لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

وہ تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے ماما جان کے گھر پہنچا مگر دروازے پر باہر تالا لگا ہوا تھا۔
اسے یک دم تشویش ہوئی۔ اس نے ساتھ والا دروازہ کھٹکھٹایا۔
”انہیں شفیق اور ثریا ہاسپٹل لے کر گئے ہیں۔ میں ان سے ملنے گئی تو باہر کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور وہ اندر تھیں۔ ان کے سینے میں درد ہو رہا تھا۔ سانس نہیں آ رہا تھا۔ میں نے ثریا اور شفیق کے ساتھ انہیں ہاسپٹل بھجوا دیا۔ ابھی تک کوئی اطلاع نہیں دی انہوں نے۔” ساتھ والی خالہ نے بڑی تشویش کے ساتھ اسے بتایا۔ ذالعید کا رنگ اڑ گیا۔
وہ جس وقت ہاسپٹل پہنچا، اس وقت شام ہو رہی تھی۔ آدھ گھنٹے کے بعد وہ ماما جان کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ وہ آئی۔ سی۔ یو میں تھیں۔ وہ بالکل ساکت، شیشے سے انہیں آکسیجن کی مدد سے سانس لیتا دیکھتا رہا۔
”کیا انہیں انجائنا کی تکلیف تھی؟” ڈاکٹر اس سے پوچھ رہا تھا۔ اس نے خالی آنکھوں سے نفی میں سر ہلا دیا۔
”کیا میں انہیں یہاں سے شفٹ کروا سکتا ہوں؟” وہ انہیں کسی اچھے پرائیویٹ ہاسپٹل میں لے جانا چاہتا تھا۔
“اس حالت میں نہیں۔ کچھ بہتر ہو جائیں تو پھر ایسا کر سکتے ہیں۔” ڈاکٹر نے کہا۔
”پھر میں یہاں ان کا بہترین علاج چاہتا ہوں۔ میں کچھ دوسرے ہارٹ اسپیشلسٹ کو یہاں بلوانا چاہتا ہوں۔ اگر آپ کو ان کے علاج کے سلسلے میں کچھ بھی کہیں سے بھی منگوانا پڑے تو آپ منگوائیں۔ پیسے کی پروا مت کریں۔” وہ بے تابی سے ان سے کہہ رہا تھا۔
ڈاکٹر سر ہلا کر چلا گیا۔ وہ اپنے موبائل پر اپنے فیملی ڈاکٹر سے بات کرنے لگا۔
شفیق اور ثریا اس کے اصرار کے باوجود وہاں سے نہیں گئے۔ وہ محلے کے ان تمام لوگوں سے ملتے اور انہیں خدیجہ نور کی حالت کے بارے میں بتاتے رہتے جو وقتاً فوقتاً رات گئے وہاں آتے رہے۔
—–*—–





وہ ڈیڑھ ماہ کا عرصہ خدیجہ نور کی زندگی کے بہترین دن تھے۔ دنیا کی سب سے خوبصورت جگہ اپنے عزیز بیٹے کے ساتھ گزارا جانے والا وقت اس کی زندگی کا حاصل تھا۔ وہ کئی بار وہاں اپنا ہاتھ دیکھنے لگتی۔ اسی ہاتھ کی کسی لکیر کو دیکھ کر بہت سال پہلے ایک شخص نے اس سے کہا تھا کہ اس کی قسمت میں ایک ایسا بیٹا ہے جس پر اسے فخر ہو گا۔ اسے پہلی بار وہاں خود پر فخر ہوا تھا۔ احرام باندھے وہ اس کا ہاتھ پکڑے کسی ننھے بچے کی طرح اسے ساتھ لیے وہ وہاں پھرتا رہا۔
اب اس کے بعد اور کیا باقی رہ گیا ہے میری زندگی میں… سب کچھ تو مل چکا ہے مجھے۔ توحید سے حج تک… اور جہاد جہاد تو میں ساری عمر کرتی رہی۔ اپنے نفس سے… اپنے شک سے… آزمائش سے… تکلیف سے… کیا مجھ پر بھی میرا دین مکمل نہیں ہو گیا۔
”وہاں اسے اپنی زندگی میں آنے والے سب لوگ یاد آتے رہے… روتھ براؤن جس نے ایک شخص کی بے وفائی کے بعد اپنی زندگی شراب کے نشے کی نذر کر دی… علیم ساجد وہ باپ جسے اس نے کبھی نہیں دیکھا مگر جس کی غلطی نے اس کی زندگی میں تباہی برپا کر دی تھی۔ مظہر اوّاب جو اسے مذہب کی طرف لایا اور پھر راستے میں چھوڑ کر چلا گیا۔ جہاں ایک لغزش اسے ایسی کھائی میں دھکیل دیتی جہاں سے وہ دوبارہ کبھی واپس نہ آ پاتی… عاصم وہ شخص جس نے اس پر رحم نہیں کھایا… ساجدہ جس نے بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح اسے اپنے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی… شجاع وہ مہربان شخص جس کی وہ ساری عمر احسان مند رہی… مریم جس نے اس کی زندگی میں امید کو دوبارہ زندہ کیا… اور ذالعید اواب، اس کا وہ بیٹا جس کے نام سے وہ روز قیامت پہچانی جائے گی۔
اس نے حج کے دوران ہی ایک رات ذالعید کو وصیت کی کہ وہ اسے اس کی وفات کے بعد شجاع کے پاس دفن کرے۔ ذالعید گم صم اسے دیکھتا رہا۔
”میں آپ کو اپنے خاندانی قبرستان میں دفن کروں گا۔” ایک طویل خاموشی کے بعد اس نے خدیجہ سے کہا۔
”نہیں! میں تمہارے خاندان کا حصہ نہیں ہوں۔ میں شجاع کے پاس رہوں گی۔” ماما جان نے انکار کر دیا۔
”ماما جان! پھر میں مرنے کے بعد آپ کے پاس دفن ہوں گا۔ اسی محلے میں اسی قبرستان میں۔”
وہ اسے دیکھتے ہوئے مسکرا دیں پچھلے دو سال میں انہوں نے ذالعید کو بالکل بدلے ہوئے روپ میں دیکھا تھا۔ شروع کے ایک سال انہوں نے اس کی آنکھوں میں کبھی اس طرح نمی کو امڈتے نہیں دیکھا جس طرح پچھلے دو سال میں امڈتی تھی۔
”مرد رویا نہیں کرتے ذالعید۔” وہ اسے سمجھاتیں۔
وہ بے بسی سے سر ہلا کر رہ جاتا۔
—–*—–
ذالعید وہاں سے کب چلا گیا۔ اسے کچھ پتا نہ تھا وہ کہاں تھی، کہاں نہیں اسے یہ خبر بھی نہیں تھی۔ وہ ہر حقیقت سے آج پردہ اٹھا دینا چاہتی تھی مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس پردے نے اس کے اپنے وجود کو ڈھانپا ہوا تھا۔ اس کی بدصورتیوں کو، اس کے عیبوں کو، اس کی خامیوں کو… اور پردہ اٹھنے کے بعد اسے اپنے وجود سے گھن آنے لگی تھی۔ وہ آئینے میں خود کو ہی دیکھ نہیں پا رہی تھی۔
ہاں ذالعید نے ٹھیک کہا۔ میرے آرٹ میں سارا اثر ماما جان ہی کا تو تھا جو لوگوں کو ان تصویروں کی طرف کھینچ لاتا تھا۔ جو رزق مجھ تک کھینچ لاتا تھا اگر مجھ میں قناعت ہوتی تو میرے لیے وہی رزق کافی تھا۔ اتنی ہی شہرت بہت تھی… مگر میں… میں انتظار کرنا نہیں چاہتی تھی پوری دنیا کو ایک جست میں اپنے پیروں تلے لانا چاہتی تھی اور اگر مجھ میں قناعت ہوتی ماما جان! تو میں ذالعید کا خواب دیکھنے کی کوشش کیوں کرتی یا اگر وہ مل گیا تھا تو پھر مجھے سکون کیوں نہیں مل گیا… نہیں ماما جان! میرے اندر قناعت تھی ہی نہیں۔ میں تو ہر چیز کو سیڑھی بنا کر آگے بڑھنا چاہتی تھی۔ اپنے آرٹ کو، آپ کو، ذالعید کو… ہر چیز کو… اور کل شاید اپنی اولاد کو بھی۔
آج تک میں آپ کی اور ذالعید کی خواہشوں کا ہر قدم پر خون کرتی رہی تو کل میں اپنی اولاد کے ساتھ بھی یہی کرتی۔ ان کی خواہشات اور خوشیوں کو بھی اپنی غرض کی بھینٹ چڑھا دیتی۔ میں نے اپنے ہر رول میں یہی تو کیا ہے چاہے وہ بیٹی کا ہو یا بیوی کا…
کاش آپ مجھے بہت پہلے اپنے ماضی کے بارے میں سب کچھ بتا دیتیں… کاش آپ مجھے… مگر اس کا کیا فائدہ ہوتا میں تو شاید تب بھی آپ کو اسی طرح بلیک میل کرتی رہتی بلکہ شاید اس سے زیادہ بری طرح۔
میں تو صرف یہ سوچ رہی ہوں ماما جان! کہ میں نے تو آپ کو اور ذالعید کو کتنی تکلیف دی ہے۔ کیا میں کبھی اتنی ہمت کر سکوں گی کہ دوبارہ آپ کے سامنے یا ذالعید کے سامنے جا سکوں۔ یہ کہہ سکوں کہ مجھے معاف کر دیں اور معافی… معافی کیا ہوتی ہے؟ معاف کر دینا کیا ہوتا ہے؟
آپ مجھے اس لیے باہر لے جانا نہیں چاہتی تھیں کیونکہ آپ خوفزدہ تھیں اپنی زندگی سے۔ اپنے تجربات سے۔ آپ مجھے ایسے کسی بھی حادثے سے بچانا چاہتی تھیں اور میں سوچتی تھی، آپ کو ایک غلام چاہیے جو بڑھاپے میں آپ کے پاس رہے۔ آپ کی خدمت کرتا رہے۔ میں واقعی ان لوگوں میں سے ہوں جن کی آنکھوں پر غرض کی پٹی بندھی ہوتی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا ایسی پٹی باندھے پھرتی ہے۔
وہ گم صم صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھی جب ذالعید اندر آیا۔ مریم نے اسے سر اٹھا کر دیکھا۔ وہ بہت پریشان نظر آ رہا تھا۔ وہ وارڈ روب کی دراز کھول کر کچھ رقم اپنے والٹ میں ٹھونس رہا تھا۔ وارڈ روب بند کرتے ہوئے اس نے ایک بار مریم کو پلٹ کر دیکھا۔
”تمہاری وجہ سے میری ماں ہاسپٹل جا پہنچی ہے… تم یاد رکھنا اگر میری ماں کو کچھ ہوا تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔” اس نے انگلی اٹھا کر کہا اور وہ کمرے سے نکل گیا۔
”ماما جان…!” اس کے دل کی دھڑکن جیسے رکنے لگی۔
”کیا یہ سب واقعی میں نے آپ کے ساتھ کیا ہے؟ کیا واقعی میں ہوں وہ جس نے…” اسے یک دم جیسے خود سے خوف آنے لگا۔
”میں کون ہوں؟”
”آخر کون ہوں؟ The incarnation of evil (مجسم شیطان) میری خواہشات نے مجھے کیا بنا دیا ہے؟ میرے خواب مجھے کہاں لے آئے ہیں؟” اسے اپنی پوری زندگی ایک فلم کی طرح اپنے سامنے چلتی محسوس ہوئی۔
The trees ask me
And the sky
And the sea asks me
Who am I? Who am I?
اسے کانونٹ میں گائی جانے والی ایک نظم یاد آنے لگی۔
میں… میں اُمّ مریم ہوں۔ ایک طلاق یافتہ عورت کی بیٹی ایسی عورت جس کو اس کے شوہر نے کم جہیز لانے پر طلاق دے دی۔
(کیا پیسے کی یہ خواہش میں نے اس عورت کے خون سے لی جسے میری پیدائش سے پہلے اور بعد میں صرف یہ کہا جاتا تھا، تمہارے پاس کیا ہے؟ تم کیا لائی ہو؟)”
اسی عورت جس نے مجھے تین سال کی عمر میں اس وقت کسی دوسرے کو تھما دیا جب اسے دوسری شادی کرنی تھی اور کوئی اس کی بیٹی کو اس کے ساتھ قبول کرنے پر تیار نہیں تھا نہ دوسرا شوہر نہ سابقہ شوہر نہ ہی اس کے میکے والے۔ ہر جگہ غربت تھی۔ ”تو کیا یہ اس غربت نے…؟”
ایک ایسے باپ کی بیٹی جو پیسے کے لالچ میں گرفتار تھا… اس حد تک کہ اس نے رشتے توڑنے میں بھی دیر نہیں لگائی… اس نے اپنی بیوی کو بیٹی سمیت چھوڑ دیا۔ (کیا یہ ہوس میں نے اس شخص سے لی؟)
میں اُمّ مریم ہوں جسے تین سال کی عمر میں دو ایسے انسانوں نے گود لیا… جن کے پاس صبر اور شکر کے علاوہ کچھ بھی بھی نہیں تھا۔ ایک وہ مرد جس نے اپنی ساری زندگی اپنی بہنوں کی زندگیاں سنوارتے گزار دی۔
ایک وہ عورت جو صبر و قناعت کا نمونہ تھی۔ جس نے ساری زندگی کھلے ہاتھ کے بجائے بند مٹھی کے ساتھ گزاری۔ جس نے اپنی آزمائشوں اور تکلیفوں کو دنیا کے ہر شخص کو روک روک کر بتانے کے بجائے ان پر صبر کیا اور خاموشی اختیار کر لی۔میں نے ان دونوں سے کچھ نہیں لیا۔ وہ سکون کی زندگی گزار رہے تھے۔ مجھے لگا وہ مجبوری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ میں دو مومنین کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی۔ ہاں دو مومنین کے ساتھ مگر میں منافقین کے اس گروہ سے تھی جسے بینائی سے محروم رکھا گیا تھا۔ جن کے دلوں پر مہر لگا کر انہیں دنیا میں اتارا جاتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں انہیں جنت میں بھیج دیا گیا ہے۔
میں اُمّ مریم ہوں جسے ان مومنین سے وابستگی پر شرمندگی تھی۔ میرا خیال تھا، ان دونوں کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہے جسے میں دنیا سے ان کے تعارف کے لیے استعمال کروں مگر وہ دونوں وہ انسان تھے جو دنیا کی وجہ سے پہچانے نہیں جاتے دنیا ان کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔
میں اُمّ مریم ہوں جس نے اپنے ہر ہنر، ہر فن، ہر خوبی پر غرور کیا، اتنا غرور کہ اس کو اپنے علاوہ دنیا میں کچھ بھی نظر آنا بند ہو گیا جس کی خواہش تھی، وہ ہر اخبار کے فرنٹ پیچ پر نظر آئے۔ لوگ اس کو دیکھیں ،پہچانیں اور اس پر رشک کریں، جس نے صرف دنیا میں اپنی پہچان کے لیے اپنے کام کو رنگوں کے بجائے کیچڑ سے سجانا شروع کر دیا۔ اس کا کام روح سے جسم پر آ گیا۔ آسمان سے پاتال میں اترنا شروع ہو گیا۔ مگر اس کے بدلے اس کے اردگرد دولت کا ڈھیر لگنا شروع ہو گیا۔ نام اور شہرت ملنی شروع ہو گئی… لوگوں کی داد اور عزت… ”عزت” ہاں جو مجھے عزت لگتی تھی وہ بھی ملی۔
میں اُمّ مریم ہوں جسے غلطی سے یا خوش قسمتی سے ایک ایسا شخص مل گیا جو میرا حق نہیں تھا۔ ماما جان کی امانت تھی جسے میرے توسط سے انہیں لوٹایا گیا تھا اور میں نے سوچا وہ کوہ نور ہیرا ہے جو مجھے تقدیر نے دیا ہے۔ اس شخص کی رگوں میں اسی عورت کا خون تھا جس نے آزمائش میں صبر کیا اور اس شخص نے بھی یہی کیا۔ مجھے صبر سے برداشت کیا۔
میں اُمّ مریم ہوں وہ عورت جس نے اپنی زندگی میں صرف ایک چیز سیکھی۔ نظریہ ضرورت میں نے ہر چیز کو استعمال کیا۔ بابا کو، ماما جان کو، ذالعید کو اور اپنے آرٹ کو۔
وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی یوں لگتا تھا جیسے وہ کسی ٹرانس میں ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ زندگی میں پہلی بار وہ ٹرانس سے باہر آ رہی تھی۔ مادیت کے ٹرانس سے۔ اپنے آرٹ اسٹوڈیو کی طرف جاتے ہوئے اسے وہ دو تصویریں یاد آ رہی تھیں جو اس نے بہت سال پہلے بنائی تھیں۔ Belief اور Desire (خواہش اور ایمان)… اسے یاد تھا اس نے Desire (خواہش) والی پینٹنگ بناتے ہوئے ماما جان کے منہ سے اس کے لیے یہ کیپشن سنا تھا۔ اسے تصویر کے لیے یہ کیپشن پسند آیا… اور جب وہ Belief (ایمان) بنا رہی تھی تب بھی اس کا کیپشن ماما جان نے ہی دیا تھا اور یہ وہی دونوں پینٹنگ تھیں جس نے ذالعید کو اس کا پہلا تعارف دیا تھا۔ وہ دو پینٹنگز نہیں تھیں۔ ماما جان اور وہ خود تھی۔ وہ Desire (خواہش) تھی۔ ماما جان Belief (ایمان) تھیں۔ اس نے ساری زندگی خواہش کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ یہ مل جائے، وہ مل جائے اور اب جب سب کچھ مل گیا تو اسے اپنے پاس موجود ہر چیز سے خوف آنے لگا تھا… ہر چیز سے۔
اسے رابرٹ فروسٹ کی After apple picking (سیب توڑنے کے بعد) یاد آئی جسے بہت سال پہلے اس نے پڑھا تھا اور پھر اکتا کر اس نظم کو ایک طرف پھینک دیا تھا۔ آج اسے وہی ساری نظمیں یاد آ رہی تھیں۔
My long two-pointed ladder is sticking
Through a tree towards heaven still
And there is a barrel that I didn’t fill
Beside it, and there may be two or three
Apples I didn’t pick upon some bough
But I am done with apple-picking now
(میں نے اپنی لمبی سیڑھی آسمان کی طرف سیب کے درخت کے ساتھ ٹکائی ہوئی ہے ا
ور وہاں ایک بیرل پڑا ہے جسے میں ابھی تک سیبوں سے بھر نہیں سکا
اور شاید کسی شاخ پر ابھی بھی چند سیب ایسے ہیں جو میں اتار نہیں سکا،
مگر اب میں سیب چنتے چنتے تھک گیا ہوں۔)
وہ اپنے سٹوڈیو میں پہنچ گئی۔ مشینی انداز میں اپنی پینٹنگز اتار کر اس نے اسٹوڈیو کے وسط میں جمع کرنی شروع کر دیں۔ وہ برہنہ جسم جسے وہ آرٹ کہتی تھی۔ یونیورسل آرٹ جس نے اسے دنیا کے بازار میں راتوں رات شہرت دلا دی تھی۔ اسی کی طرح نفس زدہ لوگوں کی شہرت اور داد۔ جو ہر چیز میں برہنگی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، چاہے وہ تصویر میں ہو یا تحریر میں۔ چاہے وہ Reel life (فلمی زندگی) میں ہو یا Real life (حقیقی زندگی) میں۔
I feel the ladder sways as the boughs bend
And I keep hearing from the cellar bin
The rumbling sound
Of load on load of apples coming in
For I have had too much
Of apple-picking
I am over tired
Of the great harvest I myself desired
(میں جھکی ہوئی شاخوں کے ساتھ سیڑھی کو ہلتا محسوس کرتا ہوں
اور میں کنٹینر میں پڑے ہوئے سیبوں کے ڈھیر پر ایک اور ڈھیر گرنے کی آواز سنتا رہتا ہوں۔
مگر میں ضرورت سے زیادہ سیب اکٹھے کر چکا ہوں۔
میں سیبوں کی اس شاندار فصل کو اکٹھا کرتے کرتے تھک چکا ہوں۔
جس کی میں نے خود خواہش کی تھی۔)
وہ اسٹوڈیو میں کھڑی تصویروں کے اس ڈھیر کو جلتا دیکھ رہی تھی۔ ان سے اٹھتے ہوئے شعلے اس کے اپنے اندر اٹھنے والے شعلوں سے زیادہ بلند نہیں تھے۔ وہ اب اسٹوڈیو کے بند دروازے کو دھڑ دھڑائے جانے کی آوازیں سن رہی تھی۔ ملازم اکٹھے ہو چکے تھے مگر وہ جانتی تھی جب تک یہ دروازہ کھلے گا وہ ساری تصویریں جل کر راکھ ہو چکی ہوں گی۔
—–*—–




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۲

Read Next

سزا — مریم مرتضیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!