لاحاصل — قسط نمبر ۲

اس نے سانس لیتے ہوئے فضا میں کسی خوشبو کو محسوس کیا۔ آنکھیں بند کر کے گہرے سانس لیتے ہوئے اس نے اس خوشبو کو اپنے اندر اتارنے کی کوشش کی… اس نے خوشبو کے منبع کو ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ وہ ناکام رہی۔ اس نے خوشبو کو شناخت کرنے کی کوشش کی۔ اسے اب بھی کامیابی نہیں ہوئی۔
—–*—–
مریم نے اس واقعہ کے اگلے چند ہفتوں میں اسے کئی بار این سی اے میں دیکھا۔ مگر اس نے ایک بار بھی مریم سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ ہمیشہ کی طرح صوفیہ کے ساتھ ہوتا اور اسے دیکھ کر کترا کر گزر جاتا۔ صوفیہ اس کے ساتھ نہ بھی ہوتی تب بھی اس نے مریم سے کبھی ہیلو ہائے نہیں کی۔ مریم کو لاشعوری طور پر یہ توقع تھی کہ وہ اس سے معذرت کرے گا یا کم از کم ان کے درمیان سلام دعا ضرور ہوگی مگر ذالعید کے رویے نے اسے حیران کیا تھا بلکہ شاید مشتعل بھی۔ وہ اب بھی اسی طرح پیش آ رہا تھا جیسے وہ مریم سے ناواقف تھا۔
ان ہی دنوں کالج میں صوفیہ کے بارے میں یہ خبر گردش کرنے لگی کہ وہ ذالعید کے ساتھ انگیجڈ ہو گئی ہے اور بہت جلد ان دونوں کی شادی ہونے والی ہے۔ مریم نے پہلی بار یہ خبر سننے پر اپنے اندر عجیب سا ڈپریشن محسوس کیا تھا۔ وہ سارا دن اپنے کام پر توجہ نہیں دے سکی۔ ذالعید اور صوفیہ بار بار اس کے سامنے آ رہے تھے۔ وہ اپنے احساسات کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ وہ صوفیہ کو شروع سے ناپسند کرتی تھی۔ مگر پہلی دفعہ اسے صوفیہ سے عجیب طرح کا حسد محسوس ہو رہا تھا۔ یہ تصور کہ ذالعید… اسے تکلیف پہنچا رہا تھا۔ وہ یہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ وہ ذالعید اور صوفیہ کے تعلق پر اس طرح ری ایکٹ کیوں کر رہی تھی۔ وہ اس دن گھر جا کر بھی بہت مضمحل رہی۔
اگلے دن پہلی بار صوفیہ کو دیکھنے پر اسے اس سے نفرت محسوس نہیں ہوئی۔ اسے عجیب سا رشک آیا اس پر۔
”یہ خوش قسمت ہے کہ ذالعید اس سے محبت کرتا ہے اور اس سے شادی کر لے گا۔ اس نے زندگی میں پہلی بار صوفیہ کی خوش قسمتی کو تسلیم کیا۔ پہلی دفعہ اسے کسی معاملہ میں خود سے بہتر اور برتر پایا۔ صوفیہ نے اس خبر کی تردید نہیں کی اور یہ جیسے اس بات کی تصدیق کرنا تھا کہ ان خبروں میں واقعی سچائی ہے مریم ان دنوں ذہنی طور پر بہت اپ سیٹ رہنے لگی تھی۔ ماما جان سے اس کے شکوے بہت زیادہ بڑھ گئے کالج میں وہ اپنے کام میں دلچسپی کھونے لگی۔ گھر پر وہ واپس آنے کے بعد سوتی رہتی یا پھر ذالعید اور صوفیہ کے بارے میںسوچتی رہتی۔
ان ہی دنوں پروفیسر عباس کے ذریعے اسے ایک ہوٹل میں بننے والے نئے جاپانی ریسٹورنٹ میں کچھ کام ملا۔ اسے پیانو فلور کے اردگرد کی دیواروں پر ایک میورل بنانا تھا۔ اس قسم کی ذہنی کیفیت کے ساتھ وہ کبھی یہ کام نہ کرتی مگر اسے ان دنوں پیسوں کی خاصی ضرورت تھی اور پھر یہ صرف کام کرنے کا ہی نہیں اچھا کام کرنے کا موقع تھا۔
ہوٹل کے مینیجر نے اس کی تمام شرائط خاصی خوش دلی سے تسلیم کیں۔ کالج سے فارغ ہونے کے بعد ہوٹل کی گاڑی اسے کالج سے ہوٹل لے جاتی اور پھر شام کو اس کے گھر چھوڑ جاتی۔ ٹرانسپورٹ کی یہ سہولت ان لوگوں نے اسے خود آفر کی تھی۔





مریم کو وہاں کام کرتے دوسرا دن تھا جب پینٹ کرتے ہوئے اس کے ہاتھ تھک گئے وہ برش رکھ کر کچھ دیر کے لیے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی اور تب ہی اس نے اس فلور سے چند میز پرے ایک میز پر ذالعید اور صوفیہ کو بیٹھے دیکھا۔ اسے شرمندگی اور ہتک کا عجیب سا احساس ہوا چند لمحوں کے لیے اس کا دل چاہا کہ وہ وہاں سے غائب ہو جائے مگر پھر وہ اپنا رخ تبدیل کر کے دوبارہ کام کرنے لگی… اس کے سٹروکس میں یک دم بے ربطگی آ گئی تھی۔
اسے احساس ہو رہا تھا کہ وہ اب چند منٹوں سے زیادہ کام نہیں کر سکتی اور پھر اس نے یہی کیا چند منٹوں کے بعد اس نے اپنا تمام سامان پیک کرنا شروع کر دیا انتظامیہ کو مطلع کرنے کے بعد وہ اس دن وہاں سے اسی طرح واپس آ گئی۔
اگلے چند دن اس نے قدرے سکون کے ساتھ کام کیا۔ مگر چھٹے دن اس نے ایک بار پھر ذالعید اور صوفیہ کو اسی ریسٹورنٹ میں دیکھا۔ اس بار ان کی میز اس فلور سے اور بھی قریب تھی۔ اس بار اس نے ان کو مسلسل خود کو دیکھتے پایا وہ دونوں ہنس رہے تھے۔ باتیں کر رہے تھے مریم کو محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اس کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں ایک بار پھر اپنے کام میں اس کی توجہ ختم ہو گئی۔
آج اس کی حالت پہلے سے زیادہ خراب تھی اور شاید اس کے چہرے کے یہ تاثرات ریسپشن پر بیٹھے ہوئے اس شخص سے بھی نہیں چھپے رہے جس کو اس نے اپنے جانے کی اطلاع دیتے ہوئے گاڑی منگوانے کے لیے کہا۔
”آپ کافی پی لیں۔” اس نے مریم کو پیش کش کی۔ مریم نے انکار کر دیا۔ اس کا رونے کو دل چاہ رہا تھا۔
ماما جان کو اس کے چہرے سے اس کے موڈ کا اندازہ ہو گیا۔
”میری طبیعت خراب ہے۔” وہ کچھ اور کہنے کے بجائے سیدھا کمرے میں گئی اور اپنے بستر میں گھس گئی۔ چہرہ بازوؤں میں چھپا کر اس نے بے آواز رونا شروع کر دیا۔ ”کاش میں یہاں سے کسی ایسی جگہ چلی جاؤں۔ جہاں مجھے ذالعید دوبارہ کبھی نظر نہ آئے۔” اس پر ایک بار پھر ڈپریشن کا دورہ پڑا۔
—–*—–
وہ ساری رات سو نہیں پائی۔ ماما جان اپنے بستر پر ہمیشہ کی طرح پرُسکون نیند سو رہی تھیں اور وہ نائٹ بلب کی دھندلی روشنی میں چھت کو گھور رہی تھی۔ ذالعید کے علاوہ اس کے ذہن میں اور کچھ بھی نہیں تھا۔ اسے ذالعید کے کندھے پر رکھا ہوا صوفیہ کا ہاتھ یاد آ رہا تھا اسے صوفیہ پر رشک آ رہا تھا۔
”کچھ لوگ کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں۔ ہر اچھی چیز جیسے ان کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔ وہ نعمتوں میں گھرے ہوئے دنیا میں آتے ہیں اور نعمتوں میں گھرے ہوئے دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ ان کی زندگی میں کسی بھی چیز کے لیے کوئی جدوجہد نہیں ہوتی، جیسے صوفیہ کے لیے ذالعید ہے۔” سوچتے سوچتے اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔
زندگی میں پہلی بار ہر چیز سے اس کا دل اچاٹ ہو رہا تھا۔ حتیٰ کہ اپنے کام سے بھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ صبح کالج نہ جائے وہ دوبارہ کبھی کالج نہ جائے نہ کبھی رنگ اور برش کو ہاتھ لگائے۔
”آخر فرق ہی کیا پڑے گا، دنیا میں میرے ہونے یا نہ ہونے سے۔ میں پینٹنگ کرنا چھوڑ دوں گی تو کون سی قیامت آ جائے گی۔” وہ بستر پر چت لیٹی بے آواز روتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ ”زندگی صرف پینٹنگ ہی تو نہیں ہوتی۔” وہ اپنی انگلیوں کی پوروں سے آنکھیں پونچھ رہی تھی۔
رات گزرتی جا رہی تھی اور وہ اسی طرح بے آواز روتی رہی۔ جب رات کا پچھلا پہر شروع ہو گیا تو اس نے ماما جان کو اپنے بستر سے اٹھتے ہوئے دیکھا۔ مریم نے غیر محسوس انداز میں اپنی کلائی آنکھوں پر رکھ لی وہ جانتی تھی۔ اب تھوڑی دیر میں ماما جان تہجد پڑھنے لگیں گی۔ ماما جان بے آواز انداز میں کمرے میں روشنی کیے بغیر کمرے سے باہر چلی گئیں۔ مریم نے کروٹ بدل کر دیوار کی طرف رخ کر لیا۔ ماما جان کچھ دیر بعد دوبارہ کمرے میں داخل ہوئیں۔ جب مریم کو یقین ہو گیا کہ وہ تہجد پڑھنا شروع کر چکی ہیں تو اس نے ایک بار پھر اپنا رخ ان کی طرف کر لیا۔ نیم تاریکی میں سفید چادر میں خود کو سر سے پاؤں تک ڈھانپے وہ بڑے مگن سے انداز میں رکوع کی حالت میں تھیں۔ مریم بہتے آنسوؤں کے ساتھ انہیں دیکھتی رہی۔
”کیا ماما جان کو اندازہ ہے کہ میں اپنی زندگی کے کس تکلیف دہ دور سے گزر رہی ہوں؟ مگر یہ کیسے جان سکتی ہیں۔ ان کی زندگی نماز سے شروع ہو کر نماز پر ختم ہو جاتی ہے۔ ساری دنیا کے لیے ایثار کا پیکر ہیں یہ۔ بس میرے لیے یہ کچھ بھی نہیں کرنا چاہتیں۔
اگر یہ چند سال پہلے مجھے انگلینڈ بھجوا دیتیں تو میرا سامنا کبھی ذالعید سے نہ ہوتا اور میں اس اذیت سے دوچار نہ ہوتی۔” اس کی آنسوؤں کی رفتار میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
”مجھے لگتا ہے ماما جان نے کبھی میرے لیے دعا نہیں کی… اگر انہوں نے ایسا کیا ہوتا تو میں آج اس تکلیف سے کیوں گزر رہی ہوتی۔ مگر پھر یہ اتنی عبادت کیوں کرتی ہیں؟ اتنی لمبی دعائیں کس کے لیے مانگتی ہیں؟ کم از کم میری زندگی میں تو ان کی دعائیں کوئی آسانی نہیں لا رہیں… اور کیا دعا میں اتنی تاثیر ہوتی ہے کہ…”
اس کا ڈپریشن بڑھتا جا رہا تھا۔ میں نے بھی تو ذالعید کے لیے بہت دعا کی ہے۔ میں نے بھی تو… کیا فرق پڑا ہے؟ کیا ذالعید کو مجھ سے محبت ہو سکی؟… کیا وہ مجھے مل گیا؟… ساری بات قسمت کی ہوتی ہے۔ یہ قسمت ہے، عقل نہیں جو ہماری زندگیوں پر حکمرانی کرتی ہے۔”
ماما جان اب دعا مانگ رہی تھیں۔ وہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ ان کے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو دیکھتی رہی پھر پتا نہیں اس کے دل میں کیا آیا۔ وہ بے اختیار اپنے بستر سے اٹھ کر ماما جان کے پاس فرش پر بیٹھ گئی۔ وہ آنکھیں بند کیے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ رہی تھیں۔
مریم نے ان کے ہاتھ پکڑ لیے۔ ماما جان نے حیران ہو کر آنکھیں کھول دیں۔ نیم تاریکی میں بھی وہ مریم کے چہرے پر بہتے ہوئے آنسو دیکھ سکتی تھیں۔
”کیا ہوا ماما جان! اگر اللہ سے صرف ایک چیز چاہیے ہو اور وہ بھی نہ ملتی ہو؟” وہ ان کا ہاتھ پکڑے نم آنکھوں سے ان سے پوچھ رہی تھی۔ ماما جان کچھ بول نہیں سکیں۔ مریم کیا کہہ رہی تھی۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔
”میں نے اللہ سے صرف ایک چیز مانگی ہے اور وہ مجھے وہ بھی نہیں دے رہا… آپ بتائیے ماما جان! میری دعا میں اثر نہیں ہے یا پھر میں بدقسمت ہوں۔”
”تم بدقسمت نہیں ہو، تم نے جو مانگا ہے اس کے نہ ملنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمہاری دعا میں اثر نہیں ہے۔ ارشاد رسولۖ ہے زمین پر جو مسلمان اللہ تعالیٰ سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ یا قطع رحمی کی بات نہ ہو تو اللہ تعالیٰ یا تو اس کو وہی عطا فرما دیتا ہے جو اس نے مانگا ہے یا اس کی کوئی تکلیف اس دعا کے بقدر رفع کر دیتا ہے یا اس کے لیے اس دعا کے برابر اجر کا ذخیرہ کر دیتا ہے۔”
ماما جان نے اپنی پوروں سے اس کی آنکھوں کو پونچھتے ہوئے کہا۔
”آپ اللہ سے کہیں۔ مجھے ذالعید دے دے اور اگر وہ مجھے ذالعید نہیں دیتا تو وہ مجھے کچھ بھی نہ دے۔” ماما جان ہل نہیں سکیں۔ وہ ان کی گود میں منہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
”ماما جان! اللہ اس طرح کیوں کرتا ہے چیزیں کیوں نہیں دے دیتا۔ اس طرح کیوں ترساتا ہے۔” وہ اس طرح منہ چھپائے بول رہی تھی۔
”آپ دیکھ لینا۔ میں اب کالج نہیں جاؤں گی۔ صبح میں اپنی ساری چیزوں کو آگ لگا دوں گی یا پھر اٹھا کر گلی میں پھینک دوں گی۔”
”کیوں مریم…! کیوں کرو گی تم ایسا؟” انہوں نے اس کا چہرہ اپنی طرف کیا۔
”میرا دل نہیں لگتا… ماما جان…! میرا دل اب کسی بھی چیز میں نہیں لگتا۔ مجھے آرٹسٹ نہیں بننا مجھے کوئی بڑا آرٹسٹ نہیں بننا مجھے تو اس کے علاوہ کوئی اور چیز اچھی ہی نہیں لگتی۔ وہ ہر وقت میرے سامنے رہتا ہے ماما جان۔” وہ ہچکیاں لیتے ہوئے بے بسی سے کہہ رہی تھی۔ وہ بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہیں۔
”میں برش اٹھاتی ہوں تو مجھے لگتا ہے میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا ہے۔ میں پے لٹ پر رنگ ڈالتی ہوں۔ وہ وہاں آ جاتا ہے۔ میں کینوس پر اسٹروک لگاتی ہوں، وہ وہاں بھی موجود ہوتا ہے اور ماما جان! اس سے زیادہ تکلیف دہ چیز کوئی اور ہو سکتی ہے کہ جس سے آپ محبت کرتے ہیں وہ آپ کو دیکھتا تک نہ ہو۔ آپ کے علاوہ اس کو سب نظر آتے ہوں۔ سب کا خیال ہوا سے۔ وہ سب سے بات کرتا ہو… بس آپ سے بات نہ کرے۔
ماما جان! آپ نے کبھی کسی سے محبت نہیں کی نا، اس لیے آپ یہ سب نہیں سمجھ سکتیں۔” ماما جان کی آنکھوں میں نمی جھلکنے لگی۔
وہ ایک بار پھر ان کی گود میں منہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
”جس سے محبت کریں اس کو پا نہ سکیں تو پھر دنیا میں کیا باقی رہ جاتا ہے۔” ماما جان نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ وہ کہہ رہی تھی۔
”ماما جان! انسان خالی نہیں ہو جاتا اندر سے؟ خالی ہو جانے کے بعد کیسے رہتے ہیں؟”
”مریم تمہارے سامنے تمہارا کیریر ہے۔ تمہیں اپنی فیلڈ میں بہت آگے جانا ہے۔” وہ اس کا دھیان بٹانا چاہتی تھیں، وہ اس کی تکلیف کم کرنا چاہتی تھیں مگر شاید یہ ممکن نہیں تھا۔
”نہیں ماما جان! اب میرا کوئی کیریر نہیں ہے۔ سب کچھ دھواں بن کر اڑ گیا ہے، پیر رکھنے کے لیے زمین نہ ہو اور میں گھر بنانے کا سوچوں… وہ شخص میرا حاصل ہے ماما جان…! آپ اللہ سے کہیں وہ مجھے ذالعید دے دے۔ پھر چاہے جنت بھی نہ دے، پلیز ماما جان! آپ اس سے کہیں کہ وہ مجھے ذالعید دے دے۔ آپ تو اتنی عبادت کرتی ہیں اپنی اولاد کے لیے کچھ نہیں مانگ سکتیں۔ اللہ کو بتائیں کہ آپ صرف انسان نہیں ماں بھی ہیں۔”
وہ اب اٹھ کر بیٹھ گئی تھی اور ایک بار پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر جھنجھوڑ رہی تھی۔ ماما جان بالکل خاموش بیٹھی اسے دیکھ رہی تھیں مگر ان کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ وہ بچوں کی طرح روتی ہوئی اٹھ کر اپنے بستر پر چلی گئی۔ کچھ دیر بعد اس نے ماما جان کو کمرے سے باہر نکلتے دیکھا تھا۔ وہ واپس کب آئیں اسے یاد نہیں۔
وہ ذہنی اور جذباتی طور پر بالکل تھک کر چور ہو چکی تھی غنودگی اسے اپنی گرفت میں لینے لگی اس کی سسکیاں رک گئیں۔ تھکن اس کے پورے وجود میں سرایت کر رہی تھی۔ اس کے سوجے ہوئے پپوٹے اور بھی بوجھل ہو رہے تھے۔ نیند کی آغوش میں جاتے ہوئے اس نے بہت دور کسی کی سسکیاں سنی تھیں۔ پھر اس کا ذہن تاریکی میں ڈوب گیا۔
—–*—–
اگلے دن صبح وہ ماما جان کے اصرار پر کام مکمل کرنے کے لیے ہوٹل چلی گئی۔ وہ اب جلد از جلد اس کام سے چھٹکارا حاصل کر لینا چاہتی تھی۔
شام کو ساڑھے سات بجے کے قریب وہ اس کام سے فارغ ہو گئی۔ مینیجر کو اپنا بنایا میورل دکھانے کے بعد وہ ہوٹل کی گاڑی میں آ کر بیٹھی تو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر تحفے کی طرح پیک کی ہوئی دو پینٹنگز پڑی تھیں۔ اس نے کچھ حیرت سے انہیں دیکھا مگر خاموش رہی۔ ڈرائیور نے گاڑی چلاتے ہی اس سے کہا۔ ”ذالعید صاحب نے یہ دو تصویریں آپ کے لیے رکھوائی ہیں۔”
وہ اس کے منہ سے ذالعید کا نام سن کر حیران رہ گئی۔
”کون ذالعید؟” وہ حیران تھی کہ ڈرائیور اسے کیسے جانتا تھا۔
”اس ہوٹل کے مالک کے بیٹے ہیں۔” وہ گم صم بیٹھی رہی۔ پروفیسر عباس نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ ایک بار پھر ذالعید کے کہنے پر… ڈرائیور نے اپنی بات جاری رکھی۔
”انہوں نے کہا تھا کہ میں یہ تصویریں آپ کو دے دوں اور آپ سے کہوں کہ آپ انہیں کھول کر ضرور دیکھیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ آپ نے اندر فلور پر بہت اچھا کام کیا ہے اور انہوں نے آپ کا شکریہ ادا کیا ہے۔”
مریم نے اسی گم صم انداز میں ایک پینٹنگ اٹھا کر اس پر سے کاغذ اتار دیا اور پھر وہ دم بخود رہ گئی۔ اس نے بڑی تیزی سے دوسری پینٹنگ سے بھی کاغذ اتار دیا۔ اس کے چہرے پر اب عجیب سی چمک تھی۔ خواہش اور ایمان وہ دونوں اس کی اپنی تصویریں تھیں جنہیں اس نے ڈیڑھ سال پہلے بنایا تھا۔ ان دنوں وہ بیکن ہاؤس کی ایک بچی کو پینٹنگ سکھانے اس کے گھر جایا کرتی تھی اور پیسوں کی ضرورت پڑنے پر اس نے اپنی وہ دونوں پینٹنگز اسی بچی کی ماں کو فروخت کر دی تھیں۔
ان پینٹنگز کو فروخت کرنے پر وہ بڑی خوش نہیں تھی خاص طور پر اس وجہ سے کیونکہ وہ بہت اچھی تھیں مگر اسے وہ بہت سستی بیچنی پڑیں اور اب وہ دونوں دوبارہ اس کے پاس آ گئی تھیں۔ وہ حیران ہو رہی تھی کہ ذالعید کے پاس وہ دونوں پینٹنگز کیسے آئیں اور اس نے وہ دونوں مریم کو کیوں دی تھیں۔
”آپ ذالعید سے کہیں کہ میں اس سے ملنا چاہتی ہوں۔” اس نے تصویروں پر دوبارہ کاغذ چڑھاتے ہوئے کہا۔
گھر آ کر اس نے بڑے پرُجوش انداز میں ماما جان کو وہ دونوں تصویریں دکھائیں۔ ماما جان مریم کے چمکتے ہوئے چہرے کو دیکھتی رہیں۔ صبح اور شام والی مریم میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
”اب تم ان پینٹنگز کو کیا کرو گی؟” ماما جان نے اس سے پوچھا۔
”میں انہیں ذالعید کو واپس دینا چاہتی ہوں۔” اس نے کھانا کھاتے ہوئے انہیں بتایا۔
—–*—–




Loading

Read Previous

لاحاصل — قسط نمبر ۱

Read Next

لاحاصل — قسط نمبر ۳ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!