تو ہی تو کا عالم

مختلف پینٹنگز کو دیکھتے ، ایک نیا خیال اس کے ذہن میں آیا تو وہ ہجوم سے باہر نکلتا ایک طرف ہوا تاکہ شہرام کو فون کر کے یہاں بلا سکے مگر اس کا فون بزی تھا ۔ ایڈم نے موبائل آف کیا تب ہی اس کی نظر سامنے پڑی تو وہ چونک گیا۔

وہی لال رنگ کے کپڑوں والا ملنگ اس کے سامنے کھڑا مُسکرا رہا تھا۔

” ناٹ اگین۔“

ایڈم نے منہ ہی منہ میں کہا ۔پھر اس کی طرف دیکھ کر بولا۔

”تم یہاں بھی پہنچ گئے۔“

ایڈم نے طنزیہ لہجے میں پوچھا ۔ وہ ملنگ اپنا ڈنڈا زمین پر مار کر بولا۔

” میں تو پہلے ہی سے یہاں ہوں ۔ تمہارے پہنچنے کا انتظار کر رہا ہوں۔ تم آﺅ گے تو میں آگے جاﺅں گا۔“

” تم اس ڈھونگ سے دوسروں کو پاگل بنا سکتے ہو مجھے نہیں۔لگے رہو۔“

ایڈم نے ناگواری سے کہا ۔ا سی وقت اس کا فون بجنے لگا ۔ شہرام کالنگ کے الفاظ اسکرین پر چمک رہے تھے ۔

ایڈم نے فون کان سے لگایا۔

”سوری یار میں اور فارینہ شادی کی شاپنگ کرنے نکلے ہوئے تھے ۔ ابھی ڈنر کے لیے ریسٹورنٹ آئے ہیں ۔ تمہاری مسڈ کالز دیکھی ہیں ۔ سب ٹھیک ہے؟“

شہرام کی خوشی سے بھرپور آواز اسپیکر سے ابھری تھی ۔ ایڈم ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔ایک تیرسا اس کے دل میں اترا تھا جیسے۔

” نہیں سب ٹھیک ہے ۔ بس ویسے ہی تمہارا حال پوچھنے کے لیے کال کی تھی۔“

ایڈم نے کہا اور گڈ بائے کہہ کر فون بند کر دیا۔

”سراب کی تمنا میں بھاگ رہے ہو۔ سراب صرف آنکھوں کو اچھے لگتے ہیں ۔کبھی روح کو سیراب نہیں کرتے ۔

سیراب ہونا ہے، تو صبر کرنا سیکھو۔ اس سے مانگنا سیکھو۔نہیں تو وہ اسی طرح تڑپا تڑپا کر اپنی طرف بلائے گا۔“

لال کپڑوں میں ملبوس ملنگ نے زیرلب مُسکراتے ہوئے کہا ۔

ایڈم حیرت سے اس کے چہرے کی طرف دیکھتا رہ گیا اور وہ پلٹ کر چلا بھی گیا۔

ایڈم نے سر جھٹک کر خود کو اس کی باتوں سے آزاد کیا اور سوچنے لگا۔

فارینہ اور شہرام….

شہرام اور فارینہ….

اس کی آنکھوں میں سرخی بڑھنے لگی اور دل کی جلن بڑھتے بڑھتے حسد تک پہنچ گئی تھی۔

حسد جو نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ سوکھی لکڑیوں کو۔

حسد رشتوں کو بھی ایسے ہی جلا دیتا ہے کہ پیچھے کچھ نہیں بچتا۔ کچھ بھی….!

شہرام اور فارینہ ….!

ان دونوں کے ناموں کے درمیان ” اور “ بھی موجود تھا

جبکہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی محبت کے درمیان کوئی اور تو کیا ، لفظ ”اور“ بھی موجود نہ ہو۔

صرف ایڈم فارینہ….

یا فارینہ ایڈم ہو….

اور کو مٹا یا جا سکتا ہے ، کسی بھی حادثے سے ، کسی بھی زہر سے۔

اور محبت میں رقابت سے بڑا اور دوستی میں دھوکے سے بڑا زہر کیا ہونا تھا۔

٭….٭….٭

انصب اور عانیہ کی منگنی کا فنکشن بہت بڑے پیمانے پر منعقد کیا گیا۔ عانیہ کلینکل سائیکالوجسٹ تھی ۔ شہر کے پوش ایریا میں اس کا کلینک کئی سالوں سے تھا۔ اس کے انکل ہارون نے کئی سال پہلے شروع کیا تھا ۔ انہیں دیکھ دیکھ کر ہی عانیہ کو انسانی نفسیات میں دلچسپی پیدا ہوئی تھی۔اسی لیے اس نے اسی شعبے کو چُنا اور پھر انکل ہارون کے بیرونِ ملک شفٹ ہونے کے بعد وہ اس کلینک کو بہ خوبی چلا رہی تھی۔

عانیہ جو اتنے سالوں سے اپنی فیملی کے پر زور اصرا پر شادی کرنے پر راضی نہیں ہوتی تھی ۔ انصب سے ہونے والی پہلی چند ملاقاتوں میںمتاثر ہو گئی اور اس کے پرپوز کرنے پر اسے اپنی فیملی سے ملوا دیا ۔ جہاں انصب کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا کیوں کہ انصب عانیہ کے لیے بہترین چوائس تھا ۔آج دونوں کے چمکتے دمکتے چہرے کو دیکھتے ہوئے شہرام نے ان کے لیے دل سے دعا کی تھی ۔ کبھی وہ بھی اسی خوشی اور سرشاری سے اپنی شادی کی تیاری میں مگن تھا مگر اچانک ہونے والے ایک حادثے نے اس کی خوشیوں پر اُداسی کی مہر لگا دی۔

شہرام نے خود کو کمپوز کیا اور چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے آگے بڑھا۔انصب نے اپنی جگہ سے اٹھ کر اسٹیج پر قدم رکھتے شہرام کو گلے لگایا۔

” عانیہ ان سے ملو ۔میرا بہترین دوست ، بھائیوں سے بڑھ کر ہے میرے لیے۔“

انصب نے عانیہ کو مخاطب کیا جو دوسری طرف رُخ کیے کسی سے مل رہی تھی۔ انصب کے پکارنے پر مڑی اور شہرام کو دیکھتے ہی اُس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

” انھیں کون بھول سکتا ہے؟ اتنا سوبر اور مہذب انداز۔ آج تک یاد ہے مجھے!“

عانیہ نے کہا تو شہرام قہقہہ لگا کر ہنس پڑا ۔ اسے عانیہ سے ہوئی پہلی ملاقات یاد آگئی۔

” اسی وجہ سے تم نے فوراً میرے حق میں فیصلہ دے دیا تھا کہ جس کا دوست اتنا اچھا ہے وہ خود کتنا اچھا ہو گا۔“

انصب نے شوخی سے اپنا کالر سیدھا کرتے ہوئے کہا ۔ عانیہ نے آنکھیں سکیڑ کر اس کے شوخی بھرے انداز کو دیکھا اور پھر منہ بنا کر بولی۔

”اگر یہ سوچتی تو پھر کبھی بھی ہمارا رشتہ نہیں ہوتا مسٹر۔“

عانیہ کے بے ساختہ کہنے پر انصب خجل ہو کر رہ گیا جب کہ شہرام ہنستا ہوا اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔

” صبر میرے دوست! یہ صرف ابتدا ہے ۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟“

” لگتا ہے آپ کو بہت تجربہ ہے ان باتوں میں۔“

نسوانی آواز پر شہرام کے ساتھ ساتھ انصب نے بھی اس طرف دیکھا ۔ عانیہ سے گلے ملتی ایک حسین لڑکی نے بہت ادا سے کہا۔

” یہ ہے میر ی بہت قریبی دوست زویا۔

اور زویا ان سے ملو یہ شہرام ہیں ، انصب کے بیسٹ فرینڈ۔“

عانیہ نے تعارف کی رسم نبھائی۔

” آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔“

انصب نے اخلاقاً کہا جب کہ شہرام چہرے پہ رسمی مسکراہٹ سجا کر رہ گیا اور ” ایکسکیوزمی“ کہتا ہوا اسٹیج سے نیچے اتر گیا۔

” لگتا ہے آپ کے دوست کو کوئی خوشی نہیں ہوئی ہم سے مل کر۔“

زویا نے بہت ادا سے کہا ۔

” ہم کون؟ آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟“

انصب نے حیرت سے سوال کرتے ہوئے اس کے آس پاس دیکھا ۔

”برا مت منانا ۔ انصب کی عادت ہے مذاق کرنے کی ۔“

عانیہ نے فوراً انصب کو آنکھیں دکھائیں تھیں ۔ انصب سر جھکا کر اپنی مسکراہٹ ضبط کرنے لگا ۔ جب کہ زویا اثبات میں سر ہلاتی سٹیج سے اتر گئی۔ انصب نے دیکھا ، اس کا رخ اس طرف تھا جہاں شہرام بیٹھا ہوا تھا ۔ انصب کے چہرے پر بہت گہری مسکراہٹ تھی ۔شہرام نے آج پھر کسی کا دل بہت آسانی سے گھائل کر دیا تھا ۔اس بار اس کی سحر انگیز شخصیت سے گھائل ہونے والی کوئی اور نہیں عانیہ کی قریبی دوست اور فوج سے ریٹائرڈ کرنل ثقلین کیانی کی اکلوتی بیٹی زویا تھی ۔

٭….٭….٭



خان زادہ احمد کی حالت یک دم بہتری کی طرف گامزن ہو گئی۔ پچھلے ایک ہفتے سے وہ یہاں مقیم تھے۔ اماں رحیمہ کی خالہ زاد کزن نے بہت خدمت کی تھی ۔ خان زادہ احمد نے کسی سہارے کے بغیر اٹھنا شروع کر دیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے اسے کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔ بس یہاں تک آنے کا وسیلہ بننا تھا۔ کل صبح ان کی روانگی تھی۔

نوربانو نے اپنے بیٹے کی صحت یابی کی خوشی میں خود کھیر بنائی اور بچوں میں تقسیم کی۔ حویلی میں ان کی آمد کی خبر پہنچ چکی تھی ۔ عائشہ کے ساتھ ساتھ آمنہ اور مریم بھی بے تابی سے ان کے لوٹنے کی منتظر تھیں ۔ حویلی کے ملازمین بھی چھوٹے خان زادہ کی صحت یابی کا سن کر بہت خوش تھے۔حویلی میں بڑے جشن کی تیاری بھی کرنی تھی ۔ اس لیے سب بہت متحرک اور پرجوش تھے ۔

دروازے پر دستک ہوئی تو نوربانو نے اپنے سامنے چارپائی پر بیٹھی اماں رحیمہ سے فوراً کہا ۔

” ضرور سائیں ہوگا ۔ میرا پیغام سنتے ہی چلا آیا ۔“

نوربانو نے پرجوش انداز میں کہا ۔ اتنی دیر میں کسی بچے نے دروازہ کھول دیا مگر دروازے پر کھڑے سائیں نے اندر آنے سے انکار کر دیا ۔

” آپ ماں جی کو بلا دیں بس۔ میں ان سے مل کر چلا جاﺅں گا۔“

سائیں نے سر جھکائے کہا۔

”آپ کو وہ اندر بلا رہی ہیں۔“

بچے نے کہا اور وہاں سے بھاگ گیا ۔سائیں نے آج تک کسی کے گھر کے اندر قدم نہیں رکھا تھا۔ کچھ دیر تک سوچنے کے بعد ،جھجکتے ہوئے سائیں نے دہلیز پر قدم رکھا۔

” بسم اللہ! میرا بچہ آیا ہے۔“

نور بانو نے صدقے واری ہوتے ہوئے کہا۔سائیں کے قدم اپنی جگہ ساکت ہوگئے۔

” میرا بچہ۔“ سائیں نے زیرِلب دہرایا۔

” آجاﺅ اندر میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔“

نوربانو نے مان سے اسے پکارا۔

سائیں دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا، ان کے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔

نوربانو نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور پھر اماں رحیمہ کی طرف۔ وہ بھی نوربانو کی طرف دیکھ رہی تھیں ۔ پھر بے ساختہ دونوں ہنس پڑیں ۔

” ارے میاں تم تو ایسے سر جھکا کر کھڑے ہو جیسے کسی نے اسکول میں بچے کو سبق نہ سنانے پر سزا سنا دی ہو۔“

اماں رحیمہ نے ہنستے ہوئے کہا تو سائیں نے خجالت بھری مسکراہٹ چہرے پر سجا کر ان کی طرف دیکھا۔

نوربانو نے اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے ، ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

” نہیں ماں جی میں یہیں ٹھیک ہوں۔“

سائیں نے نرمی سے منع کیا۔

” ماں جی بھی کہہ رہے ہو اور ماں کے پاس بھی نہیں آ رہے۔آجاﺅ بیٹا۔ تم بھی مجھے احمد کی طرح ہی عزیز ہو۔“

نوربانو نے فرطِ محبت سے کہا تو سائیں نے فوراً سر اٹھا کر ان کی آنکھوں میں دیکھا۔ جہاں ممتا کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ ایک ٹیس ، ایک کسک نے اس کے دل میں ہلچل مچادی۔ اس کی آنکھوں میں پھر نمی پھیلنے لگی تھی ۔ اس نے فوراً سر جھکا لیا ۔نوربانو نے دل ایک دم ہی پریشان ہو گیا۔

” کیا ہوا بیٹا ؟ کیا میری کوئی بات بری لگی ہے ۔“

نوربانونے بے چینی سے اس کی آنکھوں میں پھیلی نمی دیکھ کر پوچھا۔

” ساری زندگی جس رشتے کے لیے ترسا ہوں، وہ آج اتنی چاہ سے اپنی طرف بلا رہا ہے کہ اپنی قسمت پر یقین ہی نہیں آرہا۔“

سائیں کے ہونٹوں پر پہلی بار مسکراہٹ پھیلی تھی ۔آگے بڑھ کر وہ مو ¿دب انداز میں چارپائی کے کونے پر ٹک گیا ۔اسی وقت اماں رحیمہ ایک کٹوری میں بادام اور پستے سے سجی کھیر لیے آ گئی۔

”یہ میں نے خاص تمہارے لیے پہلے ہی نکال کر رکھ لی تھی۔ پتا نہیں تمہیں کھیر پسند بھی ہے یا نہیں مگر میرا دل کہہ رہا تھا کہ تمہیں ضرور پسند آئے گی!

نوربانو نے اماں رحیمہ کے ہاتھ سے کٹوری پکڑ کر اس کی طر ف بڑھائی۔سائیں نے ایک نظر ان کے ہاتھ میں پکڑی کٹوری کی طرف دیکھا اور دوسری نظر دوپٹے کے ہالے میں مقید ان کے پاکیزہ چہرے پر….

” کیا سب ماﺅں کے چہرے اتنے ہی سادہ اور پُرنور ہوتے ہیں۔“

سائیں نے دل میں سوچا۔

” کھیر کا پہلا چمچ آپ کے ہاتھ سے کھا سکتا ہوں۔“

سائیں نے جھجکتے ہوئے پوچھا ۔ نوربانو نے پہلے حیرت سے اس کی بات سنی پھر جلدی سے چمچ بھر کر اس کی طرف بڑھایا۔

”کھیر بہت مزے کی ہے۔“

سائیں نے مُسکراتے ہوئے کہا ۔نوربانو خوشی سے کھل اٹھیں۔

”تمہاری ماں بھی ایسی ہی مزے درا کھیر بناتی ہوں گی۔“

نوربانو کے سوال پر سائیں نے نظریں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور بولا۔

” جی ہاں! بہت مزے کی بناتی ہیں۔“

”اچھا کیا تمہاری ماں حیات ہیں؟معذرت بیٹا مگر تمہاری بے سرومانی دیکھ کر ایسا ہی لگا کہ شاید تمہارے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے ۔“

نوربانو نے نرمی سے پوچھا۔

” ٹھیک کہتی ہیں آپ ماں جی! مگر ظاہری حالت اور بے سروسامانی میرا ”حال“ہے ۔ جب کہ رشتوں میں پیدا ہونا اور بندھے رہنا میرے رب کی بنائی تقدیر جس سے منکر ہونا میری بساط سے باہر ہے۔ ویسے بھی کہتے ہیں نا کہ مائیں موجود نہ بھی ہوں، تو ان کا احساس ہمیشہ جسم میں خون کے ساتھ ڈورتا ہے ۔“

سائیں نے زمین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

” سائیں !کل ہم یہاں سے واپس اپنے شہر چلے جائیں گے مگر سچ جانو تو نہ جانے کیوں میرا دل تم سے دور جانے سے گھبرا رہا ہے ۔ سائیں اگر ممکن ہوا، تو کیا تم مجھ سے ملنے ، حویلی آﺅ گے ؟“

نوربانو نے بہت آس سے پوچھا۔ سائیں تذبذب کی کیفیت میں چپ چاپ بیٹھا رہا۔

” ماں جی میں دنیا کو چھوڑ چکا ہوں اور دنیا کے رشتے بھی مگر آپ کی آس توڑنا مجھے اچھا نہیں لگ رہا ۔ میں ایک بار ضرور آﺅں گا ۔ صرف آپ کی خواہش پر۔“

سائیں نے مضبوط لہجے میں کہا ۔

” وعدہ کرو سائیں!میں جانتی ہوں کہ تم وعدہ کبھی نہیں توڑو گے۔“

نوربانو نے اسے ہر طرف سے گھیرلیا ۔ سائیں نے ان کے پھیلے ہوئے ہاتھ دیکھے، تو بے ساختہ بولا۔

”وعدہ رہا۔“

سائیں کے کہنے پر نوربانو کے چہرے پر پرُ سکون مسکراہٹ پھیل گئی۔

٭….٭….٭

” بہت خوش ہو ؟“

فارینہ شہرام کو پک کرنے اس کے آفس آئی تھی۔یہاں آکر اسے پتا چلا کہ شہرام اپنی فیملی کو ریسیو کرنے ائیرپورٹ گیا ہے جو اچانک سرپرائز وزٹ پر اس کی شادی میں شرکت کرنے آئے تھے۔ شہرام کی سیکرٹری نے اس کی خاص ہدایت پر فارینہ کو شہرام کے کمرے میں بٹھادیا کیوں کہ شہرام نے کچھ دیر میں واپس آنے کا کہا تھا ۔فارینہ کو انتظار کرتے ابھی پندرہ منٹ ہی ہوئے تھے کہ کوئی تیزی سے کمرے کا دروازہ نوک کیے بغیر اندر داخل ہوا۔فارینہ نے مڑکر دروازے کی طرف دیکھا، تو ناگواری کی شدید لہر اس کے اندر اٹھی۔ایڈم بھی اسے وہاں دیکھ کر چونکا۔ وہ فارینہ کے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ چکا تھا ۔ غصے کی شدید لہر اس کے اندر بھی مچل رہی تھی ۔اسی لیے پاس آ کر اس نے لفظ چبانے والے انداز میں پوچھا ۔جس کے جواب میں فارینہ نے ایک ابرو اُٹھا کر اسے تیکھی نگاہوں سے گھورا تھا۔

” میں تمہیں بتانا ضروری نہیں سمجھتی۔“

فارینہ کے لہجے میں حقارت تھی۔

ایڈم کے چہرے کا رنگ تیزی سے بدلا۔

” بائی دا وے! تم شہرام سے شادی صرف اس لیے کر رہی ہو تاکہ مجھے نیچا دیکھا سکو۔ یہ تو میں مان ہی نہیں سکتا کہ تمہیں شہرام سے محبت ہے ۔ پھر کیوں تم اسے بے وقوف بنا رہی ہو؟“

ایڈم نے تلخ لہجے میں کہا ،تو ہاتھ میں پکڑا میگزین زور سے میز پر مارتی وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور تن کر ایڈم کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ اس کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے لپک رہے تھے۔

”تم….“

فارینہ نے انگلی اٹھا کر اس کی طرف اشارہ کیا۔

” تم اپنی بکواس بند ہی رکھو تو بہتر ہے۔میں کس سے اور کیوں شادی کر رہی ہوںیہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔بہتر ہے کہ اپنے کام سے کام رکھو۔“

فارینہ نے نفرت سے کہا اور کرسی پر پڑا اپنا ہینڈ بیگ اٹھا کر تیزی سے وہاں سے جانے لگی۔ ایڈم کے چہرے کا رنگ غصے کی شدت سے سرخ ہو گیا تھا۔

”تمہیں یہ لہجہ اور الفاظ بہت مہنگے پڑیں گے فارینہ۔ اگر محبت کرنے والوں کی محبت بھی لازوال ہوتی ہے، تو تم شاید یہ بھول رہی ہو کہ محبت کرنے والوں کی نفرت بھی کمال کی ہوتی ہے۔ تمہاری بد قسمتی یہ رہے گی کہ نہ تو تم نے لازوال محبت کا ذائقہ چکھا ہے اور نفرت کے کمال کو تم نے خود چُنا ہے اپنے لیے۔“

ایڈم نے سرد لہجے میں کہا۔یہ سنتے ہی فارینہ کی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی ایک لہر اٹھی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کے بجائے وہاں سے جانا مناسب سمجھا۔

اگر وہ پیچھے مڑ کر دیکھ لیتی تو اپنی زندگی کا سب سے بڑا سچ جان لیتی جو بت کی طرح اپنی جگہ کتنی ہی دیر استادہ رہا تھا ۔

” کیا صرف محبت کرنا بھی کسی کی نفرت کا باعث بن سکتا ہے یا….“

سوال ہر سانس کا پھندہ بن رہے تھے مگر وہ جینا چاہتا تھا ۔ کھل کر سانس لینا چاہتا تھا لیکن کوئی اس کے راستے کی، اس کی محبت کی راہ میں رکاوٹ بن کر آکھڑا ہو ا تھا ۔ اب اسے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ یا تو راستہ بدل لے یا پھر ….

اور اس نے دوسرا راستہ چننے کا فیصلہ کرلیا۔

٭….٭….٭

”اوہ تو آپ ہیں شہرام علی خان!جس کی تعریفیں ہم پچھلے کئی دنوں سے اپنی لاڈلی بیٹی کے منہ سے سن سن کر خوامخواہ ہی متا ثر ہو رہے تھے۔“

شہرام نے ایک بھاری اور گونج دار آواز پر پیچھے مڑ کر دیکھا، تو ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص اس کی طرف دیکھ کر مُسکرا رہا تھا ۔ اس کے پہلو میں زویا بھی کھڑی تھی ۔ شہرام گہری سانس لے کر رہ گیا ۔وہ آج انصب کے گھر ہونے والی گیٹ ٹوگیدر پارٹی میں شرکت کرنے آیا تھا ۔ جہاں زویا بھی اپنی فیملی کے ساتھ مدعو تھی۔ شہرام نے رسمی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے کرنل ثقلین کیانی سے ہاتھ ملایا۔ جسے کرنل ثقلین کیانی نے بہت مضبوطی سے تھاما تھا ۔شہرام کے ساتھ رسمی گفتگو کا آغاز ہوا ۔ شہرام جو پہلے کسی بہانے سے وہاں سے بھاگنے کا سوچ رہا تھا مگر کرنل ثقلین کیانی کی شگفتہ اور دل چسپ باتوں نے اسے رکنےپر مجبور کر دیاجو بھی تھا آرمی سے محبت اور عقیدت اس کی خون میں شامل تھی ۔باتوں ہی باتوں میں جب کرنل ثقلین کیانی کو پتا چلا کہ شہرام کے دادا اور دونوں تایا آرمی سے تعلق رکھنے کے ساتھ ساتھ شہادت کا تغمہ بھی رکھتے ہیں، تو وہ چونک پڑے۔ تھوڑی سی تفصیل جانے کے بعد، خوشی اور جوش سے ان کا چہرہ تمتمانے لگا اور پھر کرنل ثقلین کیانی نے بتایا کہ

” کارگل کے جس محاذ پر تمہارے تایا نے شہادت پائی۔ وہ بھی اسی یونٹ کا حصہ تھے اور بہت اچھی طرح سے اس کے تایا سے واقف بھی تھے۔“

اس اتفاق نے شہرام کے ساتھ ساتھ زویا کو بھی حیران کر دیا ۔جو تھوڑے بہت تکلفات تھے، ان کے درمیان وہ بھی اس ملاقات نے ختم کر دیے ۔جب وہ وہاں سے اٹھے تو کرنل ثقلین کیانی نے شہرام کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔

” میں نے جو کچھ تمہارے بارے میں سنا تھا ۔ تم اس سے کہیں زیادہ کے مستحق ہو برخودار۔“

شہرام نے مُسکرا کر ان کا شکریہ ادا کیا۔

گھر واپسی پر آج وہ بلا وجہ ہی گُنگُنا رہا تھا ۔جیسے آج کسی نے بہت عرصے بعد اس کے دل کے کسی خاص حصے کو چھوا تھاجو زندگی کی بھاگ دوڑ میں کہیں چھپ سے گیا تھا، مگر آج پھر سے ماضی تازہ ہوا تھا جیسے سب کچھ لوٹ آیا ہو۔ اپنے بچھڑے پیاروں کی یاد بھی۔

٭….٭….٭

سائیاں ہر سو درد بہت

موسم موسم سرد بہت

رستہ رستہ گرد بہت

چہرہ چہرہ زرد بہت

اور ستم ڈھانے کی خاطر

تیرا اک اک فرد بہت

پیپل کے درخت کے نیچے مزار کا وہ حصہ تھا جو کچھ ہٹ کر اور خستہ حالی کی وجہ سے زیادہ تر ویران پڑا رہتا تھا۔پہلے اکثر یہاں پر نشہ کرنے والے یا جرائم پیشہ نوجوانوں کا ہجوم رہتا تھا۔ تاش، سٹہ بازی سے لے کر جوا تک کھیلا جاتا ، مگر جب سے لوگوں نے مزار پر آنا شروع کیا تھا ۔ان لوگوں نے خود بہ خود اس جگہ سے کوچ کرنا مناسب سمجھا کیونکہ بہت سی نظروں میں ان کی مشکوک سرگرمیاں آنے لگیں تھیں۔ تین سیڑھیوں کے بعد اوپر چھوٹا سا چبوترہ بنا ہوا تھا۔ خستہ حالی کی وجہ سے سیڑھیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔ سائیں نوربانو سے جب سے مل کر آیا تھا بہت خاموشی سے پیپل کے نیچے، چبوترے کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا کہ اس کے پاﺅں ٹوٹی سیڑھیوں پر رکھے ہوئے تھے۔ اس نے آنکھیں موند رکھی تھیں مگر بند آنکھوں کے پیچھے دوڑتے بھاگتے منظروں کو دیکھتے دیکھتے ، تھک ہار کر ایک دم ہی اس نے اپنی آنکھیں کھولیں، تو وہ سرخ ہو رہی تھیں۔ درخت پر چڑیوں نے شور مچارکھا تھا ۔مغرب کا وقت قریب تھا۔ سائیں چڑیوں کی حرکات وسکنات کو دیکھتا ایک دم ہی چونکا۔

خشک پتوں پر کسی کے قدموں کی چاپ ابھر رہی تھی ۔سائیں نے آواز کی سمت کا تعین کیا۔ کچھ لمحوں بعد کالے رنگ کی جھلک دیکھ کر وہ گہری سانس لے کر رہ گیا اور پھر سے دیوار سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں ۔آواز پا س آ کر رک گئی۔ سوگوار سی خوشبو چاروں طرف پھیل گئی تھی۔

” ہم سے اچھی تو یہ چڑیاں ہیں سائیں جن پر کچھ دیر ہی سہی، تیری نظر ٹھہری تو تھی۔ کیا سچ میں ہمارے لیے ایک نظر بھی نہیں ہے ۔“

موہنی کے لہجے میں تڑپ تھی ۔سائیں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔جیسے اس نے سنا ہی نہ ہو۔ موہنی کچھ دیر خاموش کھڑی رہی ۔ اسی خاموشی میں ہی آواز کے سب رنگ تھے ، سب لفظ تھے ۔ خاموشی من پسند ہو، تو چاہے کتنی بھی طویل ہو ، بری نہیں لگتی۔ مگر یہ ہی خاموشی اگر من پسند نہ ہو تو، اس سے زیادہ اذیت ناک بھی کچھ نہیں ہوتا۔ موہنی کی ہیرے جیسی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس لیے نہیں کہ سائیں نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا یا اس کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا ۔ اس کے لیے یہ بھی بہت تھا کہ سائیں نے اسے دھتکارا نہیں تھا۔ اسے رونا اس بات پر آیا کہ اس کے واپس جانے کا وقت ہوگیا تھا ۔ آج کی یہ ملاقات اپنے اختتام کو پہنچی تھی ۔نہ اس کی آنکھوں کی پیاس بجھی اور نہ سماعتوں پر لفظوں کی پھوار برسی تھی، مگر یہ بھی اس نے سائیں ہی سے سیکھا تھا۔

”تھوڑا ہی سہی مگر من رنگی ہو تو ، اسی پر قناعت کر لینا چاہیے کیوں کہ من رنگی تھوڑا بھی مل جائے تو وہ بھی بہت ہوتا ہے۔“

جب شام کے سائے گہرے ہونے لگے، تو وہ خاموشی سے پلٹنے لگی۔ سائیں نے اسی وقت آنکھیں کھولیں تھیں۔ خالی خالی نظروں سے وہ اسے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے واپس جاتے دیکھتے رہا۔

وہ ترک دنیا کا قائل نہیں تھا ، بلکہ ایسا کوئی بھی شخص ترک دنیا کا قائل نہیں ہو سکتا جو اسلام کی اصل روح کو جانتا ہو ۔

جو حضرت محمد ﷺ کی سنت پر عمل کرتا ہے جو اسوہ حسنہ کا پیروکار ہو۔ وہ کبھی بھی ترک دنیا کا خواہش مند نہیں ہو گا۔

وہ جانتا تھا کہ انسان زمین پر ایک مخصوص وقت کے لیے اپنے فرائض کی ادائی اور اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا کر نے کے لیے بھیجا گیا ہے۔

خیر کا تعلق صر ف اپنی ذات سے نہیں ہوتا خیر وہ ہے جو سب کے لیے ہے۔

ایک فرد کا دوسرے فرد کے لیے خیر بننا بڑی کامیابی کی بات ہے ۔

سائیں کے پاس جو تھوڑا بہت علم تھا ، اس کی روشنی میں اس نے اپنے لیے جو راستہ چنا تھا وہ خلق ِ خدا کی خدمت اور محبت کا تھا ۔اس کی دعا کا فیض کب اور کیسے عام ہوا ، وہ نہیں جانتا تھا۔ یہ اس پر اللہ کی خاص مہربانی تھی یا اس کی آزمائش تھی۔

وہ اگر عام لوگوں کی طرح چاہتا، تو مزار کی گدی سنبھال کر اپنے آپ پر، اندھی تقلید کرنے اور ماننے والوں کا ہجوم لگا لیتا۔ ضعیف الاعتقادی کی جڑیں اس معاشرے میں بہت اندر تک پھیل چکی تھیں۔ لوگ صر ف پوجنے اور سجدہ کرنے کے لیے جگہ ڈھونڈتے تھے، بغیر سچ اور جھوٹ کی پہچان کیے۔ سائیں خود کو ایسی کسی بھی بدعت سے بچا کر رکھنا چاہتا تھا۔وہ ایسے نقش نہیں چھوڑنا چاہتا تھا کہ بعد میں لوگ ان پر چلتے ہوئے ، راہ سے بھٹک جائیں ۔

بھلا جسے محمدﷺ جیسی ہستی کے نقشِ پا ملیں ہوں ، انہیں کسی اور کی اندھی تقلید کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

سائیں نے اپنے سفر کے لیے جو راستہ چنا تھا وہ لوگوں کے درمیان میں سے ہو کر گزرتا تھا، مگر موہنی یا اس جیسی کسی بھی خواہش کی حد سے وہ بہت آگے نکل چکا تھا ۔وہ اپنی ذات کی پہچان کے سفر پر نکلا تھا اور اسے تب پتا چلا کہ ذات کی پہچان ،فنا کے راستے سے ہو کر گزرتی ہے۔

فنا اپنی میں کی!

فنا اپنے نفس کی!

فنا اپنے تکبر کی !

فنا اپنی انا کی !

فنا اپنی ہر دل عزیز شے کی!

فنا اپنی محبت کی!

دراصل یہ فنا عشق کی وہ آگ ہے جو اندر باہر سے جلا کر ،اپنی آگ میں تپا کر ،جلا کر ،راکھ بنا کر اپنی مرضی سے اپنی راہ میں اڑاتی ہے۔ عشق کی تال اور کیا اس کی دھمال کبھی کسی نے نہیں دیکھی۔

اتنی بے خودی ، اتنا سرور عشق کا جام ہی دیتا ہے۔

سائیں اسی جام کے خمار میں ، اپنی پہچان کا سفر تیزی سے طے کر رہا تھا۔

سارا جہاں مست ، جہاں کا نظام مست

دن مست،رات مست،سحر مست،شام مست

دل مست ، شیشہ مست ، صبو مست، جام مست

ہے تیری چشمِ مست سے ہر خاص و عام مست….

٭….٭….٭

” ایڈی تم نے شادی کے ہر فنکشن میں ضرور شرکت کرنی ہے۔تمہارے لیے یہ پہلا تجربہ ہو گا، مشرقی شادی میں شرکت کرنے کا ۔ مجھے امید ہے کہ تم بہت انجوائے کرو گے ۔“

شہرام کا چہرہ اندرونی خوشی سے چمک رہا تھا ۔ وہ اپنی شادی کا کارڈ دینے ایڈی کے اپارٹمنٹ میں آیا تھا۔ ایڈی جو عام سے حلیے میں بڑھی شیو کے ساتھ، گھر میں بند پڑا تھا ۔ شہرام کی اچانک آمد نے اس کے اپارٹمنٹ پر چھائی خاموشی کو توڑ دیا تھا ۔

شہرام کے ہر انداز ، ہر انگ سے خوشی جھلک رہی تھی ۔ بستر پر لیٹے ایڈی کا ہاتھ کھینچ کر اسے زبردستی اٹھا کر وہ کچن میں لے آیا۔

”اپنے ہاتھ سے بنا کر کا فی پلاﺅ۔ کافی دن ہو گئے تمہارے ہاتھ کی مزے دار سی کافی پیے۔

قسم سے یار! اگر تم یہ سب چھوڑ چھاڑ کر کافی شاپ کھول لو ، توبھی بھوکے نہیں مرو گے۔“

شہرام نے ہنستے ہوئے کہا تو ایڈی اسے گھور کر رہ گیا ۔

” میں تمہاری بیوی نہیں ہوں ،جس سے ایسی فرمائش کر رہے ہو۔ بہتر ہے کہ ایسی فرمائشوں کو آنے والے وقت کے لیے سنبھال کر رکھو۔“

ایڈی نے منہ بنا کر جواب دیا۔ اسے کچن میں آتا دیکھ کر کام میں مصروف اسلم نے چونک کر دیکھا ۔ اسلم بہترین کک ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے اپارٹمنٹ کی دیکھ بھال بھی کرتا تھا ۔ وہ شہرام اور ایڈی کی دوستی سے بہت اچھی طرح واقف تھا ۔ ابھی بھی ان دونوں کو ساتھ آتا دیکھ کر وہ زیرلب مسکرا کر ایک طرف ہو گیا۔

”شہرام صاحب آئے اور ایڈی سر کے ہاتھ کی بنی کافی نہ پیے ، یہ ممکن ہی نہیں تھا۔“

اسلم نے سوچا اور دونوں کو باتوں میں مگن دیکھ کر باہر نکل گیا۔

” یار ہمارے ایسے نصیب کہاں۔“ شہرام نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا ۔ کافی پھینٹتے ہوئے ایڈی نے اس کی مصنوعی اُداسی کو دیکھا۔

” کیا مطلب؟“

ایڈی نے مصروف سے انداز میں پوچھا۔

”فارینہ اور کچن ۔ مجھے تو لگتا ہے کہ شادی کے بعد مجھے ہی اسے کافی بنا کر پلانا پڑے گی۔“

شہرام نے ہنستے ہوئے کہا ۔ ایڈی بھی مُسکرانے لگا۔

شہرام بہت دلچسپی سے اسے تیزی اور مہارت کے ساتھ کام کرتے دیکھ رہا تھا۔وہ خود بھی کئی سالوں سے اکیلا ہی رہ رہا تھا، مگر یہ بھی سچ تھا کہ اسے انڈا ابالنا بھی نہیں آتا تھا ۔ شہرام کے والدین کے رکھے قابل اعتماد ملازموں کی وجہ سے اس کا گھر بہت اچھی طرح سے سنبھلا ہوا تھا۔

”تمہیں یہ کوکیز بہت پسند ہیں نا۔“

خوشبودار ، گرم گر م کافی کے ساتھ کوکیز کا جار ایڈی نے اس کے سامنے رکھا، توشہرام کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی ۔

” جیو میرے دوست! دوست ہو تو تم جیسا۔“

شہرام نے کہا، تو کافی پیتے ایڈی نے چونک کر بہت غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا ۔ وہ بہت مگن سے انداز میں کافی پی رہا تھا ۔

” تمہیں مجھ پر اتنا مان کیوں ہے شہرام؟“

ایڈی کا لہجہ بہت عجیب سا تھا ۔ شہرام نے سر اٹھا کر سوچ میں گم ایڈی کی طرف دیکھا۔

” مان نہیں!مجھے یقین ہے اور یہ یقین مجھے اس دوستی کے رشتے نے عطا کیا ہے۔“

شہرام نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اعتماد سے کہا۔

ایڈی خاموش نظروں سے اس کی طرف دیکھتا رہا ۔ اسی وقت شہرام کا موبائل بجنے لگا ۔ شہرام اپنے موبائل کی طرف متوجہ ہو گیا اور فون بند کرتے ہی اس نے جانے کی اجازت چاہی۔

”سوری یار! دراصل میری بہن ثمرہ اور فارینہ آج شاپنگ پر گئی ہوئی ہیں اور اب وہ مجھے بلا رہی ہیں ۔کوئی خاص ڈریس پسند کر لیا ہے ، اس پر میری رائے بھی چاہیے ۔ ویسے تو آج میرا موڈ تھا کہ پہلے کی طرح ہم دونوں مل کر مختلف آئیڈیاز پر بحث کریں مگر فی الحال ابھی یہ ممکن نہیں، مگر بہت جلد ہم پھر ساتھ مل کر کام کریں گے۔“

شہرام نے کہا اور ایڈی کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام کر اسے کھینچ کر اپنے گلے لگا لیا۔ ایڈی کی جانب سے آج گرم جوشی عنقا تھی ۔ شہرام نے اپنی خوشی میں محسوس ہی نہیں کیا ۔

”شہرام….“

شہرام نے دروازے کے پاس پہنچ کر جوں ہی ، ہینڈل پر ہاتھ رکھا، ایڈی کی آواز پر پیچھے مڑ کر لاﺅنج کے وسط میں کھڑے ایڈی کی طرف دیکھا۔ جس کا انداز بہت کھویا کھویا سا تھا۔

” گڈ بائے شہرام….!“

ایڈی کا لہجہ سرد تھا یا اسے ایسا محسوس ہوا۔

”گڈ بائے۔“

شہرام نے بھی مسکرا کر کہا اور ہاتھ ہلاتا ہوا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا ۔ایڈی کے ہونٹوں پر پراسرار سی مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔

اس نے میز پر پڑے شہرام کے خالی مگ کی طرف دیکھا اور کونسلنگ کرتا ہوا، اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔

٭….٭….٭

”بابا تم سے مل کر بہت خوش ہیں شہرام۔“

گھڑ سواری کی شوقین اور ماہر زویا نے گھوڑے سے جمپ لگا کر نیچے اترتے اور اصطبل میں گھوڑوں کو دیکھتے ہوئے شہرام سے کہا تھا۔ گھڑ سواری کے لباس میں وہ بہت پر کشش لگ رہی تھی ۔ شہرام کافی دیر سے اسے دیکھ رہا تھا ۔ کسی زمانے میں گھڑ سواری کا شوق اسے بھی رہا تھا مگر کئی سالوں سے اپنی شدید مصروفیت کی وجہ سے اس کا یہ شوق کہیں گم ہو کر رہ گیا تھا مگر زویا کو اتنی مہارت سے گھڑ سواری کرتے دیکھ کر وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔

یہ وسیع فارم ہاﺅس کرنل ثقلین کیانی کا تھا۔جہاں آج رات عانیہ اور انصب کی منہدی کا فنکشن منعقد ہونا تھا۔ اسی لیے شہرام صبح ہی انصب کی فیملی کے ساتھ یہاں پہنچ گیا تھا۔ فارم کا ایک حصہ انصب اور مہمانوں کے لیے مختص تھا۔ زویا کی شہرام سے دوستی اور بے تکلفی بہت بڑھ گئی تھی ۔ پہلے پہل شہرام کو وہ بہت مغرور اور ضدی لگی تھی مگر دراصل ایسا نہیں تھا۔ زویا فطرتاً صاف گو ، منہ پھٹ اور بہادر تھی ۔ اسی لیے دل کی بات فوراً کہہ دیتی تھی ۔ شہرام کو اس کی یہ عادت پسند بھی تھی اور وہ اکثر گھبراتا بھی تھا کہ پتا نہیں اگلے ہی پل وہ کیا کہہ دے یا کر دے ۔

اسی لیے ابھی بھی شہرام نے چونک کر اس کے سرخ چہرے کی طرف دیکھا۔

” مجھے بھی بہت اچھا لگا ، ان سے مل کر۔“

شہرام نے گھوڑے کی پشت پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سرسری سے لہجے میں کہا۔

” اے مسٹر زیادہ فارمل ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ تم اچھی طرح سمجھ رہے ہو کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں ، خیر چھوڑو یہ بتاﺅ !ہمارے ساتھ گھڑ سواری کرو گے؟“

زویا نے اپنے مخصوص انداز میں چیلنج کرتے ہوئے پوچھا ۔

تو شہرام اس کی طرف دیکھ کر مُسکرا دیا۔زویا کے سلکی بال ہوا کے زور سے لہرا لہرا کر اس کے چہرے کو چھو رہے تھے۔ کیپ ہاتھ میں پکڑے وہ بہت اعتماد سے شہرام کی طرف دیکھ رہی تھی۔

” ضرور کرتا اگر ایک حسین اور ذہین لڑکی کے سامنے گھوڑے سے گرنے کا ڈر نہ ہوتا۔جو بھی کہہ لو اب میل ایگو تو بہر حال اپنی جگہ موجود ہے نا۔“

شہرام نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا تو زویا کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔اس کی ہنسی بھی، اس کی طرح بہت دلکش تھی ۔ شہرام نے دل چسپی سے اسے دیکھا۔

” تم اس لیے خوش ہو رہی ہو کہ میں نے تمہاری تعریف کی ہے ؟“

شہرام نے مزاحیہ انداز میں کہا۔

© © ” اپنی ذات اور اس کے وصف سے ہم بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ خوشی تو اس بات کی ہوئی کہ تم نے ہمارے سامنے اپنی شکست تسلیم کر لی بغیر کسی مقابلے کے! اور بابا کہتے ہیں کہ اگر مرد مقابلے کے بغیر اپنی ہار تسلیم کر لے، تو یا تو وہ بزدل ہوتا ہے یا دل والا! اور اتنا تو ہم جانتے ہیں کہ تم بزدل نہیں ہو مسٹر شہرام علی خان۔“

زویا کی آنکھوں میں جگنوﺅں کی کہکشاں تھی ۔ شہرام مبہوت ہو کر رہ گیا۔محبت کسی کی ہو یا کسی کے لیے بھی ہو ۔ ہر دیکھنے والی آنکھ کو مبہوت کرنا بخوبی جانتی ہے ۔

”کیا ہوا؟ ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟“

زویا نے اس کی آنکھوں کے آگے ہاتھ ہلا یا۔

” میں سوچ رہا ہوں کہ تمہارے اس ” ہم “ کے پیچھے اور کتنے لوگ ہیںمحترمہ۔ اچھا بھلا کنفیوز کر کے رکھ دیتی ہو ۔“

شہرام نے بات کا رُخ دوسری طرف موڑ دیا ۔ زویا نے بہت ادا سے اسے گھورا، تو شہرام زیرلب مُسکراتا ہوا اپنے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔جبکہ زویا کے دل کی صدا بہت واضح تھی۔

”تُو چلے ساتھ ، تو آہٹ بھی نہ آئے اپنی

درمیاں ہم بھی نہ ہوں ، یوں تجھے تنہا چاہیں!“

٭….٭….٭

”میں جسے سننا چاہتا ہوں مدت سے

وہ شخص کوئی بات ہی نہیں کرتا

موہنی گھونگٹ نکالے ، ایسی جگہ دیوار کی اوٹ میں کھڑی تھی جہاں سے اسے دیکھے جانے کا امکان بہت کم تھا مگر وہ بہت آسانی اور سکون سے پیاسی نظروں سے سامنے کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ آج جمعرات تھی ۔ مزار پر آنے والوں کا ہجوم تھا ۔ محفل سماع اپنے عروج پر تھی ۔ سائیں ارد گرد سے بے نیاز آنکھیں بند کیے ، دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا ۔ کون کون اس کے پاس آ رہا تھا ، کیا کہہ رہا تھا ، سائیں کو کسی بات کا ہوش نہیں تھا ۔ ایک جنوں ، ایک وجد اس کے وجود پر چھا رہا تھا ۔

”نہ نماز آتی ہے مجھے، نہ وضو آتا ہے….

سجدہ کر لیتا ہوں جب سامنے تُو آتا ہے….“

موہنی کے منہ سے سسکی نکلی تھی ۔ اس کے دل کا درد ہر بول کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا تھا ۔ اس کی آنکھوں سے آنسو موتی کی لڑیوں کی طرح گر رہے تھے ۔ جب کہ سائیں وجد کے عالم میں اپنی جگہ سے اٹھا اور تال کے سنگ قدم اٹھانے لگا ۔ لوگ حیرت اور دلچسپی سے اسے دھمال ڈالتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ بہت سے ملنگ پہلے بھی جھوم رہے تھے مگر سائیں کی دھمال میں جو جنوں اور شدت تھی وہ دیکھنے والی سب نگاہوں کو سحر زدہ کر دیتی تھی ۔ موہنی نے تڑپ کر اپنے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔ سائیں کا ہر اٹھتا قدم اس کے دل پر پڑ رہا تھا ۔ وہ قدموں سے مٹی نہیں ، اس کے ارمانوں کی خاک اڑا رہا تھا ۔اس کا وجود بھی اس کے ساتھ خاک بن کر عشق کی گلیوں میں اڑ رہا تھا ۔یہ ہی اس کا حاصل اورنصیب تھا ۔

”میں ازل سے بندہِ عشق ہوں ، مجھے زہد وکفر کا غم نہیں

میرے سر کو در تیرا مل گیا، مجھے اب تلاشِ حرم نہیں

میری بندگی ہے وہ بندگی جو مقیدِدیر و حرم نہیں

میرا اک نظر تمہیں دیکھنا، باخدا نماز سے کم نہیں

بس میری زندگی تیرا پیار ہے

تیرا نام لوں زباں سے، تیرے آگے سر جھکاﺅں

میرا عشق کہہ رہا ہے ، میں تجھے خدا بنا لوں

تیرا نام ہے میرے لب پر ،میرا تذکرہ ہے گھر گھر

مجھے بھول جائے دنیا، میں اگر تجھے بھلا دوں

میرے دل میں بس رہے ہیں تیرے بے پناہ جلوے

نہ ہو جس میں نور تیرا ، وہ چراغ ہی بجھا دوں….“

سائیں کے قدم ایک دم ہلکے ہوئے تھے ۔ اگلے بولوں نے اس کے دل پر آرا سا چلا دیا تھا کہ بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے ،جسے اس نے فوراً آستین سے پونچھ لیا، مگر دیکھنے والی نگاہ دیکھ چکی تھی ۔بھلا دل کی نگاہ سے دیکھنے والوں سے بھی کبھی کچھ چھپا ہے۔

”خطائے محبت کی اچھی سزا دی

میرے دل کی دنیا مٹا کر بنا دی

میرے بعد کس کو ستاﺅ گے

مجھے کس طرح سے مٹاﺅ گے

سائیں کے ساتھ اب اور لوگ بھی جھومنے لگے تھے ۔محفل کا رنگ اپنے عروج پر تھا اور اٹھنے والوں کے دل میں درد کی لہر بھی آج اتنے زور سے اٹھی تھی کہ وجود کند چھری کی زد پر لٹکا ہوا تھا اور روح پرواز کے لیے پر تولتی ، جسم کی دیوار سے سر ٹکرا رہی تھی مگر ابھی حکمِ اذن نہیں ملا تھا۔روح کے پاک ہونے ، جسم کی آلائشوں سے نکلنے میں ایک معین وقت درمیان میں آ رُکا تھا ۔

جاننے والے جانتے تھے کہ بندش صرف وقت کی ہے ۔جو فاصلوں کو خود میں سمیٹے ہوئے ہے ۔ جب اس وقت کی قید ختم ہو جائے گی اور سب فاصلے سمٹ جائیں گے، تو ” من و توُ“ کا فرق بھی مٹ جائے گا ۔

پھر سامنے وہ ہو گا جس کی چاہت ، نے کائنات میں رنگ بھرے۔

جس کے کُن سے کائنات تخلیق ہوئی۔

جس کے حکم سے پتا بھی نہیں ہل سکتا، تو پھر ایک انسان کی کیا بساط کہ اس کی عشق میں، مبتلا ہونے کا دعویٰ کرے۔

اس دعویٰ کی توفیق بھی وہ ہی دیتا ہے۔

جیسے اپنے عشق میں جلنے والوں ، فنا ہونے والوں کو وہ اپنی رضا ، اپنی مرضی سے چنتا ہے۔

کسی جن ، پرند یا انسان کی کیا اوقات کہ اس ذات سے اس کی رضا کے بغیر عشق و محبت کا دعویٰ کرے۔

اُس ذات نے جسے اپنے لیے مخصوص کرنا ہوتا ہے ، اسے دنیا سے بے نیاز کر دیتا ہے۔

جیسے پرندے صرف اس کی حمدوثنا کرتے ہیں ، سب سے بے نیاز ہو کر۔

جیسے لاکھوں فرشتے اس نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیے جو صرف اُ س ذات کے لیے ہی مخصوص ہیں۔

پھر انسان ہوں یا جن ، وہ خیر وشر کے ساتھ ان کی تخلیق کرتا ہے ، جو اس کے ماننے والے ہوں گے ، وہ شر کے سب راستوں سے گزر کر بھی اس تک ضرور پہنچتے ہیں ۔

وہ ذات کسی کی نیت اور عمل کو ضائع نہیں کرتی ۔

وہ سب دیکھتا ہے ، ظاہر بھی اور پوشیدہ بھی ۔

بس جلنے والوں کو ، اپنے کیمیا ہونے کا یقین ہونا چاہیے ۔

بھلا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی اُس ذات کے عشق میں جلے اور وہ خام رہ جائے ۔

وہ ذات خالص ہے اور خالص کو ہی اپنے لیے چنتی ہے ۔

روح کے خالص پن کو۔

جسموں کے خام کو نہیں۔

٭….٭….٭

فارینہ اور ثمرہ فوڈ کورٹ میں بیٹھی کب سے شہرام کا انتظار کر رہی تھیں مگر وہ ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔ فارینہ سے جب اس کی بات ہوئی، اس وقت وہ ایڈی کے اپارٹمنٹ میں موجود تھا ۔فارینہ نے اپنی نازک کلائی میں بندھی گھڑی میں وقت دیکھا۔

”اب تک اسے آ جانا چاہیے تھا۔

فارینہ نے بے چینی سے خود کلامی کی۔

”تم فکر مند مت ہو ۔ ابھی پہنچ جائے گا شہرام۔ اس کا بھی قریبی دوست ہے یہ ایڈم یا ایڈی ! واٹ ایور….بہت ذکر کرتا ہے شہرام اس کا مگر مجھے وہ کچھ عجیب سا لگتا ہے۔“

ثمرہ نے منہ بناتے ہوئے کہا تو فارینہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

”اچھا وہ کیوں؟“ فارینہ کا لہجہ بہ ظاہر سرسری سا تھا۔

”تم نے کبھی اس کی ظاہری حلیے پر غور نہیں کیا؟ کیسے عجیب وغریب سے فیشن کرتا ہے ۔قسم سے خواتین تو مفت میں بدنام ہیں۔ ویسے ایک بات ہے ، اس پر یہ سب جچتا بھی ہے نا!“

ثمرہ نے مسکراتے ہوئے اس سے تائید چاہی اور فارینہ نے طنزیہ مسکراہٹ اچھالی تھی۔

”بہروپیا ہے وہ ، کسی کا دوست نہیں۔شہرام کو ابھی اندازہ نہیں کہ وہ کتنا خطرناک ہے۔“ فارینہ نے زہر خند لہجے میں کہا۔

”یہ تم کیا کہہ رہی ہو فارینہ؟“

ثمرہ نے حیرت سے سوال کیا۔اس سے پہلے کے فارینہ کوئی جواب دیتی اس کا موبائل بجنے لگا۔ ایک انجان نمبر دیکھ کر ،غصے کی شدید لہر اس کے اندر اٹھی تھی۔کیوںکہ پچھلے کئی دنوں سے کچھ لوگ اسے مسلسل تنگ کر رہے تھے اور خطرناک نتائج کی دھمکیاں دے رہے تھے ۔ جسے فارینہ کسی خاطر میں نہیں لا رہی تھی ۔ابھی بھی وہ یہی سمجھی تھی ۔ اسی لیے غصے سے فون اٹھا کر کچھ کہنے ہی لگی، جب کسی نے مہذب آواز میں اس کا نام اور تعارف پوچھا اور پھر جو اطلاع اسے ملی ۔ اس نے ایک لمحے کے لیے اسے ساکت کر دیا۔ دوسرے ہی پل وہ فوراً اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑی ہوئی اور بولی۔

© © ” کون سے ہاسپیٹل میں ہے وہ ؟ میں آرہی ہوں۔“

ثمرہ بھی اس کے چہرے کی طرف دیکھتی پریشانی سے پوچھنے لگی ۔

” سب ٹھیک ہے نا؟“

فارینہ نے خالی خالی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔

” شہرام کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور وہ ہاسپیٹل میں ہے ۔ اس کے موبائل میں کی گئی لاسٹ کال مجھے تھی ۔ اس لیے مجھے فون….!“

آنسوﺅں نے بات پوری نہیں کرنے دی ۔ ثمرہ نے بے یقینی سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا۔

” وہ ٹھیک تو ہے ؟“

ثمرہ نے آگے بڑھ کر اس کا بازو تھاما۔ فارینہ نے اس کی طرف دیکھا اورنفی میں سر ہلاتے ہوئے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔

” ابھی ایمرجنسی میں ہے ۔“

” اللہ میرے بھائی کی حفاظت فرما ۔ چلو جلدی ،میں فون کر کے عدنان اور فاخر بھائی کو اطلاع دیتی ہوں۔“

ثمرہ نے کانپتے ہاتھوں سے موبائل پکڑا اور بڑے بھائیوں کو کال کرنے لگی ۔

ان کے وہاں پہنچنے کے کچھ دیر بعد ، عدنان اور فاخر کے ساتھ ساتھ ثمرہ کا شوہرواسق بھی پہنچ گیا تھا ۔ ثمرہ کا رو رو کر برا حال تھا ۔

” یہ کوئی معجزہ ہی ہے کہ شہرام کو معمولی چوٹیں آئیں ہیں ۔ ورنہ گاڑی جس بری طرح تباہ ہوئی ہے ۔ اس کا بچ جانا ناممکن تھا۔“

سب سے بڑے عدنان نے ثمرہ کو خود سے لگاتے ہوئے تسلی دی ۔ وہ ابھی ابھی جائے حادثہ کا جائزہ لے کر آئے تھے۔ شہرام کے ماتھے اور ایک بازو پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور وہ مسکراتے ہوئے پریشان چہروں کو تسلی دے رہا تھا۔ اسی وقت ایڈم بھی وہاں پہنچ گیا۔ جسے دیکھتے ہی کتنی دیر سے گم صم بیٹھی، فارینہ چیل کی طرح اس پر جھپٹی اور اس کا گریبان پکڑ کر چیختے ہوئے بولی۔

” تم یہاں یہ دیکھنے آئے ہو کہ شہرام بچ کیسے گیا ہے؟ تم نے اپنی طرف سے پوری تیاری کی تھی اسے مارنے کی ۔“

ایڈی کے چہرے کا رنگ سُرخ ہو گیا ۔ جسے وہ بہت مشکل سے ضبط کر رہا تھا ۔

” تماشا مت لگاﺅ فارینہ!“ ایڈم نے سخت لہجے میں کہا ۔سب حیرت سے تماشا دیکھ رہے تھے۔

” فارینہ ! یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟ مت بھولو تم سے پہلے ایڈی میرا دوست ہے ۔ میں اپنے دوست کی بے عزتی برداشت نہیں کروں گا۔“

شہرام اپنی چوٹو ں کی پروا کئے بغیر تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور فارینہ اور ایڈی کے درمیان آکھڑا ہو ۔

” شہرام تم نہیں جانتے کہ یہ….“

فارینہ نے کچھ کہنا چاہا مگر شہرام نے ہاتھ اٹھا کر اسے کچھ بھی کہنے سے روک دیا ۔

” بس کرو فارینہ! تم اپنی نفرت میں بہت آگے بڑھ چکی ہو۔ثمرہ اسے یہاں سے لے جاﺅ۔ اس کے حواس ابھی کام نہیں کر رہے ۔ اسے آرام کی ضرورت ہے ۔“

شہرام نے ثمرہ سے کہا، تو وہ فورا آگے بڑھی اور فارینہ کو زبردستی اپنے ساتھ لے جانے لگی۔

” ایک منٹ ! یہ یہاں سے ایسے نہیں جا سکتی۔ پہلے ہم ان کا بیان لیں گے اور ان صاحب کے خلاف ایف۔ آئی آر کٹے گی۔آخر کسی کی زندگی کا معاملہ تھا ۔“وردی میں ملبوس شخص نے آگے بڑھتے ہوئے کہا اور اپنے سپاہیوں کو اشارہ کیا ۔

” ان صاحب کو عزت کے ساتھ وین میں بٹھاﺅ اور محترمہ آپ کو اپنے بیان کی تصدیق کے لیے ایک بار تھانے آنا پڑے گا۔ چلو سب جلدی کر و۔ ایک اور جگہ قتل کی تفتیش کے لیے بھی جانا ہے۔“



بڑھی ہوئی توند والے انسپکٹر نے کارروائی پوری کی اور واپس مڑنے لگا جب شہرام نے اسے مخاطب کیا ۔

”حادثہ میری بےپروائی سے ہوا ہے انسپکٹر صاحب۔ آپ اسے چھوڑ دیں پلیز۔“

”آپ کو جو بھی کہنا ہے تھانے آ کر کہنا ۔ ابھی مجھے اپنی ڈیوٹی پوری کرنے دیں ۔“

انسپکٹر نے کچھ بھی سنے بغیر کہا اور ایڈی کو لے کر کمرے سے نکل گیا۔ جاتے جاتے ایڈم نے بہت سخت نظروں سے فارینہ کو دیکھا جس کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔

” تم نے یہ ٹھیک نہیں کیا فارینہ !“

شہرام نے تھک کر کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔ عدنان اور فاخر نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کندھے اُچکا کر رہ گئے۔ یہ معاملہ ان کی سمجھ سے باہر کا تھا۔

٭….٭….٭

” زویا آپی پلیز وہ ڈانس اسٹیپ کیا تھا ۔ ایک بار پھر بتا دیں۔“

عانیہ کی کزن نے اپنا لہنگا سنبھالتے ہوئے ،اس کے پاس آ کر کہا ۔ جو عانیہ کے ساتھ پھولوں سے سجے جھولے میں بیٹھی تھی۔ منہدی کا فنکشن اپنے عروج پر تھا ۔ خوشیوں اور میٹھے گیتوں کے رنگ ہر چہرے پر سجے ہوئے تھے۔ زویا نے جامہ وار کا کھلے گھیرے والا غرارہ پہنا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ہلکے گلابی رنگ کی گھٹنوں تک آتی قمیص اور اس پر پھیلا کُرلیا بڑا سا ڈوپٹا تھا ۔ گھنے سیدھے اور سلکی بال کمر تک آ رہے تھے۔ کانوں میں چاندی کے جھمکے پہنے وہ بہت سی نظروں کا مرکز تھی ۔

” چلو ۔ سب اپنی اپنی جگہ کھڑے ہو جاﺅ!“

زویا نے ماہرانہ انداز میں کہا اور میوزک کے بجتے ہی اس نے اسٹیپ لیا ۔ سب اسٹیج کی طرف متوجہ ہو گئے تھے ۔

زویا گول دائرے میں گھوم رہی تھی ۔ اس کا ڈوپٹا زمین کو چھو رہا تھا اور وہ کسی داسی سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔

شہرام کی آنکھوں میں کسی کا عکس لہرانے لگا۔ اس کی ہنسی ، اس کی آنکھوں کی چمک، اس کے انداز ، کچھ بھی تو ایسا نہیں تھا جو کسی سے ملتا ہی ہو۔ شہرام کا دل جانتا تھا کہ ” وہ “ صرف ”وہ“ ہی تھی اس کے لیے۔

وہ خاموشی سے ہجوم سے پیچھے ہٹا اس کے لب وہ مصرعے دہرا رہے تھے جو گانے کا حصہ نہیں تھے۔

”ہو نین دکھے بن دید کے

رہی لباں پر جان۔

دیوو عشق مبارکاں۔

موہے ساجن ملیا آن۔

شکر ونڈا ں رے۔

اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی اور ہونٹوں پر اُداس سی مسکراہٹ تھی۔ وہ سر اٹھا کر ستاروں سے بھرے آسمان کو دیکھنے لگا….

کہیں وہ بھی آسمان کو ایسے ہی سر اٹھا کر دیکھتی ہو گی ۔

” کہنے کو کتنا کامیاب اور پاورفل ہوں، مگر….“

اس نے گہری سانس لی۔

” مگر دنیا کی بھیڑ میں کھونے والے ۔ سب سے قیمتی فرد کو تلاش ہی نہیں کر سکا آج تک۔ایسی گمنامی ، ایسی گمشدگی جیسے کبھی اس کا وجود تھا ہی نہیں۔وہ جو جان محفل تھی ، جس کے حسن کے چرچے دور دور تک تھے، جس کی امارت شہر کے امرا میں مثال تھی ، خاندانی حسب و نسب کی مالک وہ کوئی عام سی لڑکی تو نہیں تھی کہ دنیا کی بھیڑ میں کھو جاتی، مگر وہ اپنے سب نقشِ پا مٹا کر گئی۔ کیا وہ سچ میں….“

اس سے آگے اس کا دل کچھ بھی سوچنے یا ماننے کو تیار نہیں تھا ۔اسی وقت کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ شہرام نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ کرنل ثقلین کیانی دوستانہ انداز میں مُسکرا رہے تھے۔

” تنہائی اچھی چیز ہے برخودار، مگر اس وقت ہر گز نہیں، جب آپ کے آس پاس ، آپ کے منتظر بہت سے لوگ موجود ہوں۔ اندر چلیں۔“

شہرام نے مُسکرا کر اثبات میں سر ہلا یا اور ان کے ساتھ قدم بڑھاتا چل پڑا۔

بہت مگن سے انداز میں ہلکے ہلکے اسٹیپ لیتی وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ وہ اس گانے میں ایسے ڈوبی ہوئی تھی جیسے اس کے دل کی آواز ہو۔ کب گانا ختم ہوا، کب لوگوں نے تالیاں بجائیں۔ اسے پتا ہی نہیں چلا۔ وہ صرف ایک شخص کی آنکھوں میں اپنے لیے ستائش دیکھنے کے لیے ، اسے ڈھونڈ رہی تھی ، مگر اتنے سارے لوگوں میں وہ اسے کہیں نظر نہیں آیا۔

زویا ،مایوس سی ہو کر پلٹنے لگی ۔ جب کسی نے اسے پیچھے سے پکارا۔

” تم سچ میں با کمال ہو زویا۔“

وہ ایک دم پلٹی ۔شہرام کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔ زویا کھل اُٹھی ۔

”صبح تم ٹام بوائے کے حلیے میں مہارت سے گھڑ سواری کرتی نظر آ رہی تھی اور ابھی ماہرانہ انداز میں ڈانس کرتی تم نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔“شہرام کے لہجے میں ستائش تھی ۔

”بابا کہتے ہیں کہ انسان کو ہر فن مولا ہو نا چاہیے ۔ اسی لیے ہم نے ہمیشہ ہر کام بہتر سے بہتر انداز میں کرنے کی کوشش کی ہے ۔“

زویا نے اعتماد سے جواب دیا۔

” اچھی بات ہے !“شہرام نے لوگوں کے ہجوم پر ایک نظر ڈالی۔

” بائی دا وے! گھڑ سواری کی طرح کیا آپ اس فن میں بھی کورے ہیں؟“

زویا نے شرارتی انداز میں پوچھا، تو شہرام ہنس پڑا۔

”میں صرف کیمرے کی آنکھ سے ایسے منظر نظر بند کر سکتا ہوں اور کچھ بھی نہیں ۔“

” ہوں۔ ہمیں یقین تو نہیں مگر مان لیتے ہیں۔“

زویا نے شاہانہ انداز میں کہا ۔ وہ اس کا ٹالنا محسوس کر گئی تھی۔ شہرام دل میں اس کی ذہانت کا معترف ہوا تھا، مگر اس وقت وہ اندر سے جس ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا اس کے لیے کسی کا بھی سامنا کرنا بہت مشکل تھا۔ اس نے دور اسٹیج پر بیٹھے ، رسمیں انجوائے کرتے انصب اور عانیہ کی طرف دیکھا اور خاموشی سے وہاں سے نکل کر اپنے روم کی طرف چلا گیا۔ کچھ دیر کے لیے ہی سہی مگر وہ خود کو تھوڑا وقت دینا چاہتا تھا۔وہ دل کی دنیا میں تو تماشا بن چکا تھا، مگر دنیا کی نظر میں نہیں بننا چاہتا تھا۔

٭….٭….٭

خان زادہ شمشیر اور نور بانو نے سب کو خدا حافظ کہا اور دروازہ کھول کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھے۔

” سائیں….“

نوربانو نے بے ساختہ پکارا ، تو کار کے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھتے خان زادہ شمشیر نے مڑ کر دیکھا۔ کچھ فاصلے پر ، ایک گھر کی ٹوٹی دہلیز پر وہ خاموشی سے سر جھکا ئے بیٹھا تھا۔ خان زادہ شمشیر کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ در آئی ۔نور بانو بے ساختہ اس کی طرف بڑھی تھیں۔

” سلام ماں جی….“

سائیں ان سے بے خبر نہیں تھا ۔ پاس آنے پر فوراً سلا م کیا ۔ نوربانو نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔

” میرا دل کہہ رہا تھا کہ تم ہم سے ملنے ضرور آﺅ گے سائیں۔“

نوربانو نے خوشی سے بھرپور لہجے میں کہا۔ سائیں نے نظریں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔

” آپ کے دل کی آواز مجھ تک پہنچ گئی تھی ماں جی ۔ اسی لیے چلا آیا۔“

سائیں کا لہجہ سادہ تھا ، مگر اس کی آنکھوں میں ہلکی سی سُرخی تھی۔

خان زادہ شمشیر بھی ان کے پاس آکرکھڑے ہو گئے۔

”برخودار ! اچھا ساتھ نبھایا۔ سہارا دے کر ایک دم سے ہی غائب ہو گئے، آج ملے ہو ۔ جب ہماری روانگی کا وقت قریب ہے۔“

خان زادہ شمشیر نے اپنے مخصوص بارعب انداز میں کہا۔

” آپ سزا تجویز کریں ۔ مجرم حاضر ہے۔“

سائیں نے سر جھکاتے ہوئے کہا۔

”تمہاری یہی سزا ہے کہ ساری زندگی ، ہمارا ساتھ دیتے رہنا۔“

خان زادہ شمشیر کے چہرے پر اپنائیت بھری مسکراہٹ تھی ۔ سائیں نے سر اٹھا کر ان کے چہرے کی طرف دیکھا۔ جہاں آج کتنا سکون اور خوشی تھی ۔ سائیں کو یاد آیا کہ جب وہ پہلی بار خان زادہ شمشیر سے ملا تھا، تو وہ چہرے سے کتنے نڈھال اور پریشان حال لگ رہے تھے، مگر بیٹے کی صحت یابی نے نئی زندگی پھونک دی تھی ان میں ۔ سائیں گہری سانس لے کر رہ گیا ۔اولاد کی محبت بھی کیا چیز ہوتی ہے ۔ دل کی ٹھنڈک بھی اور صبر کی آزمائش بھی۔ خان زادہ احمد دھیرے دھیرے چلتا ان تک پہنچا، تو سب چونک کر اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔

” میں نہیں جانتا کہ سچ میں آپ کے پاس کوئی فیض ہے یا نہیں، مگر میں صرف اتنا مانتا ہوں کہ اللہ کو آپ کا مانگنا، دعا کرنا بہت محبوب ہے ۔“ خان زادہ احمد نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا اور آگے بڑھ کر سائیں کے گلے لگ گیا ۔ کچھ دیر کے لیے سائیں ساکت ہی رہ گیا ۔یہ لوگ دینے میں بہت کھلے دل کے تھے ۔ چاہے کچھ بھی دیں۔

سائیں نے اسے خود سے الگ کر کے ، اس کا کندھا تھپتھپایا۔

” اپنا وعدہ مت بھولنا سائیں۔ میں نے اسی لمحے سے تمہارا انتظا ر شروع کر دیا ہے۔ آنا ضرور۔“

نور بانو نے ایک الوداعی نظر اس کے چہرے پر ڈالی۔ ان کا دل چاہ رہا تھا کہ ابھی کچھ دیر اور سہی مگر وہ اسے دیکھتی رہے۔

وہ لوگ باری باری سائیں سے مل کر رخصت ہوئے ۔ گاڑی میں بیٹھ کر بھی نور بانو اسے دیکھتی رہی ۔ جب تک وہ نظر آتا رہا۔

اور ان کے جانے کے بعد سائیں اسی جگہ پر کتنی دیر ہی گم صم کھڑا رہا۔

کچھ لوگوں کے جانے سے یک دم ہی سب خالی خالی لگنے لگتا ہے۔

سائیں نے سر جھٹکا اور ” نعمت خانے “ کی طرف قدم بڑھا دیے ۔ جہاں ثریا بی بی بہت بے چینی سے اس کی منتظر تھیں کہ آج سائیں اپنے وقت سے بہت لیٹ ہو چکا تھا۔

٭….٭….٭

چوں کی زور دار آواز کے ساتھ کمرے کا دروازہ کھلا۔ ایڈم میگزین پر نظریں جمائے اردگرد سے لاتعلق سا بیٹھا ہوا تھا۔ آنے والے نے کچھ دیر اس کی لا تعلقی کو دیکھا۔ پھر اسے متوجہ کرنے کے لیے زور سے کھنکارا، مگر ایڈم نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، تو آنے والا سوچ میں پڑ گیا ۔

” کہیں اس نے بھی کان میں وہ ٹوٹنی تو نہیں لگائی ہوئی جس سے ہاتھ میں پکڑے بغیر فون سنتے ہیں۔“ کیا نام بتایا تھا میرے بیٹے نے ‘ اس نے ذہن پر زور ڈالا مگر یاد نہ آنے پر جھنجھلا کر رہ گیا۔

” اس آلے کو بلیو ٹوتھ ہینڈ فری کہتے ہیں۔“

ایڈم نے میگزین کے صفحے پلٹتے ہوئے سرسری انداز میں کہا، تو انسپکٹر تنویر شرمندہ ہو کر بلاوجہ ہی ہنسنے لگا۔اسے عادت تھی اونچی آواز میں خودکلامی کرنے کی۔

” جی جی سرکار وہ ہی۔ دراصل میرے بچوں کو پتا ہے ، ان چیزوں کا ۔ ہم ٹھہرے پرانے دور کے سیدھے سادھے سے آدمی ، ہمیں کیا پتا ایسی باتوں کا۔“

انسپکٹر تنویر نے مصنوعی پن سے کہا ۔ قہقہے لگاتے ہوئے اس کا پیٹ ہلتا ہوا بہت مضحکہ خیز لگتا تھا۔

” ہم نہیں آپ۔ میں آج کے دور کا ہی فرد ہوں۔“

ایڈم نے کہا، تو انسپکٹر تنویر دل ہی دل میں اسے گالیاں دیتا ، اثبات میں سر ہلانے لگا۔

” جی جی ۔ٹھیک کہا آپ نے سرکار۔“

” یہ آپ سچ میں اتنے سیدھے ہیں کہ ہر بات کے جواب میں جی جی کر رہے ہیں یا دل میں مجھے گالیاں دے رہے ہیں آپ۔“

ایڈم نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ انسپکٹر تنویر بل کھا کر رہ گیا ۔

” اگر تجھ سے کام نہ ہوتا، تو تجھے اچھی طرح بتاتا کہ میں کیا چیز ہوں ۔“

”نہیں جی ۔ یہ لہجہ تو صرف آپ جیسے یار ، دوست لوگوں کے لیے ہے۔ دشمنوں کے لیے تو انسپکٹر تنویر بہت کڑک ہے جی!“

اس نے اپنی بڑی بڑی مونچھوں کو بل دیتے ہوئے کہا ۔

”نظر آرہا ہے مجھے۔“

ایڈم نے سر ہلاتے ہوئے کہا، تو وہ خوشی سے کھل اٹھا۔

” آپ مجھے کبھی مجرم سے تفتیش کرتے ہو ئے دیکھو جی ۔ میرے ڈر سے قیدی وہ جرم بھی مان لیتے ہیں جو انہوں نے کیے ہی نہیں ہوتے۔“اس نے فخریہ اپنا کالر اونچا کرتے ہوئے زور سے قہقہہ لگایا۔

”یہ پاکستانی پولیس کی وہ خوبی ہے جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی پولیسنہیں کر سکتی۔“ ایڈم کا لہجہ تمسخرانہ تھا۔

Loading

Read Previous

انگار ہستی

Read Next

داستانِ حیات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!