لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

وہ جس وقت گھر پہنچی اس وقت ذالعید زینب کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اسے دیکھ کر مریم کو اپنے اندر غصے کی ایک لہر سی اٹھتی محسوس ہوئی۔
”یہ شخص… یہ شخص کس قدر محبت کی تھی میں نے اس سے اور اس نے میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی… ایک سکے جتنی اہمیت نہیں دی مجھے۔ میرے بجائے اس عورت سے… اس کا دماغ جیسے پھٹنے لگا تھا۔ ”کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ اس جیسا شخص ایک بوڑھی عورت کے عشق میں گرفتار ہو کر اس سے شادی کر لے گا… یہ عبادت ہے اس کی؟ یہ پرہیزگاری ہے میرے خدا۔” لاؤنج میں داخل ہوتے ہی زینب نے اسے دیکھ لیا۔ اس نے زور شور سے منہ سے آوازیں نکالنی شروع کر دیں۔
ذالعید نے پلٹ کر اسے دیکھا اور مسکرایا مگر مریم مسکرا نہیں سکی۔ وہ وہاں رکے بغیر تیز قدموں سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ ذالعید نے کچھ حیرت سے اسے دیکھا۔ وہ اس کے تاثرات کو سمجھ نہیں پایا۔ مریم غصے میں تھی۔ یہ وہ جان چکا تھا مگر غصہ کی وجہ کیا تھی؟
اس نے گورنس کو آواز دے کر زینب کو تھما دیا اور خود بیڈروم کی طرف چلا آیا۔ وہ سر پکڑے صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھی۔
”کیا ہوا مریم! پریشان ہو تم؟” ذالعید نے نرم آواز میں اسے مخاطب کیا۔ مریم کا دل چاہا وہ اس شخص کا گلا دبا دے۔
”کہاں گئی تھیں تم؟”
”ذالعید! مجھے دھوکا دے رہے ہو تم؟”
”دھوکا؟” وہ ہکا بکا رہ گیا۔
”عورت کو بے وقوف کیوں سمجھتے ہو تم؟”
”مریم! کیا کہہ رہی ہو تم؟”
”ہماری شادی کو صرف تین سال ہوئے ہیں، تیس سال تو نہیں ہوئے کہ تمہیں اس طرح کی چالاکیوں کا سہارا لینا پڑے۔” وہ اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”کم از کم میں تمہیں…”
”کیا یہ بہتر نہیں ہے مریم کہ تم مجھ سے صاف بات کرو… میں کبھی بھی سمجھ نہیں پا رہا۔” ذالعید نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”صاف بات کروں؟ کیا رشتہ ہے تمہارا خدیجہ نور کے ساتھ؟ کیوں جاتے ہو تم اس کے پاس؟ کہاں گزارا ہے ڈیڑھ ماہ تم نے اس کے ساتھ؟” اس نے ذالعید کے چہرے کا رنگ بدلتے دیکھا۔ وہ کچھ بول نہیں سکا، وہ تلخی سے ہنسی۔
”کچھ بھی بول نہیں پا رہے نا؟ تمہارا خیال تھا، تم دونوں ساری عمر مجھے دھوکا دیتے رہو گے۔ میں تو کچھ جان ہی نہیں پاؤں گی۔ اپنی آنکھوں پر ہمیشہ یہ پٹی چڑھائے پھروں گی۔ میں انگلینڈ جا رہا ہوں ڈیڑھ ماہ کے لیے، بزنس ٹور ہے۔ میں ماما جان کے پاس ایک عرصے سے نہیں گیا۔” وہ اس کی بات دہرا رہی تھی۔
”کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تم کتنے جھوٹے ہو۔ میری آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے تم اور وہ… سارے رشتوں کی دھجیاں اڑا دیں تم دونوں نے۔”
”مریم! چپ ہو جاؤ۔ اب ایک لفظ مت کہنا۔ ایک لفظ بھی برداشت نہیں کروں گا میں۔” وہ یک دم چلایا۔
”تم جانتے ہو، میں نے کتنی محبت کی ہے تم سے۔ کس قدر چاہا ہے تمہیں؟”
”مجھ سے محبت کی ہے؟ مجھے چاہا ہے؟ میں بتاؤں، تمہیں تمہاری محبت کی حقیقت۔ نظریہ ضرورت۔” اس نے کہا تو وہ اس کی بات پر دم بخود ہو گئی۔
”تمہارے لیے ہر وہ چیز اچھی ہے جسے استعمال کیا جا سکے۔ ہر اس شے سے تمہیں محبت ہو جاتی ہے جو تمہارے کام آ سکے، جس کی تمہیں ضرورت ہو۔ تم نے مجھ سے محبت کی ہے مریم؟ نہیں، مجھ سے محبت نہیں کی مریم۔ تم نے ذالعید اوّاب خان سے محبت کی ہے۔ شہر کے ایک بڑے خاندان کے بیٹے سے، اس کی دولت سے، اس کی خوبصورتی سے، اس کے اسٹیٹس سے۔” مریم کو یوں لگا جیسے وہ اس کے منہ سے طمانچے مار رہا ہو۔
”تم نے ایک ایسے شخص سے محبت کی ہے جسے تم استعمال کر سکتی تھیں۔ جسے سیڑھی بنا کر تم شہرت کے اس آسمان پر پہنچ سکتی تھیں جہاں پہنچنے کے تم نے ہمیشہ خواب دیکھے تھے۔ تمہارے جیسی لڑکیوں کے خواب بڑا گھر، بڑی گاڑی، بڑا بینک بیلنس اور خوبصورتی سے آگے جاتے ہی نہیں اور اس سب کو تم محبت کا نام دیتی ہو۔ محبت کرتیں تم مجھ سے اگر میں ذالعید اواب خان کے بجائے صرف ذالعید ہوتا؟ محبت کرتیں تم مجھ سے۔ اگر میں بڑے بڑے ڈیزائنرز کے تیار کیے ہوئے کپڑے پہننے کے بجائے کسی ٹھیلے والے سے پرانے کپڑے خرید کر پہنتا؟” مریم کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔





”محبت کرتیں تم مجھ سے، اگر میں اٹھارہ لاکھ کی گاڑی کی بجائے چار ہزار کے سائیکل پر گھومتا؟… محبت… محبت… محبت تم یہ کیوں نہیں کہتیں کہ یہ محبت نہیں ضرورت تھی۔ تمہیں میرا نام، میرا گھر، میری دولت، میرے تعلقات، میری گاڑی چاہیے تھی۔ یہ زندگی چاہیے تھی۔ وہ دینے والا ذالعید اواب خان ہوتا یا کوئی اور… تم کو اس سے کوئی فرق نہ پڑتا… کیا کبھی اپنی محبت کی اصلیت دیکھی ہے تم نے؟ کیا کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کی ہے تم نے؟ تم اور تمہارے جیسی لڑکیاں جو محبت کے نام کا تعویذ گلے میں ڈال کر پھرتی ہیں وہ محبت نہیں ہوتی۔ ضرورت ہوتی ہے… ہوس ہوتی ہے… خواہش ہوتی ہے… میرے سامنے محبت کے نام کو بار بار استعمال مت کرو۔
میں نے تمہیں تین سال میں سب کچھ دیا ہے۔ کبھی کسی چیز سے نہیں روکا۔ تم نے جو چاہا، جیسے چاہا۔ کیا۔ ملک کی ایک معروف اور نامور آرٹسٹ ہو اب تم۔ یہاں پہنچنے کے لیے کس کو سیڑھی بنایا۔ کوئی تم سے یہ نہیں پوچھے گا۔”
”میںنے تمہیں پرپوز نہیں کیا تھا۔ تم نے مجھے پرپوز کیا تھا۔ تم نے کہا تھا، مجھے تم سے محبت ہے۔” وہ غرائی۔
”ہاں میں نے پرپوز کیا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ مجھے تم سے محبت ہے… اور تب ایسا ہی تھا۔ میں نہیں جانتا، ایسا کیوں ہوا تھا مگر چند ماہ مجھے واقعی تمہارے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ میں جیسے بے بس ہو گیا تھا۔ مگر یہ تمہارا اثر نہیں تھا۔ تم نے ماما جان سے کہا تھا نا کہ وہ تمہارے لیے دعا کریں۔ یہ وہ دعا تھی جس نے میرے دل کو پھیر دیا تھا ورنہ میں صوفیہ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ مگر یہ وہ دعا تھی جس نے مجھے تمہارے علاوہ کسی اور طرف دیکھنے نہیں دیا۔ صوفیہ سامنے آتی تھی۔ میں اس کے پاس سے بھاگ جانا چاہتا تھا۔ مجھے اس سے الجھن ہوتی تھی۔ میرا دم گھٹتا تھا اس کے پاس۔ اور اس میں تمہارا کوئی کمال نہیں تھا۔ ماما جان کی دعا تھی وہ اور بس۔”
”تم کہا کرتے تھے، میرا آرٹ تمہیں میری طرف لایا۔” وہ چلائی۔
”تمہارے آرٹ میں جو کچھ تھا، وہ بھی ماما جان کی وجہ سے تھا۔ ورنہ تم میں کچھ نہیں تھا، جب تک تم اس گھر میں رہیں، تمہارا آرٹ اپنے عروج پر رہا۔ اب کہاں ہو تم… اب جو پینٹنگز بنا رہی ہو تم، مجھے ان سے گھن آتی ہے۔ میں انہیں اٹھا کر اس گھر سے باہر پھینک دینا چاہتا ہوں۔”
”کیوں نہیں پھینکنا چاہو گے تم… تم تو مجھے بھی پھینکنا چاہو گے۔ خدیجہ نور جو سوار ہے تمہارے اعصاب پر… اس کے علاوہ تم کو کچھ اور کیوں نظر آئے گا۔ مگر کم از کم اب تو ماما جان مت کہو اسے، شادی کر چکے ہو تم آخر اس سے۔” وہ اس کی بات پر ساکت ہو گیا۔
”میرے لیے اللہ سے تھوڑی مانگا تھا اس عورت نے… اس نے تمہیں اپنے لیے مانگا تھا۔ دعا تو نہیں کرتی وہ تو جادو کرتی ہے۔”
”تمہارے اندر اتنی گندگی اور غلاظت ہے مریم! کہ تم اگر ساری عمر بھی اپنے اندر کو صاف کرتی رہو تو صاف نہیں کر پاؤ گی۔” مریم کا چہرہ اور سرخ ہو گیا۔
”یہ تم سے اس عورت نے کہا ہوگا۔ اس نے یہ نہیں بتایا کہ اس کے اپنے اندر کیا ہے مگر میں اسے بتا کر آئی ہوں کہ اس کے اندر کیا ہے۔” ذالعید کا چہرہ زرد ہو گیا۔
”تم ماما جان کے پاس گئی تھیں؟ تم نے ان سے یہ سب کہا ہے؟” وہ غرایا۔
”ہاں! میں نے اس عورت سے سب کچھ کہا… سب کچھ۔” وہ تنک کر بولی اور اس نے ذالعید کی آنکھوں میں خون اترتے دیکھا۔
”تم کو پتا ہے، وہ عورت میری کیا ہے؟” اس کی آواز جیسے کسی کھائی سے آئی تھی۔
”میں جانتی ہوں، وہ عورت تمہاری…” اس نے مریم کی بات مکمل ہونے نہیں دی۔
”وہ عورت میری ماں ہے۔ میری سگی ماں۔” مریم کو آسمان اپنے سر پر گرتا محسوس ہوا۔
—–*—–
اس دن دروازہ کھولنے پر ذالعید نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ صحن میں مٹی کا ڈھیر پڑا تھا اور ماما جان پانی ڈال ڈال کر پیروں کے ساتھ وہ مٹی گوندھ رہی تھیں۔ وہ حیران ہوا۔
”آپ کیا کر رہی ہیں ماما جان؟”
”اوپر چھت پر یہ مٹی لگانا ہے۔ برسات شروع ہونے پر چھت رسنا شروع ہو جاتی ہے۔”
”ماما جان! آپ یہ سب چھوڑ دیں۔ میں کچھ مزدور اور سامان بھجوا دیتا ہوں۔ آپ کو گھر میں جو مرمت کروانا ہے آپ ان سے کروا لیں۔” وہ ان کے منع کرنے کے باوجود گھر سے نکل گیا۔
”اس عمر میں کس طرح وہ اتنی مشقت کا کام کریں گی۔” اسے بار بار یہی احساس ہو رہا تھا۔
فیکٹری پہنچتے ہی اس نے ایڈمن آفیسر کو کہہ کر کچھ مزدور ماما جان کے گھر پہنچا دیے۔ اسے اطمینان تھا کہ وہ لوگ اچھے طریقے سے سارا کام کر دیں گے۔ رات کو فیکٹری سے اٹھنے سے پہلے اس نے ایک بار پھر ایڈمن آفیسر سے اس بارے میں پوچھا۔ اس نے ذالعید کو بتایا کہ وہ لوگ تمام کام مکمل کر آئے ہیں۔
اگلے دن دوپہر کو ذالعید کام کا جائزہ لینے گیا مگر وہ یہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا کہ ماما جان کے صحن میں مٹی کا وہ ڈھیر ابھی بھی موجود تھا اور وہ چھت پر مٹی لیپ رہی تھیں۔
”ماما جان! میں نے کل مزدور بھجوائے تھے، سامان بھجوایا تھا۔ وہ لوگ کیا یہاں آئے نہیں؟” ذالعید کو غصہ آ گیا۔
”وہ لوگ آئے تھے۔ میں نے انہیں زبیدہ کے ہاں بھجوا دیا۔ وہ پچھلے کئی سال سے اپنی چھت کی مرمت نہیں کر پا رہی تھی۔ اس کے گھر کی دیواریں تک ٹوٹی ہوئی ہیں۔ ان لوگوں نے بڑی اچھی طرح اس کا کام کیا ہے۔ رات گئے تک لگے رہے۔ وہ بے چاری اتنی دعائیں دے کر گئی ہے صبح تمہیں۔”
”ماما جان! میں نے وہ مزدور آپ کے لیے بھجوائے تھے۔” ذالعید کو کوئی خوشی نہیں ہوئی۔
”میرا کام اتنا زیادہ نہیں ہے۔”
”پھر بھی ماما جان! کام تو ہے اور آدمیوں والا کام ہے۔ عورت ہو کر کیسے کریں گی، ویسے بھی بہت مشقت کا کام ہے۔”
”میں شجاع کی وفات کے بعد سے یہ کام کر رہی ہوں۔ زندگی سے زیادہ مشقت والا کام تو نہیں ہے۔ میرے لائف اسٹائل کا ایک حصہ بن چکا ہے یہ۔ تم کیوں پریشان ہوتے ہو۔” وہ اب ایک برتن میں دوبارہ مٹی ڈال رہی تھیں۔ وہ وہاں کھڑا انہیں دیکھتا رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ ان سے کیا کہے یا کیا کرے۔
”تم بیٹھ جاؤ، میں بس تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔” انہوں نے اس سے کہا اور مٹی کے اس برتن سمیت دوبارہ چھت پر چلی گئیں۔ وہ اندر جانے کے بجائے وہیں کھڑا رہا۔
وہ دوبارہ نیچے آئیں تو ذالعید نے ان سے کہا۔ ”میں مدد کروا دوں آپ کی؟” ماما جان مسکرانے لگیں۔
”تم کیا مدد کرواؤ گے۔ تمہیں اس کام کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔”
”پھر بھی ماما جان مجھے اچھا نہیں لگ رہا آپ کو اس طرح کام کرتے دیکھ کر… آپ اوپر ہی رہیں۔ میں مٹی ڈال کر آپ کو دیتا جاتا ہوں۔”
اس نے اصرار کیا اور پھر ماما جان کے انکار کے باوجود اس نے اپنی ٹائی اتارنا شروع کر دی۔ اپنے جوتے اور جرابیں اتارنے کے بعد پتلون کے پائنچے اور آستینیں چڑھائے ماما جان کی دی ہوئی ایک چھوٹی چپل کو بمشکل پیروں میں اڑ سے، وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ برتن میں مٹی ڈال کر ماما جان کو چھت پر پہنچاتا رہا۔ ہر بار جب وہ سیڑھی پر چڑھتا تو اردگرد گلی میں چلتی پھرتی عورتوں کی حیرت بھری نظروں کا سامنا کرتا۔ وہ ان نظروں کو نظرانداز کرتا رہا حالانکہ اسے ایسا کرنا بہت مشکل لگ رہا تھا۔ مگر پھر وہ اپنے کام میں مگن ہو گیا اور آہستہ آہستہ ماما جان کو برتن تھمانے کے بعد وہ دلچسپی سے انہیں تیز دھوپ میں اپنا کام کرتے دیکھتا رہتا بلکہ ساتھ ساتھ سیڑھی پر کھڑے کھڑے انہیں مشورے بھی دیتا رہا۔ ماما جان بڑی مہارت کے ساتھ مٹی کو چھت پر لیپ رہی تھیں۔
دو گھنٹے کے بعد چھت کا کام مکمل ہو گیا۔ اس کے بعد ماما جان نیچے اتر آئیں۔ ”اب؟” ذالعید نے سوالیہ نظروں سے ماما جان کو دیکھا۔ صحن میں ابھی بھی بہت سی مٹی پڑی تھی۔
”اب تو شام ہو رہی ہے، کل اندر کمرے کے فرش پر مٹی کا لیپ کرنا ہے۔” وہ اب اپنے ہاتھ پیر دھو رہی تھیں۔
”کوئی بات نہیں۔ میں آ جاؤں گا۔” اس نے ان کے انکار کی پروا نہیں کی۔ احتیاط کے باوجود اس کی قمیص اور پتلون پر کئی جگہ مٹی کے دھبے لگ گئے تھے۔ وہ خاصی بے چینی محسوس کرنے کے باوجود ناخوش نہیں تھا۔
—–*—–
اگلے دن وہ اپنے ساتھ فالتو کپڑوں کا ایک جوڑا اور چپل لے کر صبح صبح وہاں آ گیا۔ اس نے کمرے کا تمام سامان نکال کر صحن میں رکھا اور پھر کل کی طرح مٹی ڈھونے لگا۔ کمرے اور برآمدے کا کام بہت جلدی مکمل ہو گیا۔ اس کے بعد ماما جان نے پورے صحن کو مٹی سے لیپ دیا۔
جب وہ لوگ فارغ ہوئے، اس وقت شام کے چار بج رہے تھے۔
یہ ماما جان کے گھر میں ذالعید کا پہلا اور آخری کام نہیں تھا۔ چند ہفتے بعد اس نے ماما جانے کے ساتھ گھر میں سفیدی بھی کی۔ ماما جان کی کیاریوں میں کچھ نئے پودے بھی لا کر لگائے۔ ماما جان کی کیاریوں کے گرد نئے سرے سے اینٹیں بھی لگائیں۔ ماما جان کے گملوں کو روغن بھی کیا۔ ان کے گھر کی دہلیز کو دوبارہ بنایا۔
اس گھر میں آ کر جیسے اس کی کایا پلٹ ہو جاتی تھی۔ وہ ان کاموں کو کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا تھا۔ جو اس نے زندگی میں کبھی نہیں کیے تھے۔ وہاں اسے یہ سب کچھ کرتے دیکھ کر کسی کو یقین نہیں آتا کہ وہ واقعی ذالعید ہے۔ بعض دفعہ اسے یہ سوچ کر ہنسی آتی کہ اگر کبھی مریم اچانک وہاں آ جائے تو اسے یہ سب کچھ کرتے دیکھ کر اس کا کیا حال ہو۔
اس محلے میں اب وہ غیر معروف نہیں رہا تھا۔ لوگ اسے پہچاننے لگے تھے اور اکثر گلی سے گزرتے ہوئے وہ ملنے والوں کا حال احوال بھی دریافت کرتا۔ مسجد میں بھی اب وہ ماما جان کے داماد کے طور پر جانا جاتا تھا۔ عصر کی نماز وہ وہاں باقاعدگی سے ادا کرتا تھا اور اس وقت کئی لوگوں سے اس کی ملاقات ہو جاتی۔ کم گو اور ریزرو ہونے کے باوجود اس کے لیے بہت مشکل ہو گیا تھا کہ وہ وہاں اس طرح الگ تھلگ رہے جس طرح وہ رہنا چاہتا تھا۔ دلچسپی نہ لینے کے باوجود بھی وہ جاننے لگا تھا کہ ماما جان کے گھر کے دائیں بائیں اور سامنے والے گھروں میں کون لوگ رہتے ہیں کتنے فرد ہیں؟ گھر کا سربراہ کیا کرتا ہے؟ ان کے مسائل کیا ہیں۔
شروع میں اس کا خیال تھا کہ لوگ اس کی دولت اور اس کی لمبی چوڑی گاڑی سے مرعوب ہیں، جس میں وہ وہاں آتا تھا اور شاید اسی وجہ سے وہ مسجد میں یا گلی میں اس کا حال احوال دریافت کرتے رہتے ہیں، مگر پھر آہستہ آہستہ اسے اندازہ ہو گیا کہ حقیقی وجہ یہ نہیں تھی۔ حقیقی وجہ ماما جان اور شجاع تھے۔ لوگ ان سے وابستگی کی وجہ سے اس کی عزت کرتے تھے۔ شروع میں ماما جان کی گلی سے خاصی دور گاڑی کھڑی کرنے پر اسے خاصی تشویش ہوتی تھی۔
ماما جان کی گلی تنگ تھی وہاں گاڑی نہیں آ سکتی تھی، اس لیے اسے بڑی گلی میں گاڑی کھڑی کر کے آنا پڑتا اور اسے یہ خوف ہوتا کہ گلی میں پھرنے والے بچے گاڑی کے شیشے نہ توڑ دیں یا ٹائر پنکچر نہ کر دیں، مگر آہستہ آہستہ اس کا یہ خوف ختم ہو گیا۔ اس کی گاڑی پر کبھی کسی نے پتھر پھینکنے کی کوشش نہیں کی۔ کئی بار بچے اس کے آنے کے وقت اس گلی کے ایک تھڑے پر بیٹھے ہوتے اور جب وہ گاڑی لاک کر رہا ہوتا تو ان میں سے کوئی نہ کوئی کہتا۔
”ہم لوگ گاڑی کا خیال رکھیں؟” وہ مسکرا کر سر ہلا دیتا۔ وہ بھی اسے ماما جان کے گھر کے حوالے سے جانتے تھے۔ اس نے کئی بات اس گلی میں کھڑی گاڑیوں کے مالکوں کو چیختے چلاتے دیکھا۔ کبھی کوئی شیشہ ٹوٹنے کی شکایت کر رہا ہوتا۔ کبھی کوئی ٹائر پنکچر ہونے پر لال پیلا ہو رہا ہوتا… کبھی کسی کی ہیڈ لائٹ یا ٹیل لائٹ ٹوٹی ہوتی اور کبھی گاڑی کے بونٹ پر ڈینٹ یا خراش پڑی ہوتی۔ مگر ذالعید کو کبھی ایسے کسی مسئلہ کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ کئی بار وہ واپس آتا تو بچوں کو اپنی گاڑی کے بونٹ یا ٹرنک پر بیٹھے دیکھتا مگر اس کی کار کو کبھی کسی نے نقصان نہیں پہنچایا اور وہ جانتا تھا ،یہ صرف ماما جان کی وجہ سے ہے۔
اس نے ماما جان سے زندگی کا نیا مفہوم سیکھنا شروع کیا تھا۔ وہ ان کی باتوں پر حیران ہوا کرتا، بعض دفعہ وہ اسے کسی ولی کی باتیں لگتیں اور وہ بے اختیار ہو کر ماما جان سے پوچھتا۔
”ایسی باتیں کہاں سے سیکھی ہیں آپ نے ماما جان؟ کیا آپ نے چلّے کاٹے ہیں؟”
وہ عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھ کر کہتیں۔ ”نہیں چلّے نہیں کاٹے… میں نے غم بہت سہے ہیں۔ غم کو صبر کے ساتھ سہنا چلّہ کاٹنے سے کم تو نہیں ہوتا۔”
”کون سا غم ماما جان؟” اسے تجسس ہوتا مگر وہ ٹال جاتیں۔
”غم گزر گیا تو غم کہاں رہا۔ ماضی ہو گیا، ماضی کے بارے میں کیا بتاؤں تمہیں… جس مصیبت کو برداشت کر لیا اور وہ ختم ہو گئی تو اس کے بارے میں کیا سناتی پھروں۔” انہوں نے کبھی اس سے اپنے ماضی کی بارے میں بات نہیں کی۔
ذالعید نے کبھی تحقیق نہیں کی۔ وہ جانتا تھا، وہ اسے اپنے ماضی کے بارے میں کچھ بھی بتانا نہیں چاہتیں اور اس نے ان کی اس خواہش کا احترام کیا۔
اسے ماما جان کے گھر میں آ کر عجیب سے سکون کا احساس ہوتا… وہ ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھاتا… بغیر کسی تامل یا اعتراض کے یوں جیسے وہ برسوں سے وہی کھانا کھاتا رہا ہو۔ بعض دفعہ ماما جان دوپہر کو رات کا باسی سالن بھی اس کے سامنے رکھ دیا کرتیں اس نے اس پر بھی کبھی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا۔ وہ بڑے آرام سے وہ چیزیں بھی کھا لیا کرتا تھا جن کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
مریم کے برعکس اسے وہاں کے ماحول سے کوئی وحشت نہیں ہوتی تھی۔ وہ ماما جان کے پالتو جانوروں کو بھی ناپسند نہیں کرتا تھا۔ کئی بار وہ ان کی بلی سے کھیلنے لگتا اسے محسوس ہوتا تھا کہ وہ بلی بھی اس سے مانوس ہو گئی ہے۔
کئی بار ذالعید کو یوں لگتا جیسے ماما جان اس کی اپنی ماں ہوں۔ وہ بالکل ماں ہی کی طرح اس کا خیال رکھتی تھیں۔ اس کی چھوٹی سے چھوٹی تکلیف پر بھی پریشان ہو جاتیں۔ وہ زندگی میں ناز نخرے اٹھوانے کا عادی نہیں تھا۔ اس کی تربیت ہی ایسی ہوئی تھی کہ اس نے کبھی ان چیزوں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ ساری زندگی وہ اپنا خیال خود رکھنے کا عادی تھا۔ مگر اب وہ عورت بعض دفعہ اسے ننھے بچے کی طرح ٹریٹ کرتی تو ذالعید کو بے حد اچھا لگتا۔ انہیں دیکھتے ہوئے اسے مریم پر رشک آتا۔ اسے کس قدر محبت سے پالا گیا تھا۔ کس قدر پروا کی جاتی تھی اس کی۔
مریم جب کبھی اس کے ساتھ ماما جان کے پاس آتی، وہ اس قدر محبت اور احترام کے ساتھ اس کا ہاتھ چومتیں کہ ذالعید کو حسد ہونے لگتا۔
اور اس دن ماما جان کے بالوں اور آنکھوں کو دیکھتے ہوئے اسے ایک دم یک عجیب سا احساس ہوا تھا۔ ماما جان کی آنکھیں اس کی اپنی آنکھوں سے بہت ملتی تھیں۔ وہ حیرانی سے انہیں دیکھتا رہا۔ ہر بار ماما جان کو دیکھتے ہوئے اسے احساس ہوتا تھا جیسے وہ چہرہ اس کے لیے بہت شناسا تھا اور آج پہلی بار اس کو یاد آیا کہ اس کا اپنا چہرہ ماما جان سے بہت مشابہت رکھتا تھا۔
اس کی آنکھیں، ناک کی نوک اور ہونٹ۔ اسے بہت خوشگوار سا احساس ہوا اور تب ہی اس نے ماما جان سے کہا۔
”ماما جان بعض دفعہ مجھے لگتا ہے جیسے آپ میری ماں ہوں۔ آپ نے دیکھا۔ میری آنکھیں آپ کی آنکھوں جیسی ہیں۔”
وہ اٹھ کر اس کے پاس آ گئیں اور انہوں نے نرمی سے ذالعید کی آنکھیں چوم لیں۔
”تمہارا سب کچھ میرے جیسا ہے۔” وہ شاکڈ رہ گیا۔
”تم میری مریم کے ہواس لیے۔ میں کھانا لے کر آتی ہوں۔” وہ اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئیں۔
ذالعید نے بے اختیار اپنی دونوں آنکھوں کو چھوا۔ ان کا لمس اسے بہت اچھا لگا تھا۔ خوشی کی عجیب سی لہر اس کے پورے وجود سے گزر گئی۔
—–*—–




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۲

Read Next

سزا — مریم مرتضیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!