آبِ حیات — قسط نمبر ۸ (حاصل و محصول)

وہ ورلڈ بینک کا پہلا بنیاد پرست نائب صدر قرار دیا گیا تھا۔ سی آئی اے کو سالار سکندر کو مانیٹر کرتے ہوئے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کسی اسلامی مالیاتی نظام کو قائم کرنے کی بات کررہا تھا جو سود سے پاک ہوتا… ان کے لئے یہ پریشان کن بات نہیں تھی… سالار سکندر ورلڈ بینک کے ساتھ منسلک رہتے ہوئے عملی طور پر ایسا کوئی کام نہیں کرسکتا تھا… اور جو خواب وہ دیکھنے کی کوشش کررہا تھا اس کو وہ ایک خیالی پلاؤ سے زیادہ اہمیت دینے پر تیار نہیں تھے۔ ان کے لئے اگر کوئی بات پریشان کن تھی تو وہ سالار سکندر کا یہ یک دم سامنے آنے والا مذہبی شخص تھا جو ان کے نزدیک افریقہ جیسی حساس جگہ پر ان کے لئے پریشانیاں کھڑی کرنے کا باعث ہوسکتا تھا… ضروری ہوگیا تھا کہ سالار سکندر کو صرف افریقہ ہی میں نہیں، ہر جگہ ہی مانیٹر کیا جائے اور سی آئی اے نے یہی کیا تھا… اس کی سرگرمیاں سی آئی اے کے ریکارڈ کا حصہ بن رہی تھیں… اور پہلی غیر معمولی سرگرمی جو سی آئی اے نے ریکارڈ کی تھی وہ ایباکا کی تدفین کے تین ہفتے بعد مسقط میں سالار سکندر کی سمندر میں ایک لانچ پر پانچ لوگوں سے ایک ملاقات تھی، جس میں سے ایک مسقط کی رائل فیملی سے تھا… بظاہر اس ملاقات کو ایک گیٹ ٹو گیدر سمجھا جاسکتا تھا۔ سالار سمیت وہ پانچوں پرانے شناسا اور دوست تھے۔ ایک ہی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ مختلف قومیتوں اور پروفیشنلز سے تعلق رکھتے تھے… اور اپنی اپنی فیلڈ کے نامور لوگ تھے اور ان میں سے کسی کا بھی کانگو اور افریقہ سے کوئی تعلق نہیں تھا سوائے سالار سکندر کے… نہ کانگو اور افریقہ سے تعلق تھا نہ ہی ورلڈ بینک سے لیکن اس کے باوجود ان سب میں کچھ باتیں مشترک تھیں… وہ سب سالار سکندر کے ہم عمر تھے… صرف ایک شخص مسقط کی رائل فیملی سے تعلق رکھتا تھا، اس کے علاوہ باقی سب مختلف قومیت رکھنے کے باوجود امریکن شہریت رکھتے تھے اور مسقط کی رائل فیملی سے تعلق رکھنے والا شخص بھی اس وقت امریکہ ہی میں مقیم تھا… وہ سب دنیا کے 100 انڈر 40 گلوبل لیڈرز کی فہرست میں شامل تھے جن کے بارے میں یہ پیش گوئی تھی کہ وہ دس سال بعد دنیا کے ممتاز ترین لیڈرز میں سے ہوں گے… ان میں سے کوئی بھی بات سی آئی اے کے لئے پریشان یا تشویش کن نہیں تھی سوائے ایک آخری مماثلت کے، سالار سمیت وہ پانچ کے پانچ افراد مسلمان تھے… اور باعمل مسلمان تھے اور قرآن پاک کے حافظ تھے۔
سی آئی اے نے سالار سکندر کی اس سرگرمی کو صرف مانیٹر اور یکارڈ نہیں کیا تھا انہوں نے اس ملاقات میں شامل پانچوں افراد کو بھی اپنی واچ لسٹ میں ڈال لیا تھا۔ اگلے آنے والے مہینوں میں سالار سکندر اور ان پانچ افراد کے بہت سارے تفریحی دورے ہوتے رہے تھے… لیکن اب سی آئی اے صرف سالار سکندر کی نہیں ان پانچ افراد کی نقل و حرکت کو بھی مانیٹر کررہی تھی… ایک عجیب پراسرار نیٹ ورک کام کررہا تھا… وہ پانچ افراد سالار سکندر سے صرف چند ماہ اچانک ملتے رہے تھے لیکن اس کے بعد سالار سکندر کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ ختم ہوگیا تھا۔ وہ پانچ افراد اب آپس میں بھی نہیں مل رہے تھے لیکن وہ پانچ افراد انفرادی طور پر ایسی ہی ملاقاتیں کررہے تھے۔ پیٹرن وہی تھا، چار پانچ اپنی اپنی فیلڈ کے ممتاز ترین لوگ… لیکن دنیا کے مختلف ممالک میں… سب ہی ایک ہی عمر کے دائرے میں اور سب ہی امریکن نیشنل… اور پھر یہ مماثلتیں ایک جگہ جاکر مرکوز ہوجاتی تھیں۔
وہ سب بھی مسلمان تھے… ان میں کچھ حفاظ تھے، کچھ نہیں تھے لیکن وہ سب باعمل مسلمان تھے۔
وہ ایک اسلامی مالیاتی سسٹم پر کام کررہے تھے اور یہ سی آئی اے جانتی تھی لیکن اس نظام کی شکل کیا تھی، خدوخال کیا تھے، وہ اسے بوجھنے میں کامیاب نہیں ہورہے تھے اور اس کی وجہ صرف ایک تھی… ایک جگساپزل کی طرح اس نظام سے منسلک ہونے والے سب افراد کے پاس اس کا ایک ایک ٹکڑا تھا… اور وہ اس ٹکڑے کو اچھی طرح سمجھتا اور جانتا تھا لیکن وہ ٹکڑا اس تصویر میں کہاں لگتا تھا، یہ صرف ایک شخص جانتا تھا… سالار سکندر۔
٭…٭…٭




پینتیس سالہ غلام فرید ذات کا کمہار اور پیشے کے لحاظ سے ایک اسکول کا چوکیدار تھا۔ گاؤں میں رہتا تھا، لیکن شہر میں بسنے کے خواب دیکھتا تھا اور خواب صرف شہر میں آباد ہونے کا نہیں تھا جو وہ اپنی آنکھوں میں سجائے پھرتاتھا۔اسے راتوں رات امیر ہونے کا بھی بڑا شوق اور شوق سے زیادہ حسرت تھی۔ ویسا امیر ہونے کا،جیسے اس کے کئی دوست گاؤں سے دبئی یا سعودی عرب جاکر ہوگئے تھے۔
وہ سات بہنوں کا اکلوتا اور سب سے بڑا بھائی تھا، جس کی شادی کا خواب ماں نے اس کے پیدا ہوتے ہی سجا لیاتھا۔ دھوم دھام کی شادی نے اگلے کئی سال غلام فرید کو وہ قرض اتارنے میں مصروف رکھا، جو اس کی شادی پر ماں، باپ نے خاندان والوں سے چھوٹی بڑی رقمیں کرکے لیا تھا اور جب وہ قرض ختم ہوا تو اسے بہنوں کی شادی پر قرض لینا پڑا اور اس بار خاندان والوں سے قرض نہ ملنے پر اس نے سود پر قرض لیا تھا۔ سات بہنیں تھیں اور ہر سال کسی نہ کسی کی شادی آجاتی… پچھلا قرضہ وہیں کھڑا رہتا۔ مزید قرضہ سر پر چڑھ جاتا اور پھر ایک کے بعد ایک بچے کی پیدائش… غلام فرید کو کبھی کبھار لگتا اس کا نام غلام قرض ہونا چاہیے تھا غلام فرید کے بجائے…
شادی کے تیرہ سالوں میں قرض کی ہر رقم تو اس نے اتار دی تھی، لیکن سود کی رقم اس کے سر پر اس کے سر کے بالوں سے بھی زیادہ ہوگئی تھی۔ اس کی بیوی بھی اسی اسکول کی عمارت میں صفائی کا کام کرتی تھی، جس اسکول میں وہ چوکیدار تھا۔ دو بڑے بچے بھی گاؤں کی دو دکانوں پر کام کرتے تھے۔
ایک چائے کے ایک کھوکھے پر کام کرتا تھا۔ دوسرا ایک ورکشاپ میں موٹر سائیکلیں دھونے کا کام، دس گیارہ سال کی عمر میں وہ دو بچے یہ ہی کرسکتے تھے۔ انہیں تنخواہ نہیں دیہاڑی ملتی تھی اور اسی دیہاڑی سے گھر کی دال روٹی چلتی تھی، کیوں کہ نسیمہ اور غلام فرید کی تو ساری کی ساری تنخواہ ہر ماہ سود میں چلی جاتی تھی۔ کئی سالوں سے سود کی وہ سل پھر بھی ان کے سینے ہٹتی ہی نہ تھی۔ بوجھ تھا کہ بڑھتا ہی گیا تھا۔
پینتیس سال کی عمر میں بھی کئی بار اسے لگتا وہ پچاس سال کا تھا۔ کئی بار اسے لگتا وہ سو سال کا ہوگیا تھا اور کئی بار اسے لگتا وہ مر گیا ہے۔ مرنے والا ہے، مررہا ہے، پتا نہیں وہ عمر کا کون سا سال ہوتا ہے جو ایسی کیفیت کے ساتھ گزرتا ہے۔
کئی بار وہ سوچتا تھا، وہ ایک رات چپکے سے بیوی، بچوں کے ساتھ گاؤں سے بھاگ جائے۔ کسی دوسرے شہر… دنیا کے کسی دوسرے کونے پر… جہاں پر وہ اس سود سے آزاد ہوتے… غلام فرید جی بھر کر رات کو سوتا اور پھر وہ، اس کی بیوی اور بچے جو کماتے خود پر خرچ کرتے… تین وقت ڈھیر سارا کھانا پکاتے اور کھاتے پیٹ بھر کے… اور جو بچتا وہ کسی کو دے دیتے… برتن چاٹ چاٹ کر اور روٹی کے آخری لقمے سے پلیٹیں پونچھنے کے بجائے…
سال میں دس بیس نہیں تو دو چار تو اچھے سے جوڑے سلواتے اپنے اور سب بچوں کے لئے… گاؤں کے امیر خاندانوں کے بچوں اور افراد کی اترن پہننے کے بجائے…اور لنڈا بازار سے خریدے ہوئے کپڑے پہن کر عیدیں گزارنے کے بجائے…
اور پھر ایک گھر بناتے…اپنا گھر… پکی اینٹوں اور پلستر والا پکی چھت والا گھر… شاید ڈبل اسٹوری ہی بنوالیتے… اور صحن کے فرش میں چپس ڈلواتے… پانی کی موٹر لگواتے… شاید اے سی بھی… اور فریج… ٹی وی… اچھا سا فرنیچر… اور لش پش کرتے پردے… اور چینی کے برتن اور پھر وہ، اس کے بچے زمین کے بجائے ٹیبل اور کرسیوں پر بیٹھ کر کانٹے اور چمچ سے ان چینی کے برتنوں میں کھانا کھاتے…
غلام فرید کے خوابوں کی ریل گاڑی ساری رات چھکا چھک چلتی رہتی… ہر اسٹیشن پر رکتی کچھ اور خواب اٹھاتی اور پٹری پر پھر دوڑنے لگتی اور پھر دوڑتے دوڑتے وہیں آکر رک جاتی، جہاں سے وہ چلی تھی… رات گزر جاتی … زندگی بھی گزر رہی تھی اور غلام فرید کو پتا تھا وہ اپنی رات کو خوابوں میں گزارسکتا ہے، زندگی کو نہیں۔
گاؤں سے بھاگ جانا آسان تھا، مگر ان لوگوں سے چھپ جانا نہیں جن سے وہ قرضہ لئے بیٹھاتھا اور قرضہ ادا ہونے کے باوجود سود وہیں کا وہیں کھڑا تھا۔ وہ لوگ اس کی چمڑی ادھیڑ نے پر قادر تھے اور اس کو کتوں کے سامنے بھی پھنکوادیتے… اور غلام فرید بچوں اور ایک بیوی کے ساتھ ساری عمرکے لئے کہاں چھپ جاتا کہ دوبارہ کسی کو نظر نہ آتا۔ اپنے اور اپنی بیوی کے خاندان والوں کو ہمیشہ کے لئے کیسے چھوڑ دیتا کہ دوبارہ کبھی رابطہ ہی نہ کرتا۔
راہ فرار غلام فرید کے پاس نہیں تھی اور اگر کوئی توتھی تو صرف ایک… وہ امیر ہوجاتا اور پتا نہیں کیوں، لیکن غلام فرید کو لگتا تھا کہ وہ امیر ہوسکتا تھا۔
٭…٭…٭
چنی غلام فرید کی آخری اولاد تھی۔ اگر نسیمہ کی زندگی رہتی اور وہ سب کچھ نہ ہوتا جو ہوگیا تو شاید وہ آخری اولاد نہ ہوتی، بیچ کی اولاد ہوتی اور اس کا نمبر کیا ہوتا اس کا اندازہ کوئی بھی نہیں کرسکتا تھا۔ مگر وہ غلام فرید کی آخری اولاد زندگی کی ایک اسٹیج پر اس کی واحد اولاد رہ جانے والی تھی، یہ غلام فرید کو نہیں پتا تھا، پتا ہوتا توشاید وہ واحد اولاد بھی زندہ نہ رہ پاتی۔
ڈیڑھ سالہ چنی کو اس کی پیدائش سے پہلے کئی بار مارنے کی کوشش کی گئی تھی۔ نسیمہ کو جب اپنے نویں بار حاملہ ہونے کا اندازہ ہوا تو اس نے گاؤں میں دائی سے ملنے والی ہر اس چیز کا استعمال کیا تھا، جس سے اسقاط حمل ہوجاتا۔ چنی کو تو کچھ نہیں ہوا، لیکن خود نسیمہ ان مضر صحت ادویات کے استعمال سے کئی قسم کی بیماریوں کا شکار ہوگئی۔
چنی صحت مند پیدا ہوئی تھی۔ یعنی صحت کے اس معیار کے مطابق صحت مند تھی، جس پر اسکے بہن بھائی اور ماں باپ پورا اترتے تھے۔ اس کا پیدا ہونا جیسے اس کی اپنی ذمہ داری بن گئی تھی۔ ( اس کی ماں کی لاتعداد اسقاطِ حمل کی کوششوں کے بعد…) اور جیسے اس کا پلنا بھی اس کی اپنی ہی ذمہ داری ہوگیا تھا۔ ماں کو ہفتے بعد ہی واپس ڈیوٹی پر جانا تھا۔ یہ کوئی شہر نہیں تھا کہ میٹرنٹی لیو جیسی سہولت سے اسے نوازا جاتا اور وہ بھی نویں بچے کی پیدائش پر…
دو کمروں کا وہ گھر جو غلام فرید کا واحد خاندانی ترکہ تھا، چنی کی پیدائش کے چند ہفتوں بعد سود میں گروی رکھا گیا تھا۔ اسکول نے غلام فرید کی اس مشکل وقت میں مدد کی اور اسے ایک کوارٹر مل گیا رہائش کے لئے، جس میں صرف ایک کمرا تھا، مگر وہ بھی غنیمت تھا، فی الحال غلام فرید کو… پر چنی،ماں باپ کو اس حوالے سے خوب یاد رہی کہ اس کی پیدائش نے انہیں بے گھر کیا تھا۔ چنی کی خوش قسمتی یہ تھی کہ روایتی انداز میں اس پر منحوس کا لیبل نہیں لگا اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ غلام فرید کو اپنے ہر بچے کی پیدائش پر کوئی نہ کوئی بری خبر ملتی رہی تھی۔ اسے کوئی بھی ایسی اولاد یاد نہیں تھی، جس کے دنیا میں آنے سے غلام فرید کی زندگی میں کوئی آسانی پیدا ہوئی تھی۔
نحیف ونز اور سانولی رنگت والی چنی سارا دن گرمی میں بان کی ایک چارپائی پر ایک کپڑے پر پڑی رہتی۔ روتی، کلبلاتی، پھر خود ہی انگوٹھا چوستی اور سوجاتی… کسی بہن کو خیال آجاتا تو چنی کو اس کے سستے سے پلاسٹک کے اس فیڈر میں دودھ مل جاتا، جس میں اس کے ہر بہن بھائی نے دودھ پیا تھا اور جو اتنے سالوں میں اتنا گدلا، میلا اور گھس گیا تھا کہ اس میں ڈالا ہوا دودھ بھی میلاد کھنے لگتا۔ وہ بلاشبہ جراثیم کی آماجگاہ تھا، لیکن چنی کی خوش قسمتی یہ تھی کہ وہ غریب کی اولاد تھی اور غریب کی اولاد بھوک سے مرجاتی ہے۔ گندگی سے نہیں۔
پورے دن میں ایک آدھ بار ملنے والا دودھ کا فیڈر وہ واحد غذا تھا جس پر چنی سارا دن گزارتی تھی۔ اس سے زیادہ خوراک غلام فرید کے گھر میں کسی بچے کو نہیں ملی تھی۔ سوائے اس کے پہلے دو بیٹوں کے، نسیمہ شام کو تھکی ہاری آتی اور جو بھی روکھی سوکھی ملتی وہ کھا کر کمرے کے ایک کونے میں اپنے کسی بچے سے ٹانگیں دبواتی لیٹتی اور وہیں سوجاتی۔ اسے خیال ہی نہیں آتا تھا کہ اس کمرے میں اس کی ایک نوزائیدہ اولاد بھی تھی۔ ہاں کبھی کبھار وہ اس وقت چنی کو ضرور دیکھنے بیٹھ جاتی تھی۔ جب بڑی بچیوں میں سے کسی کو اچانک وہم ہوتا کہ چنی شاید مرگئی تھی، کیونکہ وہ کبھی سانس نہیں لے پاتی اور کبھی اس کا جسم اتنا ٹھنڈا اور نیلا ہوجاتا کہ نسیمہ کو لگتا شاید اس کا بوجھ واقعی کم ہوگیا تھا۔ لیکن…لیکن چنی اپنے ماں باپ کے سب ارمانوں پر پانی پھیرتے ہوئے پھر سانس لینا شروع کردیتی۔
کئی ہفتوں تک کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ چنی کی پیدائش رجسٹر کروانی چاہیے۔ اس کا کوئی نام ہونا چاہیے۔ چنی نام اسے اس کی ماں نے اس کی جسامت دیکھ کردیا تھا اور سب اسی نام سے پکارنے لگے تھے۔ پھر گاؤں میں حفاظتی ٹیکوں کی مہم والے آئے تو غلام فرید کو چنی کا نام اور پیدائش رجسٹر کروانی پڑی۔ غلام فرید نے اس کی پیدائش رجسٹر کروانے کے لئے تین سو روپے کسی سے ادھار لئے تھے اور وہ ادھار بھی گاؤں کی مسجد کے امام سے… اور ان تین سو روپے نے غلام فرید کی زندگی میں کیا کردار ادا کرنا تھا، اس کا اندازہ نہ غلام فرید کو تھا، نہ ہی اس کی اس نویں اولاد کو، جسے رجسٹر میں کنیز کا نام دیا گیا تھا۔ یہ نام چنی کے لئے کس نے چنا تھا، کسی کو یاد نہیں۔ شاید محلے کی کسی بوڑھی عورت نے… یہ سوچتے ہوئے کہ انسان پر نام کا اثر آتا ہے اور عورت کے لئے سب سے اچھی صفت اطاعت اور فرماں برداری ہے، جو کنیز نام رکھے جانے پر چنی میں بھی کوٹ کوٹ کر بھر جائے گی۔
گاؤں میں کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ کنیز ولد غلام فرید عرف چنی کو نہ اس نام کی ضرورت تھی، نہ اس صفت کی… اسے اللہ تعالیٰ نے کسی اور کام کے لئے چنا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

رعونت — عائشہ احمد

Read Next

نصیب — تنزیلہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!