کنکر — عمیرہ احمد

جنید دم سادھے گال پر ہاتھ رکھے اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا، جو ہوا تھا اس کی اسے توقع نہیں تھی، پر جواب ہورہا تھا وہ ا س کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، اس کا باپ بچوں کی طرح دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے بس ایک ہی جملہ دوہرائے جارہا تھا۔
”فرح کو کبھی مت مارنا، کبھی مت مارنا۔”
پھر اس کا باپ اچانک اٹھ کر کمرے سے نکل گیا۔
”اب تک وہی بلا سر پر سوار ہے، اب بھی صرف اسی کا خیال آتا ہے۔”
اس نے اچانک اپنی ماں کی بڑبڑاہٹ سنی، ایک عجیب پنڈورا باکس تھا جو اس کے سامنے آگیا تھا، نہ وہ ماں کی بڑبڑاہٹ سمجھ پایا تھا نہ باپ کی کیفیت۔
دونوں ردِ عمل اس کیلئے حیران کن تھے اور شاید صرف اس کیلئے ہی نہیں وہاں موجود ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر اسی کیفیت میں تھا، بیشتر اس کے کہ وہ اپنی ماں سے کچھ پوچھتا وہ کمرے سے نکل گئیں اب ڈرائنگ روم میں وہ ، فرح اور اس کی دونوں بہنیں رہ گئی تھیں، چاروں ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوئے ڈائننگ ٹیبل کے گرد بیٹھ گئے اور پھر بڑی بے دلی سے انہوں نے ناشتہ شروع کیا تھا مگر کوئی بھی ناشتہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔
فرح مسلسل کچھ دنوں سے ضد کررہی تھی کہ جنید اس کے ساتھ بھور بن چلے، اس کی کچھ کزنز سیرو تفریح کیلئے اپنے اپنے شوہروں کے ساتھ وہاں جارہی تھیں اور وہ بھی چاہتی تھی کہ جنید بھی اس کے ساتھ چلے لیکن جنید نہ تو خود بھور بن جانا چاہتا تھا اور نہ ہی اُسے بھیجنا چاہ رہا تھا اور روز روز کی اس بحث و تکرار نے اس وقت ایک سنگین شکل اختیار کر گئی جب آج ناشتے کی میز پر فرح نے اچانک ہی پھر وہی بحث شروع کردی۔
”پھر تم نے کیا طے کیا ہے؟”
فرح کے سوال نے جہاں جنید کو حیران کیا تھا، وہاں باقی لوگوں کی توجہ بھی ان پر مرکوز ہوگئی تھی، جنید نے ناگواری سے اُسے دیکھا تھا، اُسے توقع نہیں تھی کہ فرح ایک ذاتی معاملے کو اس طرح سب کے سامنے لانے کی کوشش کرے گی۔
”جو طے کیا تھا وہ تمہیں ایک بار نہیں بار بار بتا چکا ہوں اور اب پھر وہ دوہرانے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔”
حیدر نے بیٹے کے اس اکھڑے ہوئے جواب پر فرح اور جنید دونوں کو غور سے دیکھا تھا۔
”میں تمہیں صاف صاف بتارہی ہوں کہ میں بھور بن ضرور جاؤں گی اور تمہیں بھی ساتھ لے کر جاؤں گی۔”
”میرے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جہاں تک تمہارا تعلق ہے تو میں دیکھوں گا تم کیسے جاتی ہو۔”
”تم مجھے روکنے والے کون ہوتے ہو، کیا میرے باپ ہو؟”
زریں، فرح کے جملے پر تلملاگئی تھیں۔
”فرح شوہر سے کیا ایسے بات کرتے ہیں؟”





”میں نے آپ سے مشورہ نہیں مانگا کہ مجھے کس سے کس طرح بات کرنی چاہیے اور کیسے نہیں، یہ میرا اور جنید کا معاملہ ہے اس لیے آپ بیچ میں نہ بولیں۔”
بہت روکھے انداز میں اس نے ساس کو جواب دیا تھا، حیدر خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔
”فرح تم اپنا منہ بند کرلو تو بہتر ہوگا کیونکہ اس سے زیادہ میں برداشت نہیں کروں گا، میں تم پر ہاتھ اٹھانا نہیں چاہتا اور تم مجھے اس پر مجبور کررہی ہو۔” جنید کی آواز بہت بلند تھی، حیدر بے اختیار اس کا نام پکار اٹھا۔
”جنید۔” ان کے لہجے میں تنبیہ تھی مگر جنید اس باپ کی طرف بالکل متوجہ نہیں تھا۔
”میں کیوں اپنا منہ بند کروں، جو سچ ہے وہ صاف صاف کہوں گی میں تم سے ڈرتی نہیں ہوں۔”
سرخ چہر ے کے ساتھ جنید اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا تھا۔
”تمہیں بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔”
”تمہیں تمیز ہے؟” فرح بھی اسی کے انداز میں کھڑی ہوکر بولی تھی، بے اختیار جنید کا ہاتھ اٹھا تھا مگر حیدر کے زور دار تھپڑ نے اس کے ہاتھ کو گرا دیا تھا۔
اتنی دیر سے غیر جانبدار رہنے والے باپ نے اچانک اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا سرپرائز دیا تھا۔
”تمہاری ہمت کیسے ہوئی کہ تم اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کرو۔ تمہیں یہ خیال بھی کیسے آیا۔”
وہ سکتے کے عالم میں باپ کو چلاتے ہوئے دیکھ رہا تھا، پھر اچانک حیدر نے ڈائننگ ٹیبل پر سر رکھ کر رونا شروع کردیا تھا اور اچانک وہ اسی انداز میں تقریباً بھاگتے ہوئے کمرے سے نکل گیا تھا۔
٭…٭…٭
”آج میں جو کررہی ہوں وہ سب کو برا لگ رہا ہے، تمہیں، لوگوں کو، ہر ایک کو، لیکن یاد رکھنا ایک وقت ایسا آئے گا جب تم خود اس سب کو روکو گے، جو تم نے کیا، تم دیکھ لینا۔”
”ہاں آج تمہاری آخری پیش گوئی بھی پوری ہوگئی۔” کمرہ لاک کئے سر ہاتھوں میں تھامے وہ پھوٹ کر رو رہا تھا۔
”تم کیا سوچتی ہو میں تمہارے بغیر مرجاؤں گا، تمہاری جدائی کا ماتم کرتا پھروں گا یا روؤں گا۔”
اٹھائیس سال پہلے اس نے کسی سے کہا تھا۔
”اب نہیں روؤگے، کبھی نہ کبھی تو روؤگے۔” ایک آواز اس کے کانوں میں گونجی تھی۔
”سارہ… اب تو، اب تو مجھے۔۔” وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔
٭…٭…٭
”سارہ تم ایسا کرو ذرا گھوم پھر کر گھردیکھو ہم بس تھوڑی دیر میں آجائیں گے۔ آج عالیہ وغیرہ بھی گھر میں نہیں ورنہ وہی تمہیں کمپنی دیتیں۔” چچی ندیمہ کی بہن نگہت نے اس سے کہا تھا۔
اس دن وہ چچی ندیمہ کی طرف آئی تھی، اس وقت وہ اپنی بڑی بہن کے گھر جانے کیلئے تیار ہورہی تھیں اور انہوں نے اصرار کرکے سارہ کو بھی ساتھ لے لیا لیکن نگہت کے گھر پہنچتے ہی ندیمہ کا ارادہ نگہت کے ہمسایوں کے گھر جانے کا ہوگیا تھا، جنہوں نے اپنے لان میں نئی آبشار بنوائی تھی اور چچی ندیمہ کو اس قسم کی چیزوں میں پہلے ہی بہت دلچسپی تھی۔
”اب میں آپ کے ساتھ مزید کسی اگلے گھر نہیں جاؤں گی، آپ خود ہی ہو آئیں۔” سارہ نے ندیمہ چچی کے کہنے سے پہلے ہی انکار کردیا تھا، پھر ندیمہ کی بہن نگہت نے اسے گھر دیکھنے کیلئے کہا تھا اور خود وہ دونوں نگہت کے ہمسایوں کے گھر چلی گئی تھیں، نگہت چند ماہ پہلے ہی یہاں شفٹ ہوئی تھیں اور یہاں آنے کے بعد وہ پہلی بار ان کے یہاں آئی تھی لیکن اس سے پہلے بھی وہ صرف چند بار ہی ان کے گھر آئی تھی اور وہ بھی صرف دو ایک گھنٹے کیلئے۔
کچھ دیر تک کولڈ ڈرنک کے سپ لیتے ہوئے وہ غیر دلچسپی سے ڈرائنگ روم کا جائزہ لیتی رہی اور پھر گلاس رکھ کر وہ ڈرائنگ روم سے باہر آگئی، لاؤنج میں ملازمہ ویکیوم کلینر سے کارپٹ صاف کررہی تھی، اسے باہر آتے دیکھ کر مسکرائی تھی۔
”میں ذرا گھر دیکھ رہی ہوں۔” اس نے جیسے اپنے باہر آنے کی وضاحت کی تھی۔
”ہاں جی ضرور دیکھیں۔ یہ ادھر والا دروازہ راہداری کا ہے، سارے بیڈ روم اُدھر ہی ہیں اور راہداری کے آخر میں دروازہ لان میں کھلتا ہے۔”
اس نے ہاتھ کے اشارے سے اس کی رہنمائی کرتے ہوئے کہا تھا، وہ سرہلاتے ہوئے راہداری کا دروازہ کھول کر اس میں داخل ہوگئی تھی، باری باری کمروں کے دروازے کھول کر اس نے ایک طائرانہ نظر ڈالی تھی اور اندازہ لگالیا تھا کہ کمرہ کس کا ہوسکتا ہے پھر وہ واپس لاؤنج میں آگئی۔
”یہ سامنے کچن ہے اور وہ اسٹڈی روم ہے۔”
اسے آتے دیکھ کر ملازمہ نے ایک بار پھر رہنمائی کی تھی، اس نے ان ہی سرسری نظروں کے ساتھ کچن اور اسٹڈ ی روم کو کھول کر دیکھا تھا۔
”اوپر بھی کمرے ہیں؟” اس نے ملازمہ سے پوچھا تھا۔
”ہاں جی اوپر بھی کمرے ہیں، آپ ہو آئیں وہاں سے۔” وہ اس کی بات پر سرہلاتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ سیڑھیوں کے خاتمے پر وہ پھر ایک راہداری کے سامنے کھڑی تھی، پہلے کی طرح اس نے پھر دروازے کھول کر کمروں میں جھانکنا شروع کردیا، کچھ کمرے لاکڈ تھے۔ ایک کمرے کا دروازہ کھولتے ہی وہ ٹھٹھک گئی، دروازے کے بالکل سامنے والی دیوار کے ساتھ قد آدم سائز کے اسٹیریو رکھے تھے، وہ بڑی دلچسپی کے ساتھ اس نیم تاریک کمرے میں آئی تھی، کھڑکی کے پردے کھینچ کر اس نے اسٹیریو کو آن کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ اپنی اس کوشش میں چند لمحوں میں ہی کامیاب ہوگئی تھی۔ کمرہ اچانک ایلوس پر سلے کی آواز سے گونج اٹھا تھا، اس نے فورا والیم کم کیا تھا۔
کمرے میں بلند ہونے والے میوزک نے اوندھے لیٹے حیدر کو بیدار کردیا تھا، آنکھیں کھول کر سیدھا ہوتے ہوئے اس نے کچھ دیر تک اس شور کو سمجھنے کی کوشش کی اور پھر وہ اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا، اس نے اسٹیریو پر جھکی ہوئی لڑکی کو سائیڈ سے دیکھا، ایک نظر ڈالتے ہی اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اس کی بہنوں میں سے نہیں تھی، یقینا بہنوں کی فرینڈز میں سے ہوگی لیکن اس طرح منہ اٹھا کر کمرے میں جو داخل ہوگئی تھی، وہ کس قسم کی دوست ہوسکتی ہے، ناگواری کا ایک احساس اس کے اندر پیدا ہوا تھا۔
”آپ کون ہیں اور یہاں کررہی ہیں؟” اس نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے بلند آواز میں پوچھاتھا، سارہ اس کی آواز پر چونک گئی تھی۔ اس نے پہلی بار کمرے کا جائزہ لیا تھا اور دائیں طرف دیکھتے ہی ایک لمحے کے لئے اس کا سانس رک گیا تھا۔ بلیک جینز میں ملبوس ایک لڑکا سفید شرٹ پہنتے ہوئے اسے بڑی برہمی سے دیکھ رہا تھا، اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دے یا کیا کرے، جو کمرہ اس کی توقع کے مطابق خالی ہونا چاہیے تھا اب یکدم وہاں پر ایک شخص برآمد ہوگیا تھا اور وہ بھی ایک مرد، وہ ہونقوں کی طرح حیدر کو دیکھتی رہی، شرٹ پہن کر بٹن بند کرتے ہوئے وہ اس کے قریب آگیا تھا، اس جھٹکے سے اس نے اسٹیریو کو بند کیا اور پھر اسی اکھڑے ہوئے انداز میں کہا ۔
”میں نے آپ سے کچھ پوچھا تھا؟”
”مجھے نہیں پتہ تھا کہ یہاں کوئی ہے۔” سارہ نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاکر بالآخر کہا۔
”اوہ ویری ویل، اس کا مطلب ہے کہ یہاں کوئی نہیں ہے تو آپ کو منہ اٹھا کر یہاں آنا چاہیے اور پھر بغیر اجازت چیزوں کو استعمال کرنا شروع کردینا چاہیے، آپ Guest ہو تو آپ کو آرام سے وہیں بیٹھنا چاہیے جہاں آپ کو بٹھایا جائے یہ نہیں کہ منہ اٹھا کر کمروں میں پھرنا شروع کردیں۔” کسی لحاظ اور مروت کے بغیر بڑے کڑوے لہجے میں اس نے سارہ سے کہا تھا۔
”سوری۔” کسی وضاحت کے بغیر ایک لفظ کہہ کر وہ دروازے کی جانب بڑھ گئی اور وہ جو کسی لمبی چوڑی وضاحت کا منتظر تھا کچھ حیران ہوا تھا۔
”ویسے آپ ہیں کون؟” دروازے کے قریب پہنچ کر وہ اس کی آواز پر واپس مڑی تھی۔
”ایک Guestہوں۔” بڑے پرسکون انداز میں یہ جملہ ادا کرکے وہ دروازہ کھول کر باہر آگئی۔ پھر تیزی سے سیڑھیاں اتر کر وہ نیچے آگئی اور واپس ڈرائنگ روم میں جانے کے بجائے باہر پورچ میں نکل آئی، وہ اس کے پیچھے ہی لاؤنج میں آیا تھا، اب آپس کا غصہ بڑی حد تک ختم ہوگیا تھا۔
”یہ جو ابھی نیچے آئی تھیں یہ کون ہیں؟” اس نے لاؤنج میں آتے ہی ملازمہ سے پوچھا تھاجو ابھی تک کارپیٹ کو صاف کرنے میں مصروف تھی۔
”پتا نہیں جی، یہ باجی ندیمہ کے ساتھ آئی ہیں، شاید ان کی بھتیجی ہیں۔”
”خالہ ندیمہ آئی ہیں؟”
”ہاں جی۔”
”تو کہاں ہیں وہ؟”
”وہ تو جی بیگم صاحبہ کے ساتھ اصغر صاحب کے گھر گئی ہیں، ابھی تھوڑی دیر میں آجائیں گی۔
”اور تم نے انہیں گھر میں گھومنے پر لگادیا۔” اس نے ملازمہ کو جھڑکتے ہوئے کہا تھا۔
”نہیں جی، میں نے تو انہیں پھرنے کیلئے نہیں کہا۔ وہ تو بیگم صاحبہ کہہ کر گئی ہیں، انہوں نے تو مجھے بھی کہا تھا کہ میں ان کو گھر دکھادوں مگر میں کام میں مصروف تھی اس لئے وہ خود ہی گھر دیکھنے لگیں۔” وہ ملازمہ کی بات پر کچھ شرمندہ ہوا تھا۔
”اب کہاں ہیں وہ ، ڈرائنگ روم میں۔”
”نہیں وہ تو باہر نکل گئی ہیں۔” ملازمہ کے جواب پر وہ ہونٹ بھینچے لاؤنج کا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا، سارہ پورچ میں ٹہل رہی تھی اسے دیکھ کر رک گئی۔
”میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ آپ گھر سے ہی باہر نکل جائیں۔” اس نے چھوٹتے ہی کہا۔
”نہیںمیں اپنی مرضی سے یہاں آئی ہوں، ویسے بھی چچی آنے ہی والی ہیں۔”
”آپ اندر آجائیں۔”
”نہیں تھینک یو، میں یہاں ٹھیک ہوں۔” ا س نے حیدر کی آفر بڑے اطمینان سے رد کردی۔ وہ کچھ دیر اُسے دیکھتا رہا پھر واپس چلا گیا اور وہ دوبارہ وہاں ٹہلنے لگی۔ شرمندگی اُسے کافی اٹھانی پڑی تھی، اور یہ شرمندگی کا احساس ہی تھا جو اسے باہر لے آیا تھا، کچھ دیر میں چچی آگئیں اور پھر وہ ان کے ساتھ گھر آگئی۔
حیدر نے سارہ کو پہلے صرف ایک بار دیکھا تھا اور تب وہ کافی چھوٹی تھی سو اُس کے لئے اس کا چہرہ نیا ہی تھا، یہی حال سارہ کا تھا وہ حیدر کی بہنوں کو تو اچھی طرح جانتی تھی لیکن حیدر سے اس کی ملاقات کبھی نہیں ہوئی تھی، البتہ ندیمہ چچی سے وہ حیدر کے بارے میں بہت کچھ سنتی رہتی تھی چونکہ تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اس لئے لاڈ لہ تو ہونا ہی تھا اور وہ نا صرف لاڈلہ تھا بلکہ خوبصورت اور شوخ بھی تھا، گریجویشن کرنے کے بعد اس نے باپ کے بزنس کو سنبھال لیا تھا لیکن اس کے باوجود اس میں سنجیدگی نام کی کوئی شے نہیں تھی، وہ ہر ایک سے چھیڑ چھاڑ کرتا ، ہر ایک پر جملے کستا لیکن چونکہ اس کا مذاق کبھی شائستگی کی حد سے باہر نہیں ہوتا تھا اس لیے کسی کو وہ کبھی برا نہیں لگا لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ اس کو کبھی غصہ ہی نہ آیا ہو، وہ غصہ کا بھی اتنا ہی تیز تھا۔ جب غصہ آنا ہوتا تو پھر بس چند لمحے لگتے تھے اوراس کا غصہ تھا بھی طوفانی قسم کا جو چیز اس کے سامنے آتی وہ اٹھا کر پٹخ دیتا، مگر یہ کیفیت بہت دیر تک نہیں رہتی تھی جب غصہ ختم ہوتا تو وہ پھر پہلے کی طرح ہوجاتا۔




Loading

Read Previous

ابھی تو مات باقی ہے — عمیرہ احمد

Read Next

سنی کا خوف — نورالسعد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!