تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵





رخشی نے چند دن بعد شام کو اسے خود رنگ کیا تھا۔
”امبر ! میں نے امی سے بات کی ہے۔”
”اچھا پھر آنٹی کیا کہہ رہی ہیں؟”
”وہ مان گئی ہیں کہ ہمیں گھر شفٹ کر لینا چاہیے۔” دوسری طرف سے رخشی نے کہا۔
”ویری گڈ…” امبر بے اختیار خوش ہوئی۔
”تم انکل سے بات کرو تاکہ ہمیں پتا چل سکے کہ وہ ہمارے لیے کوئی گھر ارینج کر سکتے ہیں یا پھر ہمیں خود ہی ڈھونڈنا پڑے گا۔”
”تمہیں گھر ڈھونڈنے کی قطعاً ضرورت نہیں … یہ کام میرے پاپا خود کر لیں گے۔” امبر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”میری سمجھ میں نہیں آتا امبر! میں کس طرح تمہارا شکریہ ادا کروں؟” رخشی نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا۔
”تمہیں شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوستوں میں اس طرح کے تکلفات نہیں ہوتے۔” امبر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”پھر بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ مجھ پر تمہارے احسانات بڑھتے ہی جا رہے ہیں … میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں ان احسانوں کا بدلہ کس طرح چکاؤں گی۔”
”میں کوئی احسان نہیں کر رہی ہوں جو کر رہی ہوں۔ وہ میرا فرض ہے’ اس لیے تمہیں ان احسانوں کے بدلے کی ادائیگی کے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔”
”امبر اگر ان سارے حالات میں مجھے تمہارا سہارا نہ ملتا تو میں تو شاید سب کچھ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر گھر بیٹھ جاتی۔ دوبارہ کبھی کالج جانے کا سوچتی بھی نہ۔” رخشی نے کچھ دیر کے بعد کہا۔
”میں تمہاری ذہنی کیفیت کو سمجھ سکتی ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ میری وجہ سے ہی سہی مگر کم از کم تم اپنے ان فضول کے واہموں سے تو باہر نکل آئی ہو۔ جب کالج جانا شروع کرو گی تو خود ہی نارمل ہو جاؤ گی۔” ”ہاں ایک دو دن تک میں دوبارہ کالج آنے لگوں گی۔ ویسے بھی میری اسٹڈیز کا بہت حرج ہو رہا ہے۔” رخشی کو پہلی بار پڑھائی کا خیال آیا۔
”میں آج پاپا سے تم لوگوں کے گھر کے بارے میں بات کرتی ہوں اور پھر تمہیں بتاتی ہوں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ اور تمہارے لیے گھر کب تک مل سکے گا۔” امبر نے اس سے کہا۔
”تم آج ہی مجھے بتاوگی؟” رخشی نے پوچھا۔
”ہاں آج ہی رنگ کروں گی۔ بس میں پاپا کے آنے کا انتظار کر رہی ہوں۔”
٭٭٭




منصور علی رات کو تقریباً دس بجے کے قریب گھر آئے تھے اور گھر آتے ہی انہوں نے امبر کو اپنا منتظر پایا تھا۔ وہ باہر پورچ میں ہی ٹہل رہی تھی۔ ان کی گاڑی اندر آتے دیکھ کر بھی ٹہلتی رہی۔ جب گاڑی پورچ میں آ گئی تو وہ رک گئی۔ منصور علی گاڑی سے باہر نکل کر اسے دیکھ کر مسکرائے تھے۔ بریف کیس ڈرائیور کو اندر چھوڑنے کے لیے کہہ کر وہ خود امبر کے پاس رک گئے۔
”خیریت تو ہے’ آج تم شاید میرے آنے کا انتظار کر رہی تھیں۔” منصور علی نے اس کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔
”ہاں پاپا! میں آپ ہی کا انتظار کر رہی تھی۔ مجھے آپ سے ایک بات کرنی۔” امبر نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”اچھا اندر تو چلو پھر بات کرتے ہیں۔”
”نہیں۔ مجھے اندر نہیں جانا یہیں بات کرنی ہے کیونکہ اندر ممی ہوں گی اور میں ان کے سامنے بات کرنا نہیں چاہتی۔” امبر نے کہا۔
منصور علی اس کی بات پر مسکرائے۔ ”اچھا ٹھیک ہے’ بتاؤ کیا بات ہے؟”
”پاپا ! پہلے آپ وعدہ کریں کہ آپ میری بات مانیں گے۔” امبر نے کہا۔
”وعدہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ تم جانتی ہو’ میں وعدے کے بغیر ہی تمہاری ہر بات مانتا ہوں…” منصور نے شگفتگی سے کہا۔
”اور آپ یہ وعدہ بھی کریں کہ آپ ممی سے یہ بات ڈسکس نہیں کریں گے۔”
”چلو ٹھیک ہے’ میں منیزہ سے یہ بات ڈسکس نہیں کروں گا۔” انہوں نے ہامی بھری۔
”پاپا میں چاہتی ہوں آپ رخشی اور اس کے گھر والوں کے لئے کہیں کرائے کے گھر کا بندوبست کر دیں۔” امبر نے کسی تمہید کے بغیر کہا۔
”کیا؟” منصور کو جیسے حیرت کا جھٹکا لگا۔
”پاپا ! ان کا محلہ اچھا نہیں ہے۔ وہ سب وہاں خوفزدہ رہتے ہیں’ محلے کے لوگ انہیں تنگ کرتے رہتے ہیں’ اس لیے میں چاہتی ہوں کہ آپ کسی دوسری جگہ پر ان کی رہائش کا انتظام کروا دیں۔”
”مگر امبر! یہ کام تمہارا یا میرا نہیں ہے۔ وہ اگر گھر بدلنا چاہتے ہیں تو خود گھر کا انتظام کریں۔” منصور علی نے اعتراض کرتے ہوئے کہا۔
”پاپا ! یہ کام ان کے لیے مشکل ہے’ آسان نہیں ہے۔ آپ کو اندازہ ہو گا کہ گھر ڈھونڈنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے اسی لیے تو میں آپ سے کہہ رہی ہوں۔”
”کیا رخشی نے خود تم سے اس کام کے لیے کہا ہے؟” منصور علی نے پوچھا۔
”نہیں پاپا! رخشی نے مجھ سے نہیں کہا میں نے خود امی سے کہا تھا کہ وہ گھر بدل لے۔ میں نے خود اسے مدد کی آفر کی تھی کیونکہ میرا خیال تھا کہ آپ چٹکی بجاتے میں یہ کام کر دیں گے مگر مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ اس طرح انکار کر دیں گے۔” امبر نے قدرے ناراضی سے کہا۔
”میں انکار نہیں کر رہا ہوں امبر۔” منصور علی نے امبر کے بگڑتے تیور دیکھ کر کچھ نرم پڑتے ہوئے کہا۔
”میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ کام انہیں خود کرنا چاہیے’ انہیں صحیح اندازہ ہو گا کہ انہیں کس طرح کا گھر چاہیے۔ وہ کتنا کرایہ افورڈ کر سکتے ہیں۔ کس علاقے میں گھر چاہیے۔ کتنا ایڈوانس دے سکتے ہیں۔ کتنے عرصے کے لیے مکان لینا چاہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔” منصور علی نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
”پاپا! یہ باتیں تو آپ بھی اس سے پوچھ سکتے ہیں اور آپ کو کون سا خود مکان ڈھونڈنا ہے۔ آپ کسی پراپرٹی ڈیلر کو یہ کام سونپ دیں۔ وہ خود سب کچھ کر لے گا۔”
”جن پراپرٹی ڈیلرز سے میں کام لیتا ہوں انہیں تمہاری دوست افورڈ نہیں کر سکتی۔” منصور علی نے صاف گوئی سے کہا۔
”آپ سے بات کرنے کا تو پھر کوئی فائدہ نہیں ہوا نہ؟” امبر نے ناراضی سے کہتے ہوئے اپنے قدم اندر جانے کے لیے بڑھا دئیے۔
”اچھا اب ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے’ چند دن میں مصروف ہوں۔ چند دن گزر جانے دو پھر میں رخشی کے لیے کچھ کروں گا۔” منصور علی نے اسے بہلاتے ہوئے کہا۔
”آپ اس کے لیے کیا کریں گے؟” امبر نے مڑ کر سنجیدگی سے ان سے پوچھا۔
”بھئی جو کر سکا کروں گا۔” منصور علی نے کہا۔
”پھر میں اسے فون کر کے کہہ دوں کہ پاپا اس کا کام کر دیں گے۔” امبر نے ان سے کہا۔
منصور علی نے بالآخر ہتھیار ڈال دئیے۔ ”ٹھیک ہے تم اسے کہہ دو مگر ساتھ یہ بھی کہہ دینا کہ ابھی کچھ دن لگیں گے۔”
”چند دنوں کی کوئی بات نہیں’ وہ میں اس سے کہہ دوں گی۔ آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے پاپا کہ وہ کتنی خوش ہو گی۔” امبر نے خاصا مسرور ہو کر ان سے کہا۔
”مجھے اس کی خوشی کی پروا نہیں ہے۔ مجھے صرف یہ بتاؤ کہ تم تو خوش ہو ناں۔” منصور علی نے پیار سے اپنی بیٹی کے کندھے کو تھپتھپایا۔
”آف کورس…” امبر نے اپنا گال ان کے بازو پر رگڑتے ہوئے بڑے لاڈ سے جواب دیا۔
”پاپا آپ ممی سے کچھ نہیں کہیں گے۔ آپ کو یاد ہے نا؟” لاؤنج میں داخل ہوتے ہی صوفے پر بیٹھی منیزہ پر امبر کی نظر پڑی تو اس نے منصور کو یاد دلایا۔
٭٭٭
”مجھے ہارون کمال اور اس کی بیوی شائستہ دونوں بہت اچھے لگے ہیں۔” اس رات ہارون کمال کے ڈنر سے واپسی پر منیزہ نے منصور علی سے کہا۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی اپنے زیورات اتارنے میں مصروف تھی۔
”اچھے ہیں تو تمہیں ان کے ہاں لے کر گیا تھا۔” منصور علی نے کہا۔
”بہت شاندار گھر ہے ان کا۔” منیزہ کی آواز میں ستائش تھی۔
”وہ تو ہونا ہی تھا۔ ہارون کمال کوئی چھوٹا موٹا بزنس مین نہیں ہے۔” منصور علی نے لاپروائی سے کہا۔
”مجھے تو سب سے زیادہ اس کی بیوی شائستہ پر رشک آ رہا تھا۔ اگر میں اس کے بچے خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیتی تو مجھے کبھی یہ یقین نہ آتا کہ وہ اتنے بڑے بچوں کی ماں ہے۔”
”بھئی’ ساری بات خود کو مین ٹین رکھنے کی ہوتی ہے … اس نے خود کو بہت اچھی طرح مین ٹین کیا ہوا ہے۔ ہارون کمال کے ساتھ ساتھ اس کی بیوی بھی بزنس کے حلقوں میں بہت شہرت اور پسندیدگی رکھتی ہے۔ اسی لیے تو میں تم سے کہتا رہتا ہوں کہ تم بھی اپنا وزن کم کرو۔ اور خود کو کچھ فٹ اور اسمارٹ رکھنے کی کوشش کرو … ورنہ میرے ساتھ پارٹیز میں جاؤ گی تو مجھے بڑی شرمندگی ہو گی۔”
”میں اسی لیے آپ کے ساتھ کسی پارٹی میں نہیں جاتی تاکہ آپ کو شرمندگی نہ ہو۔ کم از کم میری وجہ سے اور جہاں تک وزن کم کرنے کا سوال ہے تو یہ کام میرے بس کا نہیں۔ ویسے بھی ہمارے پورے خاندان میں کوئی ایک بھی ایسا ہے جو بہت فٹ اور اسمارٹ ہو۔ کم از کم عورتوں میں تو آپ کوئی ایک نام بھی نہیں لے سکتے۔” منیزہ نے قدرے ناراضی سے کہا۔
”تو یہ کوئی بڑے اعزاز کی بات نہیں ہے۔ تم دیکھو’ میں نے بھی تو اپنے وزن کو کنٹرول رکھا ہوا ہے۔ اچھی صحت کے لیے یہ بہت ضروری ہے … تم چاہتی ہو کہ چند سال بعد تم مختلف بیماریوں کاشکار ہو جاؤ۔” منصور علی نے اسے نرمی سے سمجھایا۔
”پلیز منصور! اب مجھے کم وزن اور اچھی صحت کے بارے میں کوئی لیکچر دینا مت شروع کر دینا میں اس وقت بہت تھک گئی ہوں۔ اور کوئی لیکچر سننے کے موڈ میں نہیں ہوں۔”
”ٹھیک ہے’ میں تمہیں کوئی لیکچر نہیں دیتا۔ میں چاہتا ہوں کہ اگلے ہفتے جو ڈنر ہم ہارون کمال کو دے رہے ہیں’ وہ اتنا اچھا ہو کہ ہارون کمال متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔” منصور علی نے بات بدلتے ہوئے کہا۔
”تو یہ کون سی بڑی بات ہے’ ہم بہت اچھا ڈنر دیں گے انہیں۔” منیزہ منصور علی کی بات کے جواب میں لاپروائی سے بولی۔
”مجھے تو ویسے بھی وہ دونوں بہت اچھے لگے ہیں۔ خاص طور پر شائستہ … آپ نے دیکھا’ وہ میرے ڈائمنڈ کے سیٹ سے کتنی متاثر ہوئی تھی۔”
”خیر شائستہ اور ہارون کمال کے لیے یہ ڈائمنڈ سیٹ کوئی بہت بڑی بات نہیں ہیں۔ تم نے دیکھا نہیں تھا’ وہ خود بھی ڈائمنڈ ہی پہنے ہوئے تھی۔” منصور علی نے جتایا۔
”ہاں پہنے ہوئے تھی۔ مگر میری جیولری اس سے بہت زیادہ قیمتی اور خوبصورت تھی اور شائستہ نے میری جیولری کی تعریف بھی کی تھی۔” منیزہ اپنی بات پر اڑی رہی۔
منصور علی جواب میں صرف مسکرایا تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!