لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

مظہر کے جانے کے دوسرے دن وہ لندن چھوڑ کر برمنگھم چلی گئی۔ لندن میں رہ کر وہ اپنی یادوں سے فرار حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ اور وہ کچھ عرصہ کے لیے سب کچھ بھلا دینا چاہتی تھی۔
وہ اپنی ماں کی طرح زندگی گزار کر مرنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ زندگی کس قدر اذیت ناک تھی، اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور اسے اپنے لیے ویسا انجام سوچتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ برمنگھم میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد وہ لیسٹر چلی گئی اور اگلے پانچ سال اس نے لیسٹر میں ہی گزارے تھے۔
اسلامک سینٹر کے توسط سے اسے ایک جگہ کام مل گیا تھا۔ اس کی محدود ضروریات کے لیے وہ رقم کافی تھی جو اسے ملتی تھی۔ کام سے فارغ ہونے کے بعد وہ اسلامک سینٹر چلی جاتی اور رضاکارانہ بہت سی خدمات انجام دیتی۔
پانچ سال کے عرصہ میں اس سینٹر اور وہاں کی پاکستانی کمیونٹی میں وہ ایک جانا پہچانا نام بن گئی تھی۔ کسی کو اس کے علاوہ اس کے بارے میں اور کچھ نہیں پتا تھا کہ وہ ایک مطلقہ ہے۔ لیکن شاید کسی کو اس بات کی زیادہ پروا بھی نہیں تھی۔ ان کے لیے وہ بس خدیجہ نور تھی۔ ایک ایسی عورت جو بڑے مشفق اور مہربان انداز میں ہر اس معاملے میں ان کی مدد کے لیے تیار رہتی تھی جس میں وہ اس کی مدد چاہتے۔
پاکستانی عورتوں کو اس لیے اس کے ساتھ گفتگو میں آسانی رہتی کیونکہ وہ وہاں واحد غیر ملکی عورت تھی جو اردو زبان سمجھ اور کسی حد تک بول لیتی تھی۔ وہ نئی آنے والی عورتوں کو وہاں کے کلچر اور راستوں کے بارے میں بہت اچھی طرح گائیڈ کر دیتی۔ انہیں اس سے انس ہوتا جا رہا تھا۔
خدیجہ نے اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے یا واپس لینے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ وہ مظہر سے بہت اچھی طرح واقف تھی اور وہ جانتی تھی کہ اس نے صرف دھمکی نہیں دی تھی، وہ واقعی اسے مار دیتا… اسلامک سینٹر کی انتظامیہ نے شروع میں اس سلسلے میں اس کی مدد کرنے کی پیش کش کی مگر خدیجہ نے انکار کر دیا۔
شاید اس کے دل میں کہیں یہ خدشہ موجود تھا کہ اگر وہ کسی طرح اپنے بیٹے کو اپنے پاس لے بھی آتی ہے تب بھی بڑا ہونے پر اگر وہ بھی کسی طرح اس بات سے واقف ہو گیا کہ مظہر نے اسے کیوں چھوڑا تھا تو شاید وہ بھی اسے اسی طرح چھوڑ دے گا… یا اس سے نفرت کرنے لگے گا۔
وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ مظہر اسے اس کی ماں کے بارے میں کیا بتائے گا مگر اسے یقین تھا کہ مظہر اسے کبھی یہ نہیں بتائے گا کہ اس کی ماں ایک کال گرل تھی۔
—–*—–
پانچ سال کے بعد حالات اسے ایک نئے موڑ پر لے آئے۔ وقتاً فوقتاً اسلامک سینٹر آنے والی ساجدہ نامی ایک عورت نے لمبی چوڑی تمہید کے بعد ایک دن اس سے کہا۔
”پاکستان میں میرا ایک بھائی ہے، اس کی عمر کچھ زیادہ ہے۔ اصل میں ہم چار بہنیں تھیں۔ جب ہمارے ماں باپ کی وفات ہوئی تو اس وقت یہی بھائی بڑا تھا۔ اس نے ہمیں ماں باپ بن کر پالا… ہم سب کی شادیاں کیں۔ ہم سب کی شادی کرتے وقت اتنا وقت گزر گیا کہ وہ خود شادی نہیں کر سکا اور اس کی عمر زیادہ ہو گئی۔ اب ہم لوگ چاہتے ہیں کہ وہ شادی کر لے مگر وہ چاہتا ہے کہ ذرا بڑی عمر کی لڑکی سے شادی ہو جو اچھے طریقے سے اس کے ساتھ رہے اور اس کے لیے کوئی پریشانی کھڑی نہ کرے۔ میرے ذہن میں بار بار آپ کا خیال آ رہا تھا۔ میں چاہتی ہوں کہ اس کی شادی آپ سے ہو جائے۔ میں یقین دلاتی ہوں کہ وہ آپ کو بہت خوش رکھے گا۔” خدیجہ حیرت سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”شادی؟ کیا ایک بار پھر؟… اور کیوں؟” ساجدہ اس کی خاموشی پر کچھ پریشان ہو گئی۔
”آپ اچھی طرح سوچ لیں۔ ہمیں کوئی جلدی نہیں۔”
—–*—–





اس دن گھر جا کر وہ عجیب سی کشمکش کا شکار ہو رہی تھی۔ مظہر کے بعد آج دوسری بار اسے شادی کی پیشکش کی گئی تھی۔ وہ پہلی شادی کا انجام دیکھ چکی تھی اور اب ایک بار پھر سے وہ اس تکلیف دہ دور سے گزرنا نہیں چاہتی تھی… مگر وہ ساری زندگی تنہائی اور کرائے کے گھروں میں رہتے ہوئے اپنا بڑھاپا کسی اولڈ ہوم میں بھی نہیں گزارنا چاہتی تھی۔
اس نے اگلے دن اسلامک سینٹر میں ایک مسلم اسکالر سے اس سلسلے میں بات کی۔ ”کسی شخص کے لیے ساری عمر بیٹھے رہنا ہمارے دین میں نہیں ہے۔ آپ نے ایک شخص سے شادی کی۔ وہ شادی ناکام رہی۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کو کسی دوسرے شخص سے دوبارہ شادی نہیں کرنی چاہیے۔ اگر یہ شخص آپ کے معیار پر پورا اترتا ہے تو آپ کو اس سے شادی کر لینی چاہیے۔” انہوں نے بڑی سنجیدگی سے اسے مشورہ دیا۔
”مگر مجھے اپنے پہلے شوہر سے اب بھی محبت ہے۔ میں نہیں جانتی کہ میں کبھی اس محبت کو اپنے دل سے نکال پاؤں گی یا نہیں۔” اس نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”اس چیز کو آپ اللہ پر چھوڑ دیں۔ وہ دلوں کو بدلنے والا ہے۔ ہو سکتا ہے، شادی کے بعد آپ کو اپنے دوسرے شوہر سے بھی محبت ہو جائے۔” اس کے چہرے پر یقینا کچھ ایسے تاثر نمودار ہوئے تھے جنہوں نے ڈاکٹر عبداللہ کو یہ بتا دیا کہ وہ ان کی باتوں سے قائل نہیں ہوئی۔
”ایک عورت کو پورا حق ہے کہ طلاق یا شوہر کی وفات کی صورت میں وہ جب چاہے دوسری شادی کر لے اور یہ اس کے لیے بہت بہتر عمل ہے۔ زندگی خوابوں اور یادوں کے سہارے گزارنے والی چیز نہیں ہے… اسے اچھے طریقے سے گزارنے کے لیے حقیقت پسندی ہونی چاہیے۔ خلافت کے زمانے میں قاضی کی ایک اہم ذمہ داری بیوہ عورتوں کی دوبارہ شادی کروانا بھی ہوتی تھی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دین عورت کے دوبارہ گھر بسانے کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ اتنی اہمیت کہ ریاست نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا… اور یہ صرف اس لیے تھا کیونکہ عورت کو معاشرتی، ذہنی، جذباتی اور جسمانی طور پر ہمیشہ کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکیلے زندگی گزارنا مرد کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے تو پھر عورت کے لیے تو…
خاص طور پر اس صورت میں جبکہ وہ کم عمر ہو۔ آپ ابھی تیس سال کی ہیں۔ صرف تین سال آپ نے شوہر کے ساتھ گزارے۔ کیا ان تین سال کے عوض آپ اپنی پوری زندگی ضائع کر دیں گی، جبکہ آپ یہ بھی جانتی ہیں کہ زندگی دوبارہ ملنے والی چیز نہیں ہے۔ آپ کا حق ہے کہ آپ دوبارہ گھر بسائیں، اولاد پیدا کریں، رشتے بنائیں، تعلقات بڑھائیں… یہ مشکل کام ہے، ناممکن نہیں… مگر کسی ایک شخص کی یادوں کو گلے سے لگا کر نہ بیٹھیں۔ عین ممکن ہے۔ کل آپ کو اس وقت اپنے اس فعل پر پچھتاوا ہو، جب وقت آپ کے ہاتھ سے نکل چکا ہو۔ تب اکیلے رہنا آپ کی مجبوری بن جائے گی اور اس وقت یہ یادیں اور محبت آپ کو طوق کی طرح لگے گی…” وہ پلکیں جھپکے بغیر ان کا چہرہ دیکھتے ہوئے بات سن رہی تھی۔
”مرد عورت کی طرح محبتیں گلے میں لٹکا کر نہیں پھرتا۔ وہ حقیقت پسند ہوتا ہے یا یہ کہہ لیں کہ اسے اپنی ذات سے محبت ہوتی ہے۔ وہ محبت سے زیادہ اہمیت اپنی ضرورت کو دیتا ہے۔ ایک شادی کرتا ہے… پھر وہ ناکام ہو جائے تو یادوں کا مجاور بن کر نہیں بیٹھتا، دوسری عورت زندگی میں لے آتا ہے اور ٹھیک کرتا ہے، زندگی کیوں برباد کرے وہ اپنی۔”
خدیجہ کو اپنے اعصاب پر ایک تھکن سی سوار ہوتی محسوس ہوئی۔
”دائمی محبت صرف ایک ہوتی ہے۔ ایسی محبت جسے کبھی زوال نہیں آتا اور وہ محبت اللہ کی محبت ہے۔ دوسری ہر محبت کی ایک مدت ہوتی ہے پہلے اس کی شدت میں کمی آتی ہے پھر وہ ختم ہو جاتی ہے۔”
خدیجہ نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھے۔ اس کی آنکھوں میں یک دم جلن ہونے لگی۔
”اور اگر یہ شادی بھی ناکام رہی… اس شخص نے بھی مجھے چھوڑ دیا تو؟” آنکھوں سے ہاتھ ہٹائے بغیر اس نے ڈاکٹر عبداللہ سے پوچھا۔
”یہ بھی ممکن ہے، یہ شادی آپ کی تمام تکالیف ختم کر دے… یہ شخص آپ کے لیے بہت اچھا ساتھی ثابت ہو… یہی شادی آپ کی آزمائشوں کا خاتمہ کر دے… اگر بات امکان پر آ جاتی ہے تو ممکن تو یہ سب کچھ بھی ہے۔کیا پہلی بار شادی کرتے ہوئے آپ کو یقین تھا کہ وہ شادی کبھی ناکام نہیں ہوگی یا یہ خدشہ تھا کہ وہ شادی ناکام ہو جائے گی… ہماری پوری زندگی امکانات پر ٹکی ہوتی ہے اور زندگی میں سے امکانات کبھی ختم نہیں ہوتے… شاید یہ ہو جائے، شاید وہ ہو جائے۔ اب تو اس سے نکل آئیے خدیجہ نور! اب تو اپنے مستقبل کے لیے اللہ پر بھروسا کرنا سیکھیں۔” خدیجہ نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اپنے ہاتھ آنکھوں سے ہٹا لیے۔
—–*—–
ساجدہ سے ہونے والی اگلی ملاقات میں خدیجہ نے اسے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ اس کی شادی کیوں ناکام ہوئی؟ اس کا ماضی کیسا تھا؟ وہ کون سے حالات سے گزری ہے؟ اس نے اس بار کچھ بھی نہیں چھپایا تھا… اس بار وہ کسی کو بھی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتی تھی۔ ساجدہ اس کی تمام باتیں سن کر کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی پھر اس نے کہا۔
”ہر انسان سے غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ میں اپنے بھائی کو یہ سب کچھ بتا دوں گی… میں جانتی ہوں، وہ بھی کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔ وہ بہت اچھا ہے۔”
خدیجہ اس سے اس جواب کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ اس کا خیال تھا، وہ یہ سب کچھ سن کر اپنا فیصلہ واپس لے لے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ اپنی پیش کش پر قائم رہی۔
—–*—–
اسلامک سینٹر کے توسط سے اس کا نکاح شجاع سے ہو گیا اور وہ پاکستان چلی گئی وہاں اس کا جانا ایک نیا پینڈورا باکس کھلنے کے مترادف تھا۔
شجاع اڑتالیس سال کا واجبی شکل و صورت اور تعلیم والا ایک دکان دار تھا جو سبزی اور پھل بیچتا تھا۔ اندرون شہر کی ایک ٹوٹی پھوٹی گلی میں ایک کمرے اور صحن پر مشتمل گھر تھا جس میں وہ رہتا تھا۔ ساجدہ کی باقی تینوں بہنیں پاکستان میں ہی رہتی تھیں اور ایئرپورٹ پر وہی انہیں لینے آئی تھیں۔ شجاع ایئرپورٹ پرنہیں آیا۔
ساجدہ نے اسے یہ بتایا تھا کہ شجاع کی عمر چالیس سال ہے، وہ کاروبار کرتا ہے اور اپنے گھر اور دکان کا مالک ہے۔ مگر اس کے گھر تک آتے آتے کسی سوال کے بغیر ہی وہ بہت سی باتوں کا اندازہ کر چکی تھی۔
شجاع کو پہلی بار دیکھ کر اسے مظہر یاد آ گیا تھا۔ کسی بھی چیز میں دونوں کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا تھا مگر وہ موازنہ نہیں کر رہی تھی۔ وہ بہت خاموشی کے ساتھ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔
اگلے کئی گھنٹے وہ سب لوگ باتوں اور خوش گپیوں میں مصروف رہے۔ اس کے بعد شجاع کی تمام بہنیں اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیں۔ ساجدہ بھی اپنی ایک بہن کے ہاں چلی گئی۔
شجاع جب دوبارہ اندر آیا تو خدیجہ نے اس سے کہا ”مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔” وہ بے حد حیران نظر آیاشاید اسے خدیجہ سے اتنی صاف اردو کی توقع نہیں تھی اور ساجدہ کے یقین دلانے پر بھی اسے یقین نہیں تھا کہ وہ اچھی اردو میں بات کر سکتی ہے۔
”میں بھی آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کو دیکھ کر میں بہت پریشان ہو گیا ہوں۔” خدیجہ کے کچھ کہنے سے پہلے اس نے کہنا شروع کر دیا۔
”آپ کیوں پریشان ہوئے ہیں؟”
”ساجدہ نے مجھ سے کہا تھا، آپ کی عمر کافی زیادہ ہے مگر آپ کو دیکھ کر مجھے ایسا نہیں لگا۔”
”میری عمر تیس سال ہے۔” وہ فکر مند نظر آنے لگا۔
”ساجدہ نے کہا تھا آپ کی عمر پینتیس، چالیس سال ہے… میں دوبارہ خود سے اتنی چھوٹی لڑکی سے شادی کرنا نہیں چاہتا تھا۔”
”دوبارہ؟” خدیجہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔ شجاع نے سر اٹھا کر حیرت سے اسے دیکھا۔
”میری پہلے ایک شادی ہوئی تھی… عمر کا بہت زیادہ فرق تھا… وہ میرے ساتھ خوش نہیں رہ سکی اور علیحدہ ہو گئی۔” خدیجہ نے ایک گہرا سانس لیا۔
”کیا ساجدہ نے آپ کو یہ نہیں بتایا تھا کہ میری پہلے شادی ہو چکی ہے؟” شجاع کو اس کے تاثرات کچھ اور پریشان کرنے لگے۔
”نہیں… انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ کی عمر چالیس سال ہے اور آپ نے اپنی بہنوں کی وجہ سے ابھی تک شادی نہیں کی۔” خدیجہ نے مدھم آواز میں اس سے کہا۔ شجاع کے چہرے پر اب ندامت جھلکنے لگی۔
”میری عمر اڑتالیس سال ہے۔” اس نے جیسے انکشاف کیا مگر خدیجہ چونکی نہیں۔ وہ پہلے ہی یہ اندازہ لگا چکی تھی۔
”کیا ساجدہ نے آپ کو میرے بارے میں بتایا؟”
”کیا؟”
”سب کچھ… میری شادی، میرے حالات؟” وہ جیسے ہکا بکا رہ گیا۔
”نہیں۔ اس نے ایسا کچھ نہیں کہا… اس نے کہا تھا، آپ کی شادی نہیں ہوئی۔ آپ کسی پاکستانی سے شادی کرنا چاہتی ہیں اور آپ کو میری تعلیم، عمر یا مالی حیثیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔” پھر وہ یک دم چونکا۔
”کیا اس نے آپ کو نہیں بتایا کہ میں سبزی اور پھل بیچتا ہوں اپنی دکان پر؟” خدیجہ نے نفی میں سر ہلا دیا۔
”انہوں نے ہم دونوں سے بہت سے جھوٹ بولے ہیں۔ میں آپ کے بارے میں حقیقت جان چکی ہوں۔ اب آپ میرے بارے میں بھی حقائق جان لیں۔” خدیجہ نے مدھم آواز میں اسے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ بہت دیر تک بولتے رہنے کے بعد جب وہ خاموش ہوئی تو اس نے شجاع کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کی۔
وہ بے حد تھکا ہوا نظر آ رہا تھا۔ خدیجہ منتظر تھی کہ اس کا چہرہ سرخ ہوگا۔ وہ چلانے لگے گا اور اسے دھکے دے کر باہر نکال دے گا۔
مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔
”یہ سب ساجدہ مجھے بتا دیتی اور آپ کو اس طرح بے خبر نہ رکھتی تو بھی میں آپ سے شادی کر لیتا۔ یہی بڑی بات ہے کہ آپ سب کچھ چھوڑ کر ہمارے دین میں آ گئی ہیں… غلطیاں انسان سے ہوتی ہیں اور آپ نے تو بہت مشکل زندگی گزاری ہے۔ مگر اب اس طرح میں آپ کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ میری پہلی بیوی مجھ سے ناخوش تھی۔ میرے اصرار کے باوجودمیری بہنوں نے بہت کم عمر لڑکی کا انتخاب میرے لیے کیا۔ شادی کے بعد آہستہ آہستہ جب اسے سب کچھ پتا چلتا گیا تو… پھر اس نے طلاق لے لی۔ اس نے ٹھیک کیا مگر جتنا عرصہ وہ میرے گھر رہی، میری گردن جھکی رہی۔ میں اس فریب میں شامل نہیں تھا پھر بھی اگر میری بہنیں کچھ غلط کریں گی تو میں اس سے بری الذمہ کیسے ہو سکتا ہوں۔
آپ کے بارے میں ساجدہ نے مجھ سے کہا تھا کہ شادی کے بعد آپ مجھے اپنے ساتھ باہر لے جائیں گی… میں بہت حیران تھا کہ… مگر اب مجھے اندازہ ہوا ہے کہ یہ سب کچھ ایک دھوکا تھا جس میں اس نے مجھے اور آپ کو رکھا۔ وہ میری بہن ہے، میری محبت سے مجبور ہو کر اس نے ایک غلط کام کیا ہے۔ میں آپ کے سامنے بھی سر نہیں اٹھا سکتا۔ بہت اچھا ہوا، یہ سب کچھ ابھی پتا چل گیا۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ میرے گھر میں آپ مہمان ہیں۔ میں آپ کوواپس انگلینڈ بھجوا دوں گا۔ آپ کو اپنے پاس سے ٹکٹ دلواؤں گا، چاہے مجھے قرضہ لینا پڑے۔ چاہے مجھے اپنی دکان بیچنی پڑے لیکن میں آپ کو پہنچنے والی تکلیف کا ازالہ ضرور کروں گا۔ بس آپ سے ہاتھ جوڑ کر یہ درخواست کرتا ہوں کہ مجھے اور میری بہن کو معاف کر دیں، کوئی بددعا نہ دیں۔”
خدیجہ بت بنی اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ اب اس کے سامنے ہاتھ جوڑنے کے بعد، آستینوں سے اپنے آنسو صاف کرتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔
”میرے اللہ! یہ شخص کون ہے کیا ہے؟ مجھ پر لعنت ملامت کرنے کے بجائے یہ اپنی غلطی پر میرے سامنے ہاتھ جوڑ رہا ہے۔ کیا اس کو میرے وجود سے گھن نہیں آئی؟ وہ گھن جو مظہر کو آئی تھی، کیا رشتہ ہے میرااس شخص کے ساتھ؟ چند دنوں کی منکوحہ ہوں میں اس کی؟ اور یہ مجھے، میری ہر غلطی پر معاف کرنے کو تیار ہے صرف یہ کہہ کے کہ وہ میرا ماضی تھا اور اس کے لیے یہ بڑی بات ہے کہ میں اس کے دین میں آئی… اور مظہر اس کے ساتھ تو تین سال رہی تھی میں… میرے دن رات سے واقف تھا وہ… میرا ایک ایک عمل اس کے سامنے تھا پھر بھی اس نے مجھے معاف نہیں کیا، کون بہتر ہے ان میں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ، خوبصورت، دولت مند، اچھے خاندان سے تعلق رکھنے والا وہ شخص جسے میری ذات میں ایک بھی خوبی نظر نہیں آئی یا جاہل، واجبی شکل و صورت کا مالک یہ غریب شخص جو میرے عیب گنوانے کے بجائے اپنی اور اپنی بہن کی غلطیوں پر روتا ہوا گیا ہے۔”
وہ بہت دیر بعد کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آئی۔ شجاع اندھیرے میں برآمدے کی سیڑھیوں میں بیٹھا تھا۔ اس کے قدموں کی چاپ پر کھڑا ہو گیا۔
”آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟” وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
”روشنی کر دیں، یہاں بہت اندھیرا ہے۔” وہ اندھیرے میں اس کے تاثر نہیں دیکھ پائی تھی مگر اس نے آگے بڑھ کر برآمدے کی دیوار پر لگا ایک بٹن دبا دیا۔ بلب کی ملگجی روشنی برآمدے کی تاریکی کو ختم کرنے لگی۔
”آپ اندر آ جائیں، یہاں بہت سردی ہے۔”
”نہیں میں… ادھر ٹھیک ہوں، آپ آرام سے اندر سوئیں۔”
”مجھے آپ سے کوئی خوف نہیں ہے۔ آپ میرے شوہر ہیں۔ میں آپ سے بس یہ درخواست کرنا چاہتی ہوں کہ مجھے دوبارہ کبھی انگلینڈ نہیں جانا۔ میں اپنی زندگی یہاں گزارنا چاہتی ہوں۔ ہمیشہ کے لیے۔” وہ واپس کمرے میں پلٹ گئی۔
”خدیجہ! آپ میرے بارے میں ٹھیک سے نہیں جانتیں، میرے پاس پیسہ نہیں ہے۔ میری آمدنی بہت…” وہ بے چینی سے کہتا ہوا اس کے پیچھے اندر آیا۔ خدیجہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”شجاع! آپ دو وقت کا کھانا تو کھلائیں گے نا مجھے؟”
”ہاں لیکن…”
”پہننے کے لیے لباس بھی دیں گے؟” ”ہاں پھر بھی…”
”اور گھر تو یہ ہے ہی…” وہ کمال اعتماد سے کہہ رہی تھی۔ ”اگر عزت اور محبت دیں تو مجھے اس سے زیادہ کسی چیز کی طلب نہیں ہے۔ میں اللہ سے دعا کروں گی، وہ آپ کا رزق بڑھا دے اور میں ساری زندگی کبھی آپ کے لیے کسی تکلیف اور پریشانی کا باعث نہیں بنوں۔”
شجاع اسے بہت حیرت سے دیکھتا رہا۔ وہ کسی طرح کی عورت تھی وہ سمجھ نہیں سکا۔
—–*—–




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۲

Read Next

سزا — مریم مرتضیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!