تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

”آپ کی بات بلاشبہ درست ہے اور آپ یقینا بہت اعلاظرف ہیں جو اس طرح سوچ رہی ہیں مگر میں ذرا مختلف طریقے سے سوچتا ہوں … جس شخص نے جرم کیا ہے اسے سزا ملنی چاہیے … اگر ہر کام اللہ پر ہی چھوڑتے جائیں تو پھر دنیا میں انصاف تو بالکل ختم ہو کر رہ جائے گا۔”
”تم ٹھیک کہتے ہو مگر میں پھر بھی ان لوگوں کے خلاف کوئی قانونی اقدام کرنا نہیں چاہتی۔” صاعقہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”آنٹی! میں جانتی ہوں’ وہ لوگ آپ کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔” اس بار امبر نے مداخلت کی۔” اور آپ کو خوفزدہ کر رہے ہیں۔”
صاعقہ نے کچھ چونک کر اسے دیکھا ‘ اور اس کے بعد رخشی کو دیکھا۔
”تمہیں کس نے بتایا ہے کہ وہ لوگ ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں؟” صاعقہ کے لہجے میں حیرت تھی۔ امبر نے ان کے سوال کو گول کرتے ہوئے کہا۔
”آنٹی ! میں جانتی ہوں … مگر میں آپ کو یقین دلانا چاہتی ہوں کہ آپ کو ان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے’ وہ لوگ آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے۔”
”امبر! یہ بات کہنا بہت آسان ہے کہ ہمیں کسی سے ڈرنا نہیں چاہیے اور وہ لوگ ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے … مگر ان لوگوں کا گھر ہمارے گھر سے چند گز کے فاصلے پر ہے … پورے محلے نے ہمارا بائیکاٹ کیا ہوا ہے … اگر آج اس گھر پر کوئی حملہ کر دے تو محلے میں سے کوئی ایک شخص بھی ہمیں بچانے کے لیے نہیں آئے گا … اور تم کہہ رہی ہو کہ ہم ان سے خوفزدہ نہ ہوں’ وہ ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔”
رخشی نے پہلی بار گفتگو میں مداخلت کی۔ اس کی آواز میں افسردگی تھی۔
”اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے گھر پر پولیس گارڈ لگوا دیتا ہوں۔” طلحہ نے کہا۔
”کتنے دن کے لیے ؟” رخشی نے پوچھا۔
”جتنا عرصہ آپ چاہیں۔”




”آپ ہمیشہ ہمارے گھر پر پولیس گارڈ تو نہیں رکھ سکتے’ آپ ہمارے ساتھ ہر جگہ تو پولیس گارڈ نہیں بھیج سکتے۔” رخشی نے قدرے مدھم لہجے میں کہا۔ ”ہمیں ہمیشہ اسی محلے میں انہیں لوگوں کے ساتھ رہنا ہے۔ ان کے خلاف قانونی کارروائی کر کے ہم اپنے گلے میں اور مصیبت نہیں ڈال سکتے۔ پہلے ہی ہم بہت کچھ بھگت چکے ہیں۔” رخشی نے کہا۔
”تو کیا تم اس شخص کو آزاد چھوڑ دو گی۔” اس بار امبر نے کہا۔ ”تم نہیں چاہتیں کہ جس شخص نے تمہاری بہن کو اتنی بے رحمی کے ساتھ قتل کیا ہے اسے سزا ملے۔”
”میرے چاہنے یا نہ چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا … میرا دل تو یہ چاہتا ہے کہ میں اس شخص کو اپنے ہاتھوں سے شوٹ کر دوں … مگر کیا میں ایسا کر سکتی ہوں۔” رخشی نے امبر کو دیکھتے ہوئے بڑے پُرسکون انداز میں کہا۔
”اور اگر اس کے خلاف ایف آئی آر درج ہو بھی جائے تو ہم گواہ کہاں سے لائیں گے کب تک کیس چلائیں گے … ہمارے تو اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہم اس کیس کو بہت دیر تک چلا سکیں اور وہ بھی ایک مسلسل خوف اور عدم تحفظ کاشکار ہو کر … اور پھر وہ شخص چھوٹ جائے گا۔ اسے سزا نہیں ہو گی … ہوئی بھی تو صرف چند سالوں کی … مگر ایک دفعہ اس کا خاندان ہمارے پیچھے پڑ گیا تو ہم کیا کریں گے۔”
”رخشی! یہ سب باتیں بعد کی ہیں … تم پہلے پولیس کو اپنا کام تو شروع کرنے دو … گواہ بھی آ جائیں گے اور کیس پر ہونے والے اخراجات کا بھی انتظام ہو جائے گا … تم ان چیزوں کے بارے میں پریشان نہ ہو۔ طلحہ سب کو سنبھال لے گا ‘ میں اسی لیے اسے اپنے ساتھ لے کر آئی ہوں۔”
امبر نے اسے تسلی دی مگر رخشی اس کی تسلی اور یقین دہانی سے قائل نہیں ہوئی۔
”نہیں امبر! پولیس نے اگر کچھ کرنا ہوتا تو اب تک کر چکی ہوتی … انہیں اگر اسے پکڑنا ہوتا تو وہ اسے اب تک پکڑ لیتے … سارا زمانہ جانتا ہے کہ یہاں قتل ہوا ہے مگر پھر بھی اگر پولیس اس پر چپ ہے تو وہ واضح طور پر بتا رہی ہے کہ اس کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں۔”
امبر نے بہت دیر رخشی اور صاعقہ کو پولیس کی مدد لینے پر زور دیا مگر وہ دونوں قائل نہیں ہوئیں وہ امبر کی مشکور اور احسان مند ہونے کے باوجود اس شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
امبر کے برعکس طلحہ نے شروع میں کی جانے والی کچھ گفتگو کے بعد مکمل خاموشی اختیار کر لی تھی۔ وہ صرف امبر کو رخشی اور صاعقہ کو قائل کرنے کی ناکام کوشش کرتے دیکھتا رہا۔ تھک ہار کر امبر قدرے مایوسی کے عالم میں جب طلحہ کے ساتھ ان کے گھر سے آنے لگی تو دروازے سے نکلتے ہوئے طلحہ نے ایک بار پھر مڑ کر رخشی سے اور صاعقہ سے کہا۔
”آپ کو اگر کسی بھی معاملے میں میری مدد کی ضرورت پڑے تو پلیز کسی جھجک کے بغیر مجھے بتائیے گا۔ مجھے آپ کی مدد کر کے خوشی ہو گی۔”
رخشی اس کی بات پر سرہلاتے ہوئے مسکرائی جبکہ صاعقہ نے کہا۔
”تمہارا بہت شکریہ بیٹا … ہم لوگوں کو جب بھی مدد کی ضرورت پڑی’ ہم تم سے ضرور کہیں گے۔”
٭٭٭
واپسی پر گاڑی میں امبر خاصی دلبرداشتہ نظر آ رہی تھی۔
”مجھے یقین نہیں آ رہا کہ رخشی میری اس پُرخلوص پیشکش کو اس طرح ٹھکرا دے گی… آخر وہ اس طرح کی حماقت کیوں کر رہی ہے … اس آدمی کو کیوں بچ جانے کا موقع دے رہی ہے؟” اس نے کچھ جھنجھلاتے ہوئے کہا۔
”رخشی کوئی حماقت نہیں کر رہی … وہ اور اس کی امی دونوں بڑی سمجھ داری کا ثبوت دے رہی ہیں۔” طلحہ نے گاڑی چلاتے ہوئے کہا۔
”وہ لوگ کورٹ میں جانا نہیں چاہتے … پولیس کی مدد لینا نہیں چاہتے … صرف اس لیے کیونکہ وہ خوفزدہ ہیں اور تم کہہ رہے ہو کہ وہ دونوں ٹھیک کر رہی ہیں۔”
امبر نے ناراضی سے کہا۔
”امبر ! تم ہر چیز کے بارے میں بہت جذباتی ہو جاتی ہو۔ میں تمہارے مقابلے میں قدرے زیادہ حقیقت پسند ہوں … اور جن ماں بیٹی سے ہم لوگ مل کر آئے ہیں’ وہ دونوں مجھ سے بھی زیادہ حقیقت پسند ہیں۔” طلحہ نے گیئر بدلتے ہوئے کہا۔ ”وہ اپنی سچویشن اور پرابلمز کو ہم سے زیادہ اچھی طرح سمجھتی ہیں…۔”
”طلحہ ! تم دراصل اس کی مدد کرنا ہی نہیں چاہتے … تم بالکل ممی کی طرح ہو … تم تو اس کے گھر بھی جانا نہیں چاہتے تھے وہ بھی میں تمہیں زبردستی لے کر گئی … اور تم نے تو رخشی اور آنٹی کے انکار پر شکر کیا ہو گا کہ تمہاری جان چھوٹی۔”
”اچھا مان لو۔ تم کسی نہ کسی طرح انہیں کورٹ میں جانے پر تیار کر لیتی ہو … پھر کیا ہو گا؟” طلحہ نے کہا۔
”کیس چلے گا اور کیا ہو گا؟”
”گواہ کہاں سے آئیں گے؟”
”آ جائیں گے … لوگ ابھی اتنے بھی بے ضمیر نہیں ہوئے کہ سامنے قتل ہوتا دیکھ کر بھی چپ ہو جائیں … اور جھوٹ کو جھوٹ نہ کہیں۔”
طلحہ نے بے اختیار قہقہہ لگایا ”تم کس دنیا میں رہتی ہو مائی ڈیر … میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں وہاں ضمیر نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے … لوگوں میں ضمیر ہوتا تو وہ تمہاری دوست کے گھر والوں کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے اس خاندان کا بائیکاٹ کرتے جس کی وجہ سے رخشی کا گھرانہ اس مصیبت کاشکار ہوا … پھر رخشی اور اس کے گھر والے ان خدشات کاشکار نہ ہوتے جس کا شکار وہ اب ہیں۔”
”اگر سچے گواہ نہیں آئیں گے تو جھوٹے گواہ بھی تو مل سکتے ہیں۔” امبر نے اس کی بات سے قائل ہوئے بغیر کہا۔
”تمہیں پتا ہے کہ ایسے کیسز پر کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے؟ اور کتنے سال لگیں گے کوئی نہیں کہہ سکتا۔”
”کوئی بات نہیں۔ لاکھوں روپے لگیں گے … کروڑوں تو نہیں لگیں گے … اور کتنے سال لگیں گے ۔ سو سال لگیں گے … لگ جانے دو۔”
طلحہ نے امبر کو اس طرح دیکھا جیسے اسے اس کی ذہنی حالت پر شبہ ہو۔
”اور اگر روپیہ اور وقت ضائع کرنے کے بعد بھی رخشی کے گھر والے کیس ہار گئے تو ؟”
”میں نے تم سے کہا ہے ناں … یہ سب بعد کی باتیں ہیں … کیس کا فیصلہ کیا ہوتا ہے اور کس کے حق میں ہوتا ہے ابھی اس کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” امبر نے ایک بار پھر لاپروائی سے کہا۔
”بعض دفعہ تم …” طلحہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر امبر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”بعض دفعہ میں حماقت کی انتہا کر دیتی ہوں … بلکہ یوں ظاہر کرتی ہوں جیسے میں عقل سے مکمل طور پر پیدل ہوں۔ تم یہی کہنا چاہتے ہو نا ؟” امبر نے اطمینان سے کہا۔
”نہیں میں یہ تو نہیں کہنا چاہتا تھا مگر اب تم نے خود اپنے بارے میں یہ سب کچھ کہہ دیا ہے تو میں اختلاف نہیں کروں گا۔” طلحہ نے بظاہر بڑی سنجیدگی سے کہا۔ ”میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ تم خود کو دوسروں کے مسئلوں میں کیوں الجھاتی ہو؟”
”اور میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ تم میری دوست کو ”دوسرا” کیوں سمجھ رہے ہو؟” امبر نے بھی اسی انداز میں کہا۔ ”مجھے حیرانی ہوتی ہے طلحہ یہ سوچ کر میں کسی کے ساتھ گپیں ماروں … کھاؤں پیوں … گھوموں پھروں… مگر جب اس بندے کو میری ضرورت پڑے تو میں پیچھے ہٹ جاؤں … آنکھیں پھیر لوں … بس یہ کہہ کر کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے’ تمہارا مسئلہ ہے … تم خود اسے ہینڈل کرو۔”
امبر نے تلخی سے کہا۔
”امبر! تمہیں ابھی یہاں آئے زیادہ سال نہیں ہوئے’ پانچ دس سال اور گزار لو پھر تمہیں پتا چل جائے گا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔” طلحہ نے کچھ تنگ آ کر کہا۔
”اور دوسری سب سے بڑی بات یہ ہے کہ رخشی ہمارے طبقے سے تعلق نہیں رکھتی۔ تمہیں اس کے ساتھ اتنا میل جول نہیں بڑھانا چاہیے۔ وہ جس علاقے میں رہتی ہے’ وہاں تو مجھے اپنی گاڑی کھڑی کرتے ہوئے بھی ڈر لگ رہا تھا کہ پتا نہیں واپسی پر گاڑی صحیح سلامت مل جائے گی یا نہیں۔” طلحہ نے کہا۔
”یہ دوسری نہیں تمہارے نزدیک پہلی بات ہونی چاہیے کہ وہ ہمارے طبقے سے تعلق نہیں رکھتی’ اس لیے اس سے میل جول نہیں بڑھانا چاہیے۔ تمہیں اندازہ ہے بعض دفعہ تم کتنے تنگ نظر ہو جاتے ہو۔” امبر نے ناراضی سے کہا۔ ”بالکل ممی والے انداز میں بات کرتے ہو۔ دوست ایسے ہونے چاہئیں’ دوست ویسے ہونے چاہئیں’ دوستی میں کوئی پیرا میٹرز نہیں ہوتے جنہیں استعمال کیا جائے۔”
”ہوتے ہیں امبر …! جس کلاس سے میں اور تم تعلق رکھتے ہیں وہاں ہوتے ہیں اور بہتر ہے کہ ان کا خیال رکھا جائے ورنہ بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔” طلحہ نے سنجیدگی سے کہا۔ تو امبر تنک گئی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!