لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

وہ ساری رات شیشے سے ماما جان کو دیکھتا رہا، جب وہ تھک جاتا تو وہیں نیچے زمین پر بیٹھ کر آئی۔ سی۔ یو کی دیوار سے ٹیک لگا لیتا۔ پھر چند منٹوں بعد دوبارہ اٹھ کر ماما جان کو دیکھنے لگتا۔
پچھلا ڈیڑھ ماہ وہ دن رات ایک ساتھ رہے تھے۔ وہ ساری ساری رات جاگتے باتیں کرتے رہتے۔ ان کے پاس ایک دوسرے کو بتانے کے لیے اتنا بہت کچھ تھا۔ ذالعید نے اپنی دنیا کو کبھی اتنا مکمل، اتنا پرُسکون نہیں پایا۔ وہ مریم کو ماما جان کے بارے میں سب کچھ بتا دینا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا وہ اب ان کے ساتھ رہیں۔ اسے اس عمر میں آ کر ماں کی بہت شدت سے کمی محسوس ہونے لگی تھی۔
جب وہ نہیں تھیں تو اس نے کبھی ان کے بارے میں نہیں سوچا اور اب وہ تھیں تو اسے ان کے علاوہ اور کچھ یاد ہی نہیں رہتا تھا۔ وہ ماما جان کو بے خبر رکھ کر مریم کو سب کچھ بتا دینا چاہتا تھا۔ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ اس کا ردِعمل کیا ہوگا مگر اس سے پہلے ہی سب کچھ…
ہاسپٹل کی مسجد میں اس نے فجر کی نماز ادا کی اور جب وہ نماز ادا کر کے واپس آیا تو شفیق نے اسے ماما جان کے ہوش میں آنے کی اطلاع دی۔ وہ تقریباً بھاگتا ہوا آئی سی یو میں چلا گیا۔ وہاں ڈاکٹرز اور نرسز موجود تھیں۔ ماما جان خود سانس لے رہی تھیں۔ ان کی آنکھیں کھلی تھیں۔ وہ ان کے پاس چلا گیا۔
ماما جان اسے دیکھ کر مسکرائیں۔ وہ ان کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا اور بچوں کی طرح رونے لگا۔ اس کے پیچھے کھڑے ڈاکٹر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مدھم آواز میں کچھ کہتے ہوئے اسے اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ نہیں اٹھا۔ ماما جان نے اپنے دونوں بازو پھیلا کر اسے اپنے سینے کے ساتھ لپٹا لیا۔
”اس کو میرے پاس رہنے دیں۔ یہاں سے نہ لے جائیں۔” ان کے سینے پر سر رکھ کر روتے ہوئے ذالعید نے ماما جان کو نحیف آواز میں کہتے سنا۔ وہ جیسے ہوش میں آ گیا۔
”آپ ابھی ٹھیک نہیں ہیں، بات مت کریں۔” ڈاکٹر اب ماما جان سے کہہ رہا تھا۔ ذالعید ماما جان سے الگ ہو گیا۔
”مجھے کچھ دیر اپنی ماں کے ساتھ رہنے دیں۔ میں انہیں پریشان نہیں کروں گا۔ روؤں گا بھی نہیں۔” اس نے مڑ کر ڈاکٹر سے کہا۔
ڈاکٹر کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر پیچھے ہٹ گیا۔ ذالعید ماما جان کا ہاتھ ہاتھوں میں لے کر دوبارہ انہیں دیکھنے لگا۔
”مریم نے آپ کو تکلیف پہنچائی ہے۔ میں مریم کو طلاق دے دوں گا مجھے اسے نہیں رکھنا ہے۔” اس نے ماما جان کے چہرے پر مسکراہٹ غائب ہوتے دیکھی۔
”میری مریم کو طلاق دے دو گے؟” ان کے لہجے میں جیسے بے یقینی تھی۔
”اس نے آپ کو تکلیف دی ہے ماما جان!” وہ جیسے انہیں یاد دلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ”آپ یہاں اس کی وجہ سے آئی ہیں۔”
ماما جان کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔
”وہ میری بیٹی ہے۔”
”وہ آپ کی بیٹی نہیں ہے ماما جان! میں آپ کا بیٹا ہوں۔” وہ ان پر جھک گیا۔ اس نے اپنی انگلیوں کی پوروں سے ان کے آنسو صاف کیے۔
”اگر تم میرے بیٹے ہو تو اس کو طلاق مت دینا۔ اسے تکلیف ہو گی تو مجھے تکلیف ہوگی۔” ذالعید کی آنکھوں میں آنسو جمع ہونے لگے۔
”نہیں دو گے نا؟” وہ اس سے جیسے کوئی یقین دہانی چاہتی تھیں۔ ذالعید نے سر ہلا دیا۔
”ماما جان نے دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھام کر ماتھا چوما۔ تم واقعی میرے بیٹے ہو۔ میرے ذالعید ہو۔” انہوں نے بہت مدھم اور کمزور آواز میں کہا۔
”تم مجھے پانی پلاؤ۔” ذالعید نے ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے چمچ سے ان کے منہ میں پانی ڈالا۔ انہوں نے چند چمچ پینے کے بعد ہاتھ سے اسے روک دیا۔ ان کا سانس اکھڑنے لگا۔
وہ اکھڑے سانس کے ساتھ کچھ پڑھ رہی تھیں، وہ کلمہ تھا۔





ڈاکٹر نے آگے بڑھ کر انہیں دوبارہ آکسیجن لگانی چاہی تب تک ماما جان کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں۔ ان کا ہاتھ ذالعید کے ہاتھوں میں تھا۔
”آپ پلیز یہاں سے اٹھ جائیں۔ ہم انہیں الیکٹرک شاک دینا چاہ رہے ہیں۔ دل کی دھڑکن بند ہو چکی ہے۔” نرس نے ذالعید کو اٹھا دیا۔
وہ جانتا تھا، اب کوئی الیکٹرک شاک وہ دھڑکن دوبارہ بحال نہیں کر سکے گا۔ بہتے ہوئے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے وہ ڈاکٹرز اور نرسز کی چند منٹ کی وہ جدوجہد دیکھتا رہا جس کے بعد انہوں نے مایوسی سے سر ہلا دیا تھا۔
”میں مطمئن ہوں انہوں نے آخری بات مجھ سے کی میں نے انہیں پانی پلایا اور میں جانتا تھا، میں دوبارہ ان کی آنکھوں کو کبھی کھلتا نہیں دیکھوں گا۔”
اس نے چادر سے ان کا چہرہ ڈھاپننے سے پہلے ان کا ماتھا چوما۔
—–*—–
اس نے فون پر ملازم کو ماما جان کی موت کی اطلاع دی۔ ”ڈرائیور سے کہنا، وہ مریم کو ماما جان کے گھر لے آئے۔ میں وہیں جا رہا ہوں۔” وہ خود مریم سے بات کرنا نہیں چاہ رہا تھا۔
وہ اس نفرت سے لڑ رہا تھا جو اس کے اندر مریم کے لیے پیدا ہو رہی تھی اور وہ جانتا تھا وہ اس سے بات کرے گا تو وہ خود پر قابو نہیں پا سکے گا۔
وہ ماما جان کو ان کے گھر لے آیا تھا۔ ایمبولینس کے وہاں آتے ہی محلے کے لوگ اکٹھے ہونا شروع ہو گئے۔ پھر عورتوں سے بھرنا شروع ہو گیا۔
مریم جس وقت وہاں آئی، اس وقت وہ گھر سے باہر نکل رہا تھا۔ وہ مریم کو دیکھ کر رکا نہیں۔ باہر چلا گیا۔ کچھ عورتوں نے اسے دیکھ کر رونا شروع کر دیا۔ وہ خشک آنکھوں کے ساتھ انہیں دیکھتی رہی۔ اس نے بڑی خاموشی کے ساتھ ماما جان کا چہرہ دیکھا۔ زندگی میں کبھی انہوں نے اسے شرمندہ نہیں کیا تھا۔ اب بھی انہوں نے یہی کیا تھا۔
”اُمّ مریم! تم میری زندگی ہو۔”
”اُمّ مریم تمہاری موت ہے۔”
اس نے واقعی دوبارہ انہیں زندہ نہیں دیکھا تھا۔ وہ چپ چاپ وہاں بیٹھی عورتوں کو روتے دیکھتی رہی۔
”کیا دنیا میں خدیجہ نور سے زیادہ خوش قسمت کوئی ہے۔ جس نے اپنی زندگی کا سفر پاتال سے شروع کیا اور اس نے ہر کھائی، ہر دلدل کو پار کر لیا۔ کبھی پنجوں کے بل اور کبھی گھٹنوں پر۔ کبھی زخم کھائے اور کبھی غلاظت سے گزرتے مگر وہ کہیں رکی نہیں… کیا اس سے زیادہ خوش قسمت کوئی ہے جس نے اپنے اختیار کی زندگی پارسائی سے گزاری۔ جس کا بیٹا اسے اپنے ہاتھوں قبر میں اتارے گا اور ساری عمر اس کے لیے دعا کرتا رہے گا۔ جس کو یاد رکھنے اور دعا کرنے والے لوگوں سے اس کا کوئی خونی رشتہ نہیں ہے اور کیا یہاں آج کوئی اُمّ مریم یا مظہر اوّاب خان یہ کہہ سکتا ہے کہ خدیجہ نور جنتی نہیں ہے۔ کیا اس سے زیادہ کوئی خواہش کر سکتا ہے کہ وہ اپنی صالح اولاد کے ہاتھوں آخری سانس لے۔
اور جب… جب میں مروں گی تو اس وقت کون ہوگا جو مجھے ذالعید اوّاب والی محبت کے ساتھ قبر میں اتارے گا۔ کوئی مقابلہ نہیں تھا ماما جان! میرا آپ کے ساتھ۔ نہ آج نہ کل نہ ہی آئندہ کبھی… Desire (خواہش) اور Belief (ایمان) کا کوئی مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔” وہ ماما جان کا چہرہ دیکھتے سوچتی رہی۔
دس بجے کے قریب ماما جان کو شجاع حاکم کی قبر کے پاس دفن کر دیا گیا۔ وہ تب بھی اسی طرح چپ چاپ بیٹھی رہی، جب ماما جان کو وہاں سے لے جایا گیا۔
پھر عورتیں آہستہ آہستہ وہاں سے جانا شروع ہو گئیں… صرف آس پاس کے چند گھروں کی عورتیں بیٹھی رہیں، وہ کسی کی بات کا جواب نہیں دے رہی تھی، وہ کیا کہتی؟ یہ کہ ماما جان کے ساتھ یہ سب کچھ کرنے والی وہ خود ہے۔
ذالعید شام کو چار بجے اندر آیا۔ وہ باہر مردوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور اب آہستہ آہستہ سب وہاں سے جا رہے تھے۔
”یہ صبح سے ا سی طرح بیٹھی ہے نہ اس نے کوئی بات کی ہے نہ روئی ہے نہ کچھ کھایا ہے۔” خالیہ حبیبہ نے اس کے آنے پر مدھم آواز میں اس کے پاس جا کر مریم کے بارے میں بتایا۔
وہ ان سے یہ نہیں کہہ سکا کہ یہ دکھ نہیں پچھتاوا ہے۔
”کیا کرتے ہیں ایسی عورت کے ساتھ جو ایک ہی جست میں آپ کے دل سے نکل جائے۔ آپ اس کا چہرہ دیکھنا چاہیں نہ اس کے وجود کو برداشت کر سکیں۔ مگر وہ آپ کی بیوی بھی ہو اور آپ کی اولاد کی ماں بھی ہو اور اس کے بارے میں آپ کو یہ حکم بھی دے دیا گیا ہو کہ آپ اسے چھوڑ نہیں سکتے۔” وہ وہاں کھڑا اسے دیکھتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا۔
”ٹھیک ہو جائے گی۔ میں اسے گھر لے جا رہا ہوں۔” اس نے خالہ حبیبہ سے کہا۔
اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے اسے احساس ہو گیا تھا کہ اسے بخار ہو رہا ہے۔ مگر وہ پھر بھی اپنے اندر اتنی اعلا ظرفی نہیں پا رہا تھا کہ اس سے اس کا حال پوچھے۔
وہ اس کے پیچھے چلتی ہوئی گاڑی میں آ بیٹھی۔ پورا رستہ ان دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ پورچ میں گاڑی روکنے کے بعد ذالعید اسی خاموشی کے ساتھ اس سے کچھ بھی کہے بغیر اندر چلا گیا۔ مریم جس وقت اندر داخل ہوئی وہ ملازم سے کہہ رہا تھا۔
”بیگم صاحبہ سے پوچھ لو اگر انہیں کھانا کھانا ہو تو کھانا کھلا دو۔ میں نہیں کھاؤں گا۔” وہ آیا سے زینب کو گود میں لے رہا تھا۔
مریم کچھ بھی کہے بغیر اندر کمرے میں چلی گئی۔ اسے یاد نہیں وہ کتنی دیر اوندھی بستر پر پڑی رہی اور کب اس کی آنکھ لگی۔
—–*—–
بارش یک دم رک گئی… چند لمحوں کے لیے اس کا خوف ختم ہوا… ہوا بھی اب رک گئی، وہ فرش پر لیٹ کر گہرے سانس لینے لگی… فضا میں ایک بار پھر خاموشی تھی… وہ اب اس خوشبو کو تیز ہوتا محسوس کر رہی تھی اس نے ایک بار پھر اس خوشبو کو شناخت کرنے کی کوشش کی، وہ ایک بار پھر ناکام رہی۔
پھر اسے یوں لگا جیسے اس کے جسم پر کوئی کنکر گرا ہو… درد کی ایک لہر سی اس کے وجود سے گزری، ایک اور کنکر… پھر ایک اور… وہ بے اختیار اٹھ کر بیٹھ گئی۔ وہ کنکر اس کے پاس پڑا تھا۔ دھندلی روشنی میں اس نے اسے ہتھیلی میں اٹھا کر چہرے کے پاس کر کے دیکھا اور اس کا ہاتھ کانپنے لگا… وہ اولہ تھا۔ ایک… دو… تین چار پانچ… دس… اس نے اپنے بازوؤں سے اپنے سر اور چہرے کو ڈھانپنے کی کوشش کی… اس کے منہ سے اب ہلکی ہلکی چیخیں نکلنے لگی تھیں۔ اولے اس کے جسم کے ہر حصے پر شدت سے برس رہے تھے۔ اسے لگ رہا تھا جیسے کوئی اسے سنگسار کر رہا ہو… ہوا ایک بار پھر چلنے لگی۔ اولوں کا سائز اور تعداد بڑھنے لگی۔
بیٹھے بیٹھے اس نے اپنے سامنے خون کے چند قطرے دیکھے پھر انہیں گیلے فرش پر پھیلتے دیکھا۔ اسے اندازہ نہیں ہوا… خون کہاں سے نکلا تھا۔ اس کے جسم کے ہر حصے میں اتنی تکلیف ہو رہی تھی کہ وہ یہ اندازہ لگا ہی نہیں سکتی تھی پھر اس نے ایسے بہت سے قطروں کو فرش کو رنگ دار کرتے دیکھا… اس کے اعصاب مفلوج ہونے لگے تھے۔ پہلی بار آسمان پر بادل چھانے لگے۔ وہ دھندلی روشنی اب غائب ہونے لگی۔ ہوا ایک بار پھر چنگھاڑ رہی تھی… اولے اب بارش کے ساتھ برس رہے تھے اسے اپنا وجود فرش پر پھسلتا محسوس ہوا۔ اس نے ایک بار پھر فرش پر لیٹ کر فرش کو پکڑنے کی کوشش کی۔ برستی بارش اور اولوں نے اس بار اسے ناکام کر دیا۔ اس کے وجود کے ساتھ اس کے ہاتھ بھی پھسلنے لگے… وہ اپنے چاروں طرف اب کچھ بھی نہیں دیکھ پا رہی تھی… آسمان اب تاریک ہو چکا تھا وہ پھسلتی جا رہی تھی، شل ہوتے ہوئے اعصاب کے ساتھ وہ چیخنے کے قابل نہیں رہی… پھر اس نے اپنے پیروں کے نیچے زمین کو غائب ہوتا محسوس کیا… اس کے پاؤں اب خلا میں تھے… آنکھیں کھول کر اس نے آخری بار کوئی سہارا ڈھونڈنے کی کوشش کی… تاریکی نے ہر چیز، ہر سہارے کو اوجھل کر دیا۔
پہاڑ کی چوٹی سے نیچے خلا میں گرتے ہوئے اس نے اس خوشبو کو پہچان لیا… وہ کافور کی خوشبو تھی۔
—–*—–
ایک جھٹکے کے ساتھ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کا پورا جسم پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔ اس کا سانس بہت تیز چل رہا تھا۔ اسے ایک عجیب سی کپکپاہٹ محسوس ہوئی… سر نیچے کیے دونوں ہاتھ بیڈ پر رکھے وہ گہرے سانس لیتی رہی۔ اس کی ناک کی نوک سے پھسلتے ہوئے پسینے کے قطرے اس کی گود میں گر رہے تھے۔
بہت سال سے دیکھا جانے والا خواب آج مکمل ہو گیا تھا… اس نے یاد کرنے کی کوشش کی، پہلی بار اس نے یہ خواب کب دیکھا۔ دس سال پہلے، ہاں ٹھیک دس سال پہلے اس نے پہلی بار وہ سیڑھیاں اپنے قدموں کے نیچے محسوس کی تھیں… اور اسے سمجھنے میں ناکام رہی… یا پھر اس نے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی… اسے صرف حیرت ہوتی تھی کیا خواب بھی سلسلہ وار ہوتے ہیں۔ ایک تسلسل کے ساتھ چلتے ہوئے اس خواب نے پورا ہونے میں دس سال لیے۔
اور آج خواب کے آخری حصہ نے اسے سب کچھ سمجھا دیا… وہ جان چکی تھی۔ وہ پچھلے دس سال سے کیا دیکھ رہی تھی۔ وہ خواب نہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ اپنی زندگی دیکھ رہی تھی۔ وہ اپنی لاحاصل خواہشیں دیکھ رہی تھی۔ دس سال پہلے اس نے اپنا عروج دیکھنے کی خواہش کی تھی۔ دس سال بعد آج اس نے اس عروج میں چھپا ہوا زوال دیکھا تھا۔ وہ سیڑھیاں اس کی خواہشات تھیں۔ وہ روشنی اس کی ہوس تھی۔ وہ پہاڑ اس کا عروج تھا۔
اس کا جسم بخار سے تپ رہا تھا۔ اس کا حلق جیسے کانٹوں سے بھرا ہوا تھا۔ اسے یاد آیا، وہ سونے سے پہلے ذالعید سے معافی مانگنا چاہتی تھی۔ مگر وہ کمرے میں نہیں آیا۔ وہ اب بھی کمرے میں نہیں تھا۔ کمرے میں مکمل تاریکی تھی وہ بیڈ کو ٹٹولتے ہوئے زمین پر جا کھڑی ہوئی۔ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ وہ تاریک کمرے میں راستہ ڈھونڈ رہی تھی۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں جانا چاہ رہی ہے۔
پھر اسے یاد آیا، وہ ذالعید کے پاس جانا چاہتی تھی۔ اس نے دیوار ٹٹولتے ہوئے سوئچ بورڈ ڈھونڈ کر لائٹ آن کی، ذالعید کا بیڈ خالی تھا۔ وہ کمرے سے باہر آ گئی۔ لاؤنج میں نائٹ بلب کی ہلکی روشنی تھی۔ وہ اندازہ نہیں کر پا رہی تھی کہ وہ رات کا کون سا پہر تھا۔ وہ زینب کے کمرے میں چلی گئی۔ ذالعید وہاں نہیں تھا۔ اس کا سر بری طرح چکرا رہا تھا پھر وہ ذالعید کی اسٹڈی کی طرف آ گئی۔ اسٹڈی کی لائٹ آن تھی۔ اسٹڈی کے دروازے پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ ٹھٹھک گئی۔
تیز بخار کی حالت میں بھی وہ اندر سے آنے والی آواز کو پہچان سکتی تھی۔ وہ اندر رو رہا تھا بلند آواز میں… مریم نے دروازہ کھول دیا۔ وہ کارپٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سامنے کچھ فاصلے پر میز پر قرآن شریف رکھا تھا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرہ کو چھپائے ہوئے رو رہا تھا شاید اس نے قرآن پڑھنے کے بعد ماما جان کے لیے دعا کرنے کی کوشش کی ہو گی اور پھر اسے ماما جان یاد آ گئی ہوں گی یا پھر وہ…
مریم نے زندگی میں کسی مرد کو بلند آواز میں روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اس نے آج سارا دن ذالعید کو اس طرح روتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی مگر وہ رو نہیں رہا تھا اور اب وہ رات کے اس پہر وہاں اکیلا بیٹھا بچوں کی طرح رو رہا تھا۔
مریم کا دل چاہا، وہ کسی خنجر سے، اپنی گردن کاٹ ڈالے… اس نے اس شخص سے کیا چھین لیا تھا۔
زندگی میں کچھ لمحے ایسے آتے ہیں جب آپ کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اور اس وقت دل یہ چاہتا ہے کہ ساری دنیا اپنا کچرا آپ پر پھینکے، تب آپ کا دل چاہتا ہے۔ لوگ آپ پر تھوکیں، آپ کو گالیاں دیں، آپ پر پاؤں رکھ کر گزر جائیں اور اگر اس وقت کوئی ایسا نہ کرے تو…
وہ اس کے بالکل سامنے آ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔
”ذالعید!” وہ یک دم خاموش ہو گیا۔
مریم اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹانے لگی۔ ذالعید نے چہرے سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے اس کے ہاتھ جھٹک دیے۔
”ذالعید! مجھے مارو، تم مجھے مارو۔” وہ اس کے ہاتھ پکڑ کر اپنے چہرے پر مارنے لگی۔ ذالعید نے ایک بار پھر اپنے ہاتھ کھینچ لیے۔
”تم مجھے گالیاں دو۔ میرے چہرے پر تھوک دو۔” وہ اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اپنی آستینوں سے چہرہ پونچھتے ہوئے اس نے میز سے قرآن اٹھایا اور اسے شیلف پر رکھ دیا۔ وہ اٹھ کر لڑکھڑاتے قدموں سے ایک بار پھر اس کے پاس آ گئی۔
”تم مجھے مار دو۔ میرا گلا دبا دو یا کم از کم ایک بار میرے چہرے پر تھوک دو۔”
”میں تمہیں مار سکتا ہوں نا تمہارے چہرے پر تھوک سکتا ہوں تمہارے چہرے کو بہت بار میری ماں نے چوما ہے۔”
وہ چپ چاپ اس کا چہرہ دیکھتی رہی، پھر شکست خوردگی کے عالم میں پیچھے ہٹ گئی۔ وہ وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔
—–*—–




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۲

Read Next

سزا — مریم مرتضیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!