اس کا ہاتھ پکڑے وہ اسے اب کسی راستے پر لے جانے لگا… ایک قدم، دوسرا قدم، تیسرا… وہ ٹھٹک کر رک گئی۔ وہ ایک جھیل تھی۔ چھوٹی سی جھیل جس کے کنارے پر وہ تھے۔ ہلکی نیلی رنگت کے شفاف پانی کی ایک جھیل… جس کے پانی میں وہ رنگ برنگی مچھلیاں تیرتے ہوئے دیکھ سکتی تھی۔
اور اس کی تہ میں بے شمار رنگوں کے موتی… پتھر… سیپیاں…
جھیل کے پانی پر آبی پرندے تیر رہے تھے… خوب صورت راج ہنس۔ جھیل کے چاروں اطراف پھول تھے… اور بہت سے پھول جھیل کے پانی تک چلے گئے تھے… کچھ پانی کی سطح پر تیر رہے تھے۔
مگر اس کے قدموں کو ان میں سے کسی چیز نے نہیں روکا تھا۔ اس کے قدموں کو روکنے والی شے جھیل کے کنارے پر موجود لکڑی کی وہ خوب صورت چھوٹی سی کشتی تھی جو پانی میں ہلکورے لے رہی تھی۔ اس نے بے اختیار کھلکھلا کر اسے دیکھا۔
’’یہ میری ہے؟‘‘ وہ مسکرا دیا۔ وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر بچوں کی طرح بھاگتی کشتی کی طرف گئی۔ وہ اس کے پیچھے لپکا۔ اس کے قریب پہنچنے پر کشتی پانی سے کچھ باہر آگئی۔ وہ بڑی آسانی سے اس میں سوار ہوگئی۔ اسے لگا وہ کشتی صندل کی لکڑی سے بنی تھی۔ خوشبودار صندل سے…
وہ اس کے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔ ہوا کا ایک تیز جھونکا کشتی کو پانی میں لے گیا۔ دونوں بے اختیار ہنسے۔
کشتی اب جھیل کے دوسرے کنارے کی طرف سفر کررہی تھی۔ اس نے جھک کر پانی میں تیرتا کنول کا پھول پکڑ لیا۔ پھر اسی احتیاط کے ساتھ اسے چھوڑ دیا۔
اس نے دوسری طرف جھک کر اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں جھیل کا پانی ایک چھوٹی سی رنگین مچھلی سمیت لیا اور اس کے سامنے کردیا۔ اس کے ہاتھوں کے پیالے میں حرکت کرتی مچھلی کو دیکھ کر وہ ہنسی، پھر اس نے اس مچھلی کو ہاتھ سے پکڑا اور پانی میں اچھال دیا۔ وہ دونوں جھک رک اسے دیکھتے رہے۔
پانی پر تیرتا ایک ہنس کشتی کے پاس آگیا۔ پھر دوسرا، پھر تیسرا… وہ کشتی کے گرداب جیسے ایک دائرہ سا بنا کر تیر رہے تھے۔ یوں جیسے ان کا استقبال کررہے تھے۔ وہ پاس سے تیر کر گزرتے، ہر ہنس کو وہ اپنے ہاتھوں سے چھوتی کھلکھلارہی تھی۔ پھر ایک دم اس نے جھیل کے پانی پر کنول کے پھولوں کی قطاروں کو حرکت کرتے دیکھا۔ وہ جھیل کے پانی پر تیرتے اب رقص کررہے تھے۔
اِدھر اُدھر جاتے… خوب صورت شکلیں بناتے… پاس آتے دور جاتے… پھر پاس آتے… یوں جیسے وہ یک دم ہنسوں کی طرح زندہ ہوگئے تھے۔ جھیل کے نیلے پانی پر وہ سفید کنول اپنے سبز خوب صورت پتوں کے ساتھ ہونے والی مسلسل حرکت سے پانی میں ارتعاش پیدا کررہے تھے۔ وہ بے خود ہورہی تھی یا بے اختیار… وہ بھی سمجھ نہیں پارہی تھی۔ سمجھنا اب ضروری تھا بھی نہیں۔
جھیل کے نیلے پانی پر رقص کرتے لاتعداد و خوب صورت پھولوں کے بیچ اس نے یک دم کسی عکس کو نمودار ہوتے دیکھا۔ کشتی میں بیٹھے بیٹھے وہ چونک کر مڑی اور پھر وہ بے ساختہ کھڑی ہوگئی۔ کشتی دوسرے کنارے کے پاس آگئی تھی اور وہاں… وہاں کچھ تھا۔
امامہ ہڑبڑا کر اٹھی تھی گہری نیند سے۔ اس نے اپنی کلائی پر کسی کا لمس محسوس کیا تھا۔ خواب آور دوا کے زیر اثر اسے ایک لمحہ کے لئے کمرے کی مدھم روشنی میں یوں لگا، وہ ایک خواب سے کسی دوسرے خواب میں آئی تھی۔ سالار اس کے بستر کے قریب کرسی پر بیٹھا تھا… بے حد قریب، بستر پر دھرا اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے۔ پتا نہیں نیند ٹوٹی تھی یا خواب… یا پھر وہ لمس تھا جو اسے خواب سے حقیقت میں لے آیا تھا لیکن وہ خواب آور دوا کے زیر اثر ہوتے ہوئے بھی یک دم اپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں سے کھینچتے ہوئے کہنیوں کے بل اٹھ کر بیٹھنے لگی تھی، سالار نے اسے روکا۔
’’اٹھو مت…‘‘
’’تم واقعی آگئے ہو؟‘‘ امامہ کو اب بھی جیسے یقین نہیں آیا تھا۔
وہ دھیرے سے ہنسا۔ ’’تمہیں بتایا تو تھا کہ آجاؤں گا۔‘‘
’’یہ تو نہیں بتایا تھا کہ کب آؤگے؟ اور تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں؟‘‘
’’بس میں نے سوچا، تمہاری نیند خراب ہوگی۔‘‘ وہ مدھم آواز میں بات کررہا تھا… دوسرے بستر پر جبریل اور عنایہ تھے جو گہری نیند میں تھے اور صوفے پر ہیڈی تھی جو کچھ دیر پہلے سالار کے آنے پر دروازہ کھلنے کی آواز سے جاگ گئی تھی اور سالار کے ساتھ کچھ خیر مقدمی جملوں کے تبادلے کے بعد وہ کمرے سے چلی گئی تھی۔ وہ رات کے پچھلے پہر کنشاسا پہنچا تھا اور ائیر پورٹ پہ رکے بغیر وہاں آگیا تھا۔ شہر میں حالات اب نارمل ہورہے تھے… فوج اور حکومت امن بحال کرنے میں کامیاب ہورہے تھے۔
’’تمہیں کیا ہوا ہے؟‘‘ امامہ نے سالار کے چہرے کو پہلی بار غور سے دیکھا۔ اس کی آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ حلقے اور آنکھیں سرخ اور یوں سوجی ہوئی تھیں… یوں جیسے وہ کئی راتوں سے سویا نہ ہو۔
’’کچھ نہیں، بس اتنے دن گھر سے دور رہا تو شاید اس لئے پھر…‘‘
سالار نے اس سے آنکھیں ملائے بغیر کہا۔ امامہ نے اس کی بات کاٹ دی، اسے یک دم اپنا خواب یاد آگیا تھا۔
’’سالار! تمہیں پتا ہے، ابھی میں خواب میں کیا دیکھ رہی تھی؟‘‘ سالار نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’کیا؟‘‘
’’میں نے خواب میں ایک گھر دیکھا جھیل کنارے… جہاں تم مجھے لے کر جارہے تھے… ایک کشتی میں بٹھا کر۔‘‘
وہ دم بخود رہ گیا… جو گھر اس نے امریکہ میں اس کے لئے mortgage کیا تھا، وہ سمندر کے ایک جھیل نما ٹکڑے کے کنارے تھا… اس نے ابھی تک امامہ کو اس گھر کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ وہ اسے سرپرائز دینا چاہتا تھا اس کی اگلی سالگرہ پر… لیکن اب وہ بیٹھے بٹھائے اسے جھیل کنارے ایک گھر کا قصہ سنارہی تھی۔
’’جس جھیل کے کنارے وہ گھر تھا وہ جھیل بے پناہ خوب صورت تھی… سفید کنول کے پھولوں سے بھری ہوئی نیلے پانی کی جھیل… جس میں ہر طرف راج ہنس تیر رہے تھے… اور پانی میں رنگ برنگی مچھلیاں…اور کشتی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے خود ہی چل رہی تھی… اور جھیل کے کنارے پھولوں بھری جھاڑیاں تھیں…رنگ رنگ کے پھول سبزے کی طرح پھیلے ہوئے تھے… اور پھول ٹوٹ ٹوٹ کر پانی پر بہتے چلے جارہے تھے۔‘‘
وہ بول نہیں پارہا تھا۔ جس جھیل کے کنارے اس نے گھر خریدا تھا… وہ بھی کچھ ایسی ہی تھی… اس کے گرد بھی پھول تھے… آبی پرندے اور راج ہنس بھی… اور کنول کے پھول بھی… اور اس جھیل کے کنارے جتنے گھر تھے، ان سب کی کشتیاں بھی اس پانی میں رہتی تھیں۔ بس فرق یہ تھا کہ ان میں سے کوئی لکڑی کی چپو والی کشتی نہیں تھی جیسا نقشہ وہ کھینچ رہی تھی۔
ایک لمحہ کے لئے اسے محسوس ہوا، امامہ کو شاید اس گھرکا پتا چل گیا تھا… شاید اس نے اس کے لیپ ٹاپ میں اس گھر کی تصویریں دیکھ لی تھیں اور اب وہ جان بوجھ کر اسے چھیڑ نے کی کوشش کررہی تھی، لیکن اگر ایسا بھی تھا تو اس نے کب لیپ ٹاپ دیکھا تھا… پچھلے کئی دنوں میں تو یہ نہیں ہوسکتا تھا کیوں کہ اس کا لیپ ٹاپ اس کے پاس تھا اور اگر یہ اس سے پہلے ہوا تھا تو پھر وہ اس وقت ان حالات میں وہ خواب کیوں سنا رہی تھی۔ وہ الجھا تھا اور بری طرح الجھا تھا۔
’’اور گھر کیسا تھا؟‘‘ وہ کریدے بغیر نہیں رہ سکا۔
’’شیشے کا۔‘‘ سالار کے رونگٹے کھڑے ہونے لگے۔ اس کا mortgage کیا ہوا گھر بھی شیشے ہی کا تھا۔
’’لیکن مجھے اس کے اندر کچھ نظر نہیں آیا… وہ شیشے کا تھا لیکن اندر کچھ نظر نہیں آرہا تھا اور میں کشتی سے اتر کر گھر کے اندر جانا چاہتی تھی تو تب ہی میری آنکھ کھل گئی۔‘‘
وہ بہت مایوس نظر آرہی تھی یوں جیسے اسے بہت افسوس ہورہا تھا۔ سالار پلکیں جھپکے بغیر صرف اسکا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
’’لیکن وہ گھر ویسا گھر تھا جیسا میں ہمیشہ بنانا چاہتی تھی جیسا میں اپنے اسکیچز میں اسکیچ کرتی رہتی تھی۔ وہی جھیل… وہی سبزہ… وہ شیشے کا گھر… اور ہر طرف پھول۔‘‘ وہ جیسے ابھی تک کسی خمار میں تھی۔ سالار بھی گنگ تھا۔ اس نے بھی اس گھر کو mortgage کرتے ہوئے وہی ساری چیزیں ڈھونڈی تھیں جو وہ اپنے اسکیچ میں ڈیزائن کرتی رہتی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا وہ امامہ سے کیا کہے… اگر وہ کھیل تھا تو وہ بہترین کھیل رہی تھی اور اگر وہ کھیل نہیں تھا تو اس کے دماغ کی چولیں ہل گئی تھیں۔
’’تم نے کبھی زندگی میں کوئی جھیل دیکھی ہے ایسی جیسی میں تمہیں بتارہی ہوں؟‘‘ سوال اچانک آیا تھا اور عجیب و غریب تھا۔
’’میں نے؟‘‘ وہ چونکا۔ ’’میں نے؟‘‘ اس نے ذہن پر زور دیا اور پھر ایک جھماکے کے ساتھ اسے یاد آیا تھا کہ اس نے وہ جھیل خواب میں دیکھی تھی… اس رات جب وہ امامہ کو گھر لے کر آیا تھا تو اس نے خواب میں خود کو کسی حسین اور خوب صورت وادی میں امامہ کے انتظار میں پایا تھا اور پھر امامہ آگئی تھی اور پھر اس وادی کی خوب صورتی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وہ اسے اس وادی سے ایک جھیل اور کشتی تک لے گیا تھا۔ اس جھیل کا نقشہ ویسا ہی تھا جیسا وہ بتا رہی تھی… پھول، سبزہ، نیلا پانی… راج ہنس… کنول کے پھول… اور لکڑی کی چپو والی صندلی کشتی…
سالار کے جسم میں کپکپاہٹ ہونے لگی تھی… وہ اگر پزل تھا تو اس کے دو ٹکڑے عجیب انداز میں جڑے تھے۔
’’تم نے یہ کیوں پوچھا کہ میں نے خواب میں کبھی کوئی جھیل دیکھی ہے؟‘‘ اس نے سرسراتی آواز میں امامہ سے کہا۔
’’تمہیں یاد ہے، حرم پاک کے بارے میں دیکھا جانے والا وہ خواب… جس کا ایک حصہ میں نے دیکھا تھا تو ایک حصہ تم نے بھی دیکھا تھا… اور ایک ہی رات۔‘‘
وہ اسے عجیب چیزیں یاد دلانے بیٹھ گئی تھی۔
’’میں نے سوچا، شاید یہ بھی ویسا ہی کوئی خواب ہو… شاید وہ گھر تم اندر سے دیکھ چکے ہو جو مجھے نظرنہیں آیا۔‘‘
وہ بچوں جیسے اشتیاق کے ساتھ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی… یوں جیسے وہ کہے گا ہاں… میں اس گھر کو اندر سے دیکھ چکاہوں… سالار کسی بت کی طرح اس کا چہرہ دیکھتا رہا… یقینا اس خواب کے دو ہی حصے تھے… لیکن وہ امامہ سے پچھلے حصے کا گواہ تھا… وہ اس وادی کو دیکھ چکا تھا جہاں وہ جھیل تھی، پر اس جھیل کو اس نے دور سے دیکھاتھا کنارے سے… جسے امامہ نے پار کیا تھا… اور جھیل کے پار جو گھر تھا، اس تک وہ دونوں ہی نہیں پہنچے تھے… اس نے گھر کی جھلک بھی نہیں دیکھی تھی… امامہ نے جھلک دیکھی تھی، پر اندر نہیں جھانک پائی تھی…
وہ خواب دونوں نے پہلے والے خواب کی طرح ایک رات میں نہیں دیکھا تھا۔ سالار نے وہ رخصتی کی پہلی رات امامہ کو گھر لانے پر… اور امامہ نے تقریباً چھ سال بعد…