تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

پارٹی اپنے پورے عروج پر تھی… بلال وحیدی کی ہر پارٹی کی طرح یہ پارٹی بھی اپنی مثال آپ تھی… پورے شہر کی کریم وہاں پر تھی… بلال وحیدی شہر میں اپنی پارٹیز کی وجہ سے ہی جانا جاتا تھا… یہ پارٹیز ایلیٹ کلاس کو جہاں سوشلائز کرنے کا موقع دیتی تھیں وہاں بزنس کمیونٹی اپنی بہت سی ڈیلز بھی ان پارٹیز کے توسط سے کرتی تھی۔
عید کے فوراً بعد ہونے والی اس پارٹی میں زیادہ تر فیمیلیز کو مدعو کیا گیا تھا اور اس بار بلال وحیدی نے گیسٹ لسٹ میں کچھ تبدیلی کی تھی ورنہ عام طور پر اس کی پارٹیز میں کپلز ہی بلوائے جاتے تھے اس پارٹی میں روایت کے برعکس فیمیلز کو مدعو کیا گیا تھا او ریہ بلال وحیدی کی تیسری پارٹی تھی جس میں منصور علی شرکت کر رہے تھے۔ اس سے پہلے وہ پارٹیز میں اکیلے ہی شرکت کر چکے تھے۔ لیٹ نائٹ پارٹیز میں منیزہ اکثر شرکت نہیں کرتی تھیں حالانکہ وہ خاصی سوشل تھیں مگر ان پارٹیز میں وہ اپنے آپ کو Odd one out محسوس کرتی تھی… کیونکہ وہاں آنے والی تمام عورتیں بہت زیادہ پڑھی لکھی ہوتی تھیں… اور یہ صرف تعلیم یا وہاں بولی جانے والی نان اسٹاپ انگلش نہیں تھی جس سے وہ نروس ہوتی تھیں بلکہ اپنے حلیے سے بھی ہوتی تھیں… وہاں آنے والی زیادہ تر عورتیں، ‘گلاس فگر’ رکھتی تھیں اور زیادہ تر مغربی لبا س میں ملبوس ہوتی تھیں جبکہ خود منیزہ خاصا بے ڈول قسم کا جسم رکھتی تھی اور ان کے زیادہ تر ملبوسات شلوار قمیض یا Occasional ساڑھی کی شکل میں ہوتی اور وہاں جانے کے بعد انہیں اپنے بے تحاشا بڑھے ہوئے وزن کا خاصی شدت سے احساس ہوتا… ان کے برعکس منصور علی نے اپنے آپ کو بالکل فٹ رکھا ہوا تھا… وہ ہفتے میں تین بار گالف کھیلنے جاتے تھے اور بعض دفعہ سوئمنگ بھی کرتے۔
منیزہ اپنے وزن کو کم کرنے کی کوشش کے لیے اپنی روٹین تو خیر کیا تبدیل کرتیں البتہ انہوں نے ایسی پارٹیز میں جانا تقریباً ختم ہی کر دیا… یہی وجہ تھی کہ اب منصور علی ایسی پارٹیز میں اکیلے ہی جایا کرتے گھے مگر اس پارٹی میں وہ نہ صرف منیزہ کو بلکہ امبر، صبغہ اور روشان کو بھی لائے تھے اور وہ سب وہاں کے ماحول سے خاصے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
”منصور صاحب ادھر آئیے آپ کو کسی سے ملوانا ہے۔”




بلال وحیدی مستقل ادھر سے ادھر پھرتے ہوئے اپنے مختلف مہمانوں کو آپس میں ملوا رہے تھے اور اسی سلسلے میں وہ منصور کے پاس بھی آئے تھے۔ منصور ان کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے… وہ انہیں کچھ فاصلے پر کھڑے مشروبات سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ایک گروپ کے پاس لے آئے۔
”ان سے ملیے یہ منصور علی ہیں… چیمبر آف کامرس کے نئے ممبر بنے ہیں… پاکستان آئے تو انہیں کچھ ہی عرصہ ہوا ہے مگر یہاں ان کی فیکٹری کافی سالوں سے ہے اور شہر کی چند بڑی فیکٹریز میں سے ایک ہے۔ آپ لوگوں نے نام تو سنا ہی ہو گا۔” بلال وحیدی نے منصور علی کی فیکٹری کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”ہاں نام تو سنا ہے لیکن چیمبر میں کسی نے نام نہیں سنا ہو گا… مگر میرا تو خیال ہے کہ وہ فیکٹری مسعود علی صاحب کی ہے ان سے تو ایک دوبار ملاقات بھی ہوئی ہے میری۔” گروپ میں کھڑے ایک شخص نے منصور علی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
”مسعود علی… منصور علی کے بڑے بھائی ہیں۔ فیکٹری تو ان ہی کی ہے مگر چونکہ یہ بیرون ملک تھے تو مسعود علی ہی فیکٹری کا انتظام سنبھالے ہوئے تھے۔ اب یہ واپس آگئے ہی تو فیکٹری کا انتظام بھی انہوں نے خود سنبھال لیا ہے۔” بلال وحیدی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
”تو مسعود علی صاحب نے فیکٹری چھوڑ دی؟” اسی شخص نے کچھ تجسس آمیز انداز میں کہا۔
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ بھی وہیں ہیں، میں بھی وہیں ہوں، ان کے بھی کچھ شیئرز ہیں فیکٹری میں…” اس بار منصور نے خود بتایا۔
”آپ بیرون ملک کیا کرتے تھے؟”
”کرنسی کی ایکسچینج کا کام تھا میرا۔” منصور علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اور یہ ہارون کمال ہیں… ان سے ملوانے کے لیے لے کر آیا ہوں میں آپ اس دن پوچھ رہے تھے۔”
اس بار بلال وحیدی نے ایک اور آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو ٹراؤزرز کی ایک جیب میں ایک ہاتھ ڈالے دوسرے میں مشروب کا گلاس پکڑے بڑی لاپروائی اور بے نیازی کے ساتھ مسکراتے ہوئے منصور علی اور وہاں موجود باقی تمام لوگوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سن رہا تھا۔ بلال وحیدی کے تعارف کروانے پر اس نے ٹراؤزرز کی جیب سے اپنا بایاں ہاتھ باہر نکال کر گلاس اس میں منتقل کیا اور دوسرا ہاتھ منصور علی کی طرف بڑھا دیا۔ جسے منصور علی نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ تھاما۔
”اچھا تو یہ ہارون کمال ہیں… میں نے خاصا شہرہ سنا ہے شہر میں آپ کا… چیمبر میں بھی خاصی باتیں ہوتی ہیں آپ کی…” منصور علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”آپ کے بارے میں بھی خاصا کچھ سنا ہے میں نے بلال وحیدی سے۔” ہارون کمال نے جواباً مسکراتے ہوئے ان سے کہا۔
”بلال وحیدی کو عادت ہے ہر ایک کے بارے میں کچھ نہ کچھ سناتے رہنے کی۔”
وہاں موجود ایک اور شخص نے قدرے بلند آواز میں کہا… جس پر ایک ہلکا سا فہمائشی قہقہہ لگا بلال وحیدی کا اپنا قہقہہ سب سے اونچا تھا۔
”منصور علی اس بار چیمبر کے الیکشن میں کھڑے ہو رہے ہیں سیکریٹری کے لیے…” بلال وحید نے منصور علی کے بارے میں جیسے انکشاف کیا۔
”اور یقینا آپ کے گروپ کی طرف سے ہی کھڑے ہو رہے ہوں گے۔” ہارون کمال نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ظاہر ہے دوسرے گروپ والے اتنے فراخ دل کہاں ہیں کہ اس طرح کے مواقع دیتے پھریں، نئے لوگوں کو۔ یہ ہمارا گروپ ہی ہے جس کا موٹو ہے… “Lets back up the new blood” بلال وحیدی نے بڑے فخریہ انداز میں کہا۔
”اور آپ کا ہر نیا امیدوار 45 سے کم کا نہیں ہوتا… کیا مذاق ہے۔” اس بار ایک اور شخص نے تبصرہ کیا ایک اور فہمائشی قہقہہ لگا۔
”دوسرا گروپ تو 60 سے کم کے کسی امیدوار کو دیکھتا ہی نہیں ہے، ہم تو پھر بھی 45 کے لوگ میدان میں اتار رہے ہیں… 45 اور 60 کا فرق دیکھیں اظہار صاحب…! اور ہمیں ووٹ دیں۔” بلال وحیدی نے خوشگوار انداز میں اس شخص سے کہا۔
”آپ کو یہ بات کہنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے تھا کہ میں خود 65 سال کا ہوں۔” اظہار سعید نے اسی برجستگی سے کہا… ایک اور قہقہ لگا۔
”بہرحال اس بار میں بلال وحیدی کے گروپ کو ہی ووٹ دوں گا۔ اتنی پارٹیز اٹینڈ کرنے کے بعد یہ مجھ پر فرض ہو گیا ہے۔ کیوں بلال وحیدی صاحب؟” اظہار سعید نے مسکراتے ہوئے بلال وحیدی سے کہا۔
”خیر پارٹیز میں تو آپ کو تب بھی انوائیٹ کرتا رہا ہوں’ جب آپ ”دوسروں” کے … ووٹر تھے۔ پارٹیز کو بیچ میں نہ ہی لائیں تو بہتر ہے۔ یہ تو صرف میل ملاپ کے لیے ہوتی ہیں۔” بلال وحیدی نے اظہار سعید کی بات کے جواب میں کہا۔
”اس بار تو آپ کفر توڑ ہی دیں اظہار صاحب! پارٹیرز کی بات کیے بغیر ہی ووٹ دے دیں’ ورنہ دوسرے دھڑے والے مجھ پر اور الزمات لگانے لگیں گے۔” بلال وحیدی نے معنی خیز انداز میں کہا۔
”آپ نے اس بار امیدوار ہی ایسے کھڑے کر دیے ہیں کہ مجھے انکار کرنا ہی مشکل ہو گیا ہے’ سارا ینگ بلڈ لے آئے ہو بلال وحیدی! میرے جیسے بھی دو چار لوگوں کو آزمانا تھا۔” اظہار سعید نے کہا۔
”اگلی بار اظہار صاحب …! اگلی بار … آپ جیسوں کو نہیں آپ کو ہی آزماؤں گا۔ آپ پہلے ووٹر تو بنیں پھر امیدوار بھی بنا لیں گے۔” ایک اور فہمائشی قہقہہ لگا۔
”بات سے بات نکالنا تو کوئی بلال وحیدی سے سیکھے۔” اظہار سعید نے قدرے محظوظ ہوتے ہوئے بلال وحیدی کے جملے کے جواب میں کہا۔
ہارون کمال بڑی دلچسپی سے وہاں ہونے والی گفتگو سن رہا تھا اور گفتگو سننے کے ساتھ وہ ادھر اُدھر اچٹتی نظریں بھی دوڑا رہا تھا۔ شائستہ اس سے کچھ فاصلے پر چند مردوں اور عورتوں کے ایک گروپ کے ساتھ کھڑی باتوں میں مصروف تھی۔ ہارون کمال نے ایک نظر اس پر ڈالی پھر یک دم وہ ہاتھ میں پکڑا مشروب کا گلاس ہونٹوں تک لے جاتے جاتے رک گیا۔ ایک ستائشی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر ابھری تھی۔ اس کی توجہ مکمل طور پر ان لوگوں سے ہٹ گئی تھی جن کے ساتھ وہ کھڑا تھا۔
اس کی توجہ کا مرکز بننے والی لڑکی سفید سلیویس لباس میں ملبوس تھی’ اس کے لباس پر سفید موتیوں کا کام تھا اور اسی طرح کے موتیوں کی ایک مالا گلے میں پہنے ہوئے تھی۔ کانوں میں لٹکنے والے آویزے بھی ایسے ہی ایک ایک موتی پر مشتمل تھے۔ کندھوں سے قدرے نیچے تک لٹکنے والے گھنے سلکی بالوں کو وہ بار بار گردن کے ایک جھٹکے کے ساتھ پرے کر رہی تھی۔ اس کی سفید رنگت اور سفید لباس اس حد تک مماثلت رکھتے تھے کہ ہارون کمال کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو رہا تھا کہ اس کا لباس کہاں ختم ہو رہا تھا اور اس کی جلد کہاں سے شروع ہو رہی تھی۔ وہ چند لڑکیوں کے ساتھ مشروب کا گلاس ہاتھ میں لیے کھڑی تھی۔ اور کچھ دیر بعد وہ کسی بات پر ہنسی تھی۔
ہارون کمال نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔ بہت عرصے کے بعد اس نے اس طرح کا حسن دیکھا تھا۔ شائستہ کے بعد پہلی بار … وہ لڑکی اس سلیولیس لباس میں دوپٹے کے بغیر تھی اور اس کا وجود کسی خوبصوت مجسمے کی طرح لگ رہا تھا’ ایک نظر اردگرد دوڑانے پر ہارون کمال کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ اس پر نظریں جمانے والا واحد آدمی نہیں تھا۔ آس پاس کھڑے اور بھی بہت سے مرد اور عوتیں اسی کو دیکھنے میں مصروف تھے۔ اور ان تمام نظروں میں ستائش اور مرعوبیت تھی۔
ہارون کمال بے اختیار اس کے پاس جانا چاہتا تھا۔ جو دور سے اس قدر خوبصورت لگ رہی تھی’ وہ قریب سے کیا قیامت ڈھاتی ہو گی۔ مگر اس کے قریب جانے کے لیے اس کے پاس کیا جواز تھا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے گلاس میں موجود مشروب کے چند اور گھونٹ لیے۔
”آپ کی کیا رائے ہے کمال صاحب؟” بلال وحیدی نے اچانک اسے مخاطب کیا۔
ہارون کمال یک دم گڑ بڑا گیا۔ ااس کی نظر اس لڑکی پر سے ہٹ گئی۔ وہ سمجھ نہیں پایا’ بلال وحیدی نے کس چیز کے بار یمیں اس کی رائے مانگی ہے۔
”سوری’ میں آپ کی بات نہیں سن سکا۔” ہارون کمال نے معذرت کی۔ ”آپ کس چیز کے بارے میں میری رائے پوچھ رہے ہیں؟” اس نے بلال وحیدی سے کہا۔
”میں امتنان …” بلاول وحیدی کا جملہ امتنان صدیقی نے کاٹ دیا۔
ان دونوں کے درمیان نوک جھونک ہونے لگی۔ ہارون کمال نے چند منٹوں کے بعد گردن موڑ کر ایک بار پھر اس طرف دیکھا جہاں وہ لڑکی موجود تھی۔ وہ اب وہاں نہیں تھی۔
٭٭٭
کھانا سرو کیا جا چکا تھا’ سائیڈ میں لگی ہوئی ایک ٹیبل سے پلیٹ اٹھانے کے لیے وہ آگے بڑھی’ اس سے پہلے کہ وہ پلیٹ اٹھاتی ایک مردانہ ہاتھ نے پلیٹ اٹھا کر اس کی طرف بڑھا دی۔ اس لڑکی نے کچھ ناپسندیدگی سے دو قدم کے فاصلے پر کھڑے اس آدمی کو دیکھا جو اپنے ہاتھ میں پکڑی دو پلیٹوں میں سے ایک اس کی طرف بڑھا رہا تھا۔
”چالیس پینتالیس سال کا وہ دراز قد شخص غیر معمولی طورپر دلکش تھا اس نے سنجیدگی سے ایک ناقدانہ نظر اس پر ڈالی اور پھر اس کے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کرتے ہوئے میز پر موجود پلیٹوں میں سے ایک پلیٹ اٹھالی۔ اس آدمی کے چہرے پر کچھ دیر پہلے موجود مسکراہٹ یک دم غائب ہو گئی’ قدرے خفیف ہو کر اس نے پلیٹ واپس ٹیبل پر رکھ دی۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتی۔ اس آدمی نے اسے مخاطب کیا۔
”شاید آپ کو میرا پلیٹ دینا اچھا نہیں لگا؟” اس نے کہا۔
اس لڑکی نے آگے بڑھایا ہوا قدم پیچھے کر لیا۔
”یقینا مجھے آپ کا پلیٹ دینا اچھا نہیں لگا۔ ”اس نے مستحکم آواز میں اسی کے انداز میں جواب دیا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!