لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

زینب کی پیدائش کے بعد وہ آہستہ آہستہ سنبھلنے لگا۔ وہ ہر روز تین گھنٹے ماما جان کے پاس گزار کر آتا تھا۔ اس نے انہیں ایک موبائل دیا ہوا تھا جس پر وہ دن میں کئی بار ان سے بات کرتا رہتا۔ شاید اسے اس طرح ماما جان کے حوالے سے اس عدم تحفظ کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ رات کو سونے سے پہلے بھی وہ ایک بار ان سے بات ضرور کرتا۔
مریم اپنی زندگی میں مصروف اور مطمئن تھی۔ وہ اپنی زندگی میں مصروف تھا۔ ماما جان کے محلے میں ہر کوئی اس کی روٹین سے واقف تھا کہ وہ روز تین گھنٹے کے لیے وہاں آتا تھا۔ ماما جان کے کہنے پر وہ محلے کے بہت سے لوگوں کے کام کروا دیا کرتا۔ اسے اس محلے میں رہنے والے تقریباً ہر شخص سے واقفیت ہو گئی تھی۔ وہ ان لوگوں کی خوشی اور غمی میں شرکت بھی کرتا۔ اس طرح کی سوشل لائف اس نے کبھی نہیں گزاری تھی۔ جس علاقے میں وہ رہتا تھا وہاں اس طرح کے میل ملاپ کا کوئی تصور ہی نہیں تھا اور نہ ہی ذالعید نے کبھی یہ سوچا تھا کہ خود وہ کبھی لوگوں کے ساتھ اس طرح کے تعلقات بڑھائے گا مگر اب وہ سب کچھ کر رہا تھا۔
محلے کے لوگوں کی شادیوں کی تقریبات میں کچھ دیر کے لیے چلاجاتا۔ انہیں اپنی طرف سے تحفے تحائف دے دیتا۔ کسی کی موت کی صورت میں نماز جنازہ کے لیے بھی چلا جاتا۔ یہ ممکن نہ ہوتا تو تعزیت ضرور کر آتا۔ محلے کے لوگوں کے سرکاری دفاتر میں پھنسے ہوئے کام کروا دیتا۔ ہاسپٹل میں اپنے دوست ڈاکٹرز سے ان کی سفارش کر دیتا۔ مالی مسائل میں گھری ہوئی فیملیز کی ماما جان کے ذریعے مدد کر دیتا۔ گلی کی مرمت کروا دیتا۔ وہ کئی بار زینب کو لے کر ماما جان کے پاس چلا گیا۔ ماما جان زینب کو دیکھ کر بہت خوش ہوتی تھیں۔
اس کا نام زینب نور رکھنے کی فرمائش انہوں نے کی تھی اور ذالعید نے مریم کے اعتراض کے باوجود اس کا نام ان ہی کے نام پر رکھا۔
وہ مریم کے ساتھ ماما جان کے پاس کبھی نہیں آتا تھا۔ حتیٰ کہ عید پر بھی وہ مریم کے ساتھ نہ آتا۔
”ماما جان! وہ آپ کی کسی نہ کسی بات پر اعتراض ضرور کرتی ہے اور وہ آپ سے اتنی بری طرح بات کرتی ہے کہ میں برداشت نہیں کر پاتا… میں جانتا ہوں کہ اگر کبھی اس نے میرے سامنے آپ کے سامنے اس طرح بات کی تو میں خود پر قابو نہیں رکھ پاؤں گا اور میں ایسا کچھ کہنا اور کرنا نہیں چاہتا جس پر میں، آپ اور وہ، تینوں تکلیف پائیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ وہ میرے ساتھ آپ سے ملنے نہ آئے۔ میں تو اب اس سے آپ کے بارے میں بات بھی نہیں کرتا۔ آپ نے دنیا کی سب سے بے وقوف عورت دعاؤں کے زور پر میرے گلے ڈال دی۔”
ماما جان کو بے اختیار ہنسی آ گئی۔ ”فضول بکواس مت کرو۔”
”بکواس نہیں کر رہا ہوں ماما جان! سچ کہہ رہا ہوں… افسوس کے ساتھ مگر سچ یہی ہے کہ آپ کی اُمّ مریم ایک بری بیٹی، اس سے بری بیوی اور اس سے بھی زیادہ بری ماں ہے۔” وہ سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہا تھا۔
”اس طرح بات کیوں کر رہے ہو اُمّ مریم کے بارے میں؟” ماما جان کو اس بار تکلیف ہوئی۔ ”اس میں کوئی نہ کوئی خوبی تو ضرور ہوگی۔”
”ہاں! وہ ایک بہت اچھی مصورہ ہے مگر یہ وہ رول ہے جس کا میرے گھر اور اولاد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ اس کی غلطیوں کو اگنور کر سکتی ہیں، میں کر سکتا ہوں مگر اولاد کبھی نہیں کرتی۔ اولاد کو صرف اچھی ماں چاہیے ہوتی ہے۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ کتنی اچھی مصورہ، کتنی اچھی مصنفہ یا کتنی اچھی اداکارہ ہے اور دنیا نے اس کو کہاں بٹھایا ہوا ہے اور ماما جان! ایک انسان اور جانور کی ماں میں یہی فرق ہوتا ہے۔ پیدا تو جانور بھی کر لیتا ہے بچہ… مگر جانور تربیت نہیں کر سکتا، وہ اولاد پیدا کر کے چھوڑ دیتا ہے اور مریم بھی یہی کر رہی ہے۔ اس کو زینب میں کوئی دلچسپی نہیں۔ گورنس اور میں اس کو پال رہے ہیں۔ ایسی ماؤں کے پیروں کے نیچے تو کوئی جنت تلاش کرنے نہیں جاتا اور جنت کسی دوسری دنیا میں نہیں ملتی۔ اچھی ماں اپنی اولاد کو اسی دنیا میں جنت دے دیتی ہے۔ اولاد کو جینے کا گر سکھا دیا تو آپ نے اس کی زندگی جنت بنا دی۔”





”تمہیں مریم سے شکایت ہے تو تم اس سے بات کرو، اسے سمجھاؤ۔” ماما جان نے مدھم آواز میں کہا۔
”نہیں ماما جان! میں اسے کبھی نہیں سمجھاؤں گا۔ ہر شخص کو اپنی ذمہ داریوں کا خود احساس ہونا چاہیے۔ اس کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ صرف مصورہ نہیں ہے، بیوی اور ماں بھی ہے۔” ماما جان اس کا چہرہ دیکھتی رہیں۔
”مجھے بعض دفعہ لگتا ہے ذالعید! میں اچھی ماں ثابت نہیں ہوئی اس کی اچھی تربیت نہیں کر سکی۔”
”آپ کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو بھی مریم ایسی ہی ہوتی… کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں ماما جان جن کی خواہشات کی کوئی انتہا نہیں ہوتی وہ ہر انسانی خوبی اور صفت سے خود کو محروم کر لیتے ہیں۔ دریا کے کنارے بیٹھ کر بھی ان کو پانی نظر نہیں آتا۔”
”مریم بری نہیں ہے، وہ ٹھیک ہو جائے گی۔” ذالعید بے بسی سے مسکرایا۔
”میں کچھ بھی کہہ لوں، وہ کچھ بھی کر لے۔ آپ کے نزدیک اُمّ مریم اُمّ مریم ہی ہے۔ کوئی اس کی جگہ لے ہی نہیں سکتا۔ رات کو محترمہ مجھ سے فرما رہی تھیں۔ ذالعید تمہیں نہیں لگتا میں پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو گئی ہوں۔ میں نے کہا خوبصورتی کا تو مجھے پتا نہیں مگر پہلے سے زیادہ بے وقوف ضرور ہو گئی ہو۔” وہ اب شگفتگی سے کہہ رہا تھا۔
”یہ تم نے اس سے کہہ دیا؟” ماما جان نے ناراضگی سے اسے دیکھا۔
”دل میں کہا… ماما جان! آپ کی بیٹی کو اس طرح کی بات کہنے کے بعد گھر میں کون رہ سکتا ہے۔” وہ ہنسا۔
—–*—–
ان ہی دنوں ماما جان نے اس سے حج کی فرمائش کی۔ ذالعید بلا تامل تیار ہو گیا۔
”مریم سے کہہ دوں گا کہ مجھ کو انگلینڈ جانا ہے ڈیڑھ ماہ کے لیے… وہ ویسے بھی بہت مصروف رہتی ہے، اس کو کیا فرق پڑے گا۔ یہاں پر بھی آپ یہی کہہ دیں کہ آپ کچھ عرصہ کے لیے کہیں جا رہی ہیں۔” ذالعید نے ان سے کہا۔ وہ مطمئن ہو گئیں۔ اس نے اپنے اور ماما جان کے کاغذات جمع کروا دیے۔
—–*—–
شجاع، خدیجہ نور کی زندگی میں آنے والا عجیب ترین مرد تھا۔ سراپا مہربانی، سراپا عاجزی، سراپا ایثار… ان تین لفظوں کے علاوہ کوئی اور لفظ اس کی تعریف میں نہیں کہا جا سکتا تھا۔
اس کی ایک چھوٹی سی دکان تھی، جہاں وہ سبزیاں اور پھل بیچا کرتا تھا۔ دکان گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھی، وہ صبح چار بجے اٹھتا اور نماز پڑھنے کے بعد منڈی چلا جاتا۔ سات بجے کے قریب وہاں سے سبزی اور پھل لا کر وہ بیچنا شروع کر دیتا اور شام سات آٹھ بجے وہ فارغ ہو کر گھر آ جایا کرتا۔
وہ بہت معمولی پڑھا لکھا تھا۔ وہ پانچویں میں تھا، جب اس کے باپ کی وفات ہوئی۔ اس کا باپ بھی وہی دکان چلاتا تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد اس نے تعلیم چھوڑ کر دکان سنبھال لی۔ اس وقت اس کی عمر بارہ تیرہ سال تھی اور سترہ سال کی عمر میں جب اس کی ماں کی وفات ہوئی تو اس نے باپ کے ساتھ ماں کی بھی تمام ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ اس کی چار چھوٹی بہنیں تھیں۔ جنہیں اس نے نہ صرف اپنی استطاعت کے مطابق پڑھایا بلکہ ان کی اچھی جگہوں پر شادیاں بھی کیں۔ ساجدہ ان ہی چار بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔
چالیس سال کی عمر میں ایک بیس سالہ لڑکی سے اس کی شادی طے کر دی گئی۔ وہ اتنی کم عمر لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اس کی بہنوں نے اسے یہی بتایا کہ اس لڑکی کو کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ وہ خود بہت زیادہ غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور اسے اس کے چچا نے پالا ہے۔
شادی کے بعد شجاع کو پتا چلا کہ اس لڑکی سے اس کی عمر اور مالی حیثیت کے بارے میں جھوٹ بولا گیا تھا۔ وہ چند ماہ کسی نہ کسی طرح اس گھر میں رہتی رہی مگر پھر اس نے ایک دن شجاع سے طلاق مانگ لی۔ وہ کسی دوسرے شخص سے شادی کرنا چاہتی تھی، شجاع نے کسی حیل و حجت کے بغیر نہ صرف اسے طلاق دے دی بلکہ وہ تمام زیور اور اپنی ساری جمع پونجی بھی اسے دے دی جو اس کی بہنوں نے اس کی شادی پر تحائف کی صورت میں اس کی بیوی کو دیا تھا۔ اس کی بہنوں نے اس کی اس ”سخاوت” پر خاصا واویلا مچایا مگر شجاع نے اپنی فطرت کے مطابق ہر بات کو نظر انداز کر دیا۔
پھر ساجدہ نے اپنے بھائی کی محبت کے ہاتھوں پر مجبور ہو کر یہ سوچا کہ وہ اسے کسی نہ کسی طرح باہر بلوا کر سیٹ کرنے کی کوشش کرے اور اس کی اس محبت کی بھینٹ خدیجہ چڑھی۔ ساجدہ کا خیال تھا کہ شہریت حاصل کرنے کے بعد وہ شجاع کو مجبور کر کے خدیجہ کو طلاق دلوا دے گی یا یہ بھی ممکن ہے کہ خدیجہ خود ہی شجاع سے طلاق لے لے، کیونکہ انہوں نے اس سے بھی شجاع کے بارے میں سب کچھ چھپایا تھا یہی وجہ تھی کہ ساجدہ نے اس وقت بھی کوئی اعتراض نہیں کیا جب خدیجہ نے اسے یہ بتایا کہ وہ کال گرل رہ چکی ہے۔
مگر جب خدیجہ نے شجاع کے ساتھ زندگی گزارنے اور پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا تو ساجدہ سمیت اس کی تمام بہنوں نے بہت ہنگامہ اٹھایا۔ خدیجہ کو اندیشہ تھا کہ شجاع اپنی بہنوں کے دباؤ میں آ کر اسے انگلینڈ جانے پر مجبور کر سکتا ہے، مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے خدیجہ کو اپنے ساتھ انگلینڈ چلنے کے لیے کہا نہ ہی برٹش نیشنلٹی حاصل کرنے کے لیے کاغذات تیار کروائے۔ وہ خاموشی کے ساتھ اپنی بہنوں کی باتیں سنتا رہتا اور ان سے یہ کہہ دیتا کہ وہ خدیجہ سے بات کرے گا مگر ان کے جانے کے بعد وہ خدیجہ سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کرتا۔
تنگ آ کر ساجدہ نے خدیجہ سے براہِ راست بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ شروع میں اس نے نرمی کے ساتھ خدیجہ کو پاکستان کے مسائل کے بارے میں بتایا مگر جب اسے احساس ہوا کہ وہ واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تو اس کا رویہ بدل گیا۔ اس نے خدیجہ کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا کہ وہ شجاع کو اس کے ماضی کے بارے میں سب کچھ بتا دے گی… مگر یہ جان کر وہ شاکڈ رہ گئی کہ خدیجہ شجاع کو پہلے ہی سب کچھ بتا چکی تھی۔ ساجدہ کو اپنے کسی بھی جھوٹ پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔ خدیجہ کو اس کی ڈھٹائی پر حیرت ہوئی، وہ اب اسے کیتھرین کے نام سے پکارتی۔ اسے کرسچین کہتی، اس کے ماضی کے حوالے سے اسے کچوکے دیتی۔ اس کے پہلے شوہر کا ذکر کرتی۔
خدیجہ اس کی ہر بات کے جواب میں خاموشی اختیار کر لیتی۔ اپنے قیام کے پورے عرصہ میں اس نے خدیجہ کی زندگی کو عذاب بنائے رکھا۔ وہ اب بلند آواز میں اسے گالیاں دیتی تھی۔ اپنے بھائی سے جھگڑتی، اس کا خیال تھا کہ خدیجہ نے اس کے بھائی کا رہا سہا مستقبل بھی تباہ کر دیا ہے۔
اس کے جانے کے بعد بھی خدیجہ کے لیے زندگی بہت آسان نہیں تھی۔ ساجدہ کی دوسری بہنیں بھی اس سے اتنی ہی نفرت کرتیں۔ وہ جب بھی اس کے گھر آتیں، اس کے ہاتھ کی پکی ہوئی روٹی کھانے پر تیار نہ ہوتیں، وہ برتن تک نہ پکڑتیں جسے وہ استعمال کرتی۔ اس کے بستر پر بھی نہ بیٹھتیں۔ ان کے نزدیک اس کے قبول اسلام کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ وہ پہلے بھی کرسچین تھی، اب بھی کرسچین تھی۔
”مسلمان تو صرف وہی ہوتا ہے جو پیدائشی مسلمان ہو، باقی سب کچھ تو فریب ہے۔” وہ باآواز بلند کہتیں۔
خدیجہ صبر کرتی… مگر کبھی کبھی وہ رو پڑتی۔ انگلینڈ میں کم از کم اس کے ساتھ یہ سب کچھ نہیں ہوا تھا۔ یہاں وہ زندگی کا نیا رخ دیکھ رہی تھی۔
”میں نے ماں باپ کے بعد اپنی بہنوں کو اپنی اولاد کی طرح پالا ہے… میں نہیں جانتا انہیں کیسے جھڑکوں، کیسے منع کروں۔ انہیں یہاں آنے سے منع کر دوں گا تو ان کا میکہ ختم ہو جائے گا۔ میرے علاوہ ان کا اور کوئی نہیں ہے۔ انہیں یہاں آنے سے منع نہ کروں تو یہ تمہیں تکلیف پہنچاتی ہیں… میں انہیں سمجھا نہیں سکتا، سمجھاؤں گا تو یہ تمہارے اور خلاف ہو جائیں گی۔ خدیجہ! کیا تم میرے لیے صبر کر سکتی ہو؟ انہیں معاف کر سکتی ہو؟” شجاع نے ایک دن اس کو روتے دیکھ کر دل گرفتی کے عالم میں اس سے کہا تھا۔
”ان پر غصہ آئے تو تم مجھے برا بھلا کہہ لو… یہ زیادتی کریں تو تم مجھ سے بدلہ لو۔ مگر انہیں کچھ مت کہنا ان کو بددعا نہ دینا، میں نے ان لوگوں کے لیے اپنی ساری عمر گزار دی ہے۔ واحد اطمینان مجھے یہ ہے کہ میری چاروں بہنیں اپنے گھروں میں خوش ہیں… اب اگر تمہاری بددعا سے ان پر کوئی مصیبت آئے گی تو میں کیا کروں گا۔ خدیجہ! مجھے ایسا لگے گا جیسے ساری عمر ایک فصل لگائی اور جب وہ تیار ہوئی تو اپنے ہی ہاتھوں اسے آگ لگا دی۔”
خدیجہ نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ”ایسا کیوں کہتے ہیں آپ شجاع! کیا میں آپ کی بہنوں کو بددعا دوں گی؟ کیا انہیں تکلیف پہنچاؤں گی؟ میں ایسا کر ہی نہیں سکتی شجاع…! ہاں مجھے ان کی باتوں سے تکلیف ہوتی ہے، میں صبر تو کر لیتی ہوں مگر آنسو نہیں روک پاتی۔ آپ میرے آنسوؤں سے پریشان نہ ہوں نہ ہی خوفزدہ ہوں کہ میں ان کے لیے کوئی بددعا کروں گی۔” شجاع اس عورت کو حیرت سے دیکھتا رہا وہ کچھ اور مشکور اور احسان مند ہو گیا۔
شجاع کی آمدنی محدود تھی مگر وہ ہر حال میں خوش رہنے والا شخص تھا۔ اس نے ساری زندگی اپنے لیے کچھ بھی نہیں بنایا۔ پہلے وہ سب کچھ ماں کو دیا کرتا تھا۔ اس کے بعد بہنوں کو… پھر اس کی پہلی بیوی آ گئی اور اب خدیجہ… وہ بڑی ایمانداری کے ساتھ ہر روز کی کمائی اسے دے دیا کرتا تھا۔
پہلی بار جب اس نے اپنی دن بھر کی بچت اسے دی تو خدیجہ کو بے اختیار مظہر یاد آیا۔ ہاتھ میں لیے ہوئے ان سکوں اور میلے کچیلے نوٹوں کو وہ بہت دیر تک دیکھتی رہی پھر اس نے شجاع کا ہاتھ چوم لیا۔
شجاع بہت خیال رکھنے والا نرم خو شخص تھا۔ خدیجہ نے کبھی اسے بلند آواز میں بولتے یا غصہ کرتے نہیں دیکھا۔ صرف گھر میں ہی نہیں وہ محلے میں بھی بہت اچھے طریقے سے رہا کرتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ خدیجہ کو بہت جلدی اس محلہ میں قبول کر لیا گیا۔ اس کی نند ہر جگہ اس کی برائی کرتی مگر اس کے باوجود کم از کم محلہ کے لوگوں کا رویہ اس کے لیے تکلیف کا باعث نہیں بنا۔ اس کی بڑی وجہ شاید اس کا اپنا طور طریقہ تھا۔ وہ ایک چادر سے بڑی اچھی طرح خود کو سر سے پاؤں تک ڈھانپے رکھتی تھی۔ محلہ کی دوسری عورتوں کی طرح وہ محلے کے گھروں میں بے مقصد جانے کی عادی نہیں تھی۔ وہ اپنے گھر آنے والی عورتوں کی باتیں خاموشی اور مسکراہٹ کے ساتھ سنتی رہتی۔
شروع میں شجاع کی انگریز بیوی ایک دلچسپ موضوع تھا۔ ہر ایک کو اس وقت کا بھی انتظار تھا جب وہ اسے چھوڑ کر چلی جاتی۔ مگر جب آہستہ آہستہ کئی سال گزرتے گئے تو ہر ایک کو یہ یقین ہو گیا کہ خدیجہ نور واقعی وہاں رہنے کے لیے آئی ہے۔ محلہ میں اس کا میل جول پہلے سے زیادہ ہو گیا۔ اب اکثر اس کے لیے محلہ کے کسی نہ کسی گھر سے کوئی اچھی پکی ہوئی چیز بھی بھیجی جاتی اور شجاع کی وفات کے بعد جب تک دکان کرائے پر نہیں چڑھی تب تک محلہ کے لوگ اس کی مالی امداد بھی کرتے رہے۔
شجاع کے پاس محبت کے اظہار کے لیے لفظ نہیں تھے۔ وہ اس سے اپنی محبت کا اظہار اپنے طریقے سے کرتا۔ خدیجہ کو پھل پسند تھے۔ وہ ہر روز اس کے لیے پھل گھر ضرور لاتا۔ بعض دفعہ گاہک آنے پر بھی اس کے لیے رکھے ہوئے پھل وہ کبھی نہیں بیچتا۔ ہر نیا پھل آنے پر وہ دکان پر کریٹ میں سے سب سے پہلے اس کے لیے پھل نکالتا۔
رات کا کھانا وہ دونوں اکٹھے کھاتے تھے اور شجاع سب سے پہلے اسے پلیٹ میں کھانا نکالنے کے لیے کہتا، جب وہ پہلا لقمہ لے چکی ہوتی تب وہ اپنے لیے کھانا نکالتا۔ اگر کبھی کوئی چیز پکی ہوتی جو خدیجہ کو بہت پسند ہوتی تو وہ اپنے حصہ میں سے اس کے لیے کچھ چھوڑ دیتا۔




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۲

Read Next

سزا — مریم مرتضیٰ

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!