حماقتیں — اُمِّ طیفور

”دل دار صدقے، لکھ وار صدقے
دل دار صدقے، لکھ وار صدقے
دل دار صدقے، لکھ وار صدقے
تیرا کرم ہویا، ہویا پیارے صدقے…”
چھوٹے سے صحن میں ایف۔ ایم سی نکلتی نورجہاں کی سریلی آواز پھیلتی جا رہی تھی۔ سارا صحن دُھلا دُھلایا سا چمک اور مہک رہا تھا… مہکنے کی وجہ تو یہ تھی کہ صحن میں بلبل نانی کی من پسند چنبیلی کے عطر کی شیشی ٹوٹ کے چور چور ہوئی تھی اور اُس کی خوشبو صحن دُھلنے کے باوجود سارے میں پھیلی تھی۔ بلبل نانی اس صدمے سے چور چور دل لئے… موچنا ہاتھ میں تھامے اپنی باریک تر بھنوئوں کے زائد بال اُکھاڑ رہی تھیں… چند سیکنڈ بعد عطر کے غم میں منہ سے سسکی سی خارج ہوتی تھی۔
صحن کے نکڑ پر لگے امرود کے پیڑ کے نیچے بید کی کرسی پر پیر پسارے بابرا نے چور نظروں سے نانی کے جارحانہ انداز کو دیکھا تھا، جن کا موچنا بڑی تیزی سے بھنوئوں کی باریکی میں اضافہ کر رہا تھا۔ ”بس کر دیں بلبل نانی … اسی تیزی سے اگر بال اکھاڑتی گئیں تو ساری بھوں اُڑ جائے گی اور آپ آٹے کے پیڑے جیسی لگنے لگیں گی…”
”میں کہتی ہوں چپ کر جا بابرا… میرے منہ نہ لگ … میرے صلّو میاں کی نشانی تھا یہ عطر… جو تیری بے پرواہی کی نذر ہو گیا … ہائے میرے مرحوم شوہر کا تحفہ ویڑے میں بکھر گیا…”





بلبل نانی نے ایک اور سسکی لی، ساتھ ہی غصے کے مارے اکٹھے دو بال اکھیڑ ڈالے، بھؤں بے چاری عین درمیان سے اُڑ گئی۔ بلبل نانی نے بے یقینی سے دستی آئینے میں دیکھا… اور اب کے اُن کا رنگ اُڑ گیا… بابرا کے زور دار قہقہے نے اُنھیں یقین دلایا کہ بیڑہ پوری طرح غرق ہو گیا ہے۔ ”دیکھا…! میں نے کہا تھا ناں کہ ہاتھ ہولا رکھیں… بن گئی ناں موٹر وے … ہاہاہا!”
”رک ذرا کم بخت!” بلبل نانی چار پائی کے نیچے سے جوتی تلاشتی ہوئی بولیں۔
”آپ کی چپل میں نے پہنی ہوئی ہے…”
”تینوں اللہ پچھے گا بابرا…! آج کے دن دو صدمے لگا دیئے تو نے مجھے…”
”لو بھلا…! یہ موٹر وے بنانے میں میرا کیا ہاتھ… مشینری آپ کی اپنی تھی بلبل نانی…”
بابرا ہنستے ہوئے قریب آئی اور بہ غور جائزہ لیتے ہوئے بولی ۔
”ویسے بچا ہوا کیا ہے ابھی… چار دنوں میں یہ چار بال اُگ آئیں گے، لائیں گری کا تیل رگڑ دوں…”
”اپنے سر میں ڈال جدھر ناس پھرا ہوا ہے… بالوں کا! تجھے دیکھ کر تو مجھے جمعرات والا فقیر بابا یاد آجاتا ہے، جس کی میل سے گجی (گندھی) یہ موٹی موٹی لٹیں ہوتی تھیں… مرن جو گا… ایسا دکھتا تھا جیسے سر پر سُنڈیوں کی کنالی اُلٹا دی ہو۔”
”آخ تھو …!” بابرا نے کراہیت سے مصنوعی اُبکائی لی… ”حد ہو گئی بلبل نانی، یہ میں نے ہئیر اسٹائل بنایا ہوا ہے… کرل ہیں یہ کرل…”
”ایڈا منہ مٹکا کے نہ بول … کڑل پٹے جائے گا… اور اب جا ذرا اس موئے گانے کی آواز اونچی تو کر … حق ہاہ! میری بڑی یادیں جڑی ہیں اس گیت کے ساتھ …”
بلبل نانی گائو تکیے کے ساتھ ٹیک لگا کر نیم دراز ہوتے ہوئے بولیں آنکھوں میں پرانی یادوں کی ایک خماری سی تیر گئی۔
”یقینا نانا بھی اُس یاد کا لازمی حصہ ہوں گے… ہیں ناں!”
”ہائے ہائے! کی یاد کرا دِتا ظالمے! میں اُن کو دیکھ کر بڑے بانکپن سے یہ گانا گنگنایا کرتی تھی اور وہ بالکل کسی مغرور ہیرو کی طرح اینٹھتے چلے جاتے تھے… اکڑ ہی ختم نہیں ہوتی تھی اُن کی… میں اٹھلا کر ہاتھ تھامتی اور وہ جھٹک کر بولتے… جانسن…! جب بھی پہ لاڈ آتا تو مجھے یہی بولا کرتے تھے… جانسن!…”
”پھوپھوپھو…!” ہنسی کسی پھوار کی صورت بابرا کے منہ سے برآمد ہوئی تھی… بلبل نانی نے خشمگیں نظروں سے دیکھا، سارا ٹیمپو بیڑہ غرق کر دیا تھا۔
”بلبل نانی! جانسن نہیں ”نان سینس” کہتے تھے وہ نان سینس!” بابرا پھر ہنسنے لگی تھی اور بلبل نانی کا چہرہ خفت سے انار ہوا جاتا تھا۔ اُس وقت بھلے نہ سہی مگر اب تو اُنہیں بہ خوبی ”نان سینس” کا مطلب آتا تھا۔
”بکواس بند کرتی ہے یا تیری گچی مروڑوں… شرم نہیں آتی ہم دونوں کے سین میں کودتے…”
”کیہڑا سین نانی… میں کدھر سے آگئی آپ کے سین میں… ہوتی تو تب ہی جانسن کی تشریح نہ کر دیتی… اچھا چلیں چھوڑیں… مجھے یاد آیا کہ کل ماما کا فون آیا تھا، پیسے بھجوائے ہیں اُنہوں نے گرمیوں کی شاپنگ کے … کل میں بتول کے ساتھ شاہ عالمی جائوں گی… آپ نے کچھ منگوانا ہوا تو بتا دینا”۔ بابرا بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے بے نیازی سے بولی۔
”ماں صدقے…! میرا بچہ میرے واسطے تین، چار ذرا کھلتے رنگوں والے پرنٹ پکڑ لینا… جو مجھ پر جچیں…”
بلبل نانی ململ کے دوپٹے کو دائیں ہاتھ سے بائیں شانے پر سیٹ کرتے ہوئے بولیں۔
”اللہ کو مانیں نانی…! مجھے بھلا پتا نہیں کہ آپ کھلتے کن رنگوں کو کہتی ہیں… یہ کھٹے مالٹے جیسے رنگ اور تیکھے جامنی، بیگنی شیڈ آپ کو پسند آتے ہیں اور میں کم از کم ایسے پرنٹ اور رنگ خرید کر دکان داروں کے آگے بستی نہیں کروا سکتی…”
”گرقی (غرقی) پھرے تیری بستی کو… میری پسند کا مذاق اُڑاتی ہے … پھول جھاڑو کے منہ والی نہ ہووے تے…”
بلبل نانی کا تنفس تیز ہوا تھا… نتھنے پھولنے پچکنے لگے ۔
”اب تو ہرگز ہرگز نہیں لائوں گی میں ایسے چھچھورے رنگ… بس ہلکے ہلکے، میٹھے میٹھے رنگوں والے پرنٹ لائوں گی… آپ کی عمر کے مطابق…”
بابرا نے بلبل نانی کی چپلیں اُتار کر اُن کی چار پائی کے آگے دھریں اور کھڑے ہو کر فیصلہ سنایا۔
”ہاں… ہاں! کفن اوڑھا دے مجھے … ابھی سے بڑھاپا متھے مارلوں… کوئی ایسی بڈھی نہیں ہو گئی میں … بڈھی ہو گئی تیری ماں، بڈھی ہو گئی تیری دادی … بڈھی ہو گی تیری …”





”نانی…!” بابرا نے فقرہ مکمل کرنے کے ساتھ ہی اندرکمرے کی جانب دوڑ لگا دی تھی۔ بلبل نانی کی چپل لگنے سے پہلے ہی وہ گم ہو چکی تھی… مگر چپل اُڑتی ہوئی سر بکھیرتے جدید طرز کے ایف ایم ریڈیو کو جا لگی… وہ بے چارہ تاب نہ لاتے ہوئے پھڑک کر اسٹول سے گرا تھا… تیسرا صدمہ!…
بلبل نانی سکتے کی کیفیت میں اُسے تکے جار ہی تھیں، جس کے اندرونی نظام میں خدا جانے کیا خرابی آئی کہ وہ اوّل فول بکنے لگا تھا۔
نورجہاں کا گانا اور کسی دوسرے اسٹیشن پر چلنے والا پھکڑ جگتوں سے مزین اسٹیج شو مدغم ہو گیا… اور اب جو آواز میں اُبھر رہی تھیں وہ بلبل نانی کے کلیجے کے پار ہوئی جاتی تھیں۔
”دل دار صدق… کھوتے دا پتر…”
لکھ وار صدقے …… اے آنڈے میں دِتے سی…”
تیرا کرم ہویا،… … بساں (بس) وچ سرمہ ویچن والیا…”
”ہویا پیار صدقے … لکھ دی لعنت…!”
بلبل نانی کی دوسری چپل لہراتی ہوئی آئی اور ریڈیو کا ٹینٹوا دبا گئی۔
نانی طیش سے پیروں پر ڈالا کھیس سر تک اوڑھ کر لیٹ گئیں اور زیر لب بڑبڑائیں…… ”لکھ دی لعنت”۔
٭٭٭٭
دن کے گیارہ بجے تھے… صبح کی لائٹ گئی ہوئی تھی… بلبل نانی اکتائی ہوئی صحن کے وسط میں بچھی چار پائی پر بیٹھی مٹر چھیل رہی تھیں۔ بابرا ابھی ابھی آدھے مٹر پھانک کر اور پھر کمر پر بلبل نانی کی زور دار چپیڑ کھا کر تیار ہونے کے لئے اندر چلی گئی تھی۔ اُسے اور بتول کو آج شاہ عالمی جانا تھا… دیر بھی ہو سکتی تھی لہٰذا کافی کام نبٹا بیٹھی تھی… بلبل نانی کوفت کے عالم میں بھی دھیمے سروں میں گنگنا رہی تھیں۔
”لے آئی پھر کہاں پہ … قسمت ہمیں کہاں سے …”
”یہ تو وہی جگہ ہے… گزرے تھے…”
بلبل نانی ابھی پوری طرح گزر بھی نہ پائی تھیں کہ دھاڑ کی آواز سے داخلی دروازے کو دیوار سے مارتی بتول فاطمہ ڈیوڑھی سے گزرتی صحن میں داخل ہوئی تھیں۔ تیز رنگوں والے کھچڑی پرنٹ اور ویسا ہی دوپٹہ اوڑھے … آنکھوں پر ٹھیلے سے لئے سستے بڑے شیشوں والے گاگلز چڑھائے … پیروں میں سلور تلے والی کولہا پوری چپل پہنے… بتول فاطمہ بازار جانے کے لئے مکمل تیاری کے ساتھ پہنچ چکی تھی۔ طوطے کا رنگ کا پرس بھی ہاتھ میں جھول رہا تھا۔
”ہیلو گرینڈما …… کیسی ہوئنگ آپ……”
بتول نے بلبل نانی کے قریب جا کر چٹ سے اُن کا گال چوما اور بڑے اسٹائل سے حال پوچھا۔ بلبل نانی بتول پر بڑی فریفتہ تھیں … وہ ہو بہو اُنھیں اپنی جوانی لگا کرتی تھی… حالاں کہ بابرا بھی ہوبہو اُنہی پہ پڑی تھی مگر بتول نے تو چھچھورپن کا ریکارڈ قائم کر رکھا تھا۔
”ماں صدقے … ! کیسی ہے بتولاں… بابرا تو اندر تیار ہو رہی ہے…”
”اُف…! گرینڈما میرا نیم بتول فاطمہ ہوئنگ… پلیز! ڈونٹ رانگ سیئنگ…!”
”ذرا بندے دے پتربن کر بولیا کر … اور بتولاں تیری ماں تجھے سب سے زیادہ کہتی ہے… پہلے اُسے منع کر … ویسے کر کیا رہی تھی ثریا…”
بلبل نانی نے چھلے ہوئے مٹر کے دانے سمیٹتے بتول کے ہاتھوں پر دھپ لگاتے ہوئے پوچھا۔
”ساگ پکائنگ اور پھر کلی (اکیلی) ہی کھائنگ… میں تو شاہ علمی سے ہی چاٹ اور برگر کھا کر آئینگ…”
بتول نے چٹخارہ بھرا تو بے اختیار بلبل نانی کے منہ میں پانی آگیا… اتنے میں بابرا کاندھے پر بیگ لٹکائے… نک سک سے درست چلی آئی۔ دونوں سہیلیاں یوں گلے ملیں جیسے مدتوں بعد سامنا ہوا ہو… حالاںکہ چوبیس گھنٹوں میں چودہ گھنٹے تو دونوں درمیانی دیوار پر چڑھی رہتی تھیں… ساتھ والا گھر بتول کا ہی تو تھا۔
”ماں کو کہتی ہوئی جا کہ بلبل نانی کہہ رہی ہیں کہ ساگ پکا کر تھوڑا مجھے بھی بھیجیں… اب میں کیا اکیلی جان کچن میں کھپتی پھروں…”بلبل نانی نے دونوں کا معانقہ لمبا ہوتا دیکھا تو بیچ میں اپنا مدعا بیان کر کے اُن کا دھیان بٹایا۔
”اوکے گرینڈما… ابھی آسکنگ… مگر ابھی ٹائم لگینگ… ابھی وہ گھوٹنگ… پھر تڑکا لگائنگ… پھر… ”
”اے بتول کی بچی…!” بیچ میں ہی بابرا نے کوفت زدہ ہوتے ہوئے ٹوکا…
”اگر تو نے یہ ”آئینگ” اور ”جائینگ” دکان داروں کے سامنے کیا نا… تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا… بستی (بے عزتی) کرا کر رکھ دیتی ہو… اگلوں کو بھی پتا لگ جاتا ہے کہ چوبرجی کی ”کھڈوں” سے نکل کر آئی ہیں۔”





”اُف…! بابراہ یو آر جسٹ کر پکنگ…! تمہیں کیا بتا کہ کتنا اچھا امپریشن پڑنگ… یہی محسوس منٹ ہوئینگ کہ لڑکیاں پڑھی لکھی اور وڈے گھروں کی ہوئینگ…!”
بتول نے اِٹھلا کر بابرا کو تسلی دی… بلبل نانی نے اپنی ادھوری بھؤں اُچکا کر دونوں کو دیکھا اور ہنستے ہوئے بولیں۔
”کتھے دیاں پڑھی لکھی کڑیاں… بی۔ اے تو کیا مرا نہیں جا رہا دونوں سے… دوسرا سال ہے لڑھکتے ہوئے… اَج کل کے مُنڈے تو ایم۔ اے سے کم کوئی کڑی تکتے بھی نہیں … اس سال بھی اٹک گئیں تو ہو گئے پڑھے لکھے منڈوں سے ویاہ…”
”ہوجائیں گے بلبل نانی … ہو جائیں گے… جس طرح آپ کا ہو گیا تھا نانا کے ساتھ… آپ نے تو آٹھویں جماعت میں ہی قسم کھا لی تھی کہ نویں کہ منہ نہیں دیکھنا … پھر بھی نانا کو آپ بھاگئیں… ایسے ہی ہمارا بھی دائو چل جائے گا…” بابرا نے سینڈل کا اسٹریپ ٹائٹ کرتے ہوئے بلبل نانی کو تفصیل سے اُن کا ماضی یاد کروایا… پیچھے کھڑی بتول دانت نکو سے جارہی تھی۔
”بابرا… مرن جو گئے تیری زبان تو بالکل اپنی دادی پر پڑی ہے… ذرا عقل بھی لے لیتے تھوڑی سی … یا وہ کالج میں بیچ کھائی ہے…” بلبل نانی کھسیانی سی ہوئی بابرا کے لئے لیتی ہوئی بولیں۔ بابرا فوراً ان کے قریب آئی اور گلے میں بازو ڈالتے ہوئے بولی: ”ہائے نہیں بلبل نانی… ایسا کیسے ہو سکتا ہے… مجھے تو بس آپ اچھی لگتی ہیں… پھر عقل کیسے کسی اور کی اچھی لگتی…” بلبل نانی جو اُس کے لاڈ پر موم ہو گئیں تھیں… آخری فقرہ سمجھ میں آتے ہی رکھ کر اس کی کمر پر دو تھپڑ دھرے۔
”پراں مر…! تیری عقل مجھ پر پڑی ہوتی تو اب تک بیاہ کر اگلے گھر دفع بھی ہو گئی ہوتی… جا اب اگر زیادہ بکواس کیتی تو بٹھالوں گی گھر… سارے پرنٹ پھر تیری شکل پہ ہی اُتر آئیں گے… سمجھی!” بابرا خاموشی سے کمر سہلاتی بتول کو آنکھ سے ڈیوڑھی کی طرف اشارہ کرتی کھڑی ہو گئی مبادا بلبل نانی سچ میں روک نہ لیں۔ ”اے بتول!… اپنی اماں کو کہتی کہ تم لوگوں کے ساتھ ہی چلی جاتی… اکیلی جائو گی دونوں تو فکر رہے گی مجھے…” بلبل نانی کے لہجے میں تشویش تھی… دونوں سہیلیوںکی نظریں ٹکرائیں… تبھی بتول آگے بڑھی اور بولی…
”وہ … گرینڈما! آپ فکر ناٹ… ہمارے ساتھ ببلو جائینگ، وہ مرد بچہ ہوئینگ…”
”وہ تیرا چھے سال کا بھتیجا… او پاٹی( پھٹی) نیکر تے وگندی نک والا… مرد”… شاباش اے!”
بلبل نانی نے استہزائیہ انداز میں ہونٹ پھیلا کر بتول کو گھورا …
بتول برا مناتے ہوئے بولی: ”میرا بھتیجا بڑا ہوشیار ہوئینگ… گرینڈما!”
”آہو…! جتنا زمین کے اُتے ہوئینگ، اُتنا ہی زمین کے تھلے بھی ہوئینگ…” یہ بابرا تھی… جس نے بتول کے انداز میں ہی نانی کو تسلی دی تھی اور پھر خود ہی ہنس پڑی تھی۔
”ذرا چھیتی واپسی کرنا… موبیل (موبائل) بند نہ کرنا… تے بابرا میری پسند کے چار ودھیا جوڑے پھڑ کے لے آئیں… ورنہ جوتُو اپنے لئے لائے گی نا… میں وہی لے لوں گی… سمجھی!”
بلبل نانی نے بابرا کو دھمکی دینی ضروری سمجھی تھی ورنہ بابرا کا ارادہ واقعی اس دفعہ نانی کے لئے سوبر رنگ لانے کا تھا۔ مگر بلبل نانی سے کچھ بعید نہیں تھا… وہ سچ میں اُس کے کپڑے جھپٹ لیتیں… اس لئے عافیت اسی میں تھی کہ نانی کے من پسند رنگوں کے پرنٹ لا کر اُن کے حوالے کرتی…! مزید بحث میں پڑنے کی بجائے بابرا نے بتول کا ہاتھ تھاما اور داخلی دروازے کا رُخ کیا۔
٭٭٭٭




Loading

Read Previous

تھکن — سمیرا غزل

Read Next

آؤ کتابیں کھولیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!