لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

”سوری ذالعید۔” اس نے ٹیبل پر دھرے ہوئے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”مریم! میرے بارے میں تمہیں زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے… مجھے اگر کسی کے ساتھ افیئر چلانا ہے تو تم مجھے روک نہیں سکتیں۔ نہ ہی میں تم سے خوفزدہ ہوں کہ ہر کام چھپ کر کروں مگر میں تمہارے ساتھ اپنی زندگی سے مطمئن ہوں۔ اس لیے تمہیں مجھ پر کوئی چیک رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔” اس نے ویٹر کو اپنی طرف بلاتے ہوئے خاصے ناخوشگوار انداز میں مریم سے کہا۔
اس نے مریم کی معذرت قبول کر لی تھی مگر مریم نے محسوس کیا کہ وہ اس واقعہ سے خاصا ڈسٹرب ہوا ہے۔ مریم کو اب اپنی جلد بازی اور حماقت کا احساس ہونے لگا۔
”ہاں واقعی یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں کہ وہ جم خانہ بھی جا سکتا ہے۔” وہ جانتی تھی، وہ خاصی باقاعدگی سے جم خانہ جانے کا عادی تھا۔
”اور وہ ٹھیک کہتا ہے ،سیکرٹری کو اس کے بارے میں ہر چیز کا پتا تو نہیں ہو سکتا اور ویسے بھی وہ اگر کچھ غلط کر رہا ہوتا تو اس نے سیکرٹری کو اپنی کسی بھی نام نہاد مصروفیت کے بارے میں ضرور بتا دیا ہوتا تاکہ کبھی اگر میری اس سے گفتگو ہو تو اس کے ان تین چار گھنٹوں کی عدم موجودگی کے بارے میں مجھ سے چھپایا جا سکے۔” مریم مطمئن ہو گئی۔
—–*—–
وہ دو ہفتوں کے بعد انگلینڈ چلا گیا۔ مریم اس کے ساتھ نہیں گئی۔ اسے اطمینان تھا کہ وہ اکیلا ہی گیا ہے۔
اس دن وہ شام کو جم خانہ گئی۔ جم خانہ سے نکلتے ہوئے اس کی ملاقات ذالعید کے ایک بہت اچھے دوست منظر سے ہو گئی۔
”بھابھی! یہ ذالعید کہاں ہوتا ہے آج کل؟” اس نے چھوٹتے ہی ذالعید کا پوچھا۔
”ذالعید انگلینڈ گیا ہوا ہے۔”
”اچھا کب گیا ہے؟” منظر نے حیران ہو کر پوچھا۔
”تین ہفتے ہو گئے ہیں۔”
”واپس کب آئے گا؟”
”ڈیڑھ ماہ کا کہا تھا اس نے… دو ہفتے تک آ جائے گا۔”
”آپ نے تو بھابھی سب کچھ ہی چھڑا دیا ہے اس سے، شادی کے بعد تو بالکل بدل گیا ہے وہ۔ ملنے ملانے سے بھی گیا۔” منظر نے مسکراتے ہوئے شکوہ کیا۔ مریم نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
”میں نے تو کچھ بھی نہیں چھڑایا۔ دوستوں سے تو ملتا رہتا ہے وہ۔”
”مگر پہلے کی طرح تو نہیں۔ میں ہی فون کروں تو بات ہوتی ہے۔ ملنا ہو تب بھی مجھے ہی جانا پڑتا ہے۔ کوئی دوستوں کی گیٹ ٹوگیدر ہو تب اس کے پاس کوئی نہ کوئی بہانا ہوتا ہے۔ جِم خانہ بھی بہت کم آتا ہے وہ۔”
”نہیں جِم خانہ تو روز آتا ہے وہ دوپہر کو سوئمنگ کے لیے۔” مریم نے کہا۔
”نہیں… سوئمنگ کے لیے اگر کبھی آئے تو شام کو آتا ہے… اور بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے۔ دوپہر کو تو وہ کوئی مصروفیت نہیں رکھتا۔ کہتا ہے گھر پر مجھے لنچ کرنا ہوتا ہے۔” مریم حیرت سے اس کا منہ دیکھنے لگی۔
”نہیں، لنچ تو کبھی اس نے گھر پر نہیں کیا۔ لنچ وہ دوستوں کے ساتھ یا کلائنٹس کے ساتھ ہی کرتا ہے۔”





”نہیں بھابھی… لنچ کہاں وہ ہم لوگوں کے ساتھ کرتا ہے، پچھلے دو سال سے کم از کم میں نے اس کے ساتھ کوئی لنچ نہیں کیا۔ اگر کبھی اس کو انوائٹ بھی کریں تو وہ معذرت کر لیتا ہے۔ ہم لوگ اسی لیے لنچ کے بجائے ہمیشہ ڈنر کا پروگرام ہی بناتے ہیں تاکہ وہ بھی آ جائے۔”
”لنچ کبھی گھر پر نہیں کیا اس نے۔” وہ ہڑبڑائی۔
”پتا کریں بھابھی اس کا… کوئی اور ہی چکر نہ ہو۔” منظر نے ہنستے ہوئے کہا۔ مریم نے مسکرانے کی کوشش کی۔
”اچھا بھابھی! دوبارہ ملاقات ہوگی۔” منظر خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔ وہ گاڑی میں بیٹھنے کے بجائے واپس جِم خانہ چلی گئی۔
چند منٹوں میں اسے یہ پتا چل گیا تھا کہ وہ کبھی دوپہر کو سوئمنگ کرنے جِم خانہ نہیں آیا۔ وہ اسکواش کھیلنے بھی کبھی آتا تھا تو شام کے وقت آتا تھا۔ مریم کے اندر جیسے جھکڑ چلنے لگے۔
”اتنا جھوٹ…؟” وہ بالکل بے یقینی کے عالم میں تھی۔
”وہ یہ تین گھنٹے آخر کہاں گزارتا ہے؟” اچانک اسے خیال آیا۔
”کہیں یہ ماما جان کے پاس تو نہیں جاتا؟” اس نے اپنے خیال کی خود ہی تردید کی۔
”نہیں، ہر روز اتنا وقت تو ان کے ساتھ نہیں گزار سکتا اور اس نے کہا تھا کہ وہ ماما جان کے پاس کبھی کبھار جاتا ہے۔” اسے کافی عرصہ پہلے اس کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو یاد آئی اور ماما جان نے بھی تو یہی کہا تھا کہ وہ بہت کم ہی ان سے ملنے آتا ہے۔ پھر ماما جان کے پاس جا کر وہ کیا کرے گا۔
وہ گھر آنے پر بھی بے حد پریشان تھی۔ اپنے بیڈ پر بیٹھی چکراتے ہوئے سر کے ساتھ وہ ذالعید کی غلط بیانی کے بارے میں سوچتی رہی۔ پھر یک دم وہ ذالعید کی بیڈ سائیڈ ٹیبل کے دراز کھولنے لگی۔ وہ پتا نہیں وہاں سے کیا ڈھونڈنا چاہتی تھی۔
—–*—–
اگلے دن اس نے ڈریسنگ روم میں اس کے دراز کھولنے کی کوشش کی۔ ذالعید کے دراز لاکڈ تھے۔ ان کی چابیاں اسی کے پاس تھیں۔ وہ باہر نکل آئی۔ ملازم کو لے کر وہ دوبارہ اندر آئی۔
”یہ دراز کھلوانے ہیں مجھے ،ان کی چابیاں گم ہو گئی ہیں۔”
”مگر بیگم صاحبہ! ان کے لیے تو کسی آدمی کو بلوانا پڑے گا لکڑی کٹوانے کے لیے کیونکہ ان تالوں کی چابیاں نہیں بن سکتیں یہ تو باہر کے ہیں۔”
”تو جاؤ تم، آدمی لے آؤ۔” ملازم اس کی بات پر سر ہلاتا ہوا چلا گیا۔
مریم کو اچانک ایک خیال آیا۔ اس نے فیکٹری فون کیا۔ ”ذالعید کے موبائل فون کے بلز چاہئیں مجھے۔” اس نے سیکرٹری سے کہا۔ سیکرٹری نے کچھ دیر اسے انتظار کروایا اور پھر کہا۔
”ایک موبائل فون کے یا دونوں کے۔”
”نہیں۔ میرے موبائل فون کے بلز نہ بھجوائیں، صرف ذالعید کے بھجوا دیں۔” مریم نے سوچا۔ وہ شاید اس کے موبائل فون کی بھی بات کر رہی ہے۔
”نہیں۔ میں آپ کے موبائل فون کی بات نہیں کر رہی ہوں۔ ذالعید صاحب کے دونوں موبائل فونز کی بات کر رہی ہوں۔” مریم کچھ حیران ہوئی۔ اس کے خیال کے مطابق ذالعید کے پاس صرف ایک ہی موبائل فون تھا۔ کم از کم اس نے ذالعید کے پاس ایک ہی موبائل فون دیکھا تھا۔
”ٹھیک ہے، آپ دونوں کے بھیج دیں۔ پچھلے دو سال کے بلز۔” اس نے فون پر ہدایت دی اور ریسیور رکھ دیا۔
آدھ گھنٹہ کے بعد فیکٹری کا ڈرائیور بلز کی فائلز دے گیا۔ مریم دیکھنا چاہتی تھی کہ ذالعید کے موبائل فون کے بلز میں ایسا کون سا نمبر ہے جس سے وہ شناسا نہیں۔ اگر واقعی اس کی زندگی میں کوئی دوسری عورت موجود تھی تو پھر ایک ایسا فون نمبر بھی ہونا چاہیے تھا جس پر بار بار کال کی گئی ہو یا جس سے ذالعید کو کالز کی گئی ہوں۔ اس کا اندازہ ٹھیک تھا۔ وہاں ایک موبائل نمبر ایسا تھا جس پر دن میں تین چار بار طویل کالز کی گئی تھیں۔ مریم فون نمبرز والی ڈائری نکال کر اس نمبر کو ڈھونڈنے لگی تاکہ یہ اندازہ لگا سکے کہ وہ نمبر کس کا تھا۔ ڈائری میں کہیں بھی وہ نمبر نہیں تھا۔ اس نے ایک بار پھر اس کی سیکرٹری کو فون کیا اور وہ نمبر دہراتے ہوئے کہا۔
”کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ یہ نمبر کس کا ہے۔ میں چاہتی ہوں، آپ کلائنٹس کی لسٹ چیک کریں۔ فیکٹری کی ایکسچینج سے پتا کریں۔” اس کی بات کے جواب میں سیکرٹری نے کہا۔
”میڈم! یہ ذالعید صاحب کے دوسرے موبائل کا نمبر ہے۔ میں نے آپ کو اس کے بلز کی فائلز بھی بھجوائی ہیں۔” اس نے الجھ کر فون بند کر دیا اور دوسری فائلز کھول کر دیکھنے لگی۔ وہ واقعی اس کے دوسرے موبائل فون کا نمبر تھا۔
”کیا تماشا ہے یہ؟ کیا وہ اپنے ایک موبائل فون سے دوسرے موبائل فون پر رنگ کرتا رہا ہے۔” وہ بری طرح الجھنے لگی۔
اس کے ذہن میں یک دم جیسے ایک جھماکہ ہوا۔
کیا ذالعید نے اس دوسری عورت کو موبائل فون خرید کر دیا ہے اور… اور وہی اس کا بل ادا کرتا ہے اور یہ دوسرا موبائل فون یقینا اس عورت کے پاس ہوگا… اور اگر یہ عورت اس وقت ذالعید کے ساتھ ہے تو یہ موبائل فون آف ہونا چاہیے۔” اس نے فون کا ریسیور اٹھا کر اس نمبر پر کال کرنی شروع کر دی۔ موبائل آف تھا۔ اس کا غصہ اب آسمان کو چھونے لگا۔
”میری آنکھوں میں دھول جھونکتا رہا یہ شخص۔” وہ بلز کی فائلز دیکھتی رہی۔
دوسرا کنکشن دو سال پہلے ہی لیا گیا تھا اور تب سے اب تک اس پر صرف ذالعید کی کالز ریسیور کی گئی تھیں۔
”دو سال… دو سال… دو سال۔ کیا کیا ہے اس شخص نے ان دو سالوں میں۔” اس نے فائلز اٹھا کر دور پھینک دیں۔
ایک گھنٹہ کے بعد ملازم ایک آدمی لے کر آ گیا جس نے اس کے دراز کھول دیے۔ ملازم اور اس آدمی کے چلے جانے کے بعد وہ سارے دراز نکال کر بیڈ پر لے آئی اور انہیں وہاں پلٹ دیا۔ ان چیزوں میں اسے کچھ بھی ایسا نہیں ملا جسے وہ ذالعید کے خلاف ثبوت قرار دیتی۔
وہ بار بار ان تمام کاغذات کو دیکھتی رہی۔ پھر اس نے اندر جا کر اس کی پوری وارڈ روب چھان ماری۔ کہیں بھی کچھ بھی نہیں تھا۔ اسے طیش آنے لگا۔
”کس قدر مکار شخص ہے یہ۔ کیسے ممکن ہے کہ میں اسے پکڑ نہ پاؤں۔”
اس نے تمام چیزیں دوبارہ درازوں میں ڈالنا شروع کر دیں اور تب ہی ایک چیک بک کو سرسری نظر سے دیکھتے ہوئے ایک لفظ نے اس کی نظر اپنی جانب مبذول کر لی۔ وہ بالکل نئی چیک بک ذالعید کی نہیں تھی، اس کے باہر خدیجہ نور لکھا ہوا تھا۔ وہ چند لمحوں کے لیے ساکت ہو گئی۔
اکاؤنٹ ایک لاکھ روپے سے کھلوایا گیا تھا۔ اس نے ذالعید کی تمام چیک بکس واپس نکال لیں اور ان کی کاؤنٹر فائلز دیکھنے لگی۔ ایک چیک بک کی کاؤنٹر فائل میں خدیجہ نور کے نام ایک لاکھ کا چیک کاٹا گیا تھا۔ اس کے بعد اسی چیک بک سے خدیجہ نور کے نام بہت سے چھوٹی مالیت کے چیک بھی کاٹے گئے تھے۔ پانچ ہزار، دس ہزار، پندرہ ہزار… کاؤنٹر فائلز خدیجہ نور کے نام سے بھری ہوئی تھیں۔
وہ خدیجہ نور کون تھی۔ وہ جانتی تھی۔ وہ کہاں رہتی تھی؟ یہ بھی اس کے علم میں تھا۔ مگر اس کا ذہن ابھی بھی ایک شاک کی حالت میں تھا۔
”ذالعید… یا اللہ… خدیجہ نور۔ کیسے ہو سکتا ہے یہ سب کچھ۔ کیسے۔” اس نے ماؤف ذہن کے ساتھ ایک بار پھر ان کاغذات کو دیکھنا شروع کر دیا۔ ان ہی کاغذات میں ایک تصویر کے نیگیٹو کا لفافہ تھا۔
اس نے نیگیٹو نکال کر روشنی میں اسے دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ ایک عورت کی پاسپورٹ سائز تصویر تھی۔ وہ فوٹو گرافر سے واقف تھی۔ اس نے لفافے پر نمبر دیکھتے ہوئے فوٹو گرافر کو فون کیا۔
وہ تصویر چند ماہ پہلے کھنچوائی گئی تھی۔ وہ اپنے اعصاب پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا وہ کسی بھی وقت اپنا ذہنی توازن کھو دے گی۔ مگر وہ رونا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے اتنی بری طرح فریب کھایا تھا کہ…
اسے یاد آ گیا کہ وہ سونے جیسے بال کس کے تھے۔ مگر وہ کچھ بھی کرنے سے پہلے ہر ثبوت اکٹھا کر لینا چاہتی تھی۔ وہ اب پہلے کی طرح اس شخص کو بچنے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔
ایک کاغذ پر ایڈریس لکھ کر اس نے ملازم کو دیا۔ ”پتا کر کے آؤ کہ کیا یہ عورت گھر پر ہے اور اگر نہیں ہے تو کہاں ہے اور کب واپس آئے گی؟” اس نے ملازم سے کہا۔ وہ سر ہلاتا ہوا چلا گیا۔
اس نے زندگی میں کبھی خود کو اس قدر اکیلا اور تنہا محسوس نہیں کیا تھا جتنا اس نے اس دن خود کو محسوس کیا۔
”مجھے کس طرح کنویں میں دھکیلا ہے۔ کس طرح…” وہ غم و غصے کی حالت میں تھی۔
ملازم آدھ گھنٹے کے بعد اس اطلاع کے ساتھ واپس آ گیا کہ وہ عورت گھر پر نہیں ہے۔ وہ تین ہفتے سے کہیں گئی ہوئی ہے اور شاید دو ہفتوں کے بعد آئے۔ اسے اسی اطلاع کی توقع تھی۔
”میرے ساتھ تم دونوں نے جو کچھ کیا ہے، میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی۔ کیا کوئی دوسری عورت ذالعید کو مجھ سے چھین سکتی ہے اور وہ بھی خدیجہ نور جیسی عورت۔ کیا میری پشت میں خنجر وہ گھونپے گی۔” وہ ساری رات بے تحاشا روتی رہی۔
—–*—–
ذالعید نے معمول کے مطابق دوسرے دن اسے فون کیا۔ مریم نے اس سے اسی طرح بات کی جس طرح وہ پہلے کرتی رہی تھی۔ اس نے پہلی دفعہ محسوس کیا تھا کہ ذالعید کی آواز میں ایک عجیب سی خوشی اور اطمینان ہے۔ اس نے کچھ دو چار باتیں کرتے رہنے کے بعد فون بند کر دیا۔
”کوئی عورت تمہاری طرح بے وقوف نہیں ہو سکتی اُمّ مریم…! واقعی تم سے بڑھ کر بے وقوف اور کوئی نہیں ہے مگر میں سب کچھ ختم نہیں ہونے دوں گی۔ میں ایک بار ذالعید کو پانے کے بعد دوبارہ کھو نہیں سکتی۔ میں خدیجہ نور کو اس کی زندگی سے نکال دوں گی۔ میں اسے جان سے مار دوں گی۔”
وہ اپنا سارا آرٹ ورک بھول گئی تھی۔ ذالعید کی واپسی سے پہلے کے دو ہفتے اس نے گھر پر بند رہ کر گزارے۔ اس نے پہلی دفعہ عید اکیلے گزاری۔ کسی دعوت، کسی تقریب، کسی ڈنر میں شرکت کے بغیر… اس نے عید کی کوئی تیاری نہیں کی تھی۔ سارا دن وہ گھر کے کپڑوں میں ملبوس پھرتی رہی۔
اس نے عید پر بھی اسے فون پر بڑی گرم جوشی سے مبارک باد دی۔ پھر فون پر زینب سے کچھ دیر باتیں کرنے کی کوشش کرتا رہا۔
”میں صرف تمہارا انتظار کر رہی ہوں ذالعید۔ صرف تمہارا انتظار… میں چاہتی ہوں، تم واپس آ جاؤ… اور پھر… پھر میں تمہیں اور اس عورت کو۔” اس نے اس کا فون بند کرتے ہوئے سوچا۔
—–*—–
وہ عید کے پانچویں دن دوپہر کو واپس پہنچ گیا۔ اس نے اپنی واپسی کے بارے میں اطلاع نہیں دی تھی مگر مریم پھر بھی اسے دیکھ کر حیران نہیں ہوئی۔ وہ اس کا حلیہ دیکھ کر ضرور حیران ہوئی تھی۔
”تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟” اس نے بڑی نرمی اور محبت سے مریم سے پوچھا۔
”ہاں، میں ٹھیک ہوں۔” مریم نے بے تاثر لہجے میں کہا۔
”تم بہت کمزور لگ رہی ہو۔”
”نہیں۔ میں کمزور نہیں ہوں۔” ذالعید نے کچھ حیران ہو کر اس کا جواب سنا۔
وہ اس کے آنے کے کچھ دیر بعد ہی گاڑی کی چابی لے کر لاؤنج میں آ گئی۔ ”مجھے ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے۔ میں کچھ دیر میں واپس آؤں گی۔” اس نے اپنے لہجے کو حتی المقدور نارمل رکھتے ہوئے کہا۔
”ابھی… میں چاہ رہا تھا کہ باتیں کریں گے۔ مجھے تمہیں بہت کچھ بتانا ہے۔”
”ہاں، مجھے بھی تمہیں بہت کچھ بتانا ہے اور بہت سی باتیں کرنی ہیں مگر ابھی نہیں چند گھنٹوں بعد۔” وہ تیزی سے کہتی ہوئی لاؤنج سے نکل گئی۔
ذالعید نے الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا اور پھر کندھے اچکاتے ہوئے زینب سے باتیں کرنے لگا۔
—–*—–




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۲

Read Next

سزا — مریم مرتضیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!