آبِ حیات — قسط نمبر ۸ (حاصل و محصول)

امام صاحب سے تین سو روپے کا وہ قرض ہی تھا، جس نے غلام فرید کو پہلی بار یہ احساس دلایا کہ امیر بننا اتنا مشکل نہیں تھا جتنا وہ سمجھتا تھا اور اس گاؤں کے اور بہت سے لوگ تھے جو اسی کی طرح کئی سال یہ خواب پالنے کے بعد بالآخر وہ آسان راستہ یا راستے ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے تھے، جن سے امیر بناجاسکتا تھا۔
امام مسجد بھی ان ہی لوگوں میں شامل تھے، جو صرف آخرت میں ہی جنت نہیں چاہتے تھے، بلکہ اس دنیا میں بھی انہیں جنت کا عیش و آرام چاہیے تھا۔ انہوں نے غلام فرید کو تین سو روپے کا قرض تو دے دیا تھا، مگر ساتھ اس کی یہ ذمہ داری بھی لگادی تھی کہ وہ اس اسکول کے مالکان سے مسجد کے لئے چندہ لے کر انہیں دے۔
غلام فرید نے جہاں مولوی صاحب کو یہ یقین دلایا تھا کہ اسکول کے مالکان بڑے فیاض ہیں، وہاں یہ جھوٹ بھی بولا تھا کہ وہ غلام فرید کو بہت مانتے تھے اور وہ گاؤں میں کسی کو کچھ بھی دینے دلانے کے لئے غلام فرید سے اکثر مشورہ کرتے تھے اور مسجد کے لئے چندہ تو غلام فرید کے لئے ویسے ہی بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔
مولوی صاحب نے غلام فرید کی باتوں پر اندھا اعتماد تو یقینا نہیں کیا تھا، ورنہ ایک ہزار روپے کی وہ رقم جو اس نے قرض مانگی تھی، اسکے بجائے صرف تین سو روپے اسے نہ دیتے… لیکن انہوں نے پھر بھی کسی نہ کسی حد تک غلام فرید کی بات پر یقین ضرور کیا تھا۔
حقیقت یہ تھی کہ اسکول کے مالکان غلام فرید کو شکل سے تو پہچانتے ہوں گے، لیکن اس کا نام کوئی نہیں جانتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اسکول میں کوئی ایک چوکیدار نہیں تھا۔ اسکول کی وسیع و عریض عمارت میں مختلف اوقات میں تین، چار چوکیدار پہرہ دیتے تھے اور غلام فرید ان میں سے ایک تھا اور غلام فرید کو اپنی حیثیت اور اوقات کے بارے میں پتا بھی تھا۔
مولوی صاحب سے تو غلام فرید نے جھوٹ بولا تھا لیکن مولوی صاحب کے بار بار اصرار پر حیلے بہانے بنانے کے بعد اس نے بالآخر اسکول کے مالکان سے مسجد کے لئے چندے کی بات کرہی لی تھی۔ اسکول کے اس مالک نے مولوی صاحب کو بلوا کر اس چندے کے حوالے سے یہ تفصیلات معلوم کی تھیں کہ انہیں چندہ کس لئے چاہیے تھا اور مولوی صاحب نے چھوٹے موٹے اخراجات کی ایک لمبی تفصیل اسکول کے مالک کے سامنے رکھ دی تھی۔ اسکول کے مالک نے ان اخراجات کی تفصیلات جاننے کے بعد مسجد کے لئے نہ صرف اس وقت کچھ رقم مہیا کی تھی، بلکہ ہر مہینے اسکول کے اخراجات کے لئے ایک معقول رقم دینے کا وعدہ بھی کرلیا تھا۔ مولوی صاحب کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا تھا۔ ان کا تین سو روپے کا دیا قرض ہزاروں میں تبدیل ہوکر ان کی طرف لوٹا تھا۔ غلام فرید جیسے معمولی آدمی کی حیثیت ان کی نظر میں یک دم بڑھ گئی تھی اور غلام فرید کو اس گاؤں میں پہلی دفعہ کسی نے عزت دی تھی، وہ بھی گاؤں کے مسجد کے امام نے… جس نے نہ صرف اس جمعے کے خطبے میں لاؤڈ اسپیکر پر اسکول کی انتظامیہ اور مالکان کی درد مندی کے قصیدے پڑھے تھے بلکہ غلام فرید کی کوششوں کو بھی سراہا تھا، جس کی کوششوں سے مسجد کے پاس یہ رقم آئی تھی۔
مسجد میں جمعے کے خطبے کے دوران بیٹھے ہوئے غلام فرید کا سینہ خوامخواہ میں چوڑا ہوگیاتھا اس دن ۔





اسکول کے مالک نے یہ رقم ہر ماہ غلام فرید کے ذریعے ہی مولوی صاحب کو پہنچانے کا وعدہ کیا تھا اور اس کے ساتھ غلام فرید کو یہ ذمہ داری بھی سونپ دی تھی کہ وہ مسجد میں اس رقم کے صحیح استعمال پر نظر رکھے۔
اسکول کا مالک وہاں دوسرے مہینے آیا تھا اور مولوی صاحب نے غلام فرید کے ساتھ مل کر مسجد میں ہونے والی تمام مرمتیں اسے دکھائی تھیں۔ وہ مطمئن ہوکر لوٹا تھا، مگر یہ صرف اسی مہینے ہوا تھا۔ دوسرے مہینے غلام فرید کے ہاتھ سے وصول پائی جانے والی رقم کا مولوی صاحب نے کیا، کیا تھا، اس کا غلام فرید کو اندازہ بھی نہیں ہوسکا۔ وہ مسجد میں دو چار بار گیا تھا اور اس کا خوب اچھی طرح استقبال کیا تھامولوی صاحب نے۔ اپنے گھر سے کھانا، پانی، چائے بھی اسے دی تھی لیکن اس ماہانہ چندے کے استعمال کے بارے میں صرف آئیں بائیں شائیں ہوتا رہاتھا۔ غلام فرید کو چندے کے صحیح استعمال میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی، اس کے لئے عام حالات میں اتنا ہی کافی ہوتا کہ مولوی صاحب اسے گوشت کھلا رہے تھے، مگر فی الحال مسئلہ یہ تھا کہ غلام فرید اپنے ہاتھ سے ہر مہینے بیس ہزار کی رقم جس مشکل سے مولوی صاحب کو دے رہا تھا، وہ غلام فرید ہی جانتا تھا، مگر اسے خوف تھا تو صرف اللہ کا… کہ وہ مسجد کا پیسہ تھا اور وہ اس کا امانت دار بن گیا تھا، مگر اس پیسے کا مولوی صاحب کے ہاتھوں غائب ہونا اس سے ہضم نہیں ہورہا تھا۔
مولوی صاحب نے اس کے دل سے مسجد کے پیسے کے لئے اللہ کے خوف کو ختم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ اگر مولوی صاحب چندے کے پیسے کو لوٹ کے مال کی طرح استعمال کرسکتے تھے تو پھر غلام فرید کو بھی حق تھا۔ اس کی بھی ضروریات تھیں۔ وہ بھی مجبور تھا۔ اس کے سر پر تو قرضہ بھی تھا۔
غلام فرید انہیں اگلے مہینے کے پیسے دینے گیا تھا اور ان کی نئی موٹر سائیکل کو دیکھ کر وہ اس قدر حسد اور خفگی کا شکار ہوا تھا کہ وہ ان پیسوں کا ذکر کئے بغیر صرف موٹرسائیکل کی مٹھائی کھا کر آگیا تھا۔ مولوی صاحب نے ماہانہ چندے کا پوچھا تھا، کیونکہ وہ مہینے کی پہلی تاریخ تھی۔ غلام فرید نے مسجد میں بیٹھ کر اس دن پہلا جھوٹ بولا تھا اور کہا تھا کہ اسکول کا مالک ملک سے باہر چلا گیا ہے، اور ابھی واپس نہیں آیا ۔ مولوی صاحب کو یک دم فکر ہوئی تھی کہ اسکول کا مالک فوری طور پر واپس نہ آیا تو پھر اس مہینے کے پیسے کون دے گا؟ غلام فرید کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا، البتہ اس نے مولوی صاحب کو اسکول کے مالک کا فون نمبر دے دیا تھا، جو غلط تھا۔ مولوی صاحب مطمئن ہوگئے تھے کہ اگر کچھ دن تک وہ چندہ نہ پہنچا تو وہ اسکول کے مالک سے خود بات کرلیں گے۔
غلام فرید بیس ہزار کی رقم جیب میں لئے اس دن ایک عجیب سی کیفیت کے ساتھ مسجد سے نکلا تھا، یوں جیسے اس کی لاٹری نکلی تھی۔ اسے پتا تھا مولوی صاحب ہر سال مختلف چیزوں سے اکٹھی ہونے والی رقم کو اپنی رقم کے طور پر گاؤں کے ان ہی سود خوروں کو بزنس میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے دیتے تھے جو سود خور غلام فرید جیسے ڈھیروں ضرورت مندوں کو وہ رقم دے کر انہیں ساری عمر کے لئے چوپایہ بنا دیتے تھے۔ مولوی صاحب بظاہر یہ ظاہر کرتے تھے کہ انہیں یہ پتا ہی نہیں کہ وہ جن لوگوں کے بزنس میں مسجد کی رقم کی سرمایہ کاری کرکے ماہانہ ایک فکسڈ رقم وصول کررہے ہیں، ان کا اصلی اور بنیادی بزنس کیا تھا۔ وہ اس ماہانہ فکسڈ رقم کو بھی سود نہیں منافع کہتے تھے، کیونکہ انہوں نے کچھ امیر لوگوں کے منافع بخش بزنس میں شراکت داری کی تھی۔
مولوی صاحب نے ایک ڈیڑھ ہفتہ مزید رقم کا انتظار کیا اور پھر کچھ بے صبری میں وہ نمبر گھمادیا جو غلام فرید نے دیا تھا۔ نمبر آف تھا۔ دو دن وقفے وقفے سے کئی بار فون کرنے پر بھی جب وہ نمبر آف ہی ملا تو مولوی صاحب، غلام فرید کے پاس جانے کے بجائے اسکول پہنچ گئے تھے اور وہاں پہنچ کر انہیں یہ خبر مل گئی تھی کہ اسکول کا مالک کئی دن پہلے اسکول سے ہوکر جاچکا تھا۔ مولوی صاحب کا پارہ اب ہائی ہوگیا تھا۔ انہوں نے غلام فرید کو اس کے کوارٹر پر جالیا تھا اور جب غلام فرید نے انہیں ایک بار پھر پہلے کی طرح یہ کہہ کر ٹرخانے کی کوشش کی کہ مالک ابھی تک نہیں آیا تو مولوی صاحب نے اس کے جھوٹ کی پول کھول دی تھی، اور اسے کہا تھا کہ وہ اسکول ہوکر آئے ہیں اور وہ جانتے ہیں، مالک ہمیشہ کی طرح مہینے کے شروع میں ہوکر جاچکا تھا۔ غلام فرید نے جواباً مولوی صاحب سے کہا کہ ’’ہوسکتا ہے وہ آیا ہو لیکن اس دن غلام فرید کی چھٹی تھی اور اس کی ملاقات مالک سے نہیں ہوئی۔‘‘
مولوی صاحب اس پر کچھ زیادہ بھڑکے تھے اور انہوں نے غلام فرید سے کہا کہ اس نے انہیں مالک کا نمبر بھی غلط دیا ہے، وہ اس کو فون کرتے ہیں، مگر وہ نمبر آف ہے اور وہ اب مالک کا نمبر اسکول کی انتظامیہ سے ہی لیں گے اور پھر خود اس سے بات کریں گے۔
غلام فرید کو اب اندازہ ہوگیا کہ وہ مولوی صاحب سے مزید جھوٹ نہیں بول سکتا تھا۔ اسے ان سے اب دو ٹوک لیکن صاف صاف بات کرنی تھی۔ اور پھر اس نے بالآخر مولوی صاحب کو یہ بتا ہی دیا تھا کہ اسے اس رقم میں سے ہر مہینے اپنا حصہ چاہیے تھا۔ کچھ لمحوں کے لئے مولوی صاحب کو جیسے یقین ہی نہیں آیا تھا کہ گاؤں کا ایک کمی کمین گاؤں کی مسجد کے ’’امام صاحب‘‘ سے کیا مطالبہ کررہا تھا اور جب انہیں یقین آیا تو ان کے منہ سے جیسے غصے سے جھاگ نکلنے لگا تھا۔ ان کے ساتھ ایسی جسارت پہلی بار کسی نے کی تھی۔
’’تم اللہ کے گھر کے لئے ملنے والے ہدیے سے اپنا حصہ مانگ رہے ہو دوزخی انسان!‘‘
انہوں نے غلام فرید کو ڈرانے کی کوشش کی تھی۔ انہیں یہ انداز نہیں تھا کہ غلام فرید دوزخ جیسی زندگی گزارتے گزارتے اب موت کے بعد دوزخ سے کیا ڈرتا۔
’’اللہ کے گھر کے پیسے اگر اللہ کے گھر پر لگتے تو کبھی نہ مانگتا مولوی صاحب!‘‘ اس نے بھی تن کر ان سے کہہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے جواباً اسے دھمکایا کہ وہ اسکول کے مالک سے بات کریں گے اور اسے اس کا کچا چٹھا سنا دیں گے۔
جواباً غلام فرید نے انہیں دھمکایا کہ وہ بھی اسکول کے مالک کو یہ بتادے گا کہ مولوی صاحب چندے والی رقم کو خود استعمال کررہے ہیں اور انہوں نے مسجدکے پیسوں کو ایک سود خور کو دے رکھا ہے اور وہ اس کا سود کھار ہے ہیں، بلکہ وہ پورے گاؤں میں انہیں بدنام کرے گا۔ ان کے پول کھول کھول کر۔ مولوی صاحب کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔ ان کا بس چلتا تو غلام فرید کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے کتوں کے سامنے ڈال دیتے۔ انہیں یہ علم ہی نہیں تھا کہ وہ کمینہ ان کے اتنے بڑے راز سے واقف تھا۔ وہ کچھ دیر اسے جی بھر کے برا بھلا کہتے رہے۔
اس دن مولوی صاحب نے غلام فرید کو دنیا کی ہر وہ گالی دے ڈالی جو انہوں نے کبھی کہیں سنی تھی، لیکن غلام فرید ڈھٹائی سے اپنے پیلے دانتوں کے ساتھ منہ کھول کر ان کے سامنے ہنستا رہا۔
’’ٹھیک ہے مولوی صاحب مجھے تو کیڑے ہی پڑیں گے، سانپ اور بچھو قبر میں میری لاش نوچیں گے اور مجھے مرتے دم کلمہ بھی نصیب نہیں ہوگا۔ میرے ساتھ جو بھی مرنے کے بعد ہوگا لیکن آپ کے بیس ہزار تو آپ کی زندگی میں ہی بند ہوجائیں گے۔ اسی مہینے سے… میں مالک کو کہہ دیتا ہوں کہ میں نے اس لئے آپ کو پیسے نہیں دیئے، کیونکہ آپ تو مسجد میں پیسے لگا ہی نہیں رہے تو سوچیں زیادہ نقصان دوزخی کا ہوا کہ جنتی کا؟‘‘




Loading

Read Previous

رعونت — عائشہ احمد

Read Next

نصیب — تنزیلہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!