ہاں میں گواہ ہوں ۔۔۔ سلمان بشیر

“چلو مردہ باد کا نعرہ نہیں لگانا تو مت لگاو۔۔۔۔لیکن تمہیں یہ ضرور کہنا پڑے گا کہ ” ہندوستان کی جے ہو۔۔”۔۔۔”اگر یہ بھی نا بولا تو مرنے کے لیے تیار رہنا۔۔۔۔
“میں تھوکتا ہوں تجھ پہ اور تیرے ارادے پر۔۔ میں تھوکتا ہوں تیرے جیسے کمزور پر جو ایک قیدی سے ایک بات نہیں بلوا پایا۔۔ میں تھوکتا ہوں تیرے ہندوستان پر۔۔ ہندوستان۔۔ مردہ باد۔۔ ہندوستان۔۔۔مردہ باد۔۔۔۔”
دلاور خان انتہائی لاغر ہونے کے باوجود بہت چیخ چیخ کر اس فوجی پر لعنت بھیج رہا تھا اور انڈیا میں ہی کھڑے ہو کر انڈیا کے مردہ باد ہونے کا نعرہ لگا رہا تھا۔۔۔۔۔
میں اس کی باتیں سن کر ڈر گیا۔۔۔۔۔
کیا وہ پاگل تھا جو اپنی ہی جان کا دشمن بنا بیٹھا تھا۔۔۔۔۔؟
اگر وہ ہندوستان کا نعرہ لگا دیتا جیسے باقی قیدی آج تک لگاتے آ رہے تھے تو اس پر سے ظلم و ستم کو ہٹا لیا جاتا۔۔۔۔
مگر وہ پاگل نہیں تھا۔۔۔۔وہ ایک جلالی شخصیت کا حامل محب وطن تھا۔۔۔۔
اس کے الفاظ سنتے ہی دونوں فوجی اس پر بھوکے کتے کی طرح ٹوٹ پڑے اور اسکی جو حالت کی وہ بتانے لائق نہیں ہے۔۔۔۔
ہر بار اسکی زبان اپنے وطن کے حق میں نکلی۔۔۔۔ہر بار اس نے اپنے وطن کی حرمت کو قائم رکھنے کے لیے جسم پر ہزاروں زخم سہے۔۔۔۔
میں کبھی کبھی سوچتا کہ وہ اتنے ظلم سہنے کے بعد بھی زندہ کیسے تھا۔۔۔اسے تو مر جانا چاہیئے تھا۔۔۔۔مگر شاید اسے مرنے میں وقت باقی تھا۔۔۔۔
چار دن تک اس سے ہلا بھی نہیں گیا۔۔۔۔ میں سب سے چوری چھپے اسکے لیے گرم دودھ اور مکھن لے آتا۔۔۔۔
“ایک دشمن دوسرے دشمن کے زخموں پر مرحم رکھ رہا ہے۔۔۔۔کیا خدا کی قدرت ہے۔۔۔”
اس نے دودھ پینے کے بعد میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تو میں نے کہا دلاور! دشمنی سرحدوں کے بیچ ہو سکتی ہے۔۔۔رسموں و رواج کے بیچ ہو سکتی مگر دل کے بیچ نہیں ہو سکتی۔۔۔۔۔

ہاں میں دشمن ہوں تمہارا۔۔۔۔مگر مجھ سے زیادہ تم خود اپنی جان کے دشمن ہو۔۔۔۔۔ایک نعرہ لگانے سے اگر تمہاری جان بچ سکتی ہے تو کیوں نہیں بچاتے تم خود کو۔۔۔؟
میں نے تیکھے انداز میں دلاور سے کہا تو وہ ٹوٹی ہڈیوں کا درد سہتے ہوئے بھی مسکرا دیا اور گویا ہوا :
” حوالدار صاحب۔۔۔۔بات چھوٹی سی ہے اگر آپ سمجھ سکو تو۔۔۔۔”
” کیا کوئی بچہ اپنی ماں کو گالی دے سکتا ہے؟”
دلاور کی بات سن کر میرے الفاظ ہی ختم ہو گئے تھے۔۔۔۔وہ ایک جملے میں ہی مجھے چاروں شانے چت کر گیا تھا۔۔۔۔۔ واقعی اسکا وطن اسکی ماں کی طرح تھا۔۔۔۔جس طرح ماں اپنے بچے کو پالتی ہے اسی طرح وطن بھی اپنے لوگوں کو بچوں کی طرح مقام دیتا ہے نام دیتا ہے پہچان دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر عزت دیتا ہے۔۔۔۔ جب ہم اپنی ماں کو گالی نہیں دے سکتے تو وہ کیسے دے سکتا تھا۔۔۔۔۔
اس دن مجھے دلاور پہ بہت پیار آیا۔۔۔۔دشمن ہو کر بھی وہ میرے سجن کی طرح لگ رہا تھا۔۔۔۔اسکی ہمت دیکھ کر اس پہ اپنی جان قربان کر دینے کا دل کرتا تھا۔۔۔۔۔
اگلی صبح بہت ہی بھیانک ثابت ہوئی۔۔۔۔ صبح سویرے ہی مجھے دلاور نے آواز دے کر اپنے پاس بلایا ۔۔۔
میں اسکے پاس جا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ اس نے اپنے گلے سے اللہ کے نام کا لاکٹ اتار کر میری ہتھیلی پہ رکھا اور بولا حوالدار صاحب گواہ رہنا کہ یہ دلاور اپنے وطن کی حرمت پہ ہنستے ہنستے قربان ہو گیا۔۔۔۔گواہ رہنا کہ دلاور کی زبان سے ہر بار اس کے وطن کی شان بیان ہوئی ہے۔۔۔۔گواہ رہنا کہ دلاور کا دشمن کچھ نہیں بگاڑ سکے۔۔۔۔گواہ رہنا کہ دلاور کے پاس اگر ہزاروں زندگیاں بھی ہوتیں تو وہ اپنے وطن کی خاطر ہنستے ہنستے قربان کر دیتا۔۔۔۔۔گواہ رہنا کہ دلاور شان سے مرا ہے۔۔۔گواہ رہنا۔۔۔۔گواہ رہنا حوالدار صاحب۔۔۔”
اسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے مگر ہونٹوں پر مسکان اور چہرے پر سکون ہی سکون تھا۔۔ اس نے اپنے دشمن کو گواہ بنایا تا کہ روز محشر اسکا دشمن اسکے حق میں بول سکے۔۔۔۔۔واہ۔۔۔کیا یقین اور بھروسہ تھا اسکا۔۔۔۔۔
کچھ دیر کے بعد ایک فوجیوں کا دستہ وہاں آیا۔۔۔۔اور جتنے بھی مسلم قیدی تھے انکو جیل سے باہر نکال کر کھلے میدان میں لے آئے۔۔۔۔۔سب کو ایک لائن میں کھڑا کیا اور کہا کہ سب بھاگو۔۔۔
سبھی قیدیوں نے جان بچانے کی آخری کوشش کی اور بھاگنے لگے۔ مگر دلاور وہیں کھڑا رہا۔
بھاگتے قیدیوں پر گولیوں کی برسات کر دی گئی اور وہ سبھی وہیں شہید ہو گئے ۔۔۔۔
“تم کیوں کھڑے ہو ؟ بھاگو۔۔۔۔!”
ایک فوجی جوان نے دھاڑتے ہوئے کہا تو دلاور مضبوط لہجے میں بولا:
” دلاور کو موت کا ڈر نہیں ہے ۔۔۔۔گولی مارنی ہے تو سیدھی سینے پر مار اور وہ بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر۔۔۔۔۔۔”
” تجھے تو آج میں مزہ چکھاتا ہوں۔۔۔۔” ایک فوجی غصے سے آگے بڑھا اور ایک گولی دلاور کے پاوں میں مار دی۔۔۔۔
دلاور درد کی شدت سے چیخ پڑا اور نیچے گر گیا۔۔۔۔۔
” ۔۔۔۔۔بول ہندوستان کی جے ہو۔۔۔! بول پاکستان مردہ باد۔۔۔۔!”
اگر جان پیاری ہے تو بول دے ورنہ مرنے کے لیے تیار ہو جا۔۔۔۔
دلاور درد کی شدت کے باوجود زور سے ہنسا۔۔۔۔۔اس وقت مجھے ایسے لگا جیسے بھگوان ہم سب پر ہنس رہا ہو۔۔۔۔
“پاکستان زندہ باد۔۔۔۔پاکستان زندہ باد۔۔۔۔۔پاکستان زندہ باد۔۔۔۔۔”
دفعتا ایک گولی چلی جو سیدھی دلاور کے سینے کے آر پار ہو گئی۔میں اس وقت وہیں کھڑا تھا باقی فوجیوں کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔دم توڑنے سے پہلے اس نے میری طرف دیکھا اور بولا گواہ رہنا۔۔۔۔۔ اور پھر کلمہ پاک پڑھ ہی رہا تھا کہ باقی فوجیوں نے بھی گولیاں چلا کر دلاور کا سینہ بارود سے بھر دیا۔۔۔۔۔مرتے وقت اسکی آنکھیں کھلی تھیں اور اسکی نگاہوں کا مرکز صرف میں تھا۔۔۔۔مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے دلاور کی آنکھیں مجھے یہ کہہ رہی ہوں کہ حوالدار صاحب گواہ رہنا کہ میں شان سے مرا تھا۔۔۔۔۔”
اس دن مجھے ایسے لگا جیسے میرا سگا بھائی مر گیا ہو۔۔۔۔۔۔
اس سے اگلے دن ہی میں نے فوج کی نوکری چھوڑ دی اور یہاں حیدرآباد چلا آیا۔۔۔۔
بیٹا یہ تھی ان الفاظ کے پیچھے چھپی کہانی۔۔۔۔۔
میں گواہ ہوں کہ دلاور خان ایک بہادر انسان تھا جس نے اپنے وطن کی خاطر اپنی جان قربان کر دی۔۔۔۔
ہاں ! میں گواہ ہوں۔۔۔۔۔۔کہ وہ شان سے مرا تھا۔۔۔۔۔۔
بابو جی کہانی سنا کر خاموش ہو گئے۔۔ انکی آنکھوں سے آنسو چھم چھم برس رہے تھے۔۔ دلاور خان کا سن کر بنا دیکھے ہی مجھے اس سے لگاو ہو گیا۔۔۔پھر کیسے اس سے محبت ہو گئی پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔۔۔
بابو جی نے وہ لاکٹ میرے حوالے کر دیا اور بولے؛
” بیٹا ! گواہ رہنا کہ تیرا باپ دلاور کی مرتے دم تک عزت کرتا رہا ۔۔۔گواہ رہنا کہ تیرے باپ نے اسے اپنا سگا بھائی سمجھا۔۔۔۔گواہ رہنا بیٹا!”
بابو جی اس رات بہت روئے۔۔۔میں بھی ان کے ساتھ روتا رہا۔۔۔۔۔دلاور نے جو کیا وہ ہر کوئی نہیں کر سکتا۔۔۔۔اگلی صبح بابو جی کا دہانت ہو گیا۔۔۔!
٭…٭…٭
میں بستر سے نیچے اترا اور برآمدے میں آ گیا۔۔۔۔بارش تھم چکی تھی۔۔۔۔
میں نے سچے دل کے ساتھ بھگوان سے دلاور کے لیے دعا کی اور بولا؛
” ہاں ! میں گواہ ہوں۔۔۔کہ دلاور خان شان سے مرا ہے۔۔۔”
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

آدھی روٹی — محمد طاہر رفیق

Read Next

اچانک — عائشہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!