آبِ حیات — قسط نمبر ۸ (حاصل و محصول)

لاکھوں لوگوں کے ہجوم کے ساتھ، سالار سکندر نے ائیر پورٹ پر ایباکا کی میت کو وصول کیا تھا۔ ان لاکھوں لوگوں کے ہجوم میں سالار سکندر کے علاوہ ایک بھی سفید فام نہیں تھا، یہاں تک کہ اس دن کانگو میں اس ایونٹ کو کور کرنے والے نیوز چینلز کا سارا عملہ بھی مقامی تھا۔ کوئی، ہتھیاروں سے مسلح اس قبائلی ہجوم میں جانے کا رسک نہیں لینا چاہتا تھا، جن کو جان لینے اور جانے دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا تھا۔ جو وحشی اور اجڈ تھے اور اپنی بقا کے لئے ہر اس چیز کو خس و خاشاک بنادینے پر تیار، جوان کے راستے میں دیوار بنتی۔
اور لاکھوں سیاہ فام لوگوں کے ہجوم میں، ایک صاف رنگت والا سفید فام تھا جو نسلی طور پر سفید فام نہ ہونے کے باوجود اپنی صاف رنگت اور ان لوگوں کی سیاہ ترین رنگت کے مقابلے میں، سفید فام لگ رہاتھا۔ وہ وہاں نہتا تھا۔ کانگو کی حکومت نے اسے کچھ سیکیورٹی دی تھی مگر اس سیکیورٹی کو ان قبائلیوں نے رد کردیا تھا جو اس سارے ایونٹ کے انتظامات سنبھالے ہوئے تھے اور سالار سکندر تن تنہا، اسی دلیری سے اپنے ساتھ ایک بھی گارڈ لئے بغیر اندر چلا گیا تھا۔
دنیا میں کروڑوں ٹی وی اسکرینز پر لائیو نشر ہونے والا وہ ایونٹ، لاکھوں کے اس ہجوم میں صرف ایک شخص کو فوکس کئے ہوئے تھا اور بار بار۔ تیکھے نقوش والا وہ دراز قامت شخص، ایباکا کی آخری رسومات کے موقع پر اسٹیج پر اس کے خاندان کے ساتھ، اس مجمع کے سامنے بیٹھا تھا جس میں سے کوئی بھی اس پر گولی چلاتا تو یہ بھی پہچانا نہیں جاسکتا تھا کہ وہ کہاں تھا اور کون تھا؟
اور اگر وہ مجمع اس پر چڑھ دوڑتا تو اللہ کے سوا کوئی نہیں تھا جو اس مجمع کے ہاتھوں اس کی بوٹیوں کے بھی ٹکڑے ہونے سے روک سکتا اور یہ احساس سالار سکندر کو اس اسٹیج پر ان لاکھوں لوگوں کے سامنے بیٹھنے پر ہورہا تھا جو ایباکا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے کی جانے والی قبائلی سرداروں کی جوشیلی تقریروں میں اس سامراج کی تباہی کے لئے نعرے بلند کررہے تھے، جن کا ساتھی بن کر وہ وہاں بیٹھا، انہیں دیکھ رہا تھا۔ اس کے دل پر لاکھوں لوگوں کی ہیبت طاری ہورہی تھی اور اس کی زبان پر قرآنی آیات کا ورد تھا۔




یہ احساس ہونے کے باوجود کہ اللہ اس سے خفا تھا، وہ اللہ ہی کو پکار رہا تھا۔
امریکہ میں سی آئی اے ہیڈ کوارٹر اور ورلڈ بینک کے ہیڈ کوارٹر میں اسکرین پر نظر آنے والا وہ شخص، ان سب کو اپنی ہیبت میں لے رہا تھا جن کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا تھا۔ دلیری ہو تو ایسی ہو، جرأت ہو تو یہ۔
وہ گنگ تھے، دم بخود تھے اور مرعوب۔
وہ شخص اب پیٹرس ایباکا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اپنی نشست سے اپنا نام پکارے جانے پر اٹھ رہا تھا۔ لاکھوں کا مجمع اس کے لئے جواباً تالیاں بجاکر داد تحسین دے رہا تھا۔
چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد، تیکھے نقوش اور سنجیدہ چہرہ۔ سیاہ ٹو پیس سوٹ میں وہ وجاہت اور وقار کی ایک خوب صورت مثال تھا جو اس وقت پوری دنیا کے کیمروں کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس اسٹیج کے بالکل اوپر، کافی بلندی پر ایک بلیک ہاک ہیلی کاپٹر میں سی آئی اے کے کچھ کمانڈوز اس مجمع کو ٹی وی اسکوپس سے مانیٹر کررہے تھے۔ چند اور بلیک باکس آس پاس کی عمارتوں کو۔ وہ سالار سکندر کی حفاظت اور زندگی کے لئے اس وقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے تھے۔
سالار سکندر روسٹرم کے پیچھے پہنچ گیا تھا۔ مجمع کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ وہ اب بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کے بعد قرآنی آیات کی تلاوت کررہاتھا۔
سالار سکندر نے زندگی میں بہت ساری تقریریں کی تھیں لیکن ان میں سے کوئی تقریر بھی لاکھوں کے ایک ایسے مجمع کے سامنے نہیں تھی جس سے وہ انسانی ہمدردی کے علاوہ اور کوئی تعلق نہیں رکھتا تھا۔
وہ مقامی زبان لنگالا (Lingala) میں ان سے بات کررہا تھا اور جو کچھ وہ کہہ رہا تھا، وہ ترجمہ ہوکر ٹی وی اسکرین پر نظر آرہاتھا۔ پوری دنیا میں کی جانے والی ٹی وی کوریج میں سواحلی اور لنگالا میں کی جانے والی، وہاں کے مقامی لیڈرز کی ہر تقریر کو انگلش اور دوسری بین الاقوامی زبانوں میں ترجمہ کرکے پیش کیاجارہاتھا۔ نہ امامہ کو اندازہ تھا اور نہ ہی سالار سکندر کو کہ وہ آج افریقہ کے اس سیاہ فام مجمع کے سامنے آخری نبیﷺ کے آخری خطبہ کو دہرائے گا۔ وہ الفاظ جن کی باز گشت سے وہ ہمیشہ چھپتا رہا تھا وہ اس کے لاشعور سے تصور کا سفر طے کرکے زبان پر آکر نہیں رکے تھے، وہ لاکھوں کے اس مجمع کے سامنے ادا ہوکر کروڑوں لوگوں تک پہنچے تھے۔
اس نے بسم اللہ سے اپنی تقریر کا آغاز کیا تھا ہمیشہ کی طرح۔ اس نے مجمع کو قرآنی آیات سنائی تھیں۔ کہ عزت اور ذلت صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اور اس کے بعد اس نے سراٹھا کر مجمع کو دیکھا تھا اور پھر جیسے اس کا ذہن خالی ہوگیا تھا۔ ایک لمحہ کے لئے وہ بھول گیا تھا کہ اسے وہاں کیا کہنا تھا۔ اس نے سر جھکا کر دوبارہ روسٹرم پر رکھے اس کاغذ پر نظر دوڑائی تھی جس پر اس نے اس تقریر کے نکات لکھے تھے۔ وہ ساری عمر صرف نکات نوٹ کرکے ہی تقریریں کرتا رہا تھا۔ اپنی یادداشت اور اپنے علم پر ایسا ہی اندھا یقین رکھتا تھاوہ، اور اب وہ بالکل خالی ذہن کے ساتھ ہونقوں کی طرح اس مجمع کو دیکھ رہا تھا جو اس کے اگلے الفاظ کے منتظر تھے ۔ اس کے پچھلے الفاظ ان کے سر سے گزرے تھے۔ افریقہ کے وہ قبائل جو اس وقت وہاں اکٹھے تھے وہ آج بھی اللہ کی عبادت نہیں کرتے تھے، نہ ہی اللہ کے وجود کو پہچانتے اور مانتے تھے۔ وہ بہت سی دوسری چیزوں کو اعلیٰ، برتر مانتے تھے۔ ان کے لئے وہ رب (جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے) بھی اتنا ہی نا آشنا تھا جتنا وہ۔ ’’رب جو عزت اور ذلت عطا کرنے پر قادر تھا۔‘‘ سالار سکندر کو اب ایسا اور کیا کہنا تھا جو سمجھ میں آتا اور بہت آسانی سے آتا اور یہی وہ لمحہ تھا جب اسے آخری خطبہ یاد آیا تھا۔
’’میں ایک ایسی آرگنائزیشن کا حصہ ہوں جس نے ماضی میں اس خطے اور آپ لوگوں کے ساتھ بہت زیادتیاں کی ہیں۔ آپ لوگوں کو کمتر سمجھا گیا۔ آپ لوگوں کے حقوق چھینے گئے۔ آپ لوگوں کے وسائل اور اثاثوں پر ناجائز قبضہ کیاگیا۔ میں اس سب کے لئے آپ سے معذرت خواہ ہوں کیوں کہ میں ایک ایسے مذہب کو ماننے والا ہوں جس کے پیغمبر امانتوں میں خیانت سے منع کرتے تھے۔ وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند کرنے کی تلقین کرتے تھے جو اپنے لئے۔ جنہوںنے بتایا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر برتری حاصل نہیں ہے۔ وہ انسانی مساوات کی بات کرتے تھے۔ ذات پات، رنگ و نسل، چھوت چھات کو نہیں مانتے تھے۔‘‘
سالار سکندر حافظ تھا، مبلغ نہیں تھا۔ مقرر تھا، مفسر نہیں تھا۔ زندگی میں اس نے کبھی اپنے پروفیشن میں مذہب کو لانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ آج بھی اس نیت سے وہاں نہیں آیا تھا، پر اس وقت جو بھی اس کی زبان سے نکل رہا تھا وہ دل کی آواز تھی اور دلوں تک جارہی تھی۔
افریقہ میں غیر انسانی حالات میں رہنے والا سیاہ فام مجمع اس کی باتیں سن رہا تھا اور اب پہلی بار ساکت و صامت، خاموشی کے ساتھ سن رہا تھا اور اس خاموشی کو ایک بے اختیار داد و تحسین نے توڑا تھا۔ یہ داد سالار سکندر کے جملے پر نہیں ملی تھی۔ یہ داد نبیﷺ آخر الزماں کے آخری خطبے کے ایک بنیادی فلسفے کو ملی تھی۔ وہ اللہ کا پیغام تھا جو آخری نبیﷺ کے ذریعے چودہ سو سال پہلے آیا تھا اور آج چودہ سو سال بعد بھی وہ پیغام دلوں کو تسخیر بھی کررہا تھا، ان پر مرہم بھی رکھ رہا تھا۔ اس لئے کہ وہ پیغام انسانیت کے لئے تھا۔ قیامت تک کے لئے تھا۔ ہیڈ کوارٹرز میں بیٹھے لوگ اب بھی گنگ تھے۔ لاکھوں کا وہ مجمع اس آدمی کو اپنے رعب میں نہیں لے پایا تھا لیکن اس آدمی کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ اس لاکھوں کے مجمع کو جیسے اس کی مٹھی میں لے آئے تھے۔ سالار سکندر نے وہ اسم اعظم پڑھتے ہوئے افریقہ کی نبض پر ہاتھ رکھا تھا جو چودہ سو سال پہلے بھیج دیا گیا تھا۔
امامہ بھی دم بخود تھی۔ وہ شخص کس جگہ کھڑا کیا دہرا رہا تھا اور اگر اسے اس آخری خطبہ کا یہ حصہ یاد تھاتو یہ کیسے ممکن تھا باقی حصہ یاد نہ ہوتا اور یاد تھا تو اس لئے کہ وہ کہیں گڑ گیا تھا۔
’’یہ لوگ بابا کے لئے تالیاں کیوں بجارہے ہیں؟‘‘
وہ جبریل کے سوال پر جیسے چونک پڑی تھی، وہ اس کے پاس بیٹھا ہی ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ امامہ صرف اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔
تالیوں کی گونج اب تھم رہی تھی۔ وہ بہت دیر تک بجتی رہی تھیں۔ اتنی دیر تک کہ سالار سکندر کو یاد آگیا تھا کہ اسے آج وہاں کیا کہنا تھا لیکن اب اپنے بھولے ہوئے الفاظ یاد آنے پر اسے خوشی نہیں ہوئی تھی۔ تاثیر اس میں تھی جو بھول کر یاد آیا تھا۔
’’میں افریقہ میں اپنے مذہب کے ان ہی اصولوں اور اسی سوچ کے ساتھ کام کرنے آیا ہوں اور کام کروں گا اور میں آپ لوگوں سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر مجھے یہ احساس ہوا کہ میں ان اصولوں پر آپ لوگوں کی فلاح کے لئے کام نہیں کرسکتا تو میں یہاں سے چلا جاؤں گا، لیکن میں ان طاقتوں کے ہاتھ مضبوط نہیں کروں گا، جن کے خلاف پیٹرس ایباکا نے جنگ کی اور جن سے لڑتے ہوئے اس نے جان دی۔‘‘
سالار سکندر کہہ رہا تھا۔
’’لیکن ایباکا نے اپنی جان اس لئے قربان نہیں کی کہ وہ اپنے لوگوں کو بدترین حالات میں جیتا دیکھے۔ وہ اپنے لوگوں کے لئے خواب دیکھتا تھا، ایک اچھی زندگی کے خواب۔‘‘
سالار سکندر اب انہیں ایباکا کی آخری ای میل سنا رہاتھا۔
مجمع سالار سکندر کے ہر جملے پر دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ وہ ایباکا کی آخری ای میل نہیں، جیسے آخری وصیت تھی جو صرف سالار سکندر کے پاس تھی۔
’’اور ایباکا جو خواب کانگو کے لئے دیکھتا تھا وہ بھوک ،جنگ اور بیماری کا خواب نہیں تھا، وہ امن اور انسانیت پریقین رکھتا تھا اور زندگی کے آخری لمحے تک وہ امن ہی کی بات کرتا رہااور یہ امن وہ اپنے لئے نہیں، آپ لوگوں کے لئے چاہتا تھا، اپنے لوگوں کے لئے۔ ایباکا کو اس سے بڑا خراج تحسین آپ تب تک پیش نہیں کرسکیں گے جب تک اس کانگو کو ایک جدید، ترقی یافتہ قوم اور ملک نہ بنادیں اور کانگو یہ کرسکتا ہے۔ پگمیز یہ کرسکتے ہیںاور میں اور میرا ادارہ پیٹرس ایباکا کا یہ خواب پورا کرنے میں آپ لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہم جانے والے کل کو نہیں بدل سکتے۔ آنے والا کل ہمارے ہاتھ میں ہے۔ میری خواہش ہے کہ اکیسویں صدی کا کانگو ، ایباکا جیسے اور بہت سے لیڈرز پیدا کرے جو ترقی، امن اور کانگو کے بہتر مستقبل کا تصور لے کر آگے چلیں اور ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل ہوجائیں۔ یہ میرا پیغام نہیں ہے، یہ ایباکا کا پیغام ہے جو کسی مذہب پر کاربند نہیں تھا لیکن اللہ کے وجود کو مانتا تھا اور یہ زمین اللہ کی ہے، اللہ کے بندوں کے لئے ہے۔ کسی غاصب کے لئے نہیں ہے۔ سامراج کے لئے نہیں ہے۔ آپ کے لئے ہے۔ کانگو کے لوگوں کے لئے ہے۔‘‘
لاکھوں کا وہ مجمع جو چند لمحے پہلے تک ایک ناقابل تسخیر پہاڑ لگ رہا تھا اب تسخیر ہوچکا تھا۔ وہ سالارسکندر کے الفاظ پر رو رہاتھا۔ اس کے الفاظ پر تالیاں بجا رہا تھا۔ اس کے الفاظ پر نعرے لگا رہا تھا۔
سالار سکندر اپنی تقریر ختم کرکے روسٹرم سے ہٹ چکا تھا۔ اس کے روسٹرم سے واپس اپنی نشست کی طرف جاتے ہوئے لاکھوں کا وہ مجمع سالار سکندر کا نام پکار رہاتھا۔ افریقہ، سالار سکندر کا نام پکار رہاتھا۔ وہ روسٹرم پر آیا بھی آوازوں کی گونج میں تھا، وہ وہاں سے واپس بھی آوازوں کی گونج میں ہی ہوا تھالیکن اب ماحول تبدیل ہوچکا تھا۔
وہ دس منٹ کی تقریر کے لئے گیا تھا اور آدھے گھنٹے کے بعد وہاں سے ہٹ سکا تھا اور وہ اس کی زندگی کا طویل ترین آدھا گھنٹہ تھا، صرف اس ہی کی نہیں، امامہ کی زندگی کا بھی۔ آنسو صرف اس مجمع کی آنکھوں سے ہی رواں نہیں ہوئے تھے، امامہ کی آنکھوں سے بھی برسنے لگے تھے۔ وہ مجمع سالار سکندر کو اپنا نجات دہندہ کے طور پر دیکھتے ہوئے رو رہا تھا اور امامہ ہاشم اس ’’نجات دہندہ‘‘ کی جان ایک بار پھر بچ جانے پر۔
’’آپ کیوں رو رہی ہیں مما؟‘‘ جبریل نے کچھ پریشان ہوکر ماں کو دیکھا تھا جو پچھلے کئی گھنٹوں سے کچھ بھی بولے بغیر گم صم ٹی وی کے سامنے بیٹھی تھی، اس کے کسی سوال کا جواب دیئے بغیر اور اب ایک دم رونے لگی تھی۔ امامہ نے کچھ بھی کہے بغیر اسے لپٹا لیا۔ انسان روتا کیوں ہے؟ یہ آسان سوال کبھی کبھار الجبرا کا سوال بن جاتا ہے۔
وہ دس منٹ سالار کو جیسے شرم ساری کے سمندر میں ایک بار پھر غرق کرگئے تھے۔ وہ آج جس آخری خطبے کے الفاظ یاد آجانے اور دہرا دینے پر اپنی عزت بچانے میں کامیاب ہوا تھا، وہ آخری خطبہ اس کے اپنے ضابطہ حیات کی عکاسی کیوں نہیں کرپایا تھا۔ اس پر عمل اس کی زندگی کی ترجیحات میں کیوں شامل نہیں تھا۔ یاد دہانی تھی جو اسے بار بار کرائی جارہی تھی۔ تنبیہہ تھی جو اسے دی جارہی تھی جو ’’ارادہ، نیت‘‘ تھا اسے ’’مشن‘‘ بنادینے کے لئے یہ ضروری تھا۔ سالار سکندر ان دس منٹوں کے بعد اسٹیج پر گم صم بیٹھا رہا تھا۔ اس کی زبان پر اب بھی آیات تھیں، شکر کے الفاظ تھے۔ اس رب نے آج بھی ہمیشہ کی طرح ا س کی عزت رکھی تھی۔ اس ذات نے اس حافظ قرآن کو دنیا کے سامنے رسوا نہیں کیاتھا اور اس احساس نے صرف تشکر ہی نہیں شرم ساری بھی بڑھائی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

رعونت — عائشہ احمد

Read Next

نصیب — تنزیلہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!