تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

صاعقہ نے اپنی ساری زندگی میں کبھی اس محلے میں کوئی افیئر نہیں چلایا تھا جہاں اس نے رہائش اختیار کی تھی حالانکہ ہر محلے میں اسے بہت سے ایسے لوگ ملتے رہے جو اس کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے بیٹھے ہوتے تھے مگر وہ ہمیشہ انہیں نظر انداز کرتی رہی۔ اپنے ہی محلے میں ایسے کسی افیئر کے مضمرات سے وہ اچھی طرح واقف تھی۔ یہی بات اس نے رومانہ کو بھی سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ اس میں ناکام رہی۔ معروف کو سمجھانے کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔
وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اور اس کی تین بہنیں تھیں۔ وہ رومانہ سے شادی کرنا چاہتا تھا اور اس معاملے میں خاصا سنجیدہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنے والدین کا اتنا لاڈلا تھا کہ وہ کسی بھی طور اس کی فرمائش اور ضد کو رد نہیں کریں گے۔ اسے صاعقہ اور رومانہ کے گھر کی بُری شہرت کی بھی پروا نہیں تھی۔ ایک ہی محلے میں رہنے کی وجہ سے وہ ان سب باتوں سے اچھی طرح واقف تھا۔ جو لوگ صاعقہ اور اس کی بیٹیوں کے بارے میں کرتے تھے مگر وہ رومانہ کے عشق میں اتنی بری طرح مبتلا تھا کہ وہ ایسی باتوں پر غور کرنے تک کو تیار نہیں تھا۔
تنگ آکر صاعقہ نے معروف کو اپنے گھر والوں کو ان کے ہاں بھیجنے کے لیے کہا۔ معروف خوشی خوشی اس پر رضا مند ہو گیا’ اس نے اپنے گھر میں رومانہ کے لیے بات کی اور اس کے گھر میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اس کے گھر والے کسی صورت معروف کا رشتہ صاعقہ کے گھر لے جانے کے لیے تیار نہیں تھے۔




ان کا کہنا تھا کہ صاعقہ جیسی بدنام زمانہ عورت کی بیٹی سے وہ کسی بھی طرح کوئی رشتہ نہیں جوڑ سکتے تھے اور وہ بھی اس صورت میں جب اس کی بیٹی بھی اسی جیسے اطوار رکھتی ہو اور اس نے معروف کو پھانسا ہو۔ کئی ہفتے معروف کے گھر میں جھگڑے ہوتے رہے۔ معروف گھر میں سب سے بڑا تھا اور اس کے ماں اور بہنوں کا کہنا تھا کہ صاعقہ کے خاندان سے رشتہ داری کرنے کے بعد اس کی بہنوں کی کہیں شادی نہیں ہو سکے گی کیونکہ خاندان والے اس رشتہ کو قبول نہیں کریں گے اور برادری ان کا بائیکاٹ کر دے گی۔ معروف کو ہر طرح سے سمجھا کر دیکھا مگر جب معروف نے اپنی بات نہ ماننے پر خودکشی کی دھمکی دے دی تو اس کے ماں باپ مجبور ہو گئے۔ وہ بچپن سے ہی انتہائی ضدی تھا اور وہ جانتے تھے کہ وہ جو کہہ رہا ہے وہ کر گزرے گا’ دل پر پتھر رکھتے ہوئے وہ صاعقہ کے گھر رومانہ کے رشتے کے لیے چلے گئے۔
صاعقہ کے سارے اندازے اس معاملے میں غلط ہو گئے تھے’ اس کا خیال تھا کہ معروف کے گھر والے کسی بھی طرح اس رشتہ پر رضامند نہیں ہوں گے اور وہ معروف کو سمجھا لیں گے اور اس طرح اس کے گھر اس کا آنا جانا ختم ہو جائے گا مگر جب وہ اپنے ماں باپ کو اس کے گھر لے آیا تو وہ دوبارہ سوچنے پر مجبور ہو گئی۔
اگرچہ اس کے ماں باپ اور بہنوں کا رویہ بہت خراب تھا مگر معروف اس پر بھی بہت مطمئن تھا کہ وہ انہیں صاعقہ کے گھر تولے آیا تھا۔
صاعقہ شادی دھوم دھام سے کرنا چاتی تھی مگر معروف کے گھر والے کسی بھی طرح اس پر تیار نہیں ہوئے۔ وہ صرف نکاح کر کے رومانہ کو اپنے گھر لے آنا چاہتے تھے اور اس معاملے میں معروف بھی اپنی بات نہیں منوا سکا۔
دس پندرہ لوگوں کی موجودگی میں رومانہ معروف سے نکاح کر کے اس کے گھر آ گئی۔ اور گھر میں اس کے لیے ایک محاذ تیار تھا۔ وہ اگرچہ شادی سے پہلے اچھے کردار کی لڑکی نہیں تھی مگر وہ یہ چاہتی تھی کہ معروف سے شادی کے بعد وہ سب کچھ چھوڑ کر ایک اچھی زندگی گزارے۔ اور یہ اس گھر میں ناممکن تھا جہاں وہ بیاہ کر گئی تھی۔ معروف کے تمام گھر والوں نے پہلے دن سے ہی اس پر یہ بات واضح کر دی تھی کہ معروف کی پسند کی شادی اور ان کی پسند کی شادی میں کیا فرق تھا اور وہ آئندہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرنے والے تھے۔
شادی کے فوراً بعد معروف کے گھر والوں نے رومانہ کے صاعقہ کے گھر جانے یا وہاں سے کسی کے آنے پر پابندی لگا دی۔ اس پابندی میں خود معروف کی مرضی بھی شامل تھی۔ شاید اس کے لاشعور میں یہ خدشہ موجود تھا کہ صاعقہ سے میل جول رکھنے پر رومانہ اس گھر میں آنے والے کسی مرد کے ساتھ انوالونہ ہو جائے۔ اور شاید وہ اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں سے اس بارے میں کوئی طعنہ سننا نہیں چاہتا تھا۔
رومانہ کو اس پابندی پر بہت اعتراض ہوا’ مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ خود معروف اس کے اعتراض پر بُری طرح بگڑ گیا۔ وہ بالآخر لڑنے جھگڑنے کے بعد صبر کرنے پر مجبور ہو گئی۔
مگر یہ صرف ابتدا تھی’ ایک کے بعد ایک اس پر پابندیاں لگنی شروع ہو گئی تھیں۔ وہ گھر کی چھت پر نہیں جا سکتی تھی’ وہ گھر کے دروازے پر نہیں آ سکتی تھی۔ وہ فون ریسیو کر سکتی تھی نہ ہی خود کسی کو فون کر سکتی تھی۔ وہ کہیں اکیلے نہیں جا سکتی تھی اگر اسے کہیں جانا ہوتا تو معروف کے ساتھ اور وہ بھی مکمل طور پر برقعہ میں۔
وہ ان پابندیوں کی عادی نہیں تھی مگر وہ گھر میں تماشا کھڑا نہیں کرنا چاہتی تھی’ اس لیے وہ ان پابندیوں کو برداشت کرتی رہی معروف اس کا خیال رکھتا تھا اس سے محبت بھی کرتا تھا مگر وہ اپنے گھر والوں کے زیر اثر تھا۔ وہ ان کی ہر بات پر یقین کر لیا کرتا تھا اور پھر رومانہ کی بے عزتی کرتا۔
ایک دو بار رومانہ تنگ آ کر گھر چھوڑ کر صاعقہ کے گھر چلی آئی مگر وہ اسے منانے کے لیے چند گھنٹوں بعد ہی وہاں پہنچ گیا وہ اس کی منت سماجت پر مجبور ہو کر دوبارہ اس کے ساتھ چلی گئی مگر واپس جانے کے بعد بھی معروف اور اس کے گھر والوں کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آتی۔ چند دن معروف صحیح رہتا مگر اس کے بعد پھر وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس سے الجھنے لگتا۔
حالات اس وقت زیادہ خراب ہونا شروع ہو گئے جب اس نے رومانہ پر ہاتھ بھی اٹھانا شروع کر دیا۔ رومانہ بھی ہر لحاظ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس سے اور اس کے گھر والوں سے زبان درازی کرتی۔
معروف کے گھر والوں نے معروف کی ضد پر مجبور ہو کر رومانہ کے ساتھ اس کی شادی تو کر دی تی مگر انہوں نے اس شادی کو دل سے قبول نہیں کیا تھا پہلے ان کا خیال تھا کہ رومانہ اتنی پابندیوں کو قبول نہیں کر سکے گی اور خود ہی معروف سے طلاق لے لے گی مگر جب وہ ان سب پابندیوں کے ساتھ بھی ان کے گھر رہتی رہی تو پھر معروف کی امی اور بہنوں نے بڑی مہارت کے ساتھ معروف کے ذہن میں رومانہ کے لیے شک کے بیج بونے شروع کر دیے۔ رومانہ کی پرانی شہرت اور صاعقہ کے کردار کی وجہ سے یہ کام بہت آسان تھا۔ دوسری طرف معروف بہت زیادہ جذباتی اور پوزیسو تھا۔
اس کی امی اور بہنیں ہر دوسرے دن اسے رومانہ کے فون پر کسی سے گفتگو کرنے کا بتاتیں’ وہ رومانہ سے پوچھتا تو وہ صاف انکار کر دیتی۔ معروف چراغ پا ہو جاتا’ اسے یقین نہیں آتا کہ اس کی امی یا بہنیں جھوٹ بول سکتی ہیں’ اسے یہی لگتا کہ رومانہ جھوٹ بول رہی تھی۔
وہ وقت بے وقت گھر فون کرتا۔ فون انگیج ملتا اور بار بار انگیج ملتا۔ وہ گھر آ کر اپنی امی اور بہنوں سے پوچھتا’ وہ کوئی کال کرنے سے صاف انکار کر دیتیں۔ اور یہ کہتیں کہ رومانہ کسی سے فون پر بات کر رہی تھی۔ وہ رومانہ سے پوچھتا وہ پھر انکار کر دیتی۔ وہ طیش میں آ کر اسے پیٹ ڈالتا۔ اس نے فون کو لاک لگا دیا مگر پھر گھر میں مشکوک کالز آنے لگیں۔ اکثر کالز اس کی موجودگی میں آتیں۔ وہ فون اٹھاتا تو دوسری طرف سے فون بند کر دیا جاتا۔ اس کا اشتعال اور بڑھتا جاتا رومانہ کے بارے میں اس کے شکوک میں اور اضافہ ہوتا گیا۔
اس کے گھر والوں نے معروف کو رومانہ کو طلاق دینے پر مجبور کرنا شروع کر دیا مگر وہ اس کو طلاق دینے پر تیار نہیں تھا۔ وہ اسے اپنی بے عزتی سمجھ رہا تھا۔ ایسے ہی ایک جھگڑے میں اس نے رومانہ کو پیٹا تو وہ غصہ کے عالم میں گھر چھوڑ کر جانے لگی’ جس پر معروف اور غصہ میں آ گیا اور اس نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کے گھر والوں کو توقع نہیں تھی کہ معروف سے یہ حرکت سرزد ہو سکتی ہے لیکن اب وہ اسے قتل کر چکا تھا انہوں نے اسے وہاں سے بھگا دیا۔
ان کے بس میں ہوتا تو شاید وہ اس پوری واردات کو کوئی نیا رنگ دینے کی کوشش کرتے مگر ان کے گھر میں اس جھگڑے میں ہونے والی چیخ و پکار پر گھر کے باہر محلے کے کچھ لوگ جمع ہو گئے تھے اور جب معروف اپنی امی اور بہنوں کے کہنے پر گھبرایا ہوا’ گھر کا دروازہ کھول کر وہاں سے چلا گیا تو ان میں سے کچھ لوگ اندر آ گئے اور اس لیے یہ بات راز میں نہ رکھی جا سکی کہ رومانہ کو معروف نے قتل کر دیا۔
معروف کے گھر والے اگرچہ یہ بات نہیں چھپا سکے تھے مگر انہوں نے یہ واویلا شروع کر دیا کہ رومانہ کا کوئی آشنا گھر آیا تھا اور معروف اچانک اس وقت گھر چلا آیا’ جس پر وہ آدمی چلا گیا تھا مگر رومانہ اس آدمی کے بارے میں معروف کو مطمئن نہیں کر سکی۔ اور غصے کے عالم میں معروف نے اس کا گلا دبا دیا۔ رومانہ اور صاعقہ کی شہرت اتنی بری تھی کہ پورے محلے نے آنکھیں بند کر کے اس الزام پر یقین کر لیا۔ سب کی ہمدردیاں معروف اور اس کے گھر والوں کے ساتھ تھیں جو صاعقہ اور اس کی بیٹی کی وجہ سے ایک مصیبت میں گرفتار ہو گئے تھے۔
صاعقہ کو دھمکایا گیا کہ وہ چپ چاپ اپنی بیٹی کی لاش وصول کر کے اسے دفنا دے۔ اگر اس نے اس معاملے کو بڑھانے کی کوشش کی تو نہ صرف اسے اس محلے سے نکال دیا جائے گا بلکہ اس کی بیٹیوں کو بھی اغوا کر لیا جائے گا۔ صاعقہ معروف کے گھر والوں کی پہنچ سے واقف تھی۔ وہ مجبوراً وہی کرنے پر مجبور ہو گئی جو وہ چاہتے تھے۔ اپنی بیٹی کی لاش گھر لانے کے بعد اس نے راتوں رات اسے اپنے چند قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں خاموشی سے دفنا دیا۔ محلے کے گھروں میں سے کوئی ان کے گھر نہیں آیا تھا۔
وہ سب اس جھگڑے سے دور رہنا چاہتے تھے’ ان لوگوں کو خوف تھا کہ اس کے گھر جانے کا جان کر معروف کے گھر والے ان لوگوں سے قطع تعلق کر لیتے اور معروف کے اثر و رسوخ والے خاندان سے تعلقات ان کے لیے بہت اہمیت رکھتے تھے۔ صاعقہ جیسے خاندان کا کیا تھا ایسے خاندان کون سا ایک جگہ ٹکتے تھے اور پھر ان کے خیال میں رومانہ کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا’ وہ اس کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہوا تھا۔ معروف کی جگہ کوئی بھی ”غیرت مند” مردان حالات میں یہی کرتا۔
خود صاعقہ کا شوہر ظفر بھی صاعقہ کو ہی ان حالات کا ذمہ دار قرار دے رہا تھا’ اس کے ہاتھ جیسے ترپ کا پتہ لگ گیا تھا جسے وہ اپنی بیوی اور بیٹیوں کی کردار کشی کے لیے استعمال کر سکتا تھا۔
”دیکھا’ میں نہ کہتا تھا یہ عورت اپنی بیٹیوں کو تباہ کرے گی۔” وہ اپنے خاندان کے ہر تعزیت کرنے والے سے کہتا۔
”اسی لیے تو میں نے ان لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ رکھا ہے۔” خاندان کے لوگ اس کی باتوں پر اور یقین کرنے لگے۔
”واقعی ایسی عورتوں کے ساتھ گزارا کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کم از کم کوئی غیرت مند مرد تو نہیں کر سکتا۔’ ظفر بولتا رہتا۔ ہر ایک کو یوں لگتا جیسے رومانہ کو معروف نے نہیں صاعقہ نے گلا گھونٹ کر مار دیا تھا۔
٭٭٭
”طلحہ! تم سے ایک کام ہے مجھے۔” امبر طلحہ سے فون پر بات کر رہی تھی’ کچھ رسمی سی گفتگو کرنے کے بعد وہ اپنے اصل موضوع پر آ گئی۔
”ہاں کہو…”
”تمہیں میرے ساتھ چلنا ہے۔”
”کہاں؟”
رخشی کے گھر۔” وہ اس کی بات پر قدرے جزبز ہوا۔
”رخشی کے گھر کس لیے؟”
”رخشی کے ساتھ بہت بُرا ہوا ہے۔”
”کیا ہوا ہے؟” وہ چونکا۔
”اس کے بہنوئی نے اس کی بہن کو قتل کر دیا ہے۔”
”ویری سیڈ۔” طلحہ کو افسوس ہوا۔
”زیادتی کی بات تو یہ ہے کہ پولیس نے اس شخص کو گرفتار تک نہیں کیا۔”
”کیوں…؟ انہوں نے ایف آئی آر تو درج کروائی ہو گی۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!