چنبیلی کے پھول6 :قسط نمبر

ضروری تھا کیا؟ اور ثاقب میاں کو بھی تو دیکھو، اس عمر میں چائو چونچلے سوجھ رہے ہیں۔ ابھی تک دولہا بننے کا شوق نہیں اترا۔”
رانیہ کی امی نے روشنی کی بھیگی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے خفگی اور دکھ بھرے انداز میں کہا۔ یہ خبر ہی ایسی تھی کہ جو بھی سنتا اپنے اپنے انداز میں غصے اور دکھ کا اظہار ضرور کرتا۔
”کیا یہ وہی عورت ہے جس کے ساتھ آپ کے میاں فون پر باتیں کرتے تھے؟”
جیمو ماموں نے سنجیدہ انداز میں پوچھا۔
”ہاں۔ وہی عورت ہے۔ اس کے ساتھ صرف فون پر باتیں ہی نہیں کرتے تھے بلکہ اسے اپنی تصویریں بھی بھیجتے رہتے تھے۔ اس کے ساتھ گھومتے پھرتے تھے۔ اسی کے ساتھ اپنا وقت گزارتے تھے۔ وہ عورت تو ان کے حواسوں پر سوار ہو گئی تھی۔ میں نے کتنی کوشش کی کہ وہ عورت ان سے دور ہو جائے مگر میری ہر کوشش ناکام ہی ثابت ہوئی۔”
روشنی نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔ آنکھوں کے کناروں پر نمی چمکنے لگی۔
جیمو ماموں بے قصور ہوتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس کر رہے تھے۔ ان ہی کے پاس تو وہ اپنا یہ مسئلہ لے کر آئی تھیں مگر وہ ان کی مدد نہ کر پائے۔
”وہ عورت ثاقب کو ملی کہاں؟ روشنی تمہیں یہ تو پتا ہو گا۔”
رانیہ کی امی نے دکھ اور افسوس سے پوچھا۔
”معلوم نہیں کہ ایسی عورتیں لوگوں کو کہاں اور کیسے مل جاتی ہیں جو بڑی آسانی سے لوگوں کے گھر برباد کر دیتی ہیں مگر سنا ہے کہ وہ کوئی امیر کبیر عورت ہے۔ پہلے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔ وہ رئیس آدمی تھا۔ اس کے لیے بہت کچھ چھوڑ کر گیا ہے۔ گھر بھی اسی عورت کے نام ہے۔ بینک بیلنس بھی ہو گا۔ ثاقب کو بھلا اور کیا چاہیے۔”
روشنی نے اداسی سے کہا۔
”پھر تو یہ بزنس ہوا، محبت تو نہ آئی۔”
جیمو ماموں بے ساختہ بولے۔
”آج کل محبت بھی بزنس بن گئی ہے۔ جیمو بھائی۔”
وہ آہ بھر کر بولیں۔
”کیا وہ عورت پاگل ہے؟ اسے تو ثاقب سے بہتر آدمی بھی مل سکتا تھا۔ ثاقب میں بھلا کون سی ایسی خاص بات ہے!”
امی خفا ہونے کے ساتھ حیران بھی ہوئیں۔
”وہ کوئی حاکمانہ مزاج کی عورت ہو گی۔ اس نے بھی دیکھا ہو گا کہ وہ ثاقب پر آسانی سے حکومت کر سکتی ہے۔ اسے اپنے اشاروں پر چلا سکتی ہے۔ بات یہ ہے کہ لوگ اپنی خواہشات اور ترجیحات کے غلام ہوتے ہیں اور اسی غلامی میں خوش رہتے ہیں۔”
جیمو ماموں سنجیدگی سے بولے۔
”ثاقب تو وہیں کے ہو کر رہ گئے ہیں اور میں امی کے گھر آگئی ہوں۔”
روشنی نے سر جھکائے ہوئے کہا۔
”اچھا کیا آپ نے۔ آپ اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ سے کیوں نہیں جوڑ لیتیں اس طرح آپ مصروف بھی رہیں گی۔ مثبت تبدیلیاں زندگی کے لیے بہت ضروری ہوتی ہیں۔”
ماموں نے نرمی سے کہا۔ وہ ذہن میں ان کے مسئلے کا ممکنہ حل بھی سوچ رہے تھے۔
”اب اس عمر میں کیا تعلیم حاصل کروں! دماغ بھی اب پہلے جیسا نہیں رہا۔”
انہوں نے اداس آواز میں کہا۔
”مجھے یاد ہے کہ آپ بڑی ہونہار طالبہ ہوتی تھیں۔”
ماموں کو بہت سی باتیں ایک جھماکے سے یاد آئیں۔
”کسی زمانے میں۔ اب تو میں اپنا ماضی بھی بھول بھال گئی ہوں۔ یہ بھی یاد نہیں رہا کہ میں کون تھی۔”
انہوں نے دکھ سے بوجھل آواز میں کہا۔
”یہ سب ڈپریشن کی علامات ہیں۔ آپ کو اس ڈپریشن سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔ آپ کو اپنی وِل پاور سے کام لینا ہو گا۔ اپنی قوتِ ارادی کو محسوس کریں آپ بڑے غم بھول جائیں گی۔”
جیمو ماموں نرمی سے انہیں سمجھا رہے تھے۔
”چھوٹی چھوٹی خوشیاں۔”
وہ چونک گئیں۔ کچھ لفظ کتنے انجانے اور اجنبی سے لگتے تھے۔ وہ خالی خالی نظروں سے ماموں کو دیکھنے لگیں۔
”بہت سی خوشیاں ہماری دسترس میں ہی ہوتی ہیں۔ ہمارے بہت قریب جنہیں ہم ہاتھ بڑھا کر چھو سکتے ہیں۔ محسوس کر سکتے ہیں۔ جیسے کھلتے ہوئے پھولوں کو دیکھنا، چاندنی راتوں کی خوبصورتی کو محسوس کرنا۔ برستی بارش کو کھڑکی کے پار سے دیکھنا، پرندوں اور پودوں کے ساتھ وقت گزارنا، تتلیوں اور جنگجوئوں کے قریب رہنا، کوئی نیا سوٹ سِی کر پہن لیں، کوئی مزیدار سی ڈش بنائیں، کوئی اچھی سی کتاب پڑھ لیں۔ لوگوں سے ملیں جلیں، ان سے باتیں کریں، بہت ساری خوشیاں ہمارے اِردگرد ہی بکھری ہوتی ہیں مگر ہم اپنے غم کو ہی لیے بیٹھے رہتے ہیں۔ اپنے ڈپریشن سے نکلنے کے لیے ہمیں پہلا قدم خود ہی اٹھانا پڑتا ہے۔”
ماموں انہیں دھیرے دھیرے سمجھا رہے تھے۔ درشتی کے آنسو خشک ہو گئے۔ اب وہ فردوسی خالہ کے گھر آگئی تھیں اور بہت سے مشاغل اپنا سکتی تھیں جن کے بارے میں وہ اپنے گھر میں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔
”ہاں روشنی! تم ثاقب اور اس کی بیوی کے بارے میں سوچ کر خود کو ہلکان نہ کرو۔ اب تو جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔ جب تک ثاقب تمہارے حقوق کے بارے میں فیصلہ نہیں کرتا تمہیں واپس جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ثاقب کو اب سنجیدگی سے تمہارے بارے میں بھی سوچنا ہو گا۔ آخر تم اس کی پہلی بیوی ہو۔ وہ کسی بھی طرح تمہاری اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔”
امی نے گہرا سانس لے کر کہا۔
روشنی خاموش ہو گئیں۔
ماموں گہری سوچ میں ڈوب گئے۔
انہیں یاد آیا کالج کے زمانے میں روشنی جہاں سے گزرتی، لوگ شوخی سے کہتے کہ روشنی جہاں سے گزرتی ہو روشنی ہی بکھیر دیتی ہے۔ انہیں بہت سی بھولی بسری باتیں یاد آئیں کون کہہ سکتا تھا کہ برقع اوڑھے اداس چہرے اور نم آنکھوں والی یہ خاتون وہی لڑکی تھی جسے کبھی ڈاک کے ٹکٹ جمع کرنے کا شوق ہوا کرتا تھا اور وہ سارے محلے، ہمسایوں سے خط کے لفافے مانگا کرتی جن پر سے ٹکٹ اتار کر اپنے پاس جمع کیا کرتی تھی۔ سکول کے زمانے میں وہ ایک مضمون لکھا کرتی تھی۔ ”My Hobby” جس میں وہ لکھتی کہ میری ہابی ہے ڈاک کے ٹکٹ جمع کرنا اور یہ مضمون لکھتے لکھتے وہ سچ مچ ڈاک کے ٹکٹ جمع کرنے لگ گئی۔ برسوں پہلے وہ ایک سادہ اور معصوم لڑکی ہوا کرتی تھی، اپنے چھوٹے سے گھر میں خوش باش اور اپنے مشاغل میں مصروف رہتی۔
وقت لوگوں کو کیسے بدل دیتا ہے۔ انہوں نے آہ بھر کر سوچا۔ ہر طرف اداس سی خاموشی بکھر گئی۔
٭…٭…٭
سارہ اپنی ممی اور زوار کے ساتھ پاکستان چلی گئی۔ عشنا اس کے جانے کے بعد خوش بھی تھی اور اداس بھی۔ البتہ عطیہ خوش ہونے کے ساتھ ساتھ حیران بھی تھیں کہ اتنے برسوں بعد سارہ اچانک کس طرح پاکستان چلی گئی۔
”سارہ یوں اچانک پاکستان کیسے چلی گئی؟ ناصرہ کے تو اپنے خاندان والوں سے بڑے اختلافات تھے۔”
عطیہ نے حیران ہوتے ہوئے تجسس بھرے انداز میں عشنا سے پوچھا۔ وہ ٹیبل پر رکھے شیشے کے جار صاف کر رہی تھی جب عشنا نے انہیں سارہ کے پاکستان چلے جانے کی اطلاع دی۔ یہ خبر واقعی حیرت انگیز تھی۔ وہ اپنا کام روک کر عشنا کو دیکھنے لگیں۔ انہیں لوگوں کے معاملات میں ہمیشہ سے ہی ایسی دلچسپی رہی تھی۔
”اختلافات ختم ہو گئے سو وہ لوگ واپس چلے گئے۔”
اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
”ہاں بھئی۔ ناصرہ تسکین کچھ بھی کر سکتی ہے۔”
انہوں نے بے ساختہ کہا۔ عشنا نے برا مان کر انہیں دیکھا۔
”آپ ناصرہ آنٹی سے اتنی نفرت کیوں کرتی ہیں۔ کیا ہوا اگر انہوں نے اپنی مرضی سے شادی کر لی تھی! کیا یہاں لوگ اپنی مرضی سے شادی نہیں کرتے! شادی انسان کا پرسنل میٹر ہوتی ہے۔ پتا نہیں وہ کون سے حالات ہوں گے جو انہوں نے یہ قدم اٹھایا ہو گا۔
پتا نہیں وہ کون سی مجبوریاں ہوں گی جن کی وجہ سے انہیں وہ فیصلہ کرنا پڑا ہو گا۔ یہاں بھی تو لوگ اپنے پیرنٹس کو بتائے بغیر شادی کر لیتے ہیں اور خوش بھی رہتے ہیں انہیں تو کوئی کچھ نہیں کہتا۔”
عشنا نے برا مان کر کہا۔ اتنے سال کینیڈا میں رہنے کے باوجود بھی عطیہ کی سوچ نہیں بدلی تھی۔
”کیا پتا کہ وہ آپ سے کہیں زیادہ اچھی عورت ہوں۔ آپ کی طرح وہ لوگوں کی غیبت نہیں کرتیں، لوگوں پرالزام نہیں لگاتیں۔ خود کو نیک اور دوسروں کو گناہ گار نہیں سمجھتیں۔ میں نے بچپن سے آپ کو دوسروں کے خلاف ہی بولتے دیکھا ہے۔ آپ نے کبھی پاپا کو دادی اور روشنی پھوپھو کے قریب نہیں ہونے دیا۔ آپ نے ہمیشہ ان کے خلاف باتیں کیں۔ پاپا کو ان سے دور کر دیا۔ آپ کی وجہ سے پاپا کبھی روشنی پھوپھو کو پیسے بھی نہیں بھیج سکے اور انہوں نے غربت میں ہی زندگی گزار دی مگر کبھی پاپا سے کچھ نہیں مانگا۔ ناصرہ آنٹی نے یہ سب تو نہیں کیا ہو گا نا! انہوں نے اپنی زندگی میں آپ سے کہیں زیادہ محنت کی ہے۔ دوسروں کو برا کہنے والے خود کب اچھے ہوتے ہیں۔”
میز کے کنارے رکھا شیشے کا جار گرتے گرتے بچا۔ آندھی آئی تھی، یا طوفان، یا شاید زلزلہ، عطیہ سناٹے میں رہ گئیں۔
”عشنا!”
انہیں اس کے منہ سے یہ سب سن کر صدمہ ہوا تھا۔
”تمہیں اپنی ماں سے ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔”
انہوں نے اسے ڈانٹا۔ اپنے بارے میں اتنے سچ سن کر وہ خوف زدہ ہو گئی تھیں۔ ایک سہیلی اسے اتنی عزیز ہو گئی تھی کہ اس کی خاطر وہ اپنی ماں کو برا بھلا کہہ رہی تھی۔
”آپ کو بھی تو دوسروں کے کردار پر انگلی نہیں اٹھانی چاہیے۔ کسی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ سارہ کا بھائی سارہ اور ناصرہ آنٹی کو لینے پاکستان سے یہاں آیا تھا اور وہ ان دونوں کو اپنے ساتھ لے گیا ہے۔ اب آپ پوچھیں گی کہ سارہ کا بھائی کون ہے تو میں آپ کو بتا دیتی ہوں کہ سارہ کا بھائی زوار آفندی ہے۔ وہی زوار جسے ہم جیمو ماموں کے گھر پر ملے تھے اور جسے آپ لوگ اتنا پسند کرتے ہیں۔”
عشنا نے انکشاف کیا۔
عطیہ کی آنکھیں بے یقینی سے پھیل گئیں۔ وہ اس قدر حیران ہوئیں کہ غصہ کرنا بھی بھول گئیں۔
”کیا؟ زوار آفندی سارہ کا بھائی ہے؟ وہ ناصرہ کا بیٹا ہے؟”
انہیں اس بات پر یقین ہی نہیں آیا۔ عشنا اور اس کے ایڈونچرز… جنہیں وہ صرف عشنا کی بے وقوفیاں ہی سمجھتی تھیں۔ اس کی ان باتوں کو کبھی انہوں نے سنجیدگی سے لیا ہی نہییں تھا۔
اب وہ کیسے کیسے ناقابلِ فہم اور عجیب و غریب انکشافات کر رہی تھی۔
”جی ہاں، زوار آفندی، سارہ آفندی کا بھائی اور ناصرہ آنٹی کا بیٹا ہے۔ یہی سچ ہے۔ وہ یہاں آیا اور ان دونوں کو اپنے ساتھ لے گیا۔
عشنا نے ٹھہر ٹھہر کر کہا۔
”مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ زوار تو پاکستان میںرہتاہے اور سارہ ناصرہ کے ساتھ کینیڈا میں رہتی تھی۔ یہ کیا چکر ہے؟”
وہ الجھ کر بولیں۔ بات ہی ایسی تھی جسے آسانی سے تسلیم نہیں کیا جا سکتا تھا۔
”ہمارے بھی تو کافی رشتہ دار پاکستان میں رہتے ہیں اور ہم سالوں میں یہاں کینیڈا میں ہیں!”اس نے گول مول جواب دیا۔
عطیہ کچھ لمحوں کے لیے بول ہی نہ سکیں۔ یہ انکشاف سب سے زیادہ سنسنی خیز تھا۔
٭…٭…٭
رانیہ لائونج کے کونے میں پڑی ڈائننگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی تھی اور چائے پیتے ہوئے اخبار دیکھ رہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں نیلے رنگ کا بال پوائنٹ بھی تھا جس سے وہ اخبار کے صفحے پر نشان لگا رہی تھی۔
امی ٹی وی پر کوئی ڈرامہ دیکھ رہی تھیں۔ ثمن اور ٹیپو لائونج کے دوسرے کونے میں بیٹھے لڈو کھیل رہے تھے۔ عنایا کچن میں مصروف تھی۔
جیمو ماموں رانیہ کے سامنے والی کرسی پر آکر بیٹھ گئے۔
”اخبار پڑھ رہی ہو؟”
انہوں نے بظاہر سرسری سے انداز میں پوچھا۔
”جاب دیکھ رہی ہوں۔”
وہ مصروف سے انداز میں بولی۔
”کیا کرو گی جاب کر کے؟ صبح سے شام تک خواری۔”
انہوں نے بے ساختہ کہا۔ وہ چونک گئی۔ وہ تو لڑکیوں کی تعلیم اور ان کی جاب کی ہمیشہ حمایت کرتے تھے۔ اب ان کے خیالات یکایک کیسے بدل گئے۔ اس کا چونکنا لازمی تھا۔
”گھر میں فارغ بیٹھنے سے تو بہتر ہے کہ میں جاب ہی کر لوں۔”
اس نے چائے پیتے ہوئے جواب دیا۔
”میں نے اور تمہاری امی نے تمہارے بارے میں کچھ اور سوچا ہے۔”
انہوں نے چونکاتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”اب کیا سوچا ہے آپ لوگوں نے؟”
وہ اخبار پر پین سے نشان لگاتے ہوئے بے زاری سے بولی۔ اس گھر میں تو روز ایک نئی خبر ہوتی تھی، روز نئے فیصلے ہوتے جب سے اس کی منگنی ختم ہوئی تھی گھر میں ہونے والی سرگرمیوں میں اس کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔
”اب ہم تمہاری شادی کر دینا چاہتے ہیں۔”
انہوں نے سنجیدہ انداز میں کہا اس نے ابرو اچکا کر ایک نظر انہیں دیکھا۔
”میری شادی؟”
وہ تلخی سے بولی پھر دوبارہ اخبار کے ساتھ مصروف ہو گئی۔
”ہاں بیٹا۔”
وہ نرمی سے مسکرائے۔
”میں شادی نہیں کرنا چاہتی ہوں۔ جاب کرنا چاہتی ہوں۔”
اس نے اسی مصروف انداز میں کہا۔
امی ڈرامہ دیکھتے ہوئے یہ گفتگو سن رہی تھیں۔ انہوں نے ماتھے پر بل ڈال کر ٹی وی کا والیم آہستہ کیا۔ گفتگو اس نہج پر تھی کہ انہیں دخل دینا پڑا۔
”کیا کرو گی جاب کر کے؟ عمر زیادہ ہو گئی تو کوئی پوچھے گا بھی نہیں۔ اتنا عرصہ تھیٹر میں کام کر کے تمہارا شوق پورا نہیں ہوا جو اب جاب کر کے ہمیں بھی مصیبت میں ڈالنا چاہتی ہو۔ تمہارے بعد عنایا کا نمبر ہے، پھر ثمن کی باری ہے مگر تمہیں تو اپنے سوا کسی کی فکر اور پروا ہی نہیں ہے۔ لوگ تو ہمیں ہی طعنے دیں گے کہ لڑکی کی منگنی ختم ہوئی تو اسے نوکری پر لگا دیا۔ پہلے تمہاری حویلی کے حوالے سے کیا ہم نے کم طعنے سنے ہیں۔”
امی نے خفا اور سخت لہجے میں کہا۔
وہ خاموشی سے چائے پیتی رہی۔ کچھ کہہ کر اپنی شامت نہیں بلوانا چاہتی تھی۔
”ایک رشتہ ہے ہماری نظر میں۔ مجھے اور تمہاری امی کو وہ لوگ پسند ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہاں تمہاری شادی ہو جائے۔ بیٹیاں جتنی بھی پیاری ہوں اپنے گھر میں شاد و آباد ہی اچھی لگتی ہیں۔”
ماموں نے شفقت اور نرمی سے کہا۔
”تو آپ لوگ فیصلہ کر چکے ہیں۔”

وہ ملول سے انداز میں بولی۔ ان کے انداز سے لگ رہا تھا کہ فیصلہ تو وہ کر چکے ہیں اسے تو صرف اطلاع دی جا رہی ہے۔
”ہاں ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے۔ آخر کس آس پر تمہیں یہاں بٹھائے رکھیں۔ فارس کا نکاح ہوچکا ہے۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ آسٹریلیا جا رہا ہے۔ خوش بھی ہو گا۔ اس کی ماں نے سارے خاندان میں مٹھائیاں بانٹی ہیں۔ تم کیوں اپنا وقت برباد کر رہی ہو؟”
امی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ اس کے دل میں کچھ ٹوٹا تھا۔ خبریں تو اسے بھی مل چکی تھیں۔ ایک ہی خاندان تھا۔ فارس کے نکاح کی خبر ہر طرف پھیل گئی تھی۔ شاید فارس نے اس سے انتقام لیا تھا۔
”سنا ہے کہ لڑکی والے بڑے دولت مند لوگ ہیں۔ کئی سالوں سے آسٹریلیا میں رہ رہے ہیں۔ وہاں خوب پیسہ بھی بنایا ہو گا۔ اب فارس ان کے ساتھ ہی آسٹریلیا چلا جائے گا۔ وہیں سیٹ بھی ہو جائے گا۔ چلو اچھا ہے کہ اس نالائق کی زندگی بھی سنور جائے گی۔”
ماموں نے کہا۔
وہ چپ چاپ سنتی رہی۔
”ارے بھئی، یہاں اس کی منگنی ٹوٹی وہاں اس نے نکاح بھی کر لیا اوراب باہر بھی جا رہا ہے۔ وہاں جا کر اپنی ماں کو بھی بلا لے گا اور دونوں ماں بیٹا خوب عیش کریں گے۔ گھاٹے کا سودا کرنے والوں میں سے نہیں ہیں۔” امی کا خیال تھا فارس اپنے مستقبل کے حوالے سے عقلمندی کا فیصلہ کر چکا ہے اور اب رانیہ کو بھی عقل سے کام لینا چاہیے۔
”اب کون کسی کے لیے جوگ لیتا ہے۔ رانیہ اب تمہیں بھی اپنے بارے میں سوچنا چاہیے تم نے ہمیشہ اپنے شوق پورے کیے۔ ہم نے کچھ نہیں کہا مگر اب حالات مختلف ہیں اب تمہیں اپنی شادی کے معاملے میں سنجیدہ ہونا پڑے گا۔”
ماموں نے کہا پھر انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ثمن اور ٹیپو کو وہاں سے اٹھ جانے کا اشارہ کیا وہ دونوں سب اشارے بخوبی سمجھتے تھے۔ فوراً وہاں سے اٹھ کر باہر چلے گئے۔
”کب تک بے چارہ جیمو تمہاری اور عنایا کی ذمہ داری اٹھاتا رہے گا۔ اس کے اپنے بھی بچے ہیں۔ ہم نے تمہارے لے ایک لڑکا پسند کیا، اس کے ساتھ تمہاری شادی کر دیں گے۔ خیر سے اپنے گھر جائو۔ بیٹیاں نادان ہوتی ہیں مگر گھر کے بزرگتو عقل رکھتے ہیں نا!”
امی نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ گویا رانیہ کا ہر قسم کا احتجاج بے کار ہی جاتا۔ وہ کچھ دیر ان دونوں کو دیکھتی رہی۔ پھر اس نے۔
”کون ہے وہ لڑکا؟”
اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔
”زوار آفندی۔”
امی نے اطمینان سے جواب دیا۔ وہ دم بخود رہ گئی۔ بال پوائنٹ ہاتھ سے چھوٹ کر گر گیا۔ اس کا مطلب تھا کہ زوار بڑی خاموشی سے جیت گیا تھا۔ اسی لیے تو وہ اس کے انکار کے باوجود بھی بے حد پراعتماد تھا کیوں کہ اسے یقین تھا کہ رانیہ کی فیملی کا ووٹ اسی کے حق میں ہو گا۔ وہ آرام سے اس کے گھر آتا جاتا، اس کے گھر والوں سے ملتا جلتا، ان کے ساتھ ہنستا بولتا۔
”مجھے زوار بالکل پسند نہیں ہے۔”
اس نے احتجاجاً کہا۔ امی اس کے اس ردعمل پر ناراض ہوئیں۔
”رانیہ! پریوں کی کہانیوں سے باہر آجائو۔ اب تمہیںعملی زندگی میں داخل ہونا پڑے گا۔ اپنی شادی کے بارے میں سوچو۔ شکر کرو کہ زوار کا رشتہ بھی آگیا ہے ورنہ میں اور تمہارے ماموں تمہارے لیے کہاں کہاں رشتے ڈھونڈنے جاتے، کسی شادی گھر کے چکر لگاتے یا کسی رشتے کروانے والی عورت کی منتیں کرتے۔”
امی نے اس کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔
”مگر زوار کی فیملی۔”
وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔
”زوار کی فیملی کینیڈا سے آچکی ہے۔ جلد ہی وہ لوگ یہاں آئیں گے۔”
جیمو ماموں نے انکشاف کیا۔ وہ حیران رہ گئی۔ کیا سارہ اور اس کی ممی پاکستان آچکی تھیں، کیا عشنا کا ایڈونچر کامیاب ہو گیا تھا! وہ سوچ میں پڑ گئی۔
”آپ لوگ زوار کی فیملی کے متعلق کچھ نہیں جانتے۔”
اپنی طرف سے وہ مزید انکشافات کرنا چاہتی تھی مگر ماموں نے اسے ٹوک دیا۔
”ہم سب کچھ جانتے ہیں مگر ہمیں زوار کی فیملی یا اس کے ماضی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہر انسان کا ایک ماضی ہوتا ہے۔ کسی کی ذاتی زندگی کے مسائل کو اچھالنا بے حد غیراخلاقی بات ہے۔”
ماموں نے سنجیدگی سے کہا، گویا وہ زوار کی ہسٹری کے بارے میں پوری طرح باخبر تھے۔ امی کی خاموشی سے ظاہر تھا کہ وہ بھی سب کچھ جانتی تھیں۔ رانیہ نے سوچا کہ عشنا نے تو اسے کسی کو کچھ نہ بتانے کا وعدہ لیا تھا اور خود سب کو سب کچھ بتا کر چلی گئی۔
”زوار ویسا نہیں ہے جیسا نظر آتا ہے۔”
وہ اپنا جملہ مکمل نہیں کر پائی۔ امی نے اسے ٹوک دیا۔
”زوار ایک بہت اچھا لڑکا ہے۔ اپنی ماں اور بہن کو لینے خود کینیڈا گیا۔ اس کی ماں دوسری شادی کر کے اسے اس کی دادی کے پاس چھوڑ کر چلی گئی تھی اور جائیداد میں سے اپنا حصہ بھی لے لیا تھا مگر پھر بھی زوار نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا۔ ارے تم نہیں جانتی کہ غیرت کے نام پر مرد کیسی کیسی بے وقوفیاں کر بیٹھتے ہیں۔ غیرت کے نام پر لوگ حقوق العباد سے جان چھڑا لیتے ہیں پھر بھی اس نے اپنی ماں سے کوئی گِلہ شکوہ نہ کیا۔ اتنا بڑا کاروبار سنبھال رہا ہے تو ظاہر ہے ذہین بھی ہو گا۔ اپنا گھر ہے، پیسے کی ریل پیل ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، شریف ہے… اور کیا چاہیے تمہیں!”
امی نے زوار کے حق میں اچھی خاصی تقریر کر دی مگر وہ اس تقریر سے بالکل متاثر نہ ہوئی۔
”وہ ایک بدتمیز آدمی ہے۔”

Loading

Read Previous

”قسط نمبر5)”چنبیلی کے پھول )

Read Next

چنبیلی کے پھول قسط نمبر 7

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!