تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

”گھر جا کر فون کر کے پوچھ لینا اس سے کہ وہ کیوں نہیں آئی۔” حفصہ نے اس کی دھمکی پر یک دم بات بدلتے ہوئے کہا۔
”ہاں یہی کرنے کا سوچ رہی ہوں میں۔” امبر نے اس کے مشورے کے جواب میں کہا۔
”اور ساتھ اسے یہ بھی بتا دینا کہ سارا دن تم اس کے بغیر بو کھلائی پھرتی رہی ہو۔” سونیا نے ایک بار پھر پہلے والے لہجے میں کہا۔
امبر نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر سونیا کو دیکھا۔ وہ جانتی تھی حفصہ کے برعکس اس پر اس کے غصے کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔
وہ رخشی کے اس طرح نہ آنے پر واقعی قدرے حیران و پریشان تھی جو اس کے لیے خلاف معمول بات تھی۔ شاید اب اسے رخشی کے ساتھ رہنے کی عادت ہو گئی تھی’ اسی وجہ سے اس نے اس کی یک دم غیر حاضری کو اتنا محسوس کیا تھا۔
گھر جا کر اس نے رخشی کو فون کیا تھا مگر اس کا فون انگیج تھا پھر وقفے وقفے سے اس نے کئی بار اسے کال کی مگر ہر بار اس کا نمبر انگیج ہی ملا۔ بالآخر اس نے تنگ آ کر فون رکھ دیا۔
٭٭٭
رخشی اگلے دن بھی کالج نہیں آئی تھی۔ امبر نے اگلے دن ایک بار پھر گھر آ کر بار بار فون پر اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس دن بھی وہ اس سے فون پر بات نہیں کر سکی۔
تیسرے دن بھی رخشی کالج نہیں آئی اور اس دن امبر نے رخشی کی ایک پرانی دوست کو ڈھونڈ کر اس کے بارے میں پوچھا’ وہ اسی کے محلے میں رہتی تھی۔
فائزہ نے امبر کے استفسار پر حیرت سے اس کی شکل دیکھا۔
”آپ کو نہیں پتا۔”
”کس بات کا ؟”
”رخشی کی بڑی بہن مر گئی ہے’ اسی لیے وہ کالج نہیں آ رہی۔”
”کیا … ؟” امبر کو جیسے ایک شاک سا لگا۔
”اس کی بہن مر گئی ہے … کیسے؟”
”اس کے شوہر نے اسے قتل کر دیا گلا گھونٹ کر۔” امبر کا سانس رک گیا۔
”شوہر نے قتل کر دیا ؟” اس نے بے یقینی کے عالم میں اس کا جملہ دہرایا۔
”ہاں’ اس کے شوہر نے قتل کر دیا۔” فائزہ نے قدرے افسوس بھرے انداز میں کہا۔
”مگر کیوں؟” امبر نے شاکڈ لہجے میں پوچھا۔
”بس ان کے درمیان بہت سے اختلافات تھے اس لیے۔”
”کیسے اختلافات؟”
”مجھے تفصیل سے تو پتا نہیں ہے مگر میں نے سنا تھا کہ وہ پہلے بھی اکثر مارتا پیٹتا رہتا تھا اسے۔ ہو گئی ہو گی پھر کسی بات پر لڑائی اور اس نے غصے میں اس کا گلا دبا دیا۔” فائزہ نے اسے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔ ”آپ کو بتایا نہیں رخشی نے ؟”
”نہیں … وہ بتائے بغیر چھٹی پر چلی گئی۔ میں پچھلے دو دن سے فون کر رہی ہوں مگر فون انگیج ملتا ہے۔” امبر اب بھی بے حد کنفیوز تھی۔
”میں گئی تھی اس کے گھر جب مجھے پتا چلا۔ تو وہ سب بہت پریشان تھے۔” فائزہ نے کہا۔
”پولیس نے اس آدمی کو گرفتار کیا؟”
”نہیں … وہ تو بھاگ گیا ہے کہیں’ پولیس نے ایف آئی آر درج کر لی ہے مگر وہ پکڑا نہیں جا سکا۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پولیس کو اس کا پتا ہے کہ وہ کہاں ہے مگر وہ اسے پکڑنا نہیں چاہتے کیونکہ اس نے پولیس کو کچھ رقم دے دی ہے۔’ فائزہ کہہ رہی تھی ”ویسے بھی اگر وہ پکڑا بھی گیا تو بھی کیا ہو گا۔ اس کی بہن تو زندہ نہیں ہو سکتی۔”
”ہاں وہ تو زندہ نہیں ہو سکتی مگر اس کو سزا تو ملنی چاہیے۔ اس طرح کھلا کیسے پھر سکتا ہے وہ۔” امبر نے فائزہ سے کہا۔
کچھ دیر وہ اسی طرح فائزہ سے گفتگو میں مصروف رہی’ اس کے بعد وہ اسے خدا حافظ کہتے ہوئے کالج سے آ گئی مگر سیدھا گھر جانے کے بجائے اس نے ڈرائیور کو رخشی کے گھر کی طرف گاڑی موڑنے کے لیے کہا۔
٭٭٭




رخشی کے گھر کے دوازے پر دستک دینے پر دروازہ رخشی نے ہی کھولا تھا۔ امبر کو دروازہ یوں بند دیکھ کر حیرت ہوئی’ اس کا خیال تھا اس کے گھر آج بھی تعزیت کرنے والے خاصے لوگ موجود ہوں گے مگر ایسا نہیں تھا گھر پر رخشی کے اپنے گھر والوں کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں تھا۔
رخشی امبر کو اپنے دروازے پر دیکھ کر حیران ہوئی تھی’ اس کا چہرہ ستا ہوا تھا اور اس کی آنکھوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ یقینا روتی رہی تھی’ امبر پہلی بار اسے میک اپ کے بغیر دیکھ رہی تھی اور میک اپ کے بغیر اترے ہوئے چہرے کے ساتھ بھی وہ بے حد خوبصورت نظر آ رہی تھی۔
دونوں کے درمیان دروازے پر صرف سلام دعا ہوئی’ امبر کی سمجھ میں نہیں آیا’ وہ فوری طور پر اس سے کیا کہے اور نہ ہی رخشی نے اس سے کوئی بات کی۔ وہ بس اسے اپنے ساتھ لے کر اندر اپنے کمرے میں آ گئی۔
”مجھے تمہاری بہن کے بارے میں جان کر بہت دکھ ہوا ہے۔” امبر نے اس کے کمرے میں آ کر بیٹھنے کے بعد رخشی سے بات شروع کی۔ رخشی نے چونک کر اسے دیکھا۔
”تمہیں کیسے پتا چلا؟”
”تم تین دن سے کالج نہیں آ رہی تھیں۔ میں بہت پریشان تھی’ میں نے تمہیں بہت دفعہ رنگ بھی کیا مگر بات نہیں ہوئی۔ پھر آج میں فائزہ سے ملی اسی سے پتا چلا۔” امبر نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔ رخشی چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔
”مجھے تم سے بہت زیادہ شکایت ہے۔’ تم نے مجھے انفارم کرنا تک ضروری نہیں سمجھا۔ اگر فائزہ سے میری بات نہ ہوتی تو مجھے پتا تک نہ چلا’ دوست اس طرح تو نہیں کرتے۔” امبر نے شکوہ کرتے ہوئے کہا۔
”بس سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ ہم لوگوں کو کسی چیز کا ہوش نہیں رہا۔ پھر فون بھی خراب تھا’ ورنہ شاید میں تمہیں اطلاع دے ہی دیتی۔” رخشی نے تھکے تھکے انداز میں کہا تھا۔
”یہ سب کچھ کیسے ہوا ؟” امبر نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”پتا نہیں کیسے ہوا۔ ہمیں تو خود کچھ پتا نہیں ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟”
”تمہارے بہنوئی نے انہیں قتل کر دیا؟” امبر نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا۔
”ہاں …” رخشی نے مختصر جواب دیا۔
”کیوں کیا ان لوگوں کا کوئی جھگڑا تھا؟”
”نہیں’ کوئی جھگڑا نہیں تھا بس معمولی قسم کے اختلافات تھے’ ویسے ہی اختلافات جیسے ہر گھر میں ہوتے ہیں پھر یک دم ہی تین دن پہلے یہ حادثہ ہو گیا۔”
”پولیس نے اسے گرفتار کیا ہے؟”
”ابھی تک تو نہیں کیا مگر وہ اسے ڈھونڈ رہے ہیں۔” اس نے دھیمے انداز میں کہا۔
”تمہیں اس سلسلے میں اگر میری مدد کی ضرورت ہو تو مجھے بتاؤ۔” امبر نے اسے فراخ دلانہ پیش کش کی۔
”نہیں’ فی الحال تو تمہاری مدد کی ضرورت نہیں۔” رخشی نے کہا۔
جھجکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تمہاری دوست ہوں۔”
”نہیں’ میں جھجک نہیں رہی ہوں’ مجھے واقعی تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہو گی تو میں تمہیں ضرور بتاؤں گی۔” رخشی نے کہا۔
”میرے پاپا کی پولیس میں خاصی جان پہچان ہے’ وہ اس شخص کی گرفتاری میں مدد دے سکتے ہیں۔”
”نہیں ابھی اس کی ضرورت نہیں ہے۔ پولیس اسے ڈھونڈ رہی ہے’ تم اپنے پاپا سے اس سلسلے میں بات مت کرنا۔ جب مجھے ضرورت ہو گی تو میں خود تم سے کہوں گی۔” رخشی نے ایک بار پھر اسی لہجے میں انکار کرتے ہوئے کہا۔
”یہ تمہاری سب سے بڑی بہن تھیں؟”
”نہیں دوسرے نمبر پر تھیں۔ ایک بہن اس سے بھی بڑی ہے۔”
”وہ بھی شادی شدہ ہے؟”
”ہاں…”
”اس بہن کی شادی کو کتنا عرصہ ہوا تھا؟”
”آٹھ ماہ۔”
”صرف آٹھ ماہ؟” اس کی آواز میں بے یقینی تھی۔
”ہاں صرف آٹھ ماہ” رخشی نے ستے ہوئے چہرے کے ساتھ کہا’ امبر کی سمجھ میں نہیں آیا’ وہ اس سے مزید کیا بات کرے۔
”تم کالج کب آؤ گی؟” اس نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!