آبِ حیات — قسط نمبر ۸ (حاصل و محصول)

لیکن آج سالار کے آنے سے دو گھنٹے پہلے پاکستان کے لئے پیکنگ کرتے ہوئے اس نے اپنا ہینڈ بیگ تبدیل کرنے کے لئے اس میں سے چیزیں نکال کر ایک نئے ہینڈ بیگ میں منتقل کرنے کی کوشش کی تھی اور یہ وہ ہینڈ بیگ تھا جو اسپتال جانے سے لے کر اب تک اس کے زیر استعمال تھا اور اب کچھ دن پہلے بازار سے ایک ہینڈ بیگ خرید کر وہ پرانے ہینڈ بیگ کے اندر موجود چھوٹی بڑی بہت ساری جیبوں کو کھنگال رہی تھی اور ان ہی چھوٹی بڑی جیبوں میں سے ایک جیب کے اندر وہ چھوٹا سا پاؤچ نکلا تھا اور اسے ہاتھ میں لیتے ہی چند لمحوں کے لئے امامہ کی سانس ہی رک گئی تھی۔ ایک جھماکے کے ساتھ اسے یاد آیا تھا کہ اس نے اپنے جسم پر موجود زیور سرجری کے لئے تیار ہوتے ہوئے اتار کر اس بیگ میں رکھا تھا اور پھر یہ بیگ ہیڈی کو دے دیا تھا اور ان تمام ہفتوں میں اس بیگ کو اس نے کئی بار ضرورتاً کھولاتھا لیکن کبھی بھی اس نے اسے کھنگالا نہیں تھا۔ شاید کھنگال لیتی اگر اس کی زندگی نارمل حالات سے گزر رہی ہوتی۔
ہاتھ سے پاؤچ کو ٹٹولتے ہوئے اس کے د ل کی … دھڑکن خوشی سے بڑھی تھی، اس کے اندر زیور تھا اور انگوٹھی بھی… وہ اس پورے دن کی ذہنی اذیت کو منٹوں میں غائب کردینے والی خوشی تھی جو اس لمحے اس پاؤچ کو کھول کر اپنے ہاتھ میں اس انگوٹھی کو لے کر اس نے جو چیز محسوس کی تھی… اور وہ ہیڈی کی ایمان داری بھی تھی جس نے کئی دن اس بیگ کو اپنے پاس رکھنے کے باوجود اسے ایک امانت کی طرح کسی خیانت کے بغیر امامہ کو لوٹایا تھا۔
وہ شکر کا ایک اور لمحہ تھا امامہ کے لئے، اس نے بھیگتی آنکھوں کے ساتھ اس انگوٹھی کو اپنے ہاتھ میں دوبارہ پہنا تھا، پھر سونے کی چین کو اور پھر ان کانوں کے بندوں کو اور وہ یہ سرپرائز سالار کو دینے سے پہلے ہی بھول گئی تھی اور اب سالار نے اس کے ائیررنگز، اس کی چین کو نوٹس نہیں کیا تھا اور وہ اس انگوٹھی پر اٹک گیا تھا۔
’’تم نے میرے ائیر رنگز اور چین نہیں دیکھی۔‘‘ وہ اب اسے، وہ دونوں چیزیں بھی ہاتھ سے چھوتے ہوئے دکھا رہی تھی۔ کسی بچے کی طرح خوشی اور جوش سے، اپنا کھویا ہوا کھلونا واپس اور غیر متوقع طور پر مل جانے پر۔
سالار نے مسکراتے ہوئے ان چیزوں کو دیکھا اور پھر امامہ کے یک دم سب کچھ بھول بھال کر جگمگااٹھنے والے چہرے پر نظر ڈالی، تینوں چیزوں کودیکھتے ہوئے اس کے ذہن میں آیا تھا۔ وہ چین ڈاکٹر سبط علی کی دی ہوئی تھی، وہ ائیر رنگز امامہ کو شادی کے تحائف میں اس کے ساس سسر نے دیئے تھے اور وہ انگوٹھی جو اس نے اسے دی تھی وہ؟ سکندر عثمان کی طرف سے جائیداد میں ملنے والے ایک پلاٹ کو بیچ کر خریدی گئی تھی۔ ان تینوں میں سے کوئی چیز سود اور حرام کے پیسے سے نہیں خریدی گئی تھی اور وہ سالار کی طرف سے ملنے والا واحد زیور تھا جو اس کی اپنی آمدنی سے نہیں خریدا گیا تھا اور وہ زیور واپس آگیا تھا۔
’’تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ امامہ نے اسے مخاطب کیا، وہ اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے اس انگوٹھی کو اسی ہاتھ کے انگوٹھے سے چھوتے ہوئے جیسے چونکا تھا اپنی گہری سوچ سے… کچھ حقائق اور ان کا ادراک ایسا شرمسار اور نادم کرنے والا ہوتا ہے کہ انسان چاہتے ہوئے بھی انہیں کسی کے سامنے دہرا نہیں سکتا، وہ بھی اس وقت ایک بار پھر اسی لمحہ سے گزرا تھا۔
’’کچھ نہیں، ایسے ہی کچھ خیال آیا تھا۔‘‘ سالار گہرا سانس لے کر بات ٹال گیا تھا۔
’’اس انگوٹھی کی قیمت کیا ہے؟‘‘ پتا نہیں امامہ کو یک دم اس کی قیمت پوچھنے کا خیال کیوں آیا تھا۔
’’یہ انمول ہے کیوں کہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔‘‘ سالار نے اس کا ہاتھ چوما تھا اور وہی جواب دیا تھا جو پہلی بار اس انگوٹھی کو پہناتے ہوئے دیا تھا، وہ ہمیشہ کی طرح سرشار ہوئی تھی۔ یہ بہت دفعہ پیش کیا جانے والا ’’خراج تحسین‘‘ تھا لیکن ہمیشہ نیا لگتا تھا کیوں کہ ہمیشہ اچھا لگتا تھا… یہ وہ سالار سکندر نہیں رہاتھا جو امامہ ہاشم کو سمجھ نہیں پاتا تھا اور اسے امامہ کی دل جوئی کرنے نہیں آتی تھی۔ زندگی کے اتنے سال ساتھ گزارنے کے بعد وہ ایک دوسرے کی رگ رگ سے واقف ہوچکے تھے۔
٭…٭…٭




سکندر عثمان کے گھر آنے والا وہ مہمان غیر متوقع نہیں تھا، ناقابل یقین تھا… وہ ان کے گھر کئی بار گئے تھے… ہمسائے کے طور پر… مصالحت کے لئے… تعزیت کے لئے، لیکن ہاشم مبین زندگی میں کبھی ان کے گھر نہیں آئے تھے۔ آج وہ آگئے تھے تو انہیں یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ اب ان کے پڑوس میں نہیں رہتے تھے۔ وہ گھر چھوڑ کر جاچکے تھے… اس گھر میں اب کوئی اور رہتا تھا اور گھر بکنے کی خبر پر سالار نے بے حد کوشش کی تھی کہ سامنے آئے بغیر درپردہ کسی اور کو درمیان میں رکھ کر وہ گھر خرید پاتا… وہ ناکام رہا تھا… ہاشم مبین کے بیٹے اب بہت طاقت ور تھے اور ہاشم مبین بہت کمزور ہوچکے تھے… ان کے دل میں فیصلے کی خواہش تھی۔ ہاتھ میں طاقت نہیں تھی، جن پراپرٹی ڈیلرز کے ذریعے سالار سکندر ان سے رابطہ کررہا تھا، وہ بھی اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ گھر ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکا تھا، کیونکہ وہ بہت بڑا تھا… آٹھ کنال کا وہ گھر تین حصوں میں بٹ کر بکا تھا اور اس کے باوجود اس پر کچھ اور کیسز تھے جو امامہ کی بہنوں نے اپنے حصے کے حوالے سے کئے تھے۔
سکندر عثمان نے سالار کی ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ وہ اس حق میں نہیں تھے کہ وہ متنازعہ جائیداد خریدی جاتی،خاص طور پر اس لئے کیونکہ وہ امامہ کے والدین کی تھی اور دونوں فیملیز کے درمیان تنازعات تھے، جو سالار کے خود پس پردہ رہ کر سامنے کسی اور کو رکھ کر اس کے ذریعے ایسی کسی خرید وفروخت کے شدید مخالف تھے، خاص طور پر اس لئے بھی کیونکہ سالار کے پاس اتنا بڑا گھر خریدنے کے وسائل نہیں تھے۔ وہ قرضہ اور ادھار لئے بغیر ایسی کوئی خرید و فروخت کر نہیں سکتا تھا اور سکندر عثمان زندگی میں کبھی قرض اور ادھار پر عیاشیاں اور اللے تللے کرنے کے حق میں نہیں رہے تھے۔
اور اب وہ ایک لمبے عرصے کے بعد جس ہاشم مبین کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے… وہ اس رعونت، تمکنت کا سایہ تھے جو کبھی ان کے ہمسائے میں رہتے تھے اور جو ان سے بات تک کرنے کے روادار نہیں ہوتے تھے۔
چہرے پر جھریوں کا جال لئے زرد رنگت، کمر میں خم کے ساتھ جو ضعیف آدمی ان کے سامنے بیٹھا تھا، وہ پہلی نظر میں انہیں پہچان نہیں پائے تھے۔ ان کی سمجھ میں بھی نہیں آرہا تھا کہ وہ ان کے ساتھ کیا رویہ رکھیں۔ آخر اب کیا شے تھی جو انہیں کھینچ کر یہاں لائی تھی۔
’’مجھے امامہ سے بات کرنی اور ملنا ہے۔‘‘ چند ہی جملوں کے بعد ہاشم مبین نے ان سے کہا تھا۔
’’وہ یہاں نہیں ہے۔‘‘ سکندر عثمان نے بڑے محتاط انداز میں انہیں بتایا۔
’’میں جانتا ہوں۔ وہ کانگو میں ہے… میں وہاں کا نمبر لینا چاہتا ہوں۔ وہاں کے حالات خراب ہیں… وہ ٹھیک ہے؟‘‘
انہوں نے رک رک کر… لیکن ایک ہی سانس میں ساری باتیں کہی تھیں۔ سکندر کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ کیا کہیں۔
’’ہاں… وہ، سالار اور بچے ٹھیک ہیں۔‘‘
اگر وہ تشویش میں یہاں آئے تھے تو سکندر عثمان نے ان کی وہ تشویش دور کردی تھی۔ وہ فون نمبر کا مطالبہ گول کرگئے تھے۔
’’میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں، ایک با راس سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ ہاشم مبین اپنامطالبہ نہیں بھولے تھے۔
’’میں امامہ سے پوچھے بغیر اس کا نمبر یا ایڈریس آپ کو نہیں دے سکتا۔‘‘ سکندر عثمان نے کوئی تمہید نہیں باندھی تھی۔
’’میں اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اب۔‘‘ انہوں نے بہت تھکے ہوئے لہجے میں کہا تھا۔
’’آپ اسے بہت زیادہ نقصان پہلے ہی پہنچا چکے ہیں۔‘‘ سکندر عثمان نے ترکی بہ ترکی کہا۔ ’’وہ اب اپنی زندگی میں سیٹ ہے… وہ اپنے بچوں کے ساتھ بہت خوش، بے حد مطمئن زندگی گزار رہی ہے۔ آپ کیوں ایک بار پھر اس کو ڈسٹرب کرنا چاہتے ہیں… آپ کی بیٹی نے پہلے ہی آپ کی وجہ سے بہت تکلیف اٹھائی ہے۔ آپ اب اسے چھوڑ دیں۔ اسے بخش دیں۔‘‘
ہاشم مبین کے چہرے کی جھریاں یک دم بڑھی تھیں، پھر انہوں نے مدھم آواز میں کہا۔
’’میں جانتا ہوں مجھے احساس ہے۔‘‘
سکندر بول نہیں سکے، وہ ان کے منہ سے یہ جملے سننے کی توقع نہیں کررہے تھے۔
’’بس ایک آخری بار ملنا چاہتا ہوں اس سے… اس کی ایک امانت ہے، وہ دینی ہے مجھے… اور اس سے معافی مانگنی ہے۔‘‘
’’آپ مجھے اپنا فون نمبر اور ایڈریس دے دیں، میں اس سے بات کروں گا، پھر آپ سے رابطہ کروں گا… آپ کہاں رہتے ہیں اب۔‘‘ سکندر نے اس سے پوچھا۔
’’ایک اولڈ ہوم میں…‘‘ سکندر چپ کے چپ رہ گئے۔ ہاشم مبین اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
’’امامہ کو بتادیں۔ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے… پھر وہ مجھ سے ضرور بات کرے گی۔‘‘
اپنی نشست سے کھڑے ہوئے سکندر عثمان ان کے اگلے جملے پر دم بخود رہ گئے تھے۔
٭…٭…٭
کانگو کا بحران اور اس سے پہلے ہونے والے واقعات سی آئی اے کے لئے سالار سکندر کو اس لسٹ میں ڈالنے کا باعث بنا تھا جن پر باقاعدہ نظر رکھی جاتی تھی، وہ افریقہ میں اب ان کا (Key figure) سب سے اہم کارندہ تھا، ان کے لئے کام کررہا تھا لیکن ان کا ساتھی نہیں تھا۔ ان کے پے رول پر بھی نہیں تھا۔ وہ پہلی بار ایک عجیب و غریب کام میں حصہ دار بنے تھے shadow work partner دونوں ایک دوسرے سے بھی واقف تھے، ایک دوسرے کے نام سے بھی اور ایک دوسرے کے کام سے بھی… اس بات سے بھی کہ دوسرا اس بات سے واقف تھا کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے، وہ مانیٹر کیا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ورلڈ بینک کی طرف سے دی جانے والی ٹاپ پروفیشنلز کی ٹیم بھی سی آئی اے کے انڈر کور ایجنٹس کی ہے اور دونوں پارٹنرز اپنے سائے کی موجودگی سے باخبر ہونے کے باووجو اپنا کام کررہے تھے… اور کوئی کسی کو دھوکا دیئے بغیر ایک دوسرے کا ساتھی بناہوا تھا …سی آئی اے سالار سکندر کی سیکیورٹی اور افریقہ میں ورلڈ بینک کے پروجیکٹس کو کامیاب بنانے کی ذمہ دار تھی اور وہ اس رول کو بخوبی انجام دے رہے تھے۔ سالار سکندر، ورلڈ بینک، امریکی حکومت اور سی آئی اے کے لئے نعمت مترقبہ ثابت ہوا تھا… اس نے کانگو اور افریقہ میں، ایک بہت نازک صورت حال میں ان سب کو ایک بے حد شرمناک اور خطرناک صورت حال سے نکالا تھا اور بے حد خوبی اور مہارت سے … اس کی تقریر میں اپنے ہی ادارے کی اور سامراجی قوتوں پر کی جانے والی تنقید کسی کو بری نہیں لگی تھی۔ اگر صورت حال کنٹرول میں آجاتی تو وہ اس سے زیادہ گالیاں کھانے پر تیار تھے لیکن اگر کوئی چیز سالار سکندر کی تقریر میں انہیں قابل اعتراض لگی تھی تو وہ اپنے مذہب اورپیغمبر کا حوالہ تھا۔ اس نے دین کو آدمیت اور انسانیت کے سیکولر لبادے میں ملفوف کرکے پیش نہیں کیا تھا۔ اس نے اپنے دین اور اپنے پیغمبر ﷺ کے آخری خطبے کا ذکر کیا تھا اور سالار سکندر ہمیشہ ایک لبرل سوچ والا مسلمان سمجھا جاتا تھا… بیٹھے بٹھائے اس کی ایک پبلک اسپیچ میں جھلکنے والی مذہبی ’’انتہا پرستی ‘‘ ورلڈ بینک کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت اور سی آئی اے کو بھی قابل اعتراض لگی تھی۔
وہ افریقہ میں بے شک ان کے لئے سب سے اہم تھا لیکن کوئی اہم ترین شخص بھی ’’اسلامی سوچ‘‘ کے پرچار کے لئے ورلڈ بینک کا عہدہ استعمال نہیں کرسکتا تھا۔ نارمل حالات ہوتے تو وہ تقریر سالار سکندر سے استعفے کے لئے بے حد مضبوط وجہ تھی لیکن یہ نارمل حالات نہیں تھے… ورلڈ بینک کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت اور سی آئی اے نے بھی سالار سکندر کی اس تقریر سے نظریں چرا کر بظاہر اس کی پردہ پوشی کی تھی لیکن درپردہ میڈیا میں اپنے صحافیوں کے ذریعے سالار سکندر کو اس تقریر میں مذہبی حوالہ دینے کے لئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور یہ سلسلہ براہ راست کوریج کے فوراً بعد ہی شروع کردیا گیا تھا۔ امریکہ اور سی آئی اے کو کانگو اور افریقہ میں ہر کارہ چاہیے تھا۔ مسیحا اور لیڈر نہیں… وہ ہر شخص کو اس کی اوقات میں رکھنا جانتے تھے اور اب اس پالیسی پر عمل کررہے تھے ۔ چینلز پر سالار سکندر کی اس تقریر کو موضوع بحث لانے والوں نے نبی کریم ﷺ کے آخری خطبے کے بہت سے دوسرے پوائنٹس کو بھی زیر بحث لانا شروع کردیا تھا۔ ایک نئی چیخ پکار سالار سکندر کی مذہنی شناخت، مذہبی اعتقادات اور اعمال کے حوالے سے شروع کردی گئی تھی اور نبی کریم ﷺ کے آخری خطبے کا ایک بنیادی حصہ سود کے خلاف ان کے احکامات بھی تھے، جنہیں مغربی میڈیا نے بہت نمایاں انداز میں پیش کیا تھا کیوں کہ وہ انہیں مغربی نظام معیشت کی بنیادوں کو چیلنج کرنے والی سوچ اور فلاسفی لگی تھی۔ وہ یہ بات علی الاعلان نہیں کہہ پا رہے تھے کہ وہ مغربی نہیں یہودی نظام معیشت کو چیلنج کرنے والی فلاسفی تھی۔
سالار سکندر کے خلاف مغربی میڈیا میں اٹھنے والا یہ طوفان اسے افریقہ میں اور مشہور کررہا تھا… اور سالار سکندر نے مغربی میڈیا پر اپنی اس تقریر کے حوالے سے کوئی وضاحتیں… صفائیاں اور معذرتیں پیش نہیں کی تھیں۔ اس کے آفس کا خیال تھا کہ اس تقریر کے اقتباسات کو کچھ ہلکا کرکے نئے سیاق و سباق کے ساتھ پیش کیا جائے۔
سالار نے کسی بہانے، معذرت، وضاحت اور سیاق و سباق کو اپنی اس تقریر کے لئے پیش کرنے سے انکار کردیا تھا… اس کے آفس نے دو دن بعد ایک سطری بیان جاری کیا تھا کہ ’’سالار سکندر اپنی اس تقریر کے ہر جملے اور لفظ پر یقین رکھتے ہوئے اس کی ذمہ داری لیتے ہیں اور اسے مکمل طور پر قبول کرتے ہیں۔‘‘
یہ جیسے اس میڈیا کے منہ پر مارا جانے والا طمانچہ تھا جو اس کی طرف سے اس تنقید کے بعد کسی وضاحتی بیان اور معذرت کا منتظر تھا۔




Loading

Read Previous

رعونت — عائشہ احمد

Read Next

نصیب — تنزیلہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!