تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

”منصور علی …؟ یہ کون ہے؟”
شائستہ کمال نے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں سے ہارون کمال کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ اپنے بالوں میں برش کر رہی تھی۔ ”میں نے اس کا نام پہلے کبھی نہیں سنا۔”
ہارون کمال اپنے بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ اس کے دائیں ہاتھ کی انگلیوں میں ایک سگریٹ دبا ہوا تھا۔ وہ وقفے وقفے سے اس کے کش لے رہا تھا۔
”ہاں ۔ تم نے اس کے بارے میں پہلے نہیں سنا ہو گا۔” ہارون نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔ ”اسے پاکستان آئے ابھی چند سال ہی ہوئے ہیں۔”
شائستہ نے کچھ بے یقینی کے ساتھ اسے دیکھا۔ ”پھر تمہارے لیے وہ اتنا اہم کیوں ہو گیا ہے کہ تم اسے گھر بلانے لگے ہو۔”
”مجھے لگتا ہے’ مستقبل میں میں اس آدمی کے ساتھ بزنس کر رہا ہوں گا۔” ہارون نے سنجیدگی سے کہا۔
”کیوں اس آدمی میں ایسی کیا خاص بات ہے؟”
”چیمبر آف کامرس میں اس کا بڑا نام ہے۔ بہت اچھی ریپوٹیشن ہے اس کی اور اس کی فیکٹری کی۔” ہارون نے سگریٹ کا ایک اور کش لیتے ہوئے کہا۔
”سوواٹ … یہ ایسی خاص بات نہیں ہے … چیمبر میں بہت سے لوگوں اور ان کی فیکٹریز کی ساکھ بہت اچھی ہے … تم نے پہلے تو کسی کے ساتھ بزنس کرنے کا نہیں سوچا۔” شائستہ نے ہارون کی بات کے جواب میں کہا۔
”ہاں’ پہلے نہیں سوچا مگر اب سوچ رہا ہوں۔” ہارون کمال نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”ہارون! تمہیں کسی کے ساتھ بزنس کرنے کی ضرورت نہیں ہے… تمہیں اپنے کیریئر کی اس اسٹیج پر کسی دوسرے سہارے کی ضرورت نہیں ہے … ” شائستہ کمال نے تبصرہ کیا۔
”ہاں مجھے پتا ہے مگر منصور علی کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں کیا برائی ہے … میرے بزنس کا نٹیکٹس میں اضافہ ہو گا تو۔ فائدہ تو مجھے ہی ہو گا۔” ہارون نے شائستہ کی بات کے جواب میں کہا۔
”فائدے یا نقصان کا تو مجھے نہیں پتا۔ مگر تم اگر اسے بلانا چاہتے ہو تو بلالو … میں تو آج رات کی پارٹی میں ہونے والی چند منٹوں کی ملاقات میں اس سے کوئی خاص متاثر نہیں ہوئی۔” شائستہ نے نخوت سے کہا۔
”حالانکہ وہ تم سے بہت متاثر ہوا تھا۔” اس بار ہارون نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اس کی بات پر شائستہ بھی مسکرانے لگی۔ وہ ابھی تک اپنے بالوں میں برش چلا رہی تھی۔ ”وہ اگر متاثر ہوا ہے تو اس کی کسی حرکت’ کسی انداز سے یہ ظاہر تو نہیں ہوا۔”
”تم نے نوٹ نہیں کیا ہو گا … وہ واقعی تمہیں دیکھ کر بہت متاثر ہوا تھا بلکہ اس نے مجھ سے تمہاری تعریف بھی کی تھی۔”
”اچھا تعریف کی تھی …۔ اس کی بیوی تو خاصی بونگی عورت ہے … مجھے تو خاصی احمق لگی۔” شائستہ نے کہا۔
”خیر مجھے تو بونگی نہیں لگی’ اچھی سمجھ دار عورت ہے … ہاں بس زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ زیادہ سوشل بھی نہیں ہے۔” ہارون نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔




”ہاں وہ تو اس کے حلیے سے ہی لگ رہا تھا کہ وہ زیادہ سوشل نہیں ہے … خاصی نروس لگ رہی تھی وہاں پر۔” شائستہ نے تبصرہ کیا۔
”مجھے تو اس بات پر حیرانی ہو رہی ہے کہ تم اس شخص کی کس بات سے متاثر ہوئے ہو … ؟ تم آسانی سے متاثر ہونے والے لوگوں میں سے تو نہیں۔”
ہارون اس کی بات پر مسکرایا۔ ”نہیں خیر’ میں متاثر تو نہیں ہوا ہوں۔”
”تو پھر اس طرح ڈائریکٹ اسے پوری فیملی سمیت گھر بلانے کی کیا وجہ ہے؟”
”میں نے بتایا نا … بزنس کانٹیکٹس ۔”
”نہیں خیر۔ تم صرف بزنس کانٹیکٹس کے لیے تو کسی کو اس طرح سر پر چڑھانے والے نہیں۔”
شائستہ نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔ وہ واقعی ہارون کمال کے منصور علی کے بارے میں رویے سے کچھ حیران تھی۔ ہارون کمال نہ اتنی آسانی سے بے تکلف ہونے والے لوگوں میں سے تھا نہ ہی جلد دوست بنایا کرتا تھا اور کسی کو گھر پر دعوت پر بلانا اور وہ بھی فیملی سمیت تو بہت دور کی بات تھی مگر منصور علی کے ساتھ اس کا رویہ اسے کچھ ابنار مل لگ رہا تھا۔
”بعض دفعہ تمہیں سمجھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ہارون۔”
شائستہ نے برش کو ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے ایک گہرا سانس لیا۔ ہارون اس کی بات پر ایک بار پھر مسکرایا۔
”اچھا … ایسا کیوں ہے؟”
”یہ تو تمہیں پتا ہو گا کہ ایسا کیوں ہے … سمجھ میں تم نہیں آتے’ میں تو نہیں۔” شائستہ نے کچھ جتانے والے انداز میں کہا۔
”تمہارے منہ سے یہ بات سن کر کچھ حیرانی ہوئی ہے مجھے … بلکہ قدرے مایوسی بھی … کیونکہ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ تمہاری میرے بارے میں شادی کے اتنے سالوں کے بعد بھی یہ رائے ہو گی۔” ہارون نے کہا۔
”حالانکہ میرا خیال ہے کہ تم جان بوجھ کر بہت سی چیزوں کے بارے میں مجھے لاعلم رکھتے ہو۔” شائستہ نے اس کی بات پر کچھ چبھنے والے انداز میں کہا۔ ”اور جہاں تک مایوسی کا تعلق ہے تو میں یقین نہیں کر سکتی کہ تم ایسی معمولی بات پر مایوس ہو سکتے ہو … میرا تو خیال ہے کہ تم میری بات پر خاصے خوش ہوئے ہو گے۔” شائستہ نے اسٹول سے اٹھتے ہوئے کہا۔
”یہ تو تمہارا اندازہ یا خیال ہے … میں تو اس سے متفق نہیں۔” ہارون کمال نے ایش ٹرے میں سگریٹ کو بجھاتے ہوئے کہا۔
”تم متفق ہو یا نہ ہو میں اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں کروں گی۔” شائستہ نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ہارون نے گردن موڑ کر دوسری طرف بیٹھتی شائستہ کمال کو دیکھا۔ اسے اعتراف کرنا پڑا۔ وہ آج بھی اتنی ہی خوبصورت تھی جتنی اسے اس وقت لگی تھی جب اس نے پہلی بار اسے دیکھا تھا بلکہ وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت ہو گئی تھی … اور اب اس کا اعتماد آسمان کو چھوا کرتا تھا۔ ہارون کمال نے پچھلے دس پندرہ سالوں میں اسے مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا تھا … وہ اتنی بدل گئی تھی کہ اب ہارون کمال کو بھی بعض دفعہ بہت محتاط ہو کر اس سے بات کرنا پڑتی تھی … وہ شادی کے وقت کی ڈری سہمی شائستہ نہیں رہی تھی جسے ہر وقت یہ خوف ستاتا رہتا کہ اگر ہارون نے اسے چھوڑ دیا تو کیا ہو گا … اس کے والدین اسے قبول کریں گے یا نہیں۔ وہ زندہ کیسے رہے گی … بلکہ وہ رہے گی کہاں …؟ بہت عرصہ ہوا۔ وہ ان سوالوں کی گرفت سے نکل آئی تھی۔ اب ان میں سے کچھ سوال ہارون کمال کو پریشان کرتے تھے مثلاً یہ کہ اگر شائستہ کمال نے اسے چھوڑ دیا تو کیا ہو گا …؟ اس کے بزنس پر پڑنے والے اثر کو وہ کیسے کوراپ کرے گا … اس کے سوشل کانٹیکٹس کا کیا بنے گا …؟ وغیرہ وغیرہ۔
اگر ہارون کمال کے پاس دماغ تھا تو شائستہ کے پاس حسن تھا اور اس نے گزرنے والے سالوں میں اپنے حسن کو استعمال کر کے یہ بات غلط ثابت کر دی تھی کہ ذہانت اور خوبصورتی میں اہمیت اور فوقیت ذہانت کو ہوتی ہے۔
ہارون کمال کی بزنس ایمپائر کو قائم کرنے میں اگر ہارون کمال کی ذہانت اور دولت کا ہاتھ تھا تو دوسری طرف شائستہ کمال کا بھی ہاتھ تھا۔ اس نے ہارون کمال کے لئے اتنے راستے کھولے اور اتنی راہیں آسان کی تھیں کہ ہارون شمار بھی نہیں کر سکتا تھا … اور ہارون نے کبھی شمار کرنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی … بس یہ تھا کہ جب بھی اسے کوئی دروازہ بند ملتا’ وہ شائستہ کو کھل جاسم سم کی طرح استعمال کرتا اور وہ دروازہ کھل جاتا۔
یہ بات ہارون کمال اپنی شادی سے بہت پہلے جان چکا تھا کہ جسے حلقے میں اسے موو کرنا تھا وہاں ایک ”سوشل” بیوی کی کیا اہمیت تھی … جس آدمی کی بیوی جس قدر سوشل ہوتی’ اس آدمی پر ترقی کے اتنے ہی دروازے کھلتے …
شائستہ کمال نے کسی سحرزدہ معمول کی طرح ہمیشہ وہی کیا تھا جو ہارون نے اسے کرنے کے لیے کہا … ہر چیز سے بے پروا ہو کر … کسی بھی نتیجہ کی فکر کیے بغیر۔
باقر شیرازی کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی اس کی موت کے بعد ختم ہو گئی تھی۔ اگر باقر شیرازی اس طرح اچانک نہ مرتا تو شاید شائستہ ہارون سے علیحدگی کا سوچتی اور عین ممکن تھا کہ وہ علیحدہ ہو بھی جاتی مگر باقر شیرازی کی موت کے بعد ہارون کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے میں خود ہارون کے اپنے رویہ کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ ہارون نے اس سے اپنے پچھلے رویہ اور حرکتوں کے لیے معذرت کی تھی اور شائستہ نے اسے خوش دلی سے معاف کر دیا تھا۔
وہ دونوں ایک بار پھر بہت اچھی زندگی گزارنے لگے تھے اور اس بار ہارون اس سے اپنے سلوک کے بارے میں بہت محتاط ہو گیا تھا’ وہ شائستہ کو کھونا نہیں چاہتا تھا یا کم از کم ابھی اس اسٹیج پر نہیں’ جہاں وہ تھا … اور باقر شیرازی کے ساتھ شائستہ کے افیئر کے بعد پہلی بار اس نے یہ سوچا تھا کہ اگر اس کے رویے سے دل برداشتہ ہو کر شائستہ نے کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی کر لی تو … ؟ یہ اس کے لیے ایسا دھچکا اور ہزیمت ہوتی جسے برداشت کرنے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ شائستہ کے معاملے میں یک دم بہت محتاط ہو گیا تھا۔
بعد کے آنے والے سالوں میں شائستہ اس کے لیے واقعی سونے کی چڑیا ثابت ہوئی تھی۔ وہ بڑے بڑے سرکاری آفیسرز اور سیاست دانوں کے ساتھ گھومتی پھرتی … اور ہارون کمال کے لیے راستے ہموار کرتی … اسے اپنی کسی حرکت یا رول پر کوئی شرمندگی نہیں تھی جس سوسائٹی میں وہ موو کر رہی تھی’ وہاں تقریباً ہر عورت اسی قسم کا رول کر رہی تھی … زیادہ تر افیئرز وہ ہارون کمال کے لیے چلاتی مگر کچھ صرف خود کو خوش رکھنے کے لیے۔
باقر شیرازی کے بعد بھی اس کی زندگی میں بہت سے ایسے مرد آئے جنہوں نے اسے شادی کی آفر کی مگر شائستہ کمال نے کبھی ایسی کسی پیشکش پر غور نہیں کیا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ محبت نہیں تھی جو ان مردوں کو یہ آفر کرنے پر مجبور کر رہی تھی بلکہ وہ صرف اسے استعمال کرنا چاہتے تھے بلکہ اسی طرح جس طرح ہارون استعمال کر رہا تھا۔ ان میں سے کسی بھی مرد کے ساتھ شادی کرنے کے بعد بھی اسے وہی رول ادا کرنا تھا جو وہ اب کر رہی تھی تو پھر یہ حماقت کیوں … جبکہ وہ ہارون کے ساتھ بہت اچھی زندگی گزار رہی تھی۔ وہ اُس کی واحد بیوی تھی۔ اس کے بچوں کی ماں تھی … اس کی جائیداد کا ایک بڑا حصہ اس کے نام تھا۔ پھر وہ کسی دوسرے ادھیڑ عمر سرکاری افسر یا سیاست دان کی دوسری یا تیسری بیوی کیوں بنتی … اور شاید وہ ایسا کر بھی لیتی اگر اسے اس شخص سے محبت ہوتی مگر اسے ہارون اور باقر شیرازی کے علاوہ کبھی کسی تیسرے شخص سے محبت نہیں ہوئی۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!