تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۵

”میں مدد کرنا چاہ رہا تھا آپ کی۔” اس نے جیسے وضاحت کی۔
”مدد کس لیے کرنا چاہ رہے تھے آپ؟” اس لڑکی نے قدرے ترشی سے کہا۔ وہ اس کے اس جملے پر کچھ گڑبرا گیا۔
مدد کیوں کرنا چاہ رہا تھا … ؟ اس کا کیا جواب دوں’ مدد کس لیے کی جاتی ہے۔” اس نے جواباً سوال کیا۔
”متاثر کرنے کے لیے۔” اسی روانی سے جواب آیا۔
”کیا آپ ہر پارٹی میں اسی طرح پلیٹس سرو کرتے پھرتے ہیں لڑکیوں کو؟”
اس آدمی کے چہرے پر ایک لحظہ کے لیے ایک رنگ آ کر گزر گیا۔ لڑکی کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس نے کہا۔
”میرا نام ہارون کمال ہے؟”
”اچھا پھر …؟” لڑکی نے اسی تندی و تیزی کے ساتھ کہا۔
”پھر کچھ نہیں۔” اس بار ہارون اس کے انداز پر ہنس پڑا وہ اس کے ہنسنے پر کچھ جزبز ہوئی۔
”وزیٹنگ کارڈ نہیں دیں گے آپ مجھے’ اصولی طور پر تو یہ آپ کا اگلا اسٹیپ ہونا چاہیے۔” ہارون اس بار اس کی بات پر مسکرایا۔
”نہیں’ میں آپ کو وزیٹنگ کارڈ نہیں دوں گا۔ مگر آپ کا وزیٹنگ کارڈ ضرور لینا چاہوں گا۔” ہارون نے اپنی بات کے جواب میں اسے سردمہری سے اپنے آپ کو سر سے پاؤں تک دیکھتے دیکھا اور پھر کچھ کہے بغیر وہ آگے بڑھ گئی۔
ہارون کمال وہیں کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا۔ کسی معمول اور مسحور کی طرح۔ وہ بے حد مرعوب تھا’ اس لڑکی کے ہر انداز میں عجیب قسم کی تمکنت اور بے نیازی تھی۔ پلیٹ بڑھانے کی وہ عنایت یقینا اس کے لئے نئی نہیں تھی۔ وہ ایسی نوازشات کی عادی رہی ہو گی’ اسی لیے وہ فوری طور پر اس قدر برہم ہو گئی تھی مگر اس کی برہمی نے ہارون کو کچھ اور مرعوب کیا تھا۔ وہ اسے ہنستے ہوئے دیکھ چکا تھا اور اب اس نے اسے غصے میں بھی دیکھ لیا تھا’ وہ ہر حال میں پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لینے والا انداز رکھتی تھی۔
وہ اسے دور جاتے ہوئے دیکھتا رہا’ اس کے کندھوں سے کچھ نیچے تک پھیلے ہوئے گھنے سیدھے اور سلکی بال اس کے قدموں کی ہر حرکت کے ساتھ ہلکورے لے رہے تھے۔ دائیں بائیں اوپر نیچے’ ہارون کمال نظر ہٹا نہیں پارہا تھا۔ ہر ہلکورے کے ساتھ اس کا دل کسی ان دیکھی گرفت کاشکار ہو رہا تھا’ یہ وہی جادو تھا جو سرچڑھ کر بولتا تھا یہ وہی جادو تھا جس کے لیے امبر منصور علی مشہور تھی۔
٭٭٭




منصور علی نے حیرت بھری مسکراہٹ کے ساتھ اپنے سامنے کھڑے ہارون کمال کو دیکھا’ کچھ دیر پہلے انہوں نے بلال وحیدی کے تعارف کے بعد ہارون کمال کے اندازو اطوار سے اس کے بارے میں جو اندازہ لگایا تھا’ وہ ایک دم انہیں غلط محسوس ہوا تھا۔ وہ یقینا اتنا ریزرو یا مغرور نہیں تھا جتنا وہ مشہور ہو چکا تھا۔
چیمبر میں ہارون کمال کے بارے میں ہمیشہ رشک آمیز انداز میں بات کی جاتی تھی۔ وہ نئے آنے والوں کے لیے ایک رول ماڈل سمجھا جاتا تھا’ بیس سال سے بھی کم عرصہ میں وہ ایک کے بعد ایک فیکٹری بناتا گیا تھا اور اس کی ہر فیکٹری منافع دے رہی تھی اور یہ ساری فیکٹریز وہ صنعتی یونٹ تھے جو حکومتی تحویل میں مسلسل خسارے کی وجہ سے بند پڑے تھے یابند ہونے والے تھے۔ اس کا خاندان ملک کے چند امیر ترین گھرانوں میں شامل تھا مگر سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ بے تحاشا روپیہ اور اثرورسوخ کے باوجود ہارون کمال نے کبھی چیمبر کی سیاست میں انوالو ہونے کی کوشش نہیں کی تھی۔ حالانکہ پچھلے کئی سالوں سے دونوں گروپ اسے اپنی طرف کھینچنے اور امیدوار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ دونوں سے ہی معذرت کر لیتا تھا۔
چیمبر کا عہدے دار بننے کے بعد وہ حکومت سے جو مراعات لے سکتا تھا وہ ویسے ہی لے رہا تھا۔ چیمبر سے اس کی بے نیازی کا یہ حال تھا کہ وہ چیمبر کی میٹنگز میں بھی بہت ہی کم شریک ہوتا تھا۔
اور اب وہ آدمی منصور علی کے سامنے کھڑا مسکراتے ہوئے بڑی خوش دلی کے ساتھ اسے اپنے گھر میں اگلے ہفتے ہونے والی ایک پارٹی میں مدعو کر رہا تھا۔
”ضرور کیوں نہیں’ میں آؤں گا’ آپ کے ساتھ مراسم بڑھانا اچھا لگے گا مجھے۔” منصور علی نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس کی دعوت قبول کرتے ہوئے کہا۔
”میں صرف آپ کوانوائیٹ نہیں کر رہا آپ کی پوری فیملی کوانوائیٹ کر رہا ہوں’ آپ کی وائف اور بچوں سب کو۔” ہارون کمال نے منصور علی پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”میری خواہش ہے کہ ہمارے فیملی ٹرمز ہوں۔ صرف میں آپ کو یا آپ مجھے نہ جانیں بلکہ دونوں فیملیز ایک دوسرے کو جانیں۔”
منصور علی کی مسکراہٹ اس کے جملے پر کچھ گہری ہو گئی’ ہارون کمال جیسے آدمی کے ساتھ فیملی ٹرمز رکھنا کیا معنی اور اہمیت رکھتا تھا’ یہ وہ اچھی طرح جانتے تھے’ چیمبر میں ان کی پوزیشن اور ساکھ یک دم اور بڑھنے والی تھی اور وہ ایسے مواقع کبھی نہیں گنواتے تھے۔
”ضرور میں اپنی فیملی کے ساتھ ہی آؤں گا۔ اور میں چاہوں گا کہ اس پارٹی سے پہلے آپ ہمارے ہاں اپنی فیملی کے ساتھ ڈنر پر آئیں۔” منصور علی نے جوابی دعوت دیتے ہوئے کہا۔
”نہیں’ فی الحال میں یہ دعوت قبول نہیں کروں گا۔ پہلے تو آپ ہی کو آنا پڑے گا۔” ہارون کمال نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”کیونکہ پہلے میں نے آپ کوانوائیٹ کیا ہے۔ ہاں اس کے بعد ہم لوگ ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے رہیں گے۔”
منصور علی نے بڑی خوش دلی کے ساتھ اس کی بات مان لی۔
”ٹھیک ہے اگر آپ کا اصرار یہ ہے تو ایسا ہی سہی۔ ہم ہی پہلے آ جائیں گے۔ آئیں میں آپ کو اپنی بیوی سے ملواؤں۔” منصور علی نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا’ جہاں منیزہ بلال وحیدی کی بیوی کے ساتھ کھڑی تھیں۔ ہارون کمال نے سر کو خم کیا اور ان کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔
”آج رات ہر لحاظ سے ایک اچھی رات ہے۔” منصور علی نے سوچا اور انہیں یاد آیا کہ آج صبح انہوں نے سب سے پہلے امبر کو دیکھا تھا’ جس نے صبح صبح انہیں جگا کر کالج جانے سے پہلے چند ہزار ان سے لیے تھے۔ وہ فخریہ انداز میں مسکرائے وہ بچپن سے ان کے لیے خوش قسمتی کا باعث بنتی رہی تھی۔ اردگرد نظر دوڑاتے ہوئے انہوں نے بہت دور ایک کونے میں اسے دیکھا اور پدرانہ شفقت سے مسکرا دیے۔ وہ واقعی ان کے تاج کا سب سے نمایاں اور خوبصورت ہیرا تھی۔
ہارون کمال نے منصور علی کی نظروں کا تعاقب کیا’ اس کی نظریں بھی وہیں ٹھہری تھیں جہاں منصور علی کی نظر ٹھہری تھی۔ اس نے ستائشی نظروں سے ایک بار پھر امبر کو دیکھا اور مسکرا دیا۔
”ہر اچھی اور منفرد چیز صرف میرے پاس ہونی چاہیے اور فوراً ہونی چاہیے۔” وہ ہر چیز کے بارے میں اس قدر بے صبرا نہیں تھا’ صرف اس چیز کے بارے میں ہوتا تھا جو اسے ضرورت سے کچھ زیادہ اچھی لگنے لگتی اور آج کی رات اسے امبر منصور علی اچھی لگی تھی۔
اور ہارون کمال وقت ضائع کرنے کا قائل نہیں تھا۔ وہ رسک لینے سے بھی نہیں ڈرتا تھا۔ بیس سالوں میں ترقی کی اس سیڑھی پر وہ ان ہی دوخوبیوں کی وجہ سے سب سے اوپر جا کھڑا ہوا تھا۔
منصور علی اپنے ساتھ چلتے ہوئے ہارون کمال کے بارے میں سوچ رہے تھے’ آخر اس شخص کے پاس وہ کون سے گر ہیں کہ یہ کبھی ناکام نہیں ہوتا’ جس چیز کو وہ ہاتھ لگائے وہ سونا بن جاتی ہے۔’ وہ ان باتوں کے بارے میں سوچ رہے تھے جو اگلے کچھ ہفتوں میں وہ ہارون کمال کی بزنس اسٹریٹجیز (حکمت عملی) کے بارے میں اس سے کرنے والے تھے۔
ہارون کمال ان کے ساتھ چلتے ہوئے ابھی بھی امبر منصور علی ہی کو دیکھ رہا تھا۔
”میں آپ کی وائف سے ملنا چاہوں گا۔” وہ منصور علی کی بات پر چونکا۔ انہوں نے بالکل اچانک ہی اسے مخاطب کیا تھا۔
”کیا ؟”
”میں آپ کی وائف سے ملنا چاہوں گا… کیا وہ آپ کے ساتھ آئی ہیں؟” منصور علی نے ایک بار پھر اپنی بات کچھ اضافے کے ساتھ دہرائی’ ہارون کمال نے بہت گہری نظروں کے ساتھ منصور علی کو دیکھا اور مسکرا دیا۔ عجیب سے انداز میں اس نے کہا۔
”ہاں ‘ وہ یہاں آئی ہیں۔ آپ سے نہیں ملیں گی تو کس سے ملیں گی۔” منصور علی نے ہارون کمال کی بات سنی اور مسکرا دیے۔
”ہارون کمال واقعی بہت بااخلاق انسان ہے۔” انہوں نے سوچا۔
٭٭٭
”خیریت تو ہے آج تمہارا ”سایہ” تمہارے ساتھ نظر نہیں آ رہا؟” سونیا نے امبر کو اکیلے اپنی طرف آتے دیکھ کر کہا۔ امبر نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ رخشی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
”اکیلے اس نے تمہیں چھوڑ کیسے دیا۔ وہ تو تمہیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑتی خاص طور پر ہم لوگوں کے پاس آتے ہوئے۔” سونیا نے طنز کرنا جاری رکھا۔
”تم اپنی فضول باتیں بند نہیں کر سکتیں؟” امبر نے ترشی سے کہا۔
”تمہارا مطلب ہے کہ میں اپنا منہ بند کر لوں؟”
”ہاں’ میرا یہی مطلب ہے۔”
”تاکہ تم رخشی … کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کرو۔ جس سے اس کی شان میں فرق آتا ہو اور جو تمہیں ناگوار گزرے’ ہے نا؟” سونپا نے اسی انداز میں بات جاری رکھی۔ ”چلو ٹھیک ہے کر لیتی ہوں منہ بند’ تم بھی کیا یاد کرو گی۔؟ ویسے تم آج اکیلی نظر کیسے آ رہی ہو؟”
وہ غلط بھی نہیں تھی۔ رخشی کالج میں پورا وقت امبر کے ساتھ ہوتی تھی اور شاذو نادر ہی اسے کبھی اکیلا چھوڑتی تھی۔
”رخشی آج کالج نہیں آئی۔” امبر نے اسے بتایا۔
”اوہ … تب ہی … میں بھی کہوں کہ کالج میں تو وہ تمہیں اس طرح اکیلا نہیں چھوڑ سکتی۔” سونیا نے سیٹی بجانے کے انداز میں ہونٹ سکوڑتے ہوئے۔مگر اس بار امبر نے اس کے تبصرے پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ بلکہ اس نے قدرے سنجیدگی سے کہا۔
”پتا نہیں وہ آئی کیوں نہیں’ اس طرح وہ اچانک تو چھٹی کبھی بھی نہیں کرتی۔ اور پھر کل تک تو اس کا کوئی ارادہ بھی نہیں تھا ورنہ مجھے بتا ہی دیتی۔” وہ اب قیافے اور اندازے لگانے میں مصروف تھی۔
”کوئی بات نہیں امبر منصور علی! اگر ایک دن وہ بنا بتائے کالج سے غیر حاضر ہو گئی ہے تو یہ کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے۔ کوئی آسمان سر پر نہیں ٹوٹ پڑا۔ آپ خاطر جمع رکھیں۔ وہ کل تشریف لے آئیں گی۔’ اس بار حفصہ نے سونیا والے انداز میں اس سے کہا تھا۔
”کبھی ہمارے بارے میں بھی اس طرح پریشانی کا اظہار کر دیا کریں’ جس طرح آپ ان محترمہ کے بارے میں پریشانی کا اظہار فرما رہی ہیں۔” امبر کو غصہ آ گیا۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیا تمہارے نہ آنے پر نہیں پوچھتی میں؟”
”مگر اس طرح تو کبھی نہیں پوچھتیں جس طرح اس کے بارے میں پوچھ رہی ہو۔” حفصہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔
”تم لوگوں نے اگر اسی طرح کی باتیں جاری رکھیں تو میں یہاں سے چلی جاؤں گی۔” امبر نے انہیں دھمکایا۔




Loading

Read Previous

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۴

Read Next

تھوڑا سا آسمان — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!