تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

سرکاری افسروں اور حکومتی عہدے داران سے ہارون کمال کے لیے مراعات کے حصول کے علاوہ اسے ان سے بیش قیمت تحفے تحائف بھی ملتے رہتے تھے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس کے حسن کے قصیدے ہر شخص کی زبان پر تھے … اب وہ آہستہ آہستہ ادھیڑ عمری کی طرف سفر کر رہی تھی مگر اس کے باوجود کم از کم اسے دیکھ کر اس کی عمر کے بارے میں کوئی اندازہ لگانا بہت مشکل تھا۔
شائستہ کے لیے اپنے رول میں سب سے بڑی دلچسپی وہ تعریف اور تحائف تھے جو اسے لوگوں سے ملتے تھے۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ جس سوسائٹی میں وہ اور ہارون رہتے تھے’ وہاں نیک نامی اور بدنامی کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ وہاں جو شخص زیادہ مشہور ‘ زیادہ جانا جاتا تھا۔ بس وہی اچھا تھا۔ اسے ملنے والی شہرت کی وجہ پر کوئی غور کرنے کی زحمت نہیں کرتا تھا… یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے بارے میں لوگوں کے منہ سے نکلنے والی تعریفیں سن سن کر ساتویں آسمان پر براجمان ہو گئی تھی۔
اس کے اور ہارون کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ دونوں فلرٹ تھے اور اس بات میں کسی کو کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں ہوتا تھا… شائستہ کے زیادہ تر افیئرز ہارون کے لیے مراعات کے حصول کے لیے تھے جبکہ کچھ اس کی اپنی پسندپر … جبکہ ہارون کے سارے افیئرز وقت گزاری کی کوشش تھے اور وہ دونوں اپنے تمام افیئرز کے بارے میں نہیں تو زیادہ تر کے بارے میں ضرور جانتے تھے اور ان دونوں کو کبھی ایک دوسرے کی حرکات پر اعتراض نہیں ہوا تھا۔ شائستہ کو ہارون کے افیئرز پر یشان نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ صرف افیئرز ہی تھے’ وہ کبھی ان میں سے کسی کے ساتھ شادی نہیں کرے گا اور ہارون شائستہ کے افیئرز کے بارے میں پریشان نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی اس سے اس سلسلے میں بات کرتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ ایسا کرے گا تو شائستہ پھر خود اس کے افیئرز کے بارے میں بات کرے گی … اور دوسری طرف اسے شائستہ کے ان افیئرز پر جو وہ وقت گزارنے کے لیے کرتی تھی کوئی اعتراض بھی نہیں ہوتا تھا۔ ان کی سوسائٹی میں اس طرح کے افیئرز ہر دوسرے مرد اور عورت کی زندگی کا حصہ تھے … بعض دفعہ تو یہ افیئرز گھر کے نوکروں’ ڈرائیور اور آفس ورکرز تک کے ساتھ چلائے جاتے تھے اور کوئی اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتا تھا … صرف یہ ہوتا تھا کہ دل بھرنے کے بعد اس ملازم کو ملازمت سے نکال دیا جاتا تھا … مگر ایسے افیئرز میں اس طرح کی قتل و غارت نہیں ہوتی تھی جتنی کسی عام گھرانے میں ہو سکتی تھی۔




شائستہ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہارون کمال کی بہت سی جائیداد اپنے نام کروالی تھی … اس کی فیکٹریز میں بڑی تعداد میں اس کے شیئرز بھی موجود تھے۔ شروع میں ہارون نے اس کے ان مطالبات پر اعتراض کیا اور اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی پھر اس نے شائستہ سے کہا تھا۔
”جائیداد میرے نام ہو یا تمہارے نام’ اس سے کیا فرق پڑتا ہے … ہم دونوں الگ الگ تو نہیں ہیں۔”
شائستہ نے اس کے جملے پر بڑے غور اور سنجیدگی سے اسے دیکھا اور کہا۔ ”اگر یہ بات ہے تو پھر تم کچھ حصے کے بجائے اپنی ساری جائیداد میرے نام لکھوادو … آخر جائیداد میرے نام ہو یا تمہارے نام’ اس سے کیا فرق پڑتا ہے … ہم دونوں الگ الگ تو نہیں ہیں۔”
شائستہ کے جواب نے اسے قدرے شرمندہ کیا تھا مگر اس کی خفت اور شرمندگی اسے اس مطالبے کو پورا کرنے سے نہیں روک سکی جو شائستہ نے کیا تھا۔ وہ اگر شائستہ کو استعمال کر رہا تھا تو شائستہ نے اس کے بزنس اور ہر جائیداد میں اپنا حصہ رکھا تھا’ چاہے وہ گھر ہو یا فیکٹری ‘ پلاٹ ہوں یا اسٹاک ایکسچینج کے شیئرز … یا پھر بینک اکاؤنٹس … ہارون نہ چاہتے ہوئے بھی شائستہ کو ہر چیز میں حصے دار بنانے پر مجبور ہو گیا تھا۔
شائستہ اس ساری ایمپائر کھڑی کرنے میں اپنے رول کو بخوبی جانتی تھی … اور وہ اپنی اہمیت سے بھی واقف تھی … وہ جانتی تھی اس کے بغیر ہارون کی یہ ایمپائر زمین پر آ گرے گی اور وہ ہارون کے ساتھ یہ کارڈ کھیلتی رہتی تھی۔ اسے جتاتی رہتی تھی کہ اگر وہ اس کی زندگی میں نہ آتی تو ہارون کمال کہاں کھڑا ہوتا … کیا کرتا … ہارون کمال کبھی خوش دلی سے اس کی بات کو تسلیم کرتا اور کبھی مجبوراً …
ان دونوں کے دو بچے تھے دو بیٹے اور ایک بیٹی … ہارون بڑی حد تک اپنی زندگی سے مطمئن تھا۔ اسے کبھی اس بچے کا خیال نہیں آیا تھا جسے اس نے کئی سال پہلے چھوڑ دیا تھا۔ وہ اپنے دونوں بچوں سے مطمئن تھا … اگرچہ وہ کوئی فیملی مین نہیں تھا اور نہ ہی وہ بہت خیال رکھنے والا وفادار باپ تھا مگر اس کے باوجود کسی نہ کسی حد تک فیملی لائف کی اس کی زندگی میں اہمیت تھی۔
دوسری طرف شائستہ بھی بہت سال پہلے ہونے والے احساس جرم اور پچھتاوے کی گرفت سے آزاد ہو چکی تھی۔ اسے اب کبھی اس بچے کا خیال آتا بھی تو وہ اسے ذہن سے جھٹک دیتی یا پھر یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتی کہ یہ اس بچے کا مقدر تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ ہونے کے بجائے کہیں اور پلتا اور پھر وہ یہ بھی سوچتی کہ ہو سکتا ہے اسے ایڈاپٹ کرنے والے والدین ہارون اور شائستہ سے زیادہ اس کا خیال رکھیں اور ہو سکتا ہے اس بچے کے لیے یہی بہتر ہو کہ وہ ان غیر لوگوں کے پاس پلے … کئی سال پہلے کی طرح اس نے ہارون کو اس جرم کے لیے قصور وار ٹھہرانا اور ملامت کرنا ترک کر دیا تھا … نہ صرف یہ بلکہ اس نے اپنے ضمیر کی خود اپنے رول پر کی جانے والی لعن طعن کو بھی دبا دیا تھا۔
اگر ہارون اس پورے واقعہ میں مجرم تھا تو خود وہ بھی مجرم تھی … اور اپنے کردار کا احساس ہوتے ہی شعوری اور لاشعوری طور پر وہ اپنے ذہن سے وہ سب کچھ بھلانے کی کوشش کرتی اور اس میں کامیاب رہتی … پہلے کی طرح اسے سائیکلولوجسٹ اور سائیکاٹرسٹس کے پاس نہیں بھاگنا پڑتا تھا … وہ ویسے بھی جس حد تک خود کو سوشل کر چکی تھی اس کے لیے چھوٹے موٹے پچھتاووں اور الجھنوں پر شرمندہ ہونے کے لیے بھی وقت نہیں بچتا تھا۔
وہ جدید دور کی وہ عورت تھی جو مرد کی طرح اپنی ہر غلطی کو قبر میں دفن کر کے مٹی ڈال دینے کی عادت سیکھ گئی تھی … کفارے اور پچھتاوے کے الفاظ کو انسانی ضمیر کی لغت سے نکال دینے کے بعد مادیت پرست انسان جو سکون پا سکتا وہ اور ہارون کمال بھی پا چکے تھے۔
اپنے گھر والوں کے ساتھ شائستہ کا رابطہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم سے کم ہوتا گیا تھا اور اب تو یہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا … اس کے اور ہارون کے خیال میں اس کا گھرانا آج بھی پتھر کے زمانے میں جی رہا تھا … تنگ نظری اور روایت پسندی کی گھٹن کے ساتھ … پہلے صرف ہارون اس کے خاندان کے نظریات سے چڑتا تھا پھر آہستہ آہستہ وہ بھی چڑنے لگی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بیزاری نفرت میں تبدیل ہو گئی تھی … وہ دونوں مل کر شائستہ کے خاندان کا مذاق اڑاتے … ان کے خیال میں وہ اخلاقیات جو شائستہ کا خاندان لے کر پھر رہا تھا’ وہ بازار میں کوئی دو روپے کے عوض بھی خریدنے پر تیار نہیں تھا … ان کا خیال تھا کہ ایسی اخلاقیات کو پچھلے زمانے کے ساتھ ہی دفن کر دینا چاہیے تھا … ایسی اخلاقیات جو اس جدید دور میں انسان کے پیروں کی زنجیر بن کر اسے معذور کر دے۔ وہ آخر شائستہ جیسی عورت اور ہارون جیسے مرد کے لیے کس کام کی تھی۔
٭٭٭
امبر چند دن کے بعد ایک دن طلحہ کے ساتھ رخشی کے گھر گئی۔ دروازہ رخشی نے ہی کھولا۔ امبر کے ساتھ طلحہ کو دیکھ کر وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔ طلحہ کا چہرہ اس کے لیے ناشناسا نہیں تھا۔ وہ اسے ان بہت ساری تصویروں میں دیکھ چکی تھی جو امبر نے اسے دکھائی تھیں مگر کسی شخص کو تصویروں میں دیکھنے اور حقیقی زندگی میں دیکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے اور پھر خاص طور پر اس شخص کو دیکھنے میں جسے اپنے سامنے پانے کی آپ کبھی توقع ہی نہ کر رہے ہوں۔ رخشی بھی اسی کیفیت کاشکار ہوئی تھی۔ امبر نے اسے حیران اور چپ ہوتے دیکھ کر طلحہ سے متعارف کروانے کا فریضہ سرانجام دیا۔
”رخشی! یہ طلحہ ہے … تم تو اسے جانتی ہی ہو … میں نے بہت بار ذکر کیا ہے اس کا تم سے … اور تصویریں بھی تو دیکھی ہیں تم نے۔”
”ہاں میں جانتی ہوں۔” رخشی یک دم کچھ سنبھلی۔ ”آپ اندر آ جائیں۔” وہ دروازے کے سامنے سے ہٹتے ہوئے بولی۔
رسمی سلام دعا کے بعد طلحہ اور امبر دونوں اس کے پیچھے پیچھے ڈرائنگ روم میں چلے آئے۔
”آپ بیٹھیں … میں امی کو آپ لوگوں کے بارے میں بتا کر آتی ہوں۔”
رخشی نے ڈرائنگ روم سے نکلتے ہوئے کہا۔ امبر نے اس کی بات پر سرہلا دیا۔ وہ اور طلحہ ایک صوفہ پر بیٹھ گئے۔ رخشی کے باہر جاتے ہی امبر نے اس سے پوچھا۔
”تم نے دیکھا رخشی کو … کیسی ہے وہ ؟” اس کے لہجے میں کچھ اشتیاق تھا۔
طلحہ اس کی بات پر مسکرایا۔ ”ویسی ہی ہے جیسی تم سے سنتا رہا تھا۔”
”ہے نا خوبصورت؟” امبر نے قدرے فخریہ انداز میں کہا۔
”ہاں بہت خوبصورت ہے”۔ طلحہ نے اعتراف کیا۔
رخشی پر باہر دروازے میں ایک نظر ڈالتے ہی طلحہ بلاشبہ مرعوب ہو گیا تھا۔ اگر امبر اس کی ہر وقت تعریف کرتی رہتی تھی تو رخشی کو دیکھ کر طلحہ کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ تعریف بے جا نہیں تھی … رخشی واقعی ایسی تھی کہ کوئی بھی اس کو دیکھ کر اس کے حسن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔
رخشی کچھ دیر کے بعد دوبارہ ڈرائنگ میں داخل ہوئی تو اس بار اس کے ساتھ ایک عورت بھی تھی۔ طلحہ کو اس عورت کو دیکھتے ہی اندازہ ہو گیا کہ وہ رخشی کی والدہ ہوں گی کیونکہ ان دونوں کے چہروں میں بہت زیادہ مشابہت تھی حالانکہ صاعقہ اس قدر اسمارٹ تھی کہ اسے دیکھ کر فوری طور پر یہ اندازہ مشکل ہو جاتا تھا کہ وہ رخشی کی ماں ہو سکتی تھی۔
امبر اور طلحہ نے رخشی کی امی سے سلام دعا کی۔ رخشی اور صاعقہ کچھ فاصلے پر ایک دوسرے صوفہ پر بیٹھ گئیں۔ گفتگو کا آغاز صاعقہ ہی نے کیا تھا۔
”رخشی نے مجھے بتایا کہ امبر اپنے شوہر کے ساتھ آئی ہے۔” صاعقہ نے کچھ افسردہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
امبر ان کی بات کے جواب میں مسکرائی۔ مگر اس نے جواب میں کچھ کہا نہیں۔
”آنٹی! امبر نے مجھ سے آپ کے ساتھ ہونے والے حادثے کا ذکر کیا تھا۔ مجھے بہت افسوس ہوا … امبر ویسے بھی رخشی کا بہت ذکر کرتی ہے تو میں آپ لوگوں کے خاندان سے غائبانہ طور پر تو پہلے ہی متعارف ہوں مگر پھر اس حادثے کا جاننے کے بعد میں نے ضروری سمجھا کہ میں امبر کے ساتھ آپ لوگوں کے پاس آؤں۔”
اس نے بڑے نپے تلے لفظوں میں اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔
”بیٹا ! تمہاری بہت مہربانی ہے۔” صاعقہ نے کہا۔
”نہیں ۔اس میں مہربانی والی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ مجھے شرمندہ کر رہی ہیں۔” طلحہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”امبر کے آنے سے بہت حوصلہ ملتا ہے’ رخشی کو بھی اور مجھے بھی …” صاعقہ نے امبر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”میرے آنے کا ایک مقصد اور بھی تھا۔” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد طلحہ نے ایک بار پھر کہا۔
رخشی اور صاعقہ سنجیدگی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگیں۔
”میں اور امبر چاہتے تھے کہ آپ لوگوں کی مدد کریں … جس آدمی نے یہ جرم کیا ہے اسے سزا ملنی چاہیے۔”
طلحہ نے ٹھوس لہجے میں کہا۔ ”میں اس سلسلے میں آپ سے تفصیلات جاننا چاہتا ہوں اور یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔” طلحہ نے محسوس کیا کہ رخشی اور صاعقہ یک دم قدرے پریشان اور ضرورت سے زیادہ سنجیدہ نظر آنے لگی تھیں۔
”میرے پولیس میں اچھے تعلقات ہیں’ میں اس کیس کی ذاتی طور پر پیروی کروں گا اور اس شخص کی گرفتاری اور سزا کو یقینی بناؤں گا۔”
طلحہ نے ان کو خاموش دیکھ کر اپنی بات کی وضاحت کی۔” میں چاہتا ہوں کہ آپ اس سلسلے میں مجھے تمام تفصیلات سے آگاہ کر دیں’ تاکہ میں ان تفصیلات کو آگے پہنچا سکوں… میں آپ کو پولیس کے ایک دو آفیسرز سے بھی ملوانا چاہتا ہوں تاکہ آپ کا براہِ راست بھی ان سے رابطہ ہو جائے۔”
صاعقہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”بیٹا! تم یقینا بہت اچھے انسان ہو جو ہماری اس طرح مدد کرنا چاہتے ہو مگر ہمیں مدد کی ضرورت نہیں ہے … ہم نے انصاف کو اللہ پر چھوڑ دیا ہے … اللہ خود ہی اس شخص کو سزا دے دے گا۔”




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!