تو ہی تو کا عالم

خان زادہ شمشیر نے اس کی بات پر غور کیے بغیر سوال کیا، تو وہ شخص مُسکراتے ہوئے کہنے لگا۔

” ابھی کچھ دیر پہلے جو یہاں موجود تھے ، وہ ہی اللہ والے ہیں جنہیں ہم سب سائیں کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔“

” کیا وہ جس نے ہماری مدد کی مگر وہ تو بہت عام سے حلیے میں سڑکوں میں پھررہا تھا اور اس نے بتایا کہ اپنا کام ختم کر کے واپس جا رہا ہے ۔ وہ ہیں سائیں؟“

خان زادہ شمشیر نے حیرت سے پوچھا ۔تو وہ شخص سر ہلا کر رہ گیا۔

” پہلے پہل یہ بات ہمارے لیے بھی حیران کن تھی مگر وہ ایسے ہی ہیں ۔ بظاہر بہت عام سے، ہمارے جیسے۔ ہم میں رچے بسے ہوئے سے مگر اللہ کا بہت خاص کرم ہے ان پر۔ان کی دعا رد نہیں ہوتی صاحب۔“اس شخص نے یقین سے کہا ۔

” اچھا! دیکھ لیتے ہیں ۔ ویسے یہ حضرت ملیں گے کہاں؟“خان زادہ شمشیر نے پوچھا ۔

”سائیں کا ویسے تو شہر میں کوئی خاص ٹھکانہ نہیں ہے ۔ وہ علاقے میں گھومتے رہتے ہیں اور شہر سے باہر ایک پرانے مزار میں رات گزارتے ہیں مگر دوپہر کے وقت یہ اس علاقے میں ایک بیوہ عورت کے نعمت خانے میں ایندھن پہنچانے کا کام کرتے ہیں اور شام کے وقت وہ مدرسے میں مولوی صاحب کے ساتھ کچھ دیر ضرور بیٹھتے ہیں اور اگر کوئی ان سے خاص طور پر ملنا چاہے، تو مولوی صاحب کو پیغام بھیجوا دیتے ہیں اور پھر سائیں تک پیغام پہنچ جاتا ہے اور وہ مسجد کے پچھلے طرف مولوی صاحب کے مکان کی بیرونی بیٹھک میں لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہر جمعرات کو اسی پرانے مزار میں ہونے والی محفل سماع میں بھی ضرور شرکت کرتے ہیں ۔ دراصل سائیں بہت من موجی ہیں ۔ اس لیے کسی ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھتے۔“

اس شخص نے تفصیل سے جواب دیا اور ڈرائیور کو راستہ سمجھا کر چلا گیا۔

” عجیب سیلانی مزاج کا بندہ ہے ۔ اگر خلق خدا کی خدمت کرنی ہی ہے تو ایک جگہ ٹک کر بیٹھے۔“

جس کا اپنا کوئی ٹھکا نہ نہیں وہ کسی اور کو کیا دے سکتا ہے ۔ پتا نہیں کیوں میں اماں رحیمہ کے کہنے پر یہاں تک چلا آیا۔ پہلے کسی کو بھیج کر تصدیق کر لینی چاہیے تھی۔“

خان زادہ شمشیر نے جھنجھلاتے ہوئے کہا اور گاڑی کا دروازہ زور سے بند کردیا۔

”آپ کی بات بجا ہے مگر نہ جانے کیوں میرا دل کہتا ہے ۔اس سائیں کی دعا ہمارے بیٹے کو ضرور لگے گی۔“

نور بانو نے پرجوش انداز میں کہا، توخان زادہ شمشیر نے کسی سوچ میں گم اثبات میں سر ہلا دیا۔

٭….٭….٭

عورتوں کے لیے بنے بڑے سے ہوا دار کمرے سے باہر نکل کر اس نے سر گھما کر مرزا کے احاطے کی طرف دیکھا، تودوپہر ڈھل رہی تھی ۔

صبح سے لگی بھیڑ میں کچھ کمی آئی تھی مگر وہ جانتی تھی کہ یہ تھوڑی دیر تک ہے ۔ آج ویسے بھی جمعرات تھی ۔عصر کے بعد پھر سے مزار کا احاطہ دور دور سے آئے لوگوں سے بھر جائے گا۔ پھر شور ہوگا، آوازیں ہوں گی۔ منتیں ، مرادیں ، مناجاتوں کے چراغ ہر آنکھ میں روشن اور ہر زبان پر جاری ہوں گے۔ محفل سماع میں شامل ہونے والے لوگوں کی کثیر تعداد ہوتی تھی جس میں دھمال ڈالنے والے ملنگ بھی ہوتے اور اکثر و بیشتر محفل میںشریک ہونے والے لوگ بھی۔

اسے لوگوں سے کوئی مطلب نہیں تھا ۔ اسے جس سے مطلب تھا وہ صر ف اسے یہاں ہی ملتا تھا۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی احاطے کی پچھلی طرف بڑھی ،جب اچانک کسی نے اس کا راستہ روک لیا۔

” کیسی ہے توُ موہنی ؟ ہمیں بھی تھوڑا وقت دے دیا کر۔“

پینو عرف پروین نے ہاتھ میں پکڑا گڑُ کی چھوٹی سی ڈلی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔ موہنی نے اپنے چہرے پر بڑے سے گھونگٹ میں سے ایک نظر اس کے بڑھے ہوئے کالے اور سانولے ہاتھوں کی طرف دیکھا اور نفی میں سر ہلا کر جانے لگی ۔ پینو کی شاطر آنکھوں میں ابھرتی نا گواری بہت واضح تھی۔

” اتنی جلدی کس بات کی ہے تجھے۔ تُو خود کو سائیں کی خاص مریدنی کہتی ہے، تو ہم بھی سائیں کے مرید ہی ہیں ۔ کیا ہوا اگر خاص نہیں ہیں ، عام تو ہیں نا۔“

پینو نے بظاہر ہنستے ہوئے مگر زہر خند لہجے میں کہا۔موہنی سے اس کی حسد اور جلن روز بہ روز بڑھتی ہی جا رہی تھی ۔موہنی نے اس کی بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا ۔

”علی یار نے کہا ہے کہ سائیں کے آنے سے پہلے ان کے لیے حقہ تیار کرنا ہے۔“

 موہنی نے ایسے کہا جیسے خودسے بات کر رہی ہو۔

مزار کے بہت سے چھوٹے چھوٹے کاموں کے ساتھ ، سائیں کے حقے کا خیال بھی وہ اپنی رضا اور خوشی سے رکھتی تھی ۔ اسی لیے اسے خاص درجہ اور مقام ملا ہوا تھاجو بہت سے لوگوں سے ہضم نہیں ہوتا تھا ۔وہ اس سرخ اینٹوں سے بنی کچی پکی درگاہ میں ایک سال پہلے آئی تھی مگر کہاں سے آئی، یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے ہی اس مزار کا ایک مخصوص حصہ بے سہارا اور مسافر عورتوں کے لیے مختص کردیا گیا۔جہاں اس کا قیام تھا اور ان کی ذمہ داری علی یار اور سائیں پر تھی جسے وہ بخوبی نبھا رہے تھے ۔

پکے سانولے رنگ کا علی یار اس مزار میں کئی سالوں سے مجاوری کے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں ہر وقت متحرک رہتی تھیں۔ وہ درگاہ پر آنے والے سب لوگوں پر نظر رکھتا تھا ۔ پہلے پہل یہ مزار اپنی خستہ حالی اور شہر سے کچھ دور ہونے کی وجہ سے اکثر خالی اور ویران پڑا رہتا مگر جب سے سائیں نے یہاں آنا شروع کیا تھا ، مزار کی رونق اور چہل پہل بہت بڑھ گئی تھی ۔

لوگ سائیں سے ملنے کے شوق میں چلے آتے مگر سائیں یہاں صرف رات گزارنے آتا تھا۔ باقی کا دن محنت مزدوری کر کے یا خلق خدا کی خدمت کرتے گزار دیتا تھامگر علی یار کی درخوست پر اس نے جمعرات کا دن مزار پر گزارنا شروع کر دیا تھا جہاں لوگ جو ق در جوق اس سے ملنے آتے تھے مگر سائیں ان سے بے پروا صرف محفل سماع میں گم نظر آتا تھا۔

سائیں کے آنے سے مزار کی حالت بہت بہتر ہو گئی تھی ۔سائیں نے بے سہارا اور مجبور عورتوں اور بچوں کی کفالت کی ذمہ داری نبھانے کے لیے مزار کا ایک مخصوص حصہ ان کے لیے مخصو ص کر دیا تھا۔ جہاں ابھی تھوڑی تعداد میں خواتین اپنی بچوں کے ساتھ موجود تھیں ۔یہ وہ خواتین تھیں جنہیں گھر والوں نے کسی نہ کسی وجہ سے دھتکار دیا تھا جو اپنے گھر والوں پر بوجھ تھیں ۔ جنہیں معاشرے میں سر چھپانے کے لیے کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں ملا تھا۔ علی یار اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مزار کے پیچھے بنے چھوٹے سے کوارٹر میں رہتا تھا اور ان سب کی نگرانی بہت دھیان سے کرتا تھا۔ موہنی پر اس کی نظر کرم خاص طور پر تھی۔ موہنی اس کی بیوی کے ساتھ مل کر مختلف کام سر انجام دے دیتی جن میں سے ایک کام جمعرات والے دن مزار پر آئے کچھ خاص لوگوں کے لیے حقہ بنانے کا بھی تھا ۔ وہ ہر کام میں پیش پیش ہوتی جس سے پینو کو بہت تکلیف اور جلن محسوس ہوتی تھی ۔ سائیں کون تھا اور کہاں سے آیا تھا ۔یہ کسی کو نہیں پتا تھا ۔ اس کی کہانی بھی بہت دل چسپ ہے ۔وہ ایک دن لٹے ، تھکے ہارے مسافر کی حیثیت سے وہاں پہنچا تھا ۔علاقے کے لوگوں نے اپنی روایت کے مطابق اس کی مہمان داری کی ۔

 اگلے دن اس نے مفت میں کھانا لینے سے انکار کر دیا اور اپنے لیے کام ڈھونڈنے لگا۔دن بھر شہر میں مختلف کام کرتے گزارتا ، رات کو روکھی سوکھی کھاکر مزار کے ویران کونے میں خاموش بیٹھ جاتا۔ علی یار کو اس کی خاموشی اور پراسرارشخصیت نے اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ پھر ایک دن محفل سماع میں بے خود ہو کر اس نے ایسی دھما ل ڈالی کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔

لوگ اس کے بارے میں جاننے کے لیے پر تجسس ہو گئے ۔ اپنی دوریش فطرت اور پراسرار شخصیت کی وجہ سے وہ ایک دم لوگوں میں مشہور ہونے لگا۔ بہت سی ضعیف الاعتقاد عورتیں اس کے حلیے کودیکھ کر دعا کا کہتیں ۔ تعویذ مانگتیں ۔ وہ ان کی بات سن کر مُسکراتا اور ہاتھ اٹھا کر دعا کر دیتا۔نہ جانے یہ اتفاق تھا کہ سچ میں اسے کوئی فیض ملا ہوا تھا ،ا س کی دعائیں قبولیت کا درجہ پانے لگیں اور لوگوں میں سائیں کے نام سے مشہور ہو گیا۔ لوگ اس کے آگے پیچھے پھرنے لگے۔ اس کے آنے کے اسی سال علاقے میں بارش ہوئی اور ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہو گئی ۔ سب لوگ اسے اس کی کرامت سمجھنے لگے۔ ورنہ پچھلے کئی سالوں سے بارشیں نہ ہونے سے فصلوں کو بہت نقصان ہوا تھا۔ وہ من موجی تھا ۔ کبھی موچی کے پاس بیٹھا اس سے جوتے گانٹھنا سیکھ رہا ہوتا، کبھی مزدور بن کر سامان لاد رہا ہوتا، کبھی مٹی کے برتن بنانے کے لیے کمہار کے پاس پہنچا ہوتا۔ اس کے علاوہ وہ لوگوں کے مختلف چھوٹے بڑے کام کر دیتا جس سے خو ش ہو کر لوگ اسے دعا دیتے۔ وہ کسی سے کچھ نہیں لیتا تھا ۔ کوئی صدقہ خیرات نہیں ۔ لوگ اس کے پاس آتے بہت سی سوغاتیں لاتے مگر وہ نرمی سے منع کر دیتا اور کہتا کہ

” اپنے آس پاس کے مستحق لوگوں کودے دو۔ میرے مرشد کہتے ہیں کہ جو جس چیز کا مستحق نہ ہو، اسے اس چیز کو اپنے پاس نہیں رکھنا چاہیے۔“

لوگ اپنے ساتھ لائی سوغاتیں، سائیں کے کہنے پر مزار پر آئے بے سہارا ،غریب ، نادار لوگوں یا مسافروں میں بانٹ دیتے ۔ سائیں کے کہنے پر ہی آہستہ آہستہ اس مزار کا ایک حصہ بے سہارا اور مجبور عورتوں اور بچوں کے لیے مخصوص ہوتا گیا جن کے لنگر کے انتظام میں سائیں کے ساتھ ساتھ اور بہت سے لوگ بھی حصہ ڈالتے تھے ۔ اس طرح ایک وسیلہ بن گیا جس سے فیض یاب ہونے والے لوگ بے شمار تھے ۔علی یار نے کئی بار سائیں کو مزار کے پچھلے حصے میں بنے مکان میں رہنے کی دعوت دی ۔ کیوں کہ سائیں کی وجہ سی مزار پر آنے اور دعائیں کروانے والے لوگوں کا ہجومبہت بڑھ گیا تھا۔

مگر سائیں نے نرمی سے منع کر دیا اور کہا۔

”علی یار! مزار نشان والوں کے ہوتے ہیں جب کہ میں ابھی تک بے نشان ہوں۔“

علی یار نے وقتی طور پر اس معاملے میں خاموشی اختیار کر لی مگر وہ سائیں کی قدر اور عزت دل سے کرتا تھا۔

موہنی زنانہ حصے سے نکلتے ہی لمبا سا گھونگٹ نکا ل لیتی۔مگر پھر بھی اس کے حسن کے جلوے ہر دیکھنے والی آنکھ کو دیوانہ بنا دیتے تھے ۔ اس کا سڈول جسم اور کالے لباس سے نظر آتے سفید اور خوبصورت ہاتھ پاﺅں بہت سی حریص نگاہوں کواپنی طرف متوجہ کر لیتے لیکن اس درگاہ میں کسی کی اتنی جرا ¿ت نہیں تھی کہ اسے چھیڑتا یا تنگ کرتا۔

”بی بی کتنی بار کہاہے تجھے زنانہ حصے سے باہر مت آیا کر۔ یہاں طرح طرح کے لوگ آتے ہیں ۔ کسی کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ جا اندر چلی جا۔ سائیں نے دیکھا تو غصہ ہوں گے مجھ پر۔“

علی یار نے اس کے ہاتھ سے حقہ لیتے ہوئے سختی سے کہا ۔علی یار کے آخری جملے نے اسے اندر سے مہکا دیا تھا ۔

” کیا سائیں نے تجھے خاص میری حفاظت کرنے کو کہا ہے؟“

 اس نے فوراً اپنا سر اٹھا یا، تو گھونگٹ پیچھے کی طرف الٹ گیا ۔ اس کی کالی آنکھوں میں اشتیاق کے کئی جگنو اڑ رہے تھے ۔ علی یار نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھا۔

” پگلی ہے توُ! سائیں اس درگاہ میں آنے والی ہر عورت کی فکر اسی طرح کرتا ہے۔اسی لیے تو سب خود کو یہاں محفوظ سمجھتی ہیں۔ توُ نے پہلے ہی ضد کر کے حقہ بنانے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے،جب کہ سائیں اس بات کو بھی پسند نہیں کرتے مگر تجھے کون سمجھائے۔“

علی یار نے اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے ایسے کہا جیسے اس کی ضد سے عاجز آگیا ہو۔وہ اداسی سے پلٹ کر جانے لگی جب علی یار نے اسے پکارا تھا ۔

” اور سُن اس پینو سے دور رہا کر ۔ مجھے اس کے ارادے ٹھیک نہیں لگتے۔حاسد ہے تیری۔

اور سائیں کہتے ہیں کہ حاسد کی حسد لاوے کی طرح اندر ہی اندر پکتی رہتی ہے اور پھر ایک دن اچانک سے پھٹ کر باہر نکل آتی ہے ۔سب جلانے اور مٹانے کے لیے۔“

علی یار نے کہا اور وہاں سے چلا گیا ۔ جب کہ موہنی گم صم اسے جاتے دیکھتی رہی۔

” تُو کتنا خوش نصیب ہے علی یار۔ جوسائیں کو اتنے پاس سے بولتے ہوئے، بات کرتے ہوئے دیکھ تو لیتا ہے۔ میں پگلی سائیں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے پہروں دھوپ میں کھڑی اپنا رنگ روپ جلاتی رہتی ہوں۔

کیا تُجھے تیرے سائیں نے یہ نہیں بتایا کی جنہیں عشق کی آگ چھو لے ، اُنھیں پھر کوئی اور آگ نہیں جلاتی ۔“

منگ منگ منگتی ، گلی گلی میں۔

تُو صاحب ِ دستار پیا۔

اندر باہر مندا ، گندا میرا۔

تُو سر تا پا نکھار پیا۔

جند تڑپے میری، جاں میری تڑپے ۔

تُو ہے روح کا قرار پیا۔

گدی پہ عشق کی تُو بیٹھا۔

میں بھٹکوں ہر ہر دوار پیا۔

کنیز بنا کر اپنا لے مجھے۔

بن میرا بھی خریدار پیا۔

٭….٭….٭

” واٹ ربش!تمہارے دوست کا دماغ تو ٹھیک ہے ؟ وہ کون ہوتا ہے مجھ پر اس طرح کی پابندی لگانے والا؟ اگر تمہیں یاد نہیں تو میں یاد کروا دوں کہ ڈریم انٹرٹینمنٹ سے ہوا، میرا معاہدہ، دو مہینے پہلے ختم ہو چکا ہے ۔اب میں آزاد ہوں کسی کے ساتھ بھی نیا معاہدہ سائن کر سکتی ہوں ۔ اس کے لیے مجھے کسی ایرے غیرے کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔“

فارینہ جو پہلے بہت خوش گوار موڈ میں شہرام کے ساتھ ڈنر کرنے آئی تھی ۔ باتوں ہی باتوں میں شہرام نے ہنستے ہوئے ایڈم سے ہوئی اپنی گفتگو کا ذکر کیا ،جسے سنتے ہی فارینہ آگ بگولا ہو گئی۔ حالاں کہ ایڈم نے صرف اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ فارینہ پر کسی طرح کی پابندی نہیں لگائی تھی مگر نہ جانے کیوں فارینہ ایڈم کا نام سنتے ہی چڑجاتی اور اسی لیے اس کی صحیح باتوں پر بھی برا مان جاتی تھی ۔

شہرام نے کھانے سے ہاتھ روک کر حیرت سے اس کے خوبصورت چہرے کے بگڑے زاویوں کو دیکھا۔ فارینہ کا اتنا غصہ اس کی سمجھ سے باہر تھا ۔ایک دم ہی وہ پریشان ہو کر بولا۔

” فارینہ تم ٹھیک ہو؟“

فارینہ نے چونک کر اس کی گہری آنکھوں میں دیکھا ۔ جہاں فکر مندی کے ساتھ ساتھ اپنے پن کا جذبہ بہت واضح تھا اور یہ اپنا پن کسی بہت اپنے کے لیے ہی دل سے آنکھوں تک کا فاصلہ طے کرتا ہے ۔ فارینہ نے بے ساختہ نظریں چرائی تھیں۔شہرام اسے بھی پسند تھا مگر اس سے آگے کا ابھی اس نے نہیں سو چا تھا اور نہ ہی وہ سوچنا چاہتی تھی۔ابھی تو اس نے اڑنا سیکھا اور شہرت کا ذائقہ چکھا تھا ۔وہ بھلا کیسے اتنی آسانی سے کسی پنجرے میں قید ہو جاتی؟

” میں ٹھیک ہوں ۔“ فارینہ نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا اور میز پر رکھا پانی کا گلاس اٹھا کر اپنے نرم و نازک لبوں سے لگا لیا۔

” پھر اتنے غصے کی وجہ ؟ تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ ایڈم اپنے کام سے کام رکھنے والا، بے ضرر سا بندہ ہے ۔وہ اپنے کام سے عشق کرتا ہے اور اسی وجہ سے مختلف تجربات کرتا رہتا ہے ۔اس نے تمہارے نئے پروجیکٹ کے بارے میں ایک رائے ، اپنے تجربے کی بنیاد پر دی تھی ۔

وہ نیووژن انٹرٹینمنٹ کے مالک فیصل آفندی کو بہت پہلے سے جانتا ہے اور یہ تو تمہیں بھی پتا ہوگا کہ اس کی شہرت اتنی اچھی نہیں ہے ۔پھر تم یہ رسک کیوں لینا چاہ رہی ہو؟“

شہرام نے سنجیدگی سے سوال کیا۔فارینہ سر جھٹک کر رہ گئی ۔

” کامیابی کے لیے رسک تو لینا ہی پڑتا ہے شہرام ۔ اس بار نیووژن انٹرٹینمنٹ غیر ملکی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک میگا پروجیکٹ پر کام کر رہی ہے اور میرے خیال میں یہ بہت بڑا چانس ہے ، خود کو منوانے کا۔“

فارینہ کی خوبصورت آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی ۔شہرام گہری سانس لے کر رہ گیا۔

” فارینہ تم نے کبھی ایک چھوٹے سے ، خوب صورت گھر کا خواب دیکھا ہے ؟“

شہرام نے اچانک سوال کیا ۔فارینہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی ۔

” اگر ایسا کوئی خواب تمہاری خوب صورت آنکھوں میں سویا جاگتا ، ادھ کھلی آنکھوں سے اپنی خواہش کے منظر سجانے لگے، تو مجھے آواز دے لینا۔ کیوں کہ ایسا ہی ایک خواب، تم سے ملنے کے بعد میری آنکھوں میں ، خواہشوں کے کئی منظر سجانے لگا ہے۔“

شہرام نے اس کے خوبصورت چہرے کو اپنی نظروں میں قید کرتے ہوئے کہا۔

فارینہ اتنے خوبصورت اظہار پر دنگ رہ گئی۔شہرام نے گم صم سی ، سنگ مر مر کی مورت کی طرف دیکھا۔ وہ اپنے احساس سے چھُو کر اسے مورت سے پری بنانا چاہتا تھا۔

مگر محبت میں ” چاہت “ اپنی خوشی اور خواہش کی نہیں ہوتی، بلکہ محبوب کی خوشی اور خواہش کی ہوتی ہے۔

محبوب مان رکھ لے ،تو اُس کی کرم نوازی۔

نہ رکھے ، تو اُس کی ادائیں ۔

اور کرم نوازی ہمیشہ نصیب والوں پر ہوتی ہے، جب کہ یہ بھی سچ ہے کہ محبت میں سب کچھ ساتھ دیتا ہے ، سوائے نصیب کے۔

ماضی کے پردے سے ایک یاد نے اس کے دل پر پھر دستک دی تھی ۔ وہ بھی تو کم نصیب لوگوں میں سے تھا جن پر محبت مہربان نہیں ہوئی تھی۔ شہرام نے اپنی رسٹ واچ میں وقت دیکھا ۔ رات کے تین بج رہے تھے۔ آج پھر اسے سوچتے ، ساری رات گزر گئی۔ کل صبح سے شوٹنگ کا آغاز کرنا تھا مگر وہ ایسے بددل اور اداس بیٹھا تھا جیسے اسے آنے والی کسی کامیابی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کچھ دیر اسی حالت میں بیٹھنے کے بعد وہ اٹھا ۔تیز والیوم میں میوزک لگا کر ایکسرسائز کرنے لگا ۔کچھ دیر بعد اس کا ذہن ہر قسم کے بوجھ اور پریشانی سے آزاد ہو چکا تھا اور وہ اپنے نئے کام کے لیے پوری طرح چاق چوبند اور فریش تھا۔



٭….٭….٭

” کس لیے تشریف لائے ہیں آپ؟“

خان زادہ شمشیر نے نظر اٹھا کر اپنے سامنے بے نیازی سے بیٹھے سائیں کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر وہی نرم سا تاثر تھا مگر دوپہر کی نسبت، اس کے کپڑے صاف اور حلیہ بہتر تھا ۔ نہانے سے اس کے چہرے پر تازگی واضح تھی ۔ مولوی عبداللہ سے ملاقات کے بعد خان زادہ شمشیر نے سائیں سے ملنے کی درخواست کی تھی۔ عصر کی نماز کے بعد سائیں مولوی عبداللہ کی بیٹھک میں موجود تھا اور خان زادہ شمشیر بھی وہاں آگئے۔پردے کی دوسری طرف نور بانو اور اماں رحیمہ بھی موجود تھیں۔ نڈھال سا خان زادہ احمد باپ کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔

” کس لیے لوگ آتے ہیں آپ کے پاس؟“

خان زادہ شمشیر نے تیکھے لہجے میں سوال کیا۔ پردے کے دوسری طرف بیٹھی نوربانو نے بے چینی سے اماں رحیمہ کے طرف دیکھا۔ جیسے اسے خدشہ ہو کہ خان زادہ شمشیر کا تیکھا انداز سائیں کو ناراض کر دے گا ۔ اماں رحیمہ نے اس کے ہاتھ پر اپنا کمزور ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔

”ہوں! سوالی بھی ہو اور سوال بھی نہیں کرنا چاہتے۔ “

سائیں نے کچھ سوچتے ہوئے مُسکرا کر سر اثبات میں ہلا یا۔

” میرے مرشد کہتے ہیں کہ جس در پر جھولی پھیلانے کے لیے دستک دی جاتی ہے۔ اس سے پہلے ، اس کے دروازے پر ہی انا کے سب بت توڑ دینے چاہئیں ۔ نہیں تو جھولی پھیلانے کی ذلت بھی اٹھانی پڑتی ہے اور خالی ہاتھ رہ جانے کا دکھ بھی جان کو لگ جاتا ہے۔“

سائیں نے کہا، توخان زادہ شمشیر نے کچھ کہنے کے لیے پر تولے ہی تھے ، جب نوربانو ایک دم بول پڑیں۔

”سائیں! دراصل میرا بیٹا بہت بیمار ہے ۔ ہم نے ڈاکٹری سے لے کر ہر علاج کروایا ہے مگر کسی کو کچھ سمجھ نہیں آئی۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ سب رپورٹس ٹھیک ہیں ۔ ہمارا ایک ہی بیٹا ہے جس کے لیے ہم نے ہر در کی خاک چھان لی ہے مگر سوائے سوال کرنے اور ذلت کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ آپ کے بارے میں سنا، تو دوڑے چلے آئے کہ شاید….“

 ہم اسی لیے آپ کے در پر حاضر ہوئے ہیں۔ “

سائیں نے سر جھکا کر پوری بات سنی تھی ۔پھر اپنا جھکا ہوا سر اٹھا کر بولا۔

” ہر چیز میرے رب کے حکم سے ہے۔ ہم انسان اس کی رضا کے آگے بہت مجبور اور بے بس ہیں ۔یہ بھی اس ذات کا احسان ہے کہ اس نے مجھے اتنی عزت بخشی ، مگر میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ آپ کی طرح ہی بہت بے بس اور مجبور ہوں ۔ہاں جو میرے بس میں ہے وہ میں ضرور کروں گا اور آپ سے بھی یہ ہی کہوں گا کہ کبھی بھی اس کی ذات سے مایوس ہو کر دعا کا دامن مت چھوڑئیے کہ دعا ہی معجزوں کی کنجی ہے۔

میں آپ کے بیٹے کے لیے ضرور دعا کروں گا۔مجھے یقین ہے میرا رب میری دعا ضرور سنے گا۔“

سائیں نے ایک نظر خان زادہ شمشیر کے ساتھ بیٹھے، اس کے بیٹے پر ڈالی اور پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔

”سائیں! میرا بیٹا کسی دوا، کسی دعا سے ٹھیک نہیں ہو رہا۔ پچھلے کئی مہینوں سے اس کی حالت ایسی ہی ہے ۔ اسے دیکھ دیکھ کرمیرا دل دکھ کے کسی پاتال میں اتر کر دھڑکتا، تو ہے مگر اس میں زندگی کی کوئی رمق نہیں رہی ہے۔دعا کریں سائیں ایک ماں کے دل کو سکون مل جائے۔“

نور بانو بلک بلک کر رو رہی تھی۔ سائیں کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔ اس نے گردن موڑ کر پردے کی طرف دیکھا جس کے پیچھے وہ ماں تھی جو اپنے بچے کی تکلیف پر رو رہی تھی ۔ اسی وقت نور بانو کی نظر بھی اس کے چہرے پر پڑی ، تو وہ چونک گئی ۔اس کا دل بہت زور سے دھڑکا تھا ۔اسی وقت سائیں نے رُخ موڑ لیا اور سر جھکا کر دھیمے لہجے میں بولا۔

” خوش نصیب ہے آپ کا بیٹا جس کے پیچھے رونے اور دعا کرنے والے اتنے مہربان اور سچے رشتے موجود ہیں ۔بے فکر رہیں۔اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ ماںجی….“

سائیں ایک دم سے رکا۔ماں کہتے کہتے اسے عجیب سا لگا۔ نوربانو نے بھی اس کا رکنا اور جھجکنا محسوس کر لیا تھا ۔

”کچھ لوگوں کے منہ سے ماں سن کر اپنے پن کی خوشبو آتی ہے بیٹا۔مجھے اچھا لگے گا اگر اپنے پن کی یہ خوشبو ہمیشہ آپ کے پاس سے آ تی رہے۔“

نوربانو نے نرمی سے کہا، تو خان زادہ شمشیر نے حیرت سے پردے کی طرف دیکھا۔

” میں اس مہربانی کے لیے شکر گزار ہوں۔ لگتا ہے آپ لوگ خوددینے والوں میں سے ہیں۔“

سائیں نے سر اٹھا کر خان زادہ شمشیر کی طرف دیکھا۔ان کے چہرے پر بے بس سا تاثر تھا، وہ گہری سانس لے کر بولے ۔

”اگر وقت کا چکر، دینے والوںکو، مانگنے والوں میں ملا دے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یا تو قدرت انہیں آزما رہی ہے یا وہ اپنے کسی عمل کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔“

”اگر سودوزیاں کا حساب کرنا آجائے تو سمجھ لیں کہ ابھی اس ذات کی نظرِ کرم آپ پر سے نہیں ہٹی۔امید وہ ڈور ہے جو مشکل سے مشکل حالات میں بھی آپ کو اس ذات سے باندھے رکھتی ہے۔“

سائیں نے مطمئن انداز میں کہا خان زادہ شمشیر نے گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

” اگر میرا اندازہ غلط نہیں تو آپ کی عمر سے بڑ ی آپ کی سوچ ہے۔“

” نہیں!“ سائیں نے آزردہ لہجے میں بہت آہستگی سے کہا۔

” میری عمر سے بہت بڑا اور گہرا ہے عشق میرا۔ اس نے گلیوں گلیوں کی خاک چھاننے پر مجبو ر کر دیا ہے۔“

کوئی شخص کب سے بسا ہوامرے شہرِ جاں میں عجیب ہے

جو خزاں کی راہ میں یار ہے ،جو گلاب رُت میں رقیب ہے

میں چراغ بن کے جلوں تو کیا، سرِ شاخ ِسبز کھلوں تو کیا

یہ ہوا جو میرے جلو میں ہے ، یہ زیاں جو میرا نصیب ہے

نہ کوئی کرن میری راہ میں، نہ وہ چاند چہرہ نگاہ میں

میرا دشت کتنا طویل ہے، مری رات کتنی مہیب ہے

وہ قریب تھا تو نظر میں تھا کئی آسمانوں کا فاصلہ

وہ جو مجھ سے دور چلا گیا تو کھلا کہ کتنا قریب ہے

مری شاعری ، مری داستاں ،ہے بنائے رنجشِ دوستاں

میرا فن نہیں مرا چارہ گر، مرے واسطے یہ صلیب ہے

سائیں کے لہجے میں سوز تھا ، درد تھا ، تپش تھی۔ایک بے بسی ، ایک نارسائی ،اس کے لفظوں سے جھلک رہی تھی ۔

خان زادہ شمشیر نے اس کے لہجے کی اُداسی اور اس کی آنکھوں میں بسی تڑپ دیکھی تو گہری سانس لے کر رہ گئے ۔

ہم سب ہی کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی کے لیے اسی طرح بے بس اور مجبور ہوتے ہیں ۔

٭….٭….٭

ایڈم نے بڑے سے پلازے کے پارکنگ ایریا میں کار کھڑی کی۔ جیسے ہی وہ کار لاک کر کے باہر نکلا ، ایک دم ایک مردانہ ہاتھ اس کے سامنے پھیلا ۔ایڈم چونک کر رک گیا اور سر اٹھا کر دیکھا، تو سامنے تیز رنگ کے کپڑوں میں، گہرا میک اپ کیے ، سلیقے سے بال بنائے ، وہ دعائیں دیتا مانگ رہا تھا ۔

” بابو اللہ تجھے بہت دے گا۔ صائمہ کی دعا لے جا۔ کبھی نامراد نہیں رہے گا۔“

اس خواجہ سرا نے اتنے یقین سے کہا کہ ایڈم کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔ یہاں رہتے ہوئے اس نے اردو زبان بہت تیزی سے سیکھی تھی ۔اردو وہ پہلے بھی بول اور سمجھ لیتا تھا ۔ اس لیے اس کا لب و لہجہ بہت اچھا تھا ۔

”اللہ کون؟“

ایڈم نے پوچھا تو سامنے کھڑا خواجہ سرا اپنی جگہ اچھل کر رہ گیا۔

”میں مر گئی ! توبہ کر و بابو۔ ایسی بات مذاق میں بھی نہیں کہتے جو اسے نہیں مانتا، وہ پھر کچھ بھی نہیں جانتا۔ جا ، بابو تجھ سے لیا، تو کہیں میں بھی گناہ گار نہ ٹھہروں۔“

خواجہ سرا نے ناراضی سے کہا اور وہاں سے چلا گیا ۔ ایڈم نے سر جھٹکا اور چند قدم آگے بڑھا ہی تھا کہ کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر منہ کے بل گرا۔

اس کے سامنے کا ہونٹ پھٹ گیا اور اس سے خون رسنے لگا۔

” واٹ دا ہیل از رونگ؟“

ایڈم نے غصے سے جھنجھلا کر کہا اور کپڑے جھاڑتا اٹھ کھڑا ہوا۔

” اب تمہیں جواب مل گیا کہ اللہ کون ہے؟“

اس نے اپنے عقب میں آواز سنی تو فوراً پلٹا ۔

لال رنگ کے کپڑوں میں ملبوس، سر پر لال اور ہرے رنگ کا صافہ باندھے،گلے میں مختلف رنگوں اور جسامت کی مالائیں ،کمر کے دائیں طرف کالے رنگ کا کشکول بھی لٹکا ہوا، انگلیوں میں مختلف رنگوں کی انگوٹھیاں پہنے ، وہ عجیب وغریب شخص سامنے کھڑا مُسکرا رہا تھا اور اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑا ڈنڈا جس کی لمبائی اس کے سینے سے کچھ نیچے تک تھی اور اس کا اوپر اور نیچے کا سرا گولائی میں تراشا ہواتھا ۔ اس ڈنڈے پر نقش ونگار بھی بنے ہوئے تھے ، زمین پر آہستہ سے مار رہا تھا۔

”یہ آج مجھے سب ہی عجیب وغریب حلیے کے لوگ کیوں مل رہے ہیں؟کیا آپ ایکٹر ، میرا مطلب ہے کہ کوئی فنکار ہیں ؟ جو اس طرح کا گیٹ اپ بنایا ہوا ہے؟“

ایڈم نے کپڑے جھاڑتے ہوئے ، دلچسپی سے پوچھا۔

”فنکار تو ہم سب ہی ہوتے ہیں ۔ کیا تم نہیں ہو فنکار؟تم بھی تو جو نہیں ہو ، وہ نظر آنے کی کوشش کرتے ہو۔“

اس شخص نے زمین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔

” کیا مطلب؟“ ایڈم نے الجھ کر پوچھا۔

” جلدی کس بات کی ہے ۔بہت سے اسرار ہم سے زیادہ ، ہم تک پہنچنے کے لیے بے قرار ہوتے ہیں ۔ صبر کرو ، ہر سوال کا جواب ملے گا اور بہت جلد۔“

اس شخص نے کہا اور مڑ کر واپس چلا گیا ۔ ایڈم نے اسے جاتے ہوئے دیکھا اور سر جھٹک کر پلازے کے مین ڈور کی طرف بڑھا جب پاس ہی سڑک سے گزرتی گاڑی پر اس کی نظر پڑی اور وہ اپنی جگہ کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ وہ لال کپڑوں والا شخص ، اس بڑی سی گاڑی کی بیک سیٹ پر بہت شان سے بیٹھا تھا۔اس کا باوردی ڈرائیور گاڑی چلا رہا تھا ۔

” او مائی گاڈ! کیسے کیسے ڈرامے باز موجود ہیں یہاں۔ میں نے ٹھیک ہی سنا تھا۔“

ایڈم نے تمسخر سے کہا اور طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے اندر کی طرف بڑھ گیا۔

یہاں رہتے ہوئے وہ بہت سی باتوں اور چیزوں سے واقف ہو چکا تھا ۔اس کی سیکھنے کی قدرتی صلاحیت بہت تیز تھی ۔جتنی جلدی اس نے یہاں کی فلم انڈسٹری سے لے کر فیشن انڈسڑی تک نام بنایا تھا ، وہ بہت حیران کُن تھا ۔ سال میں اس کی فلم تو ایک آتی تھی مگر مختلف ہونے والے فیشن شوز میں اس کی شمولیت لازمی ہوتی تھی ۔ وہ ریمپ پر ماڈلنگ کرتا بہت سی نظروں کا مرکز بن جاتا تھا ۔ اس کی لکُ ایسڑن اور ویسڑن کا ملاپ تھی ۔ ڈریس ڈیزائننگ میں مختلف تجربات کرنا اسے ویسے ہی بہت پسند تھا اور اسی چیزنے اس کے قدم فیشن انڈسٹری میں بھی مضبوطی سے جمائے تھے۔

٭….٭….٭

شہرام کو بالآخر اپنی نئی فلم کے لیے ہیروئن مل ہی گئی ۔ اس لیے آج کل وہ شوٹنگ میں بری طرح مصروف تھا۔ شہرام اپنی ٹیم کے ساتھ بیس دن کے لیے ملائیشیا بھی رہ کر آیا تھا۔ اس کی فلم کا ایک حصہ یہاں بھی شوٹ ہوا۔ باقی کام،پاکستان کے نادرن ایریاز میں فلمایا جا رہا تھا۔

وہ اپنے کام سے مطمئن تھا۔ہر چیز اس کی پسند اور مرضی کے مطابق ہی ہو رہی تھی ۔

فلم کی نئی ہیروئن کا تعلق ٹی وی سے تھا ۔ نیناں ابھرتی ہوئی ، باصلاحیت لڑکی تھی۔ آگے بڑھنے کی لگن کی وجہ سے وہ اپنے کام کے ساتھ بہت سنجیدہ تھی اور اس کی یہ بات شہرام کو بہت پسند آئی تھی۔

انصب کو اتفاقیہ طور پر ملنے والی عانیہ سے طوفانی محبت ہوگئی تھی۔ عقل مند لوگوں کی طرح اس نے وقت ضائع کرنے کے بجائے عانیہ کو پرپوز کر دیا تھا۔ اسی کے نتیجے میں بہت جلد ان کی منگنی ہونے والی تھی ۔ انصب روز فون کر کے شہرام کو یاد دہانی کرواتا رہتا۔وہ ہنس کر حامی بھر لیتا ۔ دن بھر کی مصروفیت کے بعد، تنہائی ملتے ہی اس کی سوچ کا پرندہ اُڑ کر ماضی میں پہنچ جاتا ۔جہاں فارینہ کو پرپوز کرنے سے لے کر اس کی اچانک گمشدگی تک کا ہر پل آنکھوں میں گھومنے لگتا۔

آج بھی وہ شوٹ سے جلدی فارغ ہو کر چہل قدمی کرتا قدرت کے حسین رنگوں میں ،اپنی محبت کو تلاشتا دور نکل آیا تھا۔

کبھی ان ہی راستوں پر ان دونوں کے نقشِ پا ایک ساتھ بھی پڑے تھے۔ اسے آج بھی وہ شام یاد تھی جب اس نے فارینہ کو بغیر سوچے سمجھے پرپوز کر دیا تھا۔ وہ فارینہ کو دو سالوں سے جانتا تھا۔ اس کے ساتھ کئی چھوٹے بڑے پروجیکٹ پر کام کر چکا تھا ۔ اسی دوران اسے احساس ہوا کہ فارینہ کی محبت اس کے اندر جڑ پکڑ چکی ہے ۔ لہٰذا اس نے وقت ضائع کیے بغیر اچانک ہی اسے پرپوز کر کے حیران کر دیا تھا۔وہ جتنی خوب صورت تھی ، اس سے کہیں زیادہ خوب صورت اور معصوم حیران ہو کر لگتی تھی یا شاید اسے ہی ایسا لگا تھا ۔ بہر حال جو بھی تھا ۔ فارینہ نے اس کے دل میں وہ جگہ اور مقام حاصل کر لیا تھا جو بہت خاص تھا۔اس لیے پانچ سال گزر جانے کے باوجود بھی وہ اسے نہیں بھول پایا تھا ۔ جب کہ زندگی نے کئی بار اسے نئے سے نئے اور خوبصورت راستے دکھائے تھے مگر وہ تھا کہ جیسے کسی سحر میں بندھا رہ گیا تھا، محبت نے کیسا کالا جادو کیا تھا اس پر کہ وہ اپنی سدھ بدھ کھوتا جا رہا تھا ۔ لمحہ بہ لمحہ اپنی ہی ذات کی تہوں میں اترتا ، خود ہی سے بیگانہ بن رہا تھا ۔وہ اپنے دل کے ہاتھوں ویسے ہی مجبور تھا جیسے کہ سب ہوتے ہیں۔

اسے وہ خنکی بھری سرد شام بہت اچھی طرح یاد تھی ۔ جب شہرام نے فارینہ اور ایڈم کو ایک دوسرے سے الجھتے دیکھا تھا ۔ دور ہونے کی وجہ سے وہ ان کے چہرے کے تاثرات تو دیکھ سکتا تھا مگر وہ دونوں کس بات پر بحث کر رہے ہیں ۔ وہ نہیں سن سکا تھا ۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ان تک پہنچا تھا ،جب فارینہ نے اسے آتے دیکھا ۔ اس کی خوب صورت آنکھوں میں یک دم ایک چمک ابھری تھی ۔ کسی خیال کی روشنی سے۔

وہ ایڈم کو چھوڑ کر فور اً اس کی طرف لپکی تھی اور بہت ادا سے اس کے بازو میں اپنا بازو ڈال کر بولی۔

”شہرام مجھے تمہارا پرپوزل قبول ہے۔میری ایک شرط ہے !“

شہرام اس اچانک خوشی کے لیے تیا رنہیں تھا۔ اس لیے حیرت سے اسے دیکھتا رہ گیا جو اتنی مہربان اور اس کے اتنے قریب کھڑی تھی ۔پچھلے دو مہینوں سے وہ اس کے پرپوزل کے جواب میں مسلسل خاموش تھی ۔ آج ایڈم نے نئے پروجیکٹ پر ڈسکس کرنے کے لیے انھیں ریسٹورنٹ بلایا تھا ۔ جہاں شہرام کچھ دیر سے پہنچا ۔شہرام نے خود کو سنبھالتے ہوئے پوچھا تھا۔

” کیسی شرط فارینہ؟“

” ہم شادی اس مہینے کے اینڈ تک کریں گے۔بولو منظور ہے؟“

لفظوں کے برعکس فارینہ کا لہجہ سپاٹ تھا ۔

” مجھے منظور ہے ۔یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے میری محبت مل جائے گی۔“

شہرام نے کہا، تو فارینہ نے اس کے کندھے پر اپنا سر اٹکا دیا۔

اس وقت شہرام نے خود کو دنیا کا امیر ترین آدمی سمجھا جس کے پاس اور قریب محبت ہو وہ خوش نصیب ہی تو تھا۔

جب کہ فارینہ طنزیہ نظروں سے سفید چہرہ لیے کھڑے ایڈم کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی نظروں میں فاتحانہ چمک تھی۔

ایڈم نے خود کو سنبھالا اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے آگے بڑھ گیا۔

”لگتا ہے کہ مجھے اپنے نئے پروجیکٹ کے لیے اب کسی اور کو ڈھونڈنا پڑے گا۔“

” ہاں یار! مگر تم فکر مت کرو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ یہ بتاﺅ کہ اس بار بہت دن لگا دیے تم نے امریکا میں۔کوئی مسئلہ تو نہیں تھا؟“شہرام ایڈم سے ہاتھ ملاتے ہوئے اس کے گلے لگ گیا اور اس سے الگ ہوتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا۔

ایڈم بے ساختہ ہنس پڑا۔شہرام دلچسپی سے اسے سر تا پا دیکھتا رہا۔

کندھے سے نیچے آتے بالوں کی پونی بنائے، ٹائٹ جینز اور ہاف بازو شرٹ میں اس کے مسلز واضح ہو رہے تھے ۔ چہرے پر ہلکی ہلکی بڑھی شیو اور سر کے بالوں اور ڈاڑھی کا رنگ سنہرا تھا ۔ اس کے تیکھے نین نقش اور رنگ سرخ وسفید تھا ۔ ایڈم کے پیروں پر نظر پڑتے ہی شہرام کی مُسکراہٹ گہری ہوگئی۔ اس نے لال رنگ کے کینوس شوز پہنے ہوئے تھے اور سفید اور لال رنگ ہی اس کی شرٹ میں نمایا ں تھے ۔

” یار تم جو بھی پہن لو جچتا ہے تم پر….“

شہرام نے کھلے دل سے اس کی تعریف کی۔

” نہیں یار!سب کچھ تو نہیں جچتا مجھ پر….

محبت کو ہی دیکھ لو ۔ اس کا کوئی رنگ مجھ پر نہیں جچتا….

مجھے نہیں رنگتا،مجھے نہیں اپناتا….

کیوں ایسا ہی ہے نا فارینہ؟“

ایڈم نے بظاہر سرسری سے لہجے میں پوچھا ، مگر اس کی لہجے میں تپش تھی ، دکھ تھا ، نارسائی کا خوف تھا۔

”ہونہہ! ہر کوئی محبت کے قابل بھی نہیں ہوتا ، مسٹر ایڈم۔ یہ رنگ سب کے لیے نہیں ہوتا، اسی لیے سب پر نہیں جچتا۔“

فارینہ نے تیکھے انداز سے کہا۔

”ایسا مت کہو فارینہ!ایک محبت ہی تو انسان کے رنگ، نسل، ذات،میں جمع یا تفریق نہیں کرتی۔ کائنات میں ایک محبت ہی تو ہے جو سب کو اپنے رنگ کا رنگنے میں ہنر اور سلیقہ جانتی ہے۔“

ایڈم نے اس کی طرف ایسے دیکھا، جیسے التجا کر رہا ہو۔

” بکواس ہے سب۔“

یک دم ہی فارینہ بولی۔ شہرام نے بات بگڑتے دیکھی تو فوراً بولا۔

” تم دونوں کبھی بھی ایک نقطے پر متفق نہیں ہو سکتے ہو۔لہٰذا اس بحث کو رہنے دو۔ چلو آج کا دن سیلیبریٹ کرتے ہیں۔“

شہرام نے خوشگوار موڈ میں کہا اور فارینہ کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھ گیا۔ ایڈم اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔

” ہم جس نقطے پر کبھی متفق ہوئے تو وہ صر ف ایک ہی ہوگا۔“

”محبت کا….“

ایڈم نے خود کلامی کی۔ اس کی آنکھوں میں عزم تھا ۔ایک عہد تھا۔

شہرام کو چلتے ہوئے ٹھوکر لگی، تو وہ بے اختیار ماضی سے حال میں پلٹ آیا۔ اس وقت اسے احساس نہیں ہوا مگر آج جب اس نے سوچ کے پانی سے ماضی کا چہرہ دھویا، تو اسے لگا کہ کچھ ایسا ضرور تھا جو فارینہ اور ایڈم کے درمیان ناراضی کی وجہ بنا رہا ۔ فارینہ کی ایڈم سے چڑ کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور تھی ۔ جب کہ ایڈم کا رویہ بھی نارمل نہیںتھا ۔

” کیا ایڈم بھی فارینہ سے محبت کرتا تھا ؟“

یہ خیال آتے ہی شہرام کے قدم رک گئے۔سبز درختوں کے بیچ نارنجی سورج شام کے الوداعی لمحات اپنے دامن میں سمیٹے ڈوب رہا تھا۔

”حیرت ہے یہ خیال مجھے تب کیوں نہیں آیا؟“

شہرام خود سے ہم کلام تھا۔

” تب کیا مجھے کبھی بھی یہ خیال کیوں نہیں آیا۔ کیا ایڈم کے امریکا جانے اور کبھی نہ پلٹنے کی وجہ یہی تھی؟ میری اور فارینہ کی اچانک ہونے والی شادی؟مگر پھر فارینہ کیوں بغیر کچھ کہے ، بغیر کچھ بتائے مجھے یوں چھو ڑ کر چلی گئی کہ میں اسی کے جواب ڈھونڈتا ڈھونڈتا ، خود بھی کھونے لگا ہوں۔“شہرام نے تھک کر خودکلامی کی اور بوجھل قدم اٹھاتا ، ریسٹ ہاﺅس کی طرف بڑھ گیا جہاں اس کا اپنی ٹیم کے ساتھ قیام تھا ۔

٭….٭….٭



” تم یہ کام خود کیوں کرتے ہو؟ تم چاہو تو آرام سے بیٹھ سکتے ہو ۔ بہت سے لوگ تمہاری مریدی میں آنا پسند کریں گے!“

تیز دھوپ میں ایندھن کے لیے لکڑیاں کاٹ کر ایک طرف رکھتے سائیں کو دیکھتے خان زادہ شمشیر نے پاس آکرکہا۔سائیں کام سے فارغ ہو کر اپنی مخصوص جگہ آ بیٹھا اور اپنے کندھے پر رکھے رومال سے پسینا صاف کر رہا تھا خان زادہ شمشیر کی آواز پر چونک کر ان کی طرف متوجہ ہوا جو اس کے پاس کھڑے بہت غور سے اسے دیکھ رہے تھے ۔

”آپ یہاں ؟“ سائیں نے حیرت سے سوال کیا۔ یہ خاموش اور الگ تھلگ سا گوشہ اس نعمت خانے کی پچھلی طرف تھا جہاں گھنے برگد کے نیچے بیٹھنا، سامنے کچھ دور بہتی نہر کے پرسکون پانی کو دیکھنا اور وقت گزارنا سائیں کا من پسند مشغلہ تھا۔

” دیکھ لو تمہیں ڈھونڈ ہی لیا میں نے۔“

خان زادہ شمشیر نے شگفتہ لہجے میں کہا اور کچھ فاصلے پر کھڑے ڈرائیور کو واپس جانے کا اشارہ کیا۔ وہ سر جھکا کر چلا گیا ۔

” حیرت ہے ۔ مجھے آج پتا چلا کہ میں گم شدہ ہوں۔“

سائیں نے بھی مُسکرا کر نرمی سے کہا۔ اسے خان زادہ شمشیر کی بزرگی اور بڑھاپے سے دلی ہمدردی تھی جو اس عمر میں بیٹے کی بیماری کی وجہ سے خوار ہو رہے تھے ۔

” تم نے میری بات کا جواب نہیںدیا برخودار! “خان زادہ شمشیر نے رعب جماتے ہوئے پوچھا، تو سائیں ان کے انداز پر زیرلب مُسکرا کر رہ گیا ۔

”مرید، پیروں کے ہوتے ہیں، گدی نشینوں کے! میں تو خاک نشین ہوں صاحب ! میری کیا پیری اور مریدی ہونی ہے۔“

سائیں نے بہتی نہر کے پانی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

” مگر جو فیض تمہارے پاس ہے وہ بھی جھوٹ نہیں ہے سائیں۔ اسے خلقِ خدا کی خدمت کے لیے استعمال کرو! اس میں تمہارا بھی بھلا ہے۔“خان زاد ہ شمشیر نے سنجیدگی سے مشورہ دیا۔

” کیسا فیض خان زادہ صاحب ؟ “ سائیں نے ایکپتھر اٹھا کر نہر میں پھینکا۔ تھوڑا سا پانی اچھلا، بے سکون ہوا اور پھر سے پرسکون ہو کر رواں دواں ، اپنی ڈگر پر چل پڑا۔

”بس ایسا ہی معاملہ ہے میرا بھی! اس ذات کی نظر پڑتی ہے، تو ذرا دیر کے لیے پانی کی طرح اچھلتا ہوں، اوقات سے باہر ہونے سے پہلے ہی وہ ذات اپنے اصل کی طرف لوٹا دیتی ہے ۔بس وہ لمحہ ہوتا ہے جب پانی کی طرح اچھلتا ہوں، تو لوگوں کی نظروں میں آ جاتا ہوں مگر سچ تو یہ ہے کہ بس اس ذات کا کرم ہے جو عزت رکھ لیتا ہے۔

جو عزتوں کا مالک ہے!جو غفار ہے، جو رحیم ہے ‘ جو رحمان ہے ۔وہی تو مالکِ کائنات ہے ، اسی کے سب رنگ ہیں اور میں ٹھہرا بے رنگ ۔ “

سائیں نے عاجزی سے کہا۔

” بے شک!اس میں تو کوئی شک نہیں مگر سائیں یہ فیض بھی تمہیں ہی عطا ہوا ہے ا وریہ فیض بھی شاید اسی عاجزی کی وجہ سے ہے جس دن یہ سب چھوڑ دو گے ، اس فیض سے بھی محروم ہو جاﺅ گے۔“

خان زادہ شمشیر نے نرمی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

سائیں نے گردن گھما کر پاس کھڑے خان زادہ شمشیر کی طرف دیکھا جن کے لمبے چوڑے وجود کے پیچھے سورج چھپ سا گیا تھا ۔

” بس اتنا ہی فرق ہے خان زادہ صاحب۔“ جس طرح اس وقت آپ تپتے سورج اور میرے درمیان حائل ہیں ۔ اسی طرح اس ذات کا کرم ہے جس نے اپنی رحمت کا سایہ فراہم کر دیا ہے ۔ ورنہ تو میرے گناہ اور اعمال سورج کی طرح ہی جلا کر بھسم کر دینے والے ہیں۔

مجھے معلوم تھا یہ سب ، میرا وجدان کہتا تھا ….

اک حادثہ درپیش ہونا ہے ، مجھے درویش ہونا ہے۔“

سائیں نے آنکھیں بند کرتے ہوئے افسردگی سے کہا۔ اس کی آنکھوں کی نمی بند پلکوں پر ٹھہر گئی تھی۔

خان زادہ شمشیر کا دل عجیب سے احساس سے بھر گیا۔

” یہ شخص اس عمر میں بھی عجز و انکسار کا پیکر بنا در در کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہے مگر پھر بھی اپنے کسی عمل یا نیکی پر غرور و تکبر نہیں کرتا۔ بات بات پر جس کی آنکھیں نم ہوتی ہیں، اس کا دل اپنے رب کی رحمت سے لبریز رہتا ہے کیوں کہ آنسو دلوں کو سر سبز و شاداب رکھتے ہیں ۔ بلکہ اسی طرح جیسے بارش مردہ زمین کو نمو دیتی ہے۔آنسو دل کو بنجر اور ویران نہیں ہونے دیتے ۔آنسوﺅں کی بارش ہوتی رہے، تو ان دلوں پر مہر نہیں لگتی۔ یہ آنسو ہی تو ہوتے ہیں جن کی زبان سب سے زیادہ تاثیر رکھتی ہے ۔

آنسوﺅں کی زبان صرف اللہ ہی سمجھ سکتا ہے یا اللہ کے حکم اور کرم سے صرف اللہ والے ….

کوئی کیسے بتا سکتا ہے کہ کون کس حد پر آ کر، کس بے بسی ، کس اذیت کی کند چھری سے ذبح ہو کر بے اختیار ایسے رویا کہ اس کے آنسوﺅں اور رب کی رحمت کے درمیان پھر کوئی پردہ حائل نہیں رہتا۔“

خان زادہ شمشیر کا دل حبس اور گھٹن سے بھر گیا۔ ایسے کہ جیسے کوئی سانس روک رہا ہو۔

”اچانک ، ننھے پاﺅں اور کسی بچے کے رونے کی آواز ان کے اعصاب پر سوا ر ہونے لگی ۔ خود پر باندھے بند ٹوٹنے لگے۔ اپنے گناہ کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے اب وہ خود تھکنے لگے تھے۔ ساری عمر تو گزر گئی تھی۔ اس کا بوجھ اٹھاتے اور خو د سے بھاگتے ، ہوئے ۔“

اب رکنے کو دل کرتا تھا ۔ کسی کے کندھے پر سر رکھ کر بے تحاشا رونے کو۔

کوئی اللہ والا ایسا ملے جو دکھ کی بوجھل پوٹلی ہلکی کردے۔

جو انھیں یقین دلا دے کہ اللہ کی رحمت ان سے دور نہیں ہے۔

وہ ذات معاف کر دے گی۔

اگر توبہ سچے دل سے کی جائے۔

آج شدت سے ان کے دل نے خواہش کی تھی کہ نور بانو کی طرح وہ بھی اپنا دل کسی کے سامنے کھول کر رو سکیں۔

بتا سکیں کہ وہ بھی پچھتاوے کی آگ میں جل رہے ہیں۔ راتوں کو کسی کے رونے کی آواز سونے نہیں دیتی ۔ مختلف وہم انہیں ستاتے رہتے ہیں۔

ایسے جیسے کوئی کُند چھری سے انھیں روز ذبح کرتا ہے مگر وہ مرتے نہیں تھے۔

پل پل کی یہ اذیت اور تکلیف ان کے لیےموت سے زیادہ خوفناک اور ناقابل برداشت تھی۔

وہ اندر سے کمزور ہو کر ٹوٹ رہے تھے۔

یا ٹوٹ چکے تھے ۔اسی ٹوٹتی دیوار نے سہارا لیا بھی تو کس کا۔

سائیں کے کندھوں کا۔

جو خود میں گم شدہ جزیرے کی طرح تھا۔

”سب کے نامہ اعمال میں کوئی نہ کوئی ایسا گناہ ، ایسی خطا ضرور ہوتی ہے جو ہمیشہ کانٹے کی طرح دل میں چبھتی ، تکلیف دیتی اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے۔“

خان زادہ شمشیر نے افسردگی سے سر جھکا کر کہا اور سائیں کے کندھے کا سہارا لیتے ہوئے اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئے ۔ سائیں نے بہت غور سے جھکے کندھے ، چہرے پر ملال لیے ،پروقار شخصیت کے مالک کو دیکھا ۔ ان کا سفید لباس اور سفید ڈاڑھی پاکیزگی کی علامت لگتے تھے مگر ان کی آنکھوں میں پھیلا حزن وملال ،ان کے اندرونی طوفان کی خبر دیتا تھا ۔

” کوئی دکھ ہے؟“

سائیں نے بے اختیار ہمدردی سے پوچھا۔

” نہیں پچھتاوا، ندامت …. جاننا چاہو گے؟“

خان زادہ شمشیر نے امید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔

” نہیں….!“ سائیں نے نفی میں سر ہلا یا۔

خان زادہ شمشیر کے چہرے پر ایک دم تاریکی چھا گئی۔ ایسے جیسے تیز آندھی میں ان کی امید کاچراغ اچانک بجھ جائے ۔

”اچھا۔“

خان زادہ شمشیر نے گہری سانس لی۔

”کسی کے راز کا بوجھ اٹھا نا بہت مشکل ہوتا ہے اور میں تو پہلے ہی سے مشکل میں ہوں۔“

سائیں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے تفصیل سے کہا۔

” مگر نہ جانے کیوں میراد ل کہتا ہے کہ صرف تم ہی اس راز کا بوجھ اٹھا سکتے ہو۔ میرا بوجھ بانٹ سکتے ہو۔

نہ جانے تمہیں دیکھ کر کیوں آج خود سے ہم کلام ہونے کو دل کیا۔ تم میں ایسا کیا وصف ہے کہ تمہارے سامنے سب درد رونے، دکھ بتانے کو دل کرتا ہے۔

”آخر کیوں؟“

”شاید اس لیے کہ میری آنکھوں نے وہ معجزہ دیکھا ہے جو صرف نا ممکنات میں سے تھا۔“

خان زادہ شمشیر کی آنکھوں میں ایک احساس کی بے تحاشا چمک تھی ۔اب کی بار سائیں نے چونک کر ان کے چہرے کی طرف دیکھا۔

کاسئہ ذات ہوں

تیری خیرات ہوں

تُو سخی ، میں گدا

تُو کجا….

من کجا….

٭….٭….٭

” تم یہاں بھی پہنچ گئے؟“

الحمرا آرٹ کلچر میں ہونے والی بہت بڑے لیول پر ینگ آرٹسٹ نمائش کا آج آخری دن تھا۔ ایڈم نے طلبہ وطالبات کے کام کو بہت سراہا تھا۔ پاکستان میں نئے ابھرتے ٹیلنٹ نے اسے دنگ کر دیا تھا۔ وہ اس ےنگ آرٹسٹ نمائش میں اپنے کچھ دوستوں کے اصرار کرنے پر بہ طور خاص شرکت کرنے آیا تھا ۔یہاں آنے کے لیے اس نے اپنے حلیے میں کافی تبدیلی کی تھی تاکہ عام لوگ اسے پہچان نہ سکیں اور اس کے پیچھے نہ پڑ جائیں ۔وہ لوگوں میں پاپولر تھا ۔ شہرت نے اسے سب میں مقبول بنا دیا تھا۔ دولت کی کمی اسے پہلے بھی نہیں تھی ۔

مگر یہاں کام کرنے سے وہ دلی طور پر مطمئن تھا۔ وہ مشہور ڈائریکٹر بھی تھا اور پروڈیوسر بھی۔ اس نے فیشن ڈیزائنگ میں بھی قدم رکھ لیا تھا اور ماڈلنگ میں بھی۔ اس لیے اس کا زیادہ وقت امریکا کے بجائے یہاں گزرنے لگا تھا یہ سب شہرام کہ وجہ سے تھا اگر ایڈم کو اس کا مخلص ساتھ اور دوستی نہ ملتی، تو شاید اس کا اتنی آسانی سے یہاں ایڈجسٹ ہونا ممکن نہیں تھا۔

” ہمیں ضرور اس نئے آئیڈیا پر کام کرنا چاہیے۔“

Loading

Read Previous

انگار ہستی

Read Next

داستانِ حیات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!