آؤ ہم پہلا قدم دھرتے ہیں — عمیرہ احمد

وہ آہستہ سے دروازہ بجا کر اس کے کمرے میں داخل ہو گئیں۔ وہ بیڈ کے پاس کرسی پر بیٹھا ہوا کچھ پیپرز دیکھ رہا تھا۔ وہ انھیں اس وقت اپنے کمرے میں آتے دیکھ کر حیرن ہوا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو وہ اپنی نانی کے کمرے میں امی کو سلام کر کے آیا تھا۔
”کیا بات ہے امی! آپ سوئی نہیں؟” اس نے پوچھا تھا۔
امی کوئی جواب دیے بغیر اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئیں۔
”کیا بات ہے امی؟” اس نے پہلی بار ماں کا چہرہ غور سے دیکھا تھا۔ ان کا چہرہ ستا ہوا تھا۔ شاید وہ روئی بھی تھیں۔ یہ چیز اس نے نانی کے کمرے میں نوٹ نہیں کی تھی اور یہ نوٹ کرتے ہی اس کی بے چنیی اور اضطراب میں اضافہ ہو گیا تھا۔
”امی! کیا ممانی سے کوئی جھگڑا ہوا ہے؟” اس نے ماں کی خاموشی پر ایک اور سوال کیا تھا۔
”نہیں۔ کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ تم اس دن بات کر رہے تھے کہ کوئی گھر لے سکتے ہو۔ الگ رہنے کے لیے؟”
”ہاں تو؟’ معیز نے کھوجتی ہوئی نظروں سے ماں کے چہرے کو دیکھا تھا۔
”تو پھر لے لو، میرا خیال ہے۔ اب ہمیں الگ ہی رہنا چاہیے اور پھر اس طرح تمھیں بھی سہولت ہو جائے گی۔” ان کے لہجے میں عجیب سی شکست خوردگی تھی۔
”یہ اچانک آپ جانے پر راضی کیسے ہو گئی ہیں، پہلے تو آپ مان نہیں رہی تھیں۔”
وہ کچھ حیران ہوا تھا لیکن وہ جواب میں چپ سادھ کر رہ گئی تھیں۔ کیسے بتا دیتیں کہ آج بھائی کی باتوں نے کس طرح ان کا دل چیر کر رکھ دیا تھا۔
معیز دس سال کا تھا جب وہ بیوہ ہو کر بھائی کے در پر آ بیٹھی تھیں۔ ان کے تین بھائی تھے جو پہلے اکٹھے رہتے تھے اور بعد میں انھوں نے اپنے پورشن الگ کر لیے تھے۔ عدت کے پورا ہوتے ہی بھائی انھیں لینے آ پہنچے تھے۔ لیکن وہ معیز کو ساتھ نہیں لانا چاہتے تھے اور رابعہ معیز کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں اور ان کی یہ ضد ہی معیز کو ننھیال لانے کا سبب بنی تھی۔ وہ شادی کے پانچ سال بعد پیدا ہوا تھا اور ان کا اکلوتا بیٹا تھا ان کے شوہر ناصر مسقط میں کسی فرم میں انجینئر تھے اور وہ بھی اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ شادی کے پندرہ سال انھوں نے جیسے ایک مستقل بہار میں گزارے تھے۔ روپے پیسے کی ریل پیل تھی اور ساس سسر چاہنے والے تھے۔
معیز شادی کے پانچ سال بعد پیدا ہوا تھا اور جیسے منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوا تھا۔ کون سا ناز نخرہ تھا جو اس کا نہیں اٹھایا گیا تھا۔ وہ صرف ماں باپ کا ہی نہیں بلکہ خالاؤں اور ماموؤں کا بھی چہیتا تھا اور ہوتا کیوں نہ اس وقت رابعہ کے پاس بے تحاشا روپیہ تھا جو وہ کھلے دل سے اپنے بھانجے بھانجیوں پر لٹاتی تھیں۔ لاڈ پیار نے معیز کو اسی طرح بگاڑا تھا جس طرح اکلوتے بچے اکثر بگڑتے ہیں۔ وہ تعلیم میں اچھا تھا لیکن آؤٹ اسٹینڈنگ نہیں تھا اور ضد میں تو کوئی اس کا ثانی نہیں تھا جو بات ایک بار اس کے منہ سے نکل جاتی وہ جیسے پتھر پر لکیر ہو جاتی۔ دنیا ادھر کی ادھر ہو سکتی تھی مگر وہ نہیں لیکن اس وقت کسی کو اس کے غصے اور ضد پر پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ وہ لاکھوں کی جائیداد کا اکلوتا وارث تھا پھر کون تھا جو اس میں نقص نکالنے کی حماقت کرتا۔ ان ہی دنوں رابعہ نے اپنے چھوٹے بھائی کی بیٹی سعدیہ سے معیز کی نسبت طے کر دی تھی۔ دونوں خاندان اس رشتہ پر بہت خوش تھے۔





معیز اس وقت آٹھ سال کا تھا جب یہ ہولناک انکشاف ہوا تھا کہ ناصر کو پھیپھڑوں کا کینسر ہے۔ یہ تشخیص ہو جانے کے بعد انھیںملازمت سے ریٹائر کر دیا گیا۔ رابعہ پر جیسے ایک قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ انھیں ملازمت ختم ہونے کا افسوس نہیں تھا۔ انھیں تو صرف ناصر کی صحت یابی کی فکر تھی۔ ناصر کو ساتھ لیے وہ باہر کے ممالک میں علاج کے لیے پھرتی رہیں لیکن مختلف آپریشنز کے بعد بھی کینسر ختم نہیں ہوا بلکہ پھیلتا ہی چلا گیا۔ پھر ان ہی دنوں ایک ٹریفک حادثے میں ان کے سسر کا انتقال ہو گیا۔ رابعہ جیسے پھر دوراہے پر آن کھڑی ہوئی تھیں۔ وہ اپنی ساس کے ساتھ مسقط سے پاکستان شفٹ ہو گئیں پھر معیز کو اپنی ساس کے پاس چھوڑ کر وہ ایک بار پھر ناصر کو علاج کی خاطر انگلینڈ لے گئی تھیں۔ روپیہ پانی کی طرح بہانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسقط کی طرح پاکستان میں موجود ان کی جائیداد بھی بک گئی۔ جو روپیہ اکٹھا کرنے میں ناصر اور ان کے باپ کو چالیس سال لگے تھے وہ صرف دو سال میں ختم ہو گیا تھا اور جب وہ دو سال ختم ہوئے تو ناصر بھی ختم ہو گئے تھے۔ رابعہ کے لیے مصیبتوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان کی ساس کو بھی اپنے بھائیوں کے پاس جانا پڑا اور ان کے بھائی معیز اور رابعہ کی ذمہ داری اٹھانے پر تیار نہیں تھے۔ رابعہ کی ساس بلکتے ہوئے انھیں چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔
سب کچھ بدل گیا ہے، کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ بھائیوں کے پاس آ کر رابعہ کو پہلا احساس یہی ہوا تھا۔ وقت اور حالات کے بدلنے کے ساتھ ہی لوگ بھی بدل گئے تھے۔ وہی بھائی، بھابھیاں جو انھیں بلانے کے لیے بار بار مسقط فون کیا کرتے تھے۔ اب انھیں گھر لانے کے بعد یہ طے کرنے میں مصروف تھے کہ وہ کس کے پاس رہیں گی اور انھیں خرچ کون دیا کرے گا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد انھوں نے رابعہ پر دوسری شادی کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ لیکن صرف یہ ایک ایسی چیز تھی جس پر رابعہ کوئی دباؤ برداشت کرنے پر تیار نہیں ہوئی تھیں۔ ناصر ان کے لیے کیا تھے اور ان کے ساتھ گزارے ہوئے سترہ سال وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتی تھیں۔ ان کے بھائی یہ سمجھنے سے قاصر تھے رابعہ کی ضد کے سامنے وہ جھک تو گئے تھے مگر ان کے رویے روز بروز بد سے بدتر ہوتے گئے تھے۔ وہ کئی کئی دن انھیں مخاطب نہ کرتے۔
بھابھیاں جو بات بلاواسطہ نہیں کہتی تھیں، وہ بالواسطہ طور پر کہہ دیتی تھیں۔ ان کی ماں خود بھی بیٹوں اور بہوؤں کے رحم و کرم پر تھیں۔ وہ ہمیشہ انھیں صرف صبر کی تلقین کرتی تھیں۔
بہنیں وہ تھیں جو بھائیوں کے گھر آتیں تو کوشش کرتیں کہ رابعہ سے ملے بغیر ہی چلی جائیں کیونکہ رابعہ کے ساتھ زیادہ گرم جوشی برتنے کا مطلب یہ ہوتا کہ انھیں پہلے بھابھیوں اور پھر بھائیوں کی بے رخی کا سامنا کرنا پڑتا، ویسے بھی وہ جس سوشل اسٹیٹس کی حامل تھیں، وہ متقاضی تھا کہ وہ صرف بھائیوں سے ہی میل جول رکھیں۔ رابعہ تو اب وہ اسٹیٹس کھو چکی تھیں اور دوبارہ اسے حاصل کرنے کا دور دور تک امکان نہیں تھا۔ لیکن جو بھی تھا۔
رابعہ کا حوصلہ اور صبر کمال کا تھا۔ انھوں نے کبھی کسی سے شکوہ نہیں کیا۔ ایک چپ کی مہر تھی جو انھوں نے اپنے ہونٹوں پر لگا لی تھی۔ انھوں نے گھر کی پوری ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا لی تھی۔ ان کے بڑے بھائی کے گھر دو تین ملازم تھے اور وہی سارا کام لیا کرتی تھیں جیسے وہ اپنے بھائی کی ہاؤس کیپر ہوں۔ ان کی خدمت کے عوض انھیں رہائش اور تین وقت کا کھانا میسر تھا۔ ہر ماہ ان کو ایک بھائی ہزار روپے دے جاتا اور وہ انھیں ہزار روپوں میں اپنے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کرتیں ان کے ذاتی اخراجات کچھ نہیں تھے۔ ہاں معیز کا خیال انھیں رکھنا پڑتا تھا۔ وہ اسی اسکول میں داخل تھا۔ جہاں ان کے بھائیوں کے بچے داخل تھے۔ اس میں ان کے بھائیوں کا کوئی کمال نہیں تھا۔ اپنی ساس کے ساتھ پاکستان شفٹ ہونے کے بعد انھوں نے خود ہی اسے اس اسکول میں داخل کروایا تھا کیونکہ تب ان کے پاس روپے کی کمی نہیں تھی۔ لیکن اب انھیں اس کی فیس اور دوسرے اخراجات پورے کرنے کے لیے جو جتن کرنے پڑتے تھے وہ ان کا دل ہی جانتا تھا۔ اتنی تعلیم یافتہ تو وہ تھیں نہیں کہ کوئی اچھی جاب کر سکتیں اور اگر تعلیم یافتہ ہوتیں بھی تب بھی ان کے بھائیوں کی غیرت کو یہ کہاں گوارا ہو تاکہ وہ کوئی جاب کریں۔ ایک سے بڑھ کر ایک امتحان انھیں درپیش تھا۔
اور ان ہی امتحانوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے پتا نہیں کب ان کی توجہ معیز سے ہٹ گئی تھی۔ وہ ہر وقت کسی نہ کسی بھابھی کا کوئی نہ کوئی کام کر رہی ہوتیں اور اس ساری جدوجہد کا یہ فائدہ ہوتا تھا کہ کوئی نہ کوئی ان کے اخراجات پورے کر ہی دیتا تھا۔ اسی بھاگ دوڑ میں انھیں پتا نہیں چلا کب معیز ذہنی طور پر بالغ ہو گیا۔ اس نے بلاشبہ باپ کی بیماری اور موت کو بے حد محسوس کیا تھا اور وہ بہت خاموش رہنے لگا تھا۔ شروع میں اسے ماموؤں کے گھر آ کر رہنا بہت اچھا لگا تھا کیونکہ اسے ہمیشہ سے یہاں آنا پسند تھا۔ کیونکہ یہاں اس کے ساتھ کھیلنے کے لیے بہت بچے ہوتے تھے اور پھر اس کے بہت ناز نخرے بھی اٹھائے جاتے تھے۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے پتا چل گیا تھا کہ پہلے اور اب کے رہنے میں بہت فرق تھا، اب اسے ڈانٹا جاتا تھا۔ اس کے کاموں میں روک ٹوک ہوتی تھی۔ شروع میں اس کے کزنز اس کے ساتھ بہت فرینک تھے لیکن اپنے ماں باپ کے بدلتے ہوئے رویوں کا اثر ان پر بھی ہوا تھا اور انھوں نے اسے نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ پہلے پہل اسے یہ سب کچھ سمجھ میں نہیں آیا مگر پھر جب اس نے اس سب پر سوچنا شروع کیا تو آگہی کے نئے در اس پر کھلتے چلے گئے۔ سارے فرق اس کی سمجھ میں آنے لگے تھے اور وہ جیسے شاک میں آتا چلا گیا تھا۔ بہت نامحسوس طور پر اس میں تبدیلی آنے لگی تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنے کزنز کے ساتھ کھیلنا چھوڑ دیا کیونکہ اب وہ خود کو ان کے برابر کا نہیں سمجھتا تھا۔ وہ پہلے والی ضد یکسر ختم ہو گئی تھی۔ اسے ماں کی بے توجہی کی شکایت بھی نہیں رہی تھی۔
وہ اسکول سے آ کر کسی کونے میں اپنا بیگ لے کر بیٹھ جاتا اور ہوم ورک کرتا رہتا، جب ہوم ورک ختم ہو جاتا تو پھر ڈرائنگ کرنے لگتا اور جب اس میں دلچسپی ختم ہو جاتی تو کوئی کتاب نکال کر پڑھنے لگتا، اسٹڈیز میں اب اس کے گریڈز بہت اچھے آنے لگے تھے۔ ہر بار اس کا رزلٹ کارڈ دیکھ کر رابعہ کا سیروں خون بڑھ جاتا۔ انھیں لگتا تھا کہ اس کو ڈاکٹر بنانے کا ان کا خواب پورا ہونے والا ہے۔
…***…
معیز کے مزاج میں ہونے والی تبدیلیوں کا احساس انھیں پہلی مرتبہ تب ہوا تھا۔ جب وہ ایک صبح اسے اتفاقاً ہی گاڑی تک چھوڑنے چلی گئی تھیں۔ وہ انھیں خدا حافظ کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ ان کے بھائی کے بچے ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔ وہ بلا مقصد ہی کھڑی رہیں۔ پھر کچھ دیر بعد ان کے بھتیجے اور بھتیجیاں آ گئی تھیں۔
”تم آگے ہو کر بیٹھو، کھڑکی کے پاس میں بیٹھوں گا۔ میں تمھیں روز کہتا ہوں پھر تم پر اثر کیوں نہیں ہوتا؟”
ان کے سب سے چھوٹے بھتیجے نے آتے ہی بڑی بدتمیزی سے دروازہ کھول کر معیز کو جھڑکتے ہوئے کہا تھا۔ رابعہ ڈر گئی تھیں کہ معیز ابھی لڑنا شروع کر دے گا اور اسی خدشے کے پیش نظر وہ گاڑی کے پاس آ گئی تھیں مگر معیز بے حد خاموشی سے آگے سرک گیا تھا۔ ان کے سارے بھتیجے اور بھتیجیاں گاڑی میں سوار ہو گئی تھیں اور وہ ان کے درمیان سکڑا ہوا سر جھکائے بیٹھا تھا۔
گاڑی چل پڑی تھی اور رابعہ کے گال آنسوؤں سے بھیگنے لگے تھے۔ انھیں یاد تھا وہ ہمیشہ کھڑکی کے پاس ہی بیٹھتا تھا اور کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ اسے وہاں سے ہٹا دیتا اور اب معیز کی اطاعت گزاری نے انھیں خوش کرنے کے بجائے ان کا دل چھید دیا تھا۔ جب ناصر زندہ تھے تو بعض دفعہ وہ معیز کی ضد اور غصے سے تنگ آ کر ہر ایک سے پوچھتی رہتیں کہ وہ اسے کیسے ٹھیک کریں اور اب جب ان کی مشکل حل ہو گئی تھی تو وہ رو رہی تھیں۔ اسی دن اسکول سے واپس آنے کے بعد وہ بہانے بہانے سے معیز کو پیار کرتی رہیں۔
معیز واقعی بدل گیا تھا۔ اس بات کا یقین انھیں تب ہوا تھا جب چند روز بعد ایک روز صبح اسکول جاتے ہوئے انھوں نے اسے پاکٹ منی دینے کی کوشش کی۔
”نہیں امی! اب میرا روپے خرچ کرنے کو دل نہیں چاہتا۔”
بڑی سنجیدگی سے اس نے ماں کا ہاتھ پیچھے کر دیا تھا۔ اس کے الفاظ پر جیسے رابعہ کا سانس ہی رک گیا تھا۔
”کیوں بیٹا؟”
”بس ویسے ہی ٹک شاپ آتے جاتے بہت وقت لگ جاتا ہے پھر وہاں پر رش بھی بہت ہوتا ہے ساری بریک تو انتظار میں ہی گزر جاتی ہے پھر پاکٹ منی کا کیا فائدہ۔”
وہ اپنا اسکول بیگ بند کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ رابعہ بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھیں، وہ روپے خرچ کرنے کا کتنا شوقین تھا وہ اچھی طرح جانتی تھیں۔ وہ جب سے اس اسکول میں آیا تھا تب سے روز پانچ دس روپے لے کر جاتا رہا تھا تب کبھی اس نے کینٹین کے دور ہونے کا رونا نہیں رویا تھا پھر اب کیا بات ہو گئی تھی۔ رابعہ کو اپنی بے چارگی کا شدت سے احساس ہوا تھا۔
آٹھویں کلاس تک آتے آتے وہ بالکل ہی بدل چکا تھا۔ اس میں پہلے والی کوئی بات نہیں رہی تھی۔ اس کا غصہ بالکل ختم ہو چکا تھا۔ ماموؤں کی ڈانٹ ڈپٹ کو وہ بڑی خاموشی سے سنتا تھا۔ اس نے کبھی ممانیوں کی کسی بات کا برا مانا نہ ہی کبھی وضاحتیں پیش کرنے کی کوشش کی۔
اس کے چہرے کے نقوش بہت عام سے تھے اور رنگت بھی سانولی تھی۔ اوپر سے وہ تھا بھی دبلا پتلا اور کسی نہ کسی بات پر وہ اپنے کزنز کے مذاق کا نشانہ بنتا ہی رہتا تھا مگر اس نے کبھی پلٹ کر کسی کو جواب نہیں دیا۔ وہ بڑی خاموشی سے سب کی باتیں برداشت کر لیتا تھا۔ ماموں کے گھر کی دوسری منزل پر موجود اسٹور کو اس نے اپنے کمرے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا تھا اور سارا دن اپنے کمرے میں ہی گھسا رہتا۔ پھر اچانک اس نے زیادہ وقت گھر سے باہر رہنا شروع کر دیا۔
ماں کے استفسار پر اس نے کہہ دیا کہ وہ اپنے دوست کے ساتھ پڑھتا رہتا ہے۔ پھر گھر سے باہر رہنا جیسے اس کا معمول ہی بن گیا تھا۔ رابعہ کو ہمیشہ اس کی بات پر یقین آ جاتا کہ وہ دوست کے ساتھ پڑھتا ہے۔ کیونکہ گھر آنے کے بعد بھی وہ زیادہ وقت کتابیں لے کر ہی بیٹھا رہتا تھا۔ پھر جب وہ میٹرک میں آیا تو اس کے باہر رہنے کے اوقات بھی بڑھ گئے۔ لیکن رابعہ پھر بھی مطمئن تھیں۔ پتا نہیں انھیں کبھی یہ کیوں نہیں لگا کہ وہ کہیں کوئی غلط کام نہ کر رہا ہو، گھر پر وہ جب بھی ہوتا کسی نہ کسی کو کوئی نہ کوئی کام یاد آتا رہتا اور وہ بار بار اندر باہر کے چکر لگاتا رہتا۔ اب رابعہ کی بھی یہی خواہش ہوتی تھی کہ وہ باہر ہی رہے۔ کم از کم باہر وہ اطمینان سے پڑھتا تو ہوگا۔
…***…
میٹرک کے امتحانات میں وہ شاندار نمبروں سے کامیاب ہوا تھا اسکول میں پہلی پانچ پوزیشنز لینے والوں میں سے ایک وہ بھی تھا۔ رابعہ کو ان کی منزل اور قریب لگنے لگی تھی۔ رابعہ کے بھائیوں اور بھابھیوں نے انھیں مبارکباد دی تھی لیکن بجھے دل سے کیونکہ ان کے اپنے بچوں میں سے جتنوں نے بھی میٹرک کا امتحان دیا تھا وہ بمشکل پاس ہی ہوئے تھے۔ پھر اسی شام ان کے بڑے بھائی نے ان سے پوچھا۔
”اب معیز نے آگے کیا کرنا ہے؟”
”آگے کالج میں ایڈمیشن لے گا۔” رابعہ نے بے حد خوشی سے کہا تھا کیونکہ پہلی بار بھائی نے اتنی دلچسپی سے معیز کے بارے میں پوچھا تھا۔
”کالج میں ایڈمیشن لے کر وہ کیا کرے گا اب وہ اتنا بڑا ہو چکا ہے کہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے اس سے کہو کہ اب میرے پاس فیکٹری آ جایا کرے۔ مہینے کے اتنے روپے تو میں اسے دے ہی دوں گا کہ وہ اپنا اور تمہارا خرچ اٹھا سکے۔”
رابعہ نے گم صم ہو کر بھائی کو دیکھا تھا۔ ان کے لہجے میں ایک عجیب سی بیزاری تھی۔ یہ وہی بھائی تھا جو کسی زمانے میں کہتا تھا کہ معیز کو ڈاکٹر بننا چاہیے کیونکہ خاندان میں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ رابعہ کی آنکھیں بھر آئیں۔
”نہیں بھائی جان! ابھی اس نے پڑھا ہی کیا ہے۔ آج کل خالی میٹرک کو کون پوچھتا ہے۔ ابھی تو اس نے آگے پڑھنا ہے۔ پھر اسے شوق بھی ہے۔” ان کے لہجے میں لجاجت تھی۔ ان کا بھائی خاموش رہا تھا مگر اس نے جن نظروں سے رابعہ کو دیکھا تھا وہ رابعہ کے وجود کو بھکاری بنا گئی تھیں۔ بیٹے کی کامیابی کی ساری خوشی یک دم ختم ہو گئی تھی۔ لیکن صحیح معنوں میں قیامت تو ان پر تب ٹوٹی تھی جب معیز نے بھی کالج میں داخلہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔
”مجھے پڑھ کر آخر کرنا کیا ہے۔ میں کوئی کام کرنا چاہتا ہوں۔”
رابعہ کو اس کی بات سن کر اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا۔
”معیز! تم کیا کہہ رہے ہو؟” ان کے لہجے میں بلا کی بے یقینی تھی۔
”ہاں امی! میں اب پڑھنا نہیں چاہتا۔ میں کوئی کام کرنا چاہتا ہوں آخر کب تک ہم دوسروں کا کھاتے رہیں گے؟” اس نے پھر پہلے کی طرح اپنی بات دہرائی تھی۔
”کیا کام کرو گے؟ میٹرک پاس کو کون ملازمت دیتا ہے اگر تمھیں دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے کا اتنا ہی احساس ہے تو کچھ بن کر دکھاؤ۔ اسی لیے کہتی ہوں اپنی تعلیم جاری رکھو۔ ڈاکٹر بنو۔ تم نہیں جانتے تمھارے باپ کو کتنی خواہش تھی تمھیں ڈاکٹر بنانے کی۔ کتنے خواب دیکھے تھے انھوں نے تمھارے لیے۔”
وہ ان کی بات پر بڑے عجیب سے انداز میں ہنسا تھا۔
”امی! سارے خواب پورے نہیں ہوتے اور جب یہ پتا چل جائے کہ کوئی خواب پورا نہیں ہو سکتا تو پھر اس کا پیچھا چھوڑ دینا چاہیے یہ زندگی میں سکون کے لیے بہت ضروری ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے۔ کیا میں ڈاکٹر بننا نہیں چاہتا تھا۔ چاہتا تھا بالکل چاہتا تھا لیکن جب میں نے آپ کو فیس اور دوسرے اخراجات کے لیے دوسروں کی منت سماجت کرتے دیکھا تو میں نے اپنے دماغ سے ایسے سارے خواب نکال دیے۔”
”تم ایسی باتیں کیوں کر رہے ہو۔ یہ سب کیوں سوچتے ہو، تم صرف اپنی تعلیم کے بارے میں سوچو، اخراجات کی فکر مت کرو۔”




Loading

Read Previous

کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا — عمیرہ احمد

Read Next

میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے — عمیرہ احمد

2 Comments

  • Well done

  • Well done your all stories are awesome

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!