تو ہی تو کا عالم

”او ہو فارینہ! تمہارا سار ا ، ڈریس خراب ہو گیا ہے ۔ آئی تھنک ، تم ڈریس تبدیل کر لو۔ میں ارینج کرواتی ہوں۔“ نشاءنے کہا اور اپنی ایک دوست سے بات کرنے کے لیے مڑنے لگی جب فارینہ نے اسے روکا ۔

” اس کی ضرورت نہیں ہے ! میں اسے واش کر کے آتی ہوں۔ “

فارینہ نے کہا تو نشاءسرہلاتی اسے گیسٹ روم کی طرف لے آئی جو اس شور ہنگامے سے ذرا ہٹ کر تھا۔ ایک کمرے کا دروازہ کھول کر نشاءبولی ۔

” تم آرام سے فارغ ہو کر آ جانا اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے موبائل سے کال کر دینا، میں آ جاﺅں گی۔“

نشاءنے اسے کمرے میں چھوڑا اور دروازہ بند کرتی چلی گئی ۔ فارینہ سر ہلاتی واش روم کی طرف بڑھ گئی ۔کچھ دیر بعد وہ واش روم سے باہر نکلی تو بری طر ح چونک گئی ۔ بیڈ پر فیصل آفندی لیٹا ہوا ،سیٹی بجا رہا تھا۔

”تم اور یہاں ؟ تمہاری جرا ¿ت کیسے ہوئی، اس طرح کمرے میں آنے کی ! میں ابھی سکیورٹی کو کال کرتی ہوں ۔“

فارینہ غصے سے کہتی ہوئے فون کی طرف بڑھی ۔

” ایک منٹ ڈارلنگ! کسی کو بھی بلا نے سے پہلے ، کچھ دیکھ تو لو…. پھر نہ کہنا کہ میں نے بتایا نہیں تھا۔“

فیصل نے خباثت سے کہتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے موبائل کی اسکرین روشن کی تھی ۔ فارینہ غصے سے چلتی پاس آئی اور جیسے ہی اس کی موبائل اسکرین پر نظر پڑی ، اسے ایسا لگا جیسے زمین و آسمان اس پر آگرے ہیں۔ فیصل نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ جانے کس طرح ،اس کی کچھ تصاویر کھینچ لی تھیں، جب وہ واش روم میں گئی تھی۔فارینہ کا رنگ فق ہو گیا ۔ جب کہ فیصل اس کی حالت دیکھ کر اب قہقہے لگا رہا تھا ۔

” تمہیں کیا لگا تھا کہ تم ہر بار مجھ سے بچ جاﺅ گی۔“ فیصل اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے ، اس کے پاس آیا تھا ۔فارینہ پتھر کے بت کی طرح کھڑی تھی ۔فیصل اس کے گر د چکر لگاتے ہوئے ، اپنی جیت کے نشے میں کہہ رہا تھا ۔

” تم نے میرے ساتھ کام کرنے سے منع کرتے ہوئے ، میری رقم منہ پر ماری تھی۔ تمہیں کیا لگتا تھا کہ میں اتنی آسانی سے تمہارا پیچھا چھوڑ دیتا ۔ جب کہ میں تمہاری وجہ سے دوسری کمپنی سے بات کر چکا تھا اور وہ اسی شرط پر مانے تھے کہ اگر تم اس فلم میں کام کرو گی تو ہی وہ اشتراک کریں گے مگر تم نے معاہدہ کر کے توڑدیا ۔ تمہاری وجہ سے میرے ہاتھ سے اتنا مہنگا پروجیکٹ نکل گیا اور جو نقصان مجھے اٹھا نا پڑا، وہ الگ تھا۔پھر میں نے بھی دل میں ٹھان لی کہ تمہیں بھی چین سے نہیں رہنے دوں گا اور اسی لیے میرے خریدے گئے آدمی تمہیں فون پر دھمکاتے رہے مگر تم بے وقوف لڑکی ، کچھ سمجھ ہی نہیں سکی اور چلی تھیں شہرام سے شادی کرنے۔“

فیصل نے حقارت سے کہا ۔فارینہ کی آنکھوں کے سامنے سے آج سارے پردے ہٹ گئےتھے۔

” میں نے شہرام کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ کروایا ، مگر اس کی قسمت کے وہ بچ گیا۔ اگر مر جاتا، تو مجھے دہری کامیابی ملتی مگر اس کی قسمت نے ساتھ دیا ۔ البتہ اس حادثے سے یہ ہو اکہ تمہاری شادی ملتوی ہوگئی۔ پھر میں نے ایک بڑا منصوبہ بنایا ، تمہارے حسن کو ایکسپوز کر کے پیسہ حاصل کرنے کا۔ اس کے لیے تمہیں بہت چالاکی سے اغوا کروایا مگر تمہارے امیر باپ اور دونوں عاشقوں نے ساری پولیس کو ہائی الرٹ کر دیا تھا ۔ مجبوراً تمہیں کچھ دنوں کے لیے اس گندی بستی میں چھپا کر رکھنا پڑا اور اگر ایک دن اور گزر جا تا، تو اگلے دن ایک پرائیویٹ جہاز کے ذریعے تمہیں دبئی کی ایک پارٹی تک پہنچا بھی دینا تھا مگر اس سالے فرنگی کی اولاد ، ایڈم نے آ کر سارا کام خراب کر دیا ۔ مجبوراً مجھے خاموشی سے پیچھے ہٹنا پڑا کیوں کہ پولیس تمہارے اغوا کے کیس کو لے کر بہت تیزی سے کام کر رہی تھی مگر آج تمہاری بد قسمتی اور میری خوش نصیبی نے مجھے بالآخر یہ موقع فراہم کرہی دیا ۔ میرے ہاتھوں میں تمہاری ڈور آ گئی ہے ۔ اب تم کٹھ پتلی کی طرح میرے اشاروں پر ناچو گی۔ نہیں تو سوچو تمہاری یہ تصاویر اگر سب کے سامنے آگئیں ۔تمہارے باپ نے شرم اور غیرت کی مارے ہی خود کشی کر لینی ہے۔“

” کیا چاہتے ہو تم؟“ فارینہ کو اپنی آواز گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔

” یہ کی نا تم نے عقل مندوں والی بات۔“ فیصل کی آنکھوں میں شیطانی چمک ابھری تھی۔

” باقی تو میں تمہیں سب کچھ بعد میں سمجھاﺅں گا ۔ آخر ابھی ہمارا تعلق بہت دور تک جانا ہے….مگر“

فیصل نے اس کے بہت پاس آتے ہوئے کہا۔

” آج کی رات تم میرے ساتھ گزارو۔ اس فارم ہاﺅس میں۔ “

فیصل نے مخمور لہجے میں کہتے ہوئے اس کے گال کو انگلی سے چھوا۔ فارینہ بد ک کر فوراًپیچھے ہٹی۔

” یہ نہیں ہو سکتا۔“ فارینہ غصے سے بولی۔

”سوچ لو! اگر میری بات نہیں مانو گی تو تمہارے حسن کے جلوے ہر طرف ہوں گے۔ ویسے سچ میں تم سر سے پاﺅں تک قیامت ہو۔“

فیصل نے اسے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔ فارینہ کو اس کے مکروہ چہرے سے شدید گھن آرہی تھی۔اسی وقت فیصل نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے بازوﺅں میں جکڑ لیا ۔فارینہ خود کو چھڑانے کے لیے زور لگانے لگی۔اسی وقت ایک بجلی سی کوندی ، فیصل کے منہ پر ایک زور دار مکا پڑا اور وہ الٹ کر پیچھے کی طرف جاگرا ۔ اس کے منہ اور ناک سے خون بہ نکلا تھا ۔ فارینہ نے اپنی چیخ کو روکتے ہوئے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور ایڈم کو فیصل پر وحشیانہ تشدد کرتے ہوئے دیکھنے لگی۔وہ اسے مار رہا تھا ۔ ہاتھوں سے ، پاﺅں سے ، فیصل بچنے کی کوشش میں زمین پر لڑھک رہا تھا، مگر ایڈم پر کوئی جنون سوار تھا۔

” اس انگلی سے تم نے، اس کے گال کو چھوا تھا نا۔“ ایڈم نے جنونی اندازمیں کہتے ہوئے اس کی انگلی توڑ دی ۔ فیصل کے منہ سے درد ناک چیخ نکلی تھی۔

” یہ ہاتھ اٹھے تھے ، اس کی پاک دامنی کی طرف۔“ ایڈم نے اس کے دونوں ہاتھوں پر ضربیں ماریں۔ فیصل چیختے ہوئے اس سے معافی مانگ رہا تھا مگر وہ کچھ نہیں سن رہا تھا ۔

” ان آنکھوں سے تو نے اسے بے پردہ دیکھا تھا نا۔“

ایڈم نے میز پر رکھا کرسٹل کا گلدان زور سے اپنے ہاتھ پر مارا اور اس کے نوکیلے سرے اس کی دونوں آنکھوں میں کھبو دیے ۔ خود اس کے ہاتھ سے بھی خون بہ رہا تھا مگر اس پر ایک جنون سوار تھا۔

اسی وقت ، نشاءنے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر کا منظر دیکھ کر چیخنے لگی ۔ وہ اتنی دیر تک ، فارینہ کے واپس نہ آنے پر اسے بلانے کے لیے یہاں آئی تو اس کے ہوش اڑ گئے ۔ وہ فوراً واپس بھاگی اور سکیورٹی کو آوازیں دینے لگی ۔کچھ دیر میں وہاں لوگوں کا ہجوم جمع ہو گیا تھا۔ فارینہ کی سکیورٹی پر مامور لو گ بھی بھاگے آئے ۔ سب صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کررہے تھے۔ فارینہ ڈری سہمی ایک کونے میں کھڑی تھی اور ایڈم سے مار کھا کھا کر فیصل بے حال ہو چکا تھا ۔ایڈم نے اس کی وہ انگلی ہی توڑ دی تھی جس سے اس نے فارینہ کے گال کو چھوا تھا، فارینہ اس کا جنوں دیکھ رہی تھی، اسے بہت سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آرہا تھا ۔ تب بھی کسی نے اسی طرح،اپنے سامنے والے کو پیٹا تھا اور اس دن بھی وجہ فارینہ ہی بنی تھی۔ فارینہ گم صم کھڑی تھی ۔ اس سے لوگ سوال پوچھ رہے تھے مگر اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ بہ مشکل ایڈم کو کئی لوگوں نے پکڑ کر فیصل سے الگ کیا۔ نہیں تو آج وہ اس کی جان ہی لے لیتا۔ کسی نے پولیس کو اطلاع بھی کر دی تھی۔ پولیس نے آتے ہی ایڈم کو حراست میں لیا ،فیصل کی حالت بہت خراب تھی ۔ اسے فوراً ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال پہنچایا گیا ۔ پولیس فارینہ اور نشاءکو بھی چشم دید گواہ کے طور پر ساتھ لے گئی۔

پولیس اسٹیشن میں ان کے پہنچنے تک ، مرتضیٰ ہاشم اور شہرام بھی پہنچ چکے تھے ۔ مرتضیٰ ہاشم کے سکیورٹی آفیسر نے اسے فون کر کے سارے واقعے کی اطلاع دی تھی ۔وہ فوراً شہرام کو لے کر وہاں پہنچے ۔ ایڈم کا بیان ریکارڈ کیا جا رہا تھا ۔ وہاں فارینہ اور نشاءبھی تھیں ۔

ایڈم نے ایک چھوٹا سا وائس ریکارڈ نکال کر میز پر رکھا اور اسے آن کر دیا ۔فیصل کی آواز میں اعترافِ جرم تھا ۔ جو وہ فارینہ سے کہہ رہا تھا۔ فارینہ کا رنگ اڑ گیا ۔ اس کی عزت سب کے سامنے مٹی میں ملنے والی تھی ۔ کبھی ایسے ہی اس نے سب کے سامنے ایڈم کو ذلیل کیا تھا۔ تھپڑ مارا تھا ، ناخنوں سے ا سے زخمی کر دیا تھا اور آج اس کی باری تھی۔ آج بازی ایڈم کے ہاتھ میں تھی جس کے سامنے وہ ایسے عیاں ہوئی تھی کہ نظریں ملانے کے قابل بھی نہیں رہی تھی ۔ اب باپ اور شہرام کے سامنے بھی اس کی عزت دو کوڑی کی ہونے والی تھی ۔

” کاش یہ زمین پھٹے اور میں اس میں سما جاﺅں ۔“

فارینہ نے آنکھیں بند کرتے ہوئے دل میں دعا کی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ قیامت کا لمحہ قریب تھا، مگر اسی وقت آواز آنا رک گئی ۔فارینہ نے چونک کر سر اٹھایا ۔ فیصل کے اعترافِ جرم کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا اس وائس ریکاڈنگ میں۔ فارینہ نے حیرت سے ایڈم کی طر ف دیکھا جو بے نیازی سے کھڑا ، پولیس کی باقی کارروائی دیکھ رہا تھا۔

”فیصل کے ساتھ میرے ذاتی اختلافات تھے۔ اسی لیے ہم دونوں ایک دوسرے کی تاک میں لگے رہتے تھے اور قسمت سے میرے ہاتھ یہ ثبوت لگ گیا۔ اسی لیے ہم میں ہاتھا پائی ہوئی تھی ۔“

ایڈم نے فوراً اگلی بات کر دی ۔ فارینہ چونکی ۔ اس نے فیصل کے گھناﺅنے فعل کے بارے میں کوئی ذکر نہیں کیااور سارا الزام اپنے سر لے لیا تھا ۔ پولیس نے فارینہ اور نشاءکا بیان بھی لیا۔ مرتضیٰ ہاشم اور شہرام کا خون کھول اُٹھا تھا ۔

” اس کی ا تنی جرا ¿ت ، میری بیٹی پر بری نگاہ رکھنے کی ۔ میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔“

مرتضیٰ ہاشم نے غصے سے بے قابو ہوتے ہوئے کہا۔

” اب وہ آپ کی بیٹی تو کیا ، کسی پر بھی بری نگا ہ نہیں رکھ سکے گا ۔اس شخص نے اسے مار مار کر اندھا کر دیا ہے ۔“

پولیس والے نے رپورٹ لکھتے ہوئے کہا ۔ ایڈم ایسے کھڑا سن رہا تھا جیسے اسے ان سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

”تم لوگوں نے اچھی طرح دیکھ لیا تھا نا۔ فیصل کا موبائل ہر حال میں ملنا چاہیے۔ بہت کچھ مزید ہاتھ لگ سکتا ہے۔“

انسپکٹر نے اپنے سپاہیوں سے دوبارہ پوچھا تھا۔

” سر ہم نے کمرے کا کونہ کونہ چھان مارا ہے مگر وہاں سے کچھ نہیں ملا۔“

سپاہی نے کہا تو انسپکٹر سر ہلا کر رہ گیا۔ فارینہ کی نظریں ایڈم پر مرکوز تھیں جو سر جھکا کر کھڑا تھا۔

” آپ اپنی بیٹی اور ان کی دوست کو لے جا سکتے ہیں ۔۔! ہمیں دوبارہ ضرورت پڑی ، تو آپ سے رابطہ کر لیں گے ۔ © ©“ انسپکٹر نے مرتضیٰ ہاشم سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔

”اور ایڈم!“ انہوں نے فوراً پوچھا تھا۔

” یہ ابھی نہیں جا سکتا ۔اس نے بہت بری طرح سے مارپیٹ کی ہے ۔ اسے چھوڑنا آسان نہیں ہے۔“

انسپکٹر نے کہا تو مرتضیٰ ہاشم نے کہا ۔

” مگر میں اسے یہاں سے لیے بغیر نہیں جاﺅں گا ۔ اب یہ کیسے ہو گا ، یہ آپ کو سوچنا ہے۔“

ان کا قطعی انداز دیکھ کر انسپکٹر شش وپنج میں پڑ گیا ۔

” مگر سر! میرے لیے مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔“

انسپکٹرنے پریشانی سے کہا۔

” اگر ایڈم بھی زخمی ہو کر ہسپتا ل میں رات گزار لے تو پھر۔ کل صبح ہوتے ہی ہم اس کی ضمانت کروا لیں گے۔“

شہرام نے آگے ہو کر کہا، تو انسپکٹر نے سوچتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ایڈم کا بازو شدید زخمی تو تھا ہی اور اس کی مرہم پٹی ہونا بھی ضروری تھی ۔

” ٹھیک ہے ۔ میں اتنا تعاون کرنے پر تیا رہوں مگر پلیز صبح ہوتے ہی قانونی کارروائی کر لیجیے گا۔ نہیں تو میرے لیے مسئلہ بن جائے گا۔“ انسپکٹر نے یاد دہانی کروائی۔ وہ سب وہاں سے نکلے۔ فارینہ اورنشاءمرتضیٰ ہاشم کے ساتھ کار میں بیٹھ گئیں ۔ جب کہ شہرام ایڈم کو سہارا دیے اپنی کار کی طرف بڑھ گیا۔ اس کے بازو سے بہت خون بہ چکا تھا ۔ ایڈم نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہی ، سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں ۔اس کے چہرے پر تھکن اور تکلیف کے آثار واضح تھے ۔ فارینہ نے اپنی آنکھوں میں نم پھیلتا محسوس کیا تھا ۔آج پہلی بار وہ اس شخص کے لیے روئی تھی جس سے ہمیشہ اس نے شدید نفرت کی تھی اور یہ تب کی بات ہے جب وہ بارہ سال کی بچی تھی ۔

اور اس وقت کا وہ تیرہ سال کا آدم آج کا ایڈم تھا۔

٭….٭….٭

”آدم! آج تمہاری سالگرہ ہے نا؟“

ساری کلاس بریک میں باہر گئی تھی، مگر وہ اپنی کلاس ہی میں موجود تھا۔ آج بھی اسے لنچ میں سب کا بچا ہوا ناشتا نصیب ہوا تھا جو اس نے خاموشی سے اپنے پرانے لنچ باکس میں رکھ لیا تھا۔ کیوں کہ روز کی طرح آج بھی اپنے ناشتے کے انتظار میں وہ لیٹ ہو چکا تھا ۔ابا اسی اسکول میں چپراسی تھا۔ خدابخش کے باقی چار بچے سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے۔ آدم کو وہ اس انگلش میڈیم اسکول میں اس لیے لے کرا ٓیا تھا کیوں کہ سرکاری اسکول میں اسے داخلہ دینے سے منع کر دیا گیا تھا۔ جب کہ جس اسکول میں خدابخش کام کرتا تھا، اس میں بہت سے عیسائی کمیونٹی کے بچے ا ور اساتذہ بھی شامل تھے ۔ اس لیے اس ادارے کا ماحول ملا جلا اور کچھ آزاد قسم کا تھا ۔ کچھ خدابخش نے ، سفارش کے لیے بہت سی ٹیچرز کی منتیں بھی کی تھیں جو خداتر سی اور دوسروں کی مدد کرنے میں مشہور تھیں۔ ان میں ایک مسز مارتھا بھی تھیںجو خدا بخش کو اس کی ایمان داری اور اچھی فطرت کی وجہ سے بہت پسند کرتی تھیں اور آدم کو اس اسکول میں داخلہ دلانے میں ان کا خاص کردار تھا۔

آدم یہاں آکر پہلے تو بہت خوش ہوا تھا۔ ابا کے دوسرے بچوں سے اس کی جان چاہے کچھ دیر کے لیے ہی سہی مگر چُھوٹ گئی تھی۔یہاں اس نے کچھ دوست بنانے کی کوشش کی جو پہلے پہل تو کامیاب ہوئی، پھر اس کے بارے میں سچ جانتے ہی سب پیچھے ہٹ جاتے۔ یہ سچ بھی اس کے چال چلن سے زیادہ ، ابا کی بیوی کلثوم نے سب کو بتا یا تھا۔ وہ اتنے بڑے اسکول میں اس کا پڑھنا برداشت نہیں کر سکی۔ اس لیے ایک دن اسکول فنکشن پر ضد کر کے اپنے بچوں کے ساتھ آئی اور جاتے جاتے وہ لوگ اس کی راہ میں کانٹے بچھا گئے ۔یہ بات بہت تیزی سے سارے اسکول میں پھیلی ۔ سب آدم سے دور دور بھاگتے اور جہاں جہاں سے وہ گزرتا ، وہ اس کی طرف ایسے دیکھتے جیسے وہ کوئی عجوبہ ہو۔آدم یہ صورت حال دیکھ کر سب سے الگ تھلگ رہنے لگا ۔ کلاس میں سب سے آخری قطار میں بیٹھتا اور بریک ٹائم میں بھی کلاس سے باہر نہیں نکلتا تھا ۔

انہی دنوں ان کی کلا س میں ایک نئی لڑکی کا داخلہ ہوا۔ جو بہت زیادہ شرارتی اور نک چڑھی تھی۔ کلاس میں اس کی بہت کم لوگوں سے بنتی تھی۔ سنا تھا کہ بہت امیر باپ کی انتہائی لاڈلی بیٹی ہے جس کا باپ اس اسکول کی ٹرسٹی میں بھی شامل تھا۔ اس کے سب دوست بھی اس کی طرح اونچے گھرانوں کے چشم و چراغ تھے۔ ایک دن کلاس کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے، وہ بہ مشکل اپنا بھاری بیگ اٹھا کر آ رہی تھی، جب آدم نے اسے مد دکی آفر کی ۔ تب وہ لڑکی آدم کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ اس دن گرمی بھی بہت تھی۔ اس لڑکی نے اپنا بیگ آدم کو پکڑا دیا جو بہت مشکل سے اپنا اور اس کا بیگ اٹھا کر کلاس روم تک پہنچا۔ اس دن پہلی بار اس لڑکی نے کسی سے مُسکرا کر بات کی اور اس کا شکریہ ادا کیا ۔کچھ دن ان کے درمیان دوستی چلی پھر وہ بھی بہت سی نظروں میں چبھنے لگی۔ اس کے دوستوں نے کچھ اس طرح آدم کے بارے میں اس کی برین واشنگ کی کہ وہ آدم کو دیکھتے ہی اس سے بدکنے لگیاور یہاں تک کہ آدم کی موجودگی سے بھی اسے سخت چڑ ہو نے لگی۔ وہ نازک مزاج، شہزادیوں کی طرح پلی بڑھی لڑکی ،اپنے آس پاس بھی ہر چیز بہترین سے بہترین چاہتی تھی۔ اس کے سب دوست، اسی کی طرح مکمل اور بہترین تھے۔ جب کہ آدم اپنے ادھورے وجود کا بوجھ لیے، نہ صرف اپنے لیے بلکہ معاشرے میں بھی بوجھ تھا۔ آدم سے اس کی چڑ بڑھتے بڑھتے نفرت میں بدل گئی۔ اب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ہر طرح سے اسے تکلیف اور اذیت پہنچانا اپنا فرض سمجھتی تھی ۔ آدم کے لیے اس کی لہجے میں اتنی حقارت اور نفرت ہوتی تھی کہ آدم خود گھبرا جاتا تھا ۔

مگر یہ بھی سچ تھا کہ پریوں جیسی وہ لڑکی اسے پہلی نظر ہی میں بہت اچھی لگی تھی۔ اسی لیے آدم نے اسے پہلے دن اس کا بیگ اٹھانے کی پیش کش کی تھی ۔ وہ اپنا بیگ بھی مشکل سے اٹھا پاتا تھا۔ اس نے خواہش کی تھی کہ ” کاش وہ اس سے دوستی کر لے۔“ اس کی یہ خواہش پوری ضرور ہوئی مگر بہت تھوڑے وقت کے لیے۔



آج اس کی سالگرہ تھی ۔ یہ وہ دن تھا جو اس کے لیے تو کیا ، اسے مرنے کے لیے چھوڑ دینے والے والدین کے لیے بھی قابلِ شرم تھا ، مگر خدا بخش نہ جانے کس مٹی کا بنا ہوا تھا ۔وہ اس کمزور جان سے اتنی محبت کرتا تھا جیسے یہ اس کی اپنی اولاد ہو اور یہ محبت بھی اس لمحے اس کے دل میں جاگی تھی جب خان زادہ شمشیر نے نوزائیدہ بچے کو اس کی گود میں دیتے ہوئے ، یہاں سے کہیں دور لے جانے کا حکم دیا تھا ۔

”چاہے تو کسی یتیم خانے کے دروازے کے سامنے رکھ دینا یا کوڑے دان میں پھینک دینا۔ اگر اس کی قسمت میں جینا ہو گا تو یہ کسی آوارہ جانور کے نوکیلے دانتوں اور پنجوں سے بچ جائے گا۔“ ساتھ ہی انہوں نے نوٹوں کی ایک گڈی اسے دیتے ہوئے کہا تھا کہ دوبارہ پلٹ کر یہاں مت آنا۔ اسے وہاں کام کرتے ہوئے ایک سال ہی ہوا تھا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھنے والا سیدھا سادھا بندہ تھا۔

خدا بخش حکم کی تعمیل کرنے وہاں سے نکلا تو تھا مگر کچھ دیر میں ہی اس ننھے وجود کی گرمی اور حرکت نے اسے اپنا ارادہ بدلنے پر مجبور کر دیا۔ وہ خود چار بچوں کا باپ تھا اور روزگار کے سلسلے میں در در کی ٹھوکریں کھاتا یہاں تک پہنچا تھا ۔ اسے اپنے بچوں سے جنونی محبت تھی۔ اس کی بیوی کلثوم ایک سخت مزاج عورت تھی۔ وہ جتنی زبان کی کرخت تھی ، اس کا دل بھی اتنا ہی سخت تھا۔ خدا بخش جب ایک بچے کو اپنی گود میں اٹھائے ، چھپتا ، چھپاتا اپنے شہر ، اپنے گھر پہنچا، تو اس کی بیوی نے کہرام اٹھا دیا۔

” خدا بخش ! کچھ عقل کر اگر کسی کو مفت کی کھلانے کا اتنا شوق ہو رہا تھا تو کم از کم یہ تو دیکھ لیتا کہ کل وہ تجھے کچھ دے بھی سکے گا یا نہیں۔ توُ ایک بچہ ، وہ بھی جو اپنے وجود میں ادھورا ہے ، اس کی ذمہ داری اٹھانے چلا ہے۔ یہ جس کا گند ہے اسے ہی واپس دے آ نہیں تو اس کی نسل کے بہت لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ انہیں سونپ دے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ خوش ہو کر تجھے کچھ پیسے بھی دے دیں۔“

” خبردار دوبارہ اگر ایسی کوئی بات کی تو۔ دیکھ کلثوم میں نے ہمیشہ تیری مانی اور سنی ہے مگر اس بچے کی بار ہر گز نہیں اور اگر تُو نے کوئی ایسا ویسا قدم اٹھانے کا سوچا، تو میں اپنے چاروں بچوں کی قسم کھاتا ہوں ، تجھے طلاق دے دوں گا اور تُو اچھی طرح جانتی ہے کہ میر ے بچے میر ی کمزوری ہیں۔میں ان کی جھوٹی قسم کبھی نہیں کھاﺅں گا۔“

خدابخش نے سختی سے کہا تو کلثوم دنگ رہ گئی ۔ اس وقت تو وہ چپ کر گئی مگر اُس کے دل میں اس ننھے سے بچے کے خلاف پلتی نفرت میں روز بہ روز اضافہ ہوتا گیا۔ خدابخش نے اس بچے کے مختلف نام رکھے مگر ہر بار کلثوم اس کا مذاق اُڑاتی، تضحیک کا نشانہ بناتی ۔تنگ آ کر خدابخش نے اس کا نام آدم رکھ دیا ۔

”نسلِ انسانی کی ابتدا حضرت آدم ؑ اور اماں حوا سے ہوئی تھی ۔ اس کی اصل شناخت کیا ہے میں نہیں جانتا مگر اسی نسبت سے میں نے اس کا نام آدم رکھ دیا ہے جو بھی ہے ، ہے تو اسی رب کی تخلیق نا۔

خدا بخش نے جو بات اپنی چھوٹی سوچ وہ سمجھ کے مطابق کہی تھی ، وہ عقل رکھنے والے کے منہ پر طمانچہ تھا ۔آدم کو ایک چھت تو میسر ہوگئی مگر اس کی زندگی جانوروں سے بھی بد تر تھی ۔ چھوٹا تھا تو بھوک کی شدت سے روتا رہتا ، مگر کلثوم اسے کچھ بھی دینے کے بجائے ، آتے جاتے مارنا نہیں بھولتی تھی ۔ وہ خدابخش کی بات کا زہر دل میں رکھتے ہوئے ، انسان سے ناگن بن گئی تھی۔ اتنی زہریلی کہ خود اپنا وجود بھی نیلا پڑ گیا مگر اس ننھے سے بچے سے اس کی نفرت کم نہیں ہوتی تھی۔ باقی بچے سامنے بیٹھے کھاتے ، پیتے اور وہ بھوک سے روتا رہتا ۔ خدا بخش نے ایک بار یہ دیکھ لیا، تو اس کا دل کانپ اٹھا۔ اس دن وہ دوسال کے آدم کو گود میں لے کر پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ جس کی حالت گھر میں رکھے پالتو جانور سے بھی بد تر تھی۔ خدا بخش نے کلثوم سے کوئی شکوہ یا گلا کرنے کے بجائے ،آدم کو اپنے ساتھ کام پر لے جانا شروع کر دیا۔ ان دنوں وہ ایک درمیانے درجے کے ڈھابے پر بیرے کا کام کرتا تھا ۔ آدم ،کو ایک کونے میں بٹھا کر وہ کوئی بھی چیز زمین سے اٹھا کر اسے پکڑا دیتا ۔کیوں کہ وہ اس کے لیے فی الحا ل کوئی بھی کھلونا خرید نہیں سکتا تھا ۔آدم کو بیٹھا کر وہ اس کے ارد گرد ٹوٹی کرسی یا کوئی فالتو میز رکھ دیتا تاکہ وہ کہیں چلا نہ جائے یا کسی کی اس پر نظر نہ پڑے۔ آدم نہایتمعصوم اور خوبصورت تھا مگر کمزور بہت تھا۔ اکثر خدا بخش کے ساتھ کام کرنے والے لوگ بھی اسے پیار کرتے اور اس کا خیال رکھتے تھے۔ ہوٹل کا مالک ریاض بھی آدم کی آمد سے بے خبر نہیں تھا، مگر اس نے کچھ بھی کہنے سے گریز کیا ۔ کئی با رایسا ہوا کہ خدابخش کسی بیماری یا تکلیف کی وجہ سے کا م پر نہیں جا سکا یا کسی وجہ سے آدم کو اپنے ساتھ نہیں لا سکا ۔ تب ایک دن اس کے مالک ریاض نے اسے اپنے پاس بلا کر کہا کہ

” کل سے آدم کو اپنے ساتھ ضرور لے کر آنا۔“

” کیا ہوا صاحب! کیااس سے کوئی غلطی ہو گئی ہے۔“خدابخش ڈر گیا کہ شاید اس کی روزی روٹی کا یہ ذریعہ بھی بند ہونے لگا ہے۔

” تمہارا بچہ بہت سعد ہے خدا بخش۔ میں نے کئی بار نوٹ کیا ہے ۔ جب وہ موجود ہوتا ہے، تو اس دن آنے والے گاہکوں کی تعداد ، عام دنوں کے مقابلے میں دگنی ہوتی ہے ۔ایسا پہلے کبھی سال میں بہ مشکل ایک یا دو بار ہوتا تھا، مگر اب تو اکثر ایسا ہونے لگا ہے اور جس دن وہ نہیں آتا ، سب معمول کے مطابق ہوتا ہے۔ اب یہ اتفاق ہے یا کچھ اور میں نہیں جانتا۔“

خدابخش یہ سن کر حیران رہ گیا، مگر اس نے کچھ کہا نہیں۔ اگر آدم کو اس وجہ سے محبت اور تحفظ ملتا ہے، تو اسے کچھ اور نہیں چاہیے تھا۔ اس طرح دن گزرتے رہے اور آدم چھے سال کا ہو گیا ۔ جب خدابخش نے اسے قریب کے ایک سرکاری اسکول میں داخل کر وا دیا۔

اس ڈھابے کے مالک نے ا س وقت تک ترقی کر کے اپنے دو ہوٹل تعمیر کر لیے تھے، مگر اس کے باجود وہ آدم سے بہت محبت کرتا تھا اور اس کے اسکول کی فیس سے لے کر سب خرچہ وہ دیتا تھا ۔ یہ بات جہاں خدا بخش کے لیے تسلی بخش تھی، کلثوم کو انگاروں پر چلاتی تھی۔ اس کے بچے اس انعام سے کیوں محروم رہیں، یہ سوچ سوچ کر ہی وہ جلتی رہتی تھی ۔بچپن میں آدم نے دوسرے بچوں کی دیکھا دیکھی اسے ” امی “ کہہ کر مخاطب کیا، تو کلثوم نے ایک ٹانگ اس کے پیٹ پر اتنے زور سے رسید کی کہ وہ دور جا گرا۔

” خبرادار جو آیندہ مجھے امی کہا۔ تیرے جیسا ناسور میری کوکھ سے پیدا نہیں ہو سکتا ہے۔“

اس وقت آدم کو ا س بات کی سمجھ نہیں آئی مگر وہ خدابخش سے گلے لگ کر بہت رویا تھا ۔

” ابا! اماں مجھے پیار نہیں کرتی ہیں۔ کیا میں ان کا بچہ نہیں ہوں؟“

پانچ سالہ آدم نے معصومیت سے سوال کیا۔ خدابخش نے اس کا بھیگا چہرہ صاف کیا اور اس کی پیشانی چومتے ہوئے کہا۔

” نہیں میرے بچے۔ وہ سچ میں تمہاری ماں نہیں ہے۔ اس لیے تم اسے امی مت کہا کرو۔ وہ صرف اپنے بچوں کی ماں ہے۔تمہارا ہر رشتہ صرف مجھ سے بنتا ہے ۔ اس لیے وعدہ کرو آیندہ کسی سے ایسی امید نہیں رکھو گے اور نہ اداس ہو گے۔“

خدابخش نے اپنا ہاتھ پھیلایا تو آدم نے فوراً اس پر اپنا چھوٹا سا ہاتھ رکھ دیا۔ پھر دل میں ہزار سوال رکھنے کے باوجود بھی اسے نے دوبارہ کسی سے شکوہ نہیں کیا ۔وہ صبح ابا کے ساتھ اسکول جاتا اور دوپہر گھر آ کر ابا کا انتظار کرتا رہتا۔ کھانے کو اسے کبھی ملتا تھا اور کبھی نہیں۔ کلثوم اب اسے مارتی تو نہیں تھی مگر وہ اس سے بات بھی نہیں کرتی تھی ۔شاید اتنے سالوں میں اس نے بالآخر اسے گھر کے فالتو سامان کی طرح قبول کر ہی لیا تھا۔اس لیے اپنے بچوں کا بچا کھچا اس کے آگے ایسے رکھتی تھی جیسے وہ جانور ہو۔ آدم خاموشی سے کبھی کھا لیتا اور کبھی واپس رکھ آتا۔ خدابخش کے دوسرے بچے اس سے عمر میں بڑے تھے اور ماں کی طرح ہی اس سے چڑ رکھتے تھے۔ اس لیے اس کے بارے میں سب کو بدگمان کرتے رہتے تھے ۔ اسی وجہ سے آدم کو تین بار مختلف اسکولوں سے نکال دیا گیا ۔ جہاں خدابخش کے بچے اس کے ساتھ پڑھتے تھے ۔وجہ ایک ہی ہوتی ۔

” اس کو یہاں سے لے جائیں ۔ یہ سارا ماحول خراب کر دے گا۔ ہم بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ خواجہ سراﺅں کو نہیں !“

کہیں بہت نرمی سے اور کہیں بہت حقارت اور تحقیر سے جواب دیا جاتا تھا ۔

” مگر یہ بھی تو بچہ ہی ہے نا۔ کیا اس کے منہ پر لکھا ہوا ہے کہ خواجہ سر ا ہے۔“

خدابخش منت کرتا، مگر سامنے والوں کے پاس سو بہانے ہوتے۔ خدا بخش اکثر جب مختلف خواجہ سراﺅں کو ،مانگتے یا ناچتے ہوئے دیکھتا تو سوچتا کہ کیا خواجہ سراﺅں کی اس حالت کا اصل ذمہ دار ہمارا معاشرہ ہے ؟ جو کسی بھی طرح ، انہیں اپنے درمیان جگہ نہیں دیتا۔ ایک اچھوت کی طرح ان سے برتاﺅ کرتا ہے ۔ ان لوگوں کو عزت سے جینے کا حق کیوں نہیں ملتا؟ اگر سب یہ مانتے ہیں کہ انہیں بھی پیدا کرنے والا خدا ہے ، تو پھر انہیں تضحیک کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ کیوں ان سے ملنا، ان سے کوئی بھی تعلق رکھنا، عام لوگ تو کیا ، ان کے اپنے خون کے رشتے بھی نہیں رکھتے؟پھرخدا نے انہیں زمین پر کیوں بھیجا ہے ؟ اگر وہ ایک انسان کا درجہ بھی نہیں پا سکتے ہیں۔ ان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے ؟ یہ کیوں ہیں اور کس لیے ہیں؟ خدا بخش جتنا سوچتا، الجھتا ہی جاتا، مگر کبھی کسی حل تک نہیں پہنچ پاتا تھا۔

ان دنوں خدابخش کو ایک مشہور اسکول میں جاب مل گئی اور اس نے یہ ہی بہتر سمجھا کہ آدم کو اپنے پاس ہی داخل کروا لے تاکہ اس کے بچے، آدم کا سچ بتا کر اسے سب کے سامنے ذلیل و رسوا نہ کرسکیں ۔ آدم یہاں آ کر پہلے سے کچھ بہتر صورت حال میں تھا ، مگر بہت جلد وہ سب کی نظروں میں آنے لگا۔ اس کے بولنے کا تھوڑا سا مختلف انداز، نسوانیت لیا چہرہ، اس کی چال ، سب کچھ اس کے راز کھولنے لگا تھا ۔ باقی کسر خدا بخش کی بیوی نے پوری کر دی۔ اس نے یہ بات ، خدابخش کے ساتھ اسکول میں کام کرنے والی آیا کو رازدارانہ طور پر بھی بتا دی کیوں کہ اس دن فنکشن پر یہ راز صرف اسکول کے بچوں تک ہی رہا ۔ وہ چاہتی تھی کہ یہ بات اسکول کی ٹیچرز کے کان تک بھی جائے تاکہ آدم کو یہاں سے بھی نکا ل دیا جائے او ر پھر اس آیا نے نیچے سے لے کر اوپر تک یہ بات پھیلا دی۔ اس سے پہلے کہ اس بات پر کوئی ایکشن لیا جاتا ۔ مسز مارتھا نے اس پر اسٹینڈ لے لیا ۔ اس نے آدم کے اصلیت جانتے ہوئے ہی اپنی سفارش پر داخلہ کروایا تھا۔ وہ پرنسپل کے سامنے دلیل لے کر پہنچ گئی اور انہیں قائل کر کے ہی لوٹی تھی ۔ مسز مارتھا نے ایک عمر، اس اسکول میں کام کرتے ہوئے گزاری تھی۔ اس لیے ان کی بات کا رد کرنا آسان نہیں تھا۔ پھر جس عیسائی کمیونٹی سے اس اسکول کو فنڈز ملتے تھے، مسز مارتھا سے بگاڑنے کے بعد ، وہ بھی ملنا ممکن نہیں رہتا۔ مسز مارتھا کی سروس کا صرف ایک سال رہ گیا تھا۔ پھر وہ اپنے ملک واپس جانے والی تھیں۔ اس لیے پرنسپل نے وقتی خاموشی اختیار کر لی اور اس طرح آدم اس اسکول میں تعلیم حاصل کرنے لگا ، مگر اسکول کے بچوں کارویہ اس کے ساتھ ویسا ہی ہتک آمیز ہی رہا۔ وہ بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ ، بہت سنجیدہ اور خود میں گم رہنے لگا تھا ۔ اس نے اپنے بولنے ، اٹھنے ، بیٹھنے اور چلنے کے انداز میں خدا بخش کے کہنے اور دوسرے بچوں کو دیکھنے کے بعد تبدیلی لانی شروع کر دی جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہو گیا، مگر پھر بھی اس کا سچ، اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا تھا۔ ان دنوں خدابخش اسے ، محلے کی ایک بوڑھی اماں کے پاس قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی بھیجنے لگا ۔ آدم ، اس کی بات بلا کسی چوں چرا کے مانتا تھا ۔سارے دن کی محنت اور مشقت کے بعد ، رات کو خدابخش جب سونے کے لیے چارپائی پر لیٹتا ، تو آدم خاموشی سے اس کے پاﺅں کی طرف بیٹھ کر اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے دبانے لگتا ۔ خدابخش اسے منع کرتا ، اپنے پاﺅں سمیٹ لیتا، مگر وہ اپنے کام میں لگا رہتا۔

” ابا! مجھے منع مت کیا کریں ۔ مجھے آپ کی خدمت کر کے سکون ملتا ہے ۔“

وہ معصوم چہرے پر سنجیدگی طاری کر کے کہتا، تو خدا بخش کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔ اسے لگتا تھا کہ اس نے ساری زندگی میں بس یہ ہی ” کمایا“ ہے۔باقی سب مایا ہے ۔اس کی بیوی کی طرح، اس کے بچے بھی باپ سے بدگماں اور چڑے ہوئے رہتے تھے۔ وقت چاہے جیسا بھی ہو تیز رفتاری کے ساتھ گزر ہی جاتا ہے۔ آدم جو پہلے پہلے اسکول میں عجوبہ کے طور پر جانا جاتا تھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے وجود پر سے سب کی توجہ ہٹتی جا رہی تھی۔ ہاں وہ تب سب کی نظروں میں چبھتا تھا، جب کلاس میں سب سے خاموش اور پیچھے بیٹھنے والا بچہ، امتحان میں اوّل پوزیشن لیتا تھا۔ یہ بات سب کے لیے بہت حیران کن تھی۔ نہ تو اس پر کسی ٹیچرکی خاص نظرِ کرم تھی اور نہ ہی وہ دوسرے بچوں کی طرح مہنگی مہنگی ٹیوشن لیتا تھا۔ وہ بس دھیان سے کلاس میں پڑھایا، سنتا اور سمجھتا تھا۔ پہلے پہل اس پر نقل کرنے کا بھی شک کیا گیا مگر سخت سے سخت نگرانی کے باوجو اس کے پاس سے کبھی کوئی نقل شدہ مواد نہیں ملا۔ اگر اس کے وجود میں قدرت نے کوئی کمی رکھی تھی تو ، اسے ذہانت سے بھی نوازا گیا تھا مگر ایک خواجہ سرا کی پہلی پوزیشن کا اعلان کرتے ہوئے ، اسے اسٹیج پر بلانا بہت عجیب سا لگتا تھا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اس کی پوزیشن تو برقرار رکھی جاتی مگر اسٹیج پر ٹرافی اور رزلٹ لینے کے لیے خدابخش کو بلایا جاتا۔ خدابخش کانپتے ہاتھ پاﺅں کے ساتھ اسٹیج پر جاتا ۔ یہ بھی صرف ایک سے دو بار ہوا تھا ، پھر اس کے ساتھ اکثر پہلی پوزیشن پر ایک بچہ اور بھی ہوتا جسے اسٹیج پر بلایا جاتا اور آدم کو رزلٹ کارڈ اور شیلڈ بعد میں دی جاتی تھی۔ خدابخش ، آدم کا اترا چہرہ دیکھتا، تو اسے تسلی دیتا۔

” تمہاری کامیابی، کسی بھی ٹرافی یا شیلڈ کی محتاج نہیں ہے آدم ۔تمہیںایک جنگ لڑنی ہے ، اپنے بقا کی جنگ۔ اس معاشرے سے اپنا حق وصول کرنا ہے اور اس کے لیے تمہیں اپنا دل بہت بڑا کرنا پڑے گا۔“

مسز مارتھا نے ایک بار اسے منہ بسورتے اور خدابخش سے سوال کرتے سنا،تو اس کے پاس آکر کر نرمی سے بولی تھیں۔

” آپ ٹھیک کہتی ہیں میڈم صاحبہ !مگر ابھی یہ بچہ ہے نا، نادان کچھ سمجھتا نہیں، اسی لیے ضد کر بیٹھتا ہے۔“

خدابخش فوراً اس کے سامنے ڈھال بن کر کھڑا ہو جاتا۔

” یہی تو افسوس کی بات ہے خدابخش ! یہ بچہ ہو کر بھی رویے پڑھنے اور پرکھنے میں ، کسی بوڑھے شخص کی طرح ماہر ہو گیا ہے۔ اس نے بھلا بچپن کب دیکھا اور محسوس کیا ہے۔“مسز مارتھا دکھی لہجے میں کہتی تھیں ۔مسز مارتھا آدم کو اسکول میں مختلف ہونے والی ایکٹیویٹیز میں شامل کرتی رہتی تھیں۔ اسپورٹس سے زیادہ آدم کو اسٹیج پر مختلف کرداروں میں ڈھلناا ور پرفارم کرنا زیادہ پسند تھا، مگر وہ مسز مارتھا کی ہدایت پر ہر مقابلے میں حصہ ضرور لیتا تھا۔ یہ دراصل اس کی تربیت کرنے اور اسے مضبوط بنانے کا ایک طریقہ تھا۔ اس نے مختلف ٹیبلو اور ڈراموں میں جو جو کردار بھی کیے ، وہ بہت سراہے گئے ۔ اس طرح نہ چاہتے ہوئے بھی آدم کو ایسے رول میں کاسٹ کرنا پڑتا ، جو کسی اور کے بس کی بات نہیں ہوتا تھا۔ اس طرح آدم اپنی خدا داد صلاحیتوں کی بنا پر تھوڑی بہت جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتا، مگر پھر بھی اسے آج تک کسی کی اچھی دوستی نہیں ملی تھی۔ فارینہ کو دیکھ کر اس کے دل نے پہلی بار شدت سے یہ خواہش کی تھی کہ یہ نک چڑھی سی لڑکی اس کی دوست بن جائے۔ کچھ دن اسے یہ سعادت ملی بھی مگر پھر وہ بھی سب کی باتوں میں آ کر اس سے دور ہوتی گئی بلکہ اب اکثر اسے تنگ کرنے، چھیڑنے اور مذاق اُڑانے والے بچوں میں وہ بھی شامل ہوتی۔

یہ بھی اس دن کی بات ہے جب خدابخش نے چھٹی کے وقت اس سے وعدہ کیا کہ کل اس کی سالگرہ والے دن ، وہ اسے پارک لے کر جائے گا اورآئس کریم بھی لے کر دے گا۔ یہ بات پاس کھڑے اس کی کلاس کے کچھ بچوں نے سن لی اور انہوں نے فوراً ہی ایک منصوبہ بنا لیا۔ اگلے دن وہ خاموشی سے بریک ٹائم میں اپنے ساتھ لایا لنچ کھا رہا تھا ۔ جب فارینہ اس کی پاس آئی ۔ آدم اسے دیکھ کر پہلے تو حیران ہوا، پھر ایک دم ہی خوشی سے بھرپور لہجے میں بولا۔

” فارینہ تم!“ آدم نے اپنے تھوڑے سے بچے لنچ باکس کی طرف دیکھا ۔ سوکھی روٹی اور تھوڑا سا اچار…. اس کے پاس کچھ بھی ایسا نہیں تھا، جو فارینہ کو پیش کرتا۔ اس نے بے دلی سے اپنا لنچ باکس بند کیا۔ آج اسے شدت سے احساس ہوا کہ اس کی جیب میں ایک روپیہ بھی موجود نہیں ہوتا مگر خدا بخش کے مالی حالات اس کے سامنے تھے۔ اس لیے اس نے کبھی ضد بھی نہیں کی تھی ۔ وہ افسردگی سے سر جھکا کر رہ گیا۔فارینہ مُسکراتے ہوئے آگے بڑھی۔ اس کے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف تھے ۔ جیسے وہ کچھ چھپا رہی ہو۔

” آدم ! آج تمہاری سالگرہ ہے نا۔“ فارینہ نے معصومیت سے پوچھا ، تو حیرت سے دیکھتے آدم نے سر اثبات میں ہلا دیا۔

” اسے کیسے پتا چلا ؟“ وہ دل ہی دل میں بہت حیران ہوا اور بے تحاشا خوش بھی کہ اس کے خاص دن پر ، کوئی بہت خاص اسے وش کرے گا ۔

” ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ، ہیپی برتھ ڈے ڈئیر آدم۔“فارینہ نے ہلکی سی آواز میں گنگناتے ہوئے، ایک گفٹ پیکٹ اس کی طرف بڑھایا تھا۔ آدم خوشی اور حیرت سے گنگ اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ کبھی کوئی اسے اتنے پیار سے بھی وش کر سکتا ہے یہ اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ، گفٹ پیکٹ پکڑلیا۔

” تھینک یو فارینہ! یہ میری زندگی کی سب سے یاد گار اور پیاری سالگرہ ہے۔“ آدم نے خوشی سے معمور لہجے میں کہا۔

” تھینک یو بعد میں کہہ لینا! پہلے اپنا گفٹ تو دیکھ لو۔پتا نہیں تمہیں پسند بھی آتا ہے یا نہیں۔“ فارینہ کی آنکھوں میں چمک تھی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ۔



” تم لائی ہو، تو اچھا ہی ہو گا، مگر میرے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو میں تمہیں اس موقع پر پیش کر سکوں، لیکن وعدہ میں کل تمہارے لیے کینڈی ضرور لاﺅں گا۔“ آدم نے سوچ لیا تھا کہ وہ ابا سے کہے گا کہ اسے سیر نہیں کرنی اور نہ ہی آئس کریم کھانی ہے ۔ بس ابا اسے ایک اچھی سی کینڈی لے دے جو وہ کل فارینہ کو دے گا ۔فارینہ کے بے حد اصرار کرنے پر آدم مُسکراتے ہوئے، کانپتے ہاتھوں سے اپنا گفٹ کھولنے لگا۔ چمکیلا گفٹ پیپر اتارتے ہی ایک مناسب سائز کا ڈبا نکلا۔آدم نے تجسس سے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر اس پر لگی ٹیپ کھولنے لگا۔ ڈبا کھولتے ہی وہ چونکا اور ہاتھ بڑھا کر اندر موجود چیزیں ایک ایک کر کے باہر نکالنے لگا ۔

لال رنگ کا پرانا گھساپٹا سوٹ جس پر گولڈن کام ہوا تھا ، کانچ کی چوڑیاں اور جھمکے آدم کا رنگ فق ہو گیا ۔جب کہ فارینہ نے فوراً ڈبے میں رکھا لال دوپٹا نکالا اور اس کے اوپر دے دیا۔

” ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔“ اچانک ہی بہت سے آوازیں ، قہقہے ، کھلکھلاہٹیں اس کی آس پاس گوجنے لگیں۔ سب بچے تالیاں بجاتے ، شور مچاتے اندر آگئے ۔ اس کا مطلب کہ وہ یہ سب چھپ کر دیکھ رہے تھے ۔ آدم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔ اس نے غصے سے دوپٹا اتار کر نیچے زمین پر پھینکا۔ ایک لڑکے نے اپنے کیمرے سے اس کی تصاویر بھی لیں تھیں ۔ آدم نے اس کے ہاتھ پر جھپٹا مارا اور کیمرا چھین کر نیچے زمین پر زور سے مارا ۔ وہ کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا۔اس لڑکے کو شدید غصہ آیا اور وہ آدم کو مارنے لگا۔ آدم نے بھی اپنے ہاتھ پاﺅں چلائے اور اس پر حاوی ہو گیا۔ اس پر کوئی جنون سوار ہو گیا تھا ۔ وہ اپنے اندر کا سارا غصہ ، نفرت اور چڑ اس پر نکال رہا تھا ۔ فارینہ خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئی ۔ اس وقت اسے آدم سے خوف کے ساتھ ساتھ شدید نفرت بھی محسوس ہوئی تھی۔ اس لڑکے کے کچھ ساتھی فوراً آگے بڑھے اور اسے چھڑاتے ہوئے آدم کو پیٹنے لگے ۔ وہ چاروں مل کر اسے مار رہے تھے ۔ اسی وقت شور شرابے کی آواز سن کر اسکول کا اسٹاف دوڑا آیا اور انہیں ایک دوسرے سے بہ مشکل الگ کیا ۔آدم کی حالت بھی خراب تھی مگر جس لڑکے کو اس نے مارا تھا ، اس کی حالت بہت بری تھی۔

اسے فوراً ہسپتال پہنچایا گیا ۔ اس کے والدین بھی پہنچ گئے ۔ سب سے پوچھا گیا ، تو سب نے آدم ہی کو قصور وار ٹھہرایا۔ وہ سب طاقت اور پیسے میں اس سے کہیں آگے اور مضبوط تھے ۔ پرنسپل کومجبوراً آدم کے خلاف ایکشن لینا پڑا ۔خدا بخش کے لاکھ منتیں ، ترلے اور اگلی بار ایسی غلطی نہ کرنے کا وعدہ کرنے کے باوجود ، آدم کو اسکول سے نکال دیا گیا۔ یوں آدم کی زندگی میں کھلنے والا روشن در یچہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا اور اس کی وجہ وہ لڑکی بنی تھی جس سے دوستی کی وہ شدید خواہش رکھتا تھا۔

” آدم تم نے ایسا کیوں کیا ؟ “ خدا بخش نے اس سے پوچھا ، تو روتے ہوئے اُس نے کہا۔

” ابا میں نے ہمیشہ سب کی باتیں سنیں اور برداشت کیں مگر اس لڑکی نے جب سب کے ساتھ مل کر میرا مذاق اڑایا اور مجھے بے وقوف بنایا، تو میں برداشت نہیں کر سکا ۔ ابا وہ مجھے بہت اچھی لگتی ہے اور میں اس سے دوستی کرنا چاہتا ہوں ۔ میں کیسے اس کے سامنے یہ برداشت کرتا کہ میں کسی سے کمتر ہوں، اگر وہ دوسرے لڑکوں سے دوستی کر سکتی ہے، تو مجھ سے کیوں نہیں۔“

آدم کے لہجے میں ضد تھی اور غصہ بھی۔

خدابخش اس کی باتوں پر چونک گیا۔ وہ اب بڑا ہو رہا تھا۔ اس میں تبدیلی آر ہی تھی۔چودہ سال لڑکپن کی عمر ہوتی ہے جس میں بہت سی باتوں کو سمجھنا اور بتانا ضروری ہو جاتا ہے۔ اسے آگاہی دینا خدا بخش کا کام تھا۔

”اس لیے کہ تم دوسروں کی طرح نہیں ہو۔تم ان سے مختلف ہو آدم ۔“ خدابخش نے اسے نرمی سے سمجھانا چاہا۔

” مگر کیوں ابا؟ میں سب سے الگ کیوں ہوں؟“ آدم نے تڑپتے ہوئے پوچھا۔ خدابخش نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا ۔

” میرے بچے! یہ اللہ کی مرضی ہے۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔“ خدا بخش نے اس کا سر تھپکتے ہوئے کہا، تو آدم فوراً ان کی آغوش سے نکلا ۔

” اللہ نے مجھے ایسا کیوں بنایا ہے ابا کہ میں جسے دل سے پسند کرتا ہوں ، اس سے دوستی نہیں کر سکتا ،اسے اپنی زندگی میں شامل نہیں کر سکتا۔

ابا۔ بتا دیں اپنے اللہ میاں کوکہ آدم ان سے سخت ناراض ہے۔“

آدم نے منہ پھلاتے ہوئے کہا ۔ فارینہ کی وجہ سے آج پہلی بار وہ اپنے رب سے دور اور شکوہ کناں ہوا تھا ۔

” نہ میرے بچے ! ایسا نہیں بولتے۔ اللہ تو بہت مہربان ہے اپنے بندوں پر۔“ خدابخش کا دل خوف سے کانپ اٹھا۔

” تو کیا میں اس کا بندہ نہیں ہوں ابا۔ جو وہ مجھے کچھ بھی نہیں دیتا ہے۔ مجھ سے سب چھین لیتا ہے ۔ آخر کیوں ؟ میں ہی کیوں ابا، میں ہی کیوں۔“

آدم بلک بلک کر رو رہا تھا۔ خدا بخش کے لیے اسے سنبھالنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ پھر اس دن کے بعد سے آدم کو چپ لگ گئی ۔ وہ سارا دن خاموش ، چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھا رہتا ۔ اس کی سوچیں عجیب و غریب ہوتی جا رہی تھیں۔ وہ جتنا غور کرتا ، اتنا ہی الجھتا جاتا۔ روزمرہ کے معمولات میں اس کی دلچسپی ختم ہو کر رہ گئی تھی ۔خدابخش نے پرنسپل سے درخواست کی تھی کہ اس سال آدم کو امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دے دی جائے جسے رد کر دیا گیا۔ اس طرح آدم کا وہ سال بھی ضائع ہو گیا جس کا خدا بخش کو بہت افسوس اور دکھ تھا۔

” ابا ! یہاں کسی کی زندگی ضائع ہو جاتی ہے اور کسی کو پتا بھی نہیں چلتا اور آپ ایک امتحان کا دکھ لیے بیٹھے ہیں۔“ آدم کا لہجہ روز بہ روز تلخ ہوتا جا رہا تھا۔ سارا دن وہ کتابوں کو ہاتھ نہیں لگاتا تھا جب کہ اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔ قرآن پاک پڑھنے بھی وہ بہ مشکل جاتا رہا ۔ کچھ دنوں میں اس کا قرآن بھی مکمل ہو جانا تھا۔ اسی لیے وہ خاموش تھا کہ ابا کو کسی طرف سے تو خوشی ملے۔ آدم کافی دنوں سے محسوس کر رہا تھا کہ ابا کھویا کھویا اور گم صم رہنے لگا ہے۔ گھر آ کر کھانا کھاتے ہی وہ لیٹ جاتا۔ اب وہ پہلے کی طرح ، آدم سے باتیں بھی نہیں کرتا تھا۔ کسی گہری سوچ میں ڈوبا اپنے ارد گرد سے لا تعلق رہنے لگا تھا۔ کلثوم کے کلیجے کو ٹھنڈ پڑ گئی، جب آدم کو اسکول سے بے عزت کر کے نکالا ۔ وہ اپنے مجازی خدا کی طرف طنزیہ نظروں سے دیکھتی تھی ۔

” اب بول! کیا کرے گا اس کا ۔ آخر اس کا انجام تو یہی ہونا ہے ۔ اپنی جنس کے لوگوں کے پاس اسے ہر حال میں جانا ہی پڑے گا ۔ تُو کب تک اسے بچائے گا۔“

کلثوم اکثر طنزیہ لہجے میں کہتی۔ خدا بخش خاموشی سے اسے دیکھتا رہ جاتا ۔ وہ اسے کیسے بتاتا کہ یہ ڈر ہی تو اسے راتوں کو سونے نہیں دیتا ۔ اس معاشرے میں آدم جیسے بچوں کا صرف ایک ہی مستقبل تھا، لیکن اس کا دل نہیں مانتا تھا کہ وہ اُسے اس حال میں دیکھے ۔ وہ آدم کو اپنے باقی بچوں کی طرح ، ہی دیکھنا، چاہتا تھا، مگر قسمت کی ستم ظریفی کے آگے وہ بے بس تھا اور اسی بے بسی میں ایک دن وہ مسز مارتھا کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ تبھی امید کی ایک کرن مسز مارتھا نے اس کی خالی جھولی میں ڈالی تھی مگر اس کے لیے اسے قربانی دینی تھی ۔ اپنی سب سے پیاری اور عزیز چیز کی ۔

٭….٭….٭

چکراتے ہوئے سائیں نے موندی موندی آنکھوں سے پلٹ کر دیکھا۔ خان زادہ شمشیر ہاتھ میں اپنی اسٹک پکڑے غضب ناک تیوروں سے اسے دیکھ رہے تھے ۔ اسے چھڑی کی شدید ضرب اس کے سر پر لگی تھی۔

” بے غیرت ، گھٹیا، نیچ ذات! تیری جرا ¿ت کیسے ہوئی ، ہماری عزت پر بری نظر ڈالنے کی۔ تُو فرشتے کے روپ میں درندہ ہے ۔ میں تیری جان لے لوں گا ۔ تُو نے میری بیٹی کو ہاتھ بھی کیسے لگایا۔“ نیم تاریک کمرے میں خان زادہ شمشیر نے صرف دروازے سے نظر آتے سائیں اور ہاتھ جوڑ کر روتی مریم کو دیکھا تھاجس کے سر سے دوپٹا اتر کر پاﺅں میں رل رہا تھا۔ خان زادہ شمشیر نے منٹوں میں ایک کہانی سوچ لی اور ایک دم سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے اور ہاتھ میں پکڑی چھڑی سے اس کے سر پر وار کیا ۔

وہ کچھ بھی سنے بغیر ، سائیں پر جھپٹے اور اسے گردن سے دبوچ لیا ۔

” میں تجھے اپنے ہاتھوں سے جہنم رسید کروں گا ۔“ سائیں کی آنکھیں ابل گئی تھیں ، مگر وہ کوئی بھی مزاحمت کیے بغیر چپ چاپ ان کے ہاتھوں میں جان دے رہا تھا۔ جب کونے میں کھڑی نوربانو چیختی ہوئی ان کی طر ف بڑھی ۔

” مار تو آ پ نے اسے کئی سال پہلے ہی دیا تھا۔ اگر قدرت نے آج اسے نئی زندگی دے کر ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے، تو شاید اس لیے کہ ہم اپنے اس گناہ کا کفارہ ادا کر سکیں، جو ایک معصوم بچے کو ٹھکرا کر کیا تھا۔ کیوںآپ آج بھی اپنی اولاد ، اپنے خون کو نہیں پہچان سکے۔ یہ قدرت کی طرف سے وہ آزمائش ہے جس میں آپ کبھی پورے نہیں اترے تھے۔ خدا کا واسطہ ہے ۔چھوڑ دیں میرے بچے کو۔

”اور کتنا ظلم کمائیں گے آپ؟“ نوربانو نے ان کی سخت گرفت سے سائیں کو چھڑانے کی کوشش کی اور روتے ہوئے ان کے قدموں میں اپنا سر رکھ دیا۔

”آپ کو خدا اور رسول کا واسطہ!میرے بچے کی جان بخش دیں۔ ابھی تو میری ممتا اسے اپنی آغوش میں بھر کر ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی۔“

نوربانو کہہ رہی تھیں ۔ اسی وقت مریم آگے بڑھی اور باپ کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔

” خدا کا واسطہ ہے ابا ۔بھائی کو چھوڑ دیں۔“ اسی وقت خان زادہ شمشیر کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور سائیں لڑکھڑا کر نیچے گر گیا۔ اس کی سانس رک رک کر چل رہی تھی ۔ نور بانو اور مریم فوراً اس کی طرف لپکیں جب کہ خان زادہ شمشیر پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔

” یہ میں نے کیا کیا؟ آج پھر اپنے ہی جگر گوشے کو، اپنے ہی ہاتھوں سے مارنے کی کوشش کی؟“ خان زادہ شمشیر خوف سے پیچھے ہٹے۔

” میں جو کئی سالوں سے اندر ہی اندر پچھتاوے کی آگ میں جلتا رہا۔ کئی بار دل میں یہ خواہش شدت سے ابھری تھی کہ کاش میں اس بچے کو اپنا نام دے کر دنیا میں معتبر بنا دیتا۔ کسی کو کیا پتا چلنا تھا کہ وہ درحقیقت ادھورا ہے۔ میں چاہتا تو تھوڑی سی سمجھ داری اور ہمت سے اس کا یہ عیب چھپا سکتا تھا، مگر میں نے کیا کیا؟“

خان زادہ شمشیرنے نیچے گرے سائیں کا سفید چہرہ دیکھا، تو خوف کی لہر ان کے اندر دوڑ گئی۔

” کیا یہ مر گیا ہے ؟“وہ پلٹ کر کمرے سے باہر بھاگے۔ ان کے پیروں میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ چند قدموں کا فاصلہ طے کرتے اور سائیں کو ہاتھ لگا کر دیکھتے کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا ہے ۔وہ بچے کی طرح خوف زدہ ہو کر چھپنا چاہتے تھے ۔کسی کونے میں گم ہو جانا چاہتے تھے ، جہاں کوئی انھیں دیکھنے والا نہ ہو۔ کوئی ان سے سوال جواب کرنے والا نہ ہو مگر اندھیرے کمرے کے کونے میں چھپ کر بیٹھتے ہوئے انہیں کچھ دیر ہی گزری تھی ۔جب انہیں خیال آیا کہ وہ کس سے بھاگ رہے ہیں اور کیوں بھاگ رہے ہیں۔

سوالوں اور جوابوں کے سلسلے اور بحث ، ان کے اندر کئی سالوں سے ہو رہی تھی ۔پچھتاوے کی آگ ان کے اندر لگی تھی۔ اپنے ضمیر کے آگے وہ خود شرمندہ اور جواب دہ تھے ۔اس کونے میں چھپ کر بیٹھنے سے ، وہ دنیا کی نظروں سے تو بچ سکتے تھے ، مگر خود سے ہرگز نہیں۔

گھٹنوں کے گرد دونوں بازوﺅں کا گھیرا بنائے، ٹھنڈے فرش سے بے پراو، وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے ۔ ان کی سفید ڈاڑھی سے آنسو ٹپک کر ان کے بندھے ہوئے ہاتھوں پر گر رہے تھے ۔ کچھ دیر ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کے جسم کو جھٹکے لگ رہے ہیں۔انہیں وہ سُنہری دوپہر کا دن اور نہر کا کنارہ یاد آ رہا تھا۔ جب سائیں کی بزرگی اور روحانیت دیکھ کر وہ اند ر سے کمزور ہو کر بے اختیار اپنا آپ اس کے سامنے کھول بیٹھے تھے ۔ حالاں کہ سائیں نے دبے لفظوں میں انھیں منع بھی کیا تھا کہ وہ کسی کے راز کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہتا، مگر وہ اپنے اندر کی جنگ اکیلے لڑتے لڑتے تھک گئے تھے۔ انہیں اپنا دکھ بیان کرنے کے لیے کسی کا کندھا چاہیے تھا۔ اس وقت وہ کندھا ، انہیں سائیں نے دیا اور وہ اس کے سامنے کھلتے گئے۔ اپنے اندر کے سب ڈر ، سب باتیں ، سب پچھتاوے اسے سنا دیے یہ جانے بغیر کہ وہ خود کتنی تکلیف اور اذیت سے گزارا تھا۔ سائیں پر یہ راز کھلا بھی تو کیسے۔وہ جو خود اتنے سالوں سے اپنے اصل کی تلاش میں بھٹک رہا تھا ، وہ سچ آج خود چل کر اس کے پاس پہنچا تھا، مگر اس بات سے خان زادہ شمشیر بے خبر تھے ۔ وہ اپنے دل کی بپتا کہہ کر ہلکے، پھلکے ہوگئے تھے ۔ اس دن انہوں نے سائیں کو بہت خاص مقام اور جگہ دی تھی اپنی زندگی میں بھی اور اپنے دل میں بھی مگر آج انھوں نے کیا کیا ؟ سچ جانے بغیر کیسا گھٹیا الزام اس پر لگا دیا کہ وہ خود اپنی ہی نظروں میں گر کر رہ گئے۔ انہوں نے شاید کبھی دل سے اسے اپنا مانا ہی نہیں تھا ۔ بھلا دل سے مانے اور بنائے گئے رشتے ، اتنی جلد کیسے بدگمانی کی دھول میں چھپ سکتے ہیں۔ قریبی مسجد سے ” اللہ اکبر “ کی صدا بلند ہوئی، تو وہ چونکے ۔

”جب تک سانس ہے ، توبہ کی امید نہیں چھوڑنی چاہیے۔“ سائیں نے ان کے پچھتاوے پر اپنے لفظوں کا مرہم رکھا تھا۔ انہوں نے کندھے پر پڑی چادر سے اپنا بھیگا ہوا چہرہ صاف کیا اور گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اٹھے تو ان کی منہ سے کراہ نکل گئی۔ ایک رات ہی میں وہ صدیوں کا سفر طے کر چکے تھے ۔ وہ تیز تیز قدموں سے مہمان خانے کی طرف بڑھے ، جب پورچ میں گم صم کھڑی نوربانو او رمریم پر ان کی نظر پڑی ۔ کسی خیال سے وہ چونکے۔

” نہیں ! وہ مجھے پچھتاوے کے بھنور میں ایسے ، بے یارو مدد گار چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ میں اسے نہیں جانے دوں گا۔“ انہوں نے خود کلامی کی، مگر ان کی آواز اتنی اونچی تھی کہ نوربانو اور مریم چونک کر ان کی طرف متوجہ ہوگئیں ۔ وہ ہوش وہ حواس سے بیگانہ ، ملگجے کپڑوں اور سادہ سی چپل پہنے ، لڑکھڑاتے قدموں سے گیٹ کی طرف بھاگا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ دونوں اُسے روکتیں وہ گیٹ کھول کر باہر نکل گیا۔گیٹ پر کھڑا چوکیدار حیران رہ گیا۔ اسی وقت نور بانو نے چوکیدار سے چیخ کر کہا ۔

” ڈرائیور سے کہو ، جلدی سے گاڑی نکالے ۔ مریم تم بھاگ کر میری چادر لے آﺅ ۔ جلدی کرو۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں۔“ نوربانو نے کہا تو مریم فوراً سر ہلاتی اندر کی طرف بھاگی۔ اس کے واپس آنے تک چوکیدار سرونٹ کوارٹر سے ڈرائیور کو لے آیا تھا ۔ اب وہ گاڑی اسٹارٹ کیے ان کا منتظر کھڑا تھا۔

”امی میں بھی ساتھ چلوں گی۔“ مریم نے ماں سے کہا، تو وہ رک کر فوراً بولیں۔

” نہیں تم گھر پر رکو۔ کسی کو کچھ خبر نہیں اور اگر کوئی ہمارے بارے میں پوچھے تو کہہ دینا سائیں کے ساتھ ، شہر والے مزار پر د یگ چڑھانے گئے ہیں۔“

نوربانو نے جلدی سے گاڑی میں بیٹھ کر ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کیا ۔ڈرائیور نے تیزی سے گاڑی دوڑائی۔ آج کی رات حویلی کے مکینوں پر قیامت بن کر گزری تھی۔ سائیں کو بہ مشکل ہوش میں لانے کے بعد ،انہوں نے خان زادہ شمشیر کی طرف سے معافی مانگی تھی۔ سائیں نے ان کے جوڑے ہاتھوں کو چوما اور لڑکھڑاتے قدموں سے جانے کی ا جازت چاہی۔ مریم اور نور بانو اس سے لپٹ کر رونے لگیں ، مگر وہ نہیں رکا تھا۔

 ” میری ٹرین چھوٹ جائے گی۔ مجھے جانا ہے ۔“ انہیں بہ مشکل خود سے الگ کرتا وہ کمرے سے باہر نکلا ۔ جاتے جاتے اس نے مڑ کر ایک بار ان کی طرف دیکھا اور گیٹ پا رکر گیا ۔ وہ دونوں اپنی جگہ گم صم نہ جانے کتنی دیر کھڑی رہیں۔ جب خان زادہ شمشیر وہاں پہنچے۔

” ٹھہرو۔ گاڑی روکو۔“ کچھ دور ہی پہنچے خان زادہ شمشیر کے پاس پہنچ کر بولیں تھیں۔ ڈرائیوڑ نے گاڑی روکی تو وہ چونک کر متوجہ ہوئے۔ اسی وقت کار کے شیشے سے نوربانونے سر نکال کر آواز دی۔

” جلدی سے کار میں بیٹھ جائیں۔ نہیں تو اس کی گاڑی نکل جائے گی۔“

خان زادہ شمشیر فوراً دروازہ کھول کر بیٹھ گئے۔ ریلوے اسٹیشن زیادہ دور نہیں تھا، مگر ان دونوں کو وہ بھی میلوں کے فاصلے پر لگ رہا تھا۔ چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر جیسے ہی گاڑی رکی، خان زادہ شمشیر فوراً نیچے اترے اور ا ندھا دھند بھاگتے ہوئے اندر داخل ہو گئے ۔ نوربانو بھی انہیں آوازیں دیتی ہوئیں، پیچھے لپکی تھیں ۔ جب کہ ڈرائیور حیرت سے یہ سب دیکھنے کے باوجود ، مہر بہ لب تھا کہ یہی اس کی وفا داری کا تقاضا تھا۔

صبح کی روشنی ابھی، زمین سے نہیں ملی تھی ۔ اس لیے اسٹیشن پر لوگوں کا ہجوم نہ ہونے کے برابر تھا۔ خان زادہ شمشیر پھر بھی دیوانوں کی طرح اسے اِدھر ، اُدھر ڈھونڈ رہے تھے۔ جب ایک بنچ پر چادر اپنے گرد لپیٹے سائیں کی نظر ان پر پڑی اور وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اسی وقتخان زادہ شمشیر نے بھی اسے دیکھ لیا ۔و ہ اسے پکارتے ہوئے، اس کی طرف بڑھے، تو عجلت میں ان کا پاﺅں کسی چیز سے ٹکرایا، تو انگوٹھے کا ناخن اکھڑ گیا جس سے خون بہ نکلا ۔ وہ منہ کے بل زمین پر گرے ۔ پیچھے آتی نور بانو کے منہ سے چیخ نکل گئی ۔ اسی وقت سائیں بھاگ کر ان کے پاس پہنچا اور سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔

” میرا ب۔ ب چ۔چ۔ہ۔ہ ۔ بچہ! “ وہ روتے ہوئے اپنے مٹی اور دھول میں اٹے ہاتھوں سے اس کا چہرہ چھو رہے تھے ۔ نور بانو بھی ان کے پاس پہنچ گئیں تھیں۔ خان زادہ شمشیر اسے سامنے دیکھ کر خود پر سے ضبط کھو بیٹھے تھے ۔وہ اپنی چوٹوں کی تکلیف بھلائے ، کانپتے ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھامے رو رہے تھے ، اسے چوم رہے تھے ۔ اس کی آنکھوں کو ، اس کے رخساروں کو ، اس کی روشن پیشانی کو ، اس کے ہونٹوں کو ، اس کی گردن پر بنے ،اپنے ہاتھوں کی سخت گرفت کے نشانوں کو ، کسی کسی جگہ ناخن بھی کھبے ہوئے تھے ۔ وہ اپنے ہونٹوں سے اس کے ہر زخم پر مرہم رکھ رہے تھے ۔ سائیں کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے ،نور بانو بھی رو رہی تھیں ۔ آس پاس سے گزرتے لوگ حیرت سے ان تینوں کو دیکھ رہے تھے ۔

” م۔م۔ مجھے معاف کر دو ! میں تمہارا گناہ گار ہوں۔“ انہوں نے ہاتھ جوڑے تو ، سائیں نے تڑپ کر ان کے کانپتے ہاتھ تھام لیے۔

” نہیں ابو! آپ مجھے میری ہی نظروں میں مت گرائیں۔ میرے دل میں کوئی شکوہ نہیں ہے آپ کے لیے۔“ سائیں نے ان کے چہرے پر بہتے آنسو صاف کیے۔



” نہیں تم ایک بار کہو کہ تم نے مجھے معاف کیا۔ میرے ظلم کے لیے ، میرے گناہ کے لیے ، صرف ایک با رکہہ دو۔“ وہ اس کے سامنے ایسے ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگ رہے تھے کہ سائیں کا دل کٹ کر رہ گیا۔ اس نے ان کے پھیلے ہوئے ہاتھ تھامے اور بولا ۔

” میں نے آپ کومعاف کیا ۔ آپ کے ہر عمل اور کوتا ہی کے لیے۔ بس اب آپ نے رونا نہیں ہے۔“ سائیں نے نرمی سے ان کا بھیگا چہرہ صاف کیا۔ ان کی سفید ڈاڑھی آنسوﺅں سے تر تھی ۔

” پھر تم ہمیں چھوڑ کر کیوں جا رہے ہو ؟ چلو میرے ساتھ ، واپس چلو ۔ اب ہم ساتھ رہیں گے۔ میں سب کو بتاﺅں گا کہ تم میرا خون ہو ، میرے جگر کا ٹکڑا ہو،چلو میرے ساتھ۔“ انہوں نے سائیں کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔

” نہیں ابو جان! میں آپ کے ساتھ واپس نہیں جا سکتا۔ مجھے معاف کر دیں۔“ سائیں نے نرمی سے کہا، تو وہ دونوں چونک کراس کی طرف دیکھنے لگے۔

” اس کا مطلب ہے تم نے ہمیں دل سے معاف نہیں کیا۔“ نوربانو نے سسکتے ہوئے کہا ۔

” نہیں ماں جی!ایسا نہیں ہے مگر….“سائیں کہتے کہتے چپ ہو گیا ۔

” مگر کیا ؟“ خان زادہ شمشیر نے تڑپ کر پوچھا ۔

” اتنے سالوں سے جو راز سب کی نظروں سے چھپا رہا ہے ، اسے پوشیدہ ہی رہنے دیں۔ آپ سب کے سوالوں کا جواب دیتے دیتے تھک جائیں گے، مگر لوگوں کے سوال کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ آپ کے اونچے شملے ، آپ کی خاندانی گدی پر سوال اٹھائے جائیں گے، آپ کس کس کو مطمئن کریں گے۔ کس کس کو بتائیں گے کہ آپ کے گھر ایک خواجہ سرا نے جنم لیا تھا ۔ آپ لوگ برداشت کر بھی لیں گے مگر باقی خاندان والے! وہ اس سچ کو کبھی نہیں تسلیم کریں گے۔ میں نے اتنے سال اس اذیت میں رہتے ہوئے گزارے ہیں۔ میں آپ لوگوں کو اس اذیت کا شکا ر ہوتے ہوئے ، اس عمر میں نہیں دیکھ سکتا۔ میرا ضمیر کیسے گوارا کرے کہ میرے بوڑھے والدین ، اس عمر میں دنیا کی عدالت میں ہر روز ملامت کے کٹہرے میں کھڑے ہوں۔ میرے بہن بھائی ، مجھے قبول کربھی لیں مگر اپنے سے جڑے رشتوں کے سامنے تضحیک کا نشانہ بنتے ہوئے ساری زندگی گزاریں گے۔“ سائیں نے نرمی سے کہا۔ وہ دونوں ٹکر ٹکر اس کا چہرہ دیکھنے لگے ۔

” ہمیں سب منظور ہے، مگر تم سے جدائی گوارا نہیں۔“ نور بانو نے کہا، تو خان زادہ شمشیر نے بھی اثبات میں سر ہلا یا۔

” میرے پیارے والدین!“ سائیں نے آگے بڑھ کر دونوں کی پیشانی کو باری باری چوما۔

” اگر قسمت مجھے آپ کی خدمت کرنے کو موقع دیتی، تو میں ساری زندگی، رب کا شکر ادا کرتے سجدے میں جھکا رہتا مگر میرے لیے یہی بہت ہے کہ آج مجھے آپ دونوں کو ” امی ، ابو “ کہنے کا حق ملا ہے۔ میںآپ دونوں کے گلے سے لگ کر رویا ہوں ۔ ماں کی گود کی گرمی اور باپ کی شفقت دیکھی ہے۔ باپ کی مار کا ذائقہ چکھا ہے ۔ مجھ سے میرے والدین راضی ہیں۔ آپ خود ہی بتائیں کہ دنیا میں آج مجھ سے زیادہ خوش نصیب کون ہو گا؟“

سائیں نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے کہا۔

” مگر میں اپنی ممتا کا کیا کروں ؟ابھی اس کی پیاس نہیں بجھی۔ میری بھری ہوئی گود نے بھی ، تمہاری جگہ اور اس کے خالی پن کو ہمیشہ محسوس کیا ہے ، میں تمہیں خود سے دور کیسے جانے دوں۔مجھے چھوڑ کر مت جاﺅ میرے بچے۔ میں اس دنیا میں تو کیا ، روزِ محشر بھی بھرے میدان میں چیخ چیخ کر کہوں گی کہ تم نے میری کوکھ سے جنم لیا ہے اور مجھے تم پر ناز ہے۔ مجھے چھوڑ کر مت جاﺅ۔“

نوربانو نے اس کی شہادت کی انگلی کے نیچے بنے نشان کو چوما اور اس سے لپٹ گئیں۔

” امی جان ! میں چاہے کہیں بھی رہوں ، کس حال میں بھی رہوں، رہوں گا تو آپ کا ہی نا۔ بس تھوڑا سا انتظار اور پھر ہم سب ہمیشہ کے لیے ساتھ ہوں گے۔ اس کی رحمت کے سائے میں۔ میں جس سفر پر چل نکلا ہوں، وہاں سے واپس نہیں پلٹ سکتا۔ کیا آپ یہ چاہیں گے کہ میں دین سے بھی جاﺅں اور دنیا سے بھی۔“ سائیں نے پوچھا، تو وہ دونوں نفی میں سرہلانے لگے۔

” پھر میرا راستہ مت روکیں۔ ایک چھوٹے سے سفر سے لوٹوں گا، تو لمبی نیند آپ کے پہلو میں ہی سوﺅں گا۔ یہ میرا وعدہ رہا، بس مجھے قسم کا طوق اتارنے دیں، اس ذات کے لیے خالص بننے دیں کہ ”اور بے شک اللہ جسموں سے نہیں ، روح سے محبت کرتا ہے۔“

سائیں نے کہا، تو دونوں کے دل ایک دم ہی مطمئن ہوگئے ۔سائیں نے باری باری دونوں کو گلے سے لگا یا اور پیار کیا ۔ پھر ٹرین کی وسل بجتے ہی الوداعی نظروں سے انھیں دیکھتا ، ہاتھ ہلاتا ، ریل پر سوار ہوگیا ۔ دھند میں جہاں تک وہ لوگ ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے ، دیکھتے رہے۔

آنکھوں سے اوجھل ہوتے ہی خان زادہ شمشیر اور نور بانو نے شکستہ قدموں سے واپسی کا سفر شروع کیا۔ جب کہ ٹرین کے سب سے آخری ڈبے کے ایک کونے میں ، گھٹنوں میں سر دےے، وہ بے آواز رو رہا تھا۔زندگی نے آج اسے وہ سب کچھ دیا جس کی تمنا کبھی اس کی سب سے بڑی خواہش تھی، مگر افسوس کے اس کی پاس سانسوں کی مہلت بہت کم رہ گئی تھی۔ تیزی سے گزرتے ہر منظر کے ساتھ ساتھ ، وہ بھی ماضی کی بھول بھلیوں میں پہنچ گیا۔ ان بھول بھلیوں میں اسے جو پہلا دروازہ ملا وہ، ماضی کے اس لمحے میں کھلتا تھا جب اس کے مستقبل سے پریشان اور فکرمند خدابخش کو اچانک امید کی ایک کرن مل گئی تھی۔

٭….٭….٭

”دید اپنے کی تھی اُسے خواہش

آپ کو ہر طرح بنا دیکھا

شمع ہو کر کے اور پروانہ

آپ کو آپ میں جلا دیکھا“

” نہیں ابا میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاﺅں گا۔“ خدابخش کی بات سنتے ہی وہ ان سے لپٹ گیا۔

” تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا رہے ہو۔ تم زندگی میں کچھ بننے کے لیے آگے بڑھ رہے ہو۔“

خدابخش نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا، مگر وہ کسی طرح نہیں مان رہا تھا اور ان سے ایسے لپٹا ہوا تھا جیسے وہ چھوٹا سا بچہ ہو جسے اپنے کھو جانے کا ڈر ہو ۔

”آدم ! میرے بچے! میرے بس میں ہوتا، تو میں ہمیشہ تمہیں اپنی نظروں کے سامنے رکھتا، مگر وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ ابھی ہم ایک دوسرے سے دور ہو جائیں مگر ہمیشہ کے لیے نہیں۔ ہم بہت جلد ضرور ملیں گے۔میں جیسا کہوں گا، تم مانو گے۔ وعدہ کرو ۔ نہیں تو میں تم سے ہمیشہ کے لیے ناراض ہو جاوں گا ۔“ خدابخش نے اس سے وعدہ لیا۔ پھر جیسا جیسا وہ کہتے گئے ، وہ سر جھکا کر خاموشی سے کرتا رہا۔ پھر وہ دن بھی آگیا ۔ جب وہ یہ ملک چھوڑ کر ، مسز مارتھا کی گارجین شپ میں امریکا جا رہا تھا۔ اس رات خدابخش ساری رات نہیں سویا اور چھپ چھپ کر آنسو بہاتا، اسے سینے سے لگائے بیٹھا رہا، آدم بھی ان سے لپٹا رہا، مگر کب تک ؟

جدائی کی گھڑی سر پر آہی گئی ۔ ائیرپورٹ پر خدا بخش ، مسز مارتھا کے سامنے ہاتھ جوڑ کر رو پڑا۔

” آپ کی بہت مہربانی ! آپ نے اس بچے پر شفقت کی!بس آپ سے ایک گزارش ہے، اس کا بہت خیال رکھیے گا۔ یہ بہت سادہ اور معصوم ہے ۔اسے دنیا کی کوئی خبر نہیں ہے۔“

” خدا بخش فکرمت کرو اورہمت رکھو۔ دیکھنا ایک دن یہ بچہ کامیاب ہو کر لوٹے گا۔“مسز مارتھا نے مضبوط لہجے میں کہا ۔ خدا بخش نے بھیگی آنکھوں سے انہیں الوداع کیا۔ یہی حال آدم کا بھی تھا۔ امریکا میں مسز مارتھا اسے اپنے فلیٹ میں لے آئیں ۔ یہاں آنے کے بعد آدم کو پتا چلا کہ مسز مارتھا کا ایک بیس ، بائیس سال کا بیٹا بھی ہے جو پہلے اپنے باپ کے پاس رہتا تھا ، جب ان دونوں میں علیحدگی ہوئی تو مائیکل نے باپ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی کیوںکہ وہ امیر شخص تھا مگر اس کے مرنے کے بعد اس کی دوسری بیوی اور اس کے بچوں نے اسے وہاں سے نکا ل دیا تو اسے اپنی بوڑھی ماں کا خیال آیا جو پاکستان سے بہت جلد لوٹنے والی تھیں ۔ اس نے ماں کو جذباتی طور پر بلیک میل کر لیا اور ان کے آنے سے پہلے ہی مزے سے ، ان کے فلیٹ میں رہنے لگا مائیکل من موجی قسم کا شخص تھا۔ اس کا زیادہ تر وقت شراب کے نشے میں گزرتا۔ یہاں آ کر بھی مسز مارتھا نے جاب شروع کر دی۔ مائیکل زیادہ تر گھر پر ہی رہتا یا کبھی کبھار وہ کوئی کام کر لیتا تھا مگر مستقل مزاجی سے نہیں ۔ یہاں آ کر آدم کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہو گیا ، مگر یہاں زندگی کے ساتھ ساتھ بھاگنا ضروری تھا۔ اسی لیے اسے ایک پٹرول پمپ پر ملازمت مل گئی جس کا مالک ایک بوڑھا خبطی تھا، مگر وہ آدم کے حق میں اچھا تھا۔ آدم کا نام یہاں آ کر پہلے ایڈم اور پھر ایڈی میں تبدیل ہو گیا ۔اپنے ابا کی ہدایت کو سامنے رکھتے ہوئے آدم نے خوب محنت کرنا شروع کر دی ۔ وہ کسی قابل بن کر جلد سے جلد واپس جانا چاہتا تھا۔ اسی لیے اکثر رات کو دیر تک پڑھتا رہتا، وہ اسکول کے پتے پر ابا (خدا بخش) کو کئی خط بھی لکھ چکا تھا ۔ خدابخش اس کے خطوں کے انتظار میں پوسٹ مین کی راہ دیکھتا رہتا ۔ کلثوم اور اُس کے بچوں کے لیے یہ بہت تکلیف دہ بات تھی کہ آدم ملک سے باہر چلا گیا ہے۔ وہ بار بار شکوہ کرتی کہ اپنی اولاد کے اچھے مستقبل کے لیے تو کبھی اس نے ایسا نہیں سوچا۔ خدابخش اس کی کسی بات کا جواب نہیں دیتا تھا۔ وہ بہت خاموش اور چپ چپ رہنے لگا تھا۔ آدم کی دوری نے اسے اندر سے توڑ کر رکھ دیا تھا، مگر وہ بہ ظاہر مضبوط بنا پھرتا۔

دوسری طرف بھاگتی دوڑتی زندگی میں، آدم کو خوشی اور مسرت کا جو لمحہ میسر تھا ، وہ وہی تھا جب وہ رات کو سونے سے پہلے تھوڑا تھوڑا کر کے روز ابا کو خط لکھتا۔ پھر جب خط طویل ہونے لگتا، تو وہ اسے پوسٹ کر وا دیتا ۔ پھر ابا کے خط کے انتظار میں دن گننے لگتا۔ خدا بخش اسے خط میں بہت سی ہدایتیں لکھ کر بھیجتا۔ کبھی لکھتا۔” آدم یار! تیری اردو تو وہاں جا کر بہت ہی کمزور ہو گئی ہے۔ا بھی بھی تیرے خط میں املا کی غلطیاں نکالی ہیں میں نے۔ دیکھ دھیان سے پڑھنا ۔ نہیں تو لوگ کیا کہیں گے کہ وہاں جا کر تُو نالائق ہو گیا ہے کہ اردو لکھنی ہی بھول گیا۔“ آدم یہ پڑھ کر ہنسنے لگتا اور مسز مارتھا کو بھی ابا کی یہ بات مزے لے لے کر سناتا ۔ وہ مُسکرا کر پوچھتیں کہ تم نے کیا جواب دیا ہے۔

”ابا یار! فکر مت کریں یہاں اردو نہیں انگلش کی ضرورت ہوتی ہے اور میری انگلش شروع سے بہت اچھی ہے ۔“ آدم ہنستے ہوئے جواب لکھتا۔ اسی طرح دن گزرنے لگے ۔اس کے اندر سیکھنے کی صلاحیت قدرتی طور پر بہت تیز تھی۔ وہ بہت جلد کسی بھی چیز کو پک کر لیتا تھا اور بہت جلد کسی بھی رنگ میں ڈھل جاتا تھا۔ اِسی لیے تو اس کے گیٹ اپ اور کردار اسکول ڈراموں میں بہت مشہور تھے۔ یہی خوبی اس کی یہاں بھی بہت کام آئی ۔ وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کا مشاہدہ بہت باریک بینی سے کرتا تھا۔ یہاں آکر اسے بہت اعتماد ملا تھا ۔ کوئی اس کا مذاق اُڑانے والا یا اسے کمتر سمجھنے والا نہیں تھا ۔ یہاں آکر اس کے کچھ دوست بھی بنے جو اس کی ذہانت اور قابلیت سے بہت متاثر ہوئے تھے ۔ بہت سے مواقع پر اس نے اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا، جو دیکھنے والوں کے لیے خوشی کا باعث بنتا۔ اس کے استاد اور دوست اس سے فرمائش کر کے کسی نہ کسی آرٹسٹ کی نقل اتارنے کی فرمائش بھی کرتے ۔ جسے یہ بخوبی پوری کر دیتا۔ یہ اس کا اضافی وصف تھا ۔ کچھ عرصے میں وہ ، امریکن لب و لہجے میں بولنے کی پریکٹس کرتا ،بالآخر اس میں کامیاب ہو گیا ۔ وہ یہاں آ کر بہت خوش تھا ۔ اسے اپنی ذات کی اہمیت کا اندازہ ہو نے لگا تھا۔ اسے یہاں ایک انسان کا درجہ ہی دیا جاتا تھا۔ کوئی اسے تیسرے درجے کی مخلوق نہیں کہتا تھا مسز مارتھا نے ایک بار اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا کہ:

” تمہارے سامنے پورا آسمان ہے ، اب یہ تم پر منحصر ہے کہ تم اپنے ڈر اور خوف کی وجہ سے، اپنے پروں کی طاقت کو استعمال کرنے کے بجائے رینگ کر زندگی گزارنا چاہتے ہو یا اپنے پروں کی طاقت سے آسمان کی وسعتوں کو چھوتے ہو۔ یہ یاد رکھنا، جب تک تم اپنے لیے خود کچھ نہیں کرو گے، کوئی تمہارے لیے کچھ بھی نہیں کر سکے گا۔ تبدیلی ، آپ کے اندر سے آتی ہے ، باہر سے نہیں۔ خود کو پہچانو اور احساسِ کمتری سے باہر نکل کر دنیا کو بتا دو کہ تم یا تمہارے جیسے لوگ بھی زمین پر انسان ہی کا درجہ رکھتے ہیں اور رب ان کا بھی اتنا ہی ہے ، جتنا دوسرے لوگوں کا۔“

آدم نے اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا۔ وہ بہت خو ش تھا ۔ جب اس کی خوشی کو کسی کی نظر لگ گئی۔ مائیکل نے ان دنوں ایک تھیٹر میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ اسے وہاں چھوٹے چھوٹے رول مل جاتے تھے جس سے وہ بہت خوش تھا۔ وہ اکثر آدم کو بھی اپنے ساتھ لے جاتا۔ آدم کے لیے یہ سب بہت دل چسپ ہوتا تھا ۔ اسٹیج کے پیچھے مختلف آرٹسٹوں کو طرح طرح کے بہروپ میں تیار ہوتے دیکھنا اور اندر کی بہت سی چھوٹی بڑی باتیں اسے پتا چل جاتی تھیں ۔ چوں کہ شروع سے اس کی قوتِ مشاہدہ بہت تیز تھی۔ اسی لیے وہ بہت کچھ سیکھنے لگا تھا ۔اس تھیٹر کا مالک اینڈی بہت دل چسپ شخصیت کا مالک تھا۔ اسے مختلف تجربات کرنے کا بہت شوق تھا ۔آدم سے اس کی اچھی خاصی جان پہچان ہو چکی تھی اور اس نے وعدہ کیا تھا کہ بہت جلد آدم کو اپنے ڈرامے میں کام کرنے کا موقع دے گا۔ وہ ایک عام سا دن تھا جب وہ مائیکل کے ساتھ تھیٹر گیا۔ رات انہیں بہت دیر ہو گئی۔ مائیکل اسے بہانے سے بڑے اسٹور روم میں لے آیا ۔ جہاں فنکاروں کے بہروپ بدلنے کا بہت سا مان پڑا ہوا تھا۔زیادہ تر لوگ جا چکے تھے۔ بس چند ہی لوگ رہ گئے تھے ، وہ بھی تھیٹر بند کر کے جانے والے تھے ۔ آدم کو مختلف چیزیں دکھاتے دکھاتے، مائیکل نے ایک دم ہی رنگ بدلا۔ پہلے تو آدم کو کچھ سمجھ ہی نہیں آئی کہ اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے نشے میں دھت مائیکل اس کے ساتھ کیا کرنا چاہ رہا ہے ۔جب اس کے حواس بحال ہوئے اور اس نے شیطانیت کا روپ دیکھا، تو وہ خوف سے کانپ گیا ۔ اس وقت وہ اٹھارہ سال کا ہو چکا تھا مگر مائیکل کے سامنے وہ بچہ ہی تھا ۔ مائیکل نے اس کی منہ پر سختی سے ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ اپنے بچاﺅ کی کوشش کرتے ہوئے کوئی چیز اس کے ہاتھ لگی جو اس نے مائیکل کو دے ماری اور اس کی گرفت کمزور ہوتے ہی وہ اسے خود پر سے دھکا دیتے ہوئے دروازے کے طرف بھاگا۔ مائیکل نے غلیظ گالیاں دیتے ہوئے اس کا پیچھا کیا۔ اسی وقت شور کی آواز سن کر سکیورٹی گارڈ بھاگا چلا آیا ۔ اس نے آدم کا بگڑا ہوا حلیہ دیکھا اور اس کے پیچھے بھاگتے مائیکل کو بھی۔ آدم اس کے پاس رکنے کے بجائے، تیزی سے وہاں سے نکل گیا۔ وہ روتے ہوئے سڑک پر تیزی سے بھاگتا کئی بار گاڑیوں کی زد میں آتے ہوئے بچا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ رات کے اس وقت کہاں جائے، کس سے مدد مانگے ۔ مسز مارتھا کے پاس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وہ مائیکل سے بہت محبت کرتی تھیں۔ وہ کبھی بھی نہ مانتیں کہ ان کا بیٹا اس حد تک گر بھی سکتا ہے۔ روتے روتے آدم ، اسی پٹرول پمپ پر پہنچ گیا جہاں وہ کام کرتا تھا ۔ اس نے مالک کا سامنا کرنے کے بجائے ، پچھلی طرف بنے سٹور روم کا دروازہ کھولا اور وہاں چھپ کر بیٹھ گیا۔ ساری رات اس نے روتے ہوئے گزاری۔ ابا کو آوازیں دیتے ہوئے، وہ بہت تڑپا تھا۔ وہ کہیں بھی چلا جائے ، اس کی بد قسمتی ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی تھی۔ نہ جانے کس وقت اس کی آنکھ لگ گئی ۔ جب اسے اپنے پاس کھٹکا سا محسوس ہوا اور وہ فوراً ہی ڈر کر اُٹھ بیٹھا ۔ سامنے پٹرول پمپ کا مالک، وہ بوڑھا خبطی انکل جان کھڑا اسے گھور رہا تھا۔ مگر اس نے اسے کچھ نہیں کہا۔ آدم کے پھٹے کپڑے اور گردن اور چہرے پر تھپڑوں اور ناخنوں کی نشان ، بہت سی ان کہی کہانیاں سنا رہے تھے۔ وہ خاموشی سے پلٹ گئے۔ کچھ دیر بعد واپس آئے اور ہاتھ میں پکڑا شاپر بیگ اس کی طرف بڑھایا۔

”کپڑے بدل کر اندر آ جاﺅ۔ میں ناشتے پر تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔“



وہ کہتے ہوئے چلے گئے ۔ آدم نے کپڑے بدلے اور نلکے سے منہ ہاتھ دھویا ۔ وہ پہلے کبھی ان کے گھر نہیں گیا تھا ۔اس لیے کچھ جھجک رہا تھا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ انکل جان کی فیملی میں اور کون کون ہے ؟وہ لکڑی کا بیرونی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا، تو اس کا استقبال خاموشی نے کیا ۔ انکل جان کا گھر سلیقے سے سجا ہوا اور صاف ستھرا تھا ۔وہ چند قدم چل کر ایک جگہ رک گیا ۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب وہ کیا کرے ، اس کی سوجی ہوئی آنکھیں اور رویا ہوا چہرہ منہ دھونے کے باوجود بھی اسی طرح تھا۔ اسی وقت انکل جان ، ہاتھ میں ٹرے پکڑے ایک کمرے سے برآمد ہوئے ۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ کچن ہو گا۔

”ینگ بوائے ! تم ابھی تک یہاں کھڑے ہو۔ آج اگر میں مہربان ہوں ، تو اس کا ناجائز فائدہ مت اٹھاﺅ۔ جلدی سے ناشتا کر لو ، پھرپٹرول پمپ کی صفائی کے بعد اسے کھولنا بھی ہے۔“

انکل جان نے مخصوص تحکمانہ لہجے میں کہا ۔ آدم نے گھبرا کر جلدی سے کہا ۔

” آپ ناشتا رہنے دیں ۔ مجھے ویسے بھی بھوک نہیں، میں کام شروع کرتا ہوں ۔ “ آدم کہتا ہوا جلدی سے مڑا۔ وہ کسی کا بھی سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔

”میں نے تم سے مشورہ نہیں مانگا۔ تمہارا کیا مطلب کہ میں نے ناشتے میں آج جو فیاضی کا مظاہرہ کیا ہے ، وہ ایسے ہی رہ جائے گا۔ چلو آﺅ جلدی سے ۔ مجھے ٹھنڈے ناشتے سے چڑ ہے۔“

انکل جان نے کہتے ہوئے ، اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیااور ڈرائنگ روم میں چلے گئے ۔ آدم بھی خاموشی سے ان کے پیچھے چل پڑا۔ میز پر گرما گرم ناشتا، اس کا منتظر تھا ۔آدم ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔

” اس مراقبے کے بعد ، کیا تم ناشتا کرو گے؟“ آدم کو خاموشی سے سر جھکا کر بیٹھا دیکھ کر انکل جان بولا۔

”آپ کی باقی فیملی بھی آجائے ،اس لیے انتظار کر رہا تھا۔“ آدم نے آہستگی سے کہا۔سلائس پر جیم لگاتے ہوئے، ایک لمحے کے لیے انکل جان کے ہاتھ رک گئے۔

” تمہاری طرح ، میرا بھی کوئی نہیں ہے۔ ناشتا شروع کرو!“انکل جان نے کہا، تو وہ چونک کران کی طرف متوجہ ہوا۔

” میری طرح! آپ کو کیسے پتا؟“ آدم نے بے ساختہ پوچھا۔ پھر ایک دم ہی چپ ہو گیا۔

” جن کے اپنے ہوں نا، وہ اتنے تنہا اور اکیلے نظر نہیں آتے۔“ انکل جان نے جوس کا گھونٹ بھرا۔ یہ سن کر آدم ساکت رہ گیا۔ پھر ا س نے آہستہ سے ہاتھ سلائس کی طرف بڑھایا ، تو اس کا ہاتھ کانپ رہا تھا ۔انکل جان نے دیکھا، مگر کچھ کہا نہیں۔ اسی وقت وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس کے اندر کی توڑ پھوڑ، اب برداشت سے باہر ہو چکی تھی۔کچھ دیر تک انکل جان نے اسے رونے دیا ۔ جب وہ رو چکا، تو انکل جان نے ٹشو پیپر اس کی طرف بڑھایا، جسے آدم نے خاموشی سے تھام لیا ۔

”آنسوﺅں کی زبان، صرف وہ رب ہی جانتا اور سمجھتا ہے۔ میں تمہارے منہ سے، تمہاری کہانی سننا چاہوں گا ۔“ انکل جان نے کہا تو کچھ دیر کی خاموشی کے بعد آدم نے بولنا شروع کیا ۔ آنکھ کھلنے سے لے کر آج تک کی سب باتیں ، سب دکھ ، اس کے سامنے کھول کر رکھ دیے۔ وہ چپ ہوا، تو انکل جان کتنی دیر بول ہی نہیں سکے۔

” مجھے لگتا تھا کہ دنیا میں صرف میرا دکھ ہی سب سے بڑا ہے، مگر آج اندازہ ہوا کہ ایسا نہیں ہے۔“ انکل جان نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔

” آپ کا دکھ؟“ آدم نے حیرت سے سوال کیا۔

” ہاں ! تمہیں کیا لگتا ہے کہ صرف تم ہی اس معاملے میں فیاضی سے نوازے گئے ہو۔“ انکل جان نے اُداسی سے مسکراتے ہوئے کہا، مگر ان کی آنکھوں میں نمی پھیل گئی تھی۔

”بہت سال پہلے ، جب میں امنگوں اور زندگی سے بھرپور تھا ۔ میں نے محبت کی ریت پر ایک چھوٹے سے گھر کی بنیاد رکھی تھی ۔ کیتھی میری محبت تھی اور میری دنیا بھی ۔ اس کی ایک مسکراہٹ کے لیے میں کچھ بھی کرنے کو تیار رہتا تھا۔ میری ساری دنیا اس سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتی تھی ۔ کتنے سال تو مجھے یہ لگتا رہا کہ وہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتی ہے ۔ ہمارے تین پیارے پیارے بچے تھے ۔ بیٹا تقریباً تمہاری عمر کا تھا اور اس کے بعد دو جڑواں بیٹیاں تھیں۔ میں اپنے گھر کے لیے دن رات محنت کرتا رہا۔انہیں بہتر سے بہتر زندگی دینے کی کوشش کرتا رہا مگر نہ جانے ہمارے گھر کو کس کی نظر لگ گئی۔ شادی کے اتنے سال گزرنے کے بعد ، اچانک کیتھی کو لگنے لگا کہ میں اس کے جوڑ کا نہیں ہوں ۔ اسے مجھ میں بہت سی خامیاں نظر آنے لگیںاور مجھ سے شکوے رہنے لگے ۔ میں اس صورت حال سے بری طرح پریشان تھا ۔ میرے بچے بھی مجھ سے زیادہ ، اپنی ماں کے قریب تھے ۔ بیٹا تو بالکل ،اپنی ماں کی کاپی تھا ۔ عادتوں میں بھی اور مزاج میں بھی ۔ دونوں بیٹیاں پھر بھی مجھ سے محبت کرتی تھیں مگر ماں کی وجہ سے اکثر نظر انداز بھی کر جاتی تھیں۔ ایک دن مجھے اس تبدیلی کی وجہ بھی مل گئی ۔ میری بیوی کو اچانک اس کا پرانا محبوب مل گیا تھا اور وہ اس کے ساتھ دوبارہ سے تجدید وفا کرنا چاہتی تھی۔

تم جانتے ہو آدم! ایک عورت کی سب سے بڑی خوبی اس کی وفا ہوتی ہے اور سب سے بڑی خامی اور بدصورتی اس کی بے وفائی۔

میری بیوی نے چالاکی سے میرے بچوں کو بھی مجھ سے بد ظن کر دیا اور پھر مجھ سے لڑ جھگڑ کرگھر چھوڑ کر چلی گئی اور عدالت میں کیس کر کے ، میری جائیداد کا ایک بڑا حصہ اپنے نام کروا لیا۔ میرے پاس صرف یہ پٹرول پمپ بچا تھا ۔ یہ بھی منظور تھا مجھے اگر وہ مجھے چھوڑ کر ایک خوش گوار اور مطمئن زندگی گزارتی، مگر….!“ انکل جان کی نیلی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آدم دم بہ خود انہیں سن رہا تھا۔

”مجھے چھوڑ کر وہ بہت خوش و مطمئن تھی ۔ بچے بھی اس کے پاس تھے ۔ جب ایک رات اپنے بوائے فرینڈ کے فارم ہاﺅس پر ہونے والی پارٹی سے واپسی پر ، تیز رفتاری اور نشے میں ہونے کی وجہ سے ان کی کا ر حادثے کا شکا ر ہو گئی اور وہ سب موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔“

انکل جان کتنی ہی دیر روتے رہے۔ آدم کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے ۔ دکھ کسی کا بھی ہو ، اگر اسے محسوس کرنے کی حس موجود ہے، تو وہ دکھ رلاتا ضرور ہے۔ آدم بھی ان کے ساتھ رو رہا تھا۔

” جن سے محبت کی جاتی ہے ، ان کی سلامتی کی دعا ہر سانس کے ساتھ دل سے نکلتی ہے اور میرے بچے ، جن کے بغیر میں نے کبھی کوئی کرسمس ، کوئی خوشی نہیں منائی تھی۔ ان کے جانے کے بعد میں نے ہر خوشی کے دروازے اپنی ذات پر بند کر دیے ہیں ۔“انکل جان نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔

” خیر یہ سب تمہیں اس لیے نہیں بتایا کہ تم یہ جان سکو کہ میں کتنا اکیلا اور دکھی ہوں۔ میں نے تمہیں یہ سب اس لیے بتایا ہے کہ تم یہ جان سکو کہ زندگی کبھی بھی ، کسی کے لیے نہیں رکتی، چاہے کوئی کتنا پیارا اور قریبی ہی کیوں نہ ہو، اسے چلتا ہی رہنا ہے۔ جب آپ اس بات کو سمجھ جاتے ہیں کہ زندگی کا نام ہی روانی ہے تو پھر آپ جانے والی چیز کا ماتم نہیں کرتے۔ زندگی میں کچھ مستقل نہیں ہے ، سوائے اس کے تغیر کے…. تمہیں رب نے دوسروں سے مختلف بنا کر کیوں بھیجا۔ اب اس کا رونا رونے کے بجائے ، اپنی زندگی کو بہتر بنانا سیکھو۔ تم بھی دنیا میں اپنے مخصوص وقت کے لیے ہی بھیجے گئے ہو۔ اس وقت میں جو کر سکتے ہو کر لو۔ چاہے تو مظلومیت کا ٹیگ لگا کر دوسروں سے ہمدردی بٹورتے رہو یا پھر خود اتنے مضبوط بن جاﺅ کہ کوئی تمہارے اصل تک پہنچ ہی نہ سکے ۔دنیا کا ایک اصول ہے ، جو جھکتا ہے ، وہ اسے جھکاتی ہے۔ تم دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہو، تو سب سے پہلے اپنی کمزوریوں پر قابو پانا سیکھو اور اس کے لیے تمہیں محنت کرنی پڑے گی ۔“

آدم نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر وہاں سے اس کی زندگی کا نیا باب شروع ہوا۔ اس نے انکل جان کے ساتھ رہائش اختیار کر لی ۔ مسز مارتھا ایک دن اس سے ملنے آئیں اور بغیر کچھ کہے اس کا سارا سامان دیں گئیں۔ ان کی خاموشی کا مطلب ناراضی تھا یا کچھ اور آدم نہیں سمجھ سکا۔ اس نے لوگوں کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا تھا۔ اس نے اپنی زندگی بہت سے حصوں میں بانٹ لی تھی۔ صبح کالج ، دوپہر کو پٹرول پمپ پر کچھ گھنٹے گزار کر وہ شام کو مارشل آرٹس کی کلاسز لیتا تھا۔ وہاں سے واپسی پر وہ ایک میوزک اکیڈمی جاتا اور رات کو پھر پٹرول پمپ پر ڈیوٹی دیتا۔ وہ فارغ وقت میں شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر چلنے کی پریکٹس کرتا۔ اپنی چال میں اسے کوئی خامی یا کمی نظر آتی تو وہ اسے دور کرنے کی کوشش کرتا، اپنے بولنے کے انداز میں بھی بہت تبدیلی لے آیا تھا۔ غرض اسے اپنی ظاہری شخصیت میں جو جو کمی لگتی وہ اس پر پوری طرح سے محنت کرتا ۔اس نے بہت سے سپلیمنٹ اور ہارمونز کی میڈیسن لینی شروع کر دیں اور مارشل آرٹس کے بعد جم جوائن کر لیا۔ وہ باڈی کو بہتر سے بہتر شیپ دینے کے لیے بہت محنت کر رہا تھا۔ انکل جان کی راہنمائی اسے پوری طرح حاصل تھی۔ وہ اسے اس کی کمی سے لڑنا سکھا رہے تھے ۔اسے طرح دن گزرتے گئے ۔ پھر ایک دن آدم جو اب ایڈم یا ایڈی کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ اسی تھیٹر گیا، جہاں کبھی اس نے اپنی زندگی کا تلخ لمحہ دیکھا تھا ۔اس کی شخصیت بہت سحر انگیز اور اٹریکٹو ہوگئی تھی ۔ اس نے تھیٹر کے مالک اینڈی کو اس کا وعدہ یاد دلایا۔ اینڈی اس سے مل کر بہت متاثر ہوا اور اس نے بہت جلد اسے اپنے ڈارمے میں ایک بہت اہم رول دیا۔ جب اس نے وہ پرفارم کیا تو سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ یہ سب مائیکل نے بھی دیکھا۔ وہ آج بھی وہاں موجود تھا مگر ترقی نہیں کر پایا تھا ۔ شو ختم ہونے کے بعد وہ اچانک ہی مائیکل سے ملنے اس کے پاس پہنچ گیا۔ مائیکل اسے دیکھ کر بہت حیران ہوا ۔

” تمہارا ایک حساب چکانا تھا ۔“ کہتے ہوئے ، آدم نے زور کا ایک پنچ اس کے منہ پر ما را۔ مائیکل الٹ کر پیچھے کی طرف گرا اور اس کے منہ سے خون بہنےلگا۔ وہ پلٹ کر جانے لگا جب اسی رات والے سکیورٹی گارڈ نے اسے پہچان کر روکا تھا۔

” تم نے بہت اچھا جواب دیا اس خبیث کو۔ تمہارے بارے میں پوچھنے ایک عورت بھی آئی تھی جو شاید تمہاری کوئی جاننے والی تھی اور تمہارے گھر نہ لوٹنے کی وجہ سے بہت پریشان بھی تھی۔ میں نے اسے تمہارے ساتھ ہونے والے واقعے کے بارے میں بتا دیا تھا، وہ بہت پریشان اور روتے ہوئے یہاں سے گئی تھی۔ کیا وہ تمہاری ماں تھی؟“اس نے گم صم کھڑے آدم سے پوچھا۔

”ماں نہیں، ماں جیسی ضرور تھی ۔“ آدم نے کہا اور وہاں سے چلا گیا ۔ پھر وہ مسز مارتھا سے ملنے ان کے اسکول گیا، تو پتا چلا کہ وہ فالج کا شکار ہو کر ہسپتال میں داخل ہیں ۔ آدم بھاگتا ہوا ہسپتا ل پہنچا۔ ایک بیڈ پر اکیلی لیٹی وہ منتظر نظروں سے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھیں ۔ آدم کو دیکھتے ہی ان کی بجھتی ہوئی آنکھوں میں روشنی بڑھ گئی۔ آدم نے روتے ہوئے ان کی پاﺅں چھوئے، وہ بول نہیں سکتی تھیں اور نہ ہی اپنا سیدھا ہاتھ اٹھا سکتی تھیں ، مگر ان کا بایاں ہاتھ پوری حرکت کرتا تھا جس سے اشارہ کر کے انہوں نے آدم کو اپنے پاس بلایا اور اس کی چہرے پر محبت سے ہاتھ پھیرا اور لرزتے ہاتھوں سے اس کے آنسو صاف کیے۔ آدم نے کافی وقت وہاں گزارا اور جب ملاقات کا وقت ختم ہوا تو وہ وہاں سے اٹھ گیا، مگر اگلی صبح آنے کا وعدہ کرکے اور اگلی صبح جب وہ ان کے لیے پھول لے کر پہنچا، تو اسے پتا چلا کہ مسز مارتھا کی کل رات ہی موت واقع ہو گئی تھی۔ آدم روتے ہوئے قبرستان پہنچا اور پھول ان کی قبر پر رکھ کر واپس لوٹ آیا مگر کتنے ہی دن وہ اُداس پھرتا رہا۔ اس نے ابا کو خط لکھ کر بھی یہ اطلاع دی تھی، مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا تو وہ بہت پریشان ہوا اس نے اسکول کے نمبر پر کال کر کے خدابخش کے بارے میں پتا کیا، تو اس کے سر پر آسمان ٹوٹ پڑا۔



”خدا بخش کا ایک مہینے پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا۔“ آدم یہ سن کر دھاڑیں مار مار کر رویا، وہ اس کے سوا کر بھی کیا سکتا تھا۔ اسے کسی نے بتانا ضروری ہی نہیں سمجھا اور اسے بتاتا بھی کون؟ اس کا وہاں اور تھا ہی کون سوائے ابا کے۔ آگے پیچھے ہونے والی ان اموات نے اسے بہت خاموش اور گم صم سا کر دیا تھا ۔وہ پہلے ہی اپنے مذہب سے دور تھا۔ خدا بخش کے انتقال نے اسے اور بھی دور کر دیا۔ وہ دل ہی دل میں خدا سے خفا ہو کر آزادانہ روش پر چل نکلا۔ اس کی تعلیم مکمل ہوچکی تھی اور اسے ایک اچھی جاب بھی مل گئی۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ فلم میکینگ اور فیشن ڈیزائنگ میں تعلیم بھی حاصل کرنے لگا ۔ انکل جان کا خیال وہ اپنے باپ کی طرح رکھتا تھا۔ انکل جان بہت بوڑھے اور کمزور ہو گئے تھے ۔ ان کی ساری دیکھ بھال اب آدم کے ذمے تھی جسے وہ بہ خوبی نبھا رہا تھا ۔اس نے اپنی سیونگ سے انکل جان کے ساتھ شراکت داری کر لی اور وہاں سے ترقی کرتا رہا ۔ انکل جان اس کی ہر کامیابی پر بہت خوش ہوتے اپنے آخری دنوں میں انکل جان بار بار کہتے تھے کہ آدم نے ان کی اولاد سے بڑھ کر خدمت کی ہے ۔انہوں نے اپنے حصہ بھی اس کے نام کرنا چاہا مگر آدم نے منع کر دیا اور کہا کہ وہ اپنے حصے کو ویلفیئر کر دیں ۔ اسے اس کی ضرورت نہیں ہے اور بہت سے لوگوں کو اس کی ضرورت ہو گی ۔انکل جان کو اس کی تجویز بہت اچھی لگی اور اپنی زندگی ہی میں انہوں نے اپنا حصہ ایک ٹرسٹ کو دے دیا۔ آدم انکل جان کو اپنے ساتھ، لے گیا اور ان کی آخری سانس تک خدمت کی۔

آدم کے پاس دولت بھی تھی اور شہرت بھی۔ وہ اپنے سرکل میں جانا پہچانا جاتا تھا۔ اس کے پاس سب کچھ موجود تھا، مگر اس کے باوجود وہ ایک ان دیکھی آگ میں جلتا رہتا تھا۔ اعلیٰ سے اعلیٰ شراب کا نشہ بھی اسے مدہوش نہیں ہونے دیتا تھا کہ کہیں اس کا سچ کسی کے سامنے نہ آ جائے۔ وہ گرل فرینڈز بھی بناتا تھا اور ان کے ساتھ وقت بھی گزارتا تھا مگر ایک حد سے آگے کبھی نہیں گیا تھا۔ وہ اپنی دولت کو دونوں ہاتھوں سے ان پر لٹاتا تھا، ان کی ہر خواہش پوری کرتا تھا۔ اسی وجہ سے لڑکیاں اس سے دوستی کرنے کے لیے پاگل تھیں۔ ایک آزاد معاشرے میں رہتے ہوئے، اس کے لیے اپنی کمی سے لڑنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ اس کا نفس اسے مختلف راستے دکھانے لگا تھا۔ وہ شاید ان پر چل بھی پڑتا اگر اسے یہ خوف نہ ہوتا کہ وہ سب کے سامنے عیاں ہو جائے گا جس شخصیت کو بنانے اور سنوارنے میں اسے اتنے سال لگے، وہ اس طرح سب کے سامنے کمزور پڑ جائے، یہ اسے منظور نہیں تھا۔ ان دنوں اسے فلم بنانے کا جنون چڑھا اور اس نے مختلف لوگوں سے رابطے شروع کر دیے ۔ جب اس کی ملاقات شہرام سے ہوئی اور یوں اسے پاکستان آنے کا بہانہ مل گیا۔ پاکستان آنے کی دو وجوہ تھیں ، ایک خدا بخش کی قبر پر جانا اور دوسرا وہ نازک مزاج ، نک چڑھی لڑکی جسے اتنے سال گزرنے کے باوجود وہ نہیں بھولا تھا ۔ بھولتا بھی کیسے۔ وہ اس کی ذات تک پہنچنے کا پہلا حوالہ بنی تھی۔نہ وہ اسے ٹھکراتی اور نہ وہ اسکول سے نکالا جاتا اور نہ وہ یہاں تک پہنچتا۔

پاکستان آنا، اس کی اپنی دلی خواہش تھی جسے وہ شہرام کے کندھے پر رکھ پورا کر رہا تھا۔ یہاں آ کر اس نے سب سے پہلا کام جو کیا ، وہ خدا بخش کی قبر کو ڈھونڈنے کا تھا جو اسکول میں اسے پرانے لوگوں کی مدد سے مل گئی جو اس کے ساتھ کام کرتے تھے۔ خدا بخش کی قبر پر حاضری دینے کے بعد اس نے، اس کے گھر والوں کی تلاش شروع کر دی اور کافی تگ و دو کے بعد بالآخر انہیں ڈھونڈ ہی لیا۔ کلثوم ، پہلے تو اسے پہچا ن ہی نہیں سکی۔ اتنا شاندار شخص بھلا اس کا واقف کار کیسے ہو سکتا تھا۔وہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی تھی ۔ بچے اس کے نافرمان اور نکمے نکلے تھے ۔ کلثوم کو اس عمر میں لوگوں کے گھروں میں کام کرنا پڑتا تھا ۔ پھر بھی وہ اپنے دونوں بیٹوں اور ان کی بیویوں سے ذلیل ہوتی تھی۔ دونوں بڑی بیٹیاں شادی شدہ اور اپنے اپنے گھر بارکی تھیں مگر وہ بھی سسرال میں خوش نہیں تھیں۔ کلثوم کے ٹوٹے ہوئے دروازے کے سامنے جب وہ اپنی شاندار کار سے نیچے اترا ، تو محلے کے سب لوگ تجسس کے مارے اس کی گرد جمع ہونے لگے ۔

کلثوم کے گھر میں ایک افراتفری مچ گئی کہ اتنے شاندار مہمان کو کہاں بٹھائیں۔ آدم نے جب کلثوم سے اپنا تعارف کروایا، تو وہ حیرت سے دنگ رہ گئی اور پھر اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ آدم یہاں اسے شرمندہ کرنے نہیں آیا تھا۔ وہ صرف ابا کے بارے میں جاننے آیا تھا۔ کلثوم نے بتا یا کہ خدابخش آخری چند سالوں میں بہت بیمار رہنے لگا تھا ۔ وہ اکثر اس کے خط لے کر بیٹھا بار با رپڑھتا رہتا تھا ، حتیٰ کہ اس نے مرتے وقت یہ وصیت بھی کی تھی کہ ان خطوط کو اس کے ساتھ ہی دفنایا جائے۔وہ یہ کسی کے سپرد کر کے نہیں جانا چاہتا تھا۔خدابخش کے مرنے کے بعد ان کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے ۔اب کلثوم کو اپنی زیادتیوں کا احساس ہونے لگا تھا، مگر افسوس کہ وقت اس کے ہاتھ میں نہیں رہا تھا ۔ سرخ آنکھوں کے ساتھ ، جب آدم وہاں سے اٹھا، تو بہت دل گرفتہ تھا۔ ابا ہی وہ شخص تھا جس نے اسے زندگی دی ، چھوٹے سے چڑیا کے بوٹ جیسے بچے کو سرد و گرم راتوں میں سینے سے لگائے پھرتا تھا۔ اپنے جسم سے اس کے بدن کو حرارت پہنچاتا تھا۔ کیوں کہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کہ وہ اسے سرد و گرم لبا س دلا سکے۔ وہ اپنے منہ کے نوالے اس کے منہ میں ڈالتا تھا کہ وہ خود تو بھوک برداشت کر سکتا تھا مگر وہ ننھی سی جان بھوک کی شدت سے رونے لگتی تھی۔ آدم اس دن چیخیں ما ر مار کر رویا۔ اللہ سے ناراضی شدت اختیار کر چکی تھی۔اسے لگتا تھا کہ اس نے ہمیشہ ، اس سے سب چھینا ہی ہے ، اسے دیا کچھ بھی نہیں۔ آدم نے کلثوم کا وظیفہ مقرر کر دیا اور اس کے بیٹوں کو کریانے کی دکان کھول دی تاکہ وہ روزگار کما سکیں ۔ کلثوم اس احسان کے لیے، اس کی شکرمند تھی مگر آدم نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی۔

” میں یہ سب صرف ابا کے لیے کر رہا ہوں کیوں کہ وہ اگر آج زندہ ہوتے تو، یہی سب کرتے جو میں نے کیا ہے۔“

آدم کی بات نے کلثوم کو لاجواب کر دیا۔ شہرام کے ساتھ اس کا پروڈکشن ہاﺅس بہت کامیاب چل رہا تھا۔ انہوں نے جو مختلف تجربات کیے، انہیں بے حد سراہا گیا ۔ ان دنوں جب وہ اپنی نئی فلم کے لیے آڈیشن لے رہے تھے، ایک نئے اور خوبصورت چہرے نے اپنی اپنی جگہ دونوں کو حیران کر دیا تھا ۔شہرام فارینہ کے بے تحاشا حسن اور ذہانت سے متاثر ہوا تھا ۔ جب کہ آدم کا معاملہ ذرا ہٹ کر تھا ۔

فارینہ وہ لڑکی تھی جس نے اسے توڑ کر پھر سے بننے کی ہمت عطا کی تھی ۔وہ فارینہ کو پہلی ہی نظر میں پہچان گیا تھا ۔ اسے فارینہ کبھی نہیں بھولی تھی ، مگر فارینہ اسے فوراً نہیں پہچان سکی تھی۔ اسی لیے آدم کے دیکھنے سے وہ الجھن محسوس کر تی تھی ۔ آدم اسے کن انکھیوں سے دیکھتا رہتا تھا۔ پہلے پہل فارینہ اسے اپنا وہم سمجھنے لگی، اس کی نظریں عجیب طرح کی تھیں، کچھ کہتی ہوئیں اور کچھ سوال کرتی ہوئیں۔ بارہ ، تیرہ سال کا عرصہ کچھ کم ، تو کچھ زیادہ بھی نہیں تھا کہ وہ اسے نہ پہچان پاتی اور جب وہ اسے پہچان گئی تو حیرت سے دنگ رہ گئی۔

”تم !“ فارینہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، تو اس نے مُسکراتے ہوئے سر خم کیا تھا۔

” جی آپ کا خادم! ویسے داد دیتا ہوں تمہاری یادداشت کو۔بہت جلد پہچان گئی تم اپنے بچپن کے دوست کو۔“ آدم نے بظاہر مُسکراتے ہوئے کہا مگر اس کے لفظوں کی کاٹ فارینہ محسوس کر گئی تھی ۔

” شٹ اپ! تم نہ کل میرے دوست بننے کے قابل تھے اور نہ ہی آج میں تمہیں اس قابل سمجھتی ہوں۔ تمہارا یہ بہروپ دوسروں کے لیے متاثرکن ہو گا۔ میرے لیے نہیں۔“

فارینہ نے نخوت سے کہا ، تو آدم اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر مُسکراتا رہا۔

”اچھا تو تمہیں کیسے متاثر کیا جا سکتا ہے ۔“ آدم کا انداز تمسخرانہ لگا فارینہ کو ۔ اسی لیے وہ مزید تپ کر بولی ۔

”کم از کم اس زندگی میں تو تمہاری یہ خواہش پوری نہیں ہو گی ۔“

”ا چھا کوئی بات نہیں۔ تمہارے لیے اگلی زندگی تک بھی انتظار کر سکتا ہوں۔ “ آدم سنجیدگی سے کہتا اور فارینہ غصے میں پیڑ پٹختی وہاں سے چلی جاتی ۔ ان دونوں کے درمیان اکثر نوک جھوک رہنے لگی تھی۔ فارینہ نے اگر معاہدہ نہ کیا ہوتا تو وہ کب سے یہ فلم چھوڑ بھی چکی ہوتی مگر وہ فلم کا ا ٓدھا کام مکمل کر وا چکی تھی ۔ اسی دوران شہرام نے اسے ایک اور پر وجیکٹ کے لیے بھی سائن کر لیا۔ آدم سے لاکھ اختلاف سہی مگر وہ یہ بھی بہت اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔ اگر وہ آدم سے بگاڑ لیتی تو اسے اپنی سمت تبدیل کرنی پڑتی جس کے لیے وہ فی الحال تیار نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی کہ پاکستان فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہے اور آدم کا جرا ¿ت مندانہ قدم تازہ ہوا کی جھونکے کی طرح تھا۔ سب سے بڑی بات، آدم کی زیرسرپرستی بننے والی فلمیں انٹرنیشنل لیول پر ریلیز کی جاتی تھیں۔اسے آدم سے زیادہ ، اپنے امیج کی فکر تھی، اپنے کیرئیر کا خیال تھا، اسی لیے وہ آدم کو جتنا ہو سکتا تھا نظرانداز کرتی رہتی تھی مگر شاید آدم اس کی یہ کمزوری جان گیا تھا۔ اسی لیے وہ فارینہ کو زچ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا ۔ فارینہ پہلے تو ضبط کرتی رہتی ۔پھر وہ بھی چھوٹی سے چھوٹی بات پر برہم ہونے لگی ۔ شہرام کے سامنے یہ سب معمول کی بات بن گئی تھی ۔ وہ دونوں کے درمیان پل کا کام کرتا تھا ۔

فارینہ نے ایک دو بار نوٹ کیا کہ آدم ، اس کے لیے کچھ خاص احساسات رکھتا ہے ۔ جیسے وہ اس کا کسی کے ساتھ زیادہ فری ہونا یا دوستی کرنا برداشت نہیں کرتا تھا۔ حتیٰ کہ شہرام کے ساتھ بھی۔ بہت بار ایسا ہوا کہ فارینہ نے جان بوجھ کر شہرام کی بات کو اس کی بات پر فوقیت دی تو آدم غصے سے بھرا، وہاں سے اٹھ جاتا تھا۔ ایک بار اسی بات پر دونوں میں بحث ہو گئی ۔

” تمہیں اس سب سے مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ میں اپنی ذاتی زندگی میں کس سے تعلق رکھتی ہوں اور کس سے نہیں ۔“ ایک بار اس نے فیصل آفندی کے ساتھ فارینہ کو ہنس ہنس کر باتیں کرتا دیکھ لیا تھا۔ فیصل آفندی کی شہرت اچھی نہیں تھی ۔ یہ بات آدم کے ساتھ ساتھ باقی سب بھی بہت اچھی طرح جانتے تھے مگر فارینہ آدم کو جلانے کے لیے اس سے قریب ہونے کا ڈراما کرنے لگی جس پر ایک دن آدم نے اسے سختی سے منع کیا، تو وہ غصے سے بول پڑی تھی ۔

” مجھے مطلب ہے فارینہ! کیوں کہ میں …. “ آدم کہتے ہوئے رک گیا ۔ فارینہ نے تیکھی نگاہوں سے اسے دیکھا۔

” آگے کہنے کی جرا ¿ت نہیں ہے تم میں ۔“ اس نے چیلنج کیا تھا ۔ وہ آدم کی حالت سے لطف اٹھاتی تھی۔ اسے اچھا لگتا تھا کہ آدم اس کے پیچھے پاگل ہو۔

” جرا ¿ت کی بات مت کرو فارینہ ۔ میرے حوصلے چٹانوں کو مات دے سکتے ہیں ۔“ آدم نے مضبوط لہجے میں کہا، تو فارینہ سر جھٹک کر رہ گئی اور طنزیہ ہنستے ہوئے وہاں سے جانے کے لیے مُڑ گئی ۔ جب پیچھے سے آدم کی آواز آئی اور اس کے قدم بے ساختہ رک گئے ۔

”آدم ، فارینہ سے محبت کرتا ہے۔ تب سے جب اس نے پہلی بار اسے دیکھا تھا، تب سے جب اس نے پہلی بار محبت کا معنی سمجھا تھا۔ آدم کے لیے کائنات میں اگر کوئی وجود محبت کا استعارہ ہے، تو وہ وجود صرف تمہارا ہے فارینہ۔“

آدم کی سنجیدہ آواز پر فارینہ حیرت سے مڑی ، کچھ دیر تک اس کا چہرہ دیکھنے کے بعد وہ بے ساختہ کھلکھلا کر ہنسی اور ہنستی ہی چلی گئی۔آدم لب بھینچے اسے دیکھتا رہ گیا ۔ آج اسے ایک بات کی سمجھ آئے تھی کہ

” محبت کے اظہار کے سامنے ، محبت کامذاق بنایا جائے تو اس سے زیادہ بدصورت لمحہ کوئی نہیں ہوتا۔“ اور وہ سختی سے ہونٹ بھینچے اسے خود پر ، اپنی محبت پر ہنستا ہوا دیکھ رہا تھا ۔

” سوری مگر!“ فارینہ نے اپنی ہنسی روکنا چاہی لیکن ناکام رہی۔ پھر بہ مشکل وہ اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے بولی۔

” دراصل تم نے بات ہی اتنی مزاحیہ کر دی تھی کہ میری ہنسی نہیں رک رہی۔ تم خود ہی سوچو کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ ایک خواجہ سرا کو کسی سے محبت ہو جائے۔ او ہو سوری مجھے شاید تمہیں یہ نہیں کہنا چاہیے تھا، مگر تمہارا سچ تو یہی ہے نا۔جسے تم چھپانے کی کوشش کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہوئے ہو مگر تم ایک جگہ غلطی کر گئے ۔“ فارینہ ایک دم ہی سنجیدہ ہوئی۔جب کہ آدم کا رنگ فق ہو چکا تھا ۔ فارینہ کے منہ سے اپنے لیے یہ سچ سننا ، اس کے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔

” تمہارے جیسے لوگوں کو میں خیرات تو دے سکتی ہوں مگر اپنا دل نہیں۔ فارنیہ ہاشم پر ابھی اتنا برا وقت نہیں آیا کہ وہ ایک خواجہ سرا کی محبت میں مبتلا ہو گی۔“ فارینہ نے نفرت سے کہا اور حقارت بھری نگاہ اس پر ڈال کر وہاں سے چلی گئی۔ جب کہ آدم نے بے اختیار سر اٹھا کر اوپر والے سے شکوہ کیا۔

” پھر میرے دل میں کیوں ، اس عورت کی محبت ڈالی جو مجھے سب سے کمتر سمجھتی ہے۔ بنانے والے تُو نے خواجہ سراﺅں کے سینے میں دل کیوں بنایا۔ اگر بنایا تھا تو اس کی پرواز، اس کی خواہش محدود کیوں نہیں رکھی۔ “وہ پھر اس سے ناراض ہوا اور بہت شدید۔

آدم کا حال ، فارینہ کے سامنے مجنوں کی طرح ہو گیا تھا، وہ صرف اس کی ایک نظر ، ایک میٹھے لفظ کے لیے اس کے آگے پیچھے پھرتا ، مگر وہ تھی کہ پتھر کی مورت بنی رہتی۔ اس دن ریسٹورنٹ میں جب شہرام نے انہیں ایک نئے پروجیکٹ کے لیے بلایا اور خود لیٹ ہو گیا۔ تب بھی فارینہ اور آدم کے درمیان یہ بحث چھڑ گئی تھی جسے اٹھانے میں زیادہ ہاتھ اس کا اپنا ہوتا تھا۔ اسی ضد میں، اس نے شہرام کے پرپوزل پر آدم کے سامنے ہاں کرتے ہوئے جلد شادی کی شرط رکھی۔ یہ سنتے ہی آدم شدید ذہنی اور دلی دھچکے کا شکار ہوا تھا ۔ فارینہ یہی تو چاہتی تھی ۔ وہ سمجھتی تھی کہ آدم اس سے بدلہ لینے کے لیے کسی بھی حد تک چلا جائے گا۔ شہرام کے ساتھ ہونے والا حادثہ اور پھر اس کا اغوا اسی سلسلے کی کڑی لگی۔ فارینہ کے اغوا نے اسے بھی شدید دھچکا پہنچایا تھا۔ اس نے اپنے خفیہ ذرائع سےجو لوکیشن، معلو م کی تھی وہ ایک کچی بستی کی تھی۔ اس دن جب وہ وہاں پہنچا، تو اس کی ملاقات اسی لال رنگ کے کپڑے والے ملنگ سے ہوئی جو اسے مختلف مواقع پر ملتا رہا تھا ۔آدم کو اپنی بستی میں دیکھ کر وہ مُسکرا کر بولا۔

” دیکھ لے ! اب ہم نہیں ، تُو ہمارے پاس آیا ہے ۔“ آدم ذہنی طور پر بہت تھک چکا تھا ۔ اس نے کچھ دیر ملنگ کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتے ہوئے گزاری ۔ آدم نے جب ان سے پوچھا کہ وہ ایک لڑکی کی تلاش میں یہاں آیا ہے ، جسے یہاں ہی کسی گھر میں رکھا گیا ہے، کیا وہ اس سلسلے میں اس کی کوئی مدد کر سکتے ہیں ؟ ملنگ بابا نے اثبات میں سر ہلا یا اور کچھ دیر بعد ہی بستی میں پھرنے والے بچوں نے ایک گھر کی نشاندہی کی جس کا دروازہ ہمیشہ بند رہتا ہے، مگر اکثر وہاں سے کسی کے رونے اور چیخنے کی آوازیں آتی ہیں۔ آدم جو یہ سنتے ہی اکیلا ہی اسے بچانے چلا تھا، ملنگ بابا کے منع کرنے پر رک گیا ۔ ملنگ بابا نے اپنی بستی کے کچھ لوگوں کو ساتھ لیا اور وہاں کے لوگوں سے بات کی وہ بھی اس گھر کے بارے میں مشکوک تھے اور لڑکی کے اغوا کا سنتے ہی ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑے وہاں پہنچ گئے۔ اس دوران آدم نے فون پر شہرام کو مطلع کر دیا کہ وہ جلد از جلد پولیس لے کر پہنچ جائے۔ پھر تھوڑی سی مزاحمت اور تلاشی کے بعد فارینہ انہیں مل گئی ۔ ملنگ بابا کی بستی کے لوگ پاﺅں میں بڑے بڑے گھنگھرو پہنتے تھے جن کی چھن چھن کی آواز دور سے آتی۔ فارینہ نے آدم کو دیکھتے ہی جس ردعمل کا مظاہرہ کیا ۔ وہ آدم کے ساتھ ساتھ سب کے لیے حیران کن تھا۔ وہ وہاں سے غصے سے نکلا، تو اسی ملنگ نے اس کا راستہ روکا تھا۔

” یہ ہے تیری ساری دنیا جس کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو رہا ہے تُو۔“ ملنگ نے پوچھا، تو آدم کوئی جواب دیے بغیر وہاں سے چلا آیا۔ وہ زیادہ تر ملک سے باہر رہنے لگا تاکہ فارینہ سے سامنا کم کم ہو اور وہ اسے بھول سکے ۔وہ بہت بے دلی سے یہاں سے وائنڈ اپ کر رہا تھا ۔ لاحاصل کی تمنا نے اسے تھکا دیا تھا ۔ ان دنوں وہ پاکستان میں ہی موجود تھا اور اس دن فارم ہاﺅس پر ہونے والی پارٹی میں وہ بھی شامل تھا ۔ وہ فارینہ کی آمد سے قطعی لاعلم تھا۔ وہ پارٹی میں بہت دیر سے پہنچا اور کافی دور سے سفر کر کے آیا تھا اسی لیے وہ گیسٹ روم میں تیار ہونے کے لیے چلا گیا اور جب وہ اپنے کمرے سے نکل رہا تھا، اچانک اس کی نظر فیصل آفندی پر پڑی جو بہت پراسرار انداز میں ایک کمرے کا دروازہ کھول کر اندر جا رہا تھا۔ آدم فوراً اپنے کمرے میں گیا اور اپنے سامان میں موجود ماسٹر کی نکال کر دبے قدموں سے چلتا اس کمرے کے دروازے تک پہنچا۔ اسے کسی گڑ بڑ کا احساس ہو رہا تھا۔ شہرام کے ساتھ ہونے والے حادثے میں بھی، اسے فیصل پر شک تھا، مگر اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا اور آج اسے بہتر موقع ملا تھا۔ اسے رنگنے ہاتھوں پکڑنے کا ۔ آدم نے بغیر آواز کیے کمرے کا دروازہ کھولا ۔ فیصل اسے سامنے ہی نظر آگیا۔ اس کی پشت دروازے کی طرف تھی۔ آدم نے ذرا اور آگے ہو کر دیکھا، تو غصے کی شدید لہر اس کے اندر اٹھی تھی۔ وہ موبائل سے تصاویر لے رہا تھا، مگر کس کی یہ آدم کو نہیں پتا تھا ۔ وہ پردے کے پیچھے چھپ کر کھڑا ہو گیا ۔ جب اس نے فیصل کو سامنے بیڈ پر مطمئن انداز میں لیٹتے ہوئے دیکھا ۔ تھوڑی دیر بعد واش روم کا دروازہ کھلا اور کوئی باہر نکلا۔ فیصل کو کمرے میں دیکھتے ہی جب وہ چلائی تو آدم اپنی جگہ ساکت رہ گیا۔ وہ فارینہ کی آواز تھی جسے وہ بہری ہوتی سماعتوں کے ساتھ بھی پہچان سکتا تھا۔ اس کی اندر لاوا ابلنے لگا۔ فیصل کی حرکت کے بارے میں سوچ کر ۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر چھوٹا سے وائس ریکارڈر نکالا اور فیصل کی گفتگو ریکارڈ کرنے لگا ۔جب فیصل نے فارینہ کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش کی تو وہ اس پر جھپٹ پڑا۔ اگر اور لوگ اسے بچانے نہ آ تے، توشاید وہ اسے جان ہی سے مار دیتا ۔ اس دوران وہ اس کا موبائل چھپانا نہیں بھولا تھا۔ پھر پولیس آئی اور اسے تھانے لے گئی ۔ جہاں سے فارینہ کے باپ اور شہرام کی مداخلت نے اسے وقتی طو رپر جیل جانے سے بچا لیا۔ اس کے لیے اتنا موقع ہی بہت تھا ۔ اس موبائل کو ضائع کرنے کے لیے !فیصل آفندی بھی معمو لی شخص نہیں تھا اسے بھی بہت سے لوگوں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ آدم نے ، فارینہ کی خاطر، ان سب سے جان بوجھ کر لڑائی لی تھی ۔ وہ سب فارینہ کو تو بھول گئے مگر ان کا اصل ہدف اب آدم بن گیا تھا۔ فیصل آفندی کے ساتھ قانونی لڑائی ، لڑنے کے دوران آدم نے اپنا سب کچھ داﺅ پر لگا دیا۔ اس کا کیرئیر ، اس کی شناخت، اس کا معاشرے میں اعلیٰ مقام تک۔ وہ اگر چاہتا تو شاید ان سب سے بہت آرام سے باہر نکل بھی سکتا تھا مگر نہ جانے کیوں وہ اس لڑائی کو طول دے رہا تھا ۔ اسی دوران ، فیصل آفندی پر حملہ کرنے اور اسے شدید زخمی کرنے کی وجہ سے اسے کچھ مہینوں کے لیے جیل بھی جانا پڑا۔ حالاں کہ اس کے وکیل نے کہا بھی تھا کہ اگر وہ اس کیس میں فارینہ کا نام لے لے کہ اس نے فارینہ کی عزت بچانے کے لیے فیصل پر حملہ کیا تھا، تو وہ بہت آسانی سے بچ جائے گا، مگر آدم نے اس بات سے صاف انکار کر دیا۔

”اس کی عزت پر کوئی حرف بھی آئے ، یہ میں برادشت نہیں کر سکتا۔ “ آدم اطمینان سے کہتا۔ مرتضیٰ ہاشم اور شہرام اس کے کیس کی پیروی کر رہے تھے۔ وہ آدم کی ثابت قدمی سے بہت متاثر تھے۔ پھر بالآخر کیس کا فیصلہ آدم کے حق میں ہوا اور فیصل آفندی پر فردِ جرم عائد کر کے اسے جیل بھیج دیا گیا ۔

” او بھائی! کیا سو گئے ہو ۔ اٹھو اسٹیشن آگیا ہے۔ “کسی نے اس کا کندھا ہلایا ، تو وہ چونک کر ماضی سے حال میں لوٹا۔ اسے پتا ہی نہیں چلا اور سفر کٹ بھی گیا تھا ۔

” کاش سارے سفر ایسے ہی ہوتے ۔ پل بھر میں طے ہونے والے۔ بند آنکھوں سے بھی طے ہو جانے والے۔“ اس نے چادرکو اپنے گرد اچھی طرح لپیٹا اور تھکے ہوئے قدموں سے ٹرین سے اتر گیا۔

٭….٭….٭



” اس حادثے کے بعد فارینہ بالکل بدل گئی تھی اور تو اور ان دنوں آدم نے اپنے سب کام چھوڑ دیے تھے۔ وہ پاکستان سے بہت جلد جانے والا تھا ۔ مجھے وہ بتا چکا تھا۔ ان دنوں وہ کہاں غائب رہتا تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا ۔ اسی طرح کچھ مہینے چلتا رہا ۔ پھر آدم ایک دم ہی منظر سے غائب ہو گیا۔ مجھے ملنے والی آخری اطلاع کے مطابق وہ واپس امریکا جا چکا تھا ، مگر وہ مجھ سے مل کر نہیں گیا اور نہ ہی اپنا نیا پتا چھوڑ کر گیا تھا۔ جاتے جاتے وہ یہاں کے لوگوں سے سب رابطے اور واسطے ختم کر گیا تھا۔ میں نے کچھ عرصہ کوشش کی اسے تلاش کرنے کی مگر پھر فارینہ کی اچانک لندن جانے کے پروگرام نے مجھے پریشان کر دیا۔ میں اسے روکنے کی کوشش کرنا چاہتا تھا مگر اس کے والد کا کہنا تھا کہ وہ ان دنوں شدید ذہنی دباﺅ کا شکا ر ہے، اسے کچھ وقت کے لیے بریک چاہیے۔ اس لیے اسے کچھ مت کہو، اسے جانے دو۔میں نہیں جانتا تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے مجھے چھوڑ کر ایسے جائے گی کہ دوبارہ کبھی پلٹ کر ہی نہیں دیکھے گی۔ اسے ڈھونڈتے، اس کا پتا تلاش کرتے میں تھک گیا ہوں۔ مرتضیٰ انکل بھی اکثر ملک سے باہر ہوتے ہیں یا شاید وہ جان بوجھ کر میرا سامنا نہیں کرنا چاہتے۔“

شہرام نے ماضی کے دریچے بند کیے۔ زویا نے اس کے اُداس چہرے کی طرف دیکھا اور بولی۔

” شہرام کیا تمہیں نہیں لگتا کہ ایڈم اور فارینہ کے درمیان کوئی خاص تعلق یا کنکشن ہمیشہ سے رہا ہے ۔ مجھے حیرت تو اس بات پر ہورہی ہے کہ جو بات میں نے اتنی دور سے سن کر جان لی، وہ تم ان کے ساتھ رہتے ہوئے نہیں جان سکے ۔“

زویا نے کہا، تو شہرام بے ساختہ ہنس پڑا۔

” بیوٹی ود برین۔“( حسن اور ذہانت ایک ساتھ)

ہاں تم نے ٹھیک کہا۔ یہ بات مجھے تب نہیں سمجھ آئی تھی، مگر اب میں پوری جزئیات کے ساتھ، ان کے درمیان موجود فریکوینسی کو محسوس کر رہا ہوں ۔شاید یہی وجہ ہے دونوں کی گمنامی کی۔“

شہرام نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔

” دونوں نہیں ! صرف ایڈم۔ فارینہ یہاں کہیں ہی ہے، شاید کسی مینٹل ہاسپیٹل یا میں کچھ کہہ نہیں سکتی ۔ یہ سچ انکل مرتضیٰ ہی ہمیں بتا سکتے ہیں۔“

زویا نے پورے اعتماد سے کہا، تو شہرام بری طرح چونکا۔

” کیا مطلب ہے تمہارا….“

” انکل مرتضیٰ اور میرے بابا ۔ بہت پرانے اور قریبی دوست ہیں اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، وہ اپنی بیٹی کے سلسلے میں عانیہ سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔ تمہاری پہلے ان سے ملاقات نہیں ہو سکی کیوںکہ وہ ملک سے باہر گئے ہوئے تھے۔ عانیہ کی شادی پر بھی اسی لیے نہیں آئے تھے، مگر اب وہ یہاں ہی ہیں، لیکن آئی تھنک ہمیں انکل سے ملنے سے پہلے ، عانیہ سے تفصیل لے لینی چاہیے۔“ زویا نے کہا، تو شہرام کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا۔ اسے یاد آیا کہ اس دن ، اس نے کر نل ثقلین کیانی کے ساتھ ، ڈرائنگ روم میں کسی کی جھلک دیکھی تھی۔ وہ مرتضیٰ ہاشم تھے، مگر اس نے اس دن زیادہ غور نہیں کیا۔ اسی لیے انہیں پہچان نہیں پایا تھا۔ زو یا نے عانیہ کو فون کیا، تو وہ اپنے کلینک میں موجود تھی۔ اس نے اسے وہاں اپنا انتظار کرنے اور رکنے کے لیے کہا۔ عانیہ بہت حیران ہوئی مگر اس نے کچھ کہا نہیں۔ تھوڑی دیر بعد زویا اور شہرام کو ایک ساتھ آتا دیکھ کر وہ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ خوش بھی ہوئی مگر جب شہرام نے اسے اپنا موبائل آن کر کے ایک تصویر دکھائی تو وہ چونک گئی۔

” فارینہ ہاشم ۔“

” میں اس کے بارے میں سب جاننا چاہتا ہوں ۔پلیز منع مت کرنا، میری محبت کا سوال ہے۔“ شہرام نے کہا، تو عانیہ نے بے ساختہ زویا کی طرف دیکھا جس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اپنی نم ہوتی آنکھوں کو چھپایا تھا۔ عانیہ گہری سانس لیتے ہوئے شہرام کی طرف متوجہ ہوئی۔

”فارینہ کا کیس جب میرے پاس آیا ، اس کی ذہنی حالت بہت خراب تھی۔ انکل مرتضیٰ کے کہنے کے مطابق وہ کچھ عرصہ لندن میں اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزار کر بھی آئی تھی مگر وہاں جا کر بھی وہ اپنے ذہنی دباﺅ سے چھٹکارا نہیں پا سکی۔ وہ ڈپریشن کی خطرناک اسٹیج پر پہنچ چکی تھی۔ میں نے اس کا علاج کرنے کی پوری کوشش کی مگر وہ بہت ضدی اور موڈی لڑکی تھی۔ اس کا ذہن ایک جگہ پر جیسے رک سا گیا تھا۔ وہ کسی پچھتاوے کے زیر اثر کبھی تو اونچا اونچا رونے لگتی اور کبھی بالکل گم صم ہو جاتی۔ حتیٰ کہ اس پر میڈیسن بھی اثر نہیں کر رہی تھی۔ اس کے ساتھ اصل مسئلہ کیا تھا ، یہ مجھے نہیں پتا اور نہ انکل نے مجھے بتایا۔ اسی لیے مجھے یہی مناسب لگا کہ میں انہیں بگڑتی صورت حال سے آگاہ کر دوں کہ ”اگر مزید کچھ عرصہ، فارینہ کی حالت ایسی رہی تو یہ مکمل طور پر پاگل بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس کے مسئلے سے آگاہی حاصل کر کے اسے حل کیا جائے۔“

بس اس دن کے بعد مجھے فارینہ کے بارے میں کچھ علم نہیں اور نہ ہی انکل نے دوبارہ کبھی اس کا ذکر کیا۔ میرے پوچھنے کے باوجود بھی ۔ وہ یہی کہہ دیتے ہیں کہ ” وہ جہاں بھی ہے بہت خوش اور مطمئن ہے ۔“

عانیہ نے یہ کہتے ہوئے بات ختم کی۔شہرام گم صم سا بیٹھا رہا۔

“ فارینہ اسی شہر میں تھی ۔وہ ذہنی مسئلے کا شکار رہی ، اتنا عرصہ علاج کرواتی رہی اور مجھے خبر ہی نہیں ہو سکی اور میں دعویٰ کرتا رہا اس سے محبت کا۔“

شہرام کے لہجے میں پچھتاوا تھا اور وہ تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھا ۔

” چلو مجھے انکل مرتضیٰ سے ملنا ہے ابھی ۔“وہ زویا سے کہتا ہوا دروازے کی طرف بڑھا ۔ زویا اس کے پیچھے پیچھے تھی ۔ وہ جب مرتضیٰ ہاشم کے گھر پہنچے تو رات کے نو بج چکے تھے ۔ وہ تھکے ہارے کہیں سے گھر لوٹے ہی تھے، جب ملازم نے زویا کے آنے کی اطلاع دی وہ بہت حیران ہوئے ، مگر اسے فوراً اندر بلا لیا ۔ زویا کے ساتھ آنے والی شخصیت کو دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

” شہرام تم ….“ ان کا لہجہ حیران کن نہیں تھا بلکہ ایسا تھا جیسے وہ کسی سے بھاگتے بھاگتے بالآخر اس کے سامنے آ کھڑے ہوئے ہوں۔

” میں آپ سے یہ نہیں پوچھنے آیا کہ آپ نے اتنا عرصہ مجھ سے سچ کیوں چھپائے رکھا۔ میں صرف یہ پوچھنے آیا ہوں کہ فارینہ کہاں ہے؟

شہرام نے ان کے سامنے کھڑے ہوئے عاجزی سے سوال کیا ۔ وہ ایک نظر اسے دیکھ کر رہ گئے۔

” آﺅ بیٹھو! میں بھی اکیلے یہ بوجھ اٹھاتا اٹھاتا تھک سا گیا ہوں۔“ مرتضیٰ ہاشم نے کہا اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے گویا ہوئے ۔

٭….٭….٭

آدم کے کیس کی سماعت چلتی رہی۔ فارینہ کو لمحہ بہ لمحہ سب رپورٹس مل رہی تھیں ۔ آدم کے وکیل نے فارینہ کو بتایا کہ وہ اپنے کیس میں اس کا نام نہیں لینا چاہتا۔ وہ نہیں چاہتا کہ فارینہ سب کی نگاہوں کا مر کز بنے۔ فارینہ ، آدم کے رویے پر بہت حیران تھی، آدم کے ساتھ وہ جتنا برا اور تحقیر آمیز رویہ رکھ چکی تھی، آدم اگر چاہتا، تو اس سے گن گن کر بدلے لے سکتا تھا ۔ وہ جو ہر قدم پر ، اس کی عزتِ نفس کو مجروح کرتی آئی تھی ، اس کا مذاق اُڑاتی آئی تھی۔ آدم نے اس سے کسی بات کا بدلہ نہیں لیا تھا ۔ فارینہ دیکھتی رہی اور آدم نے اپنا سب کچھ داﺅ پر لگا دیا۔ پھر فارینہ نے سنا کہ وہ بہت جلد ملک چھوڑ کر جا رہا ہے ۔فارینہ اس سے ملنے گئی ۔ پہلی بار اور پہلی بار ہی آدم نے اس کے آنے کا نوٹس نہیں لیا۔

”کیا تمہارا جانا ضروری ہے۔“ فارینہ نے پوچھا، تو آدم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ جس کی آنکھوں میں آج اس کے لیے حقارت نہیں تھی۔ فارینہ پہلی بار اس کے اپارٹمنٹ آئی تھی ۔ آدم نے خوش گوار حیرت سے اسے خوش آمدید کہا۔

”ضروری تو کچھ نہیں ہوتا فارینہ ۔“ آدم کا لہجہ سادہ تھا۔

” اچھا پھر مت جاﺅ۔“ فارینہ نے جلدی سے کہا ۔

” رک کر کیا کروں گا ۔“ آدم کا لہجہ اُداس تھا۔

” اس محبت کے لیے رک جاﺅ ، جو تمہیں مجھ سے ہے ۔“ فارینہ نے ایک دم سے کہا، تو آدم کتنی ہی دیر خاموش بیٹھا رہ گیا ۔

” فارینہ ! کاش تم نے پہلے کبھی میری بات غور سے سن لی ہوتی۔ میں تب بھی تم سے کچھ زیادہ کی تمنا نہیں رکھتا تھا اور آج تو بالکل بھی نہیں۔

فارینہ! تم نے کبھی کسی بچے کو چاند کے لیے ضد کرتے دیکھا ہے ، بس میری ضد بھی اتنی سی تھی کہ وہ چاند کچھ دیر کے لیے ہی سہی، میری کھڑکی پر بھی روشن رہے۔ بس ، چاند کو پانے اور چھونے کی تمنا، مجھے فنا کے راستے سے گزر کر ملے گی اور ایک محبت کے لیے کون فنا کا سفر طے کرے۔“آدم نے کھوکھلی ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔

” میں تیار ہوں، تمہارے لیے فنا ہو نے کے لیے ! تم ایک بار کہو تو سہی۔“ فارینہ کا انداز جنونی تھا ۔ آدم نے نفی میں سر ہلایا۔

” فارینہ !ایک نقطہ تھا محبت جس پر ہمیں ایک ہونا تھا، اکٹھے ہونا تھا، مگر افسوس وہ نقطہ ایسے ہی گزر گیا ہے۔ اب بس دور دور تک خلا اور سناٹا ہے، ہو کا عالم ہے، واپس پلٹ جاﺅ۔ کچھ نہیں میرے پاس۔ جاﺅ یہاں سے ۔“ آدم نے سختی سے کہا، تو فارینہ صدمے سے گنگ رہ گئی۔ اسے آدم سے اس رویے کی امید نہیں تھی ۔ وہ روتی ہوئی پلٹ آئی مگر کسی پل چین نہ پاتے ہوئے پھر اس کے در پر پہنچی تو اس پر قیامت ٹوٹی ۔آدم وہ اپارٹمنٹ بیچ کر جا چکا تھا ۔ اس کا اس طرح اچانک چلے جانا سب کے لیے حیران کن تھا، مگر فارینہ جانتی تھی کہ وہ صرف اس سے بچنے کے لیے چلا گیا ہے، مگر وہ دونوں ہی نہیں جانتے تھے کہ فاصلے ، محبت کے لیے اکسیر ہوتے ہیں ۔

فارینہ نے کچھ عرصہ لند ن میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بھی گزارا، مگر اسے کسی پل چین نہ ملا ۔ وہ اسی طرح بے چین و بے کل رہی ۔ آدم کے سچ سے وہ اچھی طرح واقف تھی۔ دونوں کے درمیان صدیوں کا فاصلہ اور دوری تھی۔ پھربھی وہ اپنے دل کے آگے ہارتی جا رہی تھی ۔ زندگی میں بہترین چاہنے اور مانگنے والی کا دل کہاں آ کر اٹکا تھا۔ پہلے پہل وہ یہ سمجھتی رہی کہ وہ پچھتاوے کا شکا ر ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوئی ہے، مگر گزرتے ہرلمحے نے اسے بتایا کہ آدم نے اپنی محبت سے اس کا دل جیت لیا ہے ، مگر پھر اس سے آگے کیا ؟

آدم سے محبت کے باوجود بھی وہ اس کی زندگی میں شامل نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ سراب تھا ، بس سراب۔

وہ اپنی دلیلوں سے بہلتی تھی، مگر اسے بھول نہیں پاتی تھی ۔ اسی ذہنی کشمکش میں وہ ذہنی تناﺅ کا شکا ر ہو گئی اور پاکستان لوٹ آئی مگر بہت خاموشی سے۔ یہاں آکر اس کی حالت اور بگڑنے لگی۔ وہ دیوانی ہوگئی تھی ۔ اپنے حال سے بے خبر اور ہر وقت گم صم سی رہنے والی فارینہ نے مرتضیٰ ہاشم کوپریشان کر دیا تھا۔ عانیہ سے علاج کروانے کے باوجود اس کی حالت سنبھلنے میں نہیں آ رہی تھی ۔عانیہ کے وارن کرنے پر ان کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے اور وہ ایک دن فارینہ کے سامنے بے بسی سے رو پڑے۔

”کیوں اپنی باپ کو ستا رہی ہو۔ جانتی ہو نا کہ میں تمہیں اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔ مجھے بتاﺅ تمہیں کیا چاہیے ! میں ساری دنیا سے لڑ کر بھی تمہیں لا کر دوں گا۔ مگر خدا کا واسطہ ہے خود کو سنبھالو فارینہ! میں تمہیں کھونے کا حوصلہ کہاں سے لاﺅں۔“

” اور میں اسے نہیں کھو سکتی ! مجھے وہ لا دیں ڈیڈ۔ مجھے آدم چاہیے ڈیڈ ۔ مجھے آدم چاہیے پلیز۔ اسے کہو کہ لوٹ آئے نہیں تو میں مر جاﺅں گی۔“ فارینہ چلا چلا کر رونے لگی ۔ مرتضیٰ ہاشم حیرت سے اسے دیکھتے رہ گئے ۔

”مگر تم تو شہرام سے محبت۔“ ان کے منہ سے لفظ ٹوٹ کر نکلنے لگے۔

” نہیں کرتی میں کسی سے محبت! وہ نظر نہیںآتا، تو کچھ بھی نظر نہیں آتا ڈیڈ۔کوئی بھی دل کو نہیں بھاتا۔ میں کتنی بھی کوشش کر لوں ، مگر وہ نہیں بھولتا۔ مجھے بتائیں میں کیا کروں ۔“ فارینہ نے بے بسی سے روتے ہوئے کہا ۔ مرتضیٰ ہاشم نے اسے گلے لگا لیا۔

” مت رو میری بچی ! میرا وعدہ ہے میں تمہیں ، آدم سے ضرور ملواﺅں گا۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے ۔“ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ اس سے کیا وعدہ کر رہے ہیں ۔

” آپ سچ کہہ رہے ہیں نا! چاہے کچھ بھی ہو ۔ آپ مجھے روکیں گے نہیں۔ اگر آپ اپنی زبان سے پھرے، تو میں خود کوہی ختم کر لوں گی۔“ فارینہ کے کہنے پر وہ دل تھام کر رہ گئے ۔

” ایسا مت کہو! تم مرنے کی بات کرتی ہو اور جان میری نکلنے لگتی ہے ۔“ ان کے لہجے میں خوف تھا ۔ فارینہ نے خاموشی سے باپ کے سینے پر سر رکھ دیا ۔

” مجھے معاف کر دیں، مگر میں مجبور ہوں ڈیڈ۔“ دل ہی دل میں وہ ان سے مخاطب ہوئی تھی۔ پھر مرتضیٰ ہاشم نے آدم کی تلاش میں ہر ذریعہ استعمال کیا ، مگر وہ اُس تک نہیں پہنچ سکے ۔ اس دوران فارینہ بیمار ہو کے بستر سے لگ گئی اور دنوں میں سوکھ کر کانٹا ہو گئی۔ ساری ساری رات دیوانوں کی طرح پھرتی اور خود سے باتیں کرتی رہتی تھی۔ کبھی خود ہی ہنس پڑتی اور کبھی رو پڑتی۔ کبھی کبھی مرتضیٰ ہاشم خوف زد ہ ہوجاتے کہ عانیہ کی پیش گوئی حقیقت کا روپ دھارنے لگی ہے اور فارینہ مکمل پاگل ہو جائے گی۔ انہوں نے آدم کی تلاش تیز سے تیز تر کر دی۔ تب ہی انہیں کچھ عجیب و غریب اطلاع ملی کہ وہ جس کی تلاش میں امریکا کی خاک چھان رہے تھے، وہ اسی ملک کے کسی چھوٹے سے شہر میں موجود تھا۔ باقی کی تفصیلات اور بھی زیادہ حیران کن تھیں۔وہ شخص ، دولت جس کے گھر کی باندی تھی، جس کی شخصیت اور دیدہ زیب لبا س کے چرچے تھے، جو فیشن اور اسٹائل میں لوگوں کا آئیڈیل تھا ۔وہ یکسر بدلے ہوئے حلیے میں، خدمتِ خلق میں مصروف ہے۔

مرتضیٰ ہاشم کو یہ کہانی بہت پراسرار اور غیر معمولی لگی۔ انہوں نے فارینہ کو اس بارے میں بتایا، تو وہ خوشی سے کھل اُٹھی ۔ جب مرتضیٰ ہاشم نے کہا کہ وہ اسے آدم سے ملوا نے لے جائیں گے تو فارینہ نے انکار کر دیا ۔

” آپ کے ملوانے سے وہ نہیں ملے گا۔ اس کے لیے مجھے خود جانا پڑے گا۔ جوگن بننا پڑے گا۔ وہ مجھ سے راضی ہو گا، تو مجھ سے ملے گا نا۔“ مرتضیٰ ہاشم اس کی بات کا مطلب نہیں سمجھے، مگر جب تین دن بعد فارینہ اچانک گھر سے غائب ہو گئی تو انہوں نے عقل کے گھوڑے دوڑائے اور فورا ً اس کی پیچھے وہاں پہنچے تھے ، مگر فارینہ نے انہیں یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ

” آپ اپنا وعدہ نبھائیں ، نہیں تو مجھے مرنے کی اجازت دیں۔“ مرتضیٰ ہاشم کانپ کر رہ گئے۔ وہ کتنی آسانی سے باپ کو بلیک میل کر رہی تھی ۔ وہ جانتی تھی کہ وہ باپ کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔

” ٹھیک ہے اگر تم ایسا ہی چاہتی ہو تو جو دل میں آئے کر لو مگرایک بات یاد رکھنا فارینہ۔ تم بیٹی ہو کر اپنے باپ کو چھوڑ سکتی ہو ، مگر میں ایک باپ ہو کر تمہیں اس طرح نہیں چھوڑ سکتا ۔خدا کی قسم مجھے تمہاری حالت کا اندازہ نہ ہوتا تو میں کبھی بھی تمہیں یہاں نہ چھوڑتا۔ تم نے ایک باپ کا محبت بھرا دل دکھا کر اچھا نہیں کیا۔“ مرتضیٰ کی آنکھوں میں نمی تھی ۔ فارینہ باپ کے سینے سے لگ گئی۔



” مجھے معاف کردیں! میں اچھی بیٹی نہیں ہوں نا۔“ فارینہ نے پوچھا تو مرتضیٰ ہاشم اس کی پیشانی چومتے ہوئے بولے۔

” جیسی بھی ہو ! مجھے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہو۔“مرتضیٰ ہاشم وہاں سے پلٹ تو آئے مگر اس کی طرف سے غافل نہیں ہوئے تھے۔ ایک بار انہوں نے فارینہ سے کہا تھا ” باہر کی دنیا عورت کے لیے تب تک محفوظ ہے جب تک وہ کسی اپنے کی پناہ میں ہے۔“ اس بات کو تقریباً دوسال ہونے والے تھے ۔آج بھی وہ وہاں سے ملنے والی اچانک خبر کی وجہ سے گئے تھے اور جب گھر واپس لوٹے تو ایک اور نئی صورت حال ان کی منتظر تھی۔ شہرام اور زویا یہ سن کر کتنی ہی دیر خاموش رہے۔ پھرشہرام اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا ۔

” کہاں جا رہے ہو؟“ زویا نے بے چینی سے پوچھا ۔

” باقی کا سچ جاننے کے لیے! اگر وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے تو پھر مجھے دھوکا کیوں دیا۔ ایک نے دوست بن کر لوٹا اور ایک نے محبو ب بن کر۔ مجھے بھی اپنے حصے کا حساب لینا ہے ۔“ شہرام نے سنجیدگی سے کہا اور بیرونی دروازے سے باہر نکلا تو زویا نے پیچھے سے آواز دی۔

” ہم تمہارے لیے دعا کریں گے۔“ شہرام نے پلٹ کر حیرت سے اسے دیکھا جو دروازے میں فریم کی طرح استادہ تھی۔

” کیا تم میرے ساتھ نہیں چلو گی؟“ شہرام نے پوچھا، تو زویا نے نم آنکھوں سے نفی میں سر ہلادیا۔

” ہمارا ، تمہارا ساتھ بس یہاں تک ہی تھا شہرام۔ہم جانتے ہیں کہ تم اپنی محبت کو منانے جا رہے ہو،ہم تمہارے راستے کا پتھر نہیں بننا چاہتے۔ تم ہمیں ایک سایہ دار شجر کی طرح یاد رکھو کہ جس کی چھاﺅں میں تم کچھ دیر کے لیے رکے تھے۔ ہمارے لیے یہ ہی بہت ہے ۔“ زویا نے بہت ضبط سے کہا تھا۔شہرام دل سے اس کی عظمت کا قائل ہوا تھا۔اس نے ، زویا کو سیلوٹ کیا ، تو وہ بے ساختہ ہنس پڑی۔

شہرام چلا گیا اور زویا بے آواز رونے لگی۔کبھی کبھی کسی کی محبت اس تک پہنچانے کے لیے، اپنی محبت کی قربانی دینا پڑتی ہے۔

٭….٭….٭

” یہاں روز روز کیوں چلاآتا ہے ، تیرا یہاں کیا کام ؟“ آج پھر اسے سر شام ، اس کچی بستی میں دیکھ کر اس ملنگ نے پوچھا۔ آدم پچھلےکئی دنوں سے روزانہ وہاں جارہا تھا ۔ ان لوگوں کو خاموشی سے بیٹھ کر دیکھتا رہتا۔ گزشتہکچھ دنوں سے وہاں ایک بہت بڑا میلا لگا ہوا تھا ۔ تب آدم نے پہلی بار ان لال کپڑوں میں ملبوس لوگوں کو گھنگھرو پہنے دھمال ڈالتے دیکھا تھا۔ آدم کا دل بھی بے اختیار ان کے ساتھ جھومنے کو کرنے لگا تھا ،مگر وہ چپ بیٹھا رہا۔

” میرا کام تو کہیں بھی نہیں ہے ۔جہاں بھی جاتا ہوں ، سب سے الگ ہی نظرآتا ہوں۔“ آدم نے بے زاری سے کہا۔ اس کی ساری زندگی پھر سے صفر پر آ کر رک سی گئی تھی ۔

” تُو نے کبھی اپنا رنگ ہی نہیں تلاشا۔ ہمیشہ دوسروں کے رنگوں میں رنگتا رہا ہے۔ اسی لیے آج بھی سب سے الگ ہی نظر آتا ہے ۔“ ملنگ نے کہا، تو آدم خاموشی سے اسے دیکھ کر رہ گیا۔

” میرا رنگ کیا ہے ؟“ آدم نے پوچھا۔

” وہ ہی جو تیرے من کا رنگ ہے۔ بھلا رنگ بھی کسی سے پوچھ کر اپنائے جاتے ہیں۔ اپنے اندر دیکھ کون سا رنگ تجھے نظر آتا ہے، وہی تیرا اصل رنگ ہے۔“ ملنگ نے ہاتھ میں پکڑے ڈنڈے سے زمین پر لکیر کھینچی تھی ۔

” مجھے صرف ایک ہی چہرہ نظر آتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔ “ آدم نے بے بسی سے کہا۔

” وہ چہرہ ہی تو حائل ہے ، تیرے اور اس رنگ کے درمیان یا تو چہرہ چھوڑ دے یا پھر رنگ۔ نہیں تو چہرے کو اپنے رنگ میںر نگ لے بہت آسان سی بات ہے۔“ملنگ نے مُسکرا کر کہا، تو آدم جھنجھلا کر رہ گیا۔

” تم مجھے الجھا رہے ہو۔“

” اچھا پھر یہاں کیوں آتے ہو؟“ ملنگ نے بے نیازی سے پوچھا۔

” اب نہیں آﺅں گا۔“آدم غصے سے کہتا ہوا ۔ وہاں سے اُٹھ گیا ۔ دو دن نہیں گیا اور تیسرے دن پھر پہنچ گیا۔

” یہاں کون سی چیز تجھے کھینچ کر لے آتی ہے۔ وہ چہرہ یا رنگ؟“ ملنگ نے پوچھا، تو آدم سوچ میں پڑ گیا ۔

” وہ چہرہ!“ آدم نے پورے اعتماد سے جواب دیا ۔ ملنگ نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔تین دن تک آدم یہ ہی جواب دیتا رہا ، پھر تھک ہار کر چوتھے دن بولا۔

” مجھے اس رنگ کی کھوج یہاں تک لاتی ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ میرے اندر کیا ہے؟“

” اپنے اندر جھانک کر دیکھ لو۔جواب مل جائے گا۔“ ملنگ نے نرمی سے کہا۔

” اندر صرف خاموشی ہے، سناٹا ہے ، ویرانی ہے اوربیابان ہے۔“ آدم کا لہجہ مایوس کن تھا۔

”دیکھتے رہو! جب تک جواب نہ ملے ۔“ ملنگ نے کہا ۔ ایک دن وہ اسی طرح بیٹھے باتیں کر رہے تھے، جب آدم نے ایک شان دار سی کالے رنگ کی بڑی سی گاڑی کو وہاں آتے دیکھا ۔ کچھ دیر بعد ایک وجیہہ شخصیت کا مالک سوٹڈ ، بوٹڈ شخص نکلا۔ ملنگ کے پاس آ کر وہ بہت احترام سے جھکا اور ملنگ کے ہاتھ چومے ۔ آدم خاموشی سے یہ منظر دیکھتا رہا۔ پھر کچھ دیر بعد وہ چلا گیا ۔ملنگ دوبارہ ، آدم کے پاس آ کر بیٹھ گیا ۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد آدم نے پوچھا ۔

” یہ کون تھا ؟ تمہارا کوئی مرید؟“

” نہیں! میرا بیٹا۔“ ملنگ نے بے ساختہ کہا۔ آدم حیرت سے اسے دیکھتا رہ گیا ۔

”وہ تمہارا بیٹا ہے اور تم اس حال میں ہو۔“آدم کے منہ سے نکلا تھا ۔ ملنگ مُسکرانے لگا۔

” کس حال میں! اس کا اصل یہ ہی حال تھا ، مگر اس نے جو رنگ چنا ، وہ تم نے دیکھ لیا ہے۔“ ملنگ نے جواب دیا تو آدم حیران رہ گیا۔

” یعنی جب جب میں نے تمہیں دیکھا وہ ….“ ملنگ نے اثبات میں سر ہلایا ۔

” وہ میرے بیٹے کا مجھ سے پیار ہے ۔ وہ جب بھی کوئی بڑا پروجیکٹ شروع کرتا ہے یا کسی بھی کام کی ابتدا کرتا ہے، تو مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ تم جانتے ہو ، بڑے سے بڑے لوگوں سے بھی وہ میرا تعارف فخریہ لہجے میں کرواتا ہے۔ جب پہلے دن تم مجھے اس پلازے کی پارکنگ میں ملے تھے، وہ پلازہ بھی میرے بیٹے کا ہے ،جس نمائش میں تم مجھے ملے تھے ، وہ نمائش بھی میرے بیٹے نے آرگنائز کروائی تھی اور جس دن تم مجھے پولیس اسٹیشن ملے تھے ، اس دن ہماری برادری کے ایک بندے کو پولیس پکڑ کر لے گئی تھی اور میرے بیٹا میرا ایک فون کرنے پر وہاں پہنچ گیا تھا ۔“ملنگ نے تفصیل سے بتایا۔

Loading

Read Previous

انگار ہستی

Read Next

داستانِ حیات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!