سنی کا خوف — نورالسعد
”اوئے کہاں پھینک دی؟” وکٹ کیپر حیرت اورکچھ غصے سے چلایا تھا۔ گیند کو چھکا مار ا گیا تھا اور اب وہ ہوا میں جارہی
”اوئے کہاں پھینک دی؟” وکٹ کیپر حیرت اورکچھ غصے سے چلایا تھا۔ گیند کو چھکا مار ا گیا تھا اور اب وہ ہوا میں جارہی
جنید دم سادھے گال پر ہاتھ رکھے اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا، جو ہوا تھا اس کی اسے توقع نہیں تھی، پر جواب ہورہا
رابیل نے چلتے چلتے اچانک عثمان کو بڑ بڑاتے سنا۔ اس نے کچھ حیرانی سے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ ہونٹ بھینچے ہوئے زیر
گیٹ کھلا ہوا تھا۔ وہ اندر داخل ہو گئی۔ گھر میں مکمل خاموشی تھی۔ پہلے وہ جب گھر آتی تھی تو اس کے بھتیجے بھتیجیوں
ڈور بیل تیسری بار بجی تھی جب اس نے جھنجھلا کر بالآخر اٹھنے کا ارادہ کر ہی لیا تھا۔ ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل سے
ایک آگ سی میرے وجود کو جلا رہی تھی۔ میں نے کار کا دروازہ کھول کر نیچے اترتے ہوئے اس بنگلے پر نظر دوڑائی۔ وہ
وہ آہستہ سے دروازہ بجا کر اس کے کمرے میں داخل ہو گئیں۔ وہ بیڈ کے پاس کرسی پر بیٹھا ہوا کچھ پیپرز دیکھ رہا
”میں وہاں دوبارہ کبھی نہیں جاؤں گی کبھی نہیں۔” اسے یاد آیا تھا۔ ڈیڑھ سال پہلے اس گھر سے جانے کے بعد اس نے خود
”پھر گھاٹا ہوا ہے … پورے پچاس روپے کا۔” رضیہ نے اپنی کرخت آواز میں تقریباً چلاّتے ہوئے کہا تھا۔ اماں بختے نے اپنی موٹے
”سنیں!” وہ گاڑی لاک کر رہا تھا جب ایک آواز نے اچانک اسے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔ سفید