شریکِ حیات قسط ۸
باب ہشتم
وہی ان ہونی جو ہونی سے ذرا پہلے ہوجاتی ہے۔
اور پھر صورت حال آپ کے سامنے الٹے تختے کی طرح آجاتی ہے، بچھ جاتی ہے، نہیں پتا چلتا کہ دھرتی اُلٹ گئی یا پھر آسمان بدل گیا یا پھر چاند سو گیا۔
روشنی بجھ گئی ہے رات کی یا پھر سویرا نہیں ہوا۔ دھرتی گول گھوم گئی ہے یا پھر مرکز نہیں رہا۔
سب پلٹ جاتا ہے۔کھیل پلٹ جاتا ہے۔تختہ الٹ جاتا ہے۔چابی گھما دی جاتی ہے۔
چابی ہی گھما دی گئی تھی، اسٹیج پر جیسے کٹھ پتیلوں کے کردار تیزی سے بدلتے گئے۔
جو جس کا اصل کردار ہو اسے سونپا گیا۔ تیزی سے جیسے چیزوں کا ملمع اُترنے لگا یا پھر ارادوں کا روپ بدل گیا۔
جو بھی ہوا، حیات گردش میں آگئی۔
ایک دن کی شام نے بس لمحے کا کھیل کھیلا تھا۔
سواری الٹی، سمجھو زندگی پلٹ گئی، ہاتھ سے اسٹیرئنگ چھوٹا، مانو اختیارات گئے سفر کے، ایک دھکا لگا۔
حادثہ، جو جان دار کو بے جان کردے۔
حادثہ، جو چلنے والے کو معذور کر دے۔
حادثہ، وہی جس سے پناہ مانگی جاتی ہے۔
حادثہ، جسے عام زبان میں ان ہونی کہا جاتا ہے۔
اور سارنگ کے ساتھ وہی انہونی ہوئی تھی جس دن وہ سواری سے سڑک پر نہ آسکا۔
جس دن اس سے اختیار چھوٹا۔
جس دن معمولی سی بے احتیاطی نے اسے کچل دیا اور اس کے ساتھ وہ ہوگیا۔
جسے عام فہم زبان میں لوگ بُرا کہتے ہیں۔اس کے ساتھ برا ہوگیا۔
ایک روڈ ایکسڈنٹ نے زندگی کی شکل بگاڑ دی، وہ بدل نہ سکا۔
کہتے ہیں تعلقات پنیری کی طرح ہوتے ہیں۔ پودا لگاتے ہیں، بیج اُگاتے ہیں، پھر انہیں پانی آپس کا پیار دیتا ہے۔ خوب صورت محبت کرتی ہے اور جڑ بھروسہ مضبوط کرتی ہے۔
وہ سوچتی رہی ہم نے شاید پنیری ہی لگائی تھی اور ہم اسے پروان نہ چڑھا سکے۔
ایک تعلق جس کی بنیاد خاندانی دباؤ تھا۔
ایک تعلق جس کی بنیاد کمزوری تھی، مجبوری تھی اور اس تعلق کو دیکھا جائے تو صرف مجبوری اور کمزوری نے ہی جوڑے رکھا تھا۔
جب کمزوری اور مجبوری ختم ہوجاتی ہے تب تعلق بے جوڑ سا بے معنی سا دکھنے لگتا ہے۔
جب پیار اور بھروسے کی بات آتی ہے تو سب کچھ بھر بھری مٹی کی طرح ڈھے جاتا ہے۔
صرف اور صرف سوال اٹھتے ہیں۔
اور وہ سوال بے جواب ہی مر جاتے یا دبا دیے جاتے ہیں۔ تعلق پھر اسی نہج پر آکھڑا تھا، یعنی جہاں سے دنیائیں دو ہوجاتی ہیں۔ جہاں سے زنجیر کاہُک کھلنے لگتا ہے۔ احساس کی زنجیر ٹوٹنے لگتی ہے اور بکھرنے تک کا وقفہ ہوتا ہے۔
اس نے پھر سے اسی ہمت کو جمع کرکے کہا تھا۔ ”سارنگ اب وقت آگیا ہے شاید، مجھے اب چلے جانا چاہیے۔ ایک وہ وقت تھا جب آپ پر فرائض تھے۔ آپ نے مکمل کیے بہادری سے، میں اپنی باری کھیلے بغیر ہی جارہی تھی۔مجھے تقدیر نے پھر روک دیا۔اس بار میرا امتحان تھا۔میں پاس ہوئی یا فیل، یہ آپ جانتے ہیںیا میرا اللہ جانتا ہے،بس میں بھاگی نہیں میدان چھوڑ کر،بس میں نے رستہ پکڑ لیا، میں لوٹ گئی۔میرے لیے انہیں رستوں کے دروازے اب دوبارہ کھل گئے ہیں،مجھے بلاتے ہیں، شاید مجھے اب جانا ہے۔ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔آپ دوبارہ اپنے مقام پر آگئے ہیں۔سب کچھ وہی ہے سارنگ،تکلیف دہ وقت گزر چکا ہے۔ مشکل ہی تھا مگر گزر گیا۔ وہی گھر، کھڑکی، دروازہ، وہی رستہ، وہی لوگ۔” اسے لگا چابی گھومنا رُک چکی ہے۔ وہ شل ہوکر تھکن سے گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئی تھی۔
”میں تھک چکی ہوں۔” یہ دبی آواز میں کہا گیا جملہ تھا جو سارنگ کے کانوں نے سن لیا اور اس کی آنکھ کے گوشے میں، ایک بے نام سا رشک،ایک آنسو جو دل کی خاموشی ٹوٹنے پر آنکھوں میں آجاتا ہے۔ وہی آنسو بے وجہ سا یا بہت وجہ سا پل، لمحے، بھروسے اور محبتیں، دوست اور لوگ؟ سب سوال۔
اس نے سوچا شیبا سے جاکر پوچھے یا پھر سندھیا سے،مگر وہ پہلا سوال خود سے کر بیٹھا تھا۔اسی لیے خطا کھا گیا۔
پتّا ایک بار اس کے سامنے پھینکا گیا تھا۔چال اسے چلنی تھی۔جوابی پتّا اسے پھینکنا تھا۔
گیند قسمت نے ایک بار پھر اس کی جیب میں ڈال دی تھی۔
پھینکنے پر چھکّا ہوتا تو بھی مار پڑتی۔
آؤٹ کرتا تو جیت اس کی۔ گیند ایک ہی تھی اور باری آخری۔ سارا کھیل بدل جانا تھا۔ میدان منتظر تھا۔
٭…٭…٭