لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

خدیجہ بعض دفعہ ذالعید کو یاد کر کے رونے لگتی۔ وہ اسے تسلی دیتا۔ خدیجہ کی تنہائی ختم کرنے کے لیے اس نے گھر میں کچھ جانور پال لیے۔ چند سال گزر جانے پر بھی ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تو خدیجہ کی خواہش پر اس نے اسی محلہ کی ایک ایسی مطلقہ عورت کی بیٹی گود لے لی جو دوسری شادی کرنے والی تھی اور اس کی بیٹی کو کوئی رکھنے پر تیار نہیں تھا۔ اُمّ مریم اس وقت تین سال کی تھی جب وہ خدیجہ نور کے پاس آئی اور اس نے خدیجہ نور اور شجاع کی واحد کمی کو بھی پورا کر دیا۔ وہ دونوں اسے اپنے گھر لا کر بہت خوش تھے۔
خدیجہ نور بعض دفعہ اپنی زندگی کے بارے میں سوچتی تو حیران رہ جاتی۔ وہ شجاع کے ساتھ بہت خوش تھی۔ وہ خود بہت زیادہ عبادت گزار نہیں تھا مگر وہ خدیجہ کی عبادت کی بہت قدر کیا کرتا تھا۔ وہ ہر ایک کو بڑی خوشی اور فخر کے ساتھ بتاتا کہ اس کی بیوی ایک نو مسلم ہے اور وہ بہت نیک عورت ہے۔ خدیجہ نے پوری زندگی کبھی اس کے منہ سے اپنے ماضی کے بارے میں کوئی سوال، کوئی اعتراض نہیں سنا۔ شاید وہ سوال کرنے والا شخص ہی نہیں تھا۔ اس نے کبھی شجاع کے منہ سے اپنے لیے کوئی طعنہ، کوئی بری بات نہیں سنی… اور پھر ایک وقت ایسا آیا جب خدیجہ نور کو یہ لگنے لگا کہ اسے واقعی شجاع سے محبت ہے اس کا شام کو گھر آنا اسے خوشی دیتا۔ اس کے لیے کام کرنا اسے سکون بخشتا تھا۔ وہ شجاع سے اب چھوٹی چھوٹی فرمائشیں بھی کرتی تھی۔ ایسی فرمائشیں جنہیں وہ پورا کر سکتا۔ وہ شام کو اس کے آنے سے پہلے اس کے لیے بنتی سنورتی بھی تھی۔
اس نے اپنی زندگی میں بہت کچھ شجاع سے سیکھا تھا۔ صبر، اخلاص، ایثار، بے غرضی، قناعت، برداشت، اعلا ظرفی… یہ سارے سبق اس نے اسی کم پڑھے لکھے شخص سے لیے تھے، بعض دفعہ اسے وہ رات یاد آتی جب چند گھنٹوں کے اندر اندر مظہر اسے طلاق دے کر اور ذالعید کو لے کر چلا گیا اور وہ باہر برف پر بیٹھ کر یہ سوچتی رہی کہ اس کا سب کچھ ختم ہو گیا اب اسے کم از کم اس زندگی میں دوبارہ کچھ نہیں ملے گا… نہ گھر، نہ شوہر، نہ اولاد، نہ عزت… شاید وہ پھر ایک کال گرل بن جائے یا لندن کی گندی گلیوں میں بھوک اور بیماری سے لڑتے ہوئے مر جائے گی بالکل اپنی ماں کی طرح یا پھر سڑکوں پر بھیک مانگتے ہوئے… کم از کم اس رات چند گھنٹوں کے لیے اسے یہی محسوس ہوا تھا کہ اب اس کے پیروں کے نیچے دوبارہ کبھی زمین نہیں آئے گی۔
مگر اب… شجاع اور مریم کے ساتھ اپنے ایک کمرے کے گھر میں بیٹھی وہ اپنے اندر عجیب سا اطمینان محسوس کرتی۔ ”گھر، شوہر، اولاد، عزت، رزق میرے پاس سب کچھ ہے… مجھے اللہ نے کسی سڑک پر بھیک مانگنے کے لیے نہیں چھوڑا… دوبارہ طوائف نہیں بنایا۔”
مریم کو اس نے کانونٹ میں داخل کروایا تھا۔ کانونٹ میں خدیجہ نور کی وجہ سے مریم سے فیس نہیں لی جاتی تھی اور اسے کچھ دوسری سہولتیں بھی دے دی گئی تھیں۔ وہ مریم کو بہت کچھ نہیں دے سکتی تھی… مگر اس کا خیال تھا وہ اسے اچھی تعلیم ضرور دلوائے گی… اعلیٰ تعلیم اور شاید مریم کے لیے اس کے دل میں آنے والا یہ خیال ہی اسے کانونٹ تک لے گیا تھا۔





مریم نے انگلش خدیجہ نور سے سیکھی تھی، خدیجہ نور گھر میں اس کے ساتھ بچپن سے یہی زبان بولتی۔
مریم کا لب و لہجہ بالکل خدیجہ نور جیسا تھا۔ انگلش میں گفتگو کرتے ہوئے اسے یہ احساس ہوتا کہ وہ مقامی نہیں ہے اور مریم کو اس بات پر خاصا فخر بھی تھا کہ وہ اپنی کلاس کی بہت سی لڑکیوں سے زیادہ اچھی انگلش بولتی ہے اور شاید فخر کا یہ وہ پہلا بیج تھا جو مریم نے اپنے دل میں بویا۔
—–*—–
شجاع نے اپنی وفات سے بہت عرصہ پہلے اپنا گھر اور دکان خدیجہ کے نام کر دی تھی۔ اس نے اپنی بہنوں کے حصے میں آنے والی رقم انہیں اپنی زندگی میں ہی دے دی۔
شجاع کی وفات کے بعد کچھ عرصہ خدیجہ نور نے خاصی تنگی کا وقت گزارا۔ ان دونوں محلے والے کسی نہ کسی طرح اس کی امدد کرتے رہے۔ پھر شجاع کی دکان کرائے پر چڑھ گئی اور خدیجہ نور کا تنگی کا وہ وقت بھی گزر گیا۔ مریم کے اخراجات بڑھنے لگے تو خدیجہ محلے کے کچھ اچھے گھرانے کے بچوں کو انگلش پڑھانے لگی۔
مریم شروع سے ہی پڑھائی میں بہت اچھی تھی خاص طور پر آرٹ… اور آرٹ میں اس کی دلچسپی دیکھ کر خدیجہ نور شروع سے ہی اس کے لیے تصویریں بنانے کا سامان لاتی رہی۔ اسکول کے زمانہ میں ہی اس کی بنائی ہوئی تصویریں بکنے لگیں۔ اس کی اکثر پینٹنگز مشنری اداروں میں آنے والے ڈونر ایجنسیز یا فلاحی اداروں کے غیر ملکی لوگ خرید لیتے۔ خدیجہ نور کے لیے مریم کی یہ تعریف فخر کا باعث تھی۔
اگرچہ مریم اس کو خاصا پریشان کرتی رہتی تھی پھر بھی خدیجہ نور کو اس سے بہت محبت تھی۔اس نے اور شجاع نے مریم کے حتیٰ المقدور ناز نخرے برداشت کیے تھے۔ مریم کو شجاع سے کوئی لگاؤ نہیں تھا، بچپن میں وہ پھر بھی اس کے قریب تھی مگر بڑا ہونے پر اسے یہ احساس ہونے لگا کہ اس کا پیشہ قابل نفرت ہے۔ خدیجہ نور سے اس کو نسبتاً زیادہ لگاؤ تھا۔ وہ شروع سے ہی یہ جانتی تھی کہ وہ ایڈاپٹڈ ہے مگر اس بات نے اس پر کوئی برے اثرات مرتب نہیں کیے۔
زندگی میں پہلی بار ماما اُمّ مریم کے حوالے سے تب خوفزدہ ہوئیں جب مریم نے این سی اے میں داخلہ لینے کے چند دن بعد ان سے یہ کہا وہ اسے قانونی طور پر بیٹی بنا لیں۔
”ماما جان! آپ کے پاس برٹش نیشنلٹی ہے اور ہم یہاں دھکے کھا رہے ہیں۔ آپ مجھے یہاں سے لے جا سکتی ہیں۔ میں نے سسٹر سسیلیا سے بات کی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ وہ ہمارے پیپرز کی تیاری کے سلسلے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں۔” وہ ہکا بکا مریم کا چہرہ دیکھتی رہیں۔
”یہاں میرے لیے کچھ بھی نہیں ہے ماما جان! وہ خود پسند اور بڑے لوگوں کا کالج ہے… بورژوا کلاس ہے وہاں… میرے جیسے لوگوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے وہاں۔ انگلینڈ میں جا کر میرا فیوچر بن سکتا ہے۔ ماما جان! وہاں میں آرٹ کی تعلیم لوں گی تو انٹرنیشنل لیول (عالمی سطح) پر میرا کام پہچانا جا سکے گا۔ یہاں کچھ نہیں ہے۔”
”مریم! وہاں ہمارا کوئی نہیں ہے، تم اور میں اکیلے کیسے رہ سکتے ہیں وہاں؟”
”یہاں بھی تو اکیلے رہتے ہیں۔”
”یہاں کی بات اور ہے، یہاں تو کئی سالوں سے رہتے آ رہے ہیں۔”
”ماما جان! یہاں غربت میں رہ رہے ہیں آپ چاہتی ہیں جیسے اب تک زندگی گزاری ہے میرا کل بھی ایسے ہی گزرے۔”
”میں وہاں نہیں رہ سکتی مریم۔”
”پھر مجھے ہی بھجوا دیں۔”
”میں تمہیں اکیلے کیسے وہاں رہنے کے لیے بھیج سکتی ہوں۔ وہ جنگل ہے مریم! مہذب جنگل۔”
”ماما جان! آپ پتا نہیں کس صدی کی بات کر رہی ہیں۔” وہ الجھ گئی۔
”دیکھو مریم! تم ایک بہت اچھے ادارے سے تعلیم حاصل کر رہی ہو۔ جب تمہاری تعلیم مکمل ہو جائے گی۔ تو پھر میں تمہاری شادی کر دوں گی۔”
”اس طرح کے کسی شخص کے ساتھ جس طرح کے شخص سے آپ نے شادی کی ہے… نہیں ماما جان! میں ایسے کسی شخص کے ساتھ شادی نہیں کر سکتی۔” خدیجہ نور اس کا چہرہ دیکھتی رہیں۔
”اچھی جگہ کروں گی میں تمہاری شادی۔”
”اس گھر میں رہ کر کسی اچھی جگہ میری شادی نہیں ہو سکتی۔ ایک کمرے کے اس خستہ حال گھر میں کوئی نہیں آئے گا۔” وہ پہلی دفعہ مریم کے منہ سے اتنی تلخ باتیں سن رہی تھیں۔
”مریم! شادی گھروں سے یا کمروں سے نہیں ہوتی، انسانوں سے ہوتی ہے… جہاں پر تمہارا مقدر ہوگا۔ وہ لوگ تم کو دیکھیں گے، گھر نہیں دیکھیں گے۔”
”کس دنیا میں رہتی ہیں ماما جان آپ… آج کل لوگ کمرے گن کر شادیاں کرتے ہیں۔ ہر چیز گنتے ہیں، ہر چیز دیکھتے ہیں۔” وہ تلخ انداز میں ہنسی۔
”جو لوگ یہ سب دیکھ کر شادی کرتے ہیں، انہیں یہی سب کچھ دیکھنے دو۔ مجھے اپنی مریم کے لیے ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اچھا ہے مریم! ایسے لوگ یہ سب کچھ دیکھ کر گزر جائیں جو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ٹھہر جائیں، میں چاہتی ہوں تمہاری شادی اس سے ہو۔”
”ماما جان! آپ گھر کے اندر رہنے والی عورت ہیں ،آپ کو زندگی کا کچھ پتا نہیں ہے، آپ کو پتا ہی نہیں ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ اپنے خوابوں سے باہر آ جائیں۔ آپ کی اُمّ مریم کے لیے آسمان سے کوئی شہزادہ نہیں آئے گا بلکہ زمین کا کوئی انسان بھی یہاں نہیں آئے گا… مجھے باہر بھجوا دیں۔” وہ ان کی باتوں سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔
”جب تم اپنی تعلیم مکمل کر لو گی تو ہم یہ گھر اور دکان بیچ کر اس سے بہتر گھر لے لیں گے۔” انہوں نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔ وہ چلا اٹھی۔
”کتنا بہتر گھر لے لیں گے۔ ایک کمرے سے دو کمروںمیں چلے جائیں گے، فارگاڈیسک! اپنے ساتھ میری زندگی تو تباہ مت کریں اگر میرے سامنے بہتر مواقع ہیں تو مجھے فائدہ اٹھانے دیں۔ انگلینڈ جا کر میری زندگی بن جائے گی۔”
”وہاں جا کر تم مشین بن جاؤ گی۔”
”بن جانے دیں… مگر میرے پاس وہاں کی نیشنلٹی ہوگی اور وہ نیشنلٹی مجھے آرٹ کی دنیا میں کتنا آگے لے جائے گی آپ نہیں جانتیں۔”
وہ خاموش ہو گئیں۔ مریم کے ساتھ بحث کا کوئی فائدہ نہیں تھا مگر وہ خوفزدہ ضرور ہو گئی تھیں کہ وہ انہیں چھوڑ کر باہر جانا چاہتی ہے۔ اس ملک میں جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے بدترین سال گزارے تھے۔
میں کیسے برداشت کر سکتی ہوں مریم کہ وہ سب کچھ تمہارے ساتھ ہو جو میرے ساتھ ہوا۔ تم ویسی زندگی گزارو جیسے زندگی میں نے گزاری… نہیں، میں نہیں کبھی باہر نہیں بھجواؤں گی۔ کم از کم تب تک تو نہیں جب تک تم اپنی تعلیم مکمل نہیں کر لیتیں۔” انہوں نے اس دن یہ طے کر لیا تھا۔
مریم سے ہونے والی یہ ان کی آخری گفتگو نہیں تھی، وہ اب وقتاً فوقتاً ان سے ضد کرتی تھی، مجھے باہر بھجوا دیں۔
ماما جان کبھی اس کے مطالبے پر خاموش ہو جاتیں اور کبھی اسے یہ کہہ کر ٹال دیتیں کہ وہ این سی اے سے گریجویشن کر لے پھر وہ اسے باہر بھیج دیں گی۔ مریم ان کی باتوں پر چڑ جاتی۔ مگر خدیجہ نور کو اس کا یہ غصہ برا نہیں لگتا تھا۔
—–*—–
خدیجہ نور نے ذالعید کو کبھی فراموش نہیں کیا تھا۔ ڈیڑھ سال کے اس بچے کے رونے کی آواز ساری عمر ان کے ساتھ رہی۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ وہ تصور میں اس کا بڑھتا ہوا وجود دیکھتیں۔ وہ ہر سال اس کی پیدائش کے دن اللہ سے دعا کرتیں کہ وہ ایک بار انہیں ذالعید سے ملوا دے یا پھر کسی نہ کسی طرح وہ اسے دیکھ ضرور پائیں۔
انہوں نے مریم سے کبھی یہ ذکر نہیں کیا تھا کہ ان کی کوئی اپنی اولاد بھی ہے۔ وہ مریم کے تجسس کو جانتی تھیں۔ وہ ذالعید سے مظہر پر بھی ضرور آتی اور جاننا چاہتی کہ ان کے شوہر نے انہیں کیوں چھوڑا تھا اور یہ کیوں ان کے سارے زخم ہرے کر دیتا ان میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ مریم کو اپنے ماضی کے بارے میں سب کچھ بتا دیتیں۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ اس کا ردعمل کیا ہوگا۔ مگر انہیں یہ خوف ضرور تھا کہ وہ انہیں ناپسند کرے گی یا شاید نفرت کرنے لگے۔
شجاع کی وفات کے بعد جوں جوں وقت گزر رہا تھا۔ انہیں یہ احساس ہونے لگا کہ شاید وہ اب کبھی بھی ذالعید کو نہیں دیکھ پائیں گی۔
ہاں! اب تک تو وہ شادی کر چکا ہوگا۔ ہو سکتا ہے اس کی اپنی اولاد بھی ہو۔ اسے تو پتا بھی نہیں ہوگا کہ اس کی کوئی ماں بھی ہے… اور پتا نہیں مظہر نے اسے میرے بارے میں کیا بتایا ہوگا؟
ان دنوں وہ مریم کی وجہ سے بہت پریشان تھیں۔ وہ اس پروجیکٹ کے نہ ملنے کے بعد سے بہت پریشان تھی وہ یک دم اتنی بدل گئی تھی کہ خدیجہ بے چین رہنے لگیں۔ ان کے پوچھنے پر وہ کچھ بھی بتانے کی بجائے ان سے شکوے کرنے لگتی کہ انہوں نے اسے انگلینڈ نہیں بھجوایا۔ انہیں اس کی پروا نہیں ہے، مگر وہ انہیں اپنی پریشانی بتانے پر تیار نہیں تھی۔
مگر اس رات وہ ان کے پاس آ کر رونے لگی تھی اور تب انہوں نے اس کے منہ سے ایک نام سنا جس نے ان کے وجود کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ انہوں نے اس سے ذالعید کے بارے میں اس وقت کچھ بھی نہیں پوچھا۔ وہ کچھ بھی پوچھنے کے قابل ہی نہیں تھیں۔ وہ صرف یہ جانتی تھیں کہ وہ نام ان کے بیٹے کے علاوہ کسی اور کا نہیں ہو سکتا اور جب وہ نام ان کے سامنے آیا تھا تو کس طرح… مریم کی فرمائش بن کر۔
وہ مظہر اوّاب کو جانتی تھیں، وہ اس کے پورے خاندان کو جانتی تھیں۔ ذالعید مریم کے بارے میں کیا جذبات رکھتا ہے اور کیا نہیں وہ یہ نہیں جانتی تھیں اور اس سب کے باوجود اس رات انہوں نے اللہ سے مریم کے لیے ذالعید کو مانگا تھا۔
”میں نے پچیس سال ذالعید کو آپ سے اپنے لیے مانگا ہے آپ نے اسے مجھے نہیں دیا۔ مجھ سے دور رکھا۔ میں نے شکوہ نہیں کیا، میں نے تجھ سے ایک بار بھی شکوہ نہیں کیا۔ میں نے صبر کر لیا۔ مگر آج میں آپ سے ذالعید کو مریم کے لیے مانگ رہی ہوں۔ مجھے خالی ہاتھ نہ لوٹانا۔”
زندگی میں پہلی بار مریم نے مجھ سے دعا کے لیے کہا ہے، پہلی بار اس نے مجھے اپنے لیے اللہ سے کچھ مانگنے کے لیے کہا ہے۔ اس کو وہ نہ ملا تو وہ کہے گی کہ ماما جان نے اس کے لیے دعا ہی نہیں کی۔ وہ ٹھیک کہتی ہے۔ میں عورت نہیں میں ماں بھی ہوں۔ آپ نے مجھ پر دو دو آزمائشیں ڈال دی ہیں۔ میں عورت ہو کر صبر کر سکتی ہوں مگر ماں بن کر صبر نہیں کر سکتی اور میں کیوں صبر کروں۔ میں نے انسان سے کچھ نہیں مانگا۔ میں نے آپ سے مانگا ہے، اللہ سے مانگا ہے۔ میں جانتی ہوں، مظہر میرے بارے میں جاننے کے بعد کبھی ذالعید سے مریم کی شادی نہیں ہونے دے گا۔ میں یہ بھی جانتی ہوںکہ اس کا خاندان اپنی ساری روایات اور اقدار کے ساتھ اس رشتہ کے خلاف کھڑا ہو جائے گا اور مجھے یہ بھی پتا نہیں کہ ذالعید مریم کو پسند کرتا ہے یا نہیں، وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔ میں جانتی ہوں یہ سب کچھ ناممکن ہے مگر میں کسی انسان سے تھوڑا مانگ رہی ہوں کہ ممکن اور ناممکن کے بارے میں سوچوں۔ میں تو آپ سے مانگ رہی رہی ہوں جو کن کہتا ہے اور ہر ناممکن ممکن ہو جاتا ہے۔
میں آپ سے کہتی ہوں مجھے جنت نہ دیں اس کے بدلے دنیا میں میری مریم کو ذالعید دے دیں۔ اس کے دل کو خالی نہ رکھیں آپ ذالعید کا دل پھیر دیں آپ میری مریم کے راستے کی ہر رکاوٹ دور کر دیں۔”
خدیجہ نور نے اس رات باہر صحن میں بیٹھ کر اللہ سے دعا کی تھی۔ وہ صبح فجر تک وہیں بیٹھی روتی رہیں۔
مریم کو انہوں نے صبح زبردستی کام کے لیے بھجوایا تھا۔ ناشتہ کرتے ہوئے انہوں نے اس سے ذالعید کے بارے میں پوچھا۔ اس نے چند جملوں میں انہیں ذالعید کے بارے میں بتایا، وہ اب رات والی حالت سے باہر آ چکی تھی، مگر اس کا چہرہ اب بھی ستا ہوا تھا۔
خدیجہ نے سارا دن اس کے لیے دعا کے علاوہ کچھ نہیں کیا اور دوسرے دن اپنے دروازے پر ذالعید کو دیکھ کر وہ جان گئی تھیں کہ ان کی دعا قبول ہو چکی تھی۔ انہوں نے پچیس سال بعد اس کی شکل دیکھی تھی۔ وہ ڈیڑھ سال کا بچہ ساڑھے چھبیس سال کا ہو چکا تھا۔ انہوں نے اس سے پہلے اپنے گھر کو اتنا روشن اتنا خوبصورت نہیں پایا جتنا ان چند گھنٹوں میں۔ وہ اس کے چہرے سے اپنی نظریں ہٹا نہیں پا رہی تھیں۔
وہ دوسری بار ان کے پاس تب آیا جب انہوں نے اس کو مریم کی شادی کے سلسلے میں بات کرنے کے لیے بلایا تھا۔ ان کے انکار پر اس کے چہرے کی مایوسی انہیں ملال میں مبتلا کر رہی تھی مگر وہ اپنے بیٹے کی خوشی کے لیے مریم کو داؤ پر نہیں لگا سکتی تھیں۔ وہ اس غلطی کو دہرانا نہیں چاہتی تھیں جو انہوں نے کی تھی، وہ اُمّ مریم کو صرف ذالعید کا نہیں اس کے خاندان کا حصہ بنانا چاہتی تھیں مگر مریم نے ایک بار پھر انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ ایک بار پھر انہوں نے اللہ سے دعا کی تھی۔ وہ نہیں جانتیں کہ ذالعید نے مظہر کو کیسے منایا مگر اس نے منا لیا تھا۔
—–*—–




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۲

Read Next

سزا — مریم مرتضیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!