آبِ حیات — قسط نمبر ۸ (حاصل و محصول)

’’اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟‘‘ امامہ کو اس کی طرح بے حد عجیب لگیں۔
اس نے امامہ سے نظریں ہٹالیں، وہ اسے یہ نہیں بتا سکا کہ وہ کنشاسا آنے سے پہلے ڈاکٹر سبط علی سے مل کر واشنگٹن آنے کے بعد اس گھر کی mortgage کینسل کرواچکا تھا… امامہ کے خوابوں کا گھر اس کے ہاتھ سے جاچکا تھا… ایک لمحہ کے لئے، بس ایک لمحے کے لئے اسے عجیب پچھتاوا اور رنج ہوا۔ اس mortgage کیcancellation پر … ایک لمحہ کے لئے اسے یہ خیال بھی آیا تھا کہ وہ اس گھر کو واپس حاصل کرلے فوری طور پر امریکہ بات کرکے… وہ اس وقت جس پوزیشن میں تھا، یہ کرسکتا تھا… مگر دوسرے ہی لمحے اس نے اپنے ذہن کو جھٹکا تھا… یہ صرف سی آئی اے نہیں تھی جو اس کے لئے جال بچھارہی تھی… شیطان بھی وہیں تھا… ’’اس کے بندوں‘‘ کو ’’اپنے بندوں‘‘ میں بدلنے کے لئے کمربستہ…
’’حمین کیسا ہے؟‘‘ وہ یک دم بات وہیں کی وہیں چھوڑ کر حمین کے انکو بیٹر کی طرف آیا تھا۔ شیطان نے افسوس سے ہاتھ ملے… وہ بات چھوڑ کر کیسے اٹھ کھڑا ہوا تھا… وہ برق کی طرح آیا تھا اور پل بھر میں غائب ہوا… بس وسوسہ اور وہم ڈالنا تھا… وہ ڈال گیا تھا۔
’’بالکل ٹھیک ہے… دیکھو، سورہا ہے۔‘‘امامہ نے وہیں تکیے سے ٹیک لگائے کہا۔
سالار نے انکوبیٹر کو کھول کر پہلی بار محمد حمین کو گود میں لیا تھا… ساری میڈیکل احتیاطوں کی نفی کرتے ہوئے اس نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے جھکے جھکے سینے سے لگایا اور چوما… وہ کمزور بچہ باپ کے لمس پر کسمسایا، پھر اس نے اپنی آنکھیں کھولیں… سیاہ… موٹی… گول آنکھیں جو اس نحیف ونز ار وجود پر عجیب و غریب لگ رہی تھیں۔ اس نے آنکھیں کھولتے ہی باپ کو دیکھا تھا۔ پلکیں جھپکائے بغیر وہ اسے دیکھتا رہا… سالار بھی ہونٹوں پر مسکراہٹ لئے اسے دیکھتا رہا… پھر اس کے ماتھے پر چند بل آئے تھے… ناک اوپر چڑھی… اور پھر حمین نے پوری قوت سے گلا پھاڑ کر رونا شروع کردیا تھا… اس کی آواز اتنی باریک اور اتنی تیز تھی کہ چند لمحوں کے لئے سالار ہکا بکا رہ گیا تھا کہ اس کے ننھے وجود کے اندر اس طرح گلا پھاڑ کر رونے کے لئے جان کہاں سے آئی تھی… جبریل اور عنایہ اس کی آواز پر بے اختیار ہڑبڑا کر اٹھے تھے۔ حمین جب بھی روتا تھا اسی طرح اچانک اور اسی والیم پر روتا تھا۔
ہیڈی یک دم اندر آگئی تھی۔ سالار، حمین کو واپس انکو بیٹر میں رکھنے کی جدوجہد میں مصروف تھا لیکن وہ ایک ہفتہ کا بچہ ایک بار انکو بیٹر سے نکلنے کے بعد دوبارہ اندر نہ جانے کے لئے جس حد تک جدوجہد کرسکتا تھا کررہاتھا۔ اس کا اگر بس چلتا تو وہ اپنے ہاتھوں کی پشت، سینے، ناک اور جسم کے ہر حصے پر لگی نالیوں اور تاروں کو کھینچ کر اتار دیتا۔ وہ ان میں سے کسی چیز کو تو نہیں اتار سکا مگر وہ ہلکا سا ڈائپر اس کے جسم کے مسلسل جھٹکوں سے یکدم کھل گیا تھا جو… صرف رسماً ہی اسے باندھا گیا تھا۔




ڈائپر کے علاوہ حمین کے جسم پر جگہ جگہ لگائی تاروں اور نلکیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ وہ یک دم ہی ٹارزن کے بچے جیسے حلیے میں آگیا تھا۔ بستر سے چھلانک لگا کر باپ کی طرف بھاگتے جبریل نے اپنے چھوٹے بھائی کے اس ’’دلیرانہ‘‘ اقدام پر بے اختیار چیخ مار کر آنکھوں پر ہاتھ رکھا تھا۔
“Baba! Baby is naked.”
اس نے جیسے بے یقینی سے آنکھوں کی ہتھیلیوں سے ڈھانپنے کا اعلان کیا۔
وہ آنکھیں بند نہ کرلیتا تو بے شرمی کے اگلے مظاہرے پر یقینا پتھر کا ہوجاتا کیوں کہ بے بی اسی طرح گلا پھاڑ پھاڑ کر روتے ہوئے ڈائپر سے نجات حاصل کرنے کے بعد اب اس پانی سے بھی فراغت حاصل کررہا تھا جو ٹیوبز کے ذریعے اس کے اندر منتقل کیا جارہا تھا… حمین، ہیڈی کو تھماتے ہوئے سالار بے یقینی سے پیشاب سے بھیگی ہوئی اپنی شرٹ کو دیکھ رہا تھا… یہ کارنامہ اس کے پہلے دو بچے کبھی نہیں کرسکے تھے۔
’’تم نے پتا نہیں اسے کیسے پکڑا ہے… کتنے سخت ہاتھ لگائے ہیں کہ وہ اس طرح رو رہا ہے… ہیڈی لیڈی ڈاکٹر کو بلاؤ… بلکہ اسے مجھے دو… نہیں میں آتی ہوں۔‘‘
امامہ اس کی حالت کو مکمل طور پر نظر انداز کئے اپنے روتے ہوئے بیٹے کی طرف متوجہ اپنے بستر سے بے قراری کے عالم میں اتر رہی تھی۔
“Baba! can I open my eyes.”
جبریل اندھوں کی طرح ہاتھ پھیلائے باپ کو ڈھونڈتے لڑکھڑاتے قدموں سے آنکھیں بند کئے سالار کی طرف آرہا تھا۔ وہ اس چھوٹے بھائی کی بے پردگی دیکھنے پر تیار نہیں تھا جو اس وقت لٹل اسٹوارٹ کی طرح چلاّتے ہوئے انکوبیٹر سے باہر کودنے کو تیار تھا۔
عنایہ ایک بار ہڑبڑا کر جاگنے کے بعد سالار کی طرف متوجہ ہوئے بغیردوبارہ سوچکی تھی… سالار نے جبریل کے پھیلے ہاتھوں کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ ہمیشہ کی طرح زمین پر پنجوں کے بل بیٹھتے ہوئے… یہ وہ زندگی اور دنیا تھی جو اس کے ہاتھ سے پھسلتے پھسلتے رہ گئی تھی… اس کی انگلیوں کی پوروں تک جاکر واپس پلٹی تھی یہ زندگی… یہ آوازیں … اس کا خاندان … وہ کمرہ اس میں موجود دو ننھے منے وجود جو اس کے وجود کی تکمیل کرتے تھے۔
“Yes you can.”
اس نے اسی طرح جبریل کو خود سے لپٹائے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ جبریل نے آنکھیں کھول کر سب سے پہلے چور نظروں سے حفظ ماتقدم کے طور پر انکوبیٹر کو دیکھا جہاں اب حمین ہیڈی اور امامہ کے وجود کے پیچھے چھپ گیا تھا۔
“Why are you crying papa?”
باپ کی طرف متوجہ ہوتے ہی اس نے پہلی نظر میں ہی اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے اور اس کے جملے نے امامہ کو بھی پلٹ کر دیکھنے پر مجبور کردیا تھا۔
سالار کی پشت اب اس کی طرف تھی اور وہ جبریل کو لپٹائے چومے جارہا تھا۔
٭…٭…٭
گھر مکمل طور پر جل گیا تھا… نقصان کا اندازہ لگانا مشکل تھا، مگر یہ ورلڈ بینک کی طرف سے فراہم کی جانے والی رہائش گاہ تھی۔ اس لئے اس کا نقصان پورا ہوجانے والا تھا…
یہ سالار سکندر کے ساتھ دوسری بار ہوا تھا… پہلی بار اس نے گاؤں میں اپنے اسکول کی عمارت کو یوں خاکستر ہوتے دیکھا تھا… اس گھر کے ملبے کو دیکھتے ہوئے اس نے جو سوچا تھا، وہ اسکول کی راکھ دیکھ کر نہیں سوچا تھا۔ تب اس نے امامہ کی فیملی کو ہر نقصان کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور کہیں بھی اس نے یہ نہیں سمجھا یا سوچا تھا کہ یہ اس کے اپنے کسی عمل کی سزا تھی۔ کوئی تنبیہہ تھی جو اسے کی جارہی تھی۔ وہ سود سے کمائے جانے والے پیسے سے فلاح عامہ کاکام کرنے کی کوشش کررہاتھا اور یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ اسے قبول کرتا… آج ایک بار پھر وہ ایسے ہی ایک ملبے کے سامنے کھڑا ہوا یہ سمجھ پارہا تھا کہ وہ اس کا رزق تھا جس سے صرف شر نکل رہا تھا، خیر نہیں۔
گھر کو لگنے والی آگ میں وہ چھوٹی موٹی ساری جیولری، سیونگ سرٹیفکیٹس اور اس کے بچوں کی انشورنس کے پیپرز راکھ ہوگئے تھے یا لوٹ لئے گئے تھے۔
امامہ کو شادی میں سالار کی فیملی کی طرف سے ملنے والا زیور پاکستان میں ہی ایک لاکر میں تھا۔ یہاں امامہ کے پاس صرف وہ چھوٹی موٹی ڈائمنڈ کی جیولری تھی جو وہ وقتاً فوقتاً افریقہ یا امریکہ میں خریدتی رہی تھی لیکن اس چھوٹی موٹی جیولری کی قیمت بھی چالیس لاکھ سے کم نہیں تھی… اس گھر میں اور بھی بہت کچھ چلا گیا تھا جس کا امامہ کو صدمہ تھا لیکن سالار کو نہیں تھا… اس کے لئے یہ کافی تھا کہ اس کا خاندان سلامت تھا۔
ورلڈ بینک نے اپنے تمام ملازمین کے نقصانات کو پورا کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا اور یہ کام ہنگامی بنیادوں پر ہورہا تھا۔ تمام ملازمین کو اپنے کلیمز داخل کرنے کے لئے کہا گیا تھا لیکن سالار سکندر نے کوئی کلیم داخل نہیں کیا تھا… اسے اب اس پیسے سے خوف آرہاتھا جو جب بھی اس کے پاس آتا ، اس کی حلال کمائی کو بھی اپنے ساتھ خس و خاشاک کردیتا۔
وہ ایمبیسی سے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں منتقل ہوگئے تھے۔ حمین امریکن ایمبیسی کے ہی اس اسپتال میں رہا تھا۔
’’میں چاہتا ہوں جب ڈاکٹرز حمین کو سفر کے قابل قرار دیں تو تم بچوں کو لے کر پاکستان چلی جاؤ۔‘‘
سالار نے ایک رات امامہ سے کہا تھا۔
’’کیوں؟‘‘ وہ ناخوش ہوئی تھی۔
’’کیوں کہ جو کچھ کانگو میں ہوچکا ہے، میں اب تم لوگوں کے لئے کوئی رسک نہیں لے سکتا۔‘‘
امامہ کچھ دیر پہلے اس کے لئے کافی بناکر لائی تھی… کئی دنوں بعدانہیں رات کے اس پہر آپس میں بات کرنے کا موقع ملا تھا… حمین اسپتال سے ڈسچارج ہونے والا تھا اور سالار جیسے ان کو واپس بھیجنے کے لئے گھڑیاں گن رہاتھا۔
’’کانگو اتنا غیر محفوظ ہے تو تم یہاں کیوں رہنا چاہتے ہو۔ تم بھی واپس چلو۔‘‘ امامہ نے … جواباً کہا۔ وہ گہرا سانس لے کر رہ گیا۔
’’میں فی الحال نہیں جاسکتا۔‘‘ اس نے ایک گھونٹ لیا۔
’’فی الحال؟‘‘ امامہ نے جواباً پوچھا۔
’’اگلے پانچ سال۔‘‘
’’ہر گز نہیں…‘‘
امامہ نے کافی کا کپ اسی طرح رکھ دیا۔ مزید کسی سوال جواب کے بغیر اس نے جیسے فیصلہ سنادیا تھا۔
’’تمہاری ضد مجھے کمزور کرے گی!… تم اور بچے یہاں رہیں گے تو میں بہت پریشان رہوں گا، اپنے کام پر دھیان نہیں دے پاؤں گا۔ تم لوگ محفوظ…‘‘ امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’تمہیں لگتا ہے، تم یہاں کانگو میں بیٹھے رہوگے تو میں اور بچے پاکستان میں عیش کریں گے۔ تم اپنے سکون کے لئے مجھے بے سکون کرنا چاہتے ہو؟ میں نہیں جاؤں گی سالار… مجھے وہیں رہنا ہے جہاں تم رہوگے…‘‘
وہ اس کی شکل دیکھ کر رہ گیا تھا، وہ اس کے ہر لہجے سے واقف تھا اور جانتا تھا وہ اس ضد سے نہیں ہٹے گی۔
ڈاکٹر سبط علی نے کہا تھا، اسے امامہ سے جو تکلیف ملی تھی، وہ اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ تھا لیکن وہ ان سے یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ اسے اس کے ساتھ میں جو سکون ملتا تھا، وہ کس نیکی کا صلہ تھا۔
٭…٭…٭
ورلڈ بینک اور امریکی حکومت نے اگر واشنگٹن میں سالار سکندر کے ساتھ مذاکرات میں اسے فری ہینڈ کی ضمانت دی تھی تو انہوں نے یہ وعدہ پورا کیا تھا۔ انہوں نے سالار سکندر کو افریقہ کے سیاہ و سفید کا مالک بنا کر وہاں بھیجا تھا۔ وہ ورلڈ بینک کے مختلف خطوں کے لئے مخصوص وائس پریذیڈینٹس میں سے پہلا اور واحد وائس پریذیڈنٹ تھا جس کے پاس کام کرنے کی اتنی آزادی اور اختیارات تھے اور جس سے ورلڈ بینک کا بورڈ آف گورنرز ہی نہیں، امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بھی وقتی طورپر دب رہاتھا۔ سالار سکندر ان کا وہ پیادہ تھا جو بیٹھے بٹھائے پیادے سے بادشاہ بن گیا تھا اور اس چیس بورڈ پر موجود تمام اہم مہروں کو ایک یک دم اس کو بادشاہ کی حیثیت دینی پڑ رہی تھی۔
واشنگٹن میں ورلڈ بینک کی نائب صدارت قبول کرنے کے اگلے دن اس نے کنشاسا جانے سے پہلے پہلی بار واشنگٹن میں اہم ترین نیوز چینلز کے نمائندوں کے ساتھ پریس کانفرنس کی۔ وہ پیٹرس ایباکا کی موت کے بعد اس کی پہلی رسمی بات چیت تھی، جس میں اس نے کانگو میں، ورلڈ بینک کے اس پروجیکٹ کے حوالے سے ماضی میں ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے ورلڈ بینک پر کی جانے والی تنقید کو کھلے دل سے تسلیم کیا تھا۔ اس نے بینک کا دفاع نہیں کیا تھا۔
سالار سکندر کی پریس کانفرنس، ورلڈ بینک کی انتظامیہ کے لئے کھسیاہٹ کا باعث ہونے کے باوجود صرف اس لئے حوصلہ افزا تھی کیوں کہ اس میں سالار سکندر نے افریقہ کے بدترین معاشی اور معاشرتی حالات میں ورلڈ بینک سے ہونے والی غلطیوں کے باوجود اس کی وہاں ضرورت اور کردار کی اہمیت پر زور دیا تھا، خاص طور پر دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں۔
اس کی اس پہلی پریس کانفرنس کی اہم باتیں افریقہ کے بڑے بڑے اخبارات نے اگلے دن ہیڈ لائنز کے طور پر لگائی تھیں۔ کانگو کے عوام کے لئے سالار سکندر کا چہرہ استحصالی سامراج کا چہرہ نہیں تھا ان کے لئے وہ پیٹرس ایباکا کے ایک قریبی اور قابل اعتماد ساتھی کا چہرہ تھا۔
وہ کانگو میں آنے کے بعد، پیٹرس ایباکا کی میت واپس آنے سے پہلے کانگو کے طول و عرض میں ہر اس قبائلی لیڈر سے ملا تھا جو پیٹرس ایباکا کا ساتھی تھا اور جو قبائلیوں میں تھوڑا بہت اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ پیٹرس ایباکا کے خاندان نے اس کی موت کے بعد کسی بھی غیر ملکی ادارے یا حکومت کے نمائندوں سے ملنے سے انکار کردیاتھا لیکن سالار سکندر کی ملاقات کی درخواست کو انہوں نے رد نہیں کیا تھا۔
سالار سکندر نے ورلڈبینک کی انتظامیہ کے ذریعے امریکی حکومت کو یہ بات باور کروائی تھی کہ ایباکا کی لاش کی باعزت واپسی کانگو اور افریقی عوام کے دلوں میں اس غصے کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگی جو اس کے مردہ جسم کو امریکہ زبردستی وہیں رکھ کر بڑھا رہا تھا۔ امریکی حکومت، اس کے کانگو واپسی کے دو ہفتے بعد، ایباکا کی میت واپس بھیجنے پر تیار ہوگئی تھی۔
کانگو کی حکومت نے غیر ملکی حکومتوں کے ان نمائندوں سے جو تدفین میں شریک ہونا چاہتے تھے معذرت کرلی تھی کہ وہ ایباکا کی تدفین میں شریک ہونے والے لاکھوں افراد کے متوقع ہجوم میں نہ تو انہیں تحفظ فراہم کرسکتے ہیں، نہ ان کی حفاظت کی ضمانت۔ ورلڈ بینک کی انتظامیہ اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے سالار سکندر کو بھی ایباکا کی آخری رسومات میں شریک ہونے سے روکا تھا، جس کے لئے اسے ایباکا کی فیملی نے مدعو کیا تھا اور سالار نے اس دعوت نامے کو قبول کرلیا تھا۔
امامہ بھی اس کے اس فیصلے سے ناخوش اور خوف زدہ تھی اور اس نے اسے سمجھانے اور روکنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ وہ اس وقت تک یہ کوشش کرتی رہی تھی جب تک ایباکا کی لاش کنشاسا پہنچ گئی اور اسی شام اس کی تدفین کے انتظامات ہورہے تھے۔
سالار سکندر اس کی اس منت سماجت کے دوران، ائیر پورٹ جانے سے پہلے دو نفل پڑھنے کے لئے کھڑا ہوگیا تھا اور وہ بے بسی سے بچوں کو لئے بیٹھ گئی تھی۔
’’اگر مجھے کچھ ہوگیا تو تم بچوں کو لے کر فوری طور پر پاکستان چلی جانا۔ اس انتظار میں مت بیٹھی رہنا کہ میری ڈیڈ باڈی مل جائے۔‘‘
اس نے نفل پڑھنے کے بعد پہلا جملہ اس سے یہی کہا تھا۔ وہ اس وقت اپنے بیڈ روم میں تھا۔ بچے سویٹ کے دوسرے کمرے میں تھے اور امامہ ان کے پاس سے اٹھ کر اسے سمجھانے آئی تھی اور اس کی نماز ختم ہونے کے انتظار میں بیٹھی تھی اور اس نے جائے نماز تہہ کرتے ہوئے… بڑے اطمینان کے ساتھ یہ کہا تھا۔
امامہ کے دل پر چوٹ پڑی۔ ’’تم بہت بے رحم ہو۔‘‘ اس نے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے سالار سے کہا۔
’’تم سے کم۔‘‘ سالار نے ہنستے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
پھر وہ دوسرے کمرے میں اپنے بچوں سے ملنے آیا تھا۔ جبریل باپ کے ساتھ ہی دروازے تک چلا آیا۔ دروازے سے نکلتے ہوئے اس نے امامہ کوخدا حافظ کہا تو اس نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
’’تم واپس آجاؤگے نا؟‘‘ وہ برستی آنکھوں سے منت بھرے انداز میں اس سے کہہ رہی تھی۔ یوں، جیسے وہ ا س کی بات نہیں ٹالے گا یا شاید رک ہی جائے۔
اس نے امامہ سے نظریں ملائے بغیر اپنے بازو سے اس کا ہاتھ اٹھا کر اسے نرمی سے چوما اور کہا۔
’’انشاء اللہ!‘‘ پھر جھک کر اپنی ٹانگ سے چپکے جبریل کو اٹھاتے ہوئے اس کا منہ چوما اور کہا۔ ’’اپنی ممی اور بہن بھائی کا خیال رکھنا۔‘‘
“I always do baba.” جبریل نے اسے یقین دلایا۔
سالار نے ایک بار پھر اس کا منہ چوما اور اسے کہا۔’’I am proud of you!‘‘
سالار نے اسے گود سے اتار دیا اور سب کو خدا حافظ کہا۔ دروازے میں برستی آنکھوں کے ساتھ کھڑی امامہ کو دیکھے بغیر۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

رعونت — عائشہ احمد

Read Next

نصیب — تنزیلہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!