میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے — عمیرہ احمد
ایک آگ سی میرے وجود کو جلا رہی تھی۔ میں نے کار کا دروازہ کھول کر نیچے اترتے ہوئے اس بنگلے پر نظر دوڑائی۔ وہ
ایک آگ سی میرے وجود کو جلا رہی تھی۔ میں نے کار کا دروازہ کھول کر نیچے اترتے ہوئے اس بنگلے پر نظر دوڑائی۔ وہ
وہ آہستہ سے دروازہ بجا کر اس کے کمرے میں داخل ہو گئیں۔ وہ بیڈ کے پاس کرسی پر بیٹھا ہوا کچھ پیپرز دیکھ رہا
”میں وہاں دوبارہ کبھی نہیں جاؤں گی کبھی نہیں۔” اسے یاد آیا تھا۔ ڈیڑھ سال پہلے اس گھر سے جانے کے بعد اس نے خود
”پھر گھاٹا ہوا ہے … پورے پچاس روپے کا۔” رضیہ نے اپنی کرخت آواز میں تقریباً چلاّتے ہوئے کہا تھا۔ اماں بختے نے اپنی موٹے
”سنیں!” وہ گاڑی لاک کر رہا تھا جب ایک آواز نے اچانک اسے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔ سفید
”بند کواڑوں کے آگے” کسی بھی ڈائجسٹ میں شائع ہونے والی میری پہلی کہانی ہے۔ جسے میں نے ایک سچے واقعے سے متاثر ہو کر
ناک تین اقسام کی ہوتی ہیں۔ ایک ناک وہ ہے جو ہمارے چہروں پر پائی جاتی ہے۔ یہ سونگھنے کا کام کرتی ہے اور اس
”آپ اسے کسی عامل کے پاس لے کر کیوں نہیں جاتیں؟ضرور کوئی آسیب ہے اس پر ورنہ کوئی نارمل انسان بھی ایسا رویہ اختیار کرتا
”مجھ سے تو نہیں بولی جاتی اتنی اُردو۔ اُف! عجیب سی ہے یہ زبان۔ اردو لکھنا اور پڑھنا تو عذاب ہے۔” وہ روانی سے انگریزی
”امی تصویریں دیکھیں لیزا کی؟ کیسی لگیں آپ کو؟” فاخر نے اشتیاق سے پوچھا۔ ”ہاں! اچھی پیاری لڑکی ہے، مگر ہے کون؟” ”امی میری کلاس