تو ہی تو کا عالم

” او نو…. اور میں سمجھتا رہا کہ تم ایک فراڈ ہو۔کیا تمہیں عجیب نہیں لگتا کہ کہاں تم اور کہاں تمہارا بیٹا۔“ آدم نے سوال کیا۔

” تم ایک سوال ہی کیوں گھما پھرا کر کرتے ہو ۔اسے جو رنگ اپنے اندر نظرآ یا اس نے وہ چن لیا۔ فقیری ، سب کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ یہ صرف اس کی نظر اور رضا سے ملتی ہے۔“ ملنگ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہا۔آدم نے بھی طنزیہ نظروں سے اوپر کی طرف دیکھا۔

” وہ جو کچھ بھی نہیں دیتا۔“

” ایک وہ ہی تو سب کچھ دیتا ہے۔“ ملنگ نے اتنے یقین سے کہا کہ آدم غصے سے پھٹ پڑا۔

” کیا دیتا ہے وہ ؟صرف لینا جانتا ہے وہ ۔ دکھ دیتا ہے، تکلیف دیتا ہے اور بس۔ “ آدم کہتے کہتے دکھ کی رو میں بہتا چلا گیا ۔ سب کچھ کہہ ڈالا اس نے۔ جب وہ خاموش ہو،ا تو ملنگ نے نرمی سے کہا۔

” اتنا کچھ تو تجھے بن مانگے دیا اُس نے ۔ تُو نے کبھی مانگا خود سے بھی؟“

” وہ کیسے ؟“ آدم حیران ہوا تھا۔ا سے امید تھی کہ سب کی طرح وہ بھی ا سے ہی مظلوم اور دکھی سمجھے گا۔

” خود دیکھ لے۔ تُو کہاں پیدا ہوا اور کن ہاتھوں میں تو نے پرورش پائی ۔ تیرے ابا کے دل میں، اس نے تیرے لیے محبت ڈالی، نہیں تو خود سوچ، کوئی کسی دوسرے کے بچے سے بھی اتنی محبت کرتا ہے اور وہ بھی ایسا بچہ جسے ہمارے معاشرہ کبھی قبول ہی نہیں کرتا۔ توُ عام لوگوں کی طرح زندگی سسک سسک کر بھی گزار سکتا تھا یا تیرے قبیلے کے لوگوں کی طرح ناچ کر یا بھیک مانگ کر بھی، مگر تجھے اس نے ان سب سے محفوظ رکھا چاہے جیسے بھی۔ نہ وہ لڑکی تیری زندگی میں پھانس بن کر آتی اور نہ تیر ا باہر جا کر پڑھنے کا بہانہ بنتا۔ سوچ بھلا ،ا س غیر مذہب کی عورت کو صرف تجھ سے ہی کیوں ہمدردی ہوئی ؟ جبکہ تجھ سے زیادہ مظلوم اور قابل رحم لوگ بھی اس کے آس پاس موجود تھے۔ اس لیے کہ یہ بھی اس ذات کا حکم تھا۔

پھر دیار غیر میں تجھے بہتر سے بہتر مواقع ملے ۔ اگر تیری زندگی میں کوئی سخت پل آیا بھی تو ، توُ محفوظ رہا۔ تجھے سنبھالنے والے بہت سے نہیں تو، ایک یا دو لوگ ضرور موجود رہتے تھے۔ زندگی میں کیا نہیں ہے تیرے پاس۔ کیا توُ نے کبھی اس پر شکر ادا کیا ؟ نہیں نا۔ پھر شکوہ کرنے میں پہل کیوں کرتا ہے۔ جب توُ اس کی دی نعمتوں کا شکرادا نہیں کر سکتا، تو غم بانٹنے کس منہ سے آ جاتا ہے۔“ ملنگ کی باتوں نے اسے ایسا آئینہ دکھایا تھا کہ وہ کتنی ہی دیر کچھ بول ہی نہیں سکا اور وہ خاموشی سے وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔ پھر کئی دن نہیں آیا ۔جب آیا، تو پتا چلا کہ وہ سب لوگ ، کسی بزرگ کے عرس پر قریبی آبادی میں گئے ہوئے تھے ۔ آدم وہاں پہنچا، تو رنگ محفل عروج پر تھی ۔ دھما ل دیکھ کر اس کے رگ وپے میں ایک آگ سی جلنے لگی، مگر وہ ابھی ” ہوں اور نہ ہوں “ کے درمیان معلق تھا۔ اس کے قدموں نے رقص کے بے شمار رنگ دیکھے اور چھوڑے تھے، مگر یہ کچھ الگ تھا ۔ اس میں جو کیفیت تھی ، وہ اسے اپنے کسی رقص میں کبھی نظر نہیں آئی تھی۔

”ڈرتا کیوں ہے ؟ آجا ۔اس کوچے میں سب رنگ ایک سے ہی ہیں۔ نہ تو تیری جینز ، شرٹس کی کوئی اہمیت ہو اور نہ میرے چولے کی۔ جب عشق قدموں کو مست کرتا ہے ، تو جسم نہیں ، روح محو رقص ہوتی ہے اور روح کا لبا س ایک ہی رنگ کا ہے ۔ جب اس نقطے کو سمجھ لے گا، اپنے اندر کے رنگ کو بھی پہچان لے گا۔ پھر تیرا سفر دنوں میں نہیں لمحوں میں طے ہو گا۔“ملنگ نے اس سے کہا، تو وہ سر جھٹک کر رہ گیا۔

” مجھ سے یہ نہیں ہو گا کبھی بھی۔“ آدم نے مایوسی سے ان کی طرف دیکھا اور واپس پلٹ گیا۔پھر وہ کچھ عرصے کے لیے امریکا چلا گیا ۔ وہاں جا کر بھی وہ فارینہ کو بھول پایا او رنہ پہلے کی طرح اپنی روٹین کا عادی ہو سکا۔ وہ دوبارہ پلٹ آیا،مگر اب کی بار وہ کچھ سوچ کر ہی آیاتھا۔

” مجھے لگتا ہے کہ میرے اندر کی خاموشی میں کوئی آواز گونجتی ہے مگر کس کی ؟ یہ میں نہیں جان سکا۔“ آدم کے چہرے اور لہجے میں صدیوں کی تکان تھی۔

”جان جاﺅ گے! ابھی وقت ہی کتنا ہوا ہے ۔یہاں تو صدیاں ایسے ہی گزر جاتی ہیں، مگر اندر سے کوئی آواز نہیں آتی۔“ ملنگ کے لفظوں میں ہمیشہ یقین بولتا تھا ۔ اسی طرح آدم آتا اور جاتا رہا، مگر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قاصر رہا۔ جیسے اس کی کشمکش بڑھتی ہی جا رہی تھی۔

ایک دن آدم آیا، تو بہت ٹوٹا ہو اتھا۔

”وہ کہتی ہے میں اس کی محبت کی خاطر رک جاﺅں، مگر میں رک جاﺅں بھی تو، اسے نہیں پا سکتا۔“ وہ کچی مٹی پر بیٹھا ، گھٹنوں میں سر دیے رو رہا تھا۔

” تمہیں تو خوش ہونا چاہیے ! بالآخر تمہاری محبت نے اسے جھکنے پر مجبور کر دیا ہے اور کیا چاہیے تمہیں ۔“ ملنگ نے بے پروائی سے کہا۔

” میری محبت اس سے ہمیشہ بے غرض رہی ہے۔ صرف اس کی ایک مہربان نظر، ایک اپنائیت بھری مسکراہٹ کے لیے ترسا ہوں، مجھے ساری دنیا ٹھکرائے ، ذلیل کرے ، مجھے فرق نہیں پڑتا ،مگر مجھے ساری دنیا میں صرف ایک ” وہ“ ٹھکرائے ، مجھ سے نفرت کرے ، مجھے حقیر سمجھے ، مجھے فرق پڑتا ہے۔اس کا مجھے دیکھنا، میری خوش بختی ہے اور اس کا مجھ سے منہ پھیرنا ، میری کم نصیبی۔

”سب کو معلوم ہے میں ہوں اُس کا

آئینہ ہو رہا ہے فسوں اُس کا

وہ مجھے دیکھتا رہے اور میں

دیکھنا، دیکھتا رہوں اُس کا

مجھ میں اک شخص مرنے والا ہے

کوئی بتلائے کیا کروں اُس کا

میرے سینے کا زخم دیکھو تم

دیکھنا ہے اگر جنوں اُس کا

میں کبھی بات کر سکوں اس کی

میں کبھی نام لے سکوں اُس کا….“

آدم کی آواز میں بہتے لفظوں نے ہر طرف ایک سوز پیدا کر دیا تھا۔

” اُس کے ساتھ سودا کر لے۔“ ملنگ نے سوچتے ہوئے کہا، تو آدم خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھتا رہ گیا۔

” کس سے ؟“ آدم نے ناسمجھی سے پوچھا ، تو ملنگ نے اوپر کی طرف انگلی اٹھا کر کہا۔

” اُس سے ! جس کا سودا سب سے کھرا ہے !حساب، کتاب میں پکا، مگر اپنے بندوں کے معاملے میں درگزر اور شفقت سے کام لینے والا، اس سے کر لے اپنی چاہت کا سودا۔اپنی چاہت اسے سونپ دے اور اس کی چاہت ، اپنی چاہت بنا لے۔ بس اتنا سا کام ہے۔“

”میں کچھ سمجھا نہیں؟“ آدم کی آنکھوں میں واضح الجھن تھی ۔ملنگ نے ہاتھ میں پکڑے ڈنڈے کو زمین پر کھڑا کیا اور اس پر اپنی ٹھوڑی اٹکاتے ہوئے کہا۔



” تم اُسے ”یہاں“ دنیا میں دے دو اور ” و ہاں “ آخرت میں لے لینا۔“ ملنگ کی بات پر آدم کتنی ہی دیر اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔

” یہ کیسے ممکن ہے ؟“اس کی آواز کھوئی کھوئی سی تھی۔

” اُسے راضی کر لو! جس نے یہ محبت تمہارے دل میں ڈالی ہے جس کا وعدہ ، سچا وعدہ ہے ، جو اپنے وعدے سے نہیں مکرتا۔“

” وہ کیسے راضی ہو گا؟“ اس کے لہجے میں تجسس تھا۔

” سب سے آسان اور محبوب راستہ جو اس کی مخلوق سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر ، اُس کے پیارے ، محبوب محمد ﷺ کے نقشِ پا ہیں ، جس پر اس کی پیروکار چلتے آئیں ہیں اور چلتے رہیں گے۔ اسی راستے پر آنکھیں بند کر کے چلا جا۔ تیری نیا پار لگ جائے گی۔“ملنگ کی بات سن کر آدم نے آنکھیں بند کر لیں۔

” میں دنیا کا طالب ہوں اور تم مجھے ترک دنیا کا سبق دے رہے ہو۔میں محبت مانگتا ہوں اور تم مجھے روحانیت سکھا رہے ہو۔ “ آدم کا لہجہ تلخ تھا ۔ملنگ ہنس پڑا۔

” یہی تو تم عقل کے دعوے داروں کی سب سے بڑی بھول ہے۔ اس ذات کو تمہارے سجدوں، عبادتوں ، پرہیز گاری سے کچھ نہیں لینا دینا۔ اس ذات نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ، ایک مقرر وقت کے لیے ۔ یہ سب کچھ اُس نے اپنے محبوب ﷺکے صدقے دیا ہے ، اس لیے کہ اُس کے محبوبﷺ کو اپنی امت سے محبت ہے اور اُسے، اپنے محبوب کی محبت سے محبت ہے۔ سارا کھیل ہی اس چاہ اور محبت کا ہے۔ ایک محبت دوسری محبت کے لیے دروازہ کھولتی ہے، محبت خیر ہے، خیر بانٹتی ہے ، خیر بنتی ہے ،جیسے خدا بخش کی تجھ سے محبت، اس کے بال بچوں کے لیے، خیر کا باعث بنی ۔ ویسے شاید تم کبھی بھی اس کی بیوی اور بچوں کے لیے کچھ نہ کرتے، مگر خدابخش کی ان سے محبت اور رشتے نے تمہیں بھی ان سے باندھ کر رکھ دیا ہے۔ دنیا کی ہر محبت ، دوسری محبت سے ایک ڈور کی طرح بندھی ہوتی ہے، کڑی در کڑی جڑی ہوتی ہے، اسی سے ملتے ملتے ، جڑتے جڑتے اس نے اپنے مقام تک آنا ہو تا ہے جیسے ایک گہرے کنویں میں سے پانی نکالنے کے لیے رسی بھی اتنی ہی دراز چاہیے ہوتی ہے، تب جا کر ٹھنڈا، میٹھا پانی نصیب ہوتا ہے، تجھے بھی صرف وہ رسی ، وہ ڈور بنانی ہے ، جو تیری محبت کو تجھ تک لائے گی۔ ہاں یہ تیری قسمت کہ تجھے اس میں بہت زیادہ صبر اور برداشت سے کام لینا پڑے گا کہ آبِ حیات آسانی سے نہیں ملتا۔“

اسی وقت ڈھول کی ہلکی ہلکی آواز فضا میں گونجنے لگی، کسی خوشی میں بستی کے لوگ جھومنے لگے تھے۔ ملنگوں کے پاﺅں میں بندھے گھنگھرو کی جھنکار اور ڈھول کی تھاپ بہت انوکھا ساز پیدا کر رہی تھی۔ آدم کے ساتھ بیٹھے ملنگ کی آنکھوں میں چمک ابھری اور وہ آدم کی طرف دیکھتے ہوئے مُسکرایا ، پھر اپنی جگہ سے اُٹھا اور آہستہ آہستہ پا ﺅں زمیں پر مارتا ، آدم کے طرف دیکھ کر سر میں گُنگنایا۔

”بڑا عشق، عشق تُوں کرنا اے

کدی عشق دا گُنجل کھول تے سعی

تینوں مٹی وچ نہ رول دیوے

دو پیار دے بول، بول تے سعی

سُکھ گھٹ تے، درد ہزار ملن

کدی عشق نوں تکڑی، تول تے سعی

تیری ہسدی اکھ وی پجھ جاوے

کدی اندروں سانوں، پھرول تو سعی

 ( میاں وارث شاہ)

ملنگ کے تیز ہوتے قدم مٹی اڑانے لگے۔ اُڑتی دھول میں وہ عکس بنتا گیا اور جب دھول بیٹھی تو ، جہاں آدم بیٹھا ہوا تھا ، وہ جگہ خالی تھی ۔

٭….٭….٭

” آپ کی وصیت کے مطابق ، آپ کی ساری پراپرٹی ، سیونگ ، بینک بیلنس ، سب کچھ ، مختلف ، ٹرسٹ اور اداروں میں تقسیم کر دیا گیا ہے ۔ بس یہ فلیٹ رہ گیا ہے ، جو آپ کی ہدایت کے مطابق ، آپ کے یہاں سے جاتے ہی ، ایک ٹرسٹ کو دے دیا جائے گا۔“

اس نے سر ہلا کر سب سنا اور اسے وہاں سے جانے کا اشارہ کیا ۔ کچھ دن پہلے وہ اپنے سارے اسٹاف کو فارغ کر چکا تھا ۔ آج اس کا سیکرٹری بھی اپنا آخری کام ختم کر کے جا رہا تھا۔ پاکستان آنے کے بعد وہ مسلسل ایک سوچ کا شکا ر رہا تھا۔ چھے مہینے لگے اسے یہ فیصلہ کرتے ہوئے ۔ پھر اس نے تیزی سے عمل شروع کر دیا۔ وہ جتنی بھی کوشش کرتا ، جتنی بھی ہمت دکھاتا، گھوم پھر کر پہلے نقطے پر ہی پہنچ جاتا تھا ۔ دنیا کی ہر نعمت ، ہر چیز اس کی اختیار میں تھی مگر یہ سب وہ تھا جو اس نے ایک بہروپ دھار کر حاصل کیا تھا ۔ آج کوئی بھی اس سچ کو جان لے، تو اسے حقیر سمجھ کر ، نفرت کی نگاہ ہی سے دیکھے یہی تو اصل مسئلہ ہے ۔ آپ دنیا سے جھوٹ بول سکتے ہیں، دنیا کو دھوکا دے سکتے ہیں، مگر نہ ہی خود سے جھوٹ بول سکتے ہیں اور نہ خود کو دھوکا دے سکتے ہیں۔ وہ ہار تو بہت پہلے ہی چکا تھا ، مگر اپنی ہار تسلیم نہیں کر رہا تھا۔اس نے ہمیشہ دنیا میں جسموں کا بازار لگتے اور بکتے دیکھا تھا ، اس لیے تو ان سب میں وہ کھوٹے سکے یا کوڑی کی طرح تھا۔ اسے اصل سودے کی تلاش تھی۔ اصل رنگ کی ۔ جو اسے بغیر کسی تضحیک اور نفرت کے ، خود میں ایسے سمیٹ لے جیسے وہ اسی کا حصہ ہو۔ اس نے اپنا بہت سا وقت ، مختلف ، اسکالرز کی محفلوں اور مساجد میں بیٹھ کر گزارا۔سب کی باتیں سنتا ، سوال پر سوال کرتا ، اپنی تلاش کا سفر کرتا رہا۔ جب اس نے سنا کہ ”پیارے نبی ﷺ کے ایک صحابیؓ بھی خواجہ سرا تھے مگر ان کا مقام اور عزت کسی بھی طرح دوسرے صحابہؓ سے کم نہیں تھی ۔“ اس دن اسے لگا یہ ہی وہ اصل رنگ ہے جس کی تلاش میں وہ مدتوں بھٹکتا رہا تھا ۔ اس نے جائز اور ناجائز ہر راستہ اپنایا تھا ، مگر اس کا حاصل پھر بھی کچھ نہیں تھا۔ اس نے سیرةالنبیﷺ کا مطالعہ شروع کیا ۔بہت سے اسلامی اسکالرز سے رابطہ کرنے کے ساتھ ساتھ ، نیٹ ، پر ان کے بیان سنتا رہتا ۔وہ عقل و دانش رکھتا تھا، استدلال اور منطق سے کام لیتا تھا ،وہ جانچ رہا تھا ، تجربہ کر رہا تھا ، اپنے شعور کی لیباٹری میں ، سب پرکھا، سب دیکھا ، سب سنا۔ پھر وہ ایک نتیجے پر پہنچا۔

” کوئی کتنا بھی اعلیٰ ہو ، کتنا بھی طاقتور ، ذہین ہو ، خوب صورت یا حسن کا شاہ کار ہو۔ سب کی ابتدا مٹی ہے اور سب کا اختتام بھی مٹی ہے۔ مٹی جو خام ہے اور مٹی ، مٹی میں ہی مل جاتی ہے جسم فنا ہو جاتے ہیں ، اگر کسی چیز کو دوام حاصل ہے تو وہ روح کو ہے ۔ روح جو خالص ہے، جو جسم میں ایک مقرر وقت کے لیے پھونکی گئی ہے اور روح کو خالص رکھنا ہی اصل مقصدِ حیات ہے۔ جسم مرد ، عورت ،خواجہ سرا ہوسکتا ہے ۔ وہ جسم کو بخشا ہوا، اس رب کا دیا ہوا لباس یا فیصلہ ہے ، مگر روح کو اس لیبل کی ضرورت نہیں ہے اور اس کائنات کا سب سے بڑا سچ ، جو وہ جان گیا تھا کہ

” اللہ جسموں سے نہیں روح سے محبت کرتا ہے۔“

یعنی کوئی انسان جو اپنے عمل، نیت اور سوچ میں جتنا بھی خالص ہو گا، وہ اس کے اتنا ہی قریب ہو گا اور جسم سے لیا جانے والا ہر اچھا ، برا عمل ہی روح کو خالص یا آلودہ بناتا ہے۔ جسم کے بازار میں تو وہ بے مول ٹھہرا تھا۔ اسی لیے دنیا میں اپنی محبت سے محروم رہا ، مگر عالم ِ ارواح میں وہ اپنے عمل اور نیت سے اپنی روح کو خالص اور پاک بنا سکتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ زمین پر نہ ہونے والا ملن ، اس جہاں میں روحوں کے خالص پن پر انحصار کرتا ہو اور اگر اپنی کوتاہی سے وہ اس میں بھی پیچھے رہ گیا تو….

آدم نے اپنے اندر کے اصل رنگ کو پہچان لیا اور پھر اسے فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگی ۔ اس نے جائز اور ناجائز طریقے سے کمائی ، سب دولت بانٹ دی ۔ وہاں سے وائنڈ اپ کرنے میں اسے تقریباً دس ماہ کا عرصہ لگا ، پھر وہ بیمار ہو گیا اور کچھ عرصہ زیر علاج رہا ۔ جب وہ ایک سال بعد پاکستان آیا، تو سیدھا اسی ملنگ کے ڈیرے پر گیا۔

” مجھے یقین تھا ۔ تم ضرور آﺅ گے ۔“ ملنگ نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا۔

” ہاں !اس لیے کہ میں نے اپنے اندر کا رنگ پہچان لیا ہے ۔“ آدم نے مطمئن انداز میں کہا ۔

” اچھا کون سا رنگ ہے تیرا۔“ ملنگ نے دلچسپی سے پوچھا۔

” لال رنگ! محبت سے بنا ہوا ، عشق کا لال رنگ۔“ آدم نے کہا، تو ملنگ اسے دیکھتا رہ گیا۔

” بہت مشکل رنگ ہے یہ تو۔ فنا کر دے گا۔اپنے رنگ میں ایسے ہی نہیں رنگتا یہ رنگ۔ کوئی اور دیکھ لے۔ ابھی تو ابتدا ہے۔ “ ملنگ نے ہمدردی سے کہا۔

” آپ نے ایک بار کہا تھا کہ بھلا رنگ بھی کوئی خود سے چنتا ہے۔یہ تو عطا کی بات ہے۔“ آدم نے نرمی سے کہا، تو ملنگ مُسکرا دیا ۔

” لہجے میں یہ تبدیلی کیسی؟ میں ” تُو“ سے ”آپ “ کیسے ہو گیا؟“ ملنگ کا انداز چلبلاسا تھا۔

” مرشد مان لیا ہے آپ کو۔آپ نے کہا تھا ، اُس ذات سے سودا کر لو۔ میں نے کر لیا۔“ آدم نے اطمینان سے جواب دیا۔

” میرا مرید بننا ہے، تو دھمال ڈالنی پڑے گی اور تجھے یہ کام نہیں آتا۔“ ملنگ نے اسے ٹالنا چاہا۔

” کوئی بات نہیں۔ آپ سیکھا دیں ۔ میں سیکھ لوں گا۔نکما ہی سہی مگر کام دل لگا کر کرتا ہوں۔“ آدم نے مودبانہ انداز میں کہا ۔

” گھنگھرو بھی باندھنے پڑیں گے۔ بول منظور ہے۔“ ملنگ اسے آزما رہا تھا ۔

” جو حکم !“ آدم نے سر جھکا کر کہا ، تو ملنگ نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا ۔ اس نے گھنگھرو کی ایک جوڑی اس کی طرف بڑھائی ۔ جسے آدم نے فوراً ہی تھام کر پہن لیا۔

” چل آ میں سکھاﺅں تجھے ، دھما ل کیسے ڈالتے ہیں۔“ ملنگ اپنی جگہ سے اٹھا ۔ آدم غور سے اسے دیکھنے لگا ۔

” دلبرا! رقص کر….

رقص کر مرے دل کی سر زمین پہ

نگاہوں پہ اپنا بدن عکس کر

رقص کر….“

آدم اپنی جگہ سے اٹھا ، جیسے وہ کسی ٹرانس کی حالت میں ہو اور اس کے قدم بھی خودہی آہستہ آہستہ اٹھنے لگے ۔

” میرے سارے ارادوں کو گھنگھرو بنا

میری ساری اناﺅں کو پازیب کر

فرشِ دل ، جس کو

ہم جانتے تھے کبھی عرشِ دل!

اپنے پنجوں سے روند

ایڑیوں سے دبا

دھول اتنی اڑا

مجھے تیرے سوا

کچھ دکھائی نہ دے ،کچھ سجھائی نہ دے

مجھے مصلوب کر ، مجھے مجذوب کر

میری ” میں “ مار دے

مجھے بے نقص کر

دلبرا ….! رقص کر ….

عشق کے قدموں نے دھول اڑائی ، تو اس سے ایک ہی چہرہ بنا ، اس نے عشق کا جام لبوں سے لگا کر دنیا کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں تھیں مگر بند آنکھوں میں بھی صرف ” تُو ہی تُو کا عالم“ رہا۔یہی تو اس کے عشق کی معراج تھی۔آدم نے کچھ مہینے ملنگ کی مریدی میں گزارے۔ پھر اسے وہاں سے کوچ کرنے کا حکم مل گیا ۔



” زندگی ، پیری ، مریدی ، جوگ ، سوگ میں گزارنے کے لیے نہیں بنی ہے ۔ یہ وہ سلسلہ ہے جسے آگے سے آگے چلنا ہوتا ہے ، ورنہ اسے بھی کائی لگتے دیر نہیں لگتی۔ اپنے وجود ، اپنے جسم ، کی زکوٰة دو، اسے انسانیت کے لیے خیر بنا کر اپنی روح کی اگلی منزل آسان بناﺅ کہ یہ صرف پڑاﺅ کی جگہ ہے۔ اصل سفر تومرنے کے بعد شروع ہونا ہے۔“

ملنگ نے اسے سمجھایا۔ آدم نے رخت ِ سفر باندھا اور ان جانی منزلوں کا مسافر بن گیا۔ وہ جہاں بھی جاتا، اسے مختلف حالات و واقعات کا سامنا کر نا پڑتا۔ کہیں اسے مہربان لوگ ملتے ، کہیں اسے لوگوں کے برے رویے دیکھنے پڑتے، کہیں وہ مشکوک ٹھہرتا۔ اس دوران وہ بہت سی جگہوں پر کچھ عرصہ رہتا، جو بھی کام ملتا، خوشی سے کرتا، مگر کسی سے مانگ کر نہیں کھاتا تھا یا وہ خیرات وغیرہ نہیں لیتا تھا۔ وہ غیرت مند تھا خود کما کر کھاتا، چاہے ایک وقت کی روٹی ملتی، اس نے رزقِ حلال کا مزہ اب چکھا تھا۔ وہ انسانیت کی مدد اور خدمت کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا۔ جب وہ دیکھتا کہ اب وہاں اس کی ضرورت نہیں رہی تو خاموشی سے آگے بڑھ جاتا۔وہ دنیا کی محبت سے ، اس رب کے عشق کی طر ف بڑھا تھا جو اپنی خوبیوں اور صفات میں یکتا تھا ۔اس کی فقیرانہ روش اور ولیوں والی صفات نے اسے ” سائیں “ کے نام سے مشہور کر دیا تھا ۔ لوگ اسے دیکھتے اور وہ اپنے دل میں ” اسے “ دیکھتا تھا جس کا نشہ ، جس کا عالم ، اس میں آباد رہتا تھا۔

کبھی دیکھا ہے تُو نے، عشق میں وجدان کا عالم

بس تُو ہی تُو ، تُو ہی تُو اور تُو ہی تُو کا عالم!

اس دور دراز علاقے میں بھی وہ ایک مسافر کی طرح ہی آیا تھا، مگر کچھ عرصے میں وہ لوگوں میں مشہور ہو نے لگا ۔ اس کا ارادہ بہت جلد یہاں سے آگے بڑھ جانے کا تھا ، مگر رضیہ کے ساتھ ہونے والے حادثے نے اسے ایک نئی سوچ اور ذمہ داری عطا کی ۔ اس نے بے سہارا عورتوں اور بچوں کے لیے پرانے مزار کے ٹوٹے اور ویران حصے میں رہائش کا بندوبست کیا تھا ۔ پہلے پہل اس نے یہ وقتی طور پر سوچا مگر کچھ ہی دنوں میں وہاں آنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ۔ وہ سب اس کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھتی تھیں۔ دنیا میں عزت کی چادر تلے رہنا چاہتی تھیں ۔ انہیں سائیں پر اندھا اعتما د تھا کہ اس کے زیر سایہ وہ محفوظ ہیں ۔ ان کی عزتیں معاشرے کے بھیڑیوں سے بچی ہوئی ہیں۔ سائیں اس یقین پر بہت پریشان ہوا، مگر وہ اس طرح انہیں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا۔ ثریا بی بی کے مسئلے کی ذمہ داری بھی اس پر تھی ۔ وہ ایک عورت کو دوبارہ سے ، بے یارومدد گار نہیں چھوڑ سکتا تھا ۔ انہی باتوں نے اس کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دیں۔

وہ ابھی علی یار او رکچھ لوگوں کی مدد سے ، ان مسئلوں سے نمٹ رہا تھا ، جب بھیس بدل کر فارینہ اس مزار پر چلی آئی اور اس نے عورتوں والے حصے میں رہائش اختیار کر لی ۔اس نے سب کو اپنا نام موہنی بتایا ۔پہلے پہل سائیں کو پتا نہیں چلا مگر گھونگٹ میں ہونے کے باوجود وہ اسے پہلی بار دیکھتے ہی پہچان گیا تھا اور سخت آگ بگولا ہوا، مگر وہ چکنا گھڑ ابن کر سنتی رہی اور اس نے اسے دھمکی دی کہ اگر وہ یہاں سے چلا جائے گا تو وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے آتی رہے گی۔ چاہے اس کے ساتھ کچھ بھی ہو۔ آدم جانتا تھا کہ وہ کتنی ضدی ہے مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے لیے یہ جگہ بھی محفوظ نہیں ہے۔اس نے فارینہ کو مسلسل نظرانداز کرنا شروع کر دیا، مگر اس نے علی یار کو، اس کے بارے میں بتا کر درخواست کی تھی کہ اس کی غیر موجودگی میں، اس کا خیال ضرور رکھے ۔ علی یار سے اس نے وعدہ لیا تھا، مگر یہ بات دونوں کے درمیان راز تھی۔ علی یار کی توجہ اور فکر کا پینو نے غلط مطلب نکالا تھا۔ علی یارنے فارینہ کو ہمیشہ یہی کہا کہ وہ سب عورتوں کی نگرانی اسی طرح کرتا ہے مگر یہ بھی سچ تھا کہ وہ فارینہ کے لیے ہر وقت چوکس رہتا تھا ۔اس لیے کہ وہ سائیں کو اپنا مرشد مانتا اور سمجھتا تھا۔

اس کی بات وہ نہیں ٹال سکتا تھا ۔سائیں کے لیے دوسری بیڑی وہ بنی جب اسے حادثاتی طور پر پتا چلا کہ اس کے والدین کون ہیں © ؟ خدا بخش نے اسے ساری تفصیل تو بتائی ہوئی تھی مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ خود اس کے پاس ، دعا کی درخواست لیے پہنچ جائیں گے، مگر جب اس نے خان زادہ شمشیر کے منہ سے ساری تفصیل سنی تو وہ ان سے ملنے خود کو روک نہیں پایا۔ نوربانو کے جذبات بھی اس سے الگ نہیں تھے ۔ ان کا دل بھی خود بہ خود اس کی طرف کھنچتا تھا۔ پھر جب نوربانو نے اس سے وعدہ لیا، تو کو خود کو چاہتے ہوئے بھی روک نہیں پایا۔ وہ ایک بار اس حویلی میں جانا چاہتا تھا ، اس جگہ کو دیکھنا چاہتا تھا جہاں اس نے کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی مگر سانسیں تو لی تھیں، مگر فارینہ کا فکر اور خیال اسے بار بار روک رہا تھا ۔ وہ بے وقوف لڑکی ، ایک گھونگٹ کی آڑ میں دنیا سے اپنا حسن چھپا رہی تھی۔ جب کہ وہ جانتا تھا کہ یہ زیادہ عرصے تک ممکن نہیں رہے گا۔ فارینہ نے اپنے اندر کے پچھتاوے کی وجہ سے جوگن بننے کا فیصلہ کیا تھا، مگر اُسے اندازہ تھا کہ وہ بہت جلد اس راہ میں تھک جائے گی۔ ابھی اس کی ضد ، اسے سہارا دے رہی تھی مگر آخر کب تک۔ اس سے پہلے کہ وہ ٹوٹ جائے، غلط سمت میں نکل جائے ، وہ اسے واپس بھیجنا چاہتا تھا۔ علی یار کو اس کا خیال رکھنے کا کہہ کر وہ اپنے سفر پر گامزن ہوا تھا۔ جب پینو اسے چالاکی سے اپنے ساتھ لے گئی، تو ان دونوں کو جاتے ہوئے رضیہ نے دیکھ لیا تھا اور اس نے فوراً علی یار کو مطلع کیا جو اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ان کے پیچھے گیا تھا ۔ جب فارینہ گاڑی سے نکل کر بھاگی، تو علی یار بھی وہاں پہنچ چکا تھا اور اسے دیکھتے ہی غنڈوں نے فائرنگ کر دی جس سے وہ شدید ز خمی ہوا ۔ اس دوران کچھ اور لوگ بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے دلاور اور اس کے ساتھیوں کو پکڑ کر بہت مارا اور پولیس کے حوالے کر دیا۔ پینو کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ علی یار ہسپتال میں داخل رہا، مگر وہ مطمئن تھا کہ سائیں کی غیر موجودگی میں، اس نے اپنے وعدہ پورا کیا ہے اور موہنیپر آنچ نہیں آنے دی، مگر وہ دوسرے لوگوں کی وہاں موجودگی پر بہت حیران ہوا تھا ۔ تب اسے پتا چلا کہ وہ فارینہ کے سکیورٹی پر مامور وہ لوگ تھے ، جو سادہ لباس میں مزار کے آس پاس گھومتے رہتے تھے اور تو اور جو شخص ہر مہینے مخصوص تاریخ پر راشن اور پیسے بھجواتا تھا، وہ بھی فارینہ کا باپ مرتضیٰ ہاشم تھا جس نے بہت جلد یہاں اسکول اور ایک فلاحی ادارے کے قیام کا وعدہ کیا تھا۔ فارینہ کے ساتھ ہونے والے حادثے کے بارے میں سن کر مرتضیٰ ہاشم بھاگے آئے۔ فارینہ کو بہت منایا، سمجھایا کہ اب اس کا یہ جنوں ، اس کی یہ ضد ختم ہو جانی چاہیے۔ اس سے اسے کچھ نہیں ملنا مگر فارینہ ٹس سے مس نہیں ہوئی تو وہ بہت دکھی دل کے ساتھ جاتے جاتے اسے کہہ کر گئے۔

” تمہاری یہ ضد ایک دن میری جان لے لے گی فارینہ۔ اس دن تم خوش ہو جانا۔ باپ ہوں، اس لیے تم سے غافل نہیں رہ سکتا، مگر جس دن میں نہ رہا ، تمہیں سمجھ آجائے گی کہ دنیا کیا چیز ہے اور اکیلی، جوان ، خوبصورت عورت کا بغیر سائبان کے رہنا کتنا مشکل۔“

فارینہ باپ کی بات سن کر پہلی بار پشیمانی کا شکا ر ہوئی تھی۔ اسے افسوس ہوا تھا کہ اس نے اپنے باپ کا دل دکھا یا ہے۔ وہ اسی کیفیت کا شکار رہی ،اسی رات بخار میں جلتا ، نڈھال ،سا آدم لوٹ آیا تھا ۔ وہ یہ سب سن کر خفا ہونے کے بجائے چپ ہو گیا۔ فارینہ اس کے غصے سے ڈر رہی تھی مگر وہ کچھ نہیں بولا ۔ اگلے دن فارینہ سے ملنے کوئی آیا ۔ شہرام کو وہ وہاں دیکھ کر حیران رہ گئی۔ شہرام نے اس سے سوال جواب کرنے کے بجائے ، اسے یہ کہا کہ میں آج بھی تمہارا منتظر ہوں اور میں تمہیں یہاں سے لیے بغیر ہر گز نہیں جاﺅں گا ۔ فارینہ اس کی بات پر تپ گئی، مگر شہرام مستقل مزاجی سے آتا رہا۔ شہرام ، سائیں سے ملا تھا یا نہیں یہ وہ نہیں جانتی تھی ۔ سائیں ان دنوں اپنے تنگ و تاریک ، چھوٹے سے کمرے میں بند رہتا اور لوگوں سے بہت کم ملتا تھا۔ صرف علی یار تھا جو اس کے پاس جاتا اور اسے کھانا وغیرہ دے آتا۔ فارینہ ان دنوں بہت بے چین اور اُداس تھی ۔ پھر اسے پتا چلا کہ سائیں کی طبیعت بہت خراب ہے ۔فارینہ کے ساتھ ساتھ سب کو تشویش لاحق ہو گئی۔ اگلے دن اتنے دنوں بعد، فارینہ نے سائیں کو اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھے دیکھا تھا۔ سردی بڑھ رہی تھی ۔ علی یار نے فارینہ سے کہا کہ سائیں کے لیے حقہ بنا دے۔ آج انہوں نے خود کافی عرصے بعد فرمائش کی ہے اور وہ بھی تمہارے ہاتھ کے حقے کی۔

فارینہ خوشی سے کھل اٹھی ۔ اسے لگا کہ سائیں نے اس کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

٭….٭….٭

” سائیں “ کہر زدہ شام میں سردی سے کانپتے، سائیں نے مزار کی پیلی روشنی میںاس کی طرف دیکھا۔ کالے لبا س میں ملبوس وہ ، سہج سہج کے قدم اٹھا کر اس کی طرف آتی، وہ رات کا پہلا پڑاﺅ لگ رہی تھی ۔ آج اس نے گھونگٹ نہیں لیا ہوا تھا ۔ ا س کے ہاتھ میں پکڑے حقے سے ہلکا ہلکا دھواں اُٹھ رہا تھا۔ بخار سے جلتی آنکھیں گہری لال ہو کر دیکھ رہی تھیں۔ سائیں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔

” سائیں….! تُو اپنی چلم سے

تھوڑی سی آگ دے ، دے

میں تیری اگر بتی ہوں ….!

اور تیری درگاہ پر مجھے

ایک گھڑی جلنا ہے !

یہ تیری محبت تھی

جو اس پیکر میں ڈھلی

اب پیکر سلگے گا

تو ایک دھوں سا اٹھے گا

دھوئیں کا لرزاں بدن

آہستہ سے کہے گا

جو بھی ہوا بہتی ہے

درگاہ سے گزرتی ہے

تیری سانسوں کو چھوتی ہے

سائیں ….! آج مجھے

اس ہوا میں ملنا ہے….!

سائیں ….! تُو اپنی چلم سے

تھوڑی سی آگ دے ، دے

میں تیری اگر بتی ہوں

اور تیری درگاہ پر مجھے

ایک گھڑی جلنا ہے!

جب بتی سلگ جائے گی

ہلکی سی مہک آئے گی

اور پھر میری ہستی ، راکھ ہو کر

تیرے قدم چھوجائے گی

اسے تیری درگاہ کی

مٹی میں ملنا ہے….!

سائیں ! تُو اپنی چلم سے

تھوڑی سے آگ دے ، دے

میں تیری اگر بتی ہوں

اور تیری درگاہ پر مجھے

ایک گھڑی جلنا ہے…. ( امرتا پریتم )

سائیں کے پاس آکر اس نے بڑی ادا سے سراٹھایا اور اسی طرف دیکھا،تو ایک دھچکا سا اسے لگا اور اس کے ہاتھ سے حقہ گر کر بکھر گیا ۔ وہ یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی ، جو دنوں میں ڈھانچہ بن گیا تھا ۔ اتنی کمزوری اور پیلاہٹ تھی اس کے چہرے پر….

” ایک کام کہا تھا ، وہ بھی ٹھیک سے نہیں کر سکی تم۔“ سائیں نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ کتنے عرصے بعد، فارینہ کو لگا جیسے ساری کائنات تھم گئی تھی ۔ اس نے پچھلے دو سالوں میں اس کی ایک نظر کے لیے کتنے جتن کیے تھے، مگر وہ نظر آج اس کی طر ف اٹھی تو وہ اسے دیکھ ہی نہیں سکی ، اس کا سامنا کرتے ہوئے اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں تھیں ۔”یہ وہ آدم نہیں ہے ، میں جس سے واقف تھی۔ “ ایک عجیب سا احساس اس کے دل میں جاگا تھا، مگر خود کو سنبھالتی وہ آگے بڑھی۔

” اپنی حالت دیکھی ہے ۔ کسی ڈاکٹر کو کیوں نہیں دکھاتے ت….م آپ۔“ تم کہتے کہتے اس کی زبان لڑکھڑا گئی تھی۔ آدم کے لبوں پر مُسکراہٹ پھیل گئی ۔ جب کہ فارینہ اس کی خود پر جمی نظروں سے خائف ہو رہی تھی۔

” تم نے کبھی میری بات مانی ہے ، جو میں تمہاری بات سنوں۔“ اس کا لہجہ روٹھے دوست جیسا تھا ۔ فارینہ اس کے انداز پر حیران ہو گئی۔

” مگر آپ کی حالت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ مجھے فکر ہو رہی ہے۔“ فارینہ کی آنکھوں میں اس کے لیے فکر اور محبت کے سب رنگ تھے ۔

” واہ میرے مولا ! وہ نظر بھی عطا کی اور وہ محبت بھی ،سچ ہے تیرا وعدہ سچا ہے۔“ آدم نے آسمان کی طرف دیکھ کر دھیمی آواز میں خود کلامی کی جسے فارینہ نہیں سن سکی تھی۔

” کس سے بات کر رہے ہیں۔“ فارینہ نے حیرت سے پوچھا۔

”وہ جو ، خاموشی کی زبان بھی سنتا ہے ! سمجھتا ہے ، جواب دیتا ہے۔“ آدم نے دوبارہ اس پر نظریں مرکوز کر دیں تھیں ۔فارینہ کو ایسا لگا جیسے ایک ٹھنڈی ، میٹھی سی آگ اس کے جسم کو نہیں ، روح کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی۔ اس آگ کا رنگ ، اس کی روح کے رنگ سے ہم آہنگ ہو گیا تھا۔ پچھلے دو سالوں میں آگہی کا جو لمحہ اسے نہیں ملا تھا ، وہ آج کی اس بولتی شام میں اس کا مقدر بنا تھا اور یہ فیض بھی اس کی نظر کا تھا وہ ساکت رہ گئی۔ ” یہ کیا اسرار ہے ؟“ اس کے اندر کھوج جاگی تھی۔

” جو تم اس وقت دیکھ اور محسوس کر رہی ہو ، اسے پانا چاہتی ہو تو….تمہیں پلٹنا ہو گا !“ آدم نے نرمی سے کہا تو فارینہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔ اس کی سوالیہ نگاہیں پوچھ رہی تھیں ” اندر کی بات ، تم نے کیسے جانی۔ “ آدم سمجھ کر مُسکرانے لگا ۔

” ریاضت ! ہر چیز، ہر جذبہ ریاضت مانگتا ہے فارینہ، مگر درست سمت میں۔ اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ اپنا گھر ، اپنے پیاروں کو چھوڑ کر تم اپنے دل کی مراد پا لو گی تو ایسا نہیں ہوتا ۔ جوگی یا جوگن بننے سے ، مرتبے نہیں ملا کرتے ، اس کے لیے ریاضت کرنی پڑتی ہے۔ اپنے فرائض ادا کرنے پڑتے ہیں، لوگوں کے حقوق ادا کرنے پڑتے ہیں۔ تب ہی محبت کے بلند مقام کو چھوناممکن ہوتا ہے ۔“ آدم نے کہا، تو فارینہ ایک دم سے نیچے بیٹھ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

” میں ایسا کیا کروں کہ سب مجھ سے راضی ہو جائیں۔ میں نے اپنے باپ کا دل بھی دکھایا ہے اور شہرام سے بھی جھوٹ بولا ۔ میری وجہ سے وہ بھی اپنی زندگی میں آگے نہیں بڑھ سکا اور میں یہ سب کچھ کر کے بھی تمہیں نہیں خوش کر سکی ۔ میں کیا کروں ؟“

”فارینہ ! تم غلط طریقے سے سب کچھ حاصل کر لینا چاہتی ہو ۔ جب کہ محبت کے ساتھ غلط تو ہو سکتا ہے مگر محبت کسی کے ساتھ غلط نہیں کرتی۔

اپنی ذمے داریوں کو پہچانو۔ اپنے فرائض ادا کرو۔ پھر محبت کی سوالی بننا۔ جاﺅ فارینہ یہاں سے چلی جاﺅ۔ تم جاﺅ گی، تو میں بھی آگے بڑھ سکوں گا۔ تم نے مجھے روک دیا ہے۔“ آدم نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا، تو فارینہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

” مجھے پتا ہے ، میرے یہاں سے جاتے ہی آپ ٹھکانہ بدل لیں گے۔ پھر میں آپ کو کیسے ڈھونڈوں گی؟“ اس کا انداز بچوں جیسا تھا۔

” اب کی بار میں تمہیں ، تمہارے اندر کہیں ملوں گا فارینہ۔ مجھے ظاہر مت دیکھو، مجھے اپنے اندر کہیں رہنے دو۔ کسی ایک کونے میں ، کسی ایک حصے میں۔ پھر تمہیں کہیں بھی جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جن سے محبت کی جائے ، انہیں بند آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ وہ آنکھ کی بینائی سے نہیں ، دل کی بینائی سے نظرآتے ہیں۔ اس لیے تو میں تمہیں کھلی آنکھوں سے نہیں دیکھتا تھا، میری بند آنکھوں میں بھی تمہارا ہی عکس لہراتا تھا۔ میں نے اپنی محبت کو وقت اور لمحوں کی قید سے آزاد کر دیا ہے۔ میں تمہیں یہاں اسے سونپ رہا ہوں ، وہ مجھے تمہیں وہاں بخش دے گا۔ یہ اس کا وعدہ ہے ۔بس تھوڑا انتظار….“

آدم کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔ فارینہ اس کی محبت کے انداز پر گم صم بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی۔ اسے آج اپنی خوش نصیبی پر رشک آرہا تھا کہ اسے چاہنا والا کتنا خالص اور ایمان دار ہے۔

” مگر سنا ہے کہ روزِ محشر کسی کو کسی کی خبر نہیں ہو گی، وہاں تو صرف حساب ہو گا نا۔“ فارینہ کے لہجے میں مایوسی تھی ۔

”ٹھیک سنا ہے تم نے ،مگر حساب کے بعد اگر کسی کو کسی کی خبر ہوئی تو میرے لیے تو ، وہ تم ہو گی فارینہ۔“ آدم نے جذب کے عالم میں کہا، تو فارینہ گم صم سی ہو گئی۔

” جاﺅ فارینہ ! اس مزار کی سیڑھیوں کے پاس ، ڈھلتی شام کے گہرے سایوں میں کوئی تمہارا منتظر کھڑا ہے۔ اس کی محبت کی ایسے ہی قدر کرنا ، جیسے اپنی محبت کی قدر چاہتی ہو۔محبت میں سب مجبور ہیں، بے بس ہیں ، مگر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں دنیا میںمحبت ملتی ہے اور انمول ہیں وہ لوگ، جنہیں ان کی دنیائی محبت ، اس رب کے عشق سے روشناس کرواتی ہے۔میرے لیے وہ خوش نصیب محبت تم ہو جس نے مجھے رب سے جوڑا بھی اور عشق کا جام بھی عطا کیا۔جاﺅ یہاں سے ۔ اپنی دنیا میں لوٹ جاﺅ۔“

فارینہ اپنی جگہ سے اٹھی اور جاتے ہوئے بار بار پلٹ کر اسے دیکھتی رہی۔ وہ اس کی بات اب نہیں ٹال سکتی تھی کہ اب اسے ، اس کے عشق کی خوشبو اپنے ارد گرد محسوس ہو رہی تھی۔ وہ اس حصار کو کسی قیمت پر نہیں توڑنا چاہتی تھی۔ سیڑھیاں اتر کر اس نے منتظر کھڑے شہرام کی طرف دیکھا اور بغیر کچھ کہے اس کی کار کی طرف قدم بڑھا دیے اور دروازہ کھول کر سیٹ پے بیٹھتے ہوئے ، اس نے پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں ۔ شہرام نے خوشی سے اسے دیکھا اور بھاگتا ہوا سیڑھیاں چڑھ کر آدم کے پاس پہنچا جو فارینہ کے نقشِ پا پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔

” وہ سچ میں واپس آگئی ہے آدم۔تم نے ٹھیک کہا تھا۔ وہ ضدی اور جذباتی ہے۔“ شہرام نے اس کے پاس آکر محبت سے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ وہ جب سے یہاں آیا تھا، روز آدم سے مزار کے اس تنگ و تاریک کمرے میں مل رہا تھا۔ آدم نے اپنے وعدے کے مطابق اسے سب بتا دیا تھا جسے سن کر وہ شاکڈ رہ گیا تھا۔ فارینہ کی واپسی کا یقین بھی اسی نے دلایا تھا ۔



” شہرام !“ آدم نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پکارا تھا ۔

”اس مادی دنیا میں، اگرمجھے کوئی سب سے زیادہ عزیز ہے، تو وہ فارینہ ہے۔ میں وہ گمنام ذرہ تھا، جسے اس کی محبت نے روشنی دی۔ میرے بننے اور بکھرنے کے پیچھے صرف وہ تھی، مگر کچھ وقت کے لیے میرا سفر اور تھا، مجھے وہ اختیار کرنا ہی تھا۔ بس تم سے اتنی گزارش ہے ، اس کا خیال رکھنا۔“ آدم کے لہجے میں منت تھی ۔ شہرام اسے دیکھتا رہ گیا اور پھر اثبات میں سر ہلاتا، ہونٹ بھینچ کر اسے گلے سے لگالیا۔ اس کی آنکھیں بھی نم تھیں۔ آدم نے اس کی پشت کو تھپتھپایا۔ شہرام اس سے الگ ہوا، اُداس ،تھکے ہارے قدموں سے واپس جانے لگا۔ آدم نے ظاہر کی آنکھ بند کر لی اور اپنے من کی آنکھ سے ” تُو ہی تُو کا عالم“ دیکھنے لگا۔اس کے لب گُنگُنائے تھے۔

” مے پریدم سوئے کوئے

من اگر مے دا ستم بال و پرے

( میں ہمیشہ اُس کے کوچے میں اُڑتا پھرتا اگر میں بال وپر رکھتا۔)

شہرام نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ اس کے لہجے کی محرومی اور دکھ نے اسے رلا دیا۔ وہ محبت کا راہی تھا، محبت کرنے والوں کی تکلیف و اذیت کو بہت اچھی طرح محسوس کر سکتا تھا اور آدم تو….

شام کا اندھیرا بڑھ گیا تھا ۔ جب وہ کالے رنگ کی چمچماتی کار مزار کے سامنے سے رک رک کر چلتی ، اپنے سفر پر روانہ ہوئی تھی۔

کار کے دونوں نفوس اپنی اپنی جگہ، اپنے اپنے دکھ میں گھرے ، ایک ہی دھاگے میں پروئے جارہے تھے اور ان کے لیے وہ دھاگا ، وہ آدم کی یاد اور اس کا ذکر تھا۔ وہاں سے واپس لوٹنے کے بعد فارینہ ، نرم ، گیلی مٹی کی طرح ہو گئی تھی جسے شہرام نے اپنی محبت کے سانچے میں نرمی سے ڈھال لیا۔ شہرام نے آدم سے کیے آخری وعدے کے مطابق ، ڈریم انٹرٹینمنٹ میں بننے والے اس کے حصے اور آمدنی سے ایک فلاحی ادارہ خواجہ سراﺅں کے لیے بنایا۔ جہاں ، ایسے بچوں اور لوگوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ، ہنر بھی سکھایا جاتا تھا ۔

آدم کے مقصد کو لے کر چلنے والے بہت سے لوگ ، جگہ جگہ روشنی کے چراغ بن کر اُجالا پھیلا رہے تھے۔ آدم موجود نہ ہوتے ہوئے بھی ، ان کے درمیان ہمیشہ موجود رہا تھا ۔ اس نے ایک معمولی سا فرد ہو کر ، کئی دلوں کے قلعے فتح کر لیے تھے۔

٭….٭….٭

کئی سال گزر گئے۔ خان زادہ شاذل آٹھ سال کا ہو چکا تھا ۔ اپنے دادا خان زادہ شمشیر کی قبر پر پھول ڈالتے ہوئے وہ ، اپنی دادی سے ایک سوال ضرور کرتا تھا ۔

” دادو جان! دادا ابو کی قبر کے ساتھ یہ کس کی قبر ہے؟“

نور بانو اپنے سفید دوپٹے کے پلو سے سنگِ مر مر کی بنی اس قبر کو صاف کرتی اور کہتی۔

” یہ اس کی قبر ہے جس نے وعدہ کیا تھا کہ بہت جلد لمبی نیند سونے کے لیے ہمارے پہلو میں آئے گا اور دیکھو و ہ آ گیا۔ میرا سائیں ، میرا آدم۔ “ آخر کے دو لفظ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑا کر رہ جاتی تھیں۔ آدم کے یہاں سے جانے کے ایک ماہ بعد ( فارینہ کے جانے کے اگلے دن ) ہی اس کے انتقال کی خبر آگئی تھی۔ علی یار نے آدم کی آخری وصیت کے بارے میں بتایا تھا کہ اس کے مرنے کے بعد اسے کی میت ان کے حوالے کر دی جائے۔ خان زادہ شمشیر روتے ہوئے گئے تھے ۔ وہاں لوگوں کا ہجوم تھا، جو سائیں کی محبت میں رو رہا تھا ۔ انہیں اس پر رشک ہوا ۔ تب علی یار نے ہی بتایا کہ سائیں کو بلڈکینسر تھا جس کا علم انہیں شروع سے تھا ۔ ( یہ وہ وقت تھا جب آدم سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آ رہا تھا اور آنے سے پہلے بیمار ہو کر ہسپتال داخل رہا تھا۔ تبھی اس پر انکشاف ہوا کہ اس کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ۔ اسی لیے تو وہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نیکی کے کام سر انجام دینا چاہتا تھا ۔)

خان زادہ شمشیر نے ، اسے اپنے خاندانی قبرستان میں دفنایا تھا۔ لوگ اسے سائیں کی حیثیت سے تو جانتے ہی تھے۔ اس لیے انہیں اس بات پر حیرانی نہیں ہوئی۔ خان زادہ شمشیر نے اپنی قبر کے لیے جگہ بھی اس کے پاس چنی تھی اور نوربانو نے بھی ۔ یعنی سائیں کی قبر درمیان میں تھی اور اس کے دونوں طرف ایک ایک خالی قبریں بنائی گئیں تھیں ۔ ایک سال بعد ہی خان زادہ شمشیر اس کے غم کو دل سے لگائے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ نوربانو اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے بار بار اپنے حصے کی خالی قبر کو دیکھتی تھیں کیوں کہ ان کا ” پہلو “ تو آباد ہو چکا تھا ، مگر وہ خود ہی وہاں موجود نہیں تھیں۔ ابھی ان کی ممتا کوا ور انتظار کرنا تھا ۔اپنے رب کا حکم آنے تک۔

نوربانو نے محبت سے اس کے کتبے پر ہاتھ پھیرا جس پر سائیں کے وہ آخری لفظ لکھے ہوئے تھے، جو ان سے ا س نے آخری بار کہے تھے:

” اور بے شک اللہ جسموں سے نہیں، روح سے محبت کرتا ہے!“

ختم شُد

٭….٭….٭

 

Loading

Read Previous

انگار ہستی

Read Next

داستانِ حیات

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!