چنبیلی کے پھول6 :قسط نمبر

وہ نروٹھے پن سے بولی۔ امی اور ماموں کو لفظ بدتمیز بڑا عجیب سا لگا۔ اس کے کئی معنی ہو سکتے تھے۔
”کیا بدتمیزی کی ہے اس نے؟”
ماموں نے اس کی بات پر غور کرتے ہوئے پوچھا۔
”وہ مجھے irritate کرتاہے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ میں اس سے بات نہیں کرنا چاہتی ہوں مگر پھر بھی وہ مجھے میسجز کرتا رہتا ہے، خوا مخواہ فون کرتا رہتا ہے۔ اس نے مجھے زبردستی سونے کا تاج بنوا کر بھیج دیا۔ اپنی دولت کا رعب جمانا چاہتا ہے میں اس کی ان حرکتوں سے تنگ آگئی ہوں۔”
اسے اس سے کافی گِلے شکوے تھے۔ اپنی طرف سے اس نے کافی ایڈیٹنگ کر کے بتایا۔ اسے پروپوز کرنے والا جرم وہ بتا نہ پائی۔ ماموں نے اپنی مسکراہٹ چھپا لی اور بڑی بے ساختگی سے بولے۔
”بیٹا! اسے بدتمیزی نہیں، محبت کہتے ہیں۔”
وہ یکدم خاموش ہو گئی۔ اسے اندازہ ہوا کہ یہ الزامات زوار کو بدتمیز ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اب وہ اپنے گھر والوں کو کیسے سمجھائے۔ اپنی ماں اور بہن کو لاکر زوار سرخرو ہو گیا تھا۔ امی نے رانیہ کے احمقانہ پن کو کوئی اہمیت نہ دی۔
”رانیہ! ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تمہاری شادی زوار سے ہی ہو گی اور تمہیں ہمارے فیصلے کا احترام کرنا ہو گا۔”
انہوں نے قطعی اور حکمیہ انداز میں کہا۔ ان کی آواز میں ایسا رعب تھا کہ وہ کچھ بول ہی نہ سکی۔
٭…٭…٭
صحن میں ہر طرف گندم کے دانے پھیلے ہوئے تھے۔ فردوسی خالہ اپنی مخصوص رنگین پیڑھی پر بیٹھی گندم صاف کر کے تھیلوں میں بھر رہی تھیں۔
آسمان کالے بادلوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہوا چل رہی تھی، کبھی تیز ہو جاتی، کبھی ہلکی ہو جاتی۔
آندھی اور طوفان آنے کے آثار تھے۔
فضلو دودھ والے کی بیوی فردوسی خالہ کے پاس ہی بیٹھی تھی، دوسرے کونے میں دیوار سے ٹیک لگائے روشنی بیٹھی سرجھکائے گندم صاف کرنے میں مصروف تھی۔ چہرے پر اداسی اور آنکھوں میں ویرانی تھی، خود کو کسی نہ کسی کام میں مصروف کر لیتی، مگر دو بندوں کا کام ہی کتنا ہوتا ہے۔
فردوسی خالہ نے فضلو دودھ والے کی بیوی کی باتیں سنتے ہوئے گہرا سانس لے کر کونے میں بیٹھی روشنی کو دیکھا۔
”ارے روشنی، کیوں روتی ہو بیٹیا؟ دیکھو تو رو رو کر اپنا کیا حال کر لیا ہے۔ اپنی بوڑھی ماں کو کیوں دکھ دیتی ہو! مرد کے لیے کیا رونا!”
وہ اُداسی سے بولیں۔
فضلو دودھ والے کی بیوی نے بھی بڑی ہمدردی سے اسے دیکھا۔
”ہم نے بھی بیٹیاں بیاہ دیں، سمجھو صبر ہی کر لیا۔ پھولوں جیسی بیٹیاں پرایوں کو دے دیں، پھر نہ کچھ پوچھنے کی جرأت ہوئی، نہ کچھ کہنے کی بیٹیوں کے ماں باپ جیسا بھی کوئی مجبور ہوتا ہے بھلا! عزت کی خاطر سارے دکھ، غم دل میں ہی رکھ لیتے ہیں۔”
فضلو دودھ والے کی بیوی نے آہ بھر کر کہا۔
روشنی نے سراٹھا کر ماں کو دیکھا اور خود کو نارمل ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
”میں رو نہیں رہی اماں۔ میں تو گندم صاف کر رہی ہوں۔”
وہ گندم کے ساتھ مصروف ہو گئی۔
ضروری تو نہیں کہ انسان اپنا دکھ اپنے چہرے پر لکھ ڈالے کہ ہر دیکھنے والی آنکھ اسے پڑھ سکے۔ اس نے سوچا بوڑھی مائوں سے دکھ چھپا لینے چاہئیں۔
”ارے بٹیا۔ ماں کی آنکھ صرف چہرہ ہی نہیں پڑھتی، دل بھی پڑھ لیتی ہے۔”
فردوسی خالہ نے آہ بھر کر کہا۔
”ثاقب میاں کو اس عمر میں شادی کرنے کی کیا سوجھی! چلو اگر شادی کر ہی لی تو دونوں بیویوں کو برابر کے حقوق دیتے، مگر انصاف کرنا اتنا آسان کہاں ہوتا ہے! برسوں خدمت کرنے والی عورت کے بارے میں ایک بار تو سوچا ہوتا، بیوی ہے یہ بھی اس کی، کوئی گھر کا فالتو سامان نہیں، جسے کسی بھی کونے کھردانے میں رکھ کر بندہ بھول جائے۔”
فضلو دودھ والے کی بیوی نے دلسوزی سے اپنے دکھ کا اظہار کیا۔
”چھوڑو یہ باتیں پروین۔ کب تک ہم دکھوں کو ہی روتے رہیں۔ میری بیٹی مجھ پر بوجھ نہیں ہے۔ کس چیز کی کمی ہے یہاں شکر ہے خدا کا کہ کبھی بھوکے نہیں سوئے، لوگ بھی آتے جاتے رہتے ہیں، دل بہلا رہتا ہے۔ ضروریاتِ زندگی پوری ہو رہی ہیں بس کافی ہے۔”
وہ تھیلے میں گندم ڈالتے ہوئے بولیں۔
”بیٹا ولایت سے پیسے تو بھیجتا ہے نا؟”

پروین نے دردمندی بھری رازداری سے پوچھا اس کے لیے باہر کا ہر ملک ولایت ہی تھا۔
”ہاں بس۔ جب دل کرے بھیج ہی دیتا ہے، نہ بھی بھیجے تو ہم نے کبھی مانگے نہیں۔ اللہ اپنے سوا کبھی کسی کا محتاج نہ کرے۔”
وہ پروین کے لیے گندم کا تھیلا تیار کر رہی تھیں۔
”ہاں جی بس، غربت سے نہیں محتاجی سے ڈر لگتا ہے۔ محتاجی میں بڑی ذلت ہوتی ہے جی۔ اب یہی دیکھ لیں کہ گھر کی دیواروں کا پلستر اکھڑا ہوا ہے۔ فرش ٹوٹے پڑے ہیں مگر روغن کروانے اور مرمت کروانے کی استطاعت نہیں ہے۔ بیٹی کی شادی پر جو قرضہ لیا تھا وہ ابھی تک ادا نہیں کر پائے۔ اخراجات ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ مہنگائی نے الگ پریشان کر رکھا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کریں، کہاں جائیں؟”
فردوسی خالہ نے گندم کا تھیلا ایک طرف رکھ کر قریب پڑا رجسٹر اٹھا لیا جس کے اندر ہی بال پوائنٹ بھی پڑا تھا۔ رجسٹر کھول کر وہ کچھ لکھنے لگیں۔
”ایک لڑکا ہے، بڑا ہی نیک اور فیاض۔ دردمنددل رکھتا ہے، لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ خوفِ خدا ہے اس کے دل میں، دولت مند بھی ایسا کہ سمجھو دولت تو اس کے گھر کی باندی ہے۔ اچھا خاصا کاروبار ہے، فیکٹریوں کا مالک ہے، میں نے تمہارا نام رجسٹر میں لکھ لیا ہے پروین، وہ تمہارا قرض بھی اتار دے گا اور تمہارے گھر کی مرمت بھی ہو جائے گی۔ روغن تو ہمارے گھر میں بھی ہونے والا ہے مگر مجھ بڑھیا نے اس عمر میں گھر میں سفیدیاں کروا کر کیا کرنا ہے۔ بیٹا سات سمندر جا بیٹھا، اس کی بیوی نے اس گھر کو کبھی اپنا گھر مانا ہی نہیں۔ روشنی کا کچھ فیصلہ ہو تو وہ بھی اپنے گھر چلی جائے گی۔ خیر تمہارا نام میں نے لکھ لیا ہے، تھوڑی بہت ضرورتیں تو پوری ہو ہی جائیں گی۔”
انہوں نے سنجیدہ انداز میں کہا۔
پروین خوش ہو گئی۔
”بہت شکریہ آپ کا۔ بڑی مہربانی جی۔طوفان کی آمد آمد ہے۔ اب گھر چلتی ہوں۔”
وہ اٹھتے ہوئے بولیں۔
فردوسی خالہ نے گندم کا تھیلا بند کر کے اسے گرہ لگا دی۔
”یہ لو پانچ کلو گندم ہے۔ تھیلا اٹھا لو گی؟”
انہوں نے ذرا فکرمندی سے پوچھا۔
”ہاں جی۔ بس بھوک کا بوجھ نہیں اٹھایا جاتا، گندم کا بوجھ تو ہمیں بوجھ ہی نہ لگے جی۔”
اُس نے اطمینان سے کہتے ہوئے گندم کا تھیلا اٹھا لیا۔ یکدم ہی ہوا تیز ہو گئی۔
آسمان کو سیاہ بادلوں نے ڈھانپ لیا۔
فردوسی خالہ نے گھر کا اکلوتا چھاتہ پروین کو دے دیا۔
”یہ لو پروین۔ طوفان آنے والا ہے، ایسا نہ ہو کہ راستے میں بارش ہو جائے۔”
پروین ایک کندھے پر تھیلا اٹھائے، چھاتہ پکڑے لپکتے جھپکتے باہر چلی گئی۔
روشنی صحن سے چیزیں سمیٹنے میں مصروف تھی۔
٭…٭…٭
ایک طوفان تو اس کی زندگی میں بھی آچکا تھا۔ اندر سے مسلسل موبائل بجنے کی آوازیں آرہی تھیں، کوئی بار بار فون کر رہا تھا۔ وہ افتاں و خیزاں چیزیں سمیٹتی کمرے میں آئی، بے چینی سے فون اٹھایا تو جیسے ساری اداسی، ساری کلفت دور ہو گئی۔ فون پر رانیہ کی امی تھیں جو انہیں رانیہ اور زوار کی منگنی کی خوشخبری سنا رہی تھیں۔
کسی نے بیل بجائی ٹیپو بازار گیا ہوا تھا، سو عنایا نے گیٹ کھولا تو سامنے وہی بدتمیز ہمسایہ ہاتھ میں ان ہی کے برتن لیے کھڑا تھا مگر آج وہ پہلے کی نسبت خاصے معقول حلیے میں تھا اور خاصی تمیز کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
”آپ کے برتن۔ آنٹی نے کھیر بھجوائی تھی۔ کیا وہ گھر پر ہیں؟”
آج تو وہ بڑی شائستگی سے بات کر رہا تھا۔ عنایا نے منہ بنا کر برتن تھام لیے۔ ایک تو امی بھی سب کے منع کرنے کے باوجود ہمسائے کو چیزیں پکا پکا کر بھیجتی رہتی ہیں۔
”امی اس وقت مصروف ہیں، ویسے آج تو آپ بڑی تمیزو تہذیب کا مظاہرہ کر رہے ہیں، خیریت تو ہے؟”
اس کے لہجے میں طنز کی آمیزش تھی۔
ثمن نے بھی عقب سے جھانکا۔
”ظاہر ہے، ہمسایوں کے گھر سے کھانے کھا کر ان سے لڑنا بے وقوفی ہوتی ہے۔”
ثمن نے بھی عنایا کے انداز میں ٹکڑا لگایا۔
وہ خلافِ توقع مسکرایا، حالاں کہ یہ مسکرانے والی بات نہیں تھی۔
”آج میں آپ لوگوں سے لڑنے نہیں آیا ہوں بلکہ آپ کے برتن واپس کرنے آیا ہوں۔”
اس نے ان کی باتوں کا بُرا منائے بغیر جواب دیا۔
”خالی برتن واپس کرنے کا شکریہ۔”
عنایا نے طنزیہ انداز میں کہا۔ وہ شرمندہ ہو گیا۔
”جی۔ وہ۔ دراصل میں اتنا اچھا کک نہیں ہوں ورنہ یہ خالی برتن ہرگز واپس نہ کرتا۔ آپ کی امی بہت اچھا کھانا پکاتی ہیں۔ بہت ذائقہ ہے ان کے ہاتھ میں۔ مائوں کے ہاتھ میں جو ذائقہ ہوتا ہے وہ دنیا کے کسی کھانے میں نہیں ہوتا۔”
ذرا گڑبڑا کر اس نے بات سنبھال لی۔ وہ اپنے اور ان لوگوں کے درمیان حائل برف کی دیوار کو گرانا چاہتا تھا۔ اس نے اس بارے میں بہت سوچا تھا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمسایوں سے لڑائی جھگڑے میں اس کا اپنا ہی نقصان ہے۔
”اب ہم روز تو آپ کو کھانے پکا پکا کر نہیں بھیج سکتے۔ اس لیے مکھن لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔”
عنایا نے اس کی شائستگی سے متاثر ہوئے بغیر نروٹھے پن سے کہا۔
”آپ لوگ یقینا اپنی چیزوں کی وجہ سے ناراض ہیں۔ آپ کی چیزیں۔”
وہ صلح جو انداز میں بولا تو عنایا نے اس کی بات کاٹ دی۔
”اپنے پاس ہی رکھیں وہ چیزیں۔ اب ہمیں ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔”
وہاں کوئی اثر نہ ہوا۔ شیرا نے بے اختیار گہرا سان لیا اور صلح صفائی کرنے کی ایک اور کوشش کی۔ بڑی اکھڑ اور مغرور لڑکیاں تھیں اسے انہیں بڑے طریقے سے ہینڈل کرنا تھا۔
”میں اپنے رویے پر معذرت کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے خواتین سے بات کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا۔”
وہ نرمی سے معذرت خواہانہ انداز میں بولا۔
”معذرت!”
عنایا اور ثمن نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا کیا کایا پلٹ تھی۔
”جی ہاں میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں چھوٹی چھوٹی باتوں کو ایشو نہیں بنانا چاہیے۔ اب ہم ہمسائے ہیں۔ دونوں گھرانوں کا ایک دوسرے سے واسطہ پڑتا ہی رہے گا۔ لڑائی جھگڑوں میں کچھ نہیں رکھا۔ امن سے رہنے میں ہی فلاح اور بھلائی ہے۔ آپ لوگ خوش قسمت ہیں جن کا اتنا بھرا پرا خاندان ہے۔ مجھے ایسے پررونق گھر بہت اچھے لگتے ہیں۔
اس نے وہاں کھڑے کھڑے اچھی خاصی تقریر کر دی۔
”نظر نہ لگا دیجئے گا۔”
عنایا نے بے نیازی سے کہا لہجہ کچھ نرم پڑا تھا۔ اس نے سوچا اب وہ معذرت کر ہی رہا ہے تو انہیں بھی نخرے نہیں کرنے چاہئیں۔
”نظر لگانے والوں میں سے نہیں ہوں۔”
وہ اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے بولا پھر اس نے نظر جھکا لی۔ شرافت کا تقاضا تھا کہ وہ نظر جھکا کر ہی بات کرتا کیوں کہ اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ اس لڑکی کو دیکھتے ہوئے اس کی نظر کسی وقت بھی بہک سکتی ہے۔
”سب یہی کہتے ہیں!”
وہ لاپروائی سے بولی۔
”سب میں اور مجھ میں بہت فرق ہے۔ خیر میرے لائق کوئی خدمت ہوئی تو ضرور بتائیے گا۔ دراصل؟”
وہ چند لمحے رکا پھر کھنکھارا۔ یوں جیسے کوئی بہت ہی خاص بات کرنے لگا ہو۔
”میں ایک Astrologer ہوں۔”
اس نے باری باری ان دونوں کو دیکھتے ہوئے دھیرے سے انکشاف کیا۔
”Astrologer?”
ثمن اور عنایا نے بے ساختہ ایک دوسرے کو دیکھا۔
”تو مستقبل کی پیش گوئیاں کرتے ہیں آپ؟ نجومی ہیں؟ بہت خوب!”
اب کی بار عنایا نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔
”جی بس۔ تھوڑا بہت علم آتا ہے مجھے۔ ایک بزرگ سے سیکھا تھا۔”
وہ مسکراہٹ دبائے کہہ رہا تھا۔
”کون سے بزرگ؟”
ثمن نے بے ساختہ پوچھا۔
”آپ کی بڑی بہن کی۔”
وہ کسی جادوگر کی طرح ان دونوں کو حیران کر رہا تھا۔ وہ اکثر دیوار کے پار سے ان کے صحن میں ہونے والی گفتگو سنتا رہتا تھا اور ان کے گھر کے سب رازوں سے واقف ہو گیا تھا۔
”کس کے ساتھ؟”
یہ سوال ثمن نے کیا تھا۔ عنایا اور ثمن کے چہروں پر ایسی ایکسائٹمنٹ تھی جیسی پہلی بار میلہ دیکھنے والی نو عمر لڑکیوں کے چہروں پر ہوتی ہے۔
”ایک بہت اچھے اور محبت کرنے والے لڑکے کے ساتھ جس کا نام زیڈ سے شروع ہوتا ہے۔”
وہ مدھم مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
وہ دونوں اتنی بری طرح چونکیں کہ پلکیں جھپکنا ہی بھول گئیں۔
”میں چلتا ہوں۔”
وہ ان دونوں کو دیکھتے ہوئے مسکرایا پھر پلٹ گیا۔
وہ دونوں ساکت کھڑی رہیں کہ اسے آواز دے کر روک بھی نہ سکیں۔ وہ کسی ماہر شعبدہ باز کی طرح ایک انوکھا کرتب دکھا کر جا چکا تھا کچھ ہی دیر بعد یہ بات ہر طرف پھیل گئی کہ ان کا ہمسایہ ایک نجومی ہے اور اس کی باتیں بالکل ٹھیک ہوتی ہیں۔ جیمو ماموں بھی اس سے ملنے کے لیے بے تاب ہو گئے۔ انہوں نے سوچا کہ ان کے ہمسائے میں اتنی اہم شخصیت رہتی ہے اور انہیں علم ہی نہیں ہے۔ سب کے خیالات اس ہمسائے کے بارے میں بدل گئے گھر کا ہر فرد اس سے اپائٹمنٹ لینے کے لیے تیار بیٹھا تھا پھر طے یہ پایا کہ کل شام جب زوار کی ممی نے رانیہ کو انگوٹھی پہنانے کے لیے آنا تھا تو اس منگنی کے موقع پر نجومی ہمسائے کو بھی بلا لیا جائے سب نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔ ہمسائے کی قابلیت جانتے ہی سارے اختلافات خود بخود ختم ہو گئے تھے۔
رانیہ عجیب دوراہے پر کھڑی تھی۔ وہ بار بار فیس بک پر لگی فارس کی تصویریں دیکھتی، اچھی تھی اس کی بیوی اور وہ بھی خوش لگ رہا تھا۔ اس کے نکاح کے فنکشن میں خوب لوگ جمع تھے۔ اچھا شاندار فنکشن تھا۔ یہ تصویریں اس نے بھاری ہوتے دل کے ساتھ دیکھیں، اب تو انکار، اقرار جیسے اس کے لیے بے معنی ہو کے رہ گئے تھے۔ تعلق ختم ہو گیا تو گِلے شکوے بھی نہ رہے۔
بچپن کی محبت آسانی سے بھولنے والی نہیں ہوتی دنوں کی بات نہیں تھی، سالوں کا ساتھ تھا۔ ہر یاد اس کے دل پر نقش تھی۔ پھر وہ سوچتی کہ اس کے اور فارس کے درمیان محبت تو تھی مگر انڈرسٹیڈنگ نہیں تھی نہ وہ کبھی اس کی بات سمجھ سکا اور نہ شاید وہ اسے سمجھ پائی۔ رابطوں پر فاصلے غالب آگئے۔ دراصل بات ہی ساری ایک دوسرے کو سمجھنے کی ہوتی ہے۔ جب دو لوگ ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پاتے تو ان کا رشتہ کمزور ہوتا ہے چاہے برسوں پرانا ہی کیوں نہ ہو۔
پھر وہ شام کو بادل نخواستہ تیار ہوئی بلکہ روشنی نے زبردستی اسے تیار کیا۔ ہلکے گلابی رنگ کے انارکلی فراک اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس، موتیوں والا دوپٹہ سر پر اوڑھے وہ گم صم انداز میں بیٹھی تھی۔ اس کا لباس، جیولری اور دیگر چیزیں زوار کی ممی نے صبح ہی بھجوا دی تھیں۔
”زیور تو بہت بھاری ہے۔ خالص کندن کا سیٹ ہے۔”
روشنی نے اسے جھمکے پہناتے ہوئے تعریفی انداز میں کیا۔
وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے خاموش تھی۔
”رانیہ! کچھ بول کیوں نہیں رہی؟”
روشنی نے جھمکے کا ہُک بند کرتے ہوئے نرمی سے کہا۔
”کیا بولوں؟ دوسری بار منگنی ہو رہی ہے میری۔” وہ دل گرفتگی سے بولی۔
”ہاںتو کیا ہوا؟ ہو جاتا ہے ایسا بھی۔ حالات کے ساتھ خود کو بدلنا سیکھو۔ تمہارا نصیب زوار کے ساتھ لکھا تھا۔ بھلا زوار اور فارس کا کیا مقابلہ!”
وہ خاموش رہی۔
دلہن بن کر اس نے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ روشنی مسلسل اسے سمجھاتی رہیں۔

Loading

Read Previous

”قسط نمبر5)”چنبیلی کے پھول )

Read Next

چنبیلی کے پھول قسط نمبر 7

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!