غلام فرید نے خود زندگی میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس جیسا کمی کمین مسجد کے امام کے ساتھ کبھی اس طرح بات کرے گا، لیکن کسی نے ٹھیک کہا ہے… پیسہ بڑی کُتی چیز ہوتی ہے۔ اچھے اچھوں کو کتا بنادیتی ہے۔ بڑے بڑوں کو بھونکنے پر مجبور کردیتی ہے۔
سب گالم گلوچ اور لعنت ملامت کے بعد اس دن مولوی صاحب نے واپس پہنچ کر اپنی بیوی سے مشورہ کیا تھا اور پھر اگلے دن بڑے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ مولوی صاحب نے غلام فرید کے ساتھ پندرہ ہزار وصول کرنے پر اتفاق کرلیا تھا اور اس سے بھی بڑی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ انہیں اس وقت کرنا پڑا، جب غلام فرید نے بتایا کہ وہ اس مہینے کے بیس ہزار پہلے ہی خرچ کرچکا تھا۔ یہ پچھلے چار مہینوں کے پیسوں سے اس کا کمیشن تھا۔ مولوی صاحب کا دل چاہا وہ غلام فرید نامی اس… کو اپنے ہاتھوں سے گاؤں کے بیچ کھیتوں میں اسی طرح پھانسی پر لٹکادیں، جس طرح لوگ کھیتوں میں پرندوں کو ڈرانے والے بیچا لٹکاتے ہیں، مگر پھر انہیں یاد آیا تھا کہ سال کے آخر میں انہیں اپنی بیٹی کی شادی کرنی تھی اور وہ زمین بھی خریدنی تھی، جس کا بیعانہ وہ کچھ دن پہلے دے کر آئے تھے۔ اس لئے وہ بھی چند گالیوں کے بعد بے حد ٹھنڈے مزاج کے ساتھ وہاں سے چلے گئے تھے۔
غلام فرید کو یقین نہیں آیا تھا کہ بیٹھے بٹھائے اس کو ہر ماہ تنخواہ سے کچھ ہی تھوڑی رقم ملنے لگے گی اور وہ رقم اگر وہ سود والوں کو دیتا رہتا تو بہت جلدی اس کا سب سود ختم ہونے والا تھا۔
غلام فرید کے خوابوں کی گاڑی اس دن پہلی بار دن کے وقت بھی چھکا چھک چلنے لگتی تھی، مگر اسے اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ وہ مولوی صاحب سے دشمنی پال کر اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر بیٹھا تھا۔ سود لینے سے بھی بڑی غلطی…
مولوی صاحب کے ساتھ غلام فرید نے جو کچھ کیا تھا اس کے بعد مولوی صاحب کی نیندیں کئی دن اڑی رہی تھی۔ بیس ہزار کی رقم بیٹھے بٹھائے پندرہ ہزار رہ گئی تھی، اس کا صدمہ تو تھا ہی تھا لیکن ساتھ اس بات کا بھی اندیشہ انہیں ہوگیا تھا کہ مسجد کی رقم کو سود خوری کے کاروبار میں لگانے کی خبر اگر گاؤں میں کسی طرح پھیل گئی تو اور کچھ ہوگیا یا نہیں انہیں مستقبل میں چندے ملنا بند ہوجائیں گے۔
بیوی مولوی صاحب کو سودی کاروبار میں لگائی رقم واپس لینے نہیں دے رہی تھی۔ یہ وہ پہلا خیال تھا جو غلام فرید کی دھمکی کے بعد مولوی صاحب کو آیا تھا کہ وہ جتنی جلدی ہوسکے، اپنی رقم واپس لے لیں تاکہ کم از کم غلام فرید کی ایسی کسی دھمکی کو سچ ثابت کرنے پر وہ اسے جھوٹا تو ثابت کردیتے۔
انہوں نے اپنی بیوی کو بتائے بغیر گاؤں کے اس شخص سے اپنی رقم کا مطالبہ یہ کہہ کر کیا تھا کہ مسجد کی تزئین و آرائش کے لئے فوری طور پر ایک بڑی رقم چاہیے، اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ اپنی رقم نکال کر اس میں سے کچھ مسجد میں چندہ کردیں۔ جو جواب انہیں ملا تھا، وہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
اس آدمی نے انہیں رقم واپس کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ فی الحال رقم کا روبار میں لگی ہوئی ہے اور وہ اگلے دو تین سال تک اس کا منافع تو دے سکتا ہے لیکن اصل رقم واپس نہیں کرسکتا۔ مولوی صاحب کو وہاں کھڑے کھڑے دن میں تارے نظر آگئے تھے۔ انہوں نے پانچ لاکھ کی رقم اس آدمی کو دی ہوئی تھی، اور وہ کچھ کمیشن وغیرہ کٹوانے کے بعد تقریباً ستر، اسی ہزار روپیہ ہر ماہ وصول کررہے تھے اور اب یک دم اس آدمی کے انکار نے ان کے چودہ طبق روشن کردیئے تھے۔
وہ پچھلے کئی سالوں سے اس آدمی کے پاس یہ سرمایہ کاری کررہے تھے۔ شروع میں دس بیس ہزار سے شروع ہونے والا یہ بزنس آہستہ آہستہ پانچ لاکھ کی رقم تک چلا گیا تھا۔ او ر اب وہ آدمی کہہ رہا تھا کہ وہ اصل رقم نہیں دے سکتاتھا، صرف سود دے سکتا تھا۔
اس دن غلام فرید سے مولوی صاحب کی نفرت کچھ اور بڑھ گئی تھی۔ گھر جاکر انہوں نے بیوی کو یہ قصہ بھی سنایا تھا، وہ بھی ان ہی کی طرح دل تھام کے رہ گئی تھی۔
اگلے مہینے ایک بار پھر مولوی صاحب کو غلام فرید سے پیسے نہیں ملے اور اس مہینے انہیں اس ساہوکار نے منافع کی رقم بھی نہیں دی۔ ایک ماہ پہلے مولوی صاحب کے رقم کے مطالبے نے جیسے اسے چوکنا کردیا تھا کہ وہ پارٹی ٹوٹنے والی تھی اور جب وہ پارٹی ٹوٹنے والی تھی تو وہ اس کو منہ بھر بھر کے منافع کیوں کھلاتا۔ اب اس کی باری تھی، دیا گیا سارا منافع واپس وصول کرنے کی، لیکن اس نے مولوی صاحب سے یہ باتیں نہیں کی تھیں۔ اس نے مولوی صاحب سے بس فی الحال چھ ماہ کی مہلت مانگی تھی او ر یہ کہا تھا کہ چھ ماہ کے بعد وہ چھ ماہ کا منافع اکٹھا انہیں لوٹا دے گا، لیکن فی الحال اس پر شدید مالی بحران آیا تھا اور اس نے مولوی صاحب سے نہ صرف دعا کی درخواست کی تھی بلکہ کوئی قرآنی وظیفہ بھی مانگا تھا اپنے کاروبار میں برکت کے لئے۔
مولوی صاحب کو ٹھنڈے پسینے آگئے تھے اس کی باتیں سن کر، اور کچھ بعید نہیں تھا کہ ہارٹ فیل ہی ہوجاتا ان کا۔ وہ پل بھر میں لکھ پتی سے ککھ پتی ہوئے تھے اور وہ بھی دن دہاڑے۔ یہ غلام فرید نہیں تھا۔ گاؤں کا کمی کمین جسے وہ اس کے دروازے پر منہ بھر بھر کر گالیاں دیتے رہتے اور وہ ڈھیٹوں کی طرح دانت نکال کر ہنستا رہتا۔ یہ گاؤں کا ’’ساہوکار‘‘ تھا۔ ایک بزنس مین جو مالی بحران کے باوجود شان دار گھر میں بیٹھا تھا اور اس کے آگے پیچھے نوکر پھر رہے تھے۔ مولوی صاحب چوں بھی کرتے تو وہ انہیں اٹھوا کر گھر سے باہر پھینکوادیتا اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ وہ گاؤں کی مسجد کے امام صاحب تھے۔
مولوی صاحب چپ چاپ وہاں سے تو اٹھ کر آگئے تھے، لیکن انہوں نے اپنے اس مالی نقصان کا سارا کا سارا غصہ غلام فرید پر اتارا تھا۔ وہی تھا جو ان کی تباہی کا ذمہ دار تھا تو اب ضروری تھا کہ وہ بھی تباہ و برباد ہوتا۔
انہوں نے اسکول سے اس کے مالک کا نمبر لیا تھا اور پھر اسے فون کرکے غلام فرید کے اوپر جی بھر کے الزامات لگائے تھے۔ مالک کا ردعمل فوری تھا اور متوقع تھا۔ وہ پہلی فرصت میں گاؤں آیا تھا اور مولوی صاحب سے ملاقات کے بعد غلام فرید کی صفائیاں اور وضاحتیں، معافیاں سننے کے باوجود اس نے اسے نوکری سے فارغ کردیا تھا۔
غلام فرید کے سر پر جیسے پہاڑ آگرا تھا۔ صرف اسے نوکری سے فارغ نہیں کیا گیا تھا، اس کی بیوی کو بھی نوکری سے نکال دیا گیا تھا اور ان سے کوارٹر بھی خالی کروالیا گیا تھا۔
گیارہ لوگوں کا وہ خاندان چھت سے بے چھت ہوگیا تھا۔ مولوی صاحب کے طفیل غلام فرید پورے گاؤں میں اپنی بیوی سمیت بدنام ہوچکاتھا۔ وہ ایک چور تھا جس نے اللہ کے پیسوں کو بھی نہیں چھوڑا تھا۔ گاؤں والوں نے مولوی صاحب کے بار بار دہرائے گئے قصے سن سن کر غلام فرید کا جیسے سوشل بائیکاٹ ہی کردیا تھا۔ غلام فرید نے بھی مولوی صاحب کے کارنامے لوگوں کو بتانے کی کوشش کی تھی، لیکن کسی نے ایک کمی کمین چورپر یقین نہیں کیا تھا۔ یقین کرتے بھی کیسے وہ ’’مولوی صاحب‘‘ پر الزام لگا رہا تھا۔ ’’مولوی صاحب‘‘ پر۔ اور وہ بھی غبن اور بددیانتی کے الزام میں بیوی سمیت نوکری سے نکالے جانے کے بعد۔ مولوی صاحب بری الذمہ اور معصوم قرار پائے تھے۔
پتا نہیں وہ کون سا لمحہ تھا جب غلام فرید نے اپنا ذہنی توازن کھونا شروع کیا تھا۔ بھوک اور تنگ دستی نے اس کا دماغ خراب کیا تھا۔ گاؤں والوں کی باتوں اور طعنوں نے۔ لڑکپن میں داخل ہوتی بیٹیوں پر پڑتی گاؤں کے لڑکوں کی گندی نظروں اور اپنی بے بسی نے۔ یا پھر ان سود خوروں کی دھمکیوں اور چکروں نے جو غلام فرید کو سود کی قسطیں ادا کرنے کے قابل نہ رہنے پر بار بار اس احاطے کے ٹوٹے دروازے کے باہر کھڑے ہوکر مارپیٹ کرتے جہاں جانوروں کے ایک باڑے کے برابر غلام فرید نے بھی لکڑی کی چھت ڈال کر وقتی طور پر اپنے خاندان کو پناہ دی تھی۔
پتا نہیں کیا ہوا تھا غلام فرید کو۔ اور یہ واقعی پتا نہیں چلتا کہ انسانوں کو ہوتا کیا ہے جب وہ اپنے خونی رشتوں کو اپنے ہی ہاتھ سے ختم کردیتے ہیں۔
چنی ایک سال کی تھی جب غلام فرید نے ایک رات اپنے خاندان کے نو کے نو افراد کو ذبح کردیا تھا۔ چنی واحد تھی جو بچ گئی تھی اور وہ بھی شاید اس لئے بچ گئی تھی کیونکہ پاگل پن کے اس لمحے میں غلام فرید اپنی اولاد کی گنتی ہی بھول گیا تھا۔ چنی کو کبھی اس نے گود میں اٹھا کر دیکھا نہیں تھا تو وہ اسے یاد آتی بھی تو کیسے۔ پھر اس پر بھی اپنے بہن بھائیوں کا اتنا خون لگ گیا تھا کہ ان کے برابر بے سدھ سوئے ہوئے بھی غلام فرید کو وہ مری ہوئی ہی لگی ہوگی۔
نو انسانوں کو مارنے کے بعد غلام فرید نے اپنی جان نہیں لی تھی۔ وہ زندہ تھا ہی کب۔ زندہ تو انسان عزت نفس کی وجہ سے ہوتا ہے، جو غلام فرید کی کب کی چھن چکی تھی۔ خاندان کو ماردینا جیسے وہ حل تھا جو ایک ان پڑھ شخص نے غربت اور قرض سے نجات کے لئے نکالا تھا جب کوئی حل ہی باقی نہیں رہا تھا۔
٭…٭…٭