چنبیلی کے پھول6 :قسط نمبر


وہ کیا کہتی، ہر جواب بے حد مکمل تھا۔ جانتی تو وہ اسے پہلے بھی تھی مگر یہ رشتے کا تقاضا تھا کہ ایک دوسرے سے سچ بولا جائے وہ خاموش بیٹھی رہی۔
وہ ذرا قریب آیا، پھر اس نے آہستگی سے اس کا ہاتھ تھام لیا، وہ ششدر رہ گئی۔
اس کے ہاتھ کی گرفت نرم مگر پرجوش تھی، اس میں جدت تھی، جذبات تھے، رانیہ نے اپنا ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی مگر گرفت مضبوط ہو گئی۔
”آپ نے اتنی مہنگی رِنگ کیوں بنوا لی؟ اتنے اسراف کی کیا ضرورت تھی؟”
اس نے گڑبڑا کر کہا۔
وہ دلنشین انداز میں مسکرایا۔
”محبت میں تو لوگوں نے تخت و تاج چھوڑ دیے، یہ تو پھر ایک چھوٹی سی رِنگ ہے، تاج سونے کا تھا سوچا انگوٹھی تو ہیرے کی ہونی چاہیے۔ یہ اسراف نہیں ایک نفسیاتی مریض کا تحفہ ہے۔”
وہ شگفتہ انداز میں بولا۔ اس کی نظروں میں وارفتگی تھی، والہانہ پن تھا، وہ اس کی آنکھوں میں زیادہ دیر دیکھ نہ سکی۔
وہ جواب میں کچھ نہ کہہ سکی۔ اس نے وہاں اس کے مقابل بیٹھے ہوئے اپنے دل کی کیفیات کو بدلتے ہوئے محسوس کیا۔
٭…٭…٭
رانیہ کے گھر میں شیراز کی حیثیت اب بدل چکی تھی۔ اب تو اس کی خاطر تواضع بھی ہوئی اور چائے پانی کا بھی پوچھا جاتا۔ اب تو یہ حال تھا کہ وہ وہاں سے اٹھنا چاہتا تو کوئی اسے اٹھنے نہ دیتا۔
سارے گھر والے اسے گھیر کر بیٹھے تھے اور اس کے علم سے مستفید ہونا چاہتے تھے۔
وہ اب اس کھیل سے تنگ آگیا تھا اور جھوٹ بول بول کر تھک چکا تھا مگر مجبوری تھی۔
”میاں! کچھ ہمارے بارے میں بھی بتائو!”
جیمو ماموں نے اصرار کیا۔
”آپ کی زندگی میں عنقریب بڑی خوشگوار تبدیلی آنے والی ہے۔”
اس نے چونکائے ہوئے سے انداز میں کہا۔
سب لوگ یہ سن کر ٹھٹھک گئے۔
”کیا ان کی پنشن بڑھنے والی ہے؟”
ثمن نے فوراً پوچھا۔ ان کی زندگی میں ممکنہ خوشگوار تبدیلی یہی ہو سکتی تھی۔
”وہ بھی بڑھ جائے گی مگر بجٹ کے بعد۔”
اس نے اطمینان سے کہا۔
جیمو ماموں! آپ نے دوسری شادی کیوں نہیں کی؟”
اب وہ ان سے دوستانہ انداز میں پوچھ رہا تھا۔
”یہ اپنی شادی کے کر پر شرما جاتے ہیں۔” ثمن نے شرارت سے کہا۔
جیمو ماموں کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔
”مگر آپ کے ہاتھ میں تو دوسری شادی کی لکیر ہے۔”
اس نے ان کا ہاتھ کسی ماہر پامسٹ کی طرح بے حد غور سے دیکھتے ہوئے انکشاف کیا۔
”کیا ان کی دوسری شادی ہونے والی ہے؟” ایک ساتھ کئی آوازیں ابھریں۔
”جی بالکل۔”
وہ بڑے یقین سے بولا۔
”کیا کہہ رہے ہو میاں! اس عمر میں اب کیا دولہا بنوں گا!”
ماموں جھینپ گئے۔
”اس عمر میں بھی لوگ خوشی خوشی دولہا بن جاتے ہیں اور سہرا سجائے گھوڑے پر بھی بیٹھ جاتے ہیں۔”
وہ شوخی سے بولا۔
ماموں کے چہرے کا رنگ ہی اور ہو گیا۔
”دوسروں کو خوش کرنے کا ہنر جانتے ہو میاں۔”
وہ جھینپی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ بولے۔
”کیا آپ اپنی شادی کے ذکر سے خوش ہوتے ہیں جیمو ماموں!”
اس نے شرارت سے کہا۔ جیمو ماموں بے ساختہ ہنس پڑے۔
”اب بھانجیوں کی شادی کی تیاریاں کروں گا یا اپنی شادی کروں گا۔”
انہوں نے مسکرا کر کہا۔
”سب کی شادیاں ایک ساتھ بھی تو ہو سکتی ہیں۔”
اس نے اپنی طرف سے پتے کی بات کی۔
”کب ہو رہی ہے ان کی شادی؟”
عنایا پکوڑوں کی پلیٹ اور چٹنی کا پیالہ اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولی۔
”بہت جلد!”
اس نے وثوق سے کہا۔
اردگرد قہقہے گونجنے لگے۔
جیمو ماموں مسکرا مسکرا کر یہ باتیں سن رہے تھے۔
”آپ کی شادی پر سارا کام میں خود کروں گا۔” اس نے اپنی خدمات پیش کیں۔
”کون ہو گی وہ خوش نصیب خاتون؟”
ثمن نے اشتیاق سے پوچھا۔
”فکر نہ کریں۔ بے حد اچھی خاتون ہوں گی۔ یوں سمجھیں کہ جیمو ماموں کو ان کی آئیڈیل خاتون ملنے والی ہیں۔”
وہ پکوڑے چٹنی میں ڈبو ڈبو کر کھاتے ہوئے بولا اسے اندازہ ہوا کہ ثمن اور ٹیپو اپنے والد کے معاملے میں اتنے پوزیسو بچے نہیں تھے کہ ان کی دوسری شادی پر عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے۔
”واقعی؟”
ایک ساتھ ملی جلی آوازئیں آئیں۔
”کچھ میرے بارے میں بھی بتائیں۔”
عنایا نے دلچسپی اور جوش و خروش سے کہا۔
”آپ کی بہن کے بعد آپ کی شادی ہے۔”
شیراز نے اسے بغور دیکھتے ہوئے انکشاف کیا۔
”مگر میں تو ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔ مجھے تو سوشل ورک کرنے کا شوق ہے۔”
وہ بے ساختہ بولی۔
”سوشل ورک شادی کے بعد بھی تو ہو سکتا ہے۔”
شیراز کا لہجہ بدلا تھا مگر کسی نے محسوس ہی نہیں کیا۔
”زوار آفندی کے بارے میں بھی تو بتائیں۔”
یہ سوال پوچھنے والا ٹیپو تھا۔
”اچھے انسان ہیں۔ آپ کی بہن کو خوش رکھیں گے۔”
اس نے مدھم مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
”اور رانیہ! میرا مطلب ہے کہ کیا رانیہ بھی انہیں دل سے قبول کرے گی؟”
عنایا کی آواز مدھم ہو گئی۔ یہ سوال اس نے ذرا جھجک کر پوچھا تھا۔
”ہاں مگر آہستہ آہستہ۔ انہیں تھوڑا وقت دیں انہیں بہت جلد زوار کی خوبیوں کا اندازہ ہو جائے گا اور پھر جب وہ روزانہ انہیں فون کریں گے تو وہ ان کی محبت کی عادی ہو جائیں گی۔”
اس نے رسانیت سے کہا۔
”زوار بھائی رانیہ کو فون کریں گے؟”
ثمن کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”جی ہاں، ظاہر ہے، وہ منگیتر ہے ان کی دراصل خوش رہنا اور خوش رکھنا اک آرٹ ہے جسے انسان سالوں کے تجربے کے بعد ہی سیکھ پاتا ہے اور زوار آفندی کو اب یہ آرٹ آتا ہے۔ اس لیے آپ لوگ مِس رانیہ کے لیے فکرمند نہ ہوں۔ وہ آہستہ آہستہ زوار سے محبت کرنے لگیں گی کہ انہیں خود بھی پتا نہیں چلے گا۔”
اس نے سنجیدگی سے کہا۔
بات فلسفیانہ تھی، سب ہی غوروفکر میں پڑ گئے۔
”میاں! اپنی فیس مقرر کیوں نہیں کر لیتے؟”
جیمو ماموں نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
”شرمندہ نہ کریں جیمو ماموں! میں کون سا اتنا پہنچا ہوا عالم ہوں!”
وہ ہنسا۔
اس گھر کی رونقوں سے تو جیسے اسے عشق ہو گیاتھا۔
لائونج میں بیٹھی امی عقیل ماموں سے فون پر بات کر رہی تھیں۔ عقیل ماموں کو زوار اور رانیہ کے رشتے پر اعتراض تھا۔
”یوں تو زوار بہت اچھا لڑکا ہے مگر آپا اچھا ہوتا اگر آپ اس کے خاندان کے بارے میں پتا کروا لیتیں۔”
انہوں نے سنجیدہ آواز میں کہا۔
”سب پتا کروا لیا ہے ہم نے۔ ہم مطمئن ہیں۔”
امی نے اطمینان سے کہا۔
”کیا آپ جانتی ہیں کہ زوار کی ماں ناصرہ تسکین نے گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی۔”
انہوں نے اپنی طرف سے ایک سنسنی خیز انکشاف کیا۔
”تو کیا ہو گیا عقیل میاں، کوئی مجبوری ہو گی ان کی۔ ذات برادری کا کوئی مسئلہ ہو گا۔ تم تو جانتے ہو کہ ہم روشن خیال لوگ ہیں۔ اتنی چھوٹی موٹی باتوں کو مسئلہ نہیں بناتے۔”
انہوں نے سنجیدہ مگر قطعی انداز میں کہا۔
”پھر بھی۔ خاندان کا اثر تو ہوتا ہی ہے۔ دولت ہی تو سب کچھ نہیں ہوتی۔”
”ہاں میاں ٹھیک کہا۔ دولت ہی تو سب کچھ نہیں ہوتی جسے کمانے کے لیے تم اپنی ماں، بہن کو چھوڑ کر اتنی دور جا بیٹھے۔”
اس بات پر وہ چپ سے ہو گئے۔
”آپا! ٹھیک ہے کہ آپ روشن خیال ہیں مگر حقائق سے بھی تو نظریں نہیں چرائی جا سکتی نا! ناصرہ تسکین نے گھر سے بھاگ کر شادی کر کے اپنے والدین کو بے حد دکھ دیا۔”
انہوں نے اپنی بات جاری رکھی۔
”عقیل میاں! تو پھر تم بھی تو اپنی بوڑھی بیوہ ماں کو تنہا چھوڑ کر کینیڈا جا بیٹھے اور برسوں اپنی ماں کو تم نے پوچھا تک نہیں۔ تمہارا فون ملا ملا کر ان کے ہاتھ تھک جاتے مگر تمہارے پاس تو ان سے دو گھڑی بات کرنے کی فرصت ہی نہ ہوئی۔ تمہاری خوددار بہن نے غربت میں زندگی گزار دی مگر کبھی تم سے مالی مدد نہ مانگی اور نہ خود کبھی تمہیں احساس ہوا۔ تمہاری بوڑھی ما ںنے رشتہ داروں، محلے داروں کے ساتھ اپنی تنہائی بانٹ لی۔ ناصرہ تسکین نے اپنے والدین کو اتنا دکھ تو نہیں دیا ہو گا جتنا تم نے اپنی ماں او ربہن کو دیا عقیل میاں!”
وہ ساکت رہ گئے۔
ایک لفظ بھی نہ بول سکے۔
خوش گمانی کے آئینے میں کئی دراڑیں پڑ گئیں تھیں۔ امی کو اپنے الفاظ کی سنگینی کا احساس تھا۔
”برا نہ ماننا مگر تمہاری بات کے جواب میں مجھے یہ سب کہنا پڑا۔ خیر رانیہ کی شادی میں ضرور آنا کسی کو تم سے گِلہ شکوہ نہیں ہے۔ ہم دل میں کدورتیں رکھنے والے لوگ ہی نہیں ہیں۔”
انہوں نے کہہ کر فون بند کر دیا۔
عقیل ماموں کتنی ہی دیر تک اسی طرح ساکت کھڑے رہے۔ سفید ہوتے بالوں کے ساتھ طعنے سننا آسان نہیں ہوتا۔ آج انہیں پہلی بار احساس ہوا تھا کہ حقوق و فرائض کے حساب کتاب میں وہ فیل ہو گئے تھے۔
امی فون بند کر کے صحن میں آگئیں جہاں ایک محفل سجی تھی۔
سب لوگ پکوڑے کھاتے ہوئے شیراز کو گھیرے میں لیے بیٹھے تھے۔ وہ اٹھنا چاہتا مگر کوئی اسے اٹھنے نہ دیتا۔ اس گھر کی رونقوں نے اس کی زندگی میں اجالے بکھیر دیے تھے۔ وہ ان محبتوں کا عادی بن رہا تھا۔ اس گھر میں ایک ہنستی ہوئی لڑکی رہتی تھی جو اسے اچھی لگتی تھی۔ وہ جب بھی یہاں آتا چپکے چپکے اسے دیکھتا رہتا اور اس کا نام عنایا تھا۔
٭…٭…٭
سوہا زوار کی بچپن کی دوست اور سائیکلوجسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی ددھیالی رشتہ دار بھی تھی وہ زوار کی ممی اور سارہ سے ملنے اس کے گھر آئی۔
”چھپے رستم! چپکے چپکے تم نے منگنی کر لی، وہ بھی کوئین کے ساتھ اور کسی کو بتایا بھی نہیں، ستارہ آنٹی اور سارہ کو کینیڈا سے بھی لے آئے یہ سب کچھ آناً فاناً کیسے کر لیا تم نے؟”
سوہا حیران ہونے کے ساتھ ساتھ خوش بھی تھی۔
”میں نے سوچا سب کو سرپرائز دوں گا۔”
صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھے ہوئے زوار نے اطمینان سے جواب دیا۔
سوہا کو اس کے جواب سے تسلی نہیں ہوئی۔
”رانیہ کے کہنے پر کینیڈا گئے تھے نا؟”
یہ سوال اس نے سرگوشی میں پوچھا۔ وہ خاموش رہا۔
وہ چاہتی تھی کہ وہ اس بات کا جواب نہیں دے گا۔ پھر وہ زوار کی ممی کی طرف متوجہ ہوئی۔
”ستارہ آنٹی۔ یقین نہیں آرہا کہ میں اتنے سالوں بعد آپ کو دیکھ رہی ہوں مگر آپ بہت بدل گئی ہیں۔”
اس نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ مسکرائیں۔
”وقت بدل جائے تو انسان بدل ہی جایا کرتے ہیں۔”
انہوں نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”دونام ہیں نا آپ کے۔ ناصرہ اور ستارہ۔” سوہا نے بے ساختہ پوچھا۔
”اصل نام تو میرا ناصرہ ہے مگر تمہارے انکل کو ناصرہ نام پسند نہیں تھا۔ وہ مجھے ستارہ کہتے تھے پھر میرے سسرال میں ستارہ نام ہی مشہور ہو گیا۔ ناصرہ کی شناخت تو جیسے بہت پیچھے کہیں رہ گئی۔”
وہ سنجیدہ ہو گئیں۔
”مجھے یاد ہے کہ آپ کتنی خوبصورت ہوتی تھیں۔ ستارہ نام تو آپ پر بہت سوٹ کرتا تھا۔ انکل نے آپ کی شخصیت کے عین مطابق آپ کا نام رکھا تھا۔”
اس نے مسکرا کر کہا۔
زوار کی ممی کو بہت کچھ یاد آگیا، پرانی یادوں کے اہم میں لگی تصویریں واضع ہو گئیں۔ ان کے چہرے پر سایہ سا لہرایا جسے دیکھ کر زوار کے بات بدل دی۔
”ممی! سوہا ایک بہت اچھی سائیکلوجسٹ ہے مگر یہ میرا علاج نہیں کر پائی۔”
وہ مسکرا کر بولا۔
”تمہارا علاج تمہاری کوئین نے جو کر دیا ہے۔”
اس نے فوراً جواب دیا۔ وہ محظوظ ہوا۔
”حالاں کہ وہ کوئی سائیکولوجسٹ بھی نہیں ہے۔”
اس نے شوخی سے کہا۔
سوہا نے مسکرا کر سرجھٹکا پھر زوار کی ممی کو دیکھ کر کہنے لگی۔
”آنٹی! آپ کو رانیہ کیسی لگی۔ کیا آپ کو محسوس نہیں ہوا کہ اس کا مزاج زوار سے بے حد مختلف ہے۔!”
”رانیہ بہت اچھی لڑکی ہے۔ سلجھی ہوئی خوبصورت اور خاموش۔ مزاج سے کیا فرق پڑتا ہے۔دل ملنے چاہئیں، محبت ہونی چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ زوار اس کے ساتھ بہت خوش رہے گا۔ زوار برسوں اکیلا رہا ہے اور اکیلے رہنے والے لوگوں کو ہی دراصل رشتوں کی قدروقیمت کا احساس ہوتا ہے۔ اب تو مجھے اپنے بیٹے کی شادی کا انتظار ہے۔ بڑی دھوم دھام سے اپنی بہو کو لے کر آئوں گی۔”
انہوں نے مسکرا کر کہا۔ ان کی آواز میں زوار کے لیے محبت تھی۔
”زوار! اگر اس نے شادی کے بعد بھی تھیٹر میں کام کرنا چاہا پھر کیا کرو گے تم؟”
سوہا نے پوچھا۔
”اس کی مرضی ہے۔ شادی ہونے کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ اپنی پسند ناپسند اور اپنے شوق بدل لے۔”
اس نے اطمینان لیے جواب دیا۔
”ستارہ آنٹی! آپ کا بیٹا تو بہت روشن خیال اور لبرل ہے مگر آپ کے معاملے میں تو بڑا کنزرویٹو تھا۔”
سوہا نے اسے طعنہ نہیں دیا تھا بس ایک بات ہی کی تھی۔
”تو اچھی بات ہے نا! اتنی ڈگریاں لینے کے باوجود میرے اندر جو جہالت تھی، میں نے اسے ختم کر دیا۔”
اس نے برا منائے بغیر کہا۔
سوہا جیسی سائیکولوجسٹ بھی کچھ دیر کے لیے بول نہ سکی۔ زوار نے خود کو اس حد تک بدل لیا تھا کہ خود اسے بھی حیرت ہو رہی تھی۔
”اچھا خیر۔ یہ بتائو اب تو رانیہ تمہیں پسند کرتی ہے نا!”
پھر اس نے پوچھا۔
”ہاں، ظاہر ہے۔ بھلا میرے بیٹے کو کون ناپسند کر سکتا ہے۔”
یہ جواب ممی نے دیا تھا۔
”ممی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔”
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
وہ بھی مسکرا دی۔ اس نے زوار کو اتنا خوش اور مطمئن پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
اس گھر کی خوشیاں اور رونقیں لوٹ آئی تھیں۔ ماربل کے فرش اور شیشے کے فانوسوں سے سجا یہ عالیشان گھر خوبصورت تو تھا مگر اس کے درودیوار سے اداسی ٹپکتی تھی۔ آج یہ گھر اپنے مکینوں کے قہقہوں سے گونج رہا تھا اور درودیوار پر خوشیوں کا رنگ نظر آرہا تھا۔
سوہا کے جانے کے بعد وہ کتنی ہی دیر ممی کے ساتھ بیٹھا رہا، پھر ممی سارہ کے ساتھ اس کی شادی کی شاپنگ پر چلی گئیں۔ وہ اپنے کمرے میں آگیا۔ سونے سے پہلے اس نے بے اختیار رانیہ کو ٹیکسٹ کیا۔
”جاگ رہی ہو؟”
اس نے پوچھا۔
رانیہ اپنے بیڈ پر بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی۔ صفحہ پلٹتے ہوئے اس نے موبائل پر آیا میسج دیکھا۔
”نہیں۔ کتاب پڑھ رہی ہوں۔”
اس نے جواب ٹائپ کیا۔
”کون سی کتاب؟”
کھٹاک سے سوال آیا۔
”Pride and Prejudice”
اس نے جواب دیا۔
”اچھا! Jane, Elizabeth، Darey اور Mr.Collins” اس نے ناول کے کرداروں کے نام لیے۔
شاید اسے بھی انگلش لٹریچر میں دلچسپی تھی۔
وہ بے اختیار مسکرائی۔
وہ تعلق بنا تو رابطے بڑھے اور محبت میں اصل فارمولا ہی رابطوں اور فاصلوں کا ہوتا ہے۔
پھر یکایک اسکرین پر زوار کا نمبر چمکنے لگا۔ وہ اسے فون کر رہا تھا اور اب یہ فون اسے اٹھانا ہی تھا۔ اس معاملے میں اب وہ پہلے کی طرح اپنی من مانی نہیں کر سکتی تھی۔
”ہیلو۔”
اس نے فون اٹھا کر کہا۔
”رات کو دیر تک جاگنا صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔”
یہ صرف ایک فارمل جملہ ہی نہیں تھا بلکہ اس کی آواز میں اس کے لیے فکرمندی بھی تھی۔
”آپ بھی تو ابھی تک جاگ رہے ہیں۔”
میں نے سامنے دیوار پر لگے وال کلاک پر ٹائم دیکھتے ہوئے کہا۔
”میرا مسئلہ اور ہے میں تو تمہارے عشق میں اس بری طرح گرفتار ہوں کہ میری رات کی نیندیں ہی اڑ گئی ہیں مگر تم تو مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو۔”
شاعرانہ انداز میں کہتے ہوئے اس نے آخری جملہ کسی اور ہی انداز میں کہا۔
وہ چپ ہو گئی کچھ بول نہ سکی۔
بعض دفعہ ہاں اور ناں دونوں ہی مشکل ہوتے ہیں۔

”pride and prejudice بہت اچھا ناول ہے۔”اس نے کچھ دیر اس کے بولنے کا انتظار کیا پھر اس کی خاموشی محسوس کرتے ہوئے بات بدل دی۔
”ہاں۔ بہت دلچسپ ناول ہے۔ Jane Austin میری فیورٹ رائٹر ہے۔ مجھے انگلش کلاسک ناولز اور مویز بہت پسند ہیں۔”
اس نے دھیمی آواز میں کہا۔
”ہم دونوں کی پسند بہت ملتی جلتی ہے۔ میں تو اسی میں خوش ہوں کہ تم میرا فون سن لیتی۔ وہ اب تم نے مجھے بلاک بھی نہیں کیا۔ محبت انسان کو شکرگزار اور قناعت پسند بنا دیتی ہے کہ انسان محبوب کی ایک مسکراہٹ پر ہی خوش ہو جاتا ہے۔”
اس کی ہر دوسری بات میں اظہارِ محبت ہوتا تھا۔
”پہلے کی بات اور تھی۔”
اس کی آواز دھیمی ہو گئی۔ رات بھیگتی جا رہی تھی۔ وہ کھڑکی سے نظر آتے آسمان پر ستاروں کے جھرمٹ کو دیکھ رہی تھی۔
”اور اب؟”
معنی خیزی سے بڑے بے ساختہ انداز میں پوچھا گیا۔
”اب بات دوسری ہے۔”
اسے اس ایک جملے میں اقرار تلاش کرنا تھا۔
”اچھا چلو، پھر کسی دن نہر کنارے چلیں گے،وہاں خوب باتیں کریں گے، تم میری باتیں سننا اور میں تمہیں ذرا فرصت سے دیکھوں گا۔”
اسے اندازہ ہوا کہ یہ گفتگو رومانٹک ہوتی جا رہی ہے۔
وہ جواب میں کیا کہتی۔ اسے تو اس قسم کی کوئی بات ہی نہیں کرنی آتی تھی۔
وہ بہت دیر تک کچھ نہ بولی تو وہ ہلکا سا کھنکھارا۔
”سو جائو۔ مت جاگو۔ صبح پڑھ لینا ناول۔”
اس نے محبت سے کہا۔
اس کی مردانہ آواز بے حد خوبصورت تھی۔ سحر طاری کرتی ہوئی، مسمرائز کر دینے والی۔
عنایا کمرے میں آئی تو اس نے فون بند کر دیا مگر اس کی آواز سے چھلکتی محبت اس کے آس پاس ہی ٹھہر گئی۔
”کس کا فون تھا؟”
عنایا نے یونہی پوچھا۔
”زوار کا۔”
رانیہ نے جواب دیتے ہوئے موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
”ہیں؟ واقعی؟”
عنایا چونکی۔
رانیہ حیران ہوئی کہ بھلا اس میں اتنی حیرت کی کیا بات تھی۔
”ہاں، کیوں؟”
اس نے بے ساختہ پوچھا۔
”شیراز کی باتیں درست ثابت ہو رہی ہیں۔” وہ ایکسائیٹڈ انداز میں بولی۔
”شیراز!”
رانیہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”ہمارا ہمسایہ۔ وہ astrologer ہے۔”
اس کی شہرت رانیہ تک پہنچ چکی تھی۔
”کہہ رہا تھا کہ زوار بھائی تمہیں فون کریں گے اور اس طرح تم ان کی محبت کی عادی ہو جائو گی۔”
”اس نے یہ کہا؟”
رانیہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔
”ہاں۔ اس کا مطلب ہے کہ ضرور اس کے پاس کوئی علم ضرور ہے۔”
”ہاں۔ ایک علم ضرور ہے اس کے پاس اور اسے کامن سینس کہتے ہیں۔”
رانیہ نے سرجھٹکتے ہوئے ٹیک لگا لی۔
”ارے بابا میں سچ کہہ رہی ہوں۔”
”اچھا یہ بتائو کہ تم نے زوار بھائی کے ساتھ تمیز سے بات کی ہے نا؟ پہلے کی طرح بدتمیزی کر کے فون تو نہیں بند کر دیا؟”
اس کے کمر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔
”میں اتنی بھی بے وقوف نہیں ہوں۔”
وہ چڑ گئی۔
”اب تو فون پر بھی باتیں شروع ہو گئیں۔ کہاں گیا وہ رونا دھونا، احتجاج، امی اور ماموں سے بحث و مباحثہ، تھیٹر چھوڑ دینے کی دھمکی۔ کیا وہ سب بھی کوئی ڈرامہ تھا؟”
عنایا نے شرارت سے اسے چھیڑا۔ اس نے کتاب کھول لی۔
”میں ناول پڑھ رہی ہوں۔ اب مجھے ڈسٹرب نہ کرو۔”
اس نے خود کو مصروف ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
”ہاں بھئی، اب تم ہمیں کہاں لفٹ کروائو گی۔ پڑھو ناول اور کرتی رہو اپنے منگیتر کو میسجز۔”
عنایا شوخی سے کہتے ہوئے چلی گئی۔
اب تو یہ بات سارے گھر کو پتا چل جانی تھی۔
چھٹی کا دن تھا۔ زوار گھر پر ہی تھا مگر اپنی روٹین کے مطاب قصبح سویرے ہی اٹھ گیا تھا۔ ممی اور سارہ سو رہی تھیں۔ وہ جاگنگ سے واپس آیا تو ملازم نے اسے جوس کا گلاس دیتے ہوئے کسی مہمان کے آنے کی اطلاع دی۔
وہ چونک گیا۔ اتنی صبح صبح بھلا کون سا مہمان آگیا تھا۔ وہ یونہی ٹریک سوٹ پہنے اور ایک ہاتھ میں جوس کا گلاس تھامے ڈرائنگ روم میں گیا، وہاں موجود شخصیت کو دیکھ کر اس کی نظروں کے سامنے گویا زمین و آسمان گھوم گئے۔
جوس کا گلاس ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچا۔
”کیسے ہو زوار؟”
وہ اپنی مخصوص دلنشین مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
”تم؟”
وہ بس اتنا ہی کہہ پایا۔
”ہاں۔ میں۔”
اس نے اعتماد اور اطمینان سے جواب دیا اس کا اندازہ مالکانہ تھا۔
٭FreeZe٭

Loading

Read Previous

”قسط نمبر5)”چنبیلی کے پھول )

Read Next

چنبیلی کے پھول قسط نمبر 7

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!