آبِ حیات — قسط نمبر ۹ (یا مجیب السائلین)
وہ پاکستان میں امامہ کے قیام کا تیسرا ہفتہ تھا… وہ شروع کے دو ہفتے لاہور میں ڈاکٹر سبط علی اور سعیدہ اماں کے پاس
وہ پاکستان میں امامہ کے قیام کا تیسرا ہفتہ تھا… وہ شروع کے دو ہفتے لاہور میں ڈاکٹر سبط علی اور سعیدہ اماں کے پاس
میرا بھائی سامی جو مجھ سے عمر میںنوسال چھوٹا تھااس سال نیو ایئر منانے کی ضد کر رہا تھا- میری ماما اس کو سمجھانے کی
آئیے! مجھ سے ملیے ، میرا اور حضرتِ انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شاید میں تب ہی معرضِ وجود میں آگیا تھا جب
اس کا ہاتھ پکڑے وہ اسے اب کسی راستے پر لے جانے لگا… ایک قدم، دوسرا قدم، تیسرا… وہ ٹھٹک کر رک گئی۔ وہ ایک
“میں کہتی ہوں دو اسے طلاق۔۔۔۔!”فاخرہ بیگم کی زناٹے دار آواز ڈرائنگ روم میں گونجی تو یک دم ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ “لیکن امی۔۔۔۔؟”
نیویارک میں واقع امریکہ کے سب سے بڑے میڈیا ڈسٹرکٹ مڈٹاؤن میں ہٹن کے کولمبس سرکل میں واقع ٹائم وارنر سینٹر کی عمارت کے سامنے
میں’’ بلیو ٹوتھ ہینڈز فری‘‘ کانوںمیں ٹھونسے برتن دھونے میں مصروف تھی۔میرے کانوں میں ایک ’’ فاسٹ ٹریک ‘‘دھما دھم بج رہا تھا۔اس کے ساتھ
گرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ چرند پرند اس گرم دوپہر سے چھپ کر اپنی پناہ گاہوں میں آرام فرما تھے۔ اس تپتی دوپہر نے آدم
کسی اپنے کی موت انسان کو پل بھر میں کس طرح خاک کردیتی ہے یہ کوئی امامہ سے پوچھتا۔ وسیم اور سعد کی موت نے
پورے گاؤں کو سانپ سونگھ گیا۔ پنچایت کا فیصلہ تھا ہی ایسا… شاید ہی کوئی گھر ہو جس کا چولہا جلا ہو۔ ہر طرف سناٹا