تو ہی تو کا عالم

”خیر چھوڑیں جی آپ کیوں ان خشک اور بور باتوں میں پڑ رہے ہیں ۔ آپ تو فلم ، ٹی وی کے بندے ہیں۔ کچھ محبت اور عاشقی کی باتیں کریںجو آپ کے مزاج سے میل بھی کھائیں۔ “انسپکٹر تنویر نے مکھن لگاتے ہوئے کہا۔

” اچھا تو یہ بات ہے ۔“ایڈم نے اثبات میں سر ہلایا۔

” دیکھیں جی میں تو اب فلمیں دیکھتا ہی نہیں۔ اس لیے مجھے آج کل کے لوگوں کے بارے میں کچھ خاص نہیں پتا۔“

اس نے گھوم کر اپنی کرسی کی طرف آتے ہوئے کہا ۔سر سے کیپ اتار کر میز پر رکھی اور اپنی کرسی پر بیٹھ کر اسے گھول گھول گھمانے لگا۔ کرسی بھی احتجاجاً آوازیں نکالنے لگی۔

”ایک زمانہ تھا جی۔ کیا دور تھا پنجابی فلموں کا۔ ہک ہا۔“

انسپکٹر تنویر نے گہری سانس لی اور کہا۔

” بڑی سی اسکرین پر جب سلطان راہی گھوڑے پر بیٹھا، اپنی ہیروئن کوبچانے آتا تھا، تو دیکھنے والے جوش سے تالیاں بجانے لگ جاتے تھے ۔

کیا انداز تھا اس کا اور کیا زبردست بڑھک مارتا تھا۔

” مولا نوں مولا نہ مارے ، تے مولا نئی مردا۔“

کیسے کیسے شاندار ڈائیلاگ ہوتے تھے۔ کتنی خواہش تھی کبھی میری بھی کہ میں بھی فلم میں کوئی ایسا ہی کردار ادا کرتا مگر ہائے ری قسمت۔ کہا ں سے کہاں لے آئی مگر وہ کیا ہے کہ….“

انسپکٹر تنویر ماضی سے حال میں واپس آتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوا جو مسکراتی نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

” میرے بیٹے کو بھی میری طرح ہی فلموں ، ڈراموں میں کام کرنے کا بہت شوق ہے اور مجھے حوالدار رحمت نے بتایا ہے کہ آپ بہت مشہور فلم ڈائریکٹر ہیں۔ اگر آپ میرے بیٹے کو ایک چانس دے دیں، تو بڑی مہربانی ہوگی۔“

انسپکٹر تنویر کے انداز میں منت تھی ۔ ایڈم گہری سانس لے کر رہ گیا ۔اس کا اندازہ درست نکلا تھا۔

”مگر وہ کیس!“ایڈم نے کچھ کہنا چاہا ۔

” کیس کو ماریں گولی جی۔ کسی اور پر ڈال دیں گے ۔آپ فکر ہی مت کریں ۔ آج سے ہم میں رشتہ داری قائم ہوگئی ہے جی ۔ “

انسپکٹر تنویر نے سینہ تان کر کہا ۔

” بہت شکریہ آپ کو یہ زحمت کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں نے فون کر دیا ہے میر اوکیل کچھ دیر میں آتا ہی ہو گا۔“

ایڈم نے ابھی اپنی بات پوری ہی کہ تھی ،جب اس کے وکیل حیدربیگ نے اندر آ کر اسے سلام کیا ۔ انسپکٹر اسے دیکھ کر ایک دم ہی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔



” یہ الو کا پٹھا! میری سوچ سے بھی زیادہ تیز نکلا۔“

انسپکٹر تنویر نے دل میں پیچ و تاب کھاتے ہوئے سوچا اور بہ ظاہر بہت سنجیدگی سے وکیل کی بات سنتے ہوئے کاغذ دیکھنے لگا ۔

” اس سب کی ویسے بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ میں انہیں چھوڑنے ہی والا تھا۔“

اس نے فائل بند کرتے ہوئے کہا، تو ایڈم اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔

”وہ صاحب! آپ سے ایک گزارش کی تھی۔“

انسپکٹر تنویر نے پیچھے سے اسے آواز دی۔ایڈم کچھ سوچ کر مُڑا۔ اس کی آنکھوں میں شرارت کی چمک واضح تھی ۔

” اپنے بیٹے کی بات چھوڑیں آپ۔ قابل ہو گا تو اسے ویسے بھی چانس مل جائے گا۔

آپ کی باتیں سن کر میرے ذہن میں آیا ہے کہ ایک زبردست سی پنجابی فلم بناﺅں اور اس میں آپ کو ہیرو لوں۔

بس آپ آج سے انتظار شروع کر دیں میری کال کااور اگر آپ کو ڈانس نہیں آتا، تو وہ ضرور سیکھ لیں۔ باقی آپ فٹ ہیں۔“

ایڈم کہتے ہوئے دروازہ کھول کر کمرے سے باہر نکل گیا ۔ اس کے وکیل کی آنکھوں میں پہلے حیرت او رپھر بے ساختہ مسکراہٹ در آئی تھی ۔

جبکہ انسپکٹر تنویر حیرت کی شدت سے ، منہ کھولے اپنی جگہ کھڑا رہ گیا۔ اسے سمجھ ہی نہیں آئی تھی کہ وہ کیا کرے؟

” سر آپ ان حالات میں بھی مذاق کر رہے تھے ۔ حیرت ہے ۔“

حیدر بیگ نے کار کے پاس آ کر کہا، تو ایڈم نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا ۔ اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی ۔

”مذاق ہم نہیں۔ وقت ہمارے ساتھ کرتا ہے۔ بہت شکریہ آپ کے آنے کا ۔“

ایڈم نے وکیل حیدر سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا ۔وہ مڑ کر وہاں سے چلا گیا ۔ ایڈم کی گاڑی بھی یہاں کھڑی ہوئی تھی جو شاید تلاشی کے غرض سے ہسپتال سے ساتھ لائی گئی تھی۔

” احمق لوگ۔“انسپکٹر تنویر کی حالت کا سوچ کر ایڈم نے مذاق اُڑاتے لہجے میں خود سے کہا۔

”کمال ہے بھئی۔ دوسروں کے حال پر ہنسنے والا ، اپنا حال کیوں بھول گیا ہے۔“

پیچھے سے آئی آواز پر ، ایڈم یک دم چونک کر مڑا۔

” تم یہاں بھی….“

وہ ملنگ چہرے پر مسکراہٹ لیے اسے دیکھ رہا تھا ۔

٭….٭….٭

”یار انصب تمہیں نہیں لگتا کہ آج موسم کچھ ابر آلود سا ہے۔“

انصب جو ابھی ابھی عانیہ کی دوستوں اور کزنوں سے ” دودھ پلائی “ جیسا اہم معرکہ ہار کر ، پھر بھی خوشی سے چہک رہا تھا۔ شہرام کی بات پر اس کی طرف متوجہ ہوا۔

”تجھے ہال کے اندر سے آسمان کہاں سے نظر آگیا میرے بھائی؟“

انصب نے شہرام کی طرف ایسے دیکھا جیسے اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو، مگر جب اس نے شہرام کی مُسکراتی نظروں کو تعاقب میں دیکھا، تو ساری بات سمجھ گیا ۔عانیہ کے ساتھ بیٹھی زویا لاکھ کوشش کے باوجود اپنے آنسو نہیں روک پا رہی تھی ۔بھیگی بھیگی آنکھوں سے کبھی وہ تیزی سے پلکیں جھپکتی اور کبھی سر جھکا لیتی تھی ۔شہرام کی بات وہ سن چکی تھی۔ اس لیے خود کو کمپوز کرنے کی کوشش کرنے لگی۔

” ہائے میں قربان جاﺅں ایسی دوستی کے۔ رخصتی عانیہ کی ہو رہی ہے اور اُداس زویا ہے۔ اسے کہتے ہیں دوستی۔ ایک تم ہو صرف دور دور سے مُسکرائے جا رہے ہو ۔ کچھ شرم کر و یار۔“انصب نے شہرام سے کہا ۔

”وہ اس لیے میرے بھولے دوست کہ مس زویا کی دوست رخصت ہو ں گی۔ میرا دوست نہیں۔لہٰذا میرے لیے یہ خوشی کا مقام ہے۔“شہرام نے کہا تو دُلہن بنی عانیہ نے سر اٹھا کر دونوں کو باری باری گھورا۔

” ایک لڑکی کے آنسوﺅں پر رائے دینے کے بجائے اسے بہلانے کی کوشش کریں ۔ آپ نہیں انصب صاحب! آپ شاید بھول رہے ہیں کہ آج آپ کی شادی ہے۔“

عانیہ نے دانت پیس کر انصب سے کہا جو عانیہ کی بات سن کر اپنی جگہ سے فورا ًاٹھ کھڑا ہوا تھا، مگر پھر فوری بیٹھ بھی گیا۔ شہرام کا قہقہہ جان دار تھا جب کہ زویا بھی مُسکرانے لگی۔ انصب اور عانیہ نے اطمینان سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔

”شہرام بھائی! زویا جب بھی اُداس ہو تی تو میں اسے آئس کریم کھلانے لے جاتی تھی اور آپ کو تو کہیں جانے کی زحمت بھی نہیں کرنا پڑے گی ۔ سب کچھ یہاں حاضر ہے۔ جاﺅ ز ویا! تم مزید تھوڑی دیر میرے ساتھ بیٹھی رہی تو میں نے بھی رونا شروع کر دینا ہے ۔سارا میک اپ خراب ہو جائے گا۔“

عانیہ نے اتنی سادگی سے کہا کہ وہ تینوں بے ساختہ ہنس پڑے ۔ پھر زویا ، شہرام کے ساتھ اسٹیج سے نیچے اتر گئی ۔عانیہ کے والد فاروق ملک کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے ، کرنل ثقلین کیانی نے ان دونوں کو دیکھا ۔ وہ ساتھ چلتے ہوئے کتنے اچھے لگ رہے تھے ۔ ایک خواہش تھی جو شہرام کو دیکھ کر ان کے دل میں شدت سے ابھرنے لگی۔ زویا کے لیے رشتوں کی کمی تو نہیں تھی مگر نہ جانے کیوں شہرام میں انھیں کچھ الگ سے دکھتا تھا۔ شاید اس کے مزاج کی سادگی اور خلوص! جو آج کل نایاب ہو کر رہ گیا ہے۔کرنل ثقلین کیانی کے دو بڑے بیٹے بھی آرمی میں تھے اور اپنی اپنی فیملیز کے ساتھ دوسرے شہروں میں پوسٹڈ بہت اچھی زندگی گزا ررہے تھے ۔کرنل ثقلین کیانی کی بیوی ، چار سال پہلے کینسر کے موذی مرض سے لڑتے لڑتے جان کی بازی ہار گئی تھی ۔ تب سے کرنل ثقلین زویا کے لیے بہت حساس ہو گئے تھے۔ حالاں کہ وہ ان خوش قسمت والدین میں سے تھے جن کی اولاد ، ان کی فرماں بردار اور قابلِ فخر ہوتی ہے۔ زندگی نے انہیں ہر طرح سے نوازا تھا۔ بس اب ایک آخری فرض زویا کی شادی ادا کرنا رہ گیا تھا۔اس کے لیے انہیں جس گوہر نایاب کی تلاش تھی وہ لگتا تھا کہ اب شہرام پر آ کر ختم ہو گئی ہے ۔



” میں تو تمہیں بہت بہادر لڑکی سمجھتا تھا زویا مگر تم تو بہت عام سی ، چھوٹے دل کی مالک نکلی۔ ویری اسٹرینج ….“

اداس بیٹھی زویا نے سر اٹھا کر اپنے سامنے بیٹھے شہرام کی طرف دیکھا اور پھر سر گھما کر اسٹیج کی طرف گھورنے لگی۔ عانیہ کی امی جس طرح اس کے آس پاس فکرمندی اور محبت سے چکر لگا رہی تھیں۔ یہ بات بار بار اس کی آنکھیں نم کر رہی تھی۔ آج اسے اپنی ماں کی یاد شدت سے آئی تھی۔ وہ کوشش کر کے بھی اس اداسی سے نجات نہیں پا سکی تھی ۔

” شہرام جن کی مائیں بہت دور چلیں جائیں نا، وہ اسی طرح بات بات پر رونے والے اور چھوٹے دل کے مالک بن جاتے ہیں، مگر خیر تم نہیں سمجھو گے۔“زویا نے کہتے ہوئے اپنی توجہ آئس کریم کی طرف مبذول کرلی۔

” ٹھیک کہا تم نے زویا!میں کیسے سمجھ سکتا ہوں جب کہ میں نے بھی اپنے ماں ، باپ دونوں کو ہی ایک ساتھ ، ایک حادثے میں کھو دیا تھا۔ میں کیسے جان سکتا ہوں تمہارا درد۔“

زویا اپنی جگہ ساکت ہو گئی ۔ جب اس نے سر اٹھایا، تو اسے شہرام کی خالی کر سی نظر آئی ۔ اس نے فوراً اِدھر اُدھر دیکھا۔ شہرام اسے ہال سے باہر جاتا ہوا نظر آیا ۔ وہ اپنی جگہ پچھتاوے کے احساس میں جلتی کڑ ھتی رہ گئی۔کبھی کبھی ان جانے میں ہی سہی، مگر ہم دوسروں کے زخم اُدھیڑنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ یہی آج اس سے ہوا تھا جس کا افسوس اسے کئی دن رہا۔

٭….٭….٭

” میری بات سن موہنی ۔مجھے تجھ سے بہت ضروری کام ہے۔“

موہنی مزار کی احاطے کی صفائی میں دوسری عورتوں کی مدد کروا رہی تھی ۔ جب پینو نے پاس آکر اسے مخاطب کیا۔ گھونگٹ کی اوٹ سے موہنی نے اس کی طرف بے زاری سے دیکھا۔

” نہ جانے یہ کیوں ہر وقت میرے پیچھے پڑی رہتی ہے۔“موہنی نے اُکتا کر سوچا۔

” کیا بات ہے ۔ نظر نہیں آ رہا میں کام میں مصروف ہوں ۔تجھے بھی ابھی آنا ہوتا ہے۔“ موہنی نے چڑ کر کہا۔ پینو اسے کوئی سخت بات کہتے کہتے رک گئی اور دوبارہ میٹھے لہجے میں بولی۔

” ذرا سی بات ہے ۔ سن لے….!پھر کرتی رہنا اپنے کام ، میں نے کون سا تیرے ہاتھ پکڑ کر روک لینا ہے۔“

پینو لجاجت سے کہتے ہوئے اسے ایک طرف لے گئی۔

” ہاں اب بول ۔“

موہنی نے گردن موڑ کر کام کرتی عورتوںکی طرف دیکھا ۔ اس کا انداز ایسا تھا کہ جیسے اسے بہت جلدی ہو واپس جانے کی ۔

”دیکھ موہنی! توُ علی یار کی بہت پسندیدہ اور….“ پینو کی بات پر گردن موڑ کر موہنی نے دیکھا کر وہ آخر کہنا کیا چاہتی ہے ،مگر اسی وقت اس کے چہرے کا رنگ ایسے بدلا۔ جیسے اس نے کوئی خطرناک چیز دیکھ لی ہو۔

”ارے موہنی، تیرے دوپٹے پر سانپ کا بچہ چڑھا ہوا ہے ۔ یہ دیکھ۔“

پینو نے جلدی سے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ۔ موہنی بھی اس اچانک افتاد پر گھبرا گئی ۔ پینو نے آگے بڑھ کر اس کا دوپٹا کھینچ کر اتار دیا۔

” کہاں ہے سانپ؟“

موہنی نے خوف زدہ لہجے میں پوچھا ۔

” شاید بھاگ گیا، تو دوپٹا اچھی طرح جھاڑ کر پہنا کر ۔ا ٓس پاس جنگل ہے نا۔ اس لیے ا حتیاط ضروری ہے ۔“

پینو نے ہم دردی سے دوپٹا اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

موہنی کا دل اس کی طرف سے صاف ہو گیا تھا ۔

” اچھا اب تم جاﺅ اپنا کام ختم کرو۔میں بھی چلتی ہوں ۔“

پینو نے جلدی سے کہا اور مُڑ کر جانے لگی ۔

” ہاں مگر تمہاری بات تو ادھوری رہ گئی پینو؟“

موہنی نے کچھ یاد آنے پر پوچھا، تو پینو گڑبڑا گئی۔

”آں …. کچھ خاص نہیں ۔ابھی تُو جا ۔ ہم پھر بات کر لیں گے ۔“

پینو نے ایسے کہا جیسے اسے کہیں پہنچنے کی بہت جلدی ہو ۔ موہنی کندھے اُچکا کر چلی گئی ۔

جب پینو نے اچھی طرح تسلی کر لی کہ اس کے واپس پلٹنے کا کوئی خدشہ نہیں رہا ، تو وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ، محتاط نظروں سے اِدھر سے اُدھر دیکھتی مزار کے اسی ٹوٹے حصے کی طرف چلی گئی جہاں سائیں اکثر بیٹھا ہوا ، سوچ وگیان میں نظر آتا تھا ۔

”اتنی دیر کر دی تُو نے آنے میں۔“

کالی چادر میں لپٹے شخص نے اچانک سامنے آ کر اس کا راستہ روکا تھا۔ وہ لمبا تڑنگا سا شخص جس کی سرخ آنکھیں اس کے نشے میں ہونے کو ظاہر کر رہی تھیں۔ اس نے پینو کو گھورا۔

” تُو بھی حد کرتا ہے دلاور ! سوچ سمجھ کر ہی قدم اٹھاﺅں گی نا۔ اچھا یہ بول نگینہ کیسا لگا؟“

پینو کا لہجہ معنی خیز تھا اور آنکھوں میں شاطرانہ چمک۔

” وہ اس زمین کی تو نہیں لگتی پینو بیگم! اتنا حسن اور یہاں اس کھنڈر میں چھپی ہوئی ہے۔ایک بار میرے ہاتھ لگ جائے ، قسم سے وارے نیارے ہو جائیں گے۔“

دلاور کے لہجے کے ساتھ ساتھ ،آنکھوں میں بھی خباثت تھی ۔

” تُو اپنے وعدے پر قائم رہنا۔ میں تیرا یہ کام بھی کر دوں گی ۔ تُو جانتا ہی ہے کہ آج سے پہلے بھی میں نے کتنی مہارت سے لڑکیاں یہاں سے غائب کی ہیں ۔ بس تُو میرا حصہ تیار رکھنا۔“ پینو نے مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے کہا ۔

” ہوں! مگر پہلے کی بات اور تھی۔ اس وقت یہ مزار اتنا آباد نہیں تھا اور یہ علی یار اور وہ سائیں بہت چوکس اور ہوشیا ر ہیں ۔ بہت سوچ سمجھ کر اور دھیان سے کام کرنا۔ کسی کو تُجھ پر شک نہیں ہونا چاہیے ۔ چل اب جا۔ میں جمعرات کو آﺅں گا ۔ مزار پر جب محفل سماع منعقد ہو گی۔“

دلاور نے چادر اچھی طرح اپنے گرد لپیٹتے ہوئے منہ بھی چھپا لیا۔ پینو نے سر ہلایا اور محتاط نظروں سے دیکھتی وہاں سے چلی گئی ۔دلاور اور پینو کئی سالوں سے یہ ہی کام کر رہے تھے، مگر کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی تھی۔ مزار پر جب کبھی بھی بے سہارا اور حالات کی ستائی ہوئی عورتیں آتیں تو پینو جھوٹی ہم دردی جتا کر ان سے دوستی کر لیتی اور جو ہدف آسان لگتا کہ اس کے پیچھے آنے اور ڈھونڈنے والا کوئی نہیں ہوگا، پینو اسے ورغلا کر دلاور کے حوالے کر دیتی۔ اس وقت علی یار کا دھیان ان باتوں کی طرف نہیں تھا ۔ نہ ہی اس نے کبھی ایسا کچھ کرنے کا سوچا بھی تھا ۔ یہ تو سائیں نے ایک مظلوم عورت کی فریا د کے پیچھے، اتنا بڑا قدم اٹھایا تھا اور اپنے ساتھ اسے بھی شامل کر لیا تھا۔ اس عورت کا قصہ بھی بہت دل خراش ہے۔

رضیہ اپنے سسرال میں ظلم و ستم سہتی وقت گزار رہی تھی ،مگر وہ بانجھ تھی ۔ اسی لیے اس کے شوہر نے دوسری شادی کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ، ایک شام دھکے دے کر اسے گھر سے نکال دیا۔ رضیہ یتیم لڑکی تھی ۔ اس کے چچا نے بہ مشکل اس کی شادی کی تھی اور اب کوئی تعلق نہیں رکھا ہوا تھا ۔ اسی لیے کئی سالوں سے وہ سسرال والوں کے ستم خاموشی سے سہتی چلی آ رہی تھی ۔شوہر تو ظالم تھا ہی ۔ اس کی ساس اور دونوں نندیں بھی اسے بہت بری طرح سے مارتی پیٹتی تھیں، مگر وہ دو وقت کی روٹی اور چھت کے لیے یہ ظلم سہتی رہی ۔ محلے دار اس کے حالات سے واقف ہونے کے باوجود اس سے ہم دردی ہی کرتے تھے۔کبھی کوئی اس ظلم کو روکنے یا اس کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے آگے نہیں بڑھا تھا۔وہ بھی ایک ایسی ہی شام تھی ۔ جب اس کے شوہر مختار نے رضیہ کو مار مار کر ، بالوں سے گھسیٹتے ہوئے گلی میں دھکا دے دیا ۔اس کی دوسری شادی میں رضیہ سب سے بڑی رکاوٹ تھی جسے ہٹانے کے لیے یہ کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ مختارنے قصہ ختم کرنے کے لیے اس پر بد چلنی اور زبان درازی کا الزام لگایا اور تین حرف بول کر اسے اپنی زندگی سے نکا ل دیا۔ آس پاس کے لوگ روتی بلکتی ،منتیں کرتی رضیہ کو دیکھ کر افسوس تو کر رہے تھے مگر کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اسے سہارا ہی دے دیتا ۔ سب کو یہ خوف تھا کہ کہیں یہ مصیبت ان کے گلے نہ پڑ جائے۔رضیہ نیلوں نیل جسم کے ساتھ ،کراہتی ہوئی زمین سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی ۔ جب کسی نے اس کے سر سے اتری چادر اسے اُڑھائی۔ رضیہ نے چونک کر دیکھا۔ملگجے سے حلیے میں ملبوس سائیں اس کے سامنے کھڑا تھا ۔ اس وقت وہ اس علاقے میں نیا تھا مگر اس کے بارے میں بہت سے لوگ جان چکے تھے ۔ اس لیے آس پاس بت بنے لوگ عقیدت سے اس کی طرف بڑھے۔ سائیں نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں روک دیا۔

” جب تم لوگ کسی مظلوم عورت کی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھ سکتے، تو میرے لیے بھی ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔“

سائیں نے سخت لہجے میں کہا اور ایک نظر دروازے پر کھڑے رضیہ کے سسرال والوں پر ڈالی جن کے چہرے پر تمسخر بہت واضح تھا۔

” جو خود تیرے میرے در کی ٹھوکریں کھاتا ہو ، وہ کسی کو سہارا دے گا۔ہونہہ۔“

مختار نے حقارت سے زمین پر تھوکا۔

” سہارا صرف خدا کی ذات دیتی ہے۔ لوگ صرف وسیلہ بنتے ہیں …. مگر تم جیسے لوگ اس بات کو کیسے سمجھ سکتے ہیں ؟ چلو اٹھو بہن ۔“

سائیں نے مختار کی بات کا جواب دینے کے بعد ، رضیہ سے نرمی سے کہا اور اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ رضیہ کی مدد کے لیے کچھ خواتین فوراً آگے بڑھیں اور پھر تجسس کے مارے ان کے ساتھ ساتھ ہی چلنے لگیں ۔ سائیں تیز تیز قدموں سے چلتا ایک جگہ آ کر رُک گیا۔

”ثریا بہن! تمہاری طرح یہ عورت بھی حالات کی ستائی ہوئی ہے ۔ اگر بُرا نہ مانو تو کچھ دنوں کے لیے اسے اپنے پاس رکھ لو ۔ بہت جلد میں اس کے رہنے کا بندوبست کر دوں گا۔“

ثریا ایک درمیانی عمر کی بیوہ عورت تھی جس کا شوہر پہلے یہ ہوٹل چلاتا تھا ا ور اس کے مرنے کے بعد جب تین جوان ہوتے بچوں کی ذمے داری اس پر پڑی تو ثریا نے ہوٹل کا انتظام خود سنبھال لیا۔ وہ ایک بڑی سی چادر میں سر سے پاﺅں تک خود کو چھپائے ، ہر کام کی نگرانی کرتی مگر پھر بھی وہ لوگوں کی حریص نظروں اور جملے بازی سے محفوظ نہیں رہتی تھی اور تو اور اس کے شوہر کے ساتھ کام کرنے والے ملازم، اسے کمزور عورت سمجھ کر تنگ کرنے لگے تھے۔ اسی وجہ سے ثریا نے بہت سے نئے لوگوں کو بھی کام پر رکھا مگر معاملہ جوں کا توں رہا ۔پھر اللہ نے سائیں کو اس کے لیے رحمت کا فرشتہ بنا کر بھیجا۔سائیں نے ثریا کو پسِ پردہ رہنے کا کہا اور آگے بڑھ کر خود سارا انتظام سنبھال لیا۔ آہستہ آہستہ سائیں نے بہت اچھے اور قابلِ اعتماد بندے کام پر رکھے جن کی نگرانی وہ خود کرتا، مگر سارا کنٹرول ثریا کے ہاتھ ہی میں تھا۔ سائیں کی وجہ سے اس کے بگڑے کام سنورنے لگے ۔پھر سائیں نے اس نعمت کدے میں ایندھن پہنچانے کا کام اپنے ذمے لے لیا ۔کیوں کہ کھانا پکانے کا سارا کام مختلف ضرورت مند عورتیں کرتی تھیں ۔ لوگوں کے آرڈر اور سرونگ ، لڑکے کرتے تھے ۔ یہ کام ذرا مشکل تھا جسے سائیں نے اپنے سر لے لیا ۔وہ مخصوص وقت میں وہاں پہنچ جاتا۔ ثریا اس کی دل سے عزت کرتی تھی ۔



” سو بسم اللہ ! جب تک چاہے یہ میرے پاس رہ سکتی ہے۔آپ بے فکر رہیں۔“

ثریا نے آگے بڑھ کر رضیہ کا ہاتھ تھما اور اپنے گھر کے اندر لے گئی۔ ساتھ آئی عورتیں ایک دوسرے سے باتیں اور تبصرے کرتی گھروں کو واپس لوٹ گئی تھیں ۔ پھر سائیں نے علی یار سے اس مسئلے پر بات کی اور یوں مزار کا ایک حصہ تھوڑی سے مرمت کے بعد ایسی خواتین کے لیے مختص کر دیا گیا، مگر سائیں اور علی یار جانتے تھے کہ یہ بہت بڑی ذمے داری ہے جسے نبھانا آسان نہیں تھا۔رضیہ مزار کے اسی مخصوص حصے میں رہتی تھی اور یہاں پر بہت سے کام کر دیتی تھی ۔اس کی زندگی بہت سکون اور عزت سے گزر رہی تھی جس کی تمنا اسے ہمیشہ سے تھی اور یہ سب سائیں کی بدولت ممکن ہوا تھا جس کے لیے اس کے دل سے دعائیں نکلتی تھیں۔

٭….٭….٭

” تم یہاں بھی پہنچ گئے ؟ آخر تم چاہتے کیا ہو؟ کیوں میرا پیچھا کر رہے ہو؟“

ایڈم نے سار ا دبا ہوا غصہ اس پر نکالا تھا۔ ملنگ کے چہرے پر موجود مسکراہٹ یک دم سے غائب ہوگئی۔ اس نے سنجیدہ نظروں سے سامنے کھڑے ، بے زار چہرے والے ایڈم کی طرف دیکھا۔

”یہ بات میں بھی تو کہہ سکتا تھا۔ جہاں بھی میں ہوتا ہوں ،تم وہاں کیوں پہنچ جاتے ہو؟“

” واٹ ربش! مجھے کیا کرنا ہے تم جیسے ڈرامے باز آدمی کا پیچھا کر کے۔

ایڈم نے ناگواری سے جواب دیا۔

” چلو مان لیتے ہیں مگر تم بھی اب یہ جان لو کہ بہت جلد تم خود مجھے تلاش کرتے ہوئے آﺅ گے۔ یہ اس ڈرامے باز کا دعویٰ ہے۔“

ملنگ نے کہتے ہوئے اپنے ہاتھ میں پکڑا ڈنڈا زور سے فرش پر مارا جس سےچھن کی آواز پیدا ہوئی۔ جو شاید اس پر بندھے گھنگھروں کی وجہ سے تھی۔

”اس زندگی میں تو یہ ممکن نہیں ۔ ہاں مگر تم انتظار کرتے رہنا ۔گڈ بائے۔“

ایڈم نے طنزیہ لہجے میں کہا اور اپنی کار کا دروازہ کھول کر اس میں بیٹھ گیا۔ کار بیک کرتے ہوئے اس نے جب بیک مرمر میں دیکھا تو چونک گیا۔ وہ ملنگ بڑی سی شاندار کار کا دروازہ کھول کر بیٹھ رہا تھا ۔

”اگلی بار ملا، تو بچے گا نہیں میرے ہاتھوں سے۔“

ایڈم نے دانت پیستے ہوئے کہا اور کار کی سپیڈ بڑھا دی ۔رات گزر چکی تھی ۔ وہ اپنے اپارٹمنٹ پہنچا، تو اسلم بے چینی سے اس کا منتظرتھا۔

” شکر ہے صاحب آپ آ گئے۔ آپ کا فون بند تھا ۔شہرام صاحب نے کتنے ہی فون کیے آپ کا پوچھنے کے لیے۔“

اسلم نے جلدی جلدی بولتے ہوئے کہا۔

”میں سونے جا رہا ہوں ۔ کسی کا بھی فون آئے ،مجھے ڈسٹرب مت کرنا ۔“

ایڈم نے سختی سے کہا اور اپنے کمرے میں جا کر زور سے دروازہ بند کر لیا۔اسلم فکرمندی سے گہری سانس لے کر رہ گیا۔

” جی صاحب! وہ سونے چلے گئے ہیں ۔ انہیں ابھی تک کچھ پتا نہیں چلا۔ جی میں ایسا ہی کروں گا۔“

اسلم نے دوسری طرف سے بات سنتے ہوئے کہا اور ایک دو باتوں کے بعد فون بند کر دیا۔ اس نے فوراً پورچ میں جا کر دیکھا ۔ آج کا اخبار آچکا تھا ۔اسلم نے جلدی سے اٹھایا۔شہرام کا اندازہ درست تھا۔ فرنٹ پیج پر ایڈم، فارینہ اور شہرام کے واقعے کو نمک مرچ لگا کر شائع کیا گیا تھا ۔یہ وہ پہلا شگاف تھا جو دنیا والوں کو ان کی دوستی میں نظر آیا۔اس کے بعد گوسپ کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔

٭….٭….٭

” سر آپ سے ملنے کوئی خاتون آئیں ہیں۔ میرے منع کرنے کے باوجود اندر آنے پر ضد کر رہی ہیں۔“

شہرام اپنی فلم کی ایڈیٹنگ میں بری طرح کھویا ہوا تھا ۔جب اس کے پی۔ اے نے اندر آ کر جھجکتے ہوئے کہا۔

” وہ ” خاتون “ ضد کر نہیں ر ہی بلکہ اندر آ بھی گئی ہے اور کیا سچ میں ہماری شخصیت خاتون جیسی ہے۔“

زویا نے پہلے اس کے پی۔اے کی طرف دیکھ کر طنزیہ کہا اور پھر شہرام کی طرف متوجہ ہو کر معصومیت سے پوچھنے لگی۔

شہرام کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی ۔اس نے اپنے پی۔اے کو جانے کا اشارہ کیا ۔

” خیریت خاتون ! آپ آج یہاں کیسے ؟“

شہرام کا انداز بہ ظاہر سنجیدہ تھا، مگر آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔

” بابا کہتے ہیں کہ ہمارا نشانہ بھی بہت اچھا ہے۔ کیا خیال ہے آزما کر دیکھو؟“

زویا نے میز پر رکھے نازک سے گلدان پر اپنی مخروطی انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔

” اوکے میں ڈر گیا محترمہ۔“

شہرام نے ہنستے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا ئے تھے ۔ زویا مُسکراتے ہوئے اس کے سامنے بچھی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اسی وقت دروازہ کھٹکھٹاکر مبشر اندر داخل ہو ا۔ وہ زویا کو دیکھ کر ٹھٹک کر رک گیا ۔

” آجاﺅ مبشر ….“

شہرام نے اسے اجازت دی اور اس نے آگے بڑھ کر ہاتھ میں پکڑی کنٹریکٹ فائل میز پر رکھی۔ ایک نئے پروجیکٹ کے لیے کچھ نئے چہروں کو کاسٹ کیا جا رہا تھا جس کے کنٹریکٹ پیپرز شہرام نے منگوائے تھے۔

”ہوں! ٹھیک ہے ۔ آپ یہ فائنل کر دیں اور اسکرپٹ کی ایک ایک کاپی انہیں ڈلیور کر دیں۔ میں چاہتا ہوں کہ شوٹنگ شروع ہونے سے پہلے وہ سب اپنے اپنے کرداروں سے اچھی طرح واقف ہوں باقی کسی دن ایک میٹنگ رکھ لیتے ہیں جس میں مزید ڈسکشن کر لیں گے۔“

شہرام نے مصروف سے انداز میں کہا ۔ مبشر سر ہلا کر رہ گیا اور کن انکھیوں سے زویا کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔

” سر میرے خیال سے ان سے بھی کنٹریکٹ سائن کروا لیتے ہیں۔“

” کافی فضول خیال ہے آپ کا مسٹر مبشر!“

شہرام نے اسے گھورتے ہوئے فائل اس کی طرف بڑھائی ۔

” میرا کیا ہے سر! آپ ہی کا فائدہ سوچ رہا تھا ۔ ہر بار اتنے لوگوں کے آڈیشن لیتے ہیں پھر بھی کوئی پسند نہیں آتا ۔ اب اگر اللہ نے مہربانی سے ایک پری بھیج ہی دی ہے، تو مو قع کا فائدہ نہ اٹھانا کہاں کی عقل مندی ہے، مگر بھئی ہماری کون سنتا ہے۔“

مبشر نے منہ بنا کر کہتے ہوئے فائل پکڑی اور ایک افسوس بھری نظر ان پر ڈالتا کمرے سے نکل گیا۔

زویا بے ساختہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ شہرام کے چہرے پر بھی مسکراہٹ تھی ۔ ہنستے ہنستے زویا کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں ۔

شہرام بہت دلچسپ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔

” تمہاری ٹیم کے لوگ بھی کمال ہیں۔“زویا کے لہجے میں ستائش تھی ۔

” ہاں ٹھیک کہا تم نے۔ میں اس معاملے میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ہمیشہ بہت اچھے لوگوں کا ساتھ نصیب ہوا ہے ۔ خیر تم بتاﺅ کہ کیسے آنا ہوا،سب ٹھیک ہے نا؟“شہرام نے پوچھا تو زویا اسے گھور کر رہ گئی ۔

” زیادہ فارمل ہونے کی ضرورت نہیں مسٹر۔ ایک ہفتہ ہو گیا ہے تم سے بات ہوئے۔ عانیہ اور انصب تو ہنی مون پر گئے ہی ہیں۔ تم بھی کہیں غائب ہو گئے ہو۔اس ویک اینڈ پر بابا اور ان کی خوب صورت بیٹی تمہارا لنچ پر انتظار کریں گے ۔ وقت پر آ جا نا اور ہاں بابا کی خوب صورت بیٹی کو پھول بہت پسند ہیں اور اس کے لیے پھول لانے والوں کو ، اس کے ہاتھ کی بنی اسپیشل کافی بھی ملتی ہے۔“

زویا نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے ، اپنے مخصوص تحکمانہ انداز میں کہا۔

” اچھا اگر بابا کی بیٹی خوب صورت ہیں تو محترمہ آپ کون ہیں؟“

شہرام نے اس کی باتوں پر مُسکراتے ہوئے سوال کیا۔ دروازے کی طرف جاتی زویا نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔

” میں؟“ زویا نے پوچھا تو شہرام نے سر ہلاتے ہوئے کہا ۔

” جی آپ محترمہ۔“

” ابھی تو کہا ہے کسی نے۔ پری ہوں میں۔“

زویا نے خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور ہاتھ ہلاتی وہاں سے چلی گئی ۔ جب کہ شہرام کتنی ہی دیر بیٹھا اس کی باتوں سے محظوظ ہوتا رہا۔

٭….٭….٭



” علی یار میں کچھ دنوں کے لیے یہاں سے رخصت چاہتا ہوں مگر….“

علی یار اور سائیں دونوں مزار کے ٹھنڈے فرش پر بیٹھے تھے ۔ جب کافی دیر چپ رہنے کے بعد سائیں نے کہا تو علی یار نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

” سب خیر ہے سائیں۔“

علی یار کے لہجے میں تشویشتھی کیوں کہ اس کے ساتھ رہتے ہوئے علی یار یہ تو جان چکا تھا کہ وہ دنیا میں بالکل اکیلا ہے۔ اس کے آگے پیچھے غیر تو بہت سے ہیں، مگر اپنا کوئی ایک بھی نہیں۔

”ہاں سب خیر ہی ہے۔بس کسی سے وعدہ کیا تھا کہ ایک بار ہی سہی، مگر اس سے ملنے ضرور آﺅں گا ۔بس وہ وعدہ ہی اب راتوں کو سونے نہیں دیتا۔“

سائیں نے اُداسی سے کہا۔

”ایسا وعدہ کیوں کیا سائیں جو دل پر بوجھ بن گیا ہے ؟“

علی یار نے فکرمندی سے پوچھا۔ سائیں کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

” علی یار ! کبھی بھرے پیالے کو غور سے دیکھا ہے؟ چاہے جتنی بھی احتیاط کر لو ، چھلکتا ضرور ہے۔ اسی طرح محبت سے بھرا دل کتنا بھی سنبھال کر رکھ لو ، ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹے گا ضرور اور میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے میرے انتظار میں کسی کا محبت بھرا دل ذرا سا بھی چھلکے۔

” سب کے دل کی فکر ہے ، ایک میرے دل کا کیا سائیں۔“

پاس آتی موہنی کے کانوں میںاس کے الفاظ پڑے تو بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔ علی یار نے ایک دم پلٹ کر کالے لباس میں ، بڑا سا گھونگٹ نکالے پیچھے کھڑی موہنی کو دیکھا۔جب کہ سائیں نے اسے دیکھنے کے بجائے سر جھکا لیا تھا۔ موہنی کے دل کو تکلیف پہنچی۔

” کیسا محبو ب ہے ۔ بے خیالی میں بھی ایک سرسری سی نظر بھی نہیں ڈالتا۔ کیا اس کی کوئی نظر میرے عکس کے لیے نہیں بنی۔“

موہنی کا دل چاہا کہ وہ دھاڑیں ما ر مار کر روئے ۔ ایسی بھی کیا لا تعلقی، ایسی بھی کیا بے نیازی، آخر ہے تو بندہ بشر ہی ۔ کون سا اسے ولایت مل گئی تھی یا وہ ولی بن گیا تھا کہ اتنا بے نیاز بنتا تھا۔“آج موہنی کے دل کی جلن عروج پر تھی۔

” کیا بول رہی ہے تُو اور کس سے؟“علی یار نے کڑے تیوروں کے ساتھ اس کے طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

” میں تو صرف یہ عرض کر رہی تھی کہ سائیں سب کا اتنا خیال رکھتے ہیں، مگر مجھے جس کام کے کرنے سے خوشی ملتی ہے اسی سے منع کر دیتے ہیں۔ میں کتنے شوق سے سائیں کے لیے حقہ بناتی تھی مگر اب اس سے بھی منع کر دیا ہے ۔ اگر میرا وجود اتنا ہی ناگوار لگتا ہے تو میں یہاں سے چلی جاتی ہوں۔“موہنی کا لہجہ روہانسا ہو گیا مگر سائیں ایسے اپنے گیان میں گم تھا جیسے کچھ سن ہی نہیں رہا۔

” سچ میں پگلی ہے تُو۔ خود سے ہی مفروضے قائم کر لیتی ہے ۔ ارے پگلی سائیں نے حقہ پینا ہی چھوڑ دیا ہے اور یہاں کرنے والے کام بہت سے ہیں ۔تُو کچھ اور کر لے۔ خلقِ خدا کی خدمت ہی اصل مقصد ہے نا ہمارا۔ دیکھ تو کتنے دکھی دکھی لوگ موجود ہیں آس پاس۔“علی یار نے نرمی سے اسے سمجھایا۔ موہنی نے خاموشی سے اس کے بات سنی اور بے دلی سے سر اثبات میں ہلاتی واپس جانے کے لیے مڑ گئی۔

” کل تیرے تشنگاں سے یہ کیا معجزہ ہوا

دریا پر ہونٹ رکھے، تو دریا تمام شُد!“

پیچھے سے آتی گمبھیر اور سوز میں ڈوبی آواز پر موہنی کے قدم رُک گئے اور وہ فوراً پلٹی ۔سائیں اپنے مخصوص انداز میں آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا، مگر اس کے لب آہستہ آہستہ ہل رہے تھے ۔ علی یار بہت عقیدت سے سر جھکائے اسے سنتے ہوئے سر دھن رہا تھا ۔ موہنی ٹکٹکی باندھے اسے دیکھنے لگی۔

”دنیا تو ایک برف کی سل کے سوا نہ تھی

پہنچی ذرا سی آنچ ، تو دنیا تمام شُد!

عشاق پر یہ اب کے عجب وقت آ پڑا

مجنوں کے دل سے حسرتِ لیلیٰ تمام شُد!

شہرِ دلِ تباہ میں پہنچوں تو کچھ کھلے

کیا بچ گیا ہے راکھ میں ، اور کیا تمام شُد!

ہم شہرِ جاں میں آخری نغمہ سنا چکے

سمجھو کہ اب ہمارا تماشا ،تمام شُد!“

” اللہ نہ کرے۔“ موہنی کا دل دہل گیا اور بے ساختہ اس نے دعا مانگی تھی ۔سائیں کی آنکھوں کے نم کنارے وہ دیکھ چکی تھی ۔خود پر ضبط نہ رہا تو وہ تیزی سے مڑی اور بھاگتی ہوئی وہاں سے چلی گئی ۔ اس کے دوڑتے قدموں کی چاپ نے کسی کے دل میں خاموشی کی جھیل میں دور تک دائرے بنائے تھے اور دل کے پانی میں بننے والے دائرے ،آنکھ کی سطح تک ضرور سفر کرتے ہیں ۔بس دیکھنے والی آنکھ چاہیے۔یہ اشارے جتنے عام ہوتے ہیں ، ان کے دیکھنے کے لیے اتنی ہی خاص نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔

جیسے بہت عام سے نظر آنے والے لوگوں کے لیے ، بہت سی نظریں خاص ہوتی ہیں۔جیسے کہ سائیں تھا۔ بہ ظاہر کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی ، بہت سی نظریں اس کی منتظر رہتی تھیں۔

جیسے کہ کسی بہت خاص نظر آنے والے لوگوں کے لیے ، بہت اپنے کی عام سی نظر بھی نہیں ہوتی۔

جیسے کہ موہنی تھی۔

دیکھنے میں خاص مگر وہ جس عام سی نظر کے لیے ترستی تھی وہ اتنے عرصے میں کبھی اس کا نصیب نہیں بنی۔

٭….٭….٭

”یہ اچھا نہیں ہوا شہرام۔“

ایڈم نے غصے سے ٹی وی کا ریموٹ دور پھینکا اور اسی عالم میں کمرے میں چکر کاٹنے لگا۔ شہرام فروٹ سیلڈ کا باﺅل سامنے رکھے مزے سے کھا رہا تھا ۔

” میں کچھ کہہ رہا ہوں۔“ ایڈم اس کے سر پر کھڑے ہو کے چلایا تھا ۔ شہرام نے ڈرنے کی ایکٹنگ کی۔

” سن لیا ہے میں نے۔ اب کیا کروں ؟ اگر میرے فروٹ سیلڈ نہ کھانے سے تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا، تو یہ لو نہیں کھاتا۔ اسلم او اسلم لے جا یہ باﺅل میری آنکھوں کے سامنے سے۔ نہ سامنے ہو گا اور نہ میں ترسوں گا۔“

آس پاس منڈلاتے اسلم نے فوراً انٹری دی۔

” میں یہ ظلم ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا صاحب۔“

اسلم نے جذباتی پن سے کہا ۔ایڈم نے سخت نگاہوں سے اسے گھورا، تو وہ کھسیانا ہو کر وہاں سے کھسک گیا۔

” تم بھی اب یہ ڈرامے بازی بند کرو اور میری بات سنجیدگی سے سنو۔یار تم اچھی طرح جانتے ہو ہمارے آنے والے ڈریم پروجیکٹ کے لیے یہ اسیکنڈل ۔“

ایڈم نے جھنجھلا کر کہنا چاہا مگر شہرام اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔

” بھاڑ میں گیا ڈریم پروجیکٹ۔ یہاں میرے ڈریم کے تنکے تنکے بکھر گئے ہیں اور تمہیں اپنی پڑی ہوئی ہے۔“

شہرام نے تپ کر کہا تو ایڈم کے ہونٹوں پر ہنسی اُمڈ آئی ۔

” ہنس لے ، آج دل کھول کر ہنس لے ۔ میری شادی کی تاریخ آگے نہ ہوتی تو تجھے ہنسنے کا موقع بھی کہاں ملنا تھا۔“ شہرام نے غصے سے کہا ۔ اب کی ایڈم کی ہنسی قہقہے میں بدل گئی تھی ۔ کچھ دیر شہرام اسے دیکھتا رہا پھر خود بھی مُسکرانے لگا ۔

” میں بھی آجاﺅں صاحب۔ قسم سے کافی دن ہو گئے ، کھل کر ہنسے ہوئے۔“

اسلم نے دروازے سے سر نکال کر کہا ۔ شہرام نے پاس پڑا کشن اسے دے مارا جو اس کے وہاں سے فوراً غائب ہو جانے کی وجہ سے دروازے کو لگ کر قالین پر گر گیا۔ایڈم نے شہرام کے ہاتھ سے فروٹ سیلڈ کا باﺅل پکڑا اور مزے لے لے کر کھانے لگا۔

”میرا جھوٹا مت کھا۔ مجھے محبت کی بیماری ہے پیارے۔ کہیں تجھے بھی نہ لگ جائے۔“شہرام نے اسے ڈرایا تھا ۔

”کوئی بات نہیں یار۔کچھ مرض ہنس کر قبول ہوتے ہیں۔ بس طبیب من پسند ہونا چاہیے۔“

ایڈم نے کہا تو شہرام نے سیدھے ہوتے ہوئے ، غور سے اسے دیکھا۔

” مجھے کسی گڑ بڑ کی بو آرہی ہے۔ کیا دال میں کچھ کالا ہے ؟“

” کالی دال تجھے ہی مبارک ہو بھائی۔ مجھے دالیں پسند نہیں ہیں ۔ “ ایڈم نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

” جی آخر امریکا کے مشہور بزنس مین ہیں آپ! آپ کو کہاں ہماری غریب اور مسکین دالیں پسند آنی ہیں۔“

” جن کی قیمتیں روز بہ روز آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔“

اسلم نے چائے کی ٹرالی اندر لاتے ہوئے جواب دیا۔

” ویسے اسلم صاحب! آج کچھ زیادہ ہی فارم میں نظر نہیں آ رہے ہیں۔“

شہرام نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا ۔ جس کے آج دانت اندر ہی نہیں جا رہے تھے۔

” اصل وجہ تم بتاﺅ گے یا وکی لیکس کا رول مجھے ادا کرنا پڑے گا۔“

ایڈم نے چائے کی ٹرالی پر نظر دوڑاتے ہوئے سوال کیا۔ تین دن سے سوائے غصے اور بلیک کافی کے اس نے نہ کچھ کھایا اور نہ کچھ پیا تھا۔اسی لیے اب اسے بہت زور کی بھوک لگ رہی تھی ۔

” وہ کون ہے جی؟“ اسلم نے باری باری سرونگ پلیٹس دونوں کو پکڑائیں۔

” کوئی نہیں ہے۔ تم اپنی بات کرو۔“

شہرام نے بریڈ اسکوائر کا مزہ لیتے ہوئے کہا ۔

” صاحب جی ! اماں نے گاﺅں میں میری بات پکی کر دی ہے ۔ مامے کی بیٹی کے ساتھ۔“

اسلم نے شرماتے ہوئے بتا یا۔

” مبارک ہو میرے بھائی ۔ چلو کسی کے تو سہرے کے پھول کھلیں گے۔“

شہرام نے حسرت بھرے لہجے میں کہا ۔اسلم مبارک باد وصول کرتا ہوا ، کمرے سے باہر چلا گیا ۔

بات کہا ں سے شروع ہوئی اور کہاں پہنچ گئی تھی ۔ شہرام یہ ہی چاہتا تھا کہ تین دن پہلے فارینہ کی احمقانہ حرکت کی وجہ سے جو تکلیف اور اذیت ایڈم نے اٹھائی تھی ، اس کا ازالہ ہو جائے۔ اسی لیے آج وہ سب کے لاکھ منع کرنے کے باوجود ، اپنی چوٹوں کی پروا کیے بغیر اس کے پاس پہنچ گیا تھا اور اس کی یہ کوشش رائیگاں نہیں گئی تھی ، تھوڑا وقت لگا مگر ایڈم نارمل ہو ہی گیا تھا ۔

” ویسے کبھی کبھی مجھے ایک بات کی بالکل سمجھ نہیں آتی۔ “

شہرام نے کچھ سوچتے ہوئے سوال کیا۔

”وہ کیا؟“

 ایڈم نے سگریٹ سلگاتے ہوئے شہرام کی طرف پیکٹ بڑھایا مگر شہرام نے معذرت کر لی ۔ وہ ایسی تمام خرافات سے بہت دور رہتا تھا ۔

” لوگ اچھے مستقبل کی تلا ش میں یورپین ممالک کی طرف جاتے ہیں اور تم اپنا سیٹ بزنس ، اپنے قابلِ اعتماد عملے پر چھوڑ کر یہاں آ کر بیٹھے ہوئے ہو۔ مانا کہ تمہیں کچھ تجربات کر نے کا بہت شوق تھا مگر پھر بھی۔“

شہرام نے الجھتے ہوئے سوال کیا ۔ سگریٹ کا دھواں اُڑاتے ایڈم نے بہت گہری نگاہوں سے اسے دیکھا تھا ۔

” سچ کہوں تو سوچا میں نے بھی کچھ ایسا ہی تھا، مگر بہت بعد میں جا کر سمجھ میں آیا کہ ایک سلسلہ دوسرے سلسلے سے جڑا ہوتا ہے ۔ جیسے ایک کڑی ، دوسری کڑی سے۔“

ایڈم نے سر اوپر اٹھا کر پیچھے ٹیک لگا لی۔ اب اس کی نظریں چھت پر لگی روشنیوں پر تھیں، مگر جب وہ بول رہا تھا تو اس کا لہجہ بہت کھویا کھویا سا تھا ۔ شہرام نے پہلی بار اسے اس انداز میں دیکھا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں حیرت بہت واضح تھی، مگر ایڈم اس سے قطعی بے خبر اپنی ہی دھن میں بول رہا تھا۔

” پہلے میں سوچتا تھا کہ میرا سفر بہت آگے سے آگے کا ہے ۔ میری مثال اس پرندے کی طرح ہے جسے پر ملتے ہی اپنے سامنے وسیع ، بیکراں آسمان کی پرواز کرنے کا موقع قسمت نے اپنی مہربانی سے دیا، تو مگر اس پرندے کی پرواز صرف وہاں تک ہی تھی جہاں تک اس کی ڈور جا سکتی تھی ۔

اور تم جانتے ہو شہرام ….! ہم کتنے بھی طاقتور ہو جائیں ، کتنی بھی خود سری دیکھا لیں ، دعویٰ کرلیں، مگر اپنی اپنی ڈور کے ہاتھوں ، اپنی اپنی ڈور کے سامنے، اپنی اپنی ڈور کے لیے ہم سب ہی مجبور و محکوم ہوتے ہیں۔

حالاں کہ ذرا غور سے دیکھو تو ڈور بظاہر کتنی باریک اور نازک سی ہوتی ہے مگر وہ ڈور ، جب چاہے بہت آسانی سے ہماری آتی جاتی سانسوں کو کاٹ سکتی ہے ۔ تلوار سے زیادہ تیز دھار ہوتی ہے اس ڈور کی۔

بس ایسا سمجھ لو میں بھی کسی ایسی ہی نازک سی ڈوری سے بندھ گیا ہوں جس سے دوری کا خیال ہی میری سانسوں کو توڑنے کے لیے کافی ہے اور اس بات کا اندازہ مجھے یہاں آ کر ہوا۔اسی لیے تو واپسی کا راستہ بھول گیا ہوں۔“

ایڈم کے چہرے اور آنکھوں میں جنوں کے آثار بہت واضح تھے ۔ شہرام اپنی جگہ ساکت بیٹھا رہ گیا ۔

” مجھے آج تک اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ میرے ساتھ ایک چلتا پھرتا انسان نہیں ، آتش فشاں ہے۔“

شہرام کا لہجہ بہت سنجیدہ تھا ۔ ایڈم نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ اس کے اندر ایک آگ سی جل اُٹھی تھی، وہ آگ جو اسے مدتوں سے جلا تو رہی تھی مگر خا ک نہیں کرتی تھی ۔ وہ آگ جو اس کے وجود سے ہوتے ہوتے دل تک پہنچ چکی تھی۔

اس کا دل شعلوں کی لپیٹ میں تھا ۔ اس کی تپش سے گھبرا کر ، اب اس کا دل کرتا تھا کہ سب کچھ فنا کر دے ، مٹا دے ہر چیز کو۔

ایک بے چینی ، ایک پارہ تھا جو اسے سکون سے بیٹھنے نہیں دے رہا تھا ۔

” ایڈی!“ شہرام جب موڈ میں ہوتا، تو اسے پیار سے ایڈی کہتا تھا ۔ایڈم نے نیم وا آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔

” ایڈی! تم نے یہ تو بتایا ہی نہیں۔ تمہاری وہ نازک، تلوار سے تیز دھار ، ڈور کون ہے ؟“

شہرام کی آنکھوں میں تجسس کے بادل لہراتے صاف نظر آ رہے تھے ۔

” شہرام ! وقت آنے دو ، سب بتا دوں گا۔“

ایڈی نے دوبارہ اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ اسے سخت نیند آرہی تھی ۔ وہ ابھی سونا چاہتا تھا ۔ سب کی نظروں سے بچنا چاہتا تھا ۔

” وعدہ کرو!“شہرام نے آج پہلی بار ضد کی تھی ۔ نہ جا نے کیوں؟ وہ خود نہیں سمجھ سکا۔

”ہوں!وعدہ رہا۔چاہے آخری سانس ہی باقی بچی ہو ، میں اپنا وعدہ ضرور پورا کروں گا۔“

ایڈی نے آنکھیں کھول کر مضبوط لہجے میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور دوبارہ آنکھیں موند لیں۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کی گہری ہوتی سانسوں کی آواز آنے لگی تو شہرام بہت آہستگی سے اپنی جگہ سے اُٹھا ۔ بہت محبت سے اس نے ایڈم کا سوگوار سا چہرہ دیکھا ۔ اس کے چہرے پر بچوں جیسی معصومیت اور بھولپن تھا ۔اس کی گھنی پلکیں اور چہرے کے نقوش، بالکل لڑکیوں جیسے تھے۔

اپنی مثال پر شہرام خود ہی ہنس پڑا۔ اس نے آگے بڑھ کر آہستگی سے اس کی پیشانی پر آئے بال ہٹائے اوراسلم کو اس کا خیال رکھنے کی ہدایت دے کر اپنے ڈرائیور کے ساتھ ، گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ جہاں سب اس کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔اس کی تکلیف کے احساس کی وجہ سے ثمرہ نے ضد کر کے ڈرائیور کے ساتھ اس آنے دیا تھا ۔ سب کی بے تحاشا محبت اور فکر کے بارے میں سوچتے ہوئے شہرام خود کو دنیا کا خوش نصیب انسان سمجھ رہا تھا ۔ اس نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ فارینہ کی بدگمانی نے ایڈم کا دل خراب نہیں کیا تھا ۔ باقی رہ گئی لوگوں اور دنیا کی باتیں ، تو وہ کچھ دن ہونی تھیں ۔پھر خود ہی دم توڑ جاتیں۔ اس کے لیے اہم چیز وہ رشتہ اور دوستی تھی جو اس کی ایڈم سے دل سے بنی تھی۔ اب وہ سنجیدگی سے فارینہ سے اس مسئلے پر بات کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ اسے لگتا تھا کہ فارینہ کسی شدید غلط فہمی کا شکا ر ہے۔ اسی لیے اس کا رویہ ایڈم کے ساتھ اتنا ہتک آمیز ہے ۔وہ اپنی زندگی میں ان دونوں رشتوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا چاہتا تھا ، مگر آنے والے وقت نے ایسا وار کیا کہ وہ صدمے سے دنگ ہی رہ گیا۔اس کی زندگی میں ایسا طوفان آیا کہ اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے گیا۔ وہ جو دوسروں کو منانے اور جوڑنے کی باتیں سوچ رہا تھا ، وقت کی ستم ظریفی سے خود ہی بکھر کر رہ گیا تھا۔ اتنی تیز آندھی چلی کہ ساتھ چلنے والوں کے قدموں کے نشان تک بھی مٹا گئی ۔ شہرام سب کچھ کھو کر بالکل خالی ہاتھ رہ گیا۔اب صرف وہ تھا اور اس کا بے تحاشا کام ۔ دنیا اس کے بارے میں کیا کہتی یا سوچتی تھی اسے اب کسی چیز کی پروا نہیں تھی۔ پروا کرتا بھی کیسے۔

والدین کی حادثاتی موت کے بعد ، جن دو رشتوں کو اس نے بہت محبت اور دوستی کے مان سے سینچا تھا ، وہ اسے اچانک ہی چھوڑ کر دنیا کی بھیڑ میں گم ہو گئے۔شہرام ایسا ہی رہتا اگر اس کی حبس زدہ زندگی میں تازہ ہوا کا جھونکا بن کر زویا نہ آتی جس نے پھر سے اسے مُسکرانے پر مجبور کر دیا تھا، مگر ایک یاد آج بھی بہت خاموشی سے، اس کے دل کے خشک پتے اڑاتے آنگن میں یادوں کے جھولے پر بڑی شان سے بیٹھی جھولا جھولتی ، اپنی جگہ ہمیشہ کی طرح سے موجود تھی ۔

ظاہر کی دنیا میں نہیں ۔

باطن کے ہر آئینے میں صرف اس کا ہی عکس تھا۔

عکس بھی ایسا ، جیسے کسی نے نقش کر دیا ہو۔

کبھی نہ مٹنے والے محبت کے لازوال رنگوں سے۔

”تجھے جو معلوم ہوتے،

وفا کے رسم و رواج سارے

محبتوں میں ہمارا قصہ،

مثال ہوتا ، کمال ہوتا۔“

٭….٭….٭

”میں اب اتنا بھی گیا گزرا نہیں ہوں کہ ایک عام سی گیم میں تمہارے بابا سے ہار جاﺅں گا۔ دیکھنا ابھی انہیں کس طرح اپنی ذہانت اور سمجھ داری سے تاریخ ساز شکست سے دوچار کروں گا۔“

کرنل ثقلین کیا نی کا خوب صورت اور پُرسکون گھر شہر کے پوش ایریے میں واقع تھا ۔ شہرام کو یہاں آ کر بہت اچھا لگ رہا تھا۔ کرنل ثقلین کیانی بہت شگفتہ مزاج تھے۔ فوجی زندگی سے جڑے بہت سے دل چسپ قصے انہیں یاد تھے ۔ بہت سی باتوں پر ان کے قہقہے گونجے اور بہت سی باتوں میں جرا ¿ت اور بہادری کی ایسی مثالیں پیش ہوئی تھیں کہ ایک ولولہ اور جوش ہر رگ میں اُٹھتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ایک اور بات جو شہرام نے بہت شدت سے محسوس کی کہ کرنل ثقلین کیانی اپنی مرحوم بیوی سے آج بھی بہت محبت کرتے ہیں اور ان کی کمی قدم قدم پر محسوس کرتے ہیں۔

زویا نے ہی اپنے بابا کی توجہ شطرنج کی طر ف دلوائی تھی ۔ کرنل ثقلین کیانی فور اً ہی میدان میں اتر آئے اور نپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اسے بارعب لہجے میں ، لاﺅنج میں آنے کا کہتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ گئے ۔ شہرام نے بھی ان کی تقلید کی مگر ڈائننگ ٹیبل سے اُٹھتے ہوئے بہت آہستہ آواز میں زویا کی طرف دیکھتے ہوئے بہت فخر سے دعوے کیا تو وہ معنی خیز انداز میں مُسکرانے لگی ۔

” دیکھ لیتے ہیں۔ جناب کتنے پانی میں ہیں ۔“

زویا کا لہجہ شرارتی تھا۔ شہرام نے مُسکراتے ہوئے سر خم کیا۔ جو گیم بہت زور و شور اور دعویٰ سے شروع کی بہت جلد ہی شہرام اس میں ہارتے ہوئے، سنجیدہ شکل بنا کر بیٹھ گیا تھا ۔ اس کی شکل دیکھ کر زویا کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ کرنل ثقلین کیانی جوش و جذبات میں اسے ہراتے ہوئے بہت فخر سے بتا رہے تھے کہ وہ شطرنج کے چمپئن رہ چکے ہیں۔

” یہ بات کھیلنے سے پہلے بتانی چاہیے تھی آپ لوگوں کو۔سامنے والا بندہ تو خوش فہمی میں ہی مارا گیا نا۔“

شہرام نے اس طرح مظلومیت سے کہا کہ زویا کی بے ساختہ ہنسی نکل گئی۔ جب کہ کرنل ثقلین کیانی بھی زیر لب مسکرانے لگے۔

”اچھا! کیوں زویا کیا تم نے شہرام کو میری جیتی ہوئی شیلڈز اور ٹرافی نہیں دکھائی تھیں،مگر تم تو کہہ رہی تھیں کہ شہرام نے خود چیلنج کیا ہے کہ وہ جیت کر دکھائے گا۔“

کرنل ثقلین نے سنجیدگی سے زویا کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، مگر ان کی آنکھوں کی چمک بہت واضح تھی۔

”بابا! آپ سے تو کیا ، یہ صاحب آپ کی بیٹی سے بھی اس کھیل میں نہیں جیت سکتے ۔“

زویا نے شہرام کی طرف دیکھتے ہوئے فخریہ انداز میں کہا ۔

” کوئی بات نہیں ۔آپ دونوں باپ ، بیٹی نے مل کر مجھے بے وقوف بنایا ہے۔ کبھی میرے اسٹوڈیو آئیں آپ دونوں ، میں بھی ایسے ایسے سوال کرو گا اپنی فیلڈ سے متعلق کے آپ بھی پریشان ہو کر رہ جائیں گے۔اب بتاﺅ بھلا کہ پرندہ اڑ تا تو آسمان میں ہو اور اسے چیلنج کرو کہ وہ پانی میں تیر کر دیکھائے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔“

شہرام کے منہ بنا کر کہنے پر کرنل ثقلین اور زویا بے ساختہ ہنستے ہی چلے گئے ۔ شہرام بھی مُسکرانے لگا ۔

” آ پ غم مت کریں ۔ اسی ہا رکے غم کو دو ر کرنے کے لیے میرے ہاتھ کی بنی کافی پیجئے۔ ویسے کافی پلانے کی شرط تو کچھ اور رکھی تھی ہم نے مگر جانے دیں ، کیا یاد کریں گے کہ کس سخی سے پالا پڑا آپ کا۔“

زویا نے کہتے ہوئے کافی پیش کی جسے شہرام نے فوراً تھام کر شکریہ کہا ۔ کافی پینے کے دوران ہی کرنل ثقلین سے ملنے ان کے کوئی قریبی دوست آگئے ۔ وہ ایکسکیوز کرتے ہوئے فور اً اٹھ کر چلے گئے۔ کچھ دیر بعد شہرام نے بھی اُٹھنے کی اجازت چاہی۔

” او ہم آپ کو اپنا گھر دکھانا تو بھول ہی گئے۔“

شہرام کی کار کے پاس آ کر زویا کو ایک دم سے یاد آیا ۔

” کوئی بات نہیں ۔ اگلی ملاقات میں سہی۔“

شہرام نے کار کا لاک کھولتے ہوئے کہا۔

” آپ اگلی ملاقات کے لیے بہانہ چاہتے ہیں۔“

زویا کی آنکھوں میں خواہشوں کے کئی دیپ جل اُٹھے تھے ۔شہرام کی نظر پڑی تو وہ چونک گیا۔

” یہ ناز ک سی لڑکی ۔ تمنا کے کس راستے پر چل نکلی ہے۔“شہرام نے فکرمندی سے سوچا۔

” اچھے دوستوں سے ملاقات کے لیے بہانوں کی ضرورت نہیں ہوتی زویا۔ ان کا ملنا ہمیشہ اچھا لگتا ہے ۔ “

شہرام نے سنجیدگی سے کہا اور پچھلی سیٹ پر پڑا خوب صورت بکے نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔زویا خوشی اور بے یقینی سے کھل اٹھی ۔

”آپ کو یاد تھا، پہلے کیوں نہیں دیا۔“

زویا نے للی کے سفید پتیوں پر اپنی نازک انگلیاں پھیرتے، ایک ادا سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔

” پہلے دے دیتا، تو تمہیں سرپرائز کیسے ملتا۔ ایک اچھا اور پر مسرت ساتھ دینے کے لیے، بہت شکریہ۔“

شہرام نے کہا، تو بکے ہاتھ میں لیے زویا مُسکرا کر بولی۔اس کی مُسکراہٹ بھی پھولوں کی طرح ہی تروتازہ اور دلکش تھی۔

” اچھے دوستوں کا شکریہ کہنا بھی ضروری نہیں ہوتا۔“

شہرام نے اس کی حاضر جوابی پر مُسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا ۔

تب ہی اس کی نظر ڈرائنگ روم کی کھلی کھڑکی پر پڑی ۔ کسی کی جھلک دیکھتے ہی وہ چونک گیا۔اسے ایسا لگا کہ جیسے وہ اس شخص سے واقف ہے مگر دور ہونے کی وجہ سے ٹھیک سے پہچان نہیں پایا۔

” کیا ہوا؟ “ زویا نے اسے سوچ میں گم دیکھ کر سوال کیا۔

” آں کچھ نہیں۔ میں چلتا ہوں۔“شہرام نے اپنا سر جھٹکا اور کار میں بیٹھ کر ، ہاتھ ہلاتا ، وہاں سے چلا گیا۔

زویا ان پھولوں کے حصار میں گھری خوش دلی سے مُسکرا رہی تھی۔

”یہ ضروری تو نہیں ، حرف و صدا پُر زور ہو ، اک شو ر ہو

بند ہونٹوں سے بھی کرتے آ رہے ہیں گفتگو ، میں اور تُو“

اس منظر کو گلاس ونڈو سے د و نفوس نے بھی دیکھا تھا۔ ایک کے چہرے پر بے تحاشا خوشی اور دل میں اطمینان تھا۔جبکہ دوسرا کسی گہری سوچ میں گم تھا۔یہ دوسرا وہی تھا جس کی ایک جھلک دیکھ کر شہرام چونکا تھا۔

٭….٭….٭

”یہ سارا سامان دھیان سے اٹھا نا اور تہ خانے میں رکھ دو۔“

علی یار صبح سے مصروف تھا۔ آج کسی مخیر نیک دل شخص نے غریب عورتوں اور بچوں کے لیے بہت سارا راشن بھیجا تھا۔ یہ نیک دل شخص پچھلے کچھ عرصے سے یہ کارِ خیر سر انجام دے رہا تھا۔اس کی ٹیم کے لوگ مہینے کی مخصوص تاریخ میں آتے اور پیسوں کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا بہت سارا سامان بھی دے جاتے ۔وہ نیک دل آدمی کو ن تھا یہ علی یار نہیں جانتا تھا مگر اس کی وجہ سے جو ذمہ داری بے سہارا عورتوں اور بچوں کی انہوں نے اٹھائی تھی ، وہ بہت خوش اسلوبی سے سر انجام دی جا رہی تھی ۔

آج علی یار کو ایک اور خوش خبری بھی ملی جسے وہ سب سے پہلے سائیں کو سنانا چاہتا تھا، مگر سائیں ابھی تک اپنا کام ختم کرکے واپس نہیں لوٹا تھا۔ شام ڈھلے جب وہ تھکا ہارا واپس آیا، تو علی یار کو بے چینی سے اپنا منتظر پایا۔ اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھتے ہوئے، سائیں نے کندھے پر رکھے رومال سے اپنا پسینے سے تر چہرہ صاف کیا۔

” کیا ہوا علی یار۔ آج بہت خوش نظر آ رہے ہو۔“

علی یار ابھی سامنے آ کر بیٹھا ہی تھا ۔ جب سائیں نے کہا ۔ علی یار نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

”آپ نے کیسے جان لیا۔ ہاں آپ اللہ والے ہیں ۔ کچھ بھی جان سکتے ہیں۔“

علی یار نے عقیدت سے کہا ۔سائیں اس کی بات پر بے ساختہ ہنس پڑا۔

” میرے کس عمل سے تمہیں ایسا لگا کہ میں اللہ والا ہوں علی یار۔ میں صرف اس کا ادنیٰ سا بندہ ہوں۔ جیسے باقی سب ہیں ، جیسے تم ہو۔“سائیں نے کہا تو علی یار کہنے لگا ۔

” اللہ والا وہ ہوتا ہے، جس کی دعا قبو ل ہوتی ہے اور آپ کی دعا کا فیض سب کے لیے عام ہے سائیں۔“

علی یار کے لہجے میں محبت تھی۔

”علی یار! دعا قبول کرنے کا وعدہ تو اس ذات ِ پاک نے سب سے کیا ہے۔ دعا چاہے آخرت کے لیے ذخیرہ کر دی جائے یا دنیا میں ہی پوری ہو جائے۔ دعا تو خیر ہی خیر ہے۔بس مانگتے رہنا چاہیے۔“

سائیں نے نرمی سے اسے سمجھایا۔

”ہاں مگر آپ اللہ والے تو ہو نا۔“علی یار اپنی بات پر با ضد تھا ۔

” اللہ والا وہ ہوتا ہے علی یار جسے اللہ اپنے لیے منتخب کر لیتا ہے۔ جس پر آزمائشیں اس طرح اترتی ہیں، جیسے آسمان سے بارش کی بوندیں اور ثابت قدم رہنے والے ہی ” اللہ والے “ کہلاتے ہیں۔ میری مثال تو ایسی ہے ۔ جیسے کسی نابینا کے ہاتھ میں آئینہ دے دیا گیا ہے، مگر دنیا پرست ہونے کی وجہ سے وہ بینائی سے محروم رہے۔“

سائیں نے کہا، تو علی یار نے اسے غور سے دیکھاجسے کچھ بھی نہ ہونے کا دعویٰ تھا، مگر لوگوں کے لیے وہ بہت کچھ تھا۔

”سائیں ! آپ کو خوش خبری تو سنائی ہی نہیں میں نے ۔“علی یار نے کچھ یاد آنے پر کہا ۔

” اچھا! وہ کیا ؟“سائیں نے نرمی سے پوچھا۔

” وہ نیک دل شخص جو ہر مہینے باقاعدگی سے امداد بھیجتا ہے ، اس نے پیغام بھجوایا ہے کہ بہت جلد وہ یہاں ایک اسکول اور ہسپتا ل تعمیر کروانے لگا ہے۔ جہاں غریبوں کے لیے مفت سہولیات ہوں گی۔ سائیں ! آپ کی یہ بہت بڑی خواہش تھی نا کہ ان غریب بچوں کی تعلیم کا سلسلہ کسی طرح سے شروع ہو سکے تاکہ کل کو یہ مزار پر مانگنے یا گلیوں میں کوڑا چننے کے بجائے ، پڑھ لکھ کر اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو سکیں۔ دیکھیں اللہ نے کیسا سوہنا وسیلہ بنایا ہے۔

”پھر بھی آپ کہتے ہیں کہ آپ ” اللہ والے “ نہیں۔“

علی یار نے کہا، تو سائیں کسی گہری سوچ سے باہر نکلا تھا ۔

” علی یار! مجھے کسی کی نیت اور عمل پر شک تو نہیں مگر تمہارا محتاط رہنا بہت ضروری ہے۔ میں کل یہاں سے جا رہا ہوں ۔ میرے پیچھے ان سب کی ذمے داری تم پر ہے۔ تم سمجھ رہے ہو نا۔“

سائیں کا اشارہ کس طرف تھا ۔ علی یار نے سمجھ کر فوراً سر ہلا یا۔

” سائیں آپ بے فکر ہو کر جائیں۔ علی یار اپنی جان تو دے سکتا ہے، مگر اپنے وعدے سے نہیں پھرے گا۔ مجھے آپ سے کیا وعدہ بہت اچھی طرح یاد ہے جو اِن غریب و بے سہارا عورتوں کی ذمے داری اٹھاتے ہوئے میں نے آپ سے کیا تھا۔“

علی یار نے مضبوط لہجے میں کہا۔ سائیں نے اس کا کندھا تھپکایا۔علی یار سلام کرتا ہوا واپس چلا گیا ۔

سائیں نے گھنے درخت کے تنے سے ٹیک لگائی اور سامنے مزار کے احاطے کی طرف دیکھنے لگا۔ لوگ اپنی منتوں اور مرادوں کی جھولیاں پھیلائے ، آتے اور جاتے رہتے تھے۔ سائیں کا زیادہ وقت اسی کونے میں گزرتا تھا ۔ جہاں عام آدمی کی نظر نہیں پہنچتی تھی ۔کیوں کہ گھنے سایہ دار درخت اور کچھ فاصلے پر بنی رکاٹ کی وجہ سے لوگ اس طرف نہیں آتے تھے۔ ا گر کسی کو پتا چل جاتا کہ سائیں کا مخصوص ٹھکانہ یہ ہے تو وہ کسی رکاوٹ کی پروا کیے بغیر، اس تک ضرور پہنچتے۔

سائیں دنیا میں ویسی ہی زندگی گزار رہا تھا جیسے سب گزارتے ہیں ، مگر وہ لوگوں کے اندھے اعتقاد اور توہم پرستی سے ڈرتا تھا۔ اسی لیے کسی مخصوص نشست یا جگہ پر نہیں بیٹھتا تھا کہ لوگ پیری مریدی کے چکر میں پڑ کر ، اپنے اصل کو بھول جائیں۔

ان سب کوششو ں کے باوجود بھی، لوگوں میں اس کا فیض اور مقبولیت روز بہ روز بڑھتی جا رہی تھی۔

”تُو بھی کیا خو ب ہے میرے رب۔“

سائیں نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔

” میں جتنا زیادہ ، ان سب باتوں سے بچنا چاہ رہا ہوں، تُو اپنی رحمت سے مجھے اسی طرف دھکیل رہا ہے۔

میری ہر خواہش، ہر دعا، بن مانگے پوری کر دیتا ہے اور جس کی تمنا اور خواہش نے خاک بنا دیا ، بس وہی نہیں پوری کرتا۔ کمال ہے تُو۔ تیری حکمت ، تُو ہی جانے۔ میں تو جانوں اپنے دل کی۔

جو پہلے دن کی طرح، آج بھی جلوہ ِیار کے سامنے اپنی سُد ھ بدھ کھو دیتا ہے۔

جو آج بھی محبوب کے ہر نقش کو بند آنکھوں سے دیکھتا اور جبین سے سجدہ کرتا ہے۔

بنانے والے۔

تُو نے محبت بھی کیا خوب شے بنائی، مگر ایک شکوہ ہے تُجھ سے۔“

سائیں کی آنکھوں میں نمی پھیل گئی۔

”تُو نے بہت ظالم چیز بنائی ہے یہ محبت۔

بہت درد اور دکھ دیتی ہے یہ۔

محبت اتنی عام اور سستی کہ سب کو اس کا منتر دے دیا۔

مگر نایاب اور خاص اتنی کہ صرف ”دل والے “ اس منتر کا استعما ل کرنا جانتے ہیں۔

عام بنا کر بھی ، اسے خاص ہی رہنے دیا۔

مگر مالک….!

مرے ہوئے کو مارنا، یہ تیری شان نہیں میرے مالک۔

یہ تیری شان نہیں۔“

سائیں نے اپنا سر گھٹنوں میں رکھ لیا اور زارو قطار رونے لگا۔

”بہانے اور بھی جو ہوتے زندگی کے لیے

ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے

بچا لیا مجھے طوفان کی موجوں نے ورنہ

کنارے والے سفینہ میرا ڈبو دیتے

جو دیکھتے میری نظروں پر بندشوں کے ستم

تو یہ نظارے مری بے بسی پر رو دیتے

کبھی تو یوں بھی اُمنڈتے سر شکِ غم مجروح

کہ میرے زخمِ تمنا کے داغ دھو دیتے“

٭….٭….٭

” کیا بات ہے نور بانو! آج آپ کسی گہری سوچ میں گم نظر آ رہی ہیں؟“

خان زادہ شمشیر نے گاﺅ تکیے سے ٹیک لگاتے، بیڈ پر نیم دارز ہوتے ہوئے پاﺅں سیدھے کیے تو نوربانو نے کمبل ان کے اوپر اچھی طرح سے پھیلا دیا۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اتنا عرصہ خان زادہ احمد کی بیماری دیکھنے اور اس سے لڑتے لڑتے ، وہ خود بہت کمزور ہو گئے تھے۔

اکلوتے بیٹے اور اپنی خاندانی گدی کے وارث کی صحت یابی کے لیے انہوں نے بڑی ٹھوکریں کھائیں تھیں۔ بڑے اتار چڑھاو دیکھے تھے اور سفر کی صعوبتیں جھیلی تھیں ۔ راہوں کے کانٹے ، اپنے تلوے میں چبھوئے تھے ، تب جا کر آج یہ مبارک دن دیکھنا نصیب ہوا تھا ۔

آج ان کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی تھی ۔ آج ان کے بیٹے نے گدی سنبھالی تھی ۔ وہ اب اس کا وارث تھا ۔ اسے لے کر چلنے والا ۔

آج حویلی دلہن کی طرح سجی تھی ۔آ ج سے سال پہلے بھی یہ حویلی ، خان زادہ احمد کی صحت یابی کی خوشی میں دلہن کی طرح سجائی گئی تھی ۔کئی دن تک صدقہ خیرات اور لنگر تقسیم کیا گیا تھا ۔ عائشہ کو ایک بار پھر دلہن کی طرح سجا یا گیا تھا ۔ مریم اور آمنہ بھی اکلوتے اور لا ڈلے بھائی کی صحت یابی کی خوشی میں رب کا شکرانہ ادا کرتے نہیں تھکتی تھیں اور آج بھی ایسا ہی دن تھا جب سب لوگ خوشی سے بھرپور لہجوں میں بول رہے تھے ۔ نوربانو کے چہرے پر خوشی تو تھی ہی مگر خان زادہ شمشیر کو محسوس ہونے لگا تھا کہ جیسے وہ اکثر کسی گہر ی سوچ میں ، اپنے حال سے کٹ جاتی ہیں ۔ کافی دن خاموشی سے ان کا جائزہ لینے کے بعد آج بالآخر انہوں نے پوچھ ہی لیا۔ نوربانو کے ہاتھ کمبل ٹھیک کرتے ہوئے، ایک لمحے کے لیے رکے ضرور تھے، مگر پھر دوبارہ سے خود کو مصروف ظاہر کرنے لگیں۔

” آپ کا وہم ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔“

نوربانو کا لہجہ سرسری سا تھا ۔خان زادہ شمشیر نے مسکراتی نگاہوں سے انہیں دیکھا۔ نوربانو نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا اور چونک گئی۔

” آپ کیوں مسکرا رہے ہیں۔“

” بس ویسے ہی! آج بلا وجہ ہی دل خوش ہے۔“ انہوں نے اطمینان سے جواب دیا۔

” اور میراد ل بلاوجہ ہی اداسی میں ڈوب رہا ہے۔“

نوربانو نے بے دلی سے بیڈ کی پائنتی کی طرف بیٹھتے ہوئے کہا۔

” نور بانو! میں آپ سے یہ ہی تو پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ آپ کی اُداسی اور کھوئے کھوئے انداز کی آ خر کیا وجہ ہے؟آپ چاہیں تو اپنے دل کی بات، مجھ سے کہہ سکتی ہیں۔ آپ جانتی ہیں نور بانو ۔ میں نے کسی سے سیکھا ہے کہ دل کی بات کہنے والوں کو ، کہنے دینا اور اسے خود میں سمو لینا ، بہت بڑی رحمت ہوتی ہے۔ اللہ سب کی سننے کا وصف بھی کسی کسی کو دیتا ہے۔“خان زادہ شمشیر نے نرم لہجے میں کہا۔

” سائیں ! کی بات کر رہے ہیں نا آپ۔ یہ وصف اس کی ذات کا سمندر ہے۔ اسی لیے تو وہ اتنا گہرا اور پُراسرار ہے۔“

نوربانو کے درست اندازے پر وہ حیران ہو کر کہنے لگے۔

” واہ! آپ تو سائیں کو بہت قریب سے جاننے لگیں ہیں۔اتنی جلدی بوجھ لیا۔“

” ہوں! نہ جانے کیوں مگر آج کل اس سے ملنے کی خواہش زور پکڑنے لگی ہے ۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم ایک با ر جا کر اسے مل آئیں ۔آخر اس کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے۔ اسی کی وجہ سے آج ہماری حویلی کی خوشیاں قائم ہیں ۔ ان شا اللہ بہت جلد ہم اپنے احمد کی اولاد بھی دیکھ لیں گے ۔میں چاہتی ہوں کہ یہ خوش خبری بھی سائیں کو سناﺅں !میرا دل چاہتا ہے کہ اب وہ ہماری ہر خوشی ، ہر دکھ میں شامل ہو! شاید اس لیے کہ….!“

نوربانو نے کچھ کہنے سے خود کو روکا، مگر ان کی آنکھوں سے بہتے آنسو آج بھی اسی ادھوری رات میں پیدا ہونے والے ، ادھورے وجود کی کہانی سناتے تھے ۔اتنے سالوں میں نہ جا نے کیا کچھ بدل گیا تھا، مگر ان آنسوﺅں کا رنگ، آج بھی اوّل دن کی طرح تھا۔ان میں کبھی کسی اور احساس کا ذائقہ شامل نہیں ہوا تھا ۔ یہ آنسو جس ادھورے وجود کے لیے بہے تھے، آج بھی اسی کی یاد میں بہتے تھے۔

” اسی لیے آپ اتنے دنوں سے اُداس اور افسردہ تھیں ۔“ خان زادہ شمشیر نے گہری سانس لے کر کہا۔

” مجھے اندازہ ہے کہ احساس اور ممتا کا جو تعلق آپ نے سائیں سے جوڑ لیا ہے ، وہ بہت گہرا اور مضبوط ہے۔

مگر نوربانو! ابھی آپ کا اس طرح شہر سے باہر جانا مناسب نہیں ہے۔ آپ جانتی ہیں کہ عائشہ کو اس وقت آپ کی ضرورت ہے۔

مریم اور آمنہ بھی اسی وجہ سے یہاں رہنے آئی ہوئی ہیں۔ اللہ خیر کا وقت لائے۔ ہم خود جا کر سائیں کو یہ خوش خبری سنانے کے ساتھ ساتھ ، اس کا منہ بھی میٹھا کروائیں گے ۔ہمیں بھی وہ بہت پسند ہے نور بانو! مگر بس تھوڑا انتظار اور کر لیں۔“

ان کے سمجھانے پر نور بانو اثبات میں سر ہلاتیں ، دوپٹے سے اپنی آنکھیں پونچھتیں اپنی جگہ سے اٹھ کر کمرے سے باہر جانے لگیں ۔جب کچھ یاد آنے پر رکیں اور مڑ کر خان زادہ شمشیر کی طرف دیکھ کر گویا ہوئیں۔

”اور سب تو ٹھیک ہے ، مگر کیا سائیں کو بھی اپنا وعدہ یاد نہیں رہا۔ میں مجبور ہوں ، تو کیا وہ بھی نہیں آ سکتا مجھ سے ملنے ! ماں جی کہتا تھا مجھے ! کیا اپنی ماں ہوتی تو اسے بھی اتنا انتظار کرواتا؟“

نوربانو کے چہرے پر اتنی معصومیت ،سادگی اور تڑپ تھی کہ کتنی دیر ہی وہ گم صم بیٹھے ان کا چہرہ بصارت کے پردے پر لہراتا دیکھتے رہے ۔ جب کہ نوربانو کو وہاں سے گئے کافی دیر گزر گئی تھی۔

٭….٭….٭

”مجھے یقین نہیں آرہا۔ ایک بیچلر کا گھر اور اتنا صاف ستھرا اور خوب صورتی سے سجا ہوا بھی ہو سکتا ہے۔“

سار ے گھر کا گھوم پھر کے اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد عانیہ نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔ شہرام نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا کمپلیمنٹ قبول کیا تھا ۔جب کہ زویا کی آنکھوں میں بھی واضح ستائش تھی ۔

”اس میں ان صاحب کا کوئی کمال نہیں ہے محترمہ۔ سارا گھر قابل نوکروں کی فوج کے سر پر چل رہا ہے۔ خود تو یہ ہل کر پانی بھی نہیں پیتے اور بندے کے پاس پیسہ ہو تو ایک سے بڑھ کر ایک ہوم ڈیکوریٹر مل جاتا ہے۔“انصب نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

” اچھا یہ سب سہولتیں تو تمہارے گھر میں بھی میسر ہیں، مگر پھر بھی اتنی صفائی ، اتنی سجاوٹ نظر نہیں آتی ہے اور نواب صاحب جو چیز جہاں سے اٹھاتے ہیں ، واپس وہاں رکھنا بھول جاتے ہیں اور تو اور….“

عانیہ اسے گھورتے ہوئے جو بولنا شروع ہوئی تو رکی ہی نہیں ۔ سب کے سامنے انصب کھسیانا ہو کر بولا۔

” عانیہ ڈئیر یہ تبصرے تم گھر میں بھی روز ہی کرتی ہو ۔ ابھی کوئی اور بات کر لیں !سمجھا کرو یار میری عزت کا سوال ہے۔“

انصب نے شہرام کی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے کہا، تو عانیہ ”ہونہہ“ کہہ کر سر جھٹک کر رہ گئی۔

”کوئی بات نہیں میرے دوست۔ اب تم ” شوہر“ بن چکے ہو۔ اس طرح کی عزت افزائی کا خود کو عادی بنا ہی لو۔“

شہرام نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے تسلی دی، مگر اس کی آنکھوں میں ناچتی شرارت دیکھ کر انصب جل بھن کر رہ گیا۔

”اُڑا لے مذاق، مگر فکر مت کر تیرا وقت بھی زیادہ دور نہیں۔ بڑے پھول گفٹ کیے جا رہے ہیں آج کل ! ہمیں بھی سب خبر ہے جناب۔“

انصب نے اپنا بدلہ اتارا۔ اسے عانیہ کی زبانی پتا چلا تھا کہ شہرام زویا کے گھر اس کے لیے پھول بھی لے کر گیا تھا ۔ خوش فہم زویا کی طرح ، عانیہ نے بھی دور تک سوچ لیا تھا۔ شہرام اپنے سر پر ہاتھ مار کر رہ گیا۔

” یار تم تو سمجھ دار ہو۔ تمہیں تو کم از کم ایسا نہیں سوچنا چاہیے ۔“شہرام نے اسے ملامت کی۔

” محبت میں سمجھ داری کا کیا عمل دخل جناب۔“

صوفے کی بیک سے ٹیک لگاتے ہوئے انصب نے کہا۔ شہرام نے آج انھیں اپنے گھر ڈنر میں انوائٹ کیا تھا ۔ کیوںکہ عانیہ نے صاف کہہ دیا تھا کہ پہلے ہی وہ شادی اور پھر لانگ ہنی مون کی وجہ سے ہوٹلوں کے کھانے کھا کھا کر تنگ آگئی ہے ۔ اگر شہرام نے دعوت دینی ہے تو پھر اپنے گھر دے ۔شہرا م نے اس کی بات سر آنکھوں پر رکھی ۔ عانیہ اور انصب کی فیملی کے ساتھ ساتھ اس نے کرنل ثقلین کیانی اور زویا کو بھی مدعو کیا تھا ۔

” تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں محبت کر چکا ہوں۔“

شہرام کا لہجہ سنجیدہ تھا ۔

” وہ ماضی کی بات ہے شہرام۔ اب نئے راستے تمہارے منتظر ہیں۔“

انصب نے بے پروا ئی سے کہا۔

” انصب میں محبت کی بات کر رہا ہوں۔ اپنی محبت کی جس میں مجھے سب کچھ ملا ہے ۔ میں روز اخبار میں چھپنے والی کسی نئی یا پرانی ہو جانے والی ” خبر“ کی بات نہیں کر رہا ۔ “

شہرام نے چڑ کر کہا۔ اسی وقت ان دونوں کی نظر زویا پر پڑی ۔ جس کے چہرے کا رنگ زرد ہو رہا تھا ۔ لگتا تھا کہ جیسے وہ سب سن چکی ہو۔

ان کے متوجہ ہوتے ہی وہ تیزی سے واپس مُڑ گئی۔

” اب خوش ہے تُو۔ ہر نایاب چیز کو کھونا اور اس کے لیے رونا تیری عادت بن گئی ہے شہرام۔“

انصب نے غصے میں نہ جانے کیا کچھ کہہ دیا۔ شہرام کے چہرے کا رنگ ایک دم بدلا۔

” سور ی یار! میں تجھے تکلیف دینا نہیں چاہتا، مگر شہرام تم خود سوچو ، تمہاری وجہ سے کسی اور کا دل بھی ٹوٹ گیا ہے ۔محبت صرف تمہاری جاگیر نہیں ہے نا۔ تمہاری طرح اور بھی بہت لوگ مبتلائے محبت ہوتے ہیں، مگر وہ خود پر زندگی کے دروازے بند نہیں کر لیتے۔

میری بات پر سوچنا ضرور۔ میں تمہیں تمہاری محبت سے مکرنے کا نہیں کہہ رہا، میں دوسروں کی محبت کی قدر کرنے کا کہہ رہا ہوں۔“انصب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ شہرام اس کی بات پر سر جھکا کر رہ گیا۔

٭….٭….٭



” علی یار! “

موہنی نے دور سے علی یار کی جھلک دیکھتے ہی ،اسے پکارا تھا ۔ وہ کافی دیر سے اس کے انتظار میں احاطے کے چکر پر چکر لگا رہی تھی ۔ اس کی حالت ایسی تھی جیسے بن پانی کے مچھلی۔ اس کی یہ حالت بہت سی نگاہوں میں آ چکی تھی مگر اصل وجہ کسی کو نہیں معلوم تھی ۔ آج موہنی نے پینو کو بھی بری طرح سے جھڑک دیا تھا۔ پینو نے بہ مشکل اس کا ایسا لہجہ برداشت کیا تھا۔ اگر اسے بات بگڑنے کا خطرہ نہ ہوتا، تو وہ موہنی کو بہت اچھی طرح سے جواب دیتی مگر بڑے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، چھوٹی چھوٹی شکست کھانے میں کوئی ہرج نہیں تھا۔ موہنی کے دام بھی اس نے بہت زیادہ رکھے تھے۔ سونے کی اس چڑیا کو، اپنی بے وقوفی اور جلد بازی سے گنوانا کہاں کی عقل مندی تھی۔

پینو نے یہاں کی بدلتی صورت حال اور نگرانی کی وجہ سے، بہت جلد یہاں سے کوچ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ علی یار اور اس کے نگران بندے بہت چوکس ہو گئے تھے۔ ایسے جیسے انہیں کسی بات کی بھنک پڑ گئی ہو ۔عورتوں کے لیے بنایا گیا حصہ اب ایک ادارے کی شکل اختیار کرتا جا رہا تھا ۔ بہت سے مخیر افراد اس کی سر پرستی کر رہے تھے۔ اسی لیے اس کے رقبے کو مزید بڑھایا جا رہا تھا اور عورتوں کو ان کی قابلیت کے مطابق تعلیم اور ہنر سکھانے کا بھی منصوبہ بن چکا تھا ۔ ابھی فی الحال ادارے میں سے ہی تھوڑی بہت پڑھی لکھی خواتین کو منتظمین میں شامل کیا گیا تھا جن میں رضیہ بھی شامل تھی ۔ موہنی نے کوئی بھی ذمہ داری سے انکار کر دیا تھا، مگر وہ سب کاموں میںپیش پیش ضرور ہوتی تھی ۔

پینو جو بظاہر ان اقدامات پر خوشی کا اظہار کرتی تھی، مگر اندر سے بہت پریشان تھی ۔ اسی لیے موہنی کی صورت میں جیک پاٹ اسے مل رہا تھا جسے وہ کسی صورت میں نہیں گنوانا چاہتی تھی ۔

” کیا ہوا موہنی! تُو پریشان کیوں ہے ؟“

علی یا رنے اس کے چہرے کے اُڑے ہوئے رنگ دیکھ لیے۔ اسی لیے کسی خدشے کے تحت پوچھا تھا ۔

” علی یار! سائیں کہاں ہیں؟ “

موہنی نے بے تابی سے پوچھا، تو علی یار نے گہری سانس لی۔

” کیوں تجھے کوئی کام ہے سائیں سے۔“

علی یار کا لہجہ سرسری سا تھا ۔

” کیوں کیا کام کے بغیر ان کے بارے میں پوچھنا گنا ہ ہے؟“

موہنی نے تیکھے لہجے میں کہا ۔تو علی یار بے ساختہ ہنس پڑا تھا۔

” کیا بات ہے ؟ آج تیرا مزاج کیوں اتنا تلخ ہے موہنی۔ فکر مت کر سائیں آ جائیں گے۔ ایک وعدہ کیا تھا کسی سے، وہ نبھانے گئے ہیں۔ میں نے منع بھی کیا تھا اپنی گھر والی کو کہ کسی سے ذکر مت کرے سائیں کے جانے کا۔ لوگ بلاوجہ ہی سوال ، جواب کرنے لگ جاتے ہیں۔فضول کی باتیں اور مفروضے قائم کر لیتے ہیں۔ چل تُو جا اب اور زیادہ اِدھر ، اُدھر مت پھرا کر، عورتوں والے حصے میں رہا کر۔ مجھے اب کام کرنے دے ۔“

علی یا رنے سنجیدگی سے کہا اور وہاں سے چلا گیا ۔موہنی گم صم اپنی جگہ کھڑی کی کھڑی رہ گئی ۔

”جب جان جسم سے نکلنے لگتی ہے تو اس کی خبر باہر سے نہیں ، اندر سے ملتی ہے۔ آنکھ بینائی رکھتے ہوئے بھی اگر کچھ نہ دیکھ پا ئے تو قصور نظر کا نہیں ، نظر بن جانے والوں کا ہوتا ہے۔ “

موہنی کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ ایسے ہی تو نہیں آج اسے فضا خالی خالی اور اُداس لگ رہی تھی۔ ہواﺅں میں کسی کے ہونے کا احساس ، اس کی خوشبو نہیں تھی۔ کسی کے قدموں کی چاپ میں ، اس کی موجودگی کا لمس نہیں تھا آج۔

آج سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ، کچھ نہیں تھا کائنات میں۔حتیٰ کہ اس کا اپنا وجود بھی خلا میں کہیں معلق ہو کر رہ گیا تھا۔

”داورِ حشر! کچھ پتا تو چلے

وحشتوں کا حساب ہوتا ہے؟

اُس کو میرے ہر اُس سوال سے چڑ

جس کا ہاں میں جواب ہوتا ہے

وہ بھی الفاظ کا نہیں قائل

جیسے! اہلِ کتاب ہوتا ہے!“

٭….٭….٭

” مریم تم اماں رحیمہ کے ساتھ ہسپتا ل چلی جاﺅ اور آمنہ کو گھر بھیج دینا ۔ شام میں عائشہ کو ڈسچارج کر دیں گے ۔ میں اپنی بہو اور ننھے مہمانوں کے استقبال کی تیاری کر لوں ۔ بہت سے کام کرنے والے ہیں ۔ خوشی سے تو میرے ہاتھ پاﺅں پھولے جا رہے ہیں۔ اتنی خوشیاں آگے پیچھے ملیں ہیں کہ دل سنبھلتا ہی نہیں۔“

نوربانو کے ہاتھ پاﺅں خوشی سے پھولے ہوئے تھے ۔ اللہ نے انہیں پوتے اور پوتی دونوں کی خوشی سے ایک ساتھ نوازا تھا ۔ جڑواں بچوں کی آمد نے سب ہی کو بے پناہ خوشی اور مسرت عطا کی تھی۔ خان زادہ شمشیر بھی لوگوں کی مبارک باد وصول کرتے ہوئے، مختلف انتظامات میں لگے ہو ئے تھے ۔ آخر ان کی نسل آگے بڑھی تھی ، کئی دن تک جشن منانا، تو ان کا حق تھا۔

”امی میں تیار ہوں ۔ میرے دونوں بچے اور آمنہ کے تینو ں بچے رانو اور میراں سنبھال لے گی۔ میں نے انہیں ہدایت کر دی ہے ۔ آپ فکرمند مت ہوں۔“

مریم نے چادر اچھی طر ح اوڑھتے ہوئے ماں سے کہا، تو وہ سر ہلا کر رہ گئی۔ اسی وقت اماں رحیمہ بھی خوشی سے چہکتی ان کے پاس پہنچ گئی ۔

”نور بانو بی بی ! میں نے اپنی نگرانی میں دلہن (عائشہ )کے لیے پرہیزی کھا نا تیار کروا لیا تھا۔ اللہ نے خوشی ہی اتنی بڑی دی ہے کہ سمجھ میں نہیں آ رہا ۔“

اماں رحیمہ نے پُر مسرت لہجے میں کہا ۔ باتیں کرتے کرتے وہ لوگ پورچ میں پہنچ گئے۔ نور بانو مختلف ہدایتیں دینے کے باوجود بھی مطمئن نہیں ہو رہی تھیں ۔ عائشہ کی ماں اور نوربانو کی بہن ارم بیگم ، جو دوسرے شہر میں مقیم تھیں ، خوش خبری سنتے ہی سب کے ساتھ پہنچ گئیں تھیں اور نور بانو ابھی اپنی بیٹی کے پاس ہسپتا ل میں ہی تھیں ۔نوربانو کو اس نے زبردستی گھر بھیجا تھا کہ

” ایک ماں کے ہوتے ہوئے ، دوسری ماں ، کو فکر نہیں کرنی چاہیے۔“

نوربانو مطمئن ہو کر لوٹ تو آئیں مگر چین سے نہیں بیٹھ رہی تھیں۔ مریم اور اماں رحیمہ خداحافظ کہتے ہوئے کار میں بیٹھنے ہی لگی تھیں۔ جب گیٹ پر کسی کی ایک جھلک دیکھ کر نوربانو چونکی تھیں اور پھر سب نے حیران کن نظارہ دیکھا ۔

نور بانو اتنی تیزی سے بھاگتی ہوئی گیٹ پر پہنچی اور بحث کرتے چوکی دار کو ہٹا تے ہوئے آگے بڑھی۔

” سائیں ! تم آگئے۔“

تھکے ہارے ، سفر سے نڈھا ل سائیں نے گر د گرد حلیے میں اٹے ، سر اٹھا کر مُسکراتے ہوئے ان کی طرف دیکھا۔

” آپ نے وعدے کی ڈور سے باندھ جو د یا تھا ماں جی۔ پھر کیسے نہ آتا۔“

سائیں نے کہا، تو نور بانو خوشی سے چور ہوتے ، اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے آئیں ۔چوکیدار کے ساتھ ساتھ آس پاس کام کرتے دوسرے لوگ بھی حیرت سے دیکھنے لگے ۔

” یہ کون ہے ؟ جس کا ہاتھ امی نے اتنی گرم جوشی سے تھام رکھا ہے؟“

مریم نے حیرت سے سوال کیا ۔ اماں رحیمہ بھی اسے دیکھ کر خوش ہو کر بولیں تھیں ۔

” ارے تمہیں بتایا تو تھا! اس سائیں کی دعا سے ہی اللہ کا کرم ہوا تھا اور چھوٹے خان زادہ ٹھیک ہوگئے تھے۔ نوربانو بی بی نے انہیں اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ اسی لیے وہ اتنی خوش ہو رہی ہیں ۔“

اماں رحیمہ نے کہا، تومریم حیرت سے سر ہلا کر رہ گئی۔ نوربانو نے پاس آکر مریم کا تعارف،ا س سے کروایا، تو سائیں نے اس کی سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی ۔

” سدا آباد وشاد رہو بہن۔“

نہ جانے سچ تھا یا وہم مگر مریم کو ایسا لگا جیسے یہ کہتے ہوئے سائیں کی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں۔پھر وہ دونوں کار میں بیٹھ کر وہاں سے چلیں گئیں ۔

نوربانو سائیں کو اپنے گھر میں آنے والے ننھے مہمانوں کے بارے میں بتانے لگیں ۔ شام کو جب خان زادہ شمشیر حویلی لوٹے تو ان کو بھی سائیں کی آمد کی خبر سنائی گئی تو وہ بھی حیران ہونے کے ساتھ ساتھ بہت خوش ہوئے۔

” بہت اچھا کیا برخودار ! تم ہم سے ملنے آگئے ۔“

انہوں نے سائیں سے گلے ملتے ہوئے گرم جوشی سے کہا۔صاف ستھرے حلیے میں ملبوس سائیں بہت اچھا لگ رہا تھا جس کا اظہار انہوں نے برملا کر دیا۔ سائیں اپنی تعریف پر جھینپ کر رہ گیا اور نوربانوفخریہ مسکرائی تھیں۔

” یہ سب تو ماں جی نے بس ویسے ہی۔“

سائیں نے جھجکتے ہوئے کچھ کہنا چاہا۔خان زادہ شمشیر نے اس کا کندھا تھپتھپایا۔

” مجھے خوشی ہے سائیں !تم نے ایک ماں کے دل کا خیال رکھا۔ “

” ایک ماں کے دل کا خیال ہی تو مجھے یہاں تک لے آیا ہے۔ ورنہ میرے جیسے سیلانی آدمی کو رشتوں کی زنجیریں کب باندھ سکی ہیں۔“

سائیں نے نظریں جھکا کر کہا۔

” میں تمہیں جلدی واپس نہیں جانے دوں گی سائیں۔ جب تک میرے دل کی تسلی نہیں ہو گی۔“

نوربانو نے مان سے کہا ۔ سائیں دھیرے سے مُسکرا دیا۔

” ماں جی ! آپ کی محبت سر آنکھوں پر مگر مجھے اس طرح پابندمت کیجیے۔ میرا سفر رک جائے گا۔“

سائیں کے لہجے میں خوف شامل تھا ۔

”مگر سائیں!“ نور بانو نے کچھ کہنا چاہا لیکن خان زدہ شمشیر نے انہیں آنکھ کے اشارے سے منع کر دیا۔

” ٹھیک ہے سائیں ۔ جیسے تمہاری مرضی مگر جب تک حویلی میں جشن رہے گا۔ تم نہیں جا سکتے۔ اپنے باپ کی عمر کے شخص سے ، اب تم منتیں تو نہیں کروا گے نا۔“ انہوں نے اس چالاکی سے اسے گھیر ا تھا کہ وہ سر جھکانے کے سوا کچھ نہیں کر سکا۔ نوربانو نے شکر بھری نگاہوں سے اپنے مجازی خدا کو دیکھا تھا۔

”اتنے سالوں بعد ہی سہی مگر آج انہوں نے ایک ماں کے دل کی خوشی کو مقدم رکھا تھا۔“

٭….٭….٭

”آپ اور یہاں؟“

ملازم نے اسے کرنل ثقلین کیانی کا پیغام دیا تھاکہ وہ اسے ڈرائنگ روم میں بلا رہے ہیں ۔ زویا نے جیسے ہی اندر قدم رکھا ۔ شہرام کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔

” جی میں محترمہ ! آپ نے خود ہی تو مدعو کیا تھا ۔ فیملی تصاویر دکھانے کے لیے….“

شہرام نے پچھلی ملاقات کا حوالہ دیا، تو زویا نے سنجیدگی سے سر اثبات میں ہلا دیا ۔اسی دوران ملازم ، کرنل صاحب کی ہدایت کے مطابق کچھ پرانے البم اُٹھا کر لے آیا ۔ کرنل ثقلین کیانی جوش و خروش سے اسے اپنا شاندار ماضی دکھا رہے تھے۔ شہرام بھی دلچسپی سے سب دیکھ رہا تھا ۔

” بس بھئی میں تو تھک گیا ہوں ۔ باقی تصویریں تمہیں زویا دکھا ئے گی۔ “

کرنل ثقلین نے کہا، تو خاموش بیٹھی زویا نے چونک کر سر اٹھا یا۔

” جی ضرور۔ “

زویا کہتی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھی۔ شہرام نے بھی اس کی تقلید کی ۔ زویا نے اسے دیوار او رفریم میں لگی بہت سی تصویریں دکھائیں ۔ فیملی ممبرز کے بارے میں وہ بہت محبت سے ذ کر کر رہی تھی ، ماں کے ذکر پر بار بار اس کی آنکھیں نم ہو رہی تھیں ۔ تصویروں کے ساتھ ساتھ شہرام نے سارا گھر بھی دیکھ لیا تھا۔ٹیرس کا پُرسکون گوشہ اسے بہت پسند آیا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی چلتی ہوا نے ایک تازگی سی ماحول میں بھر دی تھی۔ زویا کسی سوچ میں گم ٹیرس کی ریلنگ پر ہاتھ رکھے ، نیچے وسیع لان میں لگے رنگ برنگ پھو ل دیکھ رہی تھی ۔

”زویا۔“

کچھ دیر تک اسے دیکھنے کے بعد شہرام نے پکارا ، تو اس نے گردن موڑ کر سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

” آئی ایم سوری میں تمہیں دکھ دینا نہیں چاہتا۔ بلاشبہ انکل اور تمہارا خلوص نایاب ہے۔ میرے لیے خوش نصیبی کی علامت ہے کہ تم جیسی انمول لڑکی میرے لیے کچھ بہت ہی خاص جذبات رکھتی ہے۔“

زویا کے چہرے پر ایک دم شرم کی لالی بکھری اور اس نے فوراً رُخ پھیر لیا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے جذبے کسی کے سامنے اس طرح عیاں بھی ہو سکتے ہیں۔ شہرام نے اس کا شرمانا محسوس کر لیا تھا۔

” زویا مجھے تمہارے انمول جذبے کی صداقت پر کوئی شک نہیں ہے، مگر اس محبت کا ذائقہ میں بہت پہلے چکھ چکا ہوں۔ میں اگر چاہوں بھی تو اپنی پہلی محبت کو کبھی نہیں بھول سکتا اور نہ ہی اس کی جگہ کسی اور کو دے سکتا ہوں۔“

شہرام نے اُداس لہجے میں کہا۔ کسی کا مسکراتا چہرہ اس کی نگاہوں کے سامنے پھرنے لگا۔زویا نے اس کی کھوئی کھوئی حالت کو محسوس کیا۔

” محبت کو بھولنے یا اس کی جگہ کسی اور کو دینے کے لیے کس نے کہا ہے۔“

زویا نے نرمی سے پوچھا، تو شہرام نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا ۔ جیسے اس کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو۔

”کیا تمہیں ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی کی جگہ لینا چاہیں گے۔ نہیں شہرام پھر تم آج تک ہمیں جان ہی نہیں سکے۔ہم اپنی جگہ خود بنانا بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ تم صرف عزت اور ساتھ دینے کا وعدہ کرو۔محبت کو ہم پر چھوڑ دو۔“

زویا نے اپنے مخصوص پُراعتماد لہجے میں کہا، تو شہرام کچھ دیر اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ جب خاموشی کا وقفہ بڑھا، تو زویا نے ہی اسے توڑا تھا۔

” شہرام! ہمیں بتاﺅ گے نہیں وہ کون تھی ؟ اور تمہیں کیوں نہیں مل سکی ؟“

زویا کے لہجے میں اشتیاق چھپا ہوا تھا ۔

”وہ لڑکی! بالکل تمہارے جیسی ہی تھی زویا۔ خوبصورت، پُراعتماد، ذہین ، پل میں دوسروں کو اپنا بنا لینے والی مگر وہ تمہاری طرح محبت کی پہچان نہیں کر پائی تھی ۔ اپنی ضد اور نفرت میں اس نے سب کچھ خاک میں ملا دیا۔

سب کچھ زویا۔ اپنے میرے خواب بھی اور کسی کی ذات بھی۔“

شہرام کا لہجہ دکھ میں ڈوبا ہوا تھا۔

” ایسا کیا کیا تھا اس لڑکی نے۔“

زویا نے پوچھا، تو شہرام گہری سانس لیتا ہوا ، اسے ماضی کی بھول بھلیوں میں لے گیا جہاں اس نے اپنی محبت اور اپنی دوستی کو ایک ساتھ کھویا تھا۔ یہ بات ہے اس وقت کی جب شہرام کا شادی سے دو دن پہلے شدید ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔ زخمی ہونے کی وجہ سے اس کی شادی ملتوی کر دی گئی تھی اور پھر….

٭….٭….٭

”فارینہ تمہارے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے ۔ کیوں تم اپنی بلاوجہ کی ضد اور چڑ میں احمقانہ حرکتیں کرتی، سب کی نظروں میں آ رہی ہو؟“

فارینہ کے گھر وہ پہنچا تو ، پہلے تو اس نے شہرام سے ملنے سے منع کر دیا۔ اسے بہت غصہ تھا اس پر مگر شہرام نے بغیر ملاقات کیے واپس جانے سے انکار کر دیا تھا۔ غصے میں بھری وہ تن کر اپنے کمرے سے باہر نکلی اور لاﺅنج میں بیٹھے ڈیڈ سے باتیں کرتے شہرام کے سر پر پہنچ کر بولی۔

” ہاں ، بولو اب کیا تکلیف ہے تمہیں؟“

” فیری! یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا ؟“مرتضیٰ ہاشم کی بھلے وہ لاڈلی اور دل عزیز بیٹی تھی، مگر وہ اصولوں کے معاملے میں سخت بھی تھے ۔

”سوری ڈیڈ! مگر آپ نہیں جانتے ، شہرام نے مجھے کتنا ہرٹ کیا ہے۔“

فارینہ نے باپ کے پاس صوفے پر بیٹھتے ہوئے کندھے پر لاڈ سے سر رکھا اور شہرام کو گھورتے ہوئے کہا۔

”جو بھی ہے فیری! میں شہرام سے ساری بات سن چکا ہوں۔ تمہارا رویہ نامناسب لگا ہے مجھے۔ ایڈم سے میں بھی مل چکا ہوں بہت بار۔ وہ مجھے ایسا نہیں لگتا اور بل فرض اگر تم نے کچھ ایسا ویسا محسوس کیا تھا یا تمہیں غلط لگا تھا تمہیں مجھ سے یا شہرام سے ذکر کرنا چاہیے تھا۔ ایسے کس طرح تم نے اس پر الزام لگا دیا ۔ بغیر کسی ثبوت کے۔“

مرتضیٰ ہاشم نے سنجیدگی سے اسے سمجھایا۔ وہ ایک مشہور بزنس مین تھے جن کا زیادہ تر وقت ملک سے باہر گزرتا تھا ۔ مرتضیٰ ہاشم کی دوسری بیوی اور تین بچے لندن میں رہتے تھے۔ فارینہ کی ماں سے ان کی محبت کی شادی تھی اور فارینہ کی پیدائش کے پانچویں سال ، ان کا انتقال ہو گیا تھا ۔ مرتضیٰ ہاشم کے خاندان نے ان کی دوسری شادی تو کروا دی مگر وہ کبھی بھی اپنی محبت کو نہیں بھول سکے ۔ اسی لیے فارینہ کی پرورش میں کبھی بھی غفلت نہیں برتی تھی انہوں نے اور یہ ہدایت سختی سے اپنی دوسری بیوی کو بھی کی تھی۔ سوتیلی ماں اور چھوٹے بہن بھائیوں کی وجہ سے اس کی نفسیات میں کوئی گڑبڑ پیدا نہ ہو ، اسی لیے انہوں نے سمجھ داری سے کام لیا تھا۔

دوسری بیوی اور بچوں کو لندن سیٹ کر دیا تھا اور فارینہ بہت قریبی اور خاندانی ملازمہ کی زیرِنگرانی بڑی ہونے لگی ۔ کچھ سال پہلے اس کا بھی انتقال ہو گیا مگر تب تک فارینہ سمجھ دار ہو چکی تھی۔

فارینہ کی سوتیلی ماں شہلا اور اس کے تینوں چھوٹے بہن بھائی ( دو بھائی اور ایک بہن ) جب بھی پاکستان آتے ، فارینہ کے ساتھ ان کا بہت اچھا وقت گزرتا۔ فارینہ کی اپنے بہن بھائیوں سے بہت دوستی بھی تھی اور فارینہ کی شادی پر آنے کے لیے وہ سب بہت پُرجوش تھے مگر شادی ملتوی ہونے سے سب پلان دھرے کے دھرے رہ گئے جس کا افسوس وہ بار بار کر رہے تھے ۔ شہلا جو ایک مہینا پہلے پاکستان آگئی تھیں ، شادی ملتوی ہونے کا سن کر کچھ دن پہلے ہی واپس چلی گئیں تھیں ۔ کچھ دنوں بعد مرتضیٰ ہاشم بھی لندن جانے سے پہلےفارینہ کو اچھی طرح سمجھا رہے تھے ۔زیادہ لاڈ پیار اور اکیلے رہنے کی وجہ سے فارینہ بہت خود سر اور ضدی ہو چکی تھی۔اسی لیے آج تک جو دل میں آیا ، وہ ہی کیا تھا اس نے۔

”مگر ڈیڈ!“فارینہ نے کچھ کہنا چاہا انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔

”بس! میں اس بارے میں کچھ اور نہیں سنوں گا فیری۔ ایڈم سے میں خود معذرت کر لوں گا ۔“

مرتضیٰ ہاشم نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے کہا ،تو فارینہ منہ بنا کر رہ گئی۔

” اب تم مت شروع ہو جانا۔ مجھے پہلے ہی بہت غصہ ہے تم پر….“

شہرام نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب فارینہ نے اسے روک دیا۔

” وہ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ….“ شہرام نے ڈرتے ڈرتے کہنا شروع کیا ۔

” تمہارے ڈیڈ بہت سیدھے سادھے ہیں فارینہ۔“

” وہ کیسے!“ فارینہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

”انکل تمہیں فیری یعنی ” پری“ کہتے ہیں ۔ جب کہ تمہارے جارحانہ مزاج کو دیکھتے ہوئے تمہیں ”پری “ کے بجائے چیڑیل کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے۔شہرام یہ کہتے ہوئے فوراً صوفے سے اٹھ گیا کیوں کہ فارینہ نے کُشن اٹھا اٹھا کر اسے مارنا شروع کر دیے تھے۔

” شہرام کے بچے ! آج تمہاری خیر نہیں۔“

فارینہ نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا، تو وہ ہنستے ہوئے ہاتھ اٹھا کر کہہ رہا تھا ۔

” خیر، تو میری زندگی سے اسی دن ختم ہوگئی تھی، جب سے تم سے محبت کی ہے فارینہ۔

اس کی بات سن کر فارینہ اپنی جگہ ٹھٹک کر رک گئی۔

”تم ساتھ ہو توسب” خیر“ ہی ”خیر “ ہے فارینہ۔“

” کیا ہوا ؟“ شہرام نے اس کا ٹھٹکنا محسوس کر لیا تھا۔ وہ نفی میں سر ہلا کر رہ گئی۔

” اچھا کل شام ثمرہ نے تمہیں گھر بلایا ہے۔ وہ جانے سے پہلے تم سے ملنا چاہتی ہے اور….“

شہرام نے کچھ کہنا چاہا مگر فارینہ نے نخوت سے اس کی بات کاٹ دی۔

” میری اس سے بات ہوگئی ہے ۔ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔تم جاﺅ اپنے اس ایڈی ، میڈی کے پاس۔“

فارینہ نے اس طرح چڑ کر کہا کہ شہرام بے ساختہ ہنسنے پر مجبور ہو گیا ۔

” تم اس طرح کہہ رہی ہو جیسے وہ میرا دوست نہیں ، میری گرل فرینڈ ہے ، حد ہے یار۔“

” شہرام ! تم اس پر اندھا اعتماد کر کے ایک دن نقصان اُٹھاو گے۔“

فارینہ نے سنجیدگی سے کہا۔

” اور فارینہ ، اپنی بدگمانی اور نفرت پر تم ایک دن بہت پچھتاﺅ گی۔“

شہرام نے بھی سنجیدگی سے جواب دیا اور اسے گڈ بائے کہتا ہوا چلا گیا ۔ فارینہ سر جھٹک کر رہ گئی۔

” مائی فٹ!“فارینہ نے نفرت سے کہا اور مڑ کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔ اگلی شام وہ بہت خوش گوار موڈ میں ثمرہ سے ملنے اکیلی گھر سے نکلی مگر جب رات گہری ہوجانے پر بھی وہ نہیں پہنچی تو شہرام نے جو اس کے نمبر پر کافی دیر سے کال کر رہا تھا ، پریشان ہو کر اس کے گھر فون ملا دیا ۔ جہاں سے اسے پتا چلا کہ وہ تو کب کی گھر سے جاچکی ہے ۔ یہ سنتے ہی شہرام کی پریشانی بڑھ گئی۔ اس کا موبائل مسلسل آف جا رہا تھا ۔ مجبوراً شہرام نے انکل مرتضیٰ کو کال کی ۔ انہوں نے فوراً ہی اپنے خاص بندے بیٹی کی تلاش میں روانہ کردیے۔ جنہوں نے کچھ ہی دیر بعد مکمل تفصیل سے انہیں آگاہ کر دیا جسے سنتے ہی انہیں ایسا لگا جیسے کسی نے ان کے جسم سے جان نکال دی ۔یہ ہی حال شہرام کا تھا جب اسے پتا چلا کہ فارینہ کی کار ہائی وے سے ملی ہے اور پولیس کے اندازے کے مطابق اسے بہت چالاکی سے اغوا کیا گیا ہے ۔ کار ہائی وے سے ملنا ایک اور سوالیہ نشان تھا کیوں کہ وہ بالکل اُلٹ راستہ تھا شہرام کے گھر سے ۔ یا تو یہ پولیس کو چکمہ دینے کی کوشش تھی یا پھر فارینہ کو شہر سے باہر لے جایا گیا تھا جو بھی تھا فارینہ کے اغوا نے دونوں گھرانوں میں قیامت برپا کر دی۔ مرتضیٰ ہاشم اور شہرام نے اپنے تمام ذرائع بروئے کار لانے شروع کر دیے مگر تا حال اس کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔

اور دن تھے کہ جیسے پر لگا کر اڑ رہے تھے۔

٭….٭….٭



”ہمارے پوتے کا نام، سائیں رکھے گا۔“ خان زادہ شمشیر نے جب اس بات کا اعلان کیا تو سب کے ساتھ ساتھ سائیں بھی حیران رہ گیا۔

”آپ نے پہلے ہی مجھ ناچیز کو بہت عزت دی ہے صاحب! خاک کو قدموں کی دھول ہی رہنے دیں۔ اپنی اوقات سے زیادہ اڑے گی ، تو سب کی آنکھوں میں چبھنے لگے گی۔“سائیں نے سنجیدگی سے کہا ۔

” تم ایسا کیوں سوچتے ہو سائیں! سب انسان برابر ہوتے ہیں۔ کوئی کم یا زیادہ یا کوئی بھی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔“

خان زادہ شمشیر نے کہا، تو سائیں خاموشی سے ان کا چہرہ دیکھتا رہا۔

” صاحب ! آپ کے نزدیک انسان اور انسانیت کی کیا تعریف ہے؟کیاصرف اپنے پیمانے پر اسے جانچتے اور پرکھتے ہیں یا پھر اس خدا کے بنائے پیمانے پر۔“سائیں کا انداز سرسری سا تھا مگر اس کے لہجے میں کاٹ تھی۔

”میں کچھ سمجھا نہیں برخودار۔“ان کا انداز الجھا ہوا سا تھا ۔

” بہت سادہ سی بات ہے صاحب! انسانیت سمجھنے کی چیز نہیں ہے ، محسوس کرنے کی بات ہے۔ وہ انسان اتنا ہی بلند اور عظیم ہو گا جو انسانیت کو زیادہ سے زیادہ محسوس کرے گا۔سمجھنے والے کام دماغ کے لوگ کرتے ہیں ۔ جب کہ انسانیت کا تعلق ” دل “ سے ہوتا ہے۔“

سائیں کی وضاحت نے خان زادہ شمشیر کو گم صم سا کر دیا ۔

”اگر انسانیت کا یہ پیمانہ ہے تو پھر ہم سے بڑا ظالم کون ہے سائیں۔ تم تو سب جانتے ہو نا۔“

ان کے لہجے میں پچھتاوے کی جلن تھی۔

” بس ایک میں ہی تو سب جان گیا ہوں صاحب! اسی” جاننے “نے تو اس نگر کا سفر پاﺅں سے باندھا ہے۔ نہیں تو میں اپنے حال میں مطمئن ، خلق خدا کی خدمت میں اپنے رب کی رضا تلاش کر رہا تھا ۔ آپ جانتے ہیں ” وہ ذات“ بندے کو قدم قدم پر ایسے دل شکن امتحانوں میں ڈالتی ہے کہ ہر بار ٹوٹنا پڑتا ہے ۔ وہ پھر جوڑتا ہے اور تب تک یہ عمل جاری رہتا ہے جب تک آزمائش کی بھٹی جلا جلا کر ، اس کی رضا اور پسند کے مطابق خالص نہیں کر دیتی۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ شاید اسے کچھ لوگ محروم ہی سب سے زیادہ پسند آتے ہیں۔ اس لیے وہ انہیں ساری زندگی محروم ہی رکھتا ہے۔“سائیں نے اُداسی سے کہا۔

Loading

Read Previous

انگار ہستی

Read Next

داستانِ حیات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!