
”تم ٹھیک ہو؟” اپنا دایاں ہاتھ اس کے ماتھے پر رکھتے ہوئے وہ مدھم آواز میں پوچھ رہا تھا۔ وہ اسے دیکھنے کے سوا کچھ بول نہیں سکی۔
اس نے مریم کے ماتھے سے ہاتھ ہٹا لیا اور بیڈ پر دھرا اس کا داہنا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اس کو نرمی سے چوم لیا۔
اس کے ذہن میں ایک بار پھر جھماکا ہوا… چند لمحوں کے لیے اسے یوں ہی لگا تھا جیسے اس کے قریب ذالعید کے بجائے ماما جان بیٹھی ہوں… وہ بھی اس طرح بہت بار صبح اسے نیند سے جگاتے ہوئے یا رات کو سونے سے پہلے اس کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اسی نرمی سے چومتی تھیں جس نرمی سے ذالعید نے چوما تھا۔
بے اختیار اس کا دل بھر آیا۔ کیا یہ ہاتھ اس قابل ہے کہ اسے ماما جان جیسی عورت اس طرح عقیدت سے ساری زندگی چومتی رہی… یا یہ ہاتھ اس قابل ہے کہ اسے ذالعید چومے۔ اس نے سوچا…
”اب بخار نہیں ہے تمہیں… کچھ دن اور آرام کرو گی تو بالکل ٹھیک ہو جاؤ گی، کیا تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہے؟” ذالعید نے نرمی سے کہا۔
مریم کا دل چاہا وہ چلا کر کہے۔ ”دوزخ کی۔” وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔
کم از کم ذالعید اوّاب کے سامنے وہ اب نہیں آنا چاہتی تھی… شاید وہ کسی کے سامنے بھی نہیں آنا چاہتی تھی۔
”میں تمہیں پانی دوں؟” وہ اس کا ہاتھ اب بھی اپنے دونوں ہاتھوں میں لیے ہوئے تھا۔
”کیا پانی اس آگ کو ٹھنڈا کر سکتا ہے جو میرے وجود کو جھلسا رہی ہے؟” وہ پھر سوچ کر رہ گئی تھی نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے سر ہلا دیا۔
ذالعید نے سائیڈ ٹیبل پر پڑے ہوئے جگ سے ایک گلاس میں کچھ پانی انڈیلا… مریم چکراتے سر کے ساتھ اٹھ بیٹھی تھی۔ ذالعید کے ہاتھ سے گلاس پکڑ کر اس نے کچھ کہے بغیر ہونٹوں سے لگا لیا۔ پانی پینے کے بعد اس نے گلاس ذالعید کی طرف بڑھا دیا۔
”اور چاہیے؟” وہ پھر پوچھ رہا تھا۔ مریم نے سر ہلا دیا۔ ایک بار پھر کچھ کہے بغیر وہ بیڈ پر لیٹ گئی۔
وہ کچھ دیر اس کے پاس بیٹھا اسے دیکھتا رہا پھر گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ ”ٹیبل لیمپ آف کر دوں؟” اس نے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں۔” مریم نے اس سے نظریں ملائے بغیر کہا۔ وہ کچھ دیر روشنی میں رہنا چاہتی تھی، کم از کم اب تو، وہ اس کے پاس سے ہٹ گیا۔
بیڈ پر لیٹ کر گردن موڑ کر اس نے مریم کو دیکھا۔ وہ چت لیٹی چھت کو گھور رہی تھی۔ پچھلے تین دن سے وہ بخار میں پھنک رہی تھی۔ بخار اتنا شدید تھا کہ وہ اپنے حواسوں میں نہیں رہی تھی۔ ذالعید اس کے پاس گھر پر ہی رہا تھا اور بخار کی حالت میں اس کے منہ سے نکلنے والی اول فول سنتا رہا۔
وہ جانتا تھا وہ اول فول نہیں تھی وہ ضمیر کے وہ کوڑے تھے جو اب ساری عمر اس کے وجود کو گھائل رکھنے والے تھے۔ وہ اس کی بے ربط باتوں کو سمجھ سکتا تھا۔ اس کے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں چھپے معنی سے آشنا تھا۔ وہ تین دن بخار کی حالت میں پاگلوں کی طرح چلاتی رہی تھی… اور آج وہ اپنے حواس میں واپس آئی تھی۔
”مریم! تمہیں سو جانا چاہیے… نیند تمہارے لیے بہتر ہے۔” ذالعید نے بہت نرم آواز میں لیٹے لیٹے اپنا دایاں ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا۔ وہ چاہتا تھا وہ اس وقت کچھ بھی سوچنے کی کوشش نہ کرے، وہ اسے اب کسی بھی ذہنی اذیت سے بچانا چاہتا تھا۔ مریم نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
”ذالعید! کیا تمہیں مجھ سے نفرت محسوس نہیں ہو رہی؟” اس کا لہجہ بہت عجیب تھا۔
”مریم! بہت رات ہو گئی ہے… سو جاؤ۔” ذالعید نے اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کا کندھا تھپتھپایا۔
”یہ کیسے ممکن ہے کہ تمہیں مجھ سے نفرت نہ ہو… تمہیں نفرت کرنی چاہیے مجھ سے۔” وہ اب بڑبڑا رہی تھی۔
”میں تم سے نفرت نہیں کر سکتا… چاہوں تو بھی نہیں کر سکتا۔” اسے ذالعید کی آواز میں تھکن محسوس ہوئی۔
”کیوں؟”
”کیونکہ میری ماں نے تم سے بہت محبت کی ہے، شاید مجھ سے زیادہ تمہیں چاہا ہے۔ تمہیں کوئی تکلیف ہوگی تو میری ماں کو تکلیف ہوگی، اور میں اپنی ماں کو کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔” مریم نے یک دم اپنے کندھے سے اس کا ہاتھ ہٹا دیا۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی اس کا گلا دبا رہا ہو۔
”ماما جان… ماما جان۔” وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ وہ اپنی گردن کے پچھلے حصے پر دونوں ہاتھ رکھے گہرے سانس لے رہی تھی۔
ذالعید اپنے بیڈ پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے اپنی دراز سے سلیپنگ پلز نکالیں اور پھر گلاس میں پانی ڈال کر اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے کچھ بھی کہے بغیر بہت تیزی سے سلیپنگ پلز پانی کے ساتھ نگلنا چاہیں مگر وہ رک گئی۔
اسے متلی ہو رہی تھی۔ گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے وہ واش روم کی طرف بھاگ گئی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی پوری قوت سے اس کے پیٹ اور سینے پر مکے مار رہا ہو۔ ذالعید اس کے پیچھے آیا۔ وہ واش بیسن کا سہارا لیے کھڑی تھی۔ پانی بیسن میں پوری رفتار سے بہہ رہا تھا۔ اس کا معدہ خالی تھا۔ وہ پچھلے تین دن سے کچھ بھی نہیں کھا سکی تھی۔ اب وہ اپنے چہرے پر پانی کے چھینٹے مار رہی تھی۔
ذالعید نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دینا چاہا۔ وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹ گئی۔
”پلیز ذالعید! مجھے سہارا نہیں چاہیے۔ کم از کم اب نہیں۔” اس کی آواز میں درشتگی تھی۔ ذالعید اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے واش روم سے باہر نکل آئی۔ کمرے کے وسط میں آ کر وہ کھڑی ہو گئی۔
یوں جیسے اب اس کی سمجھ میں نہ آ رہا ہو کہ وہ کیا کرے۔ وہ اب کمرے کی دیواروں پر نظریں دوڑا رہی تھی۔ پھر ذالعید نے اسے ایک دیوار پر لگی ہوئی اپنی ایک پینٹنگ کی طرف بڑھتے دیکھا۔ وہ پلک جھپکتے میں جان گیا کہ وہ کیا کرنا چاہ رہی تھی۔
لیکن جب تک وہ اس کے قریب پہنچتا، وہ پینٹنگ کو دیوار سے اتار کر پاگلوں کی طرح صوفے کے ہتھے پر مار رہی تھی۔ ذالعید نے اس کے ہاتھ سے پینٹنگ چھین لی مگر تب تک وہ اسے بری طرح خراب کر چکی تھی۔
”میری پینٹنگز ہیں۔ میں جو چاہے کروں ان کے ساتھ۔” اس کی آنکھوں میں بے تحاشا وحشت تھی۔ وہ اب دوسری دیوار کی طرف جا رہی تھی۔ مگر اس بار ذالعید نے اسے پکڑ لیا۔
”کیوں کر رہی ہو یہ سب کچھ مریم! پورا اسٹوڈیو جلا چکی ہو۔ ان کو تو رہنے دو۔”
”کیوں رہنے دوں… ان کو بھی کیوں رہنے دوں۔ میں چاہتی ہوں ذالعید! یہ سب کچھ ختم ہو جائے۔ سب کچھ… ایک نشان تک نہ ملے میرے آرٹ کا… اُمّ مریم مر جائے… غائب ہو جائے… اپنی ہر چیز سمیت۔ یہ ساری چیزیں مجھ پر ہنستی ہیں۔ یہ پینٹنگز، یہ میرا مذاق اڑاتی ہیں۔” وہ ایک بار پھر خود کو چھڑا کر دیوار کی طرف جانے کی کوشش کر رہی تھی۔
”کیا ہو رہا ہے مریم تمہیں؟” ذالعید نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا۔
”دیکھو… مجھے بس اس پینٹنگ کو خراب کر لینے دو… بس یہ والی پینٹنگ۔” وہ بری طرح خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کا پورا چہرہ پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔ ذالعید اسے کھینچ کر صوفہ پر لے گیا۔
”یہاں بیٹھو اور مجھے بتاؤ، تمہیں کیا ہو رہا ہے۔” اس نے مریم کو صوفہ پر دھکیل دیا اور خود اس کے سامنے کارپٹ پر پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔
”مجھے… مجھے ذالعید! سکون نہیں ہے۔ میرا سر جل رہا ہے۔” وہ اب پینٹنگ کو بھول کر اسے بتانے لگی۔ اس کی کاٹن کی نائٹی پسینے سے بھیگی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے اور گردن پر پسینے کے قطرے لکیروں کی صورت میں پھسل رہے تھے۔ اے سی آن ہونے کے باوجود یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کسی بھٹّی میں بیٹھی ہوئی ہے۔
ذالعید نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ اس کے ہاتھ سرد تھے۔
”تمہیں پتا ہے ذالعید! میں نے ماما جان سے کیا کہا تھا۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ…”
”مریم! چپ ہو جاؤ۔ میں جانتا ہوں تم نے کیا کہا تھا۔ میں سب کچھ جانتا ہوں۔ تم کچھ بھی مت دہراؤ۔” اس نے اسے سختی سے ٹوک دیا۔
”میری طرف دیکھو مریم… تم رونا چاہتی ہو، تم رو لو۔”
”نہیں، میں رونا نہیں چاہتی… میں کیوں روؤں… میں نے کچھ نہیں کیا۔” وہ اس کی بات پر اور وحشت زدہ ہوئی۔ ذالعید اٹھ کر ریفریجریٹر کی طرف چلا گیا۔ وہ جوس کا ایک کین نکال کر اس کے پاس لایا۔
”مجھے اپنے گھر جانا ہے۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔ ”میں تمہیں صبح لے جاؤں گا۔”
”نہیں مجھے ابھی لے چلو… پلیز مجھے ابھی لے چلو، مجھے یہاں خوف آ رہا ہے۔ میرا دم گھٹ رہا ہے یہاں، مجھے یہاں سے لے جاؤ۔” وہ اس کی قمیص پکڑے منت کر رہی تھی۔
”میں لے جاتا ہوں مگر تم یہ جوس پی لو، کپڑے بدلو اس کے بعد۔” اس نے اپنی قمیص چھڑاتے ہوئے کہا۔ وہ کچھ کہے بغیر جوس کا کین پکڑ کر پینے لگی۔ ذالعید نے اس کے ہاتھوں میں لرزش دیکھی۔ اس نے جوس کا کین خود پکڑ لیا۔ کین ختم ہونے کے بعد وہ اٹھ کر ڈریسنگ روم میں چلی گئی۔ذالعید نے اس بار اس کے قدموں میں لڑکھڑاہٹ نہیں دیکھی۔
جب تک وہ لباس تبدیل کر کے آئی وہ ایک سیب کاٹ چکا تھا۔
”یہ کھا لو، اس کے بعد چلتے ہیں۔” ذالعید نے پلیٹ اس کی طرف بڑھا دی۔ اس نے کوئی تعرض نہیں کیا۔ صوفہ پر بیٹھ کر وہ سیب کھانے لگی۔ ذالعید نے محسوس کیا وہ اپنی آنکھوں میں امڈتی نمی کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی آنکھوں اور چہرے پر کچھ دیر پہلے والی وحشت نہیں تھی نہ ہی اس کے ہاتھ پہلے کی طرح کانپ رہے تھے۔
ذالعید نے ٹشو باکس سے کچھ ٹشو لے کر اس کے چہرے اور گردن کو صاف کیا۔ اس نے سر نہیں اٹھایا۔ ذالعید اس کے قریب کھڑا اسے سیب کھاتے دیکھتا رہا۔
”مریم میری زندگی کی روشنی ہے ذالعید… وہ میری جان ہے، میرے وجود کا حصہ ہے۔ اگر وہ نہ ہوتی تو میں بہت سال پہلے مر جاتی۔ تمہارے بعد اس نے مجھے زندہ رکھا۔ میری مریم کو کبھی تکلیف مت دینا۔ کبھی ایک برا لفظ تک مت کہنا اسے۔” اس کی آنکھوں میں نمی جھلکنے لگی۔
وہ پلٹ کر اپنے بیڈ کی طرف گیا اور سائیڈ ٹیبل سے کار کی چابی اٹھا لی۔ ”ماما جان نے مجھ سے بات کرتے ہوئے آخری جملے تمہارے بارے میں کہے تھے۔” مریم نے سر اٹھایا۔ وہ ایک بار پھر اس کے قریب کھڑا تھا۔
“So you are going to have a very special place in my heart for the rest of my life.”
(میرے دل میں تمہارا ایک بہت اہم مقام ہے زندگی بھر کے لیے) وہ مسکرایا۔
وہ پلکیں جھپکائے بغیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ وہ بالکل ماما جان کی طرح لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں ماما جان سے کتنی ملتی تھیں۔ پرُسکون اور گہری… اور اس کے باریک ہونٹ اور اس کی ناک کی نوک سب کچھ ماما جان کی طرح تھا۔ ہاں اور اس کی عادتیں اور اس کی فطرت وہ ایک ٹک اسے دیکھتی رہی۔
—–*—–




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۲

Read Next

سزا — مریم مرتضیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!