تو ہی تو کا عالم

” اس میں کوئی شک! داد ، دو میرے انتخاب کی۔میں نے سب سے انمول چیز چنی۔“

” جی اس میں تو کوئی شک نہیں مگر پاپا پاکستان تو….“

شہرام کچھ کہتے کہتے رک جاتا۔ پھر فوراً کان سے موبائل تھوڑا دور کر لیتا کیوں کہ یوسف خان، حسبِ توقع غصے سے اونچی آواز میں بولنا شروع ہو گئے تھے ۔ پاکستان کی محبت میں ، دی قربانیوں سے لے کر اس کی ایک ایک خوبی کو فخریہ بیان کرتے ، وہ شہرام کو بہت معصوم اور سیدھے سے لگتے تھے ۔کسی بچے کی طرح جو اپنی من پسند چیز کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا ہو۔

”کیوں اپنے باپ کا بی پی ہائی کرتے ہو شہرام! پتا بھی ہے کہ ڈاکٹر نے انھیں زیادہ سڑیس لینے سے منع کیا ہے ۔“

مما ایسے مواقع پر اکثر انٹری دیتیں اور اپنے لاڈلے بیٹے کو ، دل عزیز شوہر کی محبت میں جھاڑ دیتیں۔

” اچھا سوری! آیندہ نہیں کروں گا۔ مان لیا کہ آپ کاپاکستا ن سب سے اچھا ہے ۔ اب خوش!“ شہرام باپ کو بہلاتا۔

”تمہارے ماننے کی ضرورت ہی کسے ہے۔کبھی سورج کو بھی کسی نے چراغ دکھایا ہے؟ تم ابھی ان باتوں کو نہیں سمجھوگے مگر وہ وقت بھی دور نہیں جب تم اس مٹی سے کیے گئے وعدے سے بندھے بھاگے چلے آﺅ گے۔“

یوسف نے بہت یقین سے کہا تھا ۔ شہرام دل ہی دل میں ہنس پڑا۔اس کے سامنے راستے بہت واضح اور روشن تھے ۔ وہ سوچ چکا تھا کہ اسے آگے کہاں تک جانا ہے ۔پاکستان میں فلم بنانے کا مطلب اپنی کشتی آپ ڈبونا تھا جس کے لیے وہ تیار نہیں تھا ۔ان دنوں وہ ایک انٹرنیشنل لیول کی فلم بنانے کی تیاریوں میں مگن تھا جب اسے ایک اندوہناک اطلاع ملی۔

” یوسف خان اور ان کی مسز کا روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا۔“

یہ قیامت تھی جو ان سب پر ٹوٹی۔ وہ سب والدین کی زندگی میں تو واپس نہیں آئے مگران کی موت پر ضرور آئے تھے ۔ شہرام کی حالت سب سے زیادہ خراب تھی ۔ اس کا اپنے باپ سے رشتہ صرف باپ بیٹے کا نہیں تھا۔ وہ اس کے بہترین دوست بھی تھے۔بہترین راہنما بھی ،رازداں بھی اور ہم نوا بھی۔ شہرام اپنی ہر بات ان سے شیئر کرتا تھا ۔ اس کے نئے پروجیکٹ کے بارے میں بھی وہ سب کچھ جانتے تھے اور اسی کو دیکھ کر یوسف خان نے اس سے وعدہ لیا تھا کہ وہ اپنے ملک ،پر ایک انٹرنیشنل لیول کی فلم ضرور بنائے گا۔ شہرام نے وعدہ کیا تھا اور آج جب اس کے والدین کو مرے ایک مہینے سے بھی زیادہ ہوگیا، تو وہ بے یقین سا، گم صم بیٹھا ان کے خالی کمرے کو دیکھتا رہتا۔

” یہ پاپا جان کا بیڈ، ان کی اسٹک ، ان کا لیپ ٹاپ جس پر وہ ہر وقت آن لائن رہتے اور اس سے رابطے میں ہوتے تھے ۔ ان کا موبائل ، وائلٹ اور پین …. “

کتنی ہی چیزیں ایسی تھیں جو شہرام کو باندھے رکھتے تھیں۔جب اس کے بڑے بھائیوں نے اپنے ساتھ اس کے واپسی کے ٹکٹ بھی کنفرم کروانے چاہے ۔یوسف خان اپنی زندگی ہی میں ان سب میں اپنی جائیداد تقسیم کر چکے تھے۔ اس لیے اب ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا جس پر وہ لڑتے یا کسی الجھن کا شکار ہوتے ۔یوسف خان کی فیکٹری اور یہ گھر شہرام کے نام تھے ۔اب یہ شہرام کی قسمت تھی کہ کاروبار میں دن رات منافع ہوا تھاجو یوسف ، جوائنٹ اکاﺅنٹ میں جمع کرواتے رہتے اور اکثر شہرام پر زور دیتے

”پاکستان آکر اپنا کام سنبھالو،نہیں تو منافع میں سے کچھ نہیں ملے گا۔“

” ایک شرط پر ….“ شہرام چالاکی سے کہتا۔

”وہ کیا؟“ یوسف خان اسے گھورتے ہوئے پوچھتے ۔کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ان کا سپوت ، الٹی کھوپڑی کا مالک ہے۔

”میں ان سارے پیسوں سے فلم بناﺅں گا۔“ شہرام چہرے پر معصومیت طاری کرتے ہوئے کہتا مگر لیپ ٹاپ کی اسکرین پر بھی یوسف خان اس کی لائٹ براﺅن آنکھوں میں چمکتی شرارت کو بہ خوبی جان جاتے تھے۔ اسی لیے اطمینان بھرے لہجے میں کہتے۔

” اس سے بہتر ہے کہ میں تمہیں اپنی تما م منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد سے عاق کر دوں۔“

آج گزرے وقت کویاد کرتے ہوئے شہرام کی آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ تب ہی اس نے رات ڈنر کے بعد سب کو اپنے حتمی فیصلے سے آگا ہ کیا۔

” میں نے فیصلہ کر لیا ہے ۔میں پاکستان میں ہی رہوں گا۔اپنے پاپاجان کے پیارے ملک میں۔ان کی خواہش کے مطابق!“

شہرام کے فیصلے پر سب نے بہت تنقید کی۔ اسے ہر طرح سے سمجھایا، ڈرایا۔ یہاں کے حالات کی بری تصویر دکھائی ۔ اس کے شاندار مستقبل کے خواب ، اس کا کیرئیر سب ادھورا رہ جانے کا کہا مگر شہرام ٹس سے مس نہ ہوا۔سب اس کی کم عقلی کا ماتم کرتے، افسردہ دل سے واپس چلے گئے ۔ان کے جانے کے بعد شہرام اس بڑے سے گھر میں اکیلا رہ گیا۔

” کچھ رشتے ، اپنی زندگی ، اپنی خواہش سے بڑھ کرپیارے اور مضبوط ہوتے ہیں۔ ایسا ہی رشتہ پاپاجان کا اس مٹی سے تھا اور میرا اُن سے۔آپ نے ٹھیک کہا تھا پاپاجان۔ وعدے کی زنجیر ، سمندر پار سے بھی کھینچ لیتی ہے اور مجھے بھی آپ سے کیا وعدہ نبھانا ہے۔“

شہرام نے ایک عہد دل میں دہرایا تھا اور باقی کے سال اسی عہد کو نبھانے میں گزارنے لگا۔ وہ جو بھی کرتا، اس میں اپنے ملک سے محبت اور سلامتی کا پیغام بہت واضح ہوتا تھا۔

٭….٭….٭

خان زادہ احمد کی شادی روایتی دھوم دھام سے انجام پائی۔عائشہ کے آنے سے بڑی حویلی سج گئی تھی ۔ وہ باادب بھی تھی اور معصوم بھی۔ خان زادہ احمد تو عائشہ کا دیوانہ تھا ہی مگر ساتھ ساتھ وہ سب کی بہت لاڈلی اور دل عزیز بھی بن گئی۔ دن پر لگا کر اڑ رہے تھے ۔

ہر سو خوشیاں ہی خوشیاں تھیں ۔ عائشہ جو ابھی ا س ما حول میں پوری طرح ایڈجسٹ بھی نہیں ہوئی تھی ۔اچانک پڑنے والی آزمائش نے اس کی ساری ہستی کو ہلا کر رکھ دیا ۔ان ہنستے مُسکراتے پلوں کی چلمن سے، دکھ اور غم کی گہری شام نے آنگن میں ڈیرا ڈال لیا ۔

اچانک خان زادہ احمد پُراسرار بیماری کا شکار ہو کر بستر سے لگ گیا۔ اس کی بیماری جسے پہلے معمولی سمجھا گیا ۔ بڑھتے بڑھتے خان زادہ احمد کو اتنا لا غر کرگئی کہ وہ اٹھنے، بیٹھنے سے بھی معذور ہو گیا۔ روپے ، پیسے کی کمی نہیں تھی ۔ بڑے سے بڑے ڈاکٹرز سے علاج چلتا رہا مگر خان زادہ احمد صحت یاب ہونے کے بجائے ، مزید کمزور ہوتا گیا۔ وہ حویلی جہاں ابھی اس کی خوشیوں کے پھول ٹھیک سے کھلے بھی نہیں تھے ، غم کی تیز آندھی سے ہر پھول مرجھا کر رہ گیا۔عائشہ جس نے ابھی احمد کی محبت میں سانس لینا سیکھا ہی تھا ،اس کی پراسرار بیماری اور تکلیف سے سہم کر رہ گئی ۔نوربانو اس کی حالت سمجھتی تھیں اس لیے اکثر اسے تسلی دیتی رہتی تھیں مگر خود اندر سے ان کا دل بھی خشک پتے کی طرح لرزتا رہتا۔مریم اور آمنہ بھی بھائی کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگتی اور نفل ادا کرتی تھکتی نہیں تھیں۔ خان زادہ شمشیر جس کے پاس لوگ اپنی تکلیف اور بیماری کی شفا کے لیے آتے تھے ، اپنے بیٹے کی تکلیف کے آگے بے بس اور مجبور ، رب کی بارگاہ میں سر جھکائے کھڑا تھا ۔

اس کی زبان پر یہ شکوہ آتے آتے رک جاتا….

” میں نے کون سا ایسا فعل سر انجام دیا ہے کہ تیری اتنی سخت آزمائش کا حق دار ٹھہرا ہوں۔“

سفید کپڑے میں لپٹے وجود کی تیز ہوتی حرکت اور اس کے رونے کی آوازیں آج بھی ان کے کانوں میں اوّل روز کی طرح گونجتی تھیں ۔ جیسے کسی نے ہمیشہ کے لیے اسے سماعت اور بینائی پر ثبت کر دیا ہو۔

ان کا دماغ آج بھی فخر سے کہتا تھا کہ

” جو ہوا ، اچھے کے لیے ہوا۔“

مگر ان کا ضمیر خاموشی کی بکل مارے ، کبھی کبھی سر اٹھاتا ، اپنی تیز نظروں سے گھورتا اور پھر تیز لہجے میں پوچھتا:

” کیا یہ تیرا ایمان ہے جو رب کے صادر کیے فیصلوں سے لڑتا ، جھگڑتا اور اسے غلط قرار دیتا ہے۔“

”ارے نادان! رب بھی اپنے منکروں کی رسی وہاں تک ہی دراز کرتا ہے ،جہاں تک مناسب سمجھتا ہے ۔ و ہ سب دیکھتا ہے ۔ وہ سب سنتا ہے ، مگر خاموش رہتا ہے کہ اُس ذات کی خاموشی ، دنیا کی ہر بولی ، ہر زبان سے زیادہ جان دار اور معنی خیز ہے ۔ پھر وہ ذات کُن کہتی ہے اور فیکون کا عمل شروع ہو جاتا ہے ۔“

” چل بنا لے اپنی دنیا، اپنی سمجھ کے مطابق ، اپنی سوچ کے مطابق ۔“

اب بول ….!

تیری کون سی حاجت تجھے اس کے دربار پر بھکاری بنا کر لے آئی۔ اپنے نفس کا فقیر ہوتا تو بلندی پاتا۔

اپنی حاجت کا بھکاری بنا ہے ، تو دھتکار اور ذلت تیرا مقدر ہے ۔

سب اپنی اپنی خواہش اور طلب کے مطابق ، اپنا اپنا حاصل چن لیتے ہیں۔

وہ ذات اتنی مہربان ہے کہ سب کو وہی دیتی ہے جو جو اس نے خود اپنے لیے چُنا۔

چاہے رضا اور بندگی کی بلندیاں ہوں ۔

یا اپنے اپنے گھمنڈاور تکبر کی پستیاں ہوں۔

وہ ذات سب دیتی ہے اور تماشا دیکھتی ہے۔

سب اپنی اپنی ذات کے تماشاگر ہیں۔

اور وہ سب سے بڑا تماشائی۔

کون ہے جو اُس کی طرح ، دیکھے ، سمجھے ، جانے، چاہے۔

وہ ذات یکتا ہے۔

وہ ذات واحد ہے۔

وہ ذات اپنے محبوب کی اُمت پر اتنی مہربان ہے کہ دوسری قوموں کی طرح ، ان کے گناہوں اور غلطیوں پر ، انھیں صفحہ ¿ ہستی سے نہیں مٹا دیتی ۔جب اُس کے محبوب حضرت محمد ﷺ، اپنی امت کے لیے زاروقطار، موتیوں جیسے آنسوﺅں میں ساری ساری رات روئے ہیں، تو وہ ذات اپنے محبوب کے آنسوﺅں کی لاج کیسے نہ رکھے۔

خان زادہ شمشیر ساری ساری رات ، اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑا ، آنسوﺅں سے اپنی خطائیں مٹانے کی کوشش میں روتا اور تڑپتا تھا ۔ پچھلے گزرے چھے مہینوں میں جب وہ اپنی طرف سے کی ہر کوشش میں پوری طرح ناکام ہو گیا، تو اس کے اندر اپنی ہی ذات کے تکبر سے بنا بت پاش پاش ہو گیا تھا ۔ اسے لگتا تھا کہ وہ اپنے رب کی شدید ناراضی کا مرتکب ٹھہرا ہے ۔کئی سال پہلے اس نے اپنی طاقت اور رتبے کے زور پر ایک معصوم اور ننھی جان کو کس بے دردی اور سفاکیت سے اپنی زندگی سے نکال کر بے دخل کر دیا تھا اور کسی اجنبی کی گود میں ڈال کر کہا تھا کہ

” اس رات کی تاریکی میں اسے یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور لے جاﺅ۔ چاہے تو کسی یتیم خانے کے دروازے پر پھینک دینا ، نہیں تو کسی بھی کوڑے دان میں ۔“

ان الفاظ پر سامنے والا بھی لرز کر رہ گیا تھا جس کی گود میں بچہ بے چینی سے رو رہا تھا ۔ وہ اجنبی شخص اسے اپنی چادر میں چھپا کر وہاں سے نکل آیا ۔ خان زادہ شمشیر نے اطمینان کی سانس ایسے لی جیسے کسی بہت بڑی مصیبت سے جان چھٹی ہو۔

”پھر اللہ نے بیٹے اور بیٹیوں سے آنگن آباد کر دیا، تو خان زادہ شمشیر کی ذات میں بنا تکبر کا بت، اونچاسے اونچا ہوتا گیا ۔ ہر چیز اس کی مرضی اور پسند کے مطابق تو تھی ۔ جیسا وہ چاہتا تھا۔“

”مگر پھر اس کو دی گئی مہلت ختم ہوتے ہی ، رسی کو ایک جھٹکا دیا گیا، تو وہ پہلے ہی جھٹکے میں منہ کے بل زمین پر گرا اور تب اسے خدا بہت شدت سے یاد آیا اور اسے لگا کہ اتنے سال اس نے صرف اپنے رب کے احکامات کو سرانجام دیا تھا ۔ اسے محسوس نہیں کیا تھا ۔ آج بے بسی کی انتہاﺅں پر روتا ، سر پٹختا تھا، تو اسے ایسے لگتا تھا کہ اس کے رونے اور سر پٹخنے سے زیادہ کسی ا ور کے رونے کی آواز بلند ہے۔

”وہ معصوم اور کمزور آواز ، آج اس کے کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی اوراسے لگتا تھا کہ اس ننھی آواز کی وجہ سے رب تک ، اس کی فریاد نہیں پہنچ رہی۔“

وہ طاقت ، ہمت رکھتے ہوئے آج دنیا کے سامنے لاچار اور بے بس تھا۔

پھر جسے اس کالی رات میں ، اس نے دربدر کیا تھا وہ تو بہت کمزور اور ناتواں تھا۔

دنیا کے تیز بہتے ریلے کا سامنا اس نے کیسے کیا تھا؟

کیا بھی تھا یا نہیں ؟

”جب اسے کوڑے دان پر پھینکا گیا، تو اس کے نازک اور ننھے جسم کو نوچنے اور اپنے تیز تیز دانتوں سے کترنے والے چوہوں نے اس کے جسم کا کتنا حصہ گھائل کیا تھا ؟ کیا وہ ننھی سی جان اس تکلیف اور اذیت کو سہ پائی تھی یا نہیں۔“

”یا جب اس ننھی سی جان کو کسی یتیم خانے کے دروازے پر چھوڑا ہو گا، تو اس نے کتنے سرد اور بے مہر لمحے ، ٹھنڈے فرش پر ایڑیاں رگڑتے گزارے ہوں گے۔ کیا کسی کے دیکھ لینے تک وہ زندہ رہا تھا یا سسک سسک کر اس رات مر گیا تھا؟“

خان زادہ احمد ان کی اپنی پیدا کی ہوئی اولاد تھی ، تو وہ بھی یہ حق رکھتا تھا۔

اپنے رب کے حکم اور مرضی سے۔

پھر کوئی انسان کیسے اس کا یہ حق چھین سکتا تھا۔

مگر خان زادہ شمشیر نے یہ سرزنش کی تھی ۔

اب ان کی منتوں ، مرادوں ، صدقہ ، خیرات کی فہرست طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی تھی ۔

ان کی حویلی سوئے ہوئے محل کی طرح ہو چکی تھی ۔جہان ہر سو خاموشی اور اُداسی کا راج تھا ۔خاموش لبوں پر مچلتی دعائیں اپنی مستجابی کے لیے ہر روز آسمان تک سفر کرتی تھیں مگر ہنوز قبولیت کے درجے سے دور تھیں۔اس اعصاب شکن جنگ نے ، سب کو ذہنی طور پر مفلوج کردیا اور خان زادہ شمشیر بھکاری بن کر سب سے اپنے بیٹے کی شفایابی کی دعا مانگتا درباروں ، خانقاہوں کے چکر پر چکر کاٹنے لگا۔اسی طرح دوسال گزر گئے۔

٭….٭….٭

ایڈم پچھلے ایک گھنٹے سے جم میں مختلف قسم کی ورزشیں کرنے میں مصروف تھا۔جم کا کوچ ایڈم کا پرانا واقف کار اور دوست بھی تھا۔ یہ جم اس کے بار کلب کی پہلی منزل پر تھا ۔اسی بار کلب میں جولین ویٹرس کا کام کرتی تھی۔ایڈم کی عمر بتیس سال کے قریب تھی ۔اس کا امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس تھا جو ایشیا کے کئی ممالک میں پھیلا ہوا تھا ۔اس کے علاوہ وہ امریکا میںبہت سے پٹرول پمپ کا مالک بھی تھا۔ دولت اس کے گھر میں دن رات برستی تھی ۔ اس کے سرکل میں اس کا نام بہت عزت اور احترام سے لیا جاتا تھا ۔ اس کے حلیے سے ہرگز نہیں لگتا تھا کہ وہ اتنا ذہین اور کامیاب انسان ہے۔اگر پہلی نظر میں اسے دیکھا جاتا، تو وہ جدید دور کے ترقی پسند اور فیشن کے دلدادہ ، کھلنڈرے سے لڑکے کا تصور ذہن میں ابھرتا تھا۔

اس نے اپنے سلکی براﺅن بالوں کو کندھوں تک بڑھایا ہوا تھا ۔ اس کی پونی اس کی پشت پر اکثر نظر آتی تھی ۔ لباس میں و ہ جدید یت کا قائل تھا ۔ ہر برانڈ کے نئے سے نئے انداز کے کپڑے زیب تن کرنا اسے بہت پسند تھا ۔اس کافیشن کبھی بھی تنقید یاتضحیک کا نشانہ نہیں بنا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس طرح کا فیشن اپناتا جو اس کی شخصیت سے میل کھائے ۔

اس کا قد تقریباً چھے فٹ کے قریب تھا اور مسلسل کئی سال باقاعدگی سے جم جانے سے اس کی باڈی بہت مضبوط شیپ میں آگئی تھی۔اس کے بازو کے مسلز بہت سے لوگوں کو رشک وحسد میں ڈال دیتے تھے ۔آفس میں وہ اکثر پیشتر ڈریس پینٹ شرٹ ہی پہنتا او رعام دنوں کی طرح کلائی میں رنگ برنگ بینڈز کے بجائے ، مہنگی گھڑی باندھی ہوتی تھی۔ چہرے پر ہلکی ہلکی ڈاڑھی، جو کبھی تو بڑھی ہوتی اور کبھی مناسب تراش خراش سے سجی ہوتی مگر وہ کبھی بھی کلین شیو نہیں رہا تھا ۔

وہ اپنے جدید اپارٹمنٹ میں بہت شان سے ، کئی سالوں سے اکیلا ہی رہتا تھا ۔ اس کی فیملی میں اور کون کون تھا اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا اور نہ ہی کبھی اس نے اس بارے میں کوئی ذکر کیا تھا۔ اس کے سرکل میں لوگوں کو اس بات سے کوئی سروکار بھی نہیں تھا ۔

وہ کون تھا ؟ کیا تھا ؟ کیسا تھا؟ ایسی باتوں میں پڑے بغیر سب اپنے اپنے مطلب کی ڈور سے بندھے اس کے گرد گھومتے رہتے تھے ۔

ایڈم اکثر سوچتا تھا کہ

” بے شک میرے پاس لوگوں کا بے پناہ ہجوم ہوتاہے مگر ان میں سے ایسا کوئی بھی نہیں جو کسی طلب اور ضرورت کے بغیر صرف میرے لیے ہو۔ وہ سب کی نظروں میں امیر ترین اور خوش نصیب شخص تھا مگر خود وہ اپنی نظروں میں دنیا کے ہر رشتے سے محروم اور بے نیاز تھا ۔ شاید اسی لیے وہ شادی جیسے کسی بندھن میں بندھنے کا قائل ہی نہیںتھا۔

وہ خوبصورت چہروں ، جسموں اور آنکھوں کو سراہتا تھا، دیکھتا تھا ۔

اپنی مرضی اور پسند کا وقت ان کے ساتھ گزارتا ۔

ان کے ساتھ گھومتا ، پھرتا ، ڈانس فلور پر کمر میں ہاتھ ڈالے جھومتا۔

زندگی کا ہر طرح کا لُطف اٹھاتا۔اونچے اونچے قہقہے لگاتا۔

پیسہ شراب کے ساتھ ساتھ بہاتا۔

نشے میں دھت ،وہ جب بار سے نکلتا، تو اس کے لڑکھڑاتے قدموں میں مستی نہیں ہوتی تھی بلکہ عجیب سی شکست اور بے بسی کا احساس ہوتا جو اس کے ہر قدم کے ساتھ ساتھ واضح محسوس ہوتا ۔ دنیا کا کوئی نشہ بھی اسے ہوش و خرد سے بیگانہ نہیں بناتا تھا ۔ کچھ ایسا تھا جو اس کے سب حواس ہمیشہ بحال رکھتا تھا ۔ اس کی آنکھوں کی تیز ہوتی سرخی میں ایک اذیت ، ایک یاد کا درد، ایک پرچھائیں کی چاپ ہمیشہ محسوس ہوتی تھی۔

وہ اپنی ذات کی تہ در تہ کسی پرت میں چھپا تھا۔

جہاں وہ اتنا ہی اکیلا اور تنہا تھا ، جتنا آسمان پر بسنے والا اس کائنات کا خالق۔

وہ خالق کائنات اپنی بادشاہت کا بے تاج بادشاہ ہے ۔

جب کہ وہ اپنی ذات کی پستیوں سے شرمندہ ،اپنے ہی اندر کہیں چھپ کر بیٹھا تھا ۔

ایڈم خود سے ہم کلام نہیں ہوتا تھا وہ جو بھی تھا دنیا کے سامنے تھا ۔ اپنے لیے ، اپنی ذات کے لیے وہ منکرین میں شامل تھا ۔

”اس نے خود کو قبول نہیں کیا تھا ،وہ خود سے بات نہیں کرتا تھا۔“

”وہ خود سے لپٹ کر نہیں رویا تھا،وہ خود سے مل کر کبھی نہیں ہنسا تھا۔“

”اسے خو د سے کوئی غرض یا طلب نہیں تھی۔“

”اور دنیا میں سب سے مشکل کام ، خود سے نظر ملانا، خود سے بات کرنا ہوتا ہے ۔دنیا سے نظریں ملانا ، جھوٹ بولنا ، دھوکا دینا بہت آسان ہوتا ہے ۔“

”بس خود کے ساتھ جھوٹ بولنا،خود کو دھوکا دینا انگاروں پر چلنے کے مترادف ہوتا ہے اور وہ تو انگاروں پر چلتا چلتا یہ بھول ہی گیا تھا کہ نرم زمین ، نرم مٹی بھی پیروں کا مقدر ہوتی ہے۔“

عجیب سیلانی طبیعت کا مالک تھا ، ہر کام میں ٹانگ اڑانے والا ، ہر رسک لینے والا۔

مگر کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے اچھی طرح سے اس کے تمام پہلوﺅں کا جائزہ لیتا، ریسرچ ورک کرتا،پھر پوری لگن اور جنون کے ساتھ کام کی ابتدا کرتا اور جب تک مکمل نہ کر لیتا ، چین سے نہیں بیٹھتا تھا۔ وہ اپنے کام میں پرفیکشن کا قائل تھا اور ایسی ہی ٹیم بھی چنتا تھا جو اس کے ساتھ،اسی سوچ اور لگن کو لے کر چل سکے مگر اکثر ایسا ہوتا کہ اسے ایسے سر پھرے لوگ بہت کم ہی ملتے تھے ۔

”ایڈم کو آرٹ سے بہت دلچسپی تھی جو فیشن انڈسٹری سے ہوتی ہوتی ،فلم میکینگ تک پہنچ گئی۔ اس نے اسی شوق میں کچھ کورسزاور ڈپلومے بھی کیے پھر کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر فلم میکینگ کا کاکام شروع کر دیا۔ ٹیم چھوٹی ہونے کی وجہ سے زیادہ سرمایہ ، ایڈم ہی لگاتا تھا۔ یہ سب کچھ وہ اپنے شوق کی بنیاد پر کر رہا تھا۔اسی لیے اسے نفع یا نقصان کی پروا بھی نہیں تھی مگر پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس فیلڈ کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور ہو گیا۔“ اسے لگتا تھا کہ دو اور دو چار بنانے کے چکر میں وہ ساری زندگی، اپنے اندر کی آوازوں سے بے خبر رہے گا۔بزنس اس کی ضرورت ضرور تھی مگر اس کی اندرونی تسکین اور سکون اس میں نہیں تھا ۔ اس کے لیے اسے مختلف قسم کے تجربات کرنے تھے۔ وہ آرٹسٹ تو تھا نہیں جو کینوس پر اپنے خوابوں اور ادھوری خواہشوں کے رنگ پینٹ کرتامگر بڑی اسکرین پر دوڑتے ، بھاگتے منظروں نے اسے سوچوں کے نئے انداز سکھائے ۔ اسے لگا کہ وہ اپنے اندر کی سوچوں اور خواہشوں کو بڑے پیمانے پر لوگوں کے سامنے لا سکتا ہے ۔وہ اس فیلڈ میں زیادہ سے زیادہ تجربات کر سکتا ہے۔

اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس نے اپنے کام کو بڑے پیمانے پر لانے کا فیصلہ کر لیا اور اسی جستجو میں دن رات ایک کردیے۔

٭….٭….٭

”کیا تم آج بھی فارینہ کی یک طرفہ محبت میں مبتلا ہو؟“

پارٹی میں شہرام کو الگ تھلگ ، بیزار بیٹھے دیکھ کر انصب نے پا س آ کر درشت لہجے میں پوچھا۔ وہ شہرام کا بہت قریبی اور دیرینہ دوست تھا ۔ اُس کے سب حالات و واقعات سے واقف۔ شہرام جس نے اکیلے، اپنے دم پر آج اپنا ایک مقام بنایا تھا اور جب وہ کامیابی اور شہرت کی بلندیوں پر تھا ، تو اس کا یک دم بے دل اور بیزار کن رویہ اس کے روز مرہ کے معاملات کے ساتھ ساتھ اس کے کام پر بھی اثر انداز ہو رہا تھا۔شہرام کے کولیگز مبشر اور احمد کی طرح انصب کو بھی یہ ہی لگتا تھا کہ شہرام فارینہ کی محبت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ہر نئی لڑکی کو ریجیکٹ کر رہا ہے ۔وہ اپنے الوژن کا شکار ہے ۔ ہر چہرے میں اسی کا چہرہ تلاش کرنے کی خواہش میں وہ پچھلے تین سال سے اس فلم کو لیے بیٹھا ہوا تھا ۔

” انصب …. تم بھی۔“

شہرام نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر افسردہ سا ہوگیا۔ انصب اس کے سامنے والی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا اور میز پر اپنے دونوں بازو رکھتے ہوئے، شہرام کے وجیہہ چہرے کو گھورتے ہوئے بولا:

” تو اور کیا سمجھوں؟ تم جانتے ہو آج وقت ، شہرت اور پیسہ تمہارے ساتھ ہیں مگر ضروری نہیں کہ یہ تینوں کل بھی تمہارے پاس رہیں۔ تمہارا یہ رویہ ، تمہیں اور تمہارے کام کو مشکوک بنا رہا ہے۔ آج جو لوگ تمہارے پیچھے پیچھے کام لینے کو پھرتے ہیں ، کل ایسا نہ ہو کہ تم ان کے پیچھے ہو اور وہ تمہیں لفٹ نہ کروائیں۔“

انصب نے اسے تصویر کا دوسرا رُخ دکھایا اور شہرام اسے دیکھتا رہ گیا۔

” اس سب میں فارینہ کا ذکر کہاں سے آگیا؟“ شہرام نے سنجیدگی سے پوچھا۔

” یہ سب اسی کی وجہ سے ہوا ہے۔ وہ ہی اصل وجہ بنی تم لوگوں کے درمیان اختلاف کی۔اتنی تیز لڑکی تھی کہ بیک وقت تم دونوں کو الو بناتی رہی ، اسی کے جوگ کو لیے وہ خاموشی سے منظرِ عام سے ہٹ گیا اور اس کے کچھ عرصے بعد وہ بھی اچانک روپوش ہوگئی ۔ رہ گئے تم…. جس نے اس کی ےاد اور محبت کا روگ آج تک دل میں چھپایا ہوا ہے اور آگے بڑھنے سے انکاری ہو۔اگر یہ سب جھوٹ ہے، تو مجھے بتاﺅ کہ فارینہ کے جانے کے بعد ، تم نے خو د کو ایک جگہ کیوں روک لیا ہے؟ یہ تمہارا ڈریم پروجیکٹ ہے جو تمہیں شہرت اور کامیابی کے آسمان پر لے جائے گا۔ تمہارے نام کو ہمیشہ کے لیے امر کر دے گا اور اسی کی تکمیل میں تم اتنے لاپروا اور بے زار ہو کہ جیسے….“

انصب غصے میں بولتا بولتا ہانپنے لگا۔ آج کافی دنوں بعد اسے شہرام سے بات کرنے اور دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ملا تھا۔شہرام نے گلاس میں پانی ڈالا اور اس کی سامنے رکھا، توانصب نے اسے گھورا۔ جو اب میں وہ مُسکرا نے لگا۔انصب نے پانی کا گلاس اٹھایا اور ایک ہی گھونٹ میں خالی کر دیا۔

” ہاں اب بتاﺅ۔کیا کہنا ہے؟“ انصب نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے اطمینان سے پوچھا۔

” فارینہ سے محبت اپنی جگہ مگر تم خود ایمانداری سے سوچو کہ اس جیسا چہرہ اور صلاحیتکیا عام ہے؟یہ تو تم بھی مانو گے کہ وہ خوب صورتی اور فن کا مکمل سراپا تھی ۔ اب تم اسے میری بد قسمتی یا اس کی خوش قسمتی کہہ لو کہ مجھے اب تک ویسا کیا ، اس سے ملتا جلتا چہرہ اور باصلاحیت ہی نہیں ملا۔تم جانتے ہو کہ یہ میراڈریم پروجیکٹ ہے اور اس کے لیے مجھے ہر چیز مکمل اور بہترین چاہیے۔ اسی لیے کام میں دیر ہوتی جارہی ہے ۔ رہ گئی بات میرے کام کی تو تم شاید بھول گئے ہو کہ یونی انٹرٹینمنٹ کے اشتراک سے پچھلے دو سالوں میں میری دو فلمیں اندرونِ اور بیرونِ ملک سینما گھروں کی زینت بن چکی ہیں اور وہ بھی بہت اچھے بزنس کے ساتھ مگر یار میں مارکیٹ میں کچھ الگ ، کچھ بہت منفرد کام سامنے لانا چاہتا ہوں ۔ وہی ایک جیسے چہروں اور کہانیوں کے ساتھ نہیں ۔ پلیز اب تم اپنے دل سے سب وہم نکال دو۔ فارینہ سے میری خاموش محبت کو بار بار الزام دے کر مجھ تکلیف مت پہنچاﺅ۔میں اسے بھول نہیں سکتا مگر پھر بھی اسے بھولنے کی کوشش کر رہا ہوں۔“

شہرام نے سنجیدگی سے کہا، تو انصب خاموشی سے اسے دیکھتا رہ گیا۔جیسے اس کی بات میں سچ اور جھوٹ کا تناسب جانچ رہا ہو ۔ پھر کچھ دیر بعد بولا۔

” میں جانتا ہوں کہ تم مجھ سے جھوٹ نہیں بولو گے مگر پھر بھی میرا دل تمہارے لیے پریشان ہے۔میں تمہیں بہت مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں مگر نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ محبت تمہارے وجود کی دیمک بن گئی ہے۔تمہیں اندر سے کمزور بنا رہی ہے اور اگر ایسا نہیں ہے، تو تم اپنی طرف بڑھنے والے کسی بھی ہاتھ کو تھام سکتے ہو۔ پھر یہ روگ کیوں ؟ یہ جوگ کس لیے؟“

انصب کی باتیں سن کر شہرام گہری سانس لے کر رہ گیا۔جیسے اسے سمجھانا مشکل ہو گیا ہو۔

” یار محبت وجود کی دیمک نہیں ہوتی بلکہ محبت میں جدائی ، دیمک بن کر آہستہ آہستہ، اندر ہی اندر کھانے لگتی ہے۔ میں مبتلائے محبت ضرور ہوں مگر منکرِ محبت نہیں ۔“

تم جانتے ہو محبت میں منکر ہونا ، نہ صرف اس کی توہین ہے بلکہ یہ اپنی ہی ذات ، اپنے آپ کی نفی کرنے، دھتکارنے کے برابر ہے ۔آپ جس جذبے سے پہلی بار آشنا ہو کر زمین سے آسمان تک کا سفر لمحوں میں طے کرتے ہیں جو جذبہ آپ کو محبت کی آفاقی سچائی پر یقین لانے، الہام کے اترنے، جسموں کے بندھن سے آزاد کر کے روح کے تعلق کی نوعیت اور اہمیت سکھا دے ، تم خود ہی سوچو کہ اس کا انکار کیا اپنی ذات ، کا شرک ہی نہیں ہے؟میری محبت کا جو تار اس کی روح سے بندھا تھا، وہ آج بھی جدائی کے موسم میں، یاد کے سروں سے بجتااور محبت کے نغمے سناتا ہے۔ شاید دنیا کی ہر آواز ،ہر ساز کو چپ کروایا جا سکتا ہے مگر اپنے دل کی آواز، اپنے دل میں بجتے سازوں کو خاموش کروانا کبھی بھی آسان نہیں رہا۔“

شہرام کی آنکھوں میں محبت کے رنگ بہت گہرے تھے ۔

” اچھا خیر چھوڑو ان باتوں کو، مجھے لگتا ہے کہ انسان کسی چیز کے آگے بے بس اور مجبور نہیں ہے سوائے اپنی تقدیر کے….!“ شہرام نے مضبوط لہجے میں کہا۔

” جانتا ہوںمگر تم یہ بھی مان لو کہ اگر تمہاری تقدیر اور تمہاری محبت ایک دوسرے کے متصادم ہوں، تویہ جنگ کتنی تباہی لاتی ہے۔ تمہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہے میرے دوست۔“ انصب نے کہا تو شہرام سر جھٹک کر رہ گیا۔



” فکر مت کرو بہت جلد تمہیں اچھی خبر ملے گی۔مجھے اپنی فلم کے لیے ہیروئن مل گئی ہے اور بہت جلد شوٹنگ شروع ہونے والی ہے۔“

شہرام نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا ۔کیونں ہ اب انصب اس کے طرف جارحانہ تیور لیے بڑھ رہا تھا۔

” تیری تو….اتنی دیر سے میرا دماغ خالی کروا دیا ۔میں سمجھا کہ میرا دوست کسی پریشانی اور مصیبت میں گرفتا ر ہے اور یہاں صاحب…. مجھے ہی بے وقوف بنا رہے تھے ۔“

انصب نے شہرام کی طرف دیکھتے ہوئے ، دانت پیسے۔ شہرام ہنستے ہوئے جیسے ہی پلٹا کسی سے ٹکرا گیا۔وہ بھی اپنے دھیان میں تھی ۔ سیدھا اس کے چوڑے سینے سے آ لگی ۔پھر ایک دم ہی گڑبڑا کر پیچھے ہٹی،شہرام بھی جھینپ سا گیا ۔جب کہ انصب کا قہقہہ بہت اونچا تھا جس پر اس حسینہ نے بہت ناگواری سے اس کی طرف دیکھا۔

” سوری مس! غلطی میری تھی۔“ شہرام نے مو ¿دب لہجے میں کہا مگر ساتھ ہی انصب کو گھوری بھی ڈالی۔

” نہیں مجھے بھی دیکھ کر چلنا چاہیے تھا مگر یہاں کافی بدتہذیب لوگ موجود ہیں۔“

اس حسینہ نے تیز نظروں سے انصب کو گھورا، تو وہ بھی اس کے لفظوں پر تڑپ اٹھا۔

” او ہیلو مس! بد تہذیب کس کو کہا؟“ انصب کڑے تیوروں کے ساتھ بولا۔

” جس نے زیادہ محسوس کیا ، اسے ہی کہا تھا۔بائے دا وے میرا نام عانیہ ہے ،تمیز سے میرا نام لیں۔“ اس نے بھی تڑاق سے جواب دیا۔

”ایک منٹ مس عانیہ ! آپ کو جو تکلیف پہنچی اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں ۔ امید ہے کہ آپ نظرانداز کر دیں گی ۔“

شہرام نے دونوں کے بگڑتے تیور دیکھتے ہوئے فوراً کہا، تو عانیہ ایک دم ہی رک کراس کی طرف متوجہ ہوئی اور پھر اثبات میں سر ہلاتی ، انصب کی طرف دیکھ کر منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتی وہاں سے پلٹ گئی ۔

”دیکھا ! یہ مجھے گالی دے کر گئی ہے۔“ انصب نے تڑپ کر کہا، تو شہرام نے مسکرا کر اس کے طرف دیکھا۔

” میں نے تو نہیں سنا کچھ بھی ایسا۔“

” منہ سے بھلے نہ کہا ہو مگر اس کے تاثرات تو ایسے ہی تھے نا۔“ انصب نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

” تم نے بھی تو بد تہذیبی کا مظاہرہ کیا تھا ۔ اس لیے اب بھگتو۔“ شہرام نے ایک نظر دور تک ہنستے مسکراتے ، لوگوں پر ڈالی اور اپنے میزبان سے مل کر وہاں سے باہر نکل آیا۔انصب بھی اس کے ساتھ ساتھہولیا۔

” کوئی بات نہیں اگلی بار ملے تو سہی۔“ انصب نے خود کلامی کی۔ شہرام نے گاڑ ی کا دروازہ کھولتے ہوئے اس کی طرف دیکھا ۔

” اچھا تو جناب دور تک کا سوچ رہے ہیں۔“ شہرام نے شرراتاً کہا، تو انصب بھی مُسکرا کر اسے دیکھنے لگا۔

٭….٭….٭

” سنا ہے کہ ایک بہت پہنچے ہوئے بابا جی ہیں جو کسی دور کے قصبے میں رہتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ان کی دعا میں بہت اثر ہے ۔میری مانیں تو خان زادہ احمد کوان کے پاس لے جائیں ۔“

اماں رحیمہ نے گم صم سی بیٹھی نوربانو سے کہا جو خاموش نظروں سے اماں رحیمہ کے بوڑھے چہرے کی طرف دیکھنے لگی۔ پھر گہری سانس لے کر بولی۔

” اماں رحیمہ آپ سے کیا چھپا ہوا ہے؟خان صاحب نے کون سی درگاہ ، کون سا مزار چھوڑا ہے جہاں جا کر ، اپنے بیٹے کے لیے دعا نہ کی ہو۔ صدقہ ، خیرات جو جو کسی نے کہا ، ہم نے سب کیا مگر خان زادہ احمد کی حالت ٹھیک ہونے کے بجائے روز بہ روز بگڑتی جا رہی ہے ۔“

نوربانو کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔اماں رحیمہ بھی افسردہ ہوگئیں۔

” ٹھیک کہتی ہیں آپ بی بی ۔ بڑے خان نے کوئی کمی نہیں چھوڑی ۔ بس آگے جو بھی اللہ کو منظور ہو۔“

اماں رحیمہ نے دوپٹے کے پلو سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔ کچھ دیر دونوں ہی چپ بیٹھی اپنے اپنے خیالوں میں گم رہیں ۔ جب اس خاموشی کو نوربانو کی بہت ہلکی اور سرگوشی جیسی آوازنے توڑا۔

” اماں رحیمہ آپ کو وہ ننھے اور گلابی ہاتھ پاﺅں والا بچہ یاد ہے جس کے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کے پاس کالا تل تھا ۔“

آپ نے تو اسے گود میں اٹھایا تھا ۔ سینے سے لگایا تھا ۔

”اماں رحیمہ اس کا لمس، اس لمس کی ٹھنڈک کیا تھی؟میری ممتا آج بھی اس کے لیے پیاسی ہے۔ ایک بار اسے چھونے ، اس چومنے ، اسے سینے سے لگانے کے لیے اندر ہی اندر تڑپتی ،اپنی ہی آگ میں جل رہی ہے ۔“

”اماں رحیمہ! ہم عورتیں بظاہر کتنی بھی طاقتور اور خود کو مضبوط ظاہر کریںمگر اپنی فطرت اور حساسیت کی وجہ سے ہمیشہ رشتوں کے ترازو میں تولی جاتی ہیں ۔ہمیں کتنی آسانی سے مختلف خانوں ، مختلف رشتوں میں تھوڑا تھوڑا کر کے بانٹ دیا جاتا ہے ۔کبھی ماں باپ کے مان اور محبت کے خانے میں ، تو کبھی بھائی کی غیرت اور عزت کے ترازو میں،تو کبھی غیر لوگوں کے سپرد کر کے خوشیوں بھری زندگی کی دعا دے کر رخصت کر دیا جاتا ہے ۔ وہ عورت اپنے مجازی خدا کو اپنا بنانے کے لیے ہر وقت آزمائش کی آگ میں جلتی، قربانی دیتی رہتی ہے ۔حتیٰ کے اپنی اولاد کی بھی۔مجازی خدا کا ہر حکم سر آنکھوں پر مگر اماں رحیمہ دنیا کا کوئی مرہم ، کوئی تریاق ایسا نہیں بنا ہے جو ممتا پہ لگے زخموں کو بھر سکے۔میرا وقت تو جیسے تیسے گزر گیا۔ اولاد کا سکھ اور میوہ بھی چکھ لیا۔ بیٹے اور بیٹیوں کا سکھ بھی پا لیا۔ میرے دکھ کا کسی نہ کسی طرح ازالہ تو ہوگیا مگر وہ کیا کرتا ہو گا؟“

”کیا اس کو بھی ماں باپ جیسے رشتے ملے ہوں گے؟ “

”کیا کسی نے اس کے سر پر نرمی اور محبت سے ہاتھ پھیرا ہو گا؟“

”کیا اس نے باپ کی شفقت ، باپ کی قربانی دیکھی ہو گی؟“

”کیا وہ فخر سے یہ کہتا ہو گا کہ ماں انمول تحفہ ہے رب کا۔“

”کیا وہ ماں کی عظمت کا قائل ہو گا؟“

”کیا وہ خون کے رشتوں پر اعتبار کرتا ہو گا؟“

نہیں نا!….“

”وہ دنیا میں ویسے ہی آیا ، جیسے حکمِ ربی تھا۔“

”وہ ہمارے حسنِ سلوک، نرمی اور محبت کا مستحق تھا نا۔“

”پھر….“

”ہم نے اسے دھتکار کر یہ سکھایا کہ خدا کا فیصلہ غلط تھا؟“

”ہم نے اسے بے اعتبار ، بے یقین کیا۔“

”جب خدا، اُ س سے اس کی بے یقینی ، ناامیدی ، بد اعمالیوں کی وجہ پوچھے گا، تو وہ کہے گا کہ اس کے ذمے دار وہ لوگ ہیں ، جنہوں نے پیدا ہوتے ہی اسے زمانے کے ر حم و کرم پر چھوڑ دیا۔“

”یعنی ہم جو بھی کر لیں ہماری یہ کوتاہی ہمیں اپنے رب کی ناراضی کا مستحق قرار دے گی۔“

”کیا خان زادہ احمد کی یہ پراسرار بیماری اسی بات کی طرف اشارہ تو نہیں ۔“

اماں رحیمہ نے نور بانو کے پاس آ کر اس کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا۔جیسے اسے حوصلہ دے رہی ہو۔ وہ دونوں کتنی ہی دیر بے آواز روتی رہیں ۔ نہ جانے کتنی دیر ایسے ہی گزر گئی ۔ جب اماں رحیمہ کو اچانک کچھ یاد آیا اور وہ پُرجوش ہو کر بولی ۔

” نور بی بی میرے رشتے کی بہن نے ایک سائیں کے بارے میں بتایا ہے ۔آپ کو شاید یاد ہو کہ میں اکثر ذکر کرتی تھی کہ اس کا بیٹا کئی سالوں سے بہت بیمار ہے اور اسے کہیں سے بھی شفا نہیں مل رہی تھی ۔بہت ڈاکٹری علاج بھی کروایا تھا مگر کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ بس اللہ نے اس سائیں کو وسیلا بنا کر بھیج دیا۔ اس سائیں کی دعا سے اس کا بیٹا بہت جلد صحت یاب ہوگیا۔

اس نے احمد بابا کے بارے میں سنا،تو خاص طور پر میرے پاس آئی کہ ایک بار انہیں سائیں کے آستانے پر ضرور لے جائیں ۔ویسے بھی تو بڑے خان زادہ نے کوئی در نہیں چھوڑا، ایک بار اسے بھی آزما کر دیکھ لیں ۔ وہ سائیں کسی سے کچھ نہیں لیتے۔ بس دعا دیتے ہیںمگر میری بہن بتا رہی تھی کہ اس کے آستا نے پر ہر وقت لوگوں کا بے تحاشا ہجوم لگا رہتا ہے ۔ہر وقت لنگر جاری رہتا ہے اور سب سے دل چسپ بات….“

اماں رحیمہ نے کچھ لمحوں کا توقف کیا ۔نوربانو نے بے چینی سے اس کے چہرہ کی طرف دیکھا۔

” وہ سائیں کسی سے کچھ نہیں لیتا ہے ۔ سارا دن محنت مزدوری کرتا ہے اور جو بھی کماتا ہے اس سے لنگر چلاتا ہے ۔ حالاں کہ اس کے خادم بننے کے لیے بھی بہت سے لوگ تیار ہیں ۔ اس کے چاہنے والے ، مرید بھی بہت ہیں مگر وہ سختی سے سب کو منع کرتا ہے کہ دعا کے علاوہ وہ کسی کے لیے کچھ اور نہیں کرے گا۔اس کی دعا کی تاثیر کے بڑے بڑے قصے مشہور ہیں ۔ آپ بڑے خان زادہ سے بات کر لیں۔ مجھے امید ہے کہ اس با ر ناامیدی کا منہ نہیں دیکھنا پڑے گا۔“

”خان زادہ شمشیر….“

نور بانو کے لب آہستہ سے ہلے۔ نہ جانے کب سے خان زادہ شمشیر پیچھے کھڑے ان دونوں کی باتیں سن رہے تھے ۔ ان کا سُرخ چہرہ ان کی اندورنی حالت کی خبر دے رہا تھا۔ اماں رحیمہ نے بھی فورا ًمڑ کر دیکھا اور اپنی جگہ کھڑی ہو گئی۔

” نوربانو ! پچھتاوے کی جس آگ میں آپ جل رہی ہیں، وہ آگ ہمارا بھی دل جلا کر راکھ کر چکی ہے۔ آپ کی طرح ہم بھی روز اسی سود و زیاں کے حساب سے گزرتے ہیں۔ مگر کہہ نہیں سکتے کیسے کہہ دیں کہ….“

خان زادہ شمشیر کا لہجہ نم تھا۔نور بانو تڑپ کر رہ گئی۔

” میرا مطلب یہ نہیں تھا کہ….“

”اماں رحیمہ ! ہم اس سائیں کے پاس ضرور جائیں گے۔آپ تیاری کریں۔ شاید ایسا ہی کوئی وسیلا ، ہماری معافی کا ذریعہ بن جائے۔“

خان زادہ شمشیر کہتے ہو ئے واپس پلٹ گئے۔اماں رحیمہ اور نوربانو ایک دوسرے کی طرف دیکھتی رہ گئیں۔

٭….٭….٭

© ©” آپ نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے ۔ انڈین موویز کی بہت ڈیمانڈ ہے دنیا بھر میں ۔ انڈین فلم انڈسٹری بہت بڑی ہے اور اگر آپ یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہ رہے ہیں، تو بہت ہی سمجھ داری اور عقل مندی کا فیصلہ ہے۔“

ایڈم اس وقت اپنے کچھ کولیگز کے ساتھ آرٹ اینڈ فلم سٹوڈیو آیا تھا ۔جہاں نئے پرانے اور تجربہ کار ، باصلاحیت لوگوں کاہجوم ہر وقت لگا رہتا تھا ۔ وہ اپنے جس دوست کے ریفرنس سے ، شاطر آنکھوں اور چھوٹے قد کے مالک کمار سے ملا تھا ۔وہ انڈین انڈسٹری میں بہت عرصے سے کام کر رہا تھا ۔ اس کا کا م تو کوئی خاص نہیں تھا مگر وہ تعلقات بنانے اور فلم ڈسٹر بیوشن میں مہارت رکھتا تھا اور ایڈم جیسے ہی کسی رئیس زادے کی گھات میں تھا۔ جن کے پاس پیسہ تو بہت ہوتا تھا مگر معلومات اور راہنمائی نہ ہونے کے برابر۔ اسی وجہ سے وہ اپنا بہت سارا روپیہ ، پیسہ آسانی سے کمار جیسے اژدھا کے منہمیں ڈال دیتے تھے۔

اس وقت کمار کو ایڈم اپنے تازہ شکار کے ماند لگ رہا تھا اور وہ اس کے سامنے بچھا جا رہا تھا۔ایڈم نے اس کی بات توجہ سے سنی اور پھر مُسکراتے ہوئے بولا۔

” آپ کی بات اپنی جگہ درست مگر ایک مسئلہ ہے۔“

” کمار دیو کے پاس سب مسئلوں کا حل موجود ہے ۔“ کمار دیو نے ناک سے مکھی اڑاتے ہوئے کہا۔

ایڈم گہری سانس لے کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔

” میں فلم میکینگ میں نئے نئے تجربات ، نئے نئے موضوعات کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں اور سب سے اہم بات کہ….“

ایڈم سانس لینے کو رکا۔

” یہ کون سی بڑی بات ہے ۔ بس آپ حامی بھریں ۔ بالی وڈ فلم انڈسٹری آپ کوخوش آمدید کہنے کے لیے بے قرار ہے۔“

کمار دیو کی آنکھوں میں شاطرانہ چمک تھی۔

” بہت شکریہ مگر میں یہ تجربہ آپ کے پڑوسی ملک پاکستان کی فلم انڈسٹری میں کرنا چاہتا ہوں۔“ ایڈم نے کہا، تو کمار حیرت سے آنکھیں پھاڑے اس کی طرف دیکھنے لگا۔جیسے اس کے منہ سے نکلے لفظوں پر یقین نہ آرہا ہو۔

” کیا کہا آپ نے پاکستان؟ ہاہاہاہاہا….“ کمار اپنی بے ساختہ ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا ۔کافی دیر بعد اس کی ہنسی تھمی ۔

” شاید آپ کو پتا نہیں کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ آپ کا نالج اس بارے میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔“ کماردیو کا لہجہ استہزائیہ تھا۔

” میں نے آپ سے کب مشورہ مانگا ہے کہ مجھے وہاں کام کرنا چاہیے یا نہیں۔“ ایڈم نے سرد لہجے میں کہا، تو کمار دیو فوراً سنجیدہ ہو گیا۔

” نہیں میرا مطلب یہ نہیں تھا ۔“ کمار نے کچھ کہنا چاہا۔

”میرے خیال سے آپ پہلے ہی کافی وقت لے چکے ہیں میرا۔“ایڈم نے سختی سے کہا اور اپنے کولیگز کو اشارہ کرتےہوئے وہاں سے پلٹ گیا۔

” ایکسکیوزمی سر!اگر آپ برا نہ مانیں تو مجھے آپ کے صرف پانچ منٹ چاہئیں۔“

ایک خوب صورت اور وجیہہ لڑکے نے اس کا راستہ روکا تھا ۔ ایڈم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

وہ لڑکا شکل سے ایشین لگ رہا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں کچھ کرنے کا عزم بہت واضح تھا۔ ایڈم نے ایک سرسری نظر میں اسے اندر تک پرکھ لیا تھا۔

” معذرت میں ان صاحب کے ساتھ آپ کی گفتگو سن چکا ہوں ۔ ویل ان صاحب کی طرح میرے لیے بھی یہ بہت حیران کن ہے کہ آپ اپنا قیمتی وقت اور پیسہ ایسی جگہ لگانا چاہ رہے ہیں جہاں کامیابی کے مواقع بہت کم ہیںمگر مجھے اس بات کی خوشی بھی ہے کہ آپ نے میرے ملک کے بارے میں سوچا۔“

اب کی بار ایڈم نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا ،تو اس لڑکے نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

” جی میں پاکستان سے ہوں اور یہاں اپنی تعلیم مکمل کرنے آیا ہوں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ کی سوچ اور خیالات مجھ سے کافی ملتے جلتے ہیں ۔ میرے خیال سے ایک بار ہمیں ساتھ مل کر کام ضرور کرنا چاہیے۔“

اس لڑکے نے پراعتماد لہجے میں کہا ۔

” ضرور ،مجھے رسک لینا اور نئے نئے چیلنج بہت پسند ہیں ۔نائس ٹو میٹ یو مسٹر۔“

ایڈم نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

” شہرام علی خان ۔“ جواباً اس نے بھی گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔

اور یہاں سے ابتدا ہوئی دونوں کے درمیان دوستی کی ۔ دونوں بہت تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آئے ۔ حالاں کہ ایڈم ، اس سے کچھ سال بڑا تھا مگر دونوں میں ذہنی ہم آہنگی کمال کی تھی ۔شہرام کو اسی دوران پتا چلا کہ بچپن میں ، اس نے اپنی ایک قریبی پاکستانی فیملی کے ساتھ بہت وقت گزارا تھا اور ان کے پاس ہی پرانے ٹی وی ڈرامے اور فلمیں دیکھی تھیں جو اسے بہت پسند آئی تھیں ۔ وہ یہاں کے کلچر سے الگ ، کچھ کرنا چاہتا تھا ۔ کچھ عرصہ دونوں نے مل کر تجرباتی طور پر شارٹ موویز بنائیں اور پھر جب شہرام نے اپنے دادا کی موت اور ان کی خواہش کے مطابق اپنے وطن میں رہنے کا فیصلہ کیا، تو وہاں سے آتے ہوئے ایڈم کو بھی پاکستان آنے اور اپنے ساتھ کام کرنے کی دعوت دی جسے اس نے فوراً قبول کیا اور کچھ عرصے بعد وہ شہرام کے پاس پاکستان آگیا۔دونوں نے مل کر کام شروع کیا، تو اس کی دھوم ہر طرف مچ گئی ۔کیوں کہ ان کے کام کا طریقہ الگ اور انٹرنیشنل لیول کا تھا ۔ ان کے انٹرٹینمنٹ ہاﺅس سے بنی فلمیں اور ڈرامے ہر طرف شہرت رکھتے تھے ۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں بھی ان کا نام سامنے آنے لگا۔ایڈم جو پہلے پہل اپنے غیر ملکی ہونے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا ۔بعد میں اپنے کام اور قابلیت کی وجہ سے قابل قدر جانا جانے لگا۔ شہرام اکثر ایڈم کے نالج سے بہت متاثر ہوتا ۔لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ پاکستان سے لاعلم ہے ۔ بہ قول ایڈم کے اس نے پاکستان کے بارے میں بہت پڑھا اور سرچ کیا تھاتاکہ جب کبھی بھی وہ پاکستان کے لیے کام کرے، تو اسے مشکل پیش نہ آئے۔اپنے مغربی لب ولہجے میں تھوڑی بہت اردو بولتا ، شہرام کو بہت اچھا لگتا تھا ۔سب کچھ بہت اچھا اور بہترین تھا ۔ان دونوں نے ہی انٹرنیشنل لیول کی ایک فلم بنانے کا علان کیا اور آڈیشن کے دوران ان کی ملاقات حسین اور ذہانت سے بھرپور ، ماڈل فارینہ سے ہوئی جس نے کچھ عرصہ پہلے ہی شوقیہ ماڈلنگ شروع کی تھی ۔ امیر والدین کی لاڈلی بیٹی ہونے کی وجہ سے اس میں نخرا اور ناز بھی بہت تھا ۔کچھ اس کی بے تحاشا خوب صورتی اور حسن نے اس کا دماغ ساتویں آسمان پر پہنچا دیا تھا۔ فارینہ شہرام کی دریافت تھی جسے دیکھ کر ایڈم کتنی ہی دیر گم صم رہا۔



اور یہ بات بعد میں فارینہ نے بھی اکثر محسوس کی کہ ایڈم اسے کن انکھیوں سے دیکھتا رہتا تھا۔فارینہ اس طرح کے رویے کی عادی تھی مگر نہ جانے کیوں اسے ایڈم کا اپنی طرف دیکھنا اچھا نہیں لگتا تھا ۔ اس کی لائٹ براﺅن آنکھوں میں اس کے حسن کے قصیدے یا ستائش نہیں ہوتی تھی بلکہ عجیب سی جلن ، عجیب سے کھوج تھی۔ ایسے جیسے وہ نظریں اس سے کچھ بہت الگ اور پراسرار سے سوال کر رہی ہوں۔

فارینہ جو پہلے پہلے بہت خوش اور مطمئن تھی ۔ ایڈم کی بولتی ، کچھ کھوجتی نظروں سے گھبرا کر اس کی موجودگی سے چڑنے لگی۔اس کا یہ رویہ لاشعوری طور پر تھا ۔جسے بہت بار شہرام نے بھی محسوس کیا تھا مگر اکثر نظرانداز کر دیتامگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ فارینہ ایڈم کے ساتھ بہت تلخ ہونے لگی۔ مجبوراً شہرام کو اسے سمجھانا پڑا کہ فلم کی پرموشن اور کامیابی کے لیے ان کا ایک نظرآنا بہت ضروری ہے ۔ فارینہ نے ہامی تو بھر لی کہ وہ اب خود پر کنٹرول رکھے گی مگر وہ جانتی تھی کہ ایسا کرنا اس کے لیے زیادہ دیر تک ممکن نہیں ہے ۔جب کہ پہلے بھی بہت بار اس نے خود کو سمجھایا کہ ایڈم سے اس کا تعلق صرف کام کی حد تک ہے ۔

فلم کی شوٹنگ ختم ہوئی تو اس کی پروموشن کے سلسلے میں اکثر وہ تینوں ایک جگہ اکٹھے ہونے لگے۔ دیکھنے والوں کے لیے وہ کامیابی کی مثلث تھی ۔ لوگ رشک و حسد سے انھیں دیکھتے اور ان کی بہترین کیمسٹری پرباتیں کرتے تھے مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ تینوں اپنی اپنی جگہ ، ایک ان دیکھی آگ، ایک ان دیکھی سوچ میں بندھے ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے تھے ۔

٭….٭….٭

© ©” صاحب میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟کافی دیر سے آپ کویہاںپریشان کھڑا دیکھ رہا ہوں ۔“

خان زادہ شمشیر اچانک گاڑی میں پیداہونے والی خرابی کی وجہ سے سڑک کنارے کھڑے تھے۔ ڈرائیور کسی مدد کی تلاش میں گیا ہو ا تھا ۔ پچھلی سیٹ پر خان زادہ احمد نڈھال سااپنی ماں کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا ۔ وہ سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا تھا ۔ نور بانو کے ساتھ اماں رحیمہ بھی بیٹھی ہوئی تھی ۔ اس کی خالہ زاد بہن نے اسے جو راستہ سمجھایا تھا ۔اب وہ کہیں گم ہو کر رہ گیا تھا۔ خان زادہ نے تیز دھوپ میں ملگجے سے کپڑوں میں ملبوس ، چہرے پر ہلکی براﺅن ڈاڑھی اور آنکھوں میں نرمی لیے ایک درمیانہ عمر کے شخص کو اپنی طرف آتا دیکھا۔وہ فوراً چوکنا ہو گئے کہ آج کل چور ڈاکو بھی ایسے حلیوں میں پھرتے ہیں۔

”نہیں ! ہمارا ڈرائیور ابھی آتا ہی ہو گا۔ اسی طرف گیا ہے وہ۔“

خان زادہ شمشیر نے سختی سے کہتے ہوئے ایک طرف اشارہ کیا ۔ اس شخص کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

” یہاں سے ورکشاپ زیادہ دور نہیں ہے ۔ اس علاقے کی سب سے بڑی ورکشاپ ہے وہ اور میں بھی وہیں کام کر تا ہوں ۔ ابھی واپس گھر جا رہا تھا تو پانی پینے کے لیے اس ٹیوب ویل کے پاس رک گیا ۔ آپ چاہیں تو ٹھنڈے پانی کا لطف لے سکتے ہیں ۔پاس ہی ہے۔“

اس نے ایک طرف اشارہ کیا، تو خان زادہ شمشیر نے تھوڑا غور سے دیکھا تو اس کی بات میں صداقت نظر آئی ۔ وہ گہری سانس لے کر رہ گئے ۔

” دراصل میرے ساتھ عورتیں اور میرا بیمار بیٹا ہے ۔وہ زیادہ چل نہیں سکتا اور….“

” آپ فکر مت کرے ۔ اگر کوئی بوتل ہے تو مجھے د یں ۔میں پانی بھر کے لا دیتا ہوں ۔“

خان زادہ نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا ۔ اس کا رنگ شدید دھوپ میں جھلسا ہوا تھا مگر عمر زیادہ نہیں تھی ۔خان زادہ شمشیر نے خالی بوتل نکال کر دی، تو وہ فوراً مڑ گیا ۔ کچھ دیر بعد تیز تیز قدم اٹھاتا واپس آیا، تو اس کی سانس پھولی ہوئی تھی ۔

” یہ لیجیے!تب تک میں آپ کی گاڑی میں خرابی ڈھونڈتا ہوں۔“

اس نے کہا تو خان زادہ نے سر ہلا کر کا ر کا بونٹ کھول دیا اور پانی کی بوتل گرمی میں ہلکان ہوتی نوربانو کی طر ف بڑھائی جسے تھام کراس نے فوراً اپنے نڈھال ہوتے بیٹے کے منہ سے لگا یا۔گرمی اپنے عروج پر تھی ۔سارا سفر پر سکون اور آرام سے اے۔سی کی ٹھنڈک میں گزرا تھا مگر منزل کے پاس پہنچ کر گاڑی دغا دے گئی ۔

جب تک اس نے گاڑی کا نقص ڈھونڈ کر اسے اسٹارٹ کیا ۔ہانپتا ، کانپتا ڈرائیور بھی ان تک پہنچ گیا۔ اس کے ساتھ ایک آدمی تھا جو حیران نظروں سے سامنے کی طرف دیکھ رہا تھا۔

”لیجیے صاحب آپ کی گاڑی ٹھیک ہو گئی ہے ۔“ اس نے کا ر کا بونٹ بند کرتے ہوئے مطمئن انداز میں کہا،تو حیران کھڑا ڈرائیور فوراً آگے بڑھا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے دیکھی ۔گاڑی کے اسٹارٹ ہوتے ہی خان زادہ شمشیر نے متاثر نظروں سے اس کی طرف دیکھا ۔

” اچھا میں چلتا ہوں ۔“ اس شخص نے ہاتھ اٹھا کر کہا، تو خان زادہ نے فوراً اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اسے روکتے ہوئے بولے ۔

” ٹھہرو اپنا انعام تو لے کر جاو۔“

اس نے مڑ کر خان زادہ کے ہاتھ میں پکڑے نیلے نوٹوں کی طرف دیکھا۔

” میں انعام صرف اللہ سے لیتا ہوں۔انسانوں سے اپنے کام کی اجرت….“

” اچھا برخودار ایسا ہی سمجھ لو۔ اپنی اجرت سمجھ کر رکھ لو۔“

خان زادہ شمشیر نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف دیکھا۔

” اجرت کام کی لیتا ہوں ، مدد کرنے کی نہیں صاحب۔“

اس نے سر تک ہاتھ لے جا کر سلام کی اور بے نیازی سے اپنے راستے کی طرف چل پڑا ۔ نور بانو نے کار کے شیشے سے بہت حیران کننظروں سے اسے جاتے ہوئے دیکھا۔

” عجیب سر پھرا تھا۔“

خان زادہ شمشیر نے سر جھٹکتے ہوئے کہا، تو ڈرائیور کے ساتھ آئے آدمی نے منہ بنا کر کہا۔

” جو خو د دوسروں کو دیتا ہو ، وہ کسی سے کیسے لے سکتا ہے۔“

” تم یہاں کے رہنے والے لگتے ہو۔ سنا ہے یہاں کوئی اللہ والا رہتا ہے ۔ میں اپنے بیمار بیٹے کے لیے دعا کروانے آیا ہوں ۔ تم بتا سکتے ہو کہ وہ کہاں ہوتے ہیں ۔“

Loading

Read Previous

انگار ہستی

Read Next

داستانِ حیات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!