تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

”انسان اب کسی جنگل میں نہیں رہتے کہ جنگل کو یہ کہہ کر بانٹنا شروع کر دیں کہ اس حصے میں یہ جانور رہیں گے اور اس حصے میں وہ … اور بیچ میں حد بندی کر دی جائے یہ کہہ کر … کہ اسے کوئی بھی کراس نہیں کر سکتا۔”
”پھر تم صرف رخشی کی بات کیوں کرتی ہو … سوشل ورک شروع کرو۔ دولت تمہارے پاس بے تحاشا ہے’ تم اس پوری کلاس کے مسائل حل کرنے بیٹھ جاؤ۔”
میں نے پوری کلاس کی بات نہیں کی’ میں نے صرف رخشی کی بات کی ہے۔” امبر نے اس بار کچھ مدافعانہ انداز میں کہا۔ ”اور وہ بھی اس لیے کیونکہ وہ میری دوست ہے۔ میری بہترین دوست۔”
امبر نے اپنی بات پر زور دیا۔ طلحہ ہنس پڑا۔ ”اوہ کم آن امبر تم حد کر دیتی ہو۔ چار آٹھ ماہ میں وہ تمہاری دوست نہیں بہترین دوست بن گئی ہے۔ مجھے حیرانی ہو رہی ہے۔
خوبصورتی کے علاوہ اس میں اور کون سی خوبی ہے جس نے تمہیں اس کی طرف متوجہ کیا۔ ”طلحہ نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
”خوبصورتی کے علاوہ اور کون سی بات ہے جس نے تمہیں میری طرف متوجہ ہونے اور مجھ سے محبت کا دعویٰ کرنے پر مجبور کیا۔؟”
امبر نے اسی انداز میں پوچھا۔ طلحہ کچھ لمحوں کے لیے کچھ نہیں کہہ سکا۔ ”تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم دونوں کا نکاح اس وقت ہو چکا تھا جب ہم خوبصورتی کے تصور سے بھی واقف نہیں تھے۔” چند لمحوں کے بعد اس نے کہا۔
”تم میں خوبصورتی کے علاوہ اور بھی بہت سی کوالیٹیز ہیں۔”
”رخشی میں بھی خوبصورتی کے علاوہ اور بہت سی کوالیٹیز ہیں۔” امبر نے اسی انداز میں جملہ دہراتے ہوئے کہا۔
”ہم رخشی کی وجہ سے ایک فضول بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔” طلحہ نے جیسے تنگ آ کر کہا۔
”ہو سکتا ہے مگر یہ بحث میں نے شروع نہیں کی۔…”
‘ہٹھیک ہے میں نے شروع کی ہے۔ میں ہی ختم کر دیتا ہوں۔” طلحہ نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔ ”میں رخشی کے بارے میں اپنے تمام الفاظ واپس لیتا ہوں۔ کیا یہ کافی ہے؟” طلحہ نے پوچھا۔
امبر نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا’ وہ صرف مسکرا دی۔
٭٭٭




اس رات ہارون اور شائستہ نے منصور علی’ منیزہ’ روشان اور صبغہ کو پورچ میں ریسیو کیا تھا’ ہارون کمال کو فوراً ہی امبر کی عدم موجودگی کا احساس ہو گیا تھا اور اس کے چہرے پر کچھ مایوسی نمودار ہوئی تھی۔
”میں نے آپ سے کہا تھا کہ آپ ساری فیملی کو لے کر آئیں گے مگر آپ سب کو لے کر نہیں آئے۔” ہارون نے منصور علی کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے شکوہ کیا۔
”میں نے تو بہت کوشش کی تھی کہ میں سب کو لاسکوں مگر امبر آنا نہیں چاہ رہی تھی اور باقی دونوں بچیاں اپنے ایک ٹیسٹ کی تیاری میں مصروف تھیں۔” منصور علی نے کچھ معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”جو بھی ہو’ مجھے بہت مایوسی ہوئی ہے۔” ہارون کمال نے کہا۔
”میرا وعدہ ہے ۔ کہ اگلی بار ایسا نہیں ہو گا۔” منصور علی نے کہا۔
”اچھا ذرا اپنے بچوں سے تعارف کروا دیں۔”
ہارون مسکرا کر روشان اور صبغہ کی طرف بڑھا۔
”یہ میرا بیٹا ہے روشان منصور علی۔ … اور یہ میری بیٹی صبغہ منصور علی۔” منصور علی نے ان دونوں سے شائستہ اور ہارون کا تعارف کروایا۔ ہارون نے باری باری دونوں سے ہاتھ ملایا جب کہ شائستہ نے ان دونوں کے گال تھپکے۔
کھانے کی میز پر ہارون نے منصور علی کا تعارف اپنے دونوں بچوں کے ساتھ بھی کروایا۔ امبر کے نہ آنے سے ہارون کو جو مایوسی ہوئی تھی’ اس نے اس کی تلافی کرنے کے لیے کھانے کی میز پر امبر کا ذکر چھیڑ دیا تھا۔
”آپ کی بڑی بیٹی کیا کرتی ہے؟”
”امبر…؟ وہ گریجویشن کر رہی ہے۔” منصور علی نے چاول پلیٹ میں نکالتے ہوئے کہا۔
”اچھا … اور اس کے بعد کچھ اور پلان کیا ہے آپ نے اس کے لیے ۔” ہارون نے دلچسپی سے پوچھا۔
”نہیں۔ کچھ بھی پلان نہیں کیا … بس اس کے پیپرز ہوتے ہی اس کی رخصتی کر دیں گے۔”
ہارون کمال کے ہاتھ سے چمچہ گرتے گرتے بچا۔
”رخصتی؟” اس نے بمشکل حلق سے آواز نکالی۔
”ہاں … میری دونوں بڑی بیٹیوں امبر اور صبغہ کا نکاح بچپن میں ہی میرے بھائی کے بیٹوں کے ساتھ ہو گیا تھا۔ اب امبر کی رخصتی تو اس سال ہم کر دیں گے’ جب کہ صبغہ کی رخصتی ابھی دو تین سال کے بعد کریں گے۔”
منصور نے تفصیل بتائی ہارون کمال کچھ بھی نہیں بول سکا۔
”خاصی حیران کن بات بتائی ہے آپ نے … اب تو بچپن میں منگنیوں یا نکاح وغیرہ کی رسوم ختم ہو چکی ہیں۔” اس بار شائستہ نے کہا۔
”ہاں مگر ہماری فیملی میں ابھی بھی یہ جاری ہیں۔”منصور علی نے کہا۔
”ویسے یہ خاصا خطرے والا کام ہے اگر بڑے ہو کر بچوں کی مرضی بدل جائے اور وہ کسی اور کو پسند کرنے لگیں تو پھر تو بڑے مسئلے ہوتے ہیں۔” شائستہ نے کہا۔
”ہاں مگر ہمارے یہاں یہ مسئلہ نہیں ہے۔ میری بیٹیوں اور میرے بھتیجوں کی آپس میں خاصی انڈر سٹینڈنگ ہے۔”
”کیا کرتے ہیں وہ دونوں؟” ہارون خاصی دیر کے بعد خود کو اس اچانک پہنچنے والے دھچکے سے نکال سکا۔
”وہ دونوں میری ہی فیکٹری پر ہوتے ہیں’ میرے بھائی مسعود علی کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ وہ دونوں ان ہی کے بیٹے ہیں۔” منصور علی نے تفصیل سے بتایا۔
”اوہ اچھا …” ہارون کمال نے کہا۔
اس کا دل اب یک دم اس ڈنر سے اچاٹ ہو گیا تھا’ اسے خواب و خیال میں بھی یہ توقع نہیں تھی کہ اس رات منصور علی کے منہ سے اسے امبر کے بارے میں یہ خبر سننے کو ملے گی۔
”کیا نام ہیں آپ کے دامادوں کو ؟” کچھ دیر کے بعد ہارون نے دوبارہ پوچھا۔
”طلحہ اور اسامہ …” منصور علی نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
”طلحہ صبغہ کا شوہر ہے؟” ہارون نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے صبغہ کی طرف اشارا کیا۔
”نہیں’ نہیں وہ امبر کا شوہر ہے … صبغہ کے شوہر کا نام اسامہ ہے۔” منصور علی نے وضاحت کی۔
”طلحہ!” ہارو ن نے زیر لب اس کا نام دہرایا۔ وہ اب کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا کھانا کھا رہا تھا جب کہ شائستہ اور منیزہ آپس میں گفتگو میں مصروف تھیں۔ منیزہ شائستہ کو ہیروں کا وہ سیٹ دکھا رہی تھی جو اس نے پچھلے ہفتے ہی خریدا تھا اور اس سیٹ نے شائستہ کو واقعی متاثر کیا تھا۔ یقینا منصور علی بھی کوئی چھوٹا موٹا بزنس مین نہیں تھا۔
خاموشی سے کھانا کھانے کے بعد ہارون اس وقت نیپکن سے منہ پونچھ رہا تھا جب منصور علی نے اسے مخاطب کیا۔
”ہم تو آپ کے حسب خواہش آج یہاں کھانے پر موجود ہیں’ اب آپ بتائیں کہ آپ سب کب ہمارے یہاں کھانے پر آ رہے ہیں؟”
ہارون منصور علی کی بات پر مسکرایا۔ ”جب آپ حکم دیں’ ہم حاضر ہو جائیں گے۔”
”اگر آپ میرے کہنے پر حاضر ہوں گے تو میں تو چاہوں گا کہ آپ کل ہی آ جائیں۔” منصور علی نے برجستگی کے ساتھ کہا۔
”نہیں خیر کل آنا تو ممکن نہیں ہے’ چلیں یوں کرتے ہیں کہ اگلا ویک اینڈ آپ کے ساتھ گزارتے ہیں۔” ہارون کمال نے کہا۔
”مگر شرط میری بھی یہی ہے کہ آپ اپنی پوری فیملی کے ساتھ آئیں گے۔” منصور علی نے کہا۔
”بالکل میں اپنی پوری فیملی کے ساتھ آؤں گا … وہ نہیں کروں گا جو آپ نے کیا کہ آدھی فیملی گھر چھوڑ آئے۔” ہارون کمال نے برجستہ کہا۔
”بھئی میں معذرت تو کر چکا ہوں اس غلطی کے لیے’ آپ کے ہاں اگلی بار پوری فیملی کے ساتھ آؤں گا بلکہ اب آنا جانا تو لگا ہی رہے گا۔” منصور علی نے شگفتگی سے کہا۔
”بالکل’ ضرور کیوں نہیں۔” ہارون نے پُرجوش تائید کی۔
٭٭٭
”رخشی! تم آخر اس قدر خوفزدہ کس بات سے ہو؟” امبر اس دن گھر آنے کے بعد بھی فون پر رخشی سے بات کرتی رہی۔ وہ ایک بار پھر کوشش کر رہی تھی کہ رخشی اپنے بہنوئی کے خلاف کارروائی کے لیے رضامند ہو جائے۔
”امبر ! تم میرے مسائل نہیں سمجھ سکتیں۔” رخشی نے کچھ بے چارگی کے عالم میںکہا۔
”امبر ! میں جس محلے میں رہتی ہوں اسے اور یہاں کے لوگوں کو میں تم سے زیادہ بہتر جانتی ہوں۔ امی نہیں چاہتیں کہ ہم کو مزید نقصان پہنچے۔”
”تم اپنا محلہ کیوں نہیں تبدیل کر لیتے۔” امبر نے جیسے مسئلے کا حل پیش کیا۔
”ہم یہ گھر چھوڑ دیں گے تو اور کہاں جائیں گے۔ گھر ملنا کوئی آسان کام تو نہیں ہوتا۔” رخشی نے کہا۔
”میں دلوادوں گی تمہیں گھر۔” امبر نے فوراً کہا۔
”تم کیسے دلوا دوگی؟”
”میں اپنے پاپا سے کہہ کر دلوادوں گی۔” رخشی خاموش رہی۔
”پھر کیا میں گھر کی تبدیلی کے لیے پاپا سے بات کروں؟”
”ابھی ٹھہر جاؤ۔ ابھی مجھے امی سے بات کر لینے دو پھر میں تمہیں بتاؤں گی۔” رخشی نے کچھ سوچتے ہوئے اس سے کہا۔
٭٭٭

Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!