آبِ حیات — قسط نمبر ۸ (حاصل و محصول)

’’تمہیں پتا ہے تمہارے اندر خودکشی کرنے کی خواہش آج بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح سترہ سال پہلے تھی۔‘‘
سالار سکندر نے لیپ ٹاپ پر آخری ای میل کا جواب دیتے ہوئے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے امامہ کی آخری پھٹکار سنی۔ بچے سوچکے تھے اور وہ ہوٹل کی وارڈ روب کھولے پتا نہیں کتنی بار اپنے اور اس کے کپڑوں کو تہہ کرکر کے رکھ رہی تھی۔ کبھی وارڈ روب کے ایک خانے میں، پھر دوسرے خانے میں، پھر سے پہلے خانے میں اور سالار یہ سب نوٹس کرنے کے باوجود لیپ ٹاپ پر ای میلز چیک کرنے اور اپنے اگلے دن کے شیڈول کو حتمی شکل دینے میں مصروف رہا تھا اور اب جب وہ اپنا کام نبٹا چکا تھا تو وہ امامہ کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ وہ پریشان تھی اسے اندازہ تھاجو کچھ آج ہوا تھا۔ اس کے بعد وہ اس کے ذہنی تناؤ کا اندازہ لگا سکتا تھا۔
’’تم ٹھیک کہتی ہو۔‘‘ سالار نے لیپ ٹاپ بند کرکے اپنے بیڈ کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ وہ دو گھنٹے پہلے ہوٹل واپس آیا تھا اور دو گھنٹے سے اپنا کام لئے بیٹھا تھا اور اب جب کام ختم ہوگیا تھا تو وہ امامہ کی طرف متوجہ ہوا تھا جو اس کی خاموشی اور بے اعتنائی کے مظاہرے پر اب تقریباً روہانسی ہوچکی تھی۔
’’تمہیں پتا ہے مجھے تمہاری کیوں ضرورت ہے اور میں کیوں فکر مند رہتی ہوں تمہارے بارے میں؟‘‘
وہ اس کے اعتراف پر برہم ہوئی تھی اور بے حد خفگی سے ہاتھ میں پکڑی اس کی شرٹ تیسری بار تہہ کرکے رکھنے کے بجائے اسی طرح وارڈ روب کے خانے میں ٹھونس کر اسے بند کرتے ہوئے سالار کے بیڈ سائیڈ کی طرف آئی تھی۔ ’’کیوں کہ بچے پریشان ہوجاتے ہیں۔ تم کوئی سپر مین نہیں ہو کہ وہ تمہارے کمالات دیکھ کر تالیاں بجائیں گے۔ لطف اندو ز ہوں گے۔ تمہیں کچھ ہوگا تو…‘‘
وہ بات کرتے کرتے پھر روہانسی ہوگئی ۔ بات مکمل نہیں کرسکی۔ وہ گہری خاموشی کے ساتھ اس کی بات سنتارہا سرجھکا کر۔ پھر اس کے خاموش ہوجانے پر اس نے سراٹھا کر امامہ کو دیکھا۔ وہ اس کے بالمقابل کھڑی تھی اور وہ بستر پر بیٹھا ہوا تھا۔ کمرے میں لگی ہوئی لائٹس کی زرد روشنی میں اس کی سرخ آنکھیں اور سرخ ناک اس کے روتے رہنے کو جیسے اور نمایاں کررہی تھی۔ وہ ان ہی آنکھوں سے نظریں چرانے کی کوشش کررہا تھا۔ یہ وہ چہرہ اور آنکھیں تھیں جو اسے کھوجنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ بے بس کرنے کی اضافی خصوصیت کے ساتھ۔
’’تم ٹھیک کہتی ہو۔‘‘ جواب پہلے سے مدھم آواز میں آیا تھا اور وہی آیا تھا۔ وہ اور برہم ہوئی۔
’’میں مذاق نہیں کررہی۔‘‘ اسے لگا تھا جیسے وہ اسے ہمیشہ کی طرح زچ کررہا تھا۔




’’اگر تم نے ایک بار پھر یہ جملہ دہرایا تو میں اس کمرے سے چلی جاؤں گی۔ تمہیں میری ہر بات احمقانہ لگ رہی ہے۔‘‘
’’یو آر رائٹ۔‘‘ وہ اس بار زچ ہوکر جھلاتے ہوئے ہنس پڑی تھی۔ پھر اس کے پاس بستر پر بیٹھ گئی تھی۔
’’آخری خطبہ سنا رہے تھے آج تو سارا سناتے۔ ادھوری بات کیوں کی۔‘‘ وہ اب اس پر طنز کررہی تھی۔
’’ہمت نہیں پڑی۔ اسی لئے تو کہہ رہا ہوں، تم جو بھی کہتی رہی ہو ، ٹھیک کہتی رہی ہو۔ پہلے بھی، آج بھی۔‘‘
وہ زندگی میں پہلی بار اس کے سامنے ایسا اعتراف کررہا تھا، امامہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گئی۔ غصہ پہلے بھی نہیں تھا، پر جو گلہ تھا وہ بھی یکدم غائب ہوا تھا۔
’’پیٹرس ایباکا اپنی زندگی کے آخری لمحے تک امن کے لئے لڑا۔ وہ نیویارک کی ایک سڑک پر اپنی جان بچانے کے لئے لڑتا رہا ان ہی طاقتوں کے، ہر کاروں کے ساتھ جن کے ساتھ تم کھڑے ہو اور جن کے ساتھ تم مل کر افریقہ کی تقدیر بدلنا چاہتے ہو۔‘‘
اس نے سالار سکندر کو وہ آئینہ دکھایا تھا جو اسے صرف امامہ ہاشم ہی دکھاسکتی تھی۔ ’’تم سمجھتے ہو وہ تمہیں یہ سب کرنے دیں گے؟‘‘
’’تم سمجھتی ہو میں یہ سب کرنا چاہتا ہوں؟‘‘ اس نے جواباً اس سے پوچھا تھا اسی انداز میں۔ وہ بول نہیں سکی۔ سوال عجیب تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتے رہے، پھر امامہ نے پوچھا۔
’’پھر تم کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘
’’میں اپنے لئے ایک باعزت راستہ چاہتا ہوں۔ اپنے لئے، تمہار ے لئے، اپنے بچوں کے لئے۔ جس جنجال میں میں اپنے آپ کو اور تم لوگوں کو پھنسا چکا ہوں، اس سے نکلنا چاہتا ہوں لیکن میں ایک کنویں سے نکلنے کی کوشش میں کسی دوسرے کنویں میں کودنا نہیں چاہتا، جو اس سے زیادہ گہرا اور تاریک ہو۔‘‘
وہ اس کا چہرہ حیرانی سے دیکھتی رہی۔ جس ایشو پر وہ بحث کرنا چاہتی تھی، وہ اس پر پہلے ہی گھٹنے ٹیک چکا تھا، لیکن جو کچھ وہ کہہ رہا تھا وہ امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا تھا اور وہ سمجھنا چاہتی تھی۔
’’تم کیا کرنا چاہتے ہو سالار؟‘‘ وہ ایک بار پھر پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
’’میں پہلا اسلامی مالیاتی نظام بنانا چاہتا ہوں جو سود سے پاک ہو لیکن جو پوری دنیا کے لئے ہو باضابطہ، قابل عمل اور جو اس کی جگہ لینے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔‘‘ جواب اتنا غیر متوقع تھا کہ وہ حیرانی سے سالار سکندر کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔ بول ہی نہیں سکی۔ وہ ہمیشہ عجیب باتیں کرتا تھا۔ وہ اب اس کی عادی ہوچکی تھی لیکن جو وہ اب کہہ رہا تھا وہ عجیب ترین تھا۔ وہ اس کی بہت ساری باتوں پر دم بخود ہوتی تھی۔ ہکا بکا بھی لیکن آج اپنی خاموشی کو وہ کس کیفیت کا نام دیتی، امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا۔
’’تمہیں لگتا ہے میں نہیں کرپاؤں گا؟‘‘
بہت دیر تک ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے رہنے کے بعد اس خاموشی کو سالار نے توڑا تھا۔ اس نے جیسے امامہ کی کیفیت کو ہی الفاظ میں نہیں ڈھالا تھا بلکہ اس نے اپنے ہر خدشے کو بھی جیسے سوال میں بدل کر امامہ کے سامنے پیش کیا تھا۔ یہ سوال لاشعور سے آیا تھا، یقین سے نہیں۔ اندیشے سے ابھرا تھا۔ جواب نہیں، تسلی مانگ رہاتھا۔
’’یہ کام دنیا میں اگر کوئی کرسکتا ہے تو وہ صرف تم کرسکتے ہو سالار سکندر۔‘‘
ا س بار گنگ ہونے کی باری سالار کی تھی۔ یہ جواب نہیں تھا ، وہ اعتماد تھا جس کی اسے ضرورت تھی۔اس کا خون بڑھا تھا اور سیروں کے حساب سے بڑھا تھا۔ اس نے امامہ کے چہرے سے نظریں ہٹالیں۔ اس کے جواب نے اسے تسلی اور دلاسیکی وہ تھپکی دی تھی جو اس کا بوجھ ہٹا گیا تھا۔
’’تھینک یو۔‘‘ امامہ کی طرف دیکھے بغیر سرجھکائے سالار نے اپنا تشکر اس تک پہنچایا تھا۔ وہ غیر متوقع جواب تھا۔ شکریہ کی ضرورت سمجھ میں نہیں آئی تھی امامہ کو، لیکن وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی یوں جیسے منتظر تھی کہ وہ کچھ اور کہے گا۔
’’تمہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘ بالآخر سالار نے کہا تھا، وہ ہنس پڑی یوں جیسے اس نے کوئی عجیب بات کہی تھی۔
’’تم مشکلات کی بات مجھ سے کررہے ہو سالار؟‘‘ سالار نے اسے دیکھا ۔ انداز استہزائیہ تھا، پر سوال نہیں تھا وہ ۔
’’زندگی میں بڑے برے دن گزارے ہیں میں نے۔‘‘ اس نے ایک گہرا سانس لیا۔
’’لیکن وہ برے دن میری وجہ سے نہیں آئے تھے۔ اب شاید میری وجہ سے بھی آئیں۔ سب سے مشکل چیز یہی ہے میرے لئے جو کام میں کرنے جارہا ہوں، اس کے اثرات تم تک اور بچوں تک آئیں گے۔ واحد کمزور کرنے والی شے یہی ہے مجھے۔ اپنے آپ پر آنے والی مصیبتیں تو برداشت کرلیتا ہے انسان لیکن بیوی بچوں کو پہنچنے والی تکلیف برداشت نہیں ہوتی۔‘‘
سالار کو یہ بات کرتے ہوئے وہ لمحات یاد آئے تھے جو اس نے واشنگٹن میں امامہ اور بچوں کی زندگی اور سلامتی کے لئے امید اور ناامیدی کے عالم میں گزارے تھے۔
’’تم یہ مت سوچو۔ جو کرنا چاہتے ہو، وہ کرو۔ باقی دیکھا جائے گا۔ زندگی اس سے بدتر تو بہر حال نہیں ہوگی جیسی میں گزار آئی ہوں۔ باقی سب کچھ تو سہا جاسکتا ہے۔‘‘
امامہ کو اس وقت یہ بات کرتے ہوئے اندازہ نہیں تھا کہ جن مشکلات سے سالار خوف زدہ تھا یہ وہ مشکلات نہیں تھیں جن کا وہ سوچ رہی تھی۔ وہ سمجھ رہی تھی، وہ صرف مالی مسائل کے حوالے سے اسے متنبہ کررہا تھا۔
’’میں سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئی تھی۔ وہ وقت گزر گیا۔ پھر ایک وقت آیا جب اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کرسکتی تھی۔ دوسروں کے سرپر محتاجی کی زندگی گزارنی پڑی۔ وہ وقت بھی گزر گیا۔ پھر تمہارے ساتھ گزرے پچھلے سات سال میں دنیا کی ہر نعمت، ہر آسائش ملی لیکن میں یہ کبھی نہیں بھولی کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ چیزوں کی اہمیت نہیں ہوتی، وہ کبھی نہ کبھی ہی مل جاتی ہیں۔ صرف انسان ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ وہ نہیں ملتے۔‘‘ وہ بات کرتے ہوئے رنجیدہ ہوئی تھی۔ ’’تو جب تک بچے اور تم میرے پاس ہو باقی کسی چیز کی پروا نہیں ہے مجھے۔ کم زیادہ، میں سب میں گزارہ کرسکتی ہوں۔‘‘
اس نے سالار کو دیکھا۔ وہ خاموشی سے اس کی بات سن رہا تھا۔ وہ اسے ہولانا نہیں چاہتا تھا یہ کہہ کر، وہ اور بچے بھی کبھی اس سے چھن سکتے تھے جیسے اس سے چھین لئے گئے تھے اور ہر آزمائش مال سے شروع ہوکر مال پر ختم نہیں ہوجاتی، لیکن وہ امامہ سے ابھی کچھ اور کہنا نہیں چاہتا تھا۔ کم از کم آج کا تناؤ بھرا دن اسے دینے کے بعد وہ اسے مزید کسی خدشے اور اندیشے میں مبتلا کرکے اس کو رات بھی سولی پر لٹکتا نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
’’تم یہ سب کیسے کروگے؟ کسی کے ساتھ مل کر؟‘‘ امامہ نے بالآخر ذہن میں ابھرنے والا وہ سوال اس سے پوچھا جو اس کے دماغ میں کلبلا رہا تھا۔
’’پتا نہیں۔‘‘ جواب عجیب مسکراہٹ کے ساتھ آیا تھا اور بے چارگی والی ایک کیفیت کے ساتھ بھی اور وہ ایک بار پھر اس کا منہ دیکھ کر رہ گئی تھی لیکن اسے یقین تھا، سالار سکندر اپنے لائحہ عمل کے بارے میں اتنا لاعلم نہیں تھا جتنا اس نے اپنے آپ کو ظاہر کیا تھا۔
’’یہ کہو نا کہ تم مجھے بتانا نہیں چاہتے۔‘‘
’’بتانے کا فائدہ نہیں۔ کم از کم اس اسٹیج پر جب ہر نکتہ صرف ایک خیال اور سوچ ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔‘‘
سالار نے کہا اور بات کرتے ہوئے پہلی بار اس کی نظر امامہ کے ہاتھ میں پہنی ا س انگوٹھی پر پڑی تھی جو اس نے اسے شادی کے تحفے کے طور پر دی تھی۔ وہ بے حد حیرانی کے عالم میں اس انگوٹھی کو دیکھتے ہوئے کچھ بولنا بھی بھول گیاتھا۔ امریکہ سے واپس آنے کے بعد اور ان تمام حالات سے گزرنے کے بعد آج اتنے ہفتوں بعد وہ پہلی بار اس کے ہاتھ میں وہ انگوٹھی دیکھ رہا تھا بلکہ اس کے جسم پر کوئی زیور دیکھ رہا تھا۔ اس کا خیال تھا وہ انگوٹھی بھی اس گھر میں موجود لاکر میں پڑے دوسرے زیورات کے ساتھ جل گئی تھی۔ اس آتشزدگی میں اور اب اس جگمگاتی بیش قیمت انگوٹھی کو اس کی مخروطی انگلی میں سجا دیکھ کر سالار سکندر کو ایک عجیب خوشی ہوئی تھی۔ ناقابل بیان خوشی۔ اس نے امامہ کا ہاتھ تھام لیا۔
’’یہ کہاں سے آئی؟‘‘ گفت گو کا موضوع عجیب انداز میں بدلا تھا۔
امامہ ہنسی اور اس نے اس کی ہتھیلی پر اپنا ہاتھ پھیلا دیا۔ بڑے جتانے والے انداز میں۔
حمین کی پیدائش کے بعد سالار کے واپس کانگو آنے پر امامہ کو پہلی بار اس انگوٹھی کا خیال آیا تھا، جب اسے بالآخر یہ پتا چل گیا تھا کہ گھر میںکچھ بھی نہیں بچا، سب کچھ جل گیا ہے یا لوٹ لیا گیا ہے۔ امریکن ایمبیسی کے اسپتال میں قیام کے دوران اماہ کو یہ یاد نہیں آیا تھا۔ اس نے آخری بار وہ انگوٹھی کب اتاری تھی۔ اس نے آخری بار اپنے گلے میں پہنی ہوئی چین کب اتاری تھی۔ اپنے بندے کب اتارے تھے۔ اس کا خیال تھا، یہ کام اس نے اسپتال چیک اپ کے لئے جانے سے پہلے کیا تھا لیکن صرف خیال تھا، اسے ٹھیک سے یاد نہیں تھا اور وہ اس کی وجہanesthesiaکو سمجھتی تھی جو اسے سرجری کے لئے دیا گیا تھا لیکن جو اس کی یادداشت کو گڑبڑانے کا باعث بن رہاتھا۔




Loading

Read Previous

رعونت — عائشہ احمد

Read Next

نصیب — تنزیلہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!